Islami Riyasat Me Gair Muslim Ki Ibadat Gaah Banana Kaisa Hai
Islami Riyasat Me Gair Muslim Ki Ibadat Gaah Banana Kaisa Hai, Kya Muslim Countries Me Mandir Aur Church Banana Jayez Hai?
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
رہنمائی فرمائیں۔۔۔
کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین کو اپنی مذھبی عبادت گاہ بنانے کی اجازت دینا ، خلاف اسلام ھے؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
رہنمائی فرمائیں۔۔۔
کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلمین کو اپنی مذھبی عبادت گاہ بنانے کی اجازت دینا ، خلاف اسلام ھے؟
Kya Islamic Huqumat Waley Mulk Me Gair Muslimon Ki Ibadat Gaah Banana Jayez Hai |
وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ذمی رعیت نیا عبادت خانہ تعمیر نہیں کر سکتی :
(1)قاضی ابو یوسف تصریح فرماتے ہیں :
ويمنعوا من ان يحدثوا بناء بيعة او كنيسة فى المدينة الا ماكانوا صولحوا عليه وصارو ذمه وهى بيعة لهم او كنيسة فما كان كذلك تركت لهم ولم تهدم . (كتاب الخراج الابى يوسف ص27)
كہ ’’عیسائیوں نے نیا صومعہ اورگرجا تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہو گ۔ البتہ جو معاہدہ کے وقت گرجا موجود ہو گا اس کو گرایا نہ جائے گا ۔ وما احدث من بناء بيعة اقوه كنيسة فان ذالك بهدم (كتاب الخراج لابى يوسف ص159) نیا بیعہ او رکنیسہ گرا دیا جائے۔
(2) امام ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی 450ھ رقم فرماتے ہیں :
ولا يجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة و لاكنيسة فان احدثوها هدمت عليهم . (الاحكام السلطانية ص146)
كہ ’’اہل ذمہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دار السلام میں نیا بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں ۔ اس کی ان کو شرعاً اجازت نہیں ۔ اگر وہ کوئی بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں گے تواس کو گرا دیا جائے گا۔‘‘
(3)امام ابو زکریا محی الدین یحیی بن شرف النووی شافعی۔ المتوفی 676ھ تصریح فرماتےہیں :
ويمنعون من إحداث الكنائس والبيع والصوامع في بلاد المسلمين لما روى عن ابن عباس رضي الله عنه أنه قال أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم أن يبنوا فيه كنيسة.(شرح المہذب جلد19ص412)
’’مسلمانوں کےشہروں میں ذمیوں کو کنائس ، بیع اور صومعے بنانے کی اجازت نہیں کیونکہ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ جس شہر کو نئے سرے سے مسلمان آباد کریں اس میں غیر مسلم اقلیتوں کو گرجا وغیرہ بنانے کا حق نہیں ۔‘‘
(4)قاضی ابویعلیٰ حنبلی المتوفیٰ 458ھ رقم فرماتے ہیں :
ولا يجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة و كنيسة فان احدثوها هدمت عليهم . (الاحكام السلطانية ص146)
اس كا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے ۔
لانحدث فى مدينتنا كنيسة ولا فيما حولها دیرا ولا قلایة ولا صومعة راهب ولانجدد ما خرب من كنائسنا ولا ماكان منها فى خطط المسلمين ولانمنع كنائسنا من المسلمين ان ينزلوها فى الليل والنهار وان نوسع ابوابها للمارة وابن السبيل ولا نؤدى فيها لاو في منازلنا جاسوسا.(المغنی لابن قدامہ ج9ص282)
’’جزیرہ کے ذمیوں کے حضرت عبدالرحمن بن غنم سے جومعاہدہ کیا تھااس میں ہی شرط بھی تھی کہ آج کے بعدہم اپنے شہر میں نہ تو کوئی کنیسہ تعمیر کریں گے اور نہ دیر ، نہ قلایہ اور نہ کسی راہب کےلیے صومعہ بنائیں گے۔
اوران میں سے جو گرجائے گا اس کو دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے، اس طرح جو گرجا وغیرہ مسلم آبادی میں ہو گا اس کو بھی دوبارہ نہیں بنائیں گے ۔ ہم اپنے گرجاؤں کومسلمانوں کے لیے رات دن کھلے رکھیں گے اور اسی طرح گزرنے والوں اور مسافروں کےلیے ان کے دروازے وسیع رکھیں گے تاکہ وہ ان میں آرام کر سکیں ۔ نہ ہم ان گرجاؤں اور اپنے گھروں میں کسی جاسوس کو ٹھہرائیں گے۔ ‘‘
(6)امام ابن قیم فرماتے ہیں :
حضرت عمر فاروق کے حامل حضرت عبدالرحمن بن غنمسے جزیرہ کے عیسائیوں نے از خود جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ بھی تھا۔
أن شرطنا لك على أنفسنا: أن لا نحدث في مدينتنا كنيسة، ولا فيما حولها ديراً، ولا قلاّية (بناء كالدير)، ولا صومعة راهب، ولا نجدد ما خرب من كنائسنا.(حقوق اھل مدینہ ج2ص 659)
’’ہم اسلام کا غلبہ تسلیم کرتے ہوئے آپ کےلیے اپنی جانوں پر یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ ہم اپنے شہر میں کوئی نیا گرجا اور علاقہ میں عابدوں کی خانقاہوں تعمیر کریں گےاورنہ کسی راہب کی کٹیا کھڑی کریں گے۔ نیز ہم اپنے پرانے گرجاؤں کی مرمت بھی نہیں کریں گے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج2ص 348)
ان ائمہ کرام اورماہرین قوانین اسلامی کی ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ عیسائیوں اوریہودیوں کو جب کہ وہ اہل کتاب بھی ہیں ۔ کسی مسلم ممالک میں نئے گرجے اورعبادت خانے تعمیر کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جوگر جائے اس کی تجدید بھی جائز نہیں جیسا کہ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا:
لما روى كثير بن مرة قال سمعت عمر بن الخطاب يقول : قال رسول الله ﷺ :لا تبنى الكنيسة فى دار السلام ولا يجدد ما خرب منها . (شرح المہذب ج19ص413)
کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دارالسلام میں گرجا وغیرہ بنانا جائز نہیں اور اسی طرح اگر پہلے کا بنا ہوا گرجا وغیرہ گر جائے تو اس کی تجدید بھی جائز نیہں ۔ جب اہل کتاب عیسائیوں اور یہودیوں کےلیے رسول اللہﷺ نے دار السلام میں گرجے اور صومعے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ وہ اہل کتاب ہیں تو پھر قادیانی مرتدوں اور کافروں کو دارالاسلام اور مسلمان ملک میں مسجد کے نام سے عبادت خانہ بنانے کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے ؟ اور وہ اپنے مذہبی مرکز کو مسجد کے نام سے کیونکر پکارسکتے ہیں ؟
میدا ن میں نہیں نکلیں گے جیسے مسلمان عیدقربان اور عیدالفطر پڑھنے کے لیے کھلے میدان میں آتے ہیں۔‘‘
جس سے شوکت اسلام کا اظہار مقصود ہے۔
مزید رہنمائی کے لیے PDF ڈاونلوڈ کیجیے ↡↡↡Islami-Riasat-Aur-Ghair-Muslim-Shehri
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
ذمی رعیت نیا عبادت خانہ تعمیر نہیں کر سکتی :
(1)قاضی ابو یوسف تصریح فرماتے ہیں :
ويمنعوا من ان يحدثوا بناء بيعة او كنيسة فى المدينة الا ماكانوا صولحوا عليه وصارو ذمه وهى بيعة لهم او كنيسة فما كان كذلك تركت لهم ولم تهدم . (كتاب الخراج الابى يوسف ص27)
كہ ’’عیسائیوں نے نیا صومعہ اورگرجا تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہو گ۔ البتہ جو معاہدہ کے وقت گرجا موجود ہو گا اس کو گرایا نہ جائے گا ۔ وما احدث من بناء بيعة اقوه كنيسة فان ذالك بهدم (كتاب الخراج لابى يوسف ص159) نیا بیعہ او رکنیسہ گرا دیا جائے۔
(2) امام ابو الحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی 450ھ رقم فرماتے ہیں :
ولا يجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة و لاكنيسة فان احدثوها هدمت عليهم . (الاحكام السلطانية ص146)
كہ ’’اہل ذمہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دار السلام میں نیا بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں ۔ اس کی ان کو شرعاً اجازت نہیں ۔ اگر وہ کوئی بیعہ یا کنیسہ تعمیر کریں گے تواس کو گرا دیا جائے گا۔‘‘
(3)امام ابو زکریا محی الدین یحیی بن شرف النووی شافعی۔ المتوفی 676ھ تصریح فرماتےہیں :
ويمنعون من إحداث الكنائس والبيع والصوامع في بلاد المسلمين لما روى عن ابن عباس رضي الله عنه أنه قال أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم أن يبنوا فيه كنيسة.(شرح المہذب جلد19ص412)
’’مسلمانوں کےشہروں میں ذمیوں کو کنائس ، بیع اور صومعے بنانے کی اجازت نہیں کیونکہ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ جس شہر کو نئے سرے سے مسلمان آباد کریں اس میں غیر مسلم اقلیتوں کو گرجا وغیرہ بنانے کا حق نہیں ۔‘‘
(4)قاضی ابویعلیٰ حنبلی المتوفیٰ 458ھ رقم فرماتے ہیں :
ولا يجوز ان يحدثوا فى دار السلام بيعة و كنيسة فان احدثوها هدمت عليهم . (الاحكام السلطانية ص146)
اس كا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے ۔
لانحدث فى مدينتنا كنيسة ولا فيما حولها دیرا ولا قلایة ولا صومعة راهب ولانجدد ما خرب من كنائسنا ولا ماكان منها فى خطط المسلمين ولانمنع كنائسنا من المسلمين ان ينزلوها فى الليل والنهار وان نوسع ابوابها للمارة وابن السبيل ولا نؤدى فيها لاو في منازلنا جاسوسا.(المغنی لابن قدامہ ج9ص282)
’’جزیرہ کے ذمیوں کے حضرت عبدالرحمن بن غنم سے جومعاہدہ کیا تھااس میں ہی شرط بھی تھی کہ آج کے بعدہم اپنے شہر میں نہ تو کوئی کنیسہ تعمیر کریں گے اور نہ دیر ، نہ قلایہ اور نہ کسی راہب کےلیے صومعہ بنائیں گے۔
اوران میں سے جو گرجائے گا اس کو دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے، اس طرح جو گرجا وغیرہ مسلم آبادی میں ہو گا اس کو بھی دوبارہ نہیں بنائیں گے ۔ ہم اپنے گرجاؤں کومسلمانوں کے لیے رات دن کھلے رکھیں گے اور اسی طرح گزرنے والوں اور مسافروں کےلیے ان کے دروازے وسیع رکھیں گے تاکہ وہ ان میں آرام کر سکیں ۔ نہ ہم ان گرجاؤں اور اپنے گھروں میں کسی جاسوس کو ٹھہرائیں گے۔ ‘‘
(6)امام ابن قیم فرماتے ہیں :
حضرت عمر فاروق کے حامل حضرت عبدالرحمن بن غنمسے جزیرہ کے عیسائیوں نے از خود جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ بھی تھا۔
أن شرطنا لك على أنفسنا: أن لا نحدث في مدينتنا كنيسة، ولا فيما حولها ديراً، ولا قلاّية (بناء كالدير)، ولا صومعة راهب، ولا نجدد ما خرب من كنائسنا.(حقوق اھل مدینہ ج2ص 659)
’’ہم اسلام کا غلبہ تسلیم کرتے ہوئے آپ کےلیے اپنی جانوں پر یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ ہم اپنے شہر میں کوئی نیا گرجا اور علاقہ میں عابدوں کی خانقاہوں تعمیر کریں گےاورنہ کسی راہب کی کٹیا کھڑی کریں گے۔ نیز ہم اپنے پرانے گرجاؤں کی مرمت بھی نہیں کریں گے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر ج2ص 348)
ان ائمہ کرام اورماہرین قوانین اسلامی کی ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ عیسائیوں اوریہودیوں کو جب کہ وہ اہل کتاب بھی ہیں ۔ کسی مسلم ممالک میں نئے گرجے اورعبادت خانے تعمیر کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جوگر جائے اس کی تجدید بھی جائز نہیں جیسا کہ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا:
لما روى كثير بن مرة قال سمعت عمر بن الخطاب يقول : قال رسول الله ﷺ :لا تبنى الكنيسة فى دار السلام ولا يجدد ما خرب منها . (شرح المہذب ج19ص413)
کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دارالسلام میں گرجا وغیرہ بنانا جائز نہیں اور اسی طرح اگر پہلے کا بنا ہوا گرجا وغیرہ گر جائے تو اس کی تجدید بھی جائز نیہں ۔ جب اہل کتاب عیسائیوں اور یہودیوں کےلیے رسول اللہﷺ نے دار السلام میں گرجے اور صومعے تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ وہ اہل کتاب ہیں تو پھر قادیانی مرتدوں اور کافروں کو دارالاسلام اور مسلمان ملک میں مسجد کے نام سے عبادت خانہ بنانے کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے ؟ اور وہ اپنے مذہبی مرکز کو مسجد کے نام سے کیونکر پکارسکتے ہیں ؟
میدا ن میں نہیں نکلیں گے جیسے مسلمان عیدقربان اور عیدالفطر پڑھنے کے لیے کھلے میدان میں آتے ہیں۔‘‘
جس سے شوکت اسلام کا اظہار مقصود ہے۔
مزید رہنمائی کے لیے PDF ڈاونلوڈ کیجیے ↡↡↡Islami-Riasat-Aur-Ghair-Muslim-Shehri
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment