Ibadat me Dil nahi lagta kya kare?
Sawal: Ebadat me dil nahi lagta, Namaj, tilawat, Zikr, Dua sab chal raha hai lekin Dil nahi lag raha, aeisa kya kare ke Ebadat me dil lagana Shuru ho jaye?
इबादत में दिल नहीं लगता क्या करे?
नमाज़, तिलावत, ज़िक्र, दुआ सब चल रहा है लेकिन दिल नहीं लग रहा है, ऐसा क्या करे के इबादत में दिल लगाना शुरू हो जाए?
عبادت میں دل نہیں لگتا!
------------------------
دوست کا سوال ہے کہ عبادت میں دل نہیں لگتا، نماز تلاوت، ذکر، دعا سب چل رہا ہے لیکن دل نہیں لگ رہا، ایسا کیا کریں کہ عبادت میں دل لگنا شروع ہو جائے۔
جواب: یہ ہمارے معاشرے کا ایک عام مسئلہ ہے، عوام کا بھی اور خواص کا بھی۔ کسی کی توجہ نہیں لگ رہی تو کسی کا دل نہیں لگ رہا اور عبادت جیسے بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔
عبادت میں توجہ اور رغبت پیدا کرنے کی کچھ تدابیر ہیں، انہیں اختیار کرنے سے فائدہ ہو گا، ان شاء اللہ۔
توجہ، ذہن کی یکسوئی کا نام ہے اور رغبت، دل کی یکسوئی کو کہتے ہیں۔ یعنی عبادت میں ذہن اور قلب دونوں متوجہ ہوں، یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ اس لیے عرض کر دیا کہ بہت سے لوگ خشوع وخضوع صرف ذہنی یکسوئی کو ہی سمجھتے ہیں کہ ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے، حالانکہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ دل میں عبادت کا ذوق اور شوق بھی اصلاً مطلوب ومقصود ہے کہ دل عبادت کے دوران اللہ کی طرف لپکتا رہے۔ ذہنی یکسوئی، تصور اور خیال کی ہے جبکہ قلبی یکسوئی، خواہش اور طلب کی ہے۔
ایک صحیح روایت میں قرآن مجید اور وحی کی مثال بارش کے ساتھ دی گئی ہے کہ جو سخت اور نرم زمین پر اترتی ہے۔ اب نرم زمین اس کو جذب کر لیتی ہے تو غلہ اور اناج اگتا ہے، لہذا زمین کو بھی فائدہ ہو گیا اور دوسروں کو بھی۔ سخت زمین میں سے بعض پیالے کی طرح ہوتی ہیں کہ پانی کو خود تو جذب نہیں کرتی لیکن ذخیرہ کر لیتی ہے لہذا اس نے خود تو فائدہ نہ لیا لیکن دوسروں نے اس کے علم سے فائدہ حاصل کر لیا۔ اور بعض سخت زمین چٹان کی طرح ہوتی ہے کہ بارش کے پانی کو نہ تو جذب کرتی ہے اور نہ ہی دوسروں کے لیے روک لیتی ہے۔
عبادت میں توجہ اور دل لگنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہن اور قلب کی زمین نہ صرف عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ ان اثرات کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اب دل اور دماغ کو اس کے لیے تیار اور ہموار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کی کچھ تدابیر ہیں۔
سب سے اہم آزمائش ہے، ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی آزمائش کا سامنا رہتا ہے، چھوٹی ہو یا بڑی، یہ آزمائش آپ کے دل ودماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور نرم بھی، پس اس یکسوئی اور نرمی کو عبادت کے لیے استعمال کر لیں۔
دوسرا طریقہ صحبت کا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں کہ جنہیں عبادت میں ذہنی اور قلبی یکسوئی حاصل ہو چکی ہو۔ کچھ عرصہ بیٹھنے سے ایسے احوال اور کیفیات حاصل ہوں گی کہ دل اور دماغ کی زمین عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہونا شروع ہو جائے گی۔
تیسری تدبیر خواہش اور طلب کی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کی کچھ خواہشات ہیں، بعض خواہشات کی طلب حد سے بڑھ جاتی ہے۔ یہ حد سے بڑھی ہوئی طلب آپ کو ذہنی اور قلبی یکسوئی دیتی ہے، اسے عبادت کے لیے استعمال کر لیں۔ اور اگر یہ خواہش اور طلب خالص دینی ہو جیسا کہ لوگوں کی ہدایت کی تڑپ رکھنا تو یہ تو بہت ہی بہترین ذریعہ ہے۔ دعوت تبلیغ کا کام کرنے والوں میں سے اکثر کی عبادت میں یکسوئی اسی رستے سے قائم ہوتی ہے۔
.
حافظ محمد زبیر
No comments:
Post a Comment