Kya Kafir Ki Maut Par Inna Lillahi Wa Inna elaihi Rajeun Padha Jayega
Kya Kafir Ki Maut Par Inna Lillahi Wa Inna elaihi Rajeun Padha Jayega
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Kafir Ki Maut Par Kuchh Padhna Kaisa Hai |
تحریر : مسزانصاری
عمومًا کچھ سوالات کم و بیش سب ہی لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں
①- کیا کافر کی موت پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھا جائے گا
②- کیا کافر کی موت پر اظہارِ افسوس درست ہے
③- نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں
ان شاءاللہ ان سوالات کو بالترتیب مفصلاً اور مدلل پیش کرنے کی میری کاوش قارئین کو استفادہ کرے گی۔
❶ کیا کافر کی موت پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھا جائے گا
۔┄┅══════════════┅┄
پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ کافر اور مشرکین کے لیے استغفار اور انکی نجات کے لیے دعا کی ممانعت قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو ۔ اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرچکے ہیں ‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
(التوبہ /٨٠)
اس سے آگے الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ /٨۴)
اس آیت کی تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :
سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔'' سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ
منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو
اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤)
(بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص)
(مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر)
تاہم {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} کے الفاظ میں دعا و استغفار کا پہلو نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم سب اللہ ہی کے لئے ہیں، اور اللہ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹنا ہے
مسلمان کو جب کوئی بھی تکلیف پہنچے تو اسے اپنے رب کی رضا پر راضی ہونے ، ثواب کی امید رکھنے اور صبر کرنے کے ساتھ "إنا لله وإنا إليه راجعون"، کہنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
{اَلَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوآ إِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ}
[البقرۃ:۱۵۶]
[’’انہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘]
اس میں مصیبۃ کا لفظ عام ہے ، جس میں ہر وہ مصیبت شامل ہے جس پر آدمی کو رنج پہنچے ، حدیث افک میں ہے کہ صفوان رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما قافلہ سے پیچھے رہ گئی ہیں تو انہوں نے اس موقع پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھا تھا۔
صحيح البخاري / كِتَاب الْمَغَازِي/کتاب: غزوات کے بیان میں ، بَابُ حَدِيثُ الإِفْكِ:
باب: واقعہ افک کا بیان / رقم الحدیث : ۴١۴١
لہٰذا مومن ہر قسم کے نقصان اور رنج پر جب {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے محبوب رکھتا ہے جیسے کسی کا کوئی پالتو جانور بہیمۃ الانعام [یعنی: گائے ، اونٹ، بھیڑ، بکری] مر جائے، تو یہ اسکے لیے نقصان ہے اور نقصان مصیبت ہی ہوتا ہے تو اس پر بھی ثواب اور بہتر اجر کی نیت سے {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنا چاہیے ۔ لیکن اور اگر کوئی ایسا جانور جسے پالنا حرام ہو یا اسکا مرنا کسی کو دکھ نہیں دیتا تو اس صورت میں {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} نہیں پڑھا جائے گا ۔
کافر کی موت پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنے کی دو حالتیں ہونگی :
①- اسکے مرنے کے دکھ میں {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنا :
یہ حالت درست نہیں ، ایک مسلمان کو کافر کی موت پر اسکے بچھڑنے کا غم منانا قرآن و حدیث کی نصوص سے جائز نہیں ہے لہٰذا اس حالت پر {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنا غلط ہے ۔
②- اسکی موت کو دیکھ کر موت کو برحق جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کے خیال سے {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ اپنی موت کو یاد کرنا اور اپنے رب کی طرف لوٹنے کا ذکر کرنا ایک مسلمان سے مطلوب ہوتا ہے ، نیز {اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} پڑھنے سے عبودیت اور بندگی کا بہترین اظہار ہوتا ہے
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اِنَّا لِلّٰہِ " کہنے سے وحدانیت، اللہ تعالی کی معبودیت، اور بادشاہی کا اقرار ہوتا ہے۔ اور" اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" سے اپنی ہلاکت، اور قبروں سے دوبارہ جی اُٹھنے، اور تمام معاملات کے اللہ کیطرف لوٹنے کا اقرار ہے۔
دیکھیے : تفسير قرطبی / ١٧٦/٢
سماحةالشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک فتوے میں کہتے ہیں
حكم قول الحوقلة عند موت الكافر، وحكم الدعاء له
السؤال:
إذا مات رجل أو امرأة وهو كافر، هل يمكن أن نقول: إن لله وإنا إليه راجعون أو لا يجوز، ونقول أيضاً: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً [الفجر: ٢٧-٢٨] إلى آخره؟
الجواب:
الكافر إذا مات لا بأس أن تقول: إنا لله وإنا إليه راجعون، الحمد لله، من أقربائك، لا بأس، كل الناس إلى الله راجعون، كل الناس ملك لله ، لا بأس بهذا، ولكن لا يدعى له، ما دام كافر لا يدعى له، ولا يقال: يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي، لأن النفس هذه غير مطمئنة، نفس فاجرة، لا يقال لها هذا، وإنما يقال هذا في المؤمن، فالحاصل أن الكافر إذا مات لا بأس أن تقول إنا لله وإنا إليه راجعون، ولا بأس أن يقول لك غيرك: عظم الله أجرك فيه، وأحسن عزاءك فيه، ما في بأس، قد يكون لك مصلحة في حياته، قد يكون في حياته يحسن إليك، ينفعك، فلا بأس، لكن لا يدعى له، ولا يستغفر له، ولا يتصدق عنه، إذا مات كافراً.
سماحةالشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوے کا ترجمہ :
" کافر کے مرنے پر "إنا لله وإنا إليه راجعون" اور "الحمد لله"کہنے میں کوئی حرج نہیں ، چاہے وہ آپکے اقرباء میں سے نہ ہو، کیونکہ سب لوگوں نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کا جانا ہے، اور تمام لوگ اللہ تعالی کی ملکیت میں ہیں، چنانچہ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں"
دیکھیے : فتاوى نور على الدرب /صفحہ : 375
❷ کیا کافر کی موت پر اظہارِ افسوس درست ہے
۔┄┅═══════════════┅┄
نیک آدمی کے ابدی ٹھکانے کے لیے اچھا گمان اور بد کے لیے جہنم کا اندیشہ رکھنے کے باوجود خاتمہ بالخیر یا خاتمہ بالشر کسی بشر کے علم میں نہیں ہوتا ۔ اہل سنت والجماعت کے اصول پر اجماع ہے کہ کسی معین آدمی کے جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی کتاب و سنت کی نصوص سے اخذ کی جائے گی چہ جائیکہ اپنے عقل و قیاس کے گھوڑوں کو دوڑنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے ۔
کافر کے مرنے پر اظہار افسوس نہیں کیا جائے گا ۔ تاہم اسلام انسانیت کا علمبردار ہے اور انسانی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں لہٰذا کافر کے مرنے پر علی الاعلان جشن و سرور اور اپنی مسرتوں کے ڈنکے بجانے سے بھی بحرحال ایک مومن کو گریزاں رہنا افضل ہے ۔
قرآن مجید نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے تناظر میں بیان فرمایا ہے :
﴿فَما بَكَت عَلَيهِمُ السَّماءُ وَالأَرضُ وَما كانوا مُنظَرينَ
﴿سورة الدخان/ ٢٩ ﴾
’’پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی ۔‘‘
جن لوگوں نے منجانب اللہ شریعت اور اسکی طرف سے مبعوث انبیاء و رسل کا انکار کیا ، انکی تکذیب کی ، انکا استہزاء کیا یہاں تک کہ چشم فلک نے ان قوموں کو انبیاء و رسل کے قتل میں ملوث دیکھا تو بالآخر ہلاکت و بربادی اور تباہی ان قوموں کا مقدر بنیں ، تو مومنوں کو لائق نہیں کہ ان قوموں کے پیروکاروں کی اموات پر سوگ منائیں یا اپنے کسی فعل سے دکھ کا اظہار کریں ، وہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت اور اسکے انبیاء و رسل کو نقصان پہنچانے کے قبیح ترین کاموں کو سر انجام دینے والے اپنے آباواجداد سے راضی رہے ۔
چنانچہ ہم قرآن و حدیث میں کسی نص سے ایسی قوموں کی بربادی پر یا انکے لوگوں کی اموات پر اظہار افسوس کی تعلیم کا حکم نہیں دیے گئے ، بلکہ قرآن حکیم میں جا بجا ایسی قوموں کی بربادی کے مواقعہ پر اللہ عزوجل کی شکرگزاری اور اسکی حمد وثناء بجا لانے کا حکم دیا گیا :
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الانعام:۵۴)
”پس ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور کل شکر اور تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“۔
قرآن کریم میں قوم شعیب علیہ السلام کو عذاب میں مبتلا کئے جانے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کا طرز عمل یوں نقل ہوا:
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم جب عذاب میں مبتلاء ہوئی تو انہوں نے اس موقع پر غم کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس بات کی تعلیم دی کہ کافروں پر پہنچنے والے عذابات پر افسوس نہیں کیا جاتا :
فَتَوَلَّی عَنْہُمْ وَقَالَ یَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ آسَی عَلَی قَوْمٍ کَافِرِین
(الأعراف:۹۳)
”اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچادیئے تھے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج وغم کا اظہار کیوں کرو“۔
بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس سال تک انہیں صحرا میں بھٹکنے کی سزا نافذ کی گئی تو اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ غم و حزن سے منع فرمایا :
قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
(المائدۃ:۶۲)
”ارشاد ہوا کہ اب (یہ مقدس) زمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ خانہ بدوشوں کی طرح (صحراء میں) ادھر ادھر سر گرداں رہیں گے۔ پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا“۔
حضرت نوح علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کشتی بنانی شروع کی تو انکی قوم نے ان پر ادتہزاء کیا تو نوح علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ ہم بھی ایک دن تمہاری ہنسی اڑائیں گے :
(وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْہِ مَلَا ٌمِّنْ قَوْمِہٰ سَخِرُوْا مِنْہُ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُوْنَ() فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ یّاْتِیْہِ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ وَیَحِلُّ عَلَیْہِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ()حَتّٰی اِذَاجَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ)
(هود:۸۳۔۹۳)
”وہ (نوح علیہ السلام) کشتی بنانے لگے تو ان کی قوم کے جو سردار تھے ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے تو وہ (نوح علیہ السلام جواباً) کہتے کہ کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تم پر ایک دن ہنسیں گے جیسے کہ تم ہم پر ہنستے ہو۔ پس تمہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے اور اس پر ہمیشگی کی سزا اترے۔ یہاں تک کہ ہمارا حکم آن پہنچا اور تنور (پانی سے) ابلنے لگا“
خود آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا گیا:
فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
(المائدۃ:۸۶)
”پس آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں“۔
❸ نیک اور اچھے غیر مسلم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں
۔┄┅════════════════════┅┄
اہل شرک و کفر کی نیکیوں ، اعمالِ حسنات ، صلہ رحمی اور دیگر انسانی فلاح و بہبود کے کاموں پر اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ہی اجر عطا فرما دیتا ہے ، اور اس کے بدلے میں انکی معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے لیکن آخرت میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ، انکے نیک اعمال آخرت میں انہیں کوئی نفع نا پہنچا سکیں گے ، بلکہ یہ لوگ صریحًا نقصان میں رہیں گے ۔
لہٰذا اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی
محمد بن جریرطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اگر اہل شرک میں سے کوئی شخص نیکی کرے تو اسے دنیا ہی میں اجر دے دیا جاتا ہے، مثلاً : صلہ رحمی کرے، سوالی کو دے ، یا کسی لاچار پر ترس کھائے، یا اسی طرح کے دیگر رفاہی کام کرے، اللہ تعالی اسکے عمل کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور اس عمل کے بدلے میں معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے، اسکی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا، اور دنیاوی تکالیف دور کردیتا ہے،وغیرہ وغیرہ، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے"
دیکھیے : تفسير طبری / ٢٦۵/١۵
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا"
دیکھیے : فتح الباری / ۴٨/٩
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
(سورۃ البینۃ )
اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا دوزخ کی آگ میں ہوں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی لوگ بدترین خلائق ہیں‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (١) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (٣) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (۴)سورۃ الغاشیہ
اس (حشر کے ) دن کتنے ہی چہرے خوف زدہ ہوں گے، سخت محنت(والے عمل ) کرنے والے، تھکے ماندے ہوں گے،لیکن دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنْ الدُّنْيَا ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَإِنَّ اللَّهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ ) .
رواه مسلم / ٢٨٠٨
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنائت کیا جاتاہے
اوردوسری روایت میں ہے :
( إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً ، يُعْطَى بِهَا فِي الدُّنْيَا ، وَيُجْزَى بِهَا فِي الْآخِرَةِ ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا ، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا ) .
(اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے
اور یہ ہر گز مطلقًا بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ لازمی طور پر کافر کے نیک اعمال کی جزا دنیا میں دے بلکہ یہ اللہ کی مرضی اور مشیئت پر منحصرہے ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ
سورةالإسراء/ 18
جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں ۔
اسی طرح کفار کی ان بظاہر نیکیوں پر بھی اللہ تعالیٰ دنیا میں صلہ عطا نہیں فرمائے گا جن کا مقصد باطل کا فروغ اور اسلام کو پست کرنا ہو ، جیسے مقدونیا سے تعلق رکھنے والی عیسائی راہبہ مدر ٹریسا جس کا اصلی نام اگنیز گونکسہا بوجاکسہیو ( AGNES GONXHA BOJAXHIU ) یہ بظاہر سماجی فلاح و بہبود کے کام سے منسلک تھی اور فقراء ، بیماروں اور ملک بدر لوگوں کی مدد کرتی تھی لیکن درپردہ اس کا مقصد فلاح و بہبود کے ہتھیار سے لوگوں کو عیسائیت میں شامل کرنا تھا ، یہی کام انجام دیتے دیتے یہ 1997ء میں فوت ہو گئی ۔ اس قسم کے کام کو اسلام نیکی قرار نہیں دیتا ، لہٰذا اس راہبہ کو زندگی گزارنے اور بنیادی ضروریات یا اس سے زائد ملا وہ اسکے اعمال کا بدلہ نہیں تھا، بلکہ وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بطور کفالت تھا، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هََذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
البقرة/ ١٢٦
اور جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ : ''اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔'' اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''اور جو کوئی کفر کرے گا تو اس چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسےبھی دوں گا مگر آخرت میں اسے دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے''
الحاصل کہ دنیا میں کفار کے تمام نیک کام جنہیں عبادت کے بطور نہیں کرتا جیسے ، صلہ رحمی، مہمان نوازی وغیرہ، تو کافر کو دنیا میں اسکے ان اعمال کا بدلہ دے دیا جاتا ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment