find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Dil Ki Aawaj. Show all posts
Showing posts with label Dil Ki Aawaj. Show all posts

"Minimalism" Wali soch se Kya aap bhi Pareshan hai, logo ki Khushiya sirf Samanom me chhipi hai.

Kya ham sab apne liye jite hai ya Fashion ke liye?
Modern Daur me Ham khud ko dusro ke mukable kamtar kyu samajhte hai?

"Minimalism"

اگر آپکو کبھی کسی نے براہ راست یہ کہنے کی جرات کی ہے کہ "یہ سوٹ تم نے فلاں جگہ بھی پہنا تھا تم پر کافی جچتا ہے". یا
پھر کسی دوست، رشتہ دار نے آپکو اس خاص نظر سے دیکھا ہو جو چیخ چیخ کر کہے "تمہارے پاس اور کپڑے نہیں ہیں جب دیکھو منہ اٹھا کر یہی پہن آتے ہو"
تو یقیناً آپ صحیح راہ پر گامزن ہیں، خود کو خوش قسمت گردانیے کیونکہ آپ consumer-zombie نہیں ہیں.

بحیثیت عورت مجھ پر ہمیشہ یہ دباؤ رہا کہ ایک تو مجھے خوبصورت دکھنا ہے اور دوسرا کوئی ڈریس کسی رشتہ دار کے گھر یا کسی تقریب میں جاتے ہوئے repeat نہیں کرنا (جہالت سے بھرے رسم و رواج صدیوں سے repeat ہورہے ہیں لیکن کپڑے ہر گز نہیں ہو سکتے).

چونکہ minimalism اور sustainability گوروں کے چونچلے ہیں، ہمارے یہاں اس پر کوئی بات نہیں کرتا. کیا مسلم ممالک میں ان نظریات کو زیرِ بحث لانے کی ضرورت ہے؟؟؟

میں پچھلے دو سال سے Minimalism نامی نظریے کے اصولوں پر چل رہی ہوں (خواتین کے لیے یہ قطعاً آسان نہیں) جس کا مقصد آپکو ضرورت اور خواہش میں فرق بتانا ہے. میری اس پوسٹ میں غریب طبقہ زیرِ بحث نہیں ہے جو اپنے روز مرہ کے معاملات کو پورا نہیں کر پاتا وہ consume کہاں سے کرے گا. نہ ہی ایلیٹ کلاس جن کی تعداد بہت کم ہے. میرا اشارہ اس مڈل کلاس کی جانب ہے جس نے اس خرید و فروخت کی ریس میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کی دوڑ لگا رکھی ہے.

کسی دور میں لفظ consume کو تباہی یا کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ منسوب کرنے کا رواج عام تھا لیکن کپڑے، جوتے، سجاوٹ و آرائش کی اشیاء اور برقی آلات وغیرہ کو بھی consume کیا جائے گا، وہ بھی اس قدر extreme level پر، اسکا اندازہ تو اس تباہ کن نظام کے بنانے والوں کو بھی نہیں ہوا ہوگا.

اربوں روپے advertisements پر خرچ کرنے والی کمپنیاں خوب محنت کرکے ہمیں صبح شام اس بات پر رضامند کرتی ہیں اگر فلاں برانڈ کی فلاں چیز خرید لیں تو اس سے آپکی زندگی بدل جائے گی وگرنہ آپ یونہی ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے، آپکی اپنی حقیقی شخصیت کی دراصل کوئی اہمیت نہیں.

انسانی دماغ (جو آج کل اپنے ہی نفع اور نقصان میں تمیز کرنے سے قاصر ہے) dopamine نامی ایک neuro hormone خارج کرتا ہے، یوں تو اس hormone کے سر کئی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں لیکن اسکا ایک کام ہمیں "خوشی" کا احساس دلانا بھی ہے، یہ ساری industries اسی کا فائدہ اٹھاتی ہیں. شاپنگ کرکے ہمیں خوشی کا جو احساس ہوتا ہے وہ اسی dopamine کی بدولت ہی ہے(retail therapy اسکی مثال ہے).

سائنٹفک ریسرچ کے مطابق چیزوں کی زیادہ خرید و فروخت (یعنی زیادہ dopamine کو خارج کرنا) لت (addiction) میں مبتلا کرتا ہے، آپ اس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد اشیاء کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں.

ایک Minimalist ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی کر کے سنیاس لے لیا جائے. دراصل اس طرزِ زندگی کا مقصد آپکو ایک معیاری زندگی سے روشناس کرانا ہے. جب خواتین گھنٹوں صرف یہ سوچنے میں گزار دیتی ہیں کہ انہیں کیا پہننا اور کیسا نظر آنا ہے، دراصل یہ بھی غلامی کی ہی ایک شکل ہے. اچھے سے اچھا دکھنے کی یہ دوڑ ہمیں احساس کمتری اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے، ساتھ ہی ساتھ ہمیں حقیقت سے دور کردیتی ہے کیونکہ حقیقت میں آپ ہر وقت خوبصورت نہیں دِکھ سکتے.

کم چیزیں خریدنا اور انہیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا آزادی کا احساس دلاتا ہے، احساس کمتری اور ہر وقت پرفیکٹ دکھنے اور کچھ نیا پہننے کی ذمہ داری سے آزادی....... وقت اور پیسوں کی بچت الگ.

جس دنیا میں لوگوں کا رویہ اور سلوک آپکے status اور پیسوں پر مبنی ہو وہاں ایک t-shirt یا dress کو کئی مواقع پر زیب تن کرنے پر لوگ آپکو جج کر سکتے ہیں.

مہنگے تحائف کا تبادلہ نہ کرنے پر رشتہ دار اور دوست degrade بھی کر سکتے ہیں. خوبصورت گھر یا گھر میں خوبصورت آرائشی سامان نہ ہونے پر اکثر آپکو حقارت کی نظر سے بھی دیکھا جائے گا. مہنگا موبائل ہاتھ میں نہ ہونے پر دوستوں کا آپکو غریب اور low standard خیال کرنا بھی ممکن ہے، اب ایسے میں ایک minimalist بن کر رہنا ہرگز آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں.

اپنی خوشی کو محض اشیاء سے جوڑ کر رکھنا اپنی ہی ذات کی توہین کرنے کے مترادف ہے. موجودہ وقت میں ہم نے اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو محض اشیاء سے باندھ رکھا ہے. آج کل اچھے والدین وہی ہیں جو بچوں کو اچھے برینڈز لے کر دیتے ہیں، وقت دیں نہ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا. یہاں میں والدین کو ایک چھوٹی سی suggestion دینا چاہوں گی.

*آپ جب بھی کام سے گھر واپس آئیں تو بچوں کے لیے تحائف یا کوئی بھی چیز لانے سے گرہیز کریں(اگر لائیں بھی تو گھر میں انٹر ہوتے وقت کبھی نہ دیں) ، گھر آکر انہیں ایک hug دیں اور اس بات کا احساس دلائیں آپکا وقت اور آپکی محبت سے قیمتی کوئی چیز نہیں اس دنیا میں. بچوں کا dopamine اشیاء کو گفٹ کرنے کی بجائے انکو وقت دے کر release کرائیں."

بے جا کی خرید و فروخت نہ صرف ہمارے ذہنوں کے لیے مضر ہے بلکہ ہمارے گھر یعنی Planet Earth کے لیے بھی شدید نقصان کا باعث ہے.

ندا اسحاق

Share:

Waise Log jinki Sallary Bahut kam hai unhein kya karna chahiye?

Waise log jo Apni Sallary Kam hone ki wajah se Gusse me rahte hai.

تحریر کا عنوان

*اپنی کم تنخواہ پر غم نا کریں ہوسکتا ہے آپکو رزق کے بدلے کچھ اور دے  دیا گیا ہو.

ایک بڑے محدث فقیہ اور امام وقت  فرماتے ہیں کہ

○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*قد يكون الرزق خلقا أو جمالا*

رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت اچھا اخلاق یا پھر حسن و جمال دے دیا گیا ہو

○ *قد يكون الرزق عقلا راجحا*
*زاده الحلم جمالا وكمالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت میں عقل و دانش دے دی گئی ہو اور وہ فہم اس کو نرم مزاجی
اور تحمل و حلیمی عطا  دے

○ *قد يكون الرزق زوجا صالحا*
*أو قرابات كراما وعيالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے
کہ کسی کو رزق کی صورت میں بہترین شخصیت کا حامل شوہر یا بہترین خصائل و اخلاق والی بیوی مل جاے 
مہربان کریم دوست  اچھے رشتہ دار یا نیک و صحت مند اولاد مل جائے

○ *قد يكون الرزق علما نافعا*
*قد يكون الرزق أعمارا طوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت علم نافع دے دیا گیا ہو اور  یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ اُسے رزق کی صورت لمبی عمر دے دی گئی ہو

○ *قد يكون الرزق قلبا صافيا*
*يمنح الناس ودادا ونَوالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا پاکیزہ دل دے دیا گیا ہو جس سے وہ لوگوں میں محبت اور خوشیاں بانٹتا پھر رہا ہو

○ *قد يكون الرزق بالا هادئا إنما المرزوق* *من يهدأ بالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ذہنی سکون دے دیا گیا وہ شخص بھی تو خوش نصیب ہی ہے جس کو ذہنی سکون عطا کیا گیا ہو

○ *قد يكون الرزق طبعا خيّرا*
*يبذل الخير يمينا وشمالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت نیک و سلیم طبع عطاکی گئی ہو۔ وہ شخص اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے اپنے ارد گرد خیر بانٹتا پھرے

○ *قد يكون الرزق ثوبا من تقى*
*فهو يكسو المرء عزا وجلالا*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت تقوٰی کا لباس پہنا دیا گیا ہو اور اس شخص کو اس لباس نے عزت اور مرتبہ والی حیثیت بخش دی ہو

○ *قد يكون الرزق عِرضَاً سالماً*
*ومبيتاً آمن السِرْبِ حلالاً*

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی کو رزق کی صورت ایسا عزت اور شرف والا مقام مل جائے جو اس کے لئے حلال کمائ اور امن والی جائے پناہ بن جائے

○ *ليس شرطا أن يكون الرزق مالا*
*كن قنوعاً و احمد الله تعالى*

○ پس رزق کے لئے مال کا ہونا شرط نہیں
جو کچھ عطا ہوا
اس پر مطمئن رہو
اور اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے رہو

الہی بہترین ایمان اور نفس مطمئنہ کی سعادت عطا فرما
آمین اللھم آمین

Share:

Mashhur Fashion Designer "Crista Rograiz" ka apne maut se pahle likhi hui tahreer.

Duniya ki Mashhur fashion Designer Aur Author "Crista Rograiz" ne Cancer ke marj me mubtila hone ke bad apne inteqal se pahle Yah tahreer likhi thi.
दुनिया की मशहूर फैशन  डिजाइनर क्रिस्टा रोग्राइज को जब कैंसर की बीमारी उसके बाद अपने मौत से पहले यह आर्टिकल लिखी थी।
यह घर, यह कार, यह जेट, यह फर्नीचर, इतने सारे बैंक अकाउंट्स, यह इज्जत और शोहरत मेरे किसी काम का नहीं। इन में से कोई भी चीज मुझे राहत नहीं दे सकती है. .........
मगर अफसोस आज इंसान मैट्रियलिज्म ( भौतिकवादी ) दौर में जी रहा है, जो यह सोचता है के घर, गाड़ी और फ्लैट ही सब कुछ है मगर याद रखे पैसा बहुत कुछ है लेकिन सब कुछ नही है।
अमीरी की कब्र पर पनपी हुई गरीबी बड़ी जहरीली होती है।

دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف "کرسڈا روڈریگز" نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے۔

1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔

2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔  لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔

3. بینک میں کافی رقم ہے۔  لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔

4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔

5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں ۔  لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔

6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔

7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔

8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں۔  لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

9.اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔
یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔  اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔

بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے ۔

"اور ۔۔۔۔۔۔موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے۔

Share:

Ek Gareeb PHD Parofessor ki kahani jinhone Halat ke samne kabhi Hathiyar nahi dala.

Duniya me Koi kam chhota nahi hota bas kam karne ka tarika chhota hota hai.
Kabul ( Capital of Afghanistan ) ke ek Professor ki kahani unki Jubani.
Kabhi bhi kisi insan ko Zindagi ke utar chadhaw se nahi ghabrana chahiye.
Ek Gareeb PHD kiye hue aadami ki kahani jinhone Halat ke Samane hathiyar nahi dale.

کابل کے ایک پروفیسر کی کہانی ان کی زبانی

*پشتو سے ترجمہ*
،،،،،،،،#زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گھبرانا نہیں ہے#،،،،،...

پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا ، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی ،
واپس کابل آیا ، سوچ رہا تھا اتنا سارا پڑھ لیا ہے اب تو صدر کے بعد سب سے بڑی کرسی مجھے ملے گی !
کافی عرصہ نوکری کیلئے دفتروں کی خاک چھانی ، نوکری نہیں ملی ۔کچھ تو کرنا تھا اس لئے ایک کار سروس سٹیشن کھولا ، رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا مگر میں اپنے اپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہوجائے گا ۔سروس سٹیشن بہت خستہ حال تھا ۔شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا ، کابل کی یخ بستہ اور تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتیں اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے ۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی راحت محسوس ہوتی تھی ۔
آئے روز خوبصورت کاریں لاتے اور مجھ سے دھلاتے تھے اگرچہ میرے ساتھ اور بھی لوگ کام کرتے تھے مگر ان کی کاریں ہمیشہ میں خود صاف کرتا تھا ۔
سخت سردی کا موسم تھا ۔ کابل کی یخ بستہ ہوائیں جسم کے آر پار گزرتی تھیں۔ میں پلاسٹک والی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا ۔چچا زاد آئے گاڑی کھڑی کی اور صفائی کا کہا

گاڑی اندر سے پوری طرح گوبر ، گھاس سے بھری پڑی تھی ۔
خدا جانے مگر میرا گمان یہ تھا کہ یہ انھوں بےخود ہی جان بوجھ کے گندی کی ہے تاکہ میں صاف کروں اور وہ دیکھ کر سکون پائیں!
میرے ساتھ کام کرنے والے گاڑی کی طرف لپکے ، میں نے انھیں منع کیا،مطلب یہ تھا کہ اب چچا زاد بھائی ہے وہ تو صرف اس لئے آئے ہیں کہ مجھے صفائی کرتے ہوئے دیکھیں ۔ میں نے بھائی کو بٹھایا اور ان کیلئے چاہے کا آرڈر دیا ۔
اور خود گاڑی کو واش کرنے لگا ۔
کام بہت سخت تھا ، میری آنکھیں بھر آئیں ۔مگر کام کرتا رہا اور ان کی گندی گاڑی صاف کی ۔

چچا زاد بھائی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے باہر آئے اور کہا اچھی طرح صاف کرنا ! اگر سچ پوچھئے تو بہت ہی کھٹن حالت تھی مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کی امیدوں پر پانی پھیروں

کچھ دنوں بعد ۔۔۔۔۔میں نے

کار اچھی طرح دھوئی ، کار کا مالک کافی مضطرب تھا ، میں نے سوچا شائد گاڑی اچھی طرح صاف نہیں ہوئی ہے ، میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے اپ اتنے پریشان کیوں ؟ انھوں نے کہا میں طالب علم ہوں اور میرا امتحان ہے
عجیب بات یہ تھی کہ وہ معاشیات کا طالب علم تھا اور دوسری طرف میں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
میں نے پوچھا کس مضمون کا پرچہ ہے ؟
انھوں نے کہا “ اکاونٹنگ”
میں نے کہا تم سامنے اس روم میں جاؤ میں آتا ہوں
میں نے انھیں چھ ماہ کا سبق پندرہ منٹ میں سمجھا دیا !
کہا وہ گاڑی اپ نے دھوئی ؟
میں نے کہا ہاں جی ! زندگی ہے کام تو کرنا ہے نا !
میں نے انھیں اپنی پڑھائی کے بارے میں بتایا
وہ حیران تھا !
اب وہ ضد کرنے لگا کہ اپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا ، ہماری یونیورسٹی کے وی سی میرے دوست ہیں
میں ان سے بات کرتا ہوں وہ اپ کو ضرور نوکری دیں گے۔
میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو انھوں نے میرے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر استفسار کیا کوئی اور کپڑے نہیں ہے اپ کے پاس ؟
میں نے کہا نہیں ، مجھے پتہ ہے نوکری کسی نے دینی نہیں یہ تو بس اپ ضد کررہے ہیں اس لئے تمہارے ساتھ جانے لگا ہوں
گیلے کپڑے زیب تن کئے ہوئے میں وی سی آفس کے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا ۔آفس میں قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا مگر میرا دل نہیں کررہا تھا کہ اس پر بیٹھوں
وی سی مجھے مستری سمجھا ، میں نے ایک کپڑا لیا صوفے پر رکھا اور بیٹھ گیا ۔
طالب علم نے میری کہانی انھیں سنائی ۔ انھوں نے تمسخرانہ نظروں سے مجھے گھورا ۔
جان چھڑانے کی خاطر انھوں نے کہا تم ڈیمو کیلئے تیاری کرو ہم تمہیں کال کریں گے ۔
میں نے کہا میں ابھی بھی ڈیمو کیلئے تیار ہوں !
انھیں میرا یہ انداز اچھا نہیں لگا مگر پھر بھی انھوں نے فون اُٹھایا ، سب ٹیچرز کو اس کلاس روم میں بلاؤ ۔ کہو ڈیمو ہے !
انھوں نے مجھے ایک مارکر پکڑایا میں نے دو مارکر اور مانگے ۔
کلاس پوری طرح بھری تھی ۔میں نے سلام کیا ۔ میرے کپڑے دیکھ کر تمام طلبہ مسکرا رہے تھے ۔ حکم ہوا اپ ڈیمو شروع کریں
میں نے کہا کس موضوع پر لیکچر دوں ؟
کہا اپ کی مرضی !
میں نے معاشیات کے دس موضوعات بورڈ پر لکھے
میری خوبصورت لکھائی بورڈ پر کافی بھلی دکھائی دے رہی تھی ،۔
میں نے کہا اس میں کونسے موضوع پر بات کروں
انھوں نے دوسرے نمبر والا ٹاپک چنا
میں نے اس موضوع کو مزید کلاسفیائی کیا ۔پھر ان کی طرف دیکھ کر کہا اب ان میں کونسا موضوع ٹھیک رہے گا
پورا بورڈ بھر دیا ۔دو ساتھ جوڑے ہوئے بورڈ بھر گئے ۔
اچانک تالیاں بجنے لگیں ۔میں نے مڑ کے پیچھے دیکھا پوری کلاس کھڑی تھی اور تالیاں بجارہی تھی اور ان کے سامنے میں ، میلے کپڑوں میں کھڑا تھا ۔
وی سی نے کہا ! ہاں بھائی بتاؤ کتنی تنخوا لو گے ؟
اور مجھے نوکری مل گی
میں نے مشین کی طرح کام کیا ۔ماہ کے آخر میں مجھے یونیورسٹی بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ کے ساتھ اچھی خاصی تنخوا ملی ۔ سب سے زیادہ تنخوا اس یونیورسٹی میں پچاس ہزار افغانی تھی ۔ پر مجھے ایک لاکھ بیس ہزار پر رکھ لیا گیا ۔اس کے بعد امریکہ یونیورسٹی ، فنانس منسٹری ، بین الاقوامی کانفرنسوں اور دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے مواقع ملے ۔ میری سروس سٹیشن کا ایک سال کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور میں نے تیس ممالک دیکھ لیے ۔ میں آج بھی اپنے چچازادوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا ہوں
وہ بھی میرا بہت احترام کرتے ہیں اور نام کے ساتھ “صاحب” ضرور کہتے ہیں
میں خدا سے خوش ہوں ۔
زندگی کے سامنے کبھی ہتھیار مت ڈالیں ۔زندگی کے بہت سارے جہت ہیں ہمیشہ آنے والے کل کیلئے پرامید رہیں ۔ کبھی کوئی کام کرتے ہوئے شرماتے نہیں

(زندگی میں کوئی کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا ، البتہ کام کے طریقے چھوٹے اور بڑے ضرور ہوتے ہیں)
اگر کام چھوٹے بڑے ہوتے تو سرکار دوجہاں فخر دوعالم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بکریاں نہ چراتے اور خود جھاڑو صفائی نہ فرماتے

Share:

Insan ko Sabr kab tak Karna chahiye? "Marsmallow theory"

Sabar ka daman kabhi mat chhore.

Sabar Aisa sawari hai jo apne upar sawar musafir ko kabhi girne nahi deta.

स्कूल में टीचर ने अपने क्लास के सभी बच्चों को एक-एक टॉफ़ी दी और फिर एक अजीब बात कही 

सुनो, बच्चों ! आप सभी को दस मिनट तक अपनी टॉफ़ी नहीं खानी है और यह कहकर वह क्लास रूम से बाहर चले गए ।
कुछ वक्त के लिए क्लास में खामोशी छाया रहा, हर बच्चा अपने सामने रखी टॉफ़ी को देख रहा था और हर गुज़रते पल के साथ खुद को रोकना मुश्किल पा रहा था ।
दस मिनट पूरे हुए और टीचर क्लास रूम में आ गए।

टीचर ने क्लास में सभी बच्चों का जायेजा लिया जिससे उन्होंने पाया के पूरी क्लास में सात बच्चे ऐसे थे, जिनकी टॉफ़ियां जैसे के तैसी  थी, जबकि बाकी के सभी बच्चे टॉफ़ी खाकर उसके रंग और स्वाद पर बातें कर रहे थे।
टीचर ने चुपके से इन सात बच्चों के नाम अपनी डायरी में लिख लिये । किसी को कुछ नहीं कहा और पढ़ाना शुरू कर दिया ।इस टीचर का नाम Walter Mischel था ।
कुछ वर्षों के बाद टीचर वाल्टर ने अपनी वही डायरी खोली और सातों बच्चों के नाम निकाल कर उनके बारे में जानकारी हासिल  की।
उन्हें पता चला कि सातों बच्चों ने अपने जिंदगी में कई कामयाबियां को हासिल किया है और अपनी - अपनी फील्ड के लोगों में सबसे कामयाब  रहे हैं।
टीचर वाल्टर ने अपनी उसी क्लास के बाकी स्टूडेंट्स की भी जानकारी हासिल की तो उन्होंने इस नतीजे पे पहुंचा कि उनमें से ज्यादातर बच्चे साधारण जीवन जी रहे हैं, जबकि उनमें कुछ ऐसे भी थे जिन्हें कठिन आर्थिक और सामाजिक परिस्थितियों का सामना करना पड़ रहा है।

इस तहकीक (Research) का  नतीजा टीचर वाल्टर ने एक वाक्य में यह निकाला कि -
"जो व्यक्ति केवल दस मिनट धैर्य नहीं रख सकता, वह जीवन में कभी आगे नहीं बढ़ सकता।"
इस शोध को दुनिया भर में शोहरत मिली और इसका नाम "मार्श मेलो थ्योरी" रखा गया था क्योंकि टीचर वाल्टर ने बच्चों को जो टॉफ़ी दी थी उसका नाम "मार्श मेलो" था।
इस थ्योरी के मुताबिक दुनिया के सबसे सफल लोगों में कई गुणों के साथ एक गुण 'धैर्य' यानी सब्र जरूर पाया जाता है, क्योंकि यह खूबी इंसान में बर्दाश्त करने की सलाहियत को बढ़ाता है, जिसकी बदौलत आदमी मुश्किल हालात में भी मायूस नहीं होता और वह एक कामयाब शख्स बन जाता है।
इसलिए कामयाब जिंदगी और सुखद भविष्य के लिए बचपन से ही बच्चों में धैर्य के गुण का विकास करें।

धैर्य, सब्र (Patience) धैर्य सभी को करना पड़ता है। कोई भी सीधा और इतनी आसानी से अपने मकसद में कामयाब नही होता। उसे मेहनत करना पड़ता है साथ सब्र का लगाम भी लगाना चाहिए।

जैसे- आप पढ़ाई करते है तो सीधी कॉलेज में नही पहुँच जाते है। आपको पहली, दूसरी कक्षों से होते हुए धीरे-धीरे कॉलेज में पहुँचते है या आप खाना बनाते है तो वह तुरंत नही बन जाता आपको कुछ वक्त इंतजार करना पड़ता है खाना के पकने के लिए। 
वैसे ही जिंदगी में कामयाबी के लिए आपको सब्र रखना पड़ता है। 
अपने असफलताओं से निराश नही होना चाहिए, सब्र और मेहनत करते रहे आपको सफलता जरुर मिलेगा।

सब्र आपको ऐसा मौका देता है जिससे आप आसानी से अपने लक्ष्यों तक पहुँच जाए।  इसलिए सब्र करते रहे। 

दोस्तों अगर आप जिंदगी में कामयाबी चाहते हो तो आपके अंदर सब्र का होना बहुत ज़रूरी है, जिस शख्स में सब्र करने की सलाहियत नहीं होता वो व्यक्ति बहुत ही कमज़ोर होता है |

एक बहादुर व्यक्ति वही होता है जिसमें सब्र होता है किसी भी काम में कामयाबी हासिल करने के लिए सबसे पहले आपको  सब्र करना होगा, दोस्तों सब्र करना सीखो जिंदगी में वक़्त के साथ सब कुछ ठीक हो जाता है बस आपके अंदर सब्र करने की सलाहियत होना चाहिए, सब्र का फ़ल भले ही थोड़ी देर से मिले लेकिन इसके जरिए मिला हुआ फ़ल मुकम्मल तौर परे मीठा ही होता है !

अगर किसी ने आपका दिल दुखाया तो सब्र करो यकीन मानो उसका जवाब खुद वक़्त देगा जिस इंसान में मुश्किल से मुश्किल वक्त में भी सब्र करने की ताक़त होती है यकीन मानो वो दुनियां का सबसे ताक़तवर इंसान होता है, जल्दबाज़ी में लिया गया हर फैसला नुकसान ही देता है इसलिए ही तो कहा जाता है की सब्र करो। 
✍️सब्र एक ऐसी सवारी है जो अपने सवार को कभी गिरने नहीं देती ना किसी के क़दमों में ना किसी के नज़रों में। 

✍️जैसे सोना आग में चमकता है, वैसे ही धैर्यवान आपदा में दमकता है।

✍️जिन्दगी दो दिन की हैं! एक दिन आप के हक़ में, एक दिन आप के खिलाफ। जिस दिन हक़ में हो तो गुरूर मत करना और जिस दिन खिलाफ हो तो थोड़ा सा सब्र जरूर करना… ।
✍️धैर्य एक गुण है, और मैं धैर्य सीख रहा हूं, यह एक मुश्किल सबक है मगर नामुमकिन भी नही
✍️धैर्य का एक मिनट, शांति के दस साल
✍️दुश्मन का लोहा भले ही गरम हो, लेकिन हथोड़ा ठण्डा रह कर ही काम दे सकता है !!
✍️वो शख्स बहुत ही गरीब होता है जिसके पास बर्दास्त करने की ताकत नहीं होता।
✍️जो व्यक्ति सब्र का मालिक है वो दुनियां में सभी चीज़ो का मालिक बनेगा जो वह हासिल करना चाहता है।

✍️हर इंसान सब्र की तारीफ तो करता है, लेकिन कोई भी इस पर अमल करने को तैयार नहीं होता है इसलिए खुद भी अमल करे और दूसरो को भी नसीहत करे।

कभी कभी इंसान दिल हल्का करने के चक्कर में बहुत सारे बोझ रूह पर भी डाल देता है.... किसी से अपना दुख कहने से कहीं बेहतर है दुख को अंदर ही दफन कर दिया जाए।

अपने दोस्त वा अहबाब तक इस पैगाम को जरूर पहुचाए।

नोट: यह लेख कही और से कॉपी किया गया है,एडमिन के तरफ से इसमें कुछ परिवर्तन भी किया गया।

Share:

Dusro ke Pareshaniyon se apne dilo ko Khush karne wale logo ke liye paigam.

Ache Logo ka Sohbat ikhtiyar karne ke fayde.
Ham Sab apni khushiyan aur dillagi ke liye na jane kitane Masum logo ki tamannaon ko mitti me dafan kar dete hai.
Apni dil ki khushiyon ko dusro ki pareshaniyon se wabasta karna nek amal nahi hai.
Allah Ka Wasta ya Khuda ki Kasam dene wale messages ki hakikat.
Social Media par Deen-E-Islam ke bare me failayi jane wali afwahon ki hakikat.

💚💚💚نیک صحبت کے اثرات*💚💚💚
ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے  کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آ کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا! تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں  رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔

کام ختم ہؤا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاھٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔

Girl friend aur boy Friend banana Koi Musalmano ka Culture nahi.
Aapki Behan ,beti bhi kisi Dusre ki Girl friend banane ke liye taiyar ho rahi hai.
क्या आप भी एक ही वक्त में चार पांच लड़कियों से फोन पर बात कर मुहब्बत के दावे करते है।

*میرے مولا!  میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ *

ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎ ہے۔

مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا  ﻋﻄﺎ ہے۔  مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت بھی ﻋﻄﺎ ہے۔

صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا. 
جزاک اللہ خیرا

अगर आप व्हाट्सएप , फेसबुक के फिजूल मैसेजेस से परेशान है, लोगो के जज़्बात और एहसासात से खेलने वाले पैगामात से  नफरत करते है ,
                                    तो इस तरह के और मैसेजेस पढ़ने के लिए हमारे ब्लॉग ( आशियाना ए हकीकत ) पे तशरीफ लाएं जहां शरई, इस्लाही, सबक आमोज कहानियां पोस्ट की जाती है, यहां गैर अखलाकी पैगामात, फेहश तस्वीरें, गंदे विडियोज पोस्ट करना या कॉमेंट करना सख्ती के साथ मना है।

Share:

Ibadat (Ebadat) me Dil nahi lagta kya kare ke Dil lagana Shuru ho jaye?

Ibadat me Dil nahi lagta kya kare?
Sawal: Ebadat me dil nahi lagta, Namaj, tilawat, Zikr, Dua sab chal raha hai lekin Dil nahi lag raha, aeisa kya kare ke Ebadat me dil lagana Shuru ho jaye?
इबादत में दिल नहीं लगता क्या करे?
नमाज़, तिलावत, ज़िक्र, दुआ सब चल रहा है लेकिन दिल नहीं लग रहा है, ऐसा क्या करे के इबादत में दिल लगाना शुरू हो जाए?
عبادت میں دل نہیں لگتا!
------------------------
دوست کا سوال ہے کہ عبادت میں دل نہیں لگتا، نماز تلاوت، ذکر، دعا سب چل رہا ہے لیکن دل نہیں لگ رہا، ایسا کیا کریں کہ عبادت میں دل لگنا شروع ہو جائے۔

جواب: یہ ہمارے معاشرے کا ایک عام مسئلہ ہے، عوام کا بھی اور خواص کا بھی۔ کسی کی توجہ نہیں لگ رہی تو کسی کا دل نہیں لگ رہا اور عبادت جیسے بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔

عبادت میں توجہ اور رغبت پیدا کرنے کی کچھ تدابیر ہیں، انہیں اختیار کرنے سے فائدہ ہو گا، ان شاء اللہ۔
توجہ، ذہن کی یکسوئی کا نام ہے اور رغبت، دل کی یکسوئی کو کہتے ہیں۔ یعنی عبادت میں ذہن اور قلب دونوں متوجہ ہوں، یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ اس لیے عرض کر دیا کہ بہت سے لوگ خشوع وخضوع صرف ذہنی یکسوئی کو ہی سمجھتے ہیں کہ ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے، حالانکہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ دل میں عبادت کا ذوق اور شوق بھی اصلاً مطلوب ومقصود ہے کہ دل عبادت کے دوران اللہ کی طرف لپکتا رہے۔ ذہنی یکسوئی، تصور اور خیال کی ہے جبکہ قلبی یکسوئی، خواہش اور طلب کی ہے۔

ایک صحیح روایت میں قرآن مجید اور وحی کی مثال بارش کے ساتھ دی گئی ہے کہ جو سخت اور نرم زمین پر اترتی ہے۔ اب نرم زمین اس کو جذب کر لیتی ہے تو غلہ اور اناج اگتا ہے، لہذا زمین کو بھی فائدہ ہو گیا اور دوسروں کو بھی۔ سخت زمین میں سے بعض پیالے کی طرح ہوتی ہیں کہ پانی کو خود تو جذب نہیں کرتی لیکن ذخیرہ کر لیتی ہے لہذا اس نے خود تو فائدہ نہ لیا لیکن دوسروں نے اس کے علم سے فائدہ حاصل کر لیا۔ اور بعض سخت زمین چٹان کی طرح ہوتی ہے کہ بارش کے پانی کو نہ تو جذب کرتی ہے اور نہ ہی دوسروں کے لیے روک لیتی ہے۔

عبادت میں توجہ اور دل لگنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہن اور قلب کی زمین نہ صرف عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ ان اثرات کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اب دل اور دماغ کو اس کے لیے تیار اور ہموار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کی کچھ تدابیر ہیں۔
سب سے اہم آزمائش ہے، ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی آزمائش کا سامنا رہتا ہے، چھوٹی ہو یا بڑی، یہ آزمائش آپ کے دل ودماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور نرم بھی، پس اس یکسوئی اور نرمی کو عبادت کے لیے استعمال کر لیں۔

دوسرا طریقہ صحبت کا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں کہ جنہیں عبادت میں ذہنی اور قلبی یکسوئی حاصل ہو چکی ہو۔ کچھ عرصہ بیٹھنے سے ایسے احوال اور کیفیات حاصل ہوں گی کہ دل اور دماغ کی زمین عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہونا شروع ہو جائے گی۔

تیسری تدبیر خواہش اور طلب کی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کی کچھ خواہشات ہیں، بعض خواہشات کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے۔ یہ حد سے بڑھی ہوئی طلب آپ کو ذہنی اور قلبی یکسوئی دیتی ہے، اسے عبادت کے لیے استعمال کر لیں۔ اور اگر یہ خواہش اور طلب خالص دینی ہو جیسا کہ لوگوں کی ہدایت کی تڑپ رکھنا تو یہ تو بہت ہی بہترین ذریعہ ہے۔ دعوت تبلیغ کا کام کرنے والوں میں سے اکثر کی عبادت میں یکسوئی اسی رستے سے قائم ہوتی ہے۔
.
حافظ محمد زبیر

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS