Agar Aurat Ka Hamal Gir Jaye To Wo Kitne Din Ke Baad Namaj Padh Sakti Hai
Agar Aurat Ka Hamal Gir Jaye To Wo Kitne Din Ke Baad Namaj Padh Sakti Hai
السلام علیکم۔
آپی جان ایک عورت نے سوال پوچھا ہے کہ اگر عورت کا حمل 3یا4ماہ کا گرجائے تو وہ نماز اور روزہ رکھ سکتی ہے 40 سے پہلے 10۔15۔20۔دن بعد بعض کہتے ہیں 40 دن پورےکرنے ہوتے ہیں واضع دلیل سے راہنمائی فرمائیں۔۔۔۔
شکریہ
۔........................................................................................................................
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
اس مسئلہ میں فقہا کرام کے درمیان کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ، تاہم صحیح الرائے کے مطابق جب عورت ایسا حمل ساقط کرے جو متخلق ہو یعنی جس کی تخلیق واضح ہوچکي ہو تو یہ نفاس کا خون شمار کیا جائے گا اور عورت اس حالت میں نماز روزے چھوڑے گی ۔ بصورت دیگر اگر حمل متخلق نہ ہو یعنی بچے کی شکل وصورت واضح نہ ہوئی ہو اور یہ حمل ساقط ہوجائے تو اسے نفاس شمار نہیں کیا جائے گا ۔
سماحةالشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کہتے ہیں :
جب عورت ایسا حمل ساقط کرے جس میں انسان کی تخلیق واضح ہوچکی ہو اورسر پاؤں اورہاتھ وغیرہ واضح ہوچکے ہوں تواسے نفاس والی شمار کیا جائے گا ، اوراس کے احکام بھی نفاس والی عورت کے ہوں گے نہ تو وہ نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گي ، اورنہ ہی اپنے خاوند سے جماع کے لیے حلال ہے لیکن جب چالیس یوم مکمل ہوجائيں یا پھر اس سے قبل ہی پاک ہوجائے تواس پر غسل کرکے نماز ادا کرنی اورروزہ رکھنا واجب ہوگا ، اوراپنے خاوند کے لیے بھی حلال ہوجائے گی ۔۔۔
لیکن جب عورت کا ساقط کردہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوجس میں شکل وصورت واضح نہ ہوئي ہو یا پھر جما ہوا خون ہو تواس صورت میں حمل ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا اسے نفاس کا حکم نہیں دیا جائے گا اورنہ ہی وہ حیض کے حکم میں ہوگا ۔
لھذا وہ عورت نمازبھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ، اوراپنے خاوند کے جماع کے لیے بھی حلال ہوگي ۔۔۔ اس لیے کہ وہ اہل علم کے ہاں استحاضہ کے حکم میں ہے ۔
دیکھیے : فتاوی الاسلامیۃ /1 / 243
الشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا کہنا ہے : اگرتوانسان کی شکل وصورت واضح ہوچکی ہو تواس حالت میں ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا ، جس میں عورت نہ تو نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گی ، اورخاوند بھی پاک صاف ہونے تک اس سے اجتناب کرے گا ۔
لیکن اگر ساقط ہونے میں تخلیق واضح نہ ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس شمار نہيں ہوگا بلکہ وہ خون فاسد ہے جس کی بنا پر نماز روزہ ترک نہیں کرے گی اورنہ ہی کچھ اور ۔
اہل علم کا کہنا ہے : بچے کی شکل وصورت واضح ہونے کی کم از کم مدت اکیاسی ( 81 ) یوم ہیں ۔۔۔۔
دیکھیے : فتاوی المراۃ المسلمۃ / 1 / 304 – 305
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء کے علماء کرام اس بارے میں فتوہ دیتے ہیں :
جب بچے کی تخلیق ہوچکی ہواور اس کے اعضاء ہاتھ پاؤں اورسر وغیرہ واضح ہوچکے ہوں ، تواس حالت میں خون آتا رہے توچالیس یوم تک خون آنے کی حالت میں خاوند کے لیے بیوی سے جماع کرنا حرام ہے ، لیکن اگر چالیس یوم سے قبل ہی خون بند ہوجائے توبیوی کے غسل کے بعد اس سےجماع کرنا جائز ہے ۔
لیکن اگر بچے کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے ہوں اوراس کی تخلیق واضح نہیں ہوئي تواس حالت میں حمل ساقط ہونے خاوند اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے چاہے خون آتا بھی ہو کیونکہ یہ خون نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا ، بلکہ یہ خون فاسد ہے اس حالت میں وہ نماز بھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ۔
دیکھیے : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء / 5 / 422
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
آپی جان ایک عورت نے سوال پوچھا ہے کہ اگر عورت کا حمل 3یا4ماہ کا گرجائے تو وہ نماز اور روزہ رکھ سکتی ہے 40 سے پہلے 10۔15۔20۔دن بعد بعض کہتے ہیں 40 دن پورےکرنے ہوتے ہیں واضع دلیل سے راہنمائی فرمائیں۔۔۔۔
شکریہ
۔........................................................................................................................
وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ
اس مسئلہ میں فقہا کرام کے درمیان کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ، تاہم صحیح الرائے کے مطابق جب عورت ایسا حمل ساقط کرے جو متخلق ہو یعنی جس کی تخلیق واضح ہوچکي ہو تو یہ نفاس کا خون شمار کیا جائے گا اور عورت اس حالت میں نماز روزے چھوڑے گی ۔ بصورت دیگر اگر حمل متخلق نہ ہو یعنی بچے کی شکل وصورت واضح نہ ہوئی ہو اور یہ حمل ساقط ہوجائے تو اسے نفاس شمار نہیں کیا جائے گا ۔
سماحةالشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کہتے ہیں :
جب عورت ایسا حمل ساقط کرے جس میں انسان کی تخلیق واضح ہوچکی ہو اورسر پاؤں اورہاتھ وغیرہ واضح ہوچکے ہوں تواسے نفاس والی شمار کیا جائے گا ، اوراس کے احکام بھی نفاس والی عورت کے ہوں گے نہ تو وہ نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گي ، اورنہ ہی اپنے خاوند سے جماع کے لیے حلال ہے لیکن جب چالیس یوم مکمل ہوجائيں یا پھر اس سے قبل ہی پاک ہوجائے تواس پر غسل کرکے نماز ادا کرنی اورروزہ رکھنا واجب ہوگا ، اوراپنے خاوند کے لیے بھی حلال ہوجائے گی ۔۔۔
لیکن جب عورت کا ساقط کردہ صرف ایک گوشت کا لوتھڑا ہوجس میں شکل وصورت واضح نہ ہوئي ہو یا پھر جما ہوا خون ہو تواس صورت میں حمل ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا اسے نفاس کا حکم نہیں دیا جائے گا اورنہ ہی وہ حیض کے حکم میں ہوگا ۔
لھذا وہ عورت نمازبھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ، اوراپنے خاوند کے جماع کے لیے بھی حلال ہوگي ۔۔۔ اس لیے کہ وہ اہل علم کے ہاں استحاضہ کے حکم میں ہے ۔
دیکھیے : فتاوی الاسلامیۃ /1 / 243
الشیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا کہنا ہے : اگرتوانسان کی شکل وصورت واضح ہوچکی ہو تواس حالت میں ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا ، جس میں عورت نہ تو نمازادا کرے گي اورنہ ہی روزہ رکھے گی ، اورخاوند بھی پاک صاف ہونے تک اس سے اجتناب کرے گا ۔
لیکن اگر ساقط ہونے میں تخلیق واضح نہ ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس شمار نہيں ہوگا بلکہ وہ خون فاسد ہے جس کی بنا پر نماز روزہ ترک نہیں کرے گی اورنہ ہی کچھ اور ۔
اہل علم کا کہنا ہے : بچے کی شکل وصورت واضح ہونے کی کم از کم مدت اکیاسی ( 81 ) یوم ہیں ۔۔۔۔
دیکھیے : فتاوی المراۃ المسلمۃ / 1 / 304 – 305
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء کے علماء کرام اس بارے میں فتوہ دیتے ہیں :
جب بچے کی تخلیق ہوچکی ہواور اس کے اعضاء ہاتھ پاؤں اورسر وغیرہ واضح ہوچکے ہوں ، تواس حالت میں خون آتا رہے توچالیس یوم تک خون آنے کی حالت میں خاوند کے لیے بیوی سے جماع کرنا حرام ہے ، لیکن اگر چالیس یوم سے قبل ہی خون بند ہوجائے توبیوی کے غسل کے بعد اس سےجماع کرنا جائز ہے ۔
لیکن اگر بچے کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے ہوں اوراس کی تخلیق واضح نہیں ہوئي تواس حالت میں حمل ساقط ہونے خاوند اپنی بیوی سے جماع کرسکتا ہے چاہے خون آتا بھی ہو کیونکہ یہ خون نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا ، بلکہ یہ خون فاسد ہے اس حالت میں وہ نماز بھی ادا کرے گي اورروزے بھی رکھے گی ۔
دیکھیے : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء / 5 / 422
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
No comments:
Post a Comment