find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label shirak ko samjhe. Show all posts
Showing posts with label shirak ko samjhe. Show all posts

Shirak Ko Samjhe, Karamat ki Haqeeqat.

شرک کو سمجھیے-11: کرامت کی حقیقت
دیوان
دیوان
رکن اردو مجلس
کرامت کی حقیقت
شرک کی ساری بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے کے اختیارات ہیں۔ اس عقیدے کی بنیاد بزرگان دین کی کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس کے تحت نظام کائنات چل رہا ہے۔مثلا آگ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون کو جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون کو توڑ دیتا ہے۔ اس کو خرق عادت کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا کے لیے ہوئی تو اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی کے واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں کو ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔

معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ کے معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اس طرح آتا ہے:
انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کی مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔

اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
کلما دخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی لک ھٰذا قالت ھو من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر حساب(آل عمران- 37)
ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) حضرت مریم کے حجرے میں آتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں پاتے،انہوں نے پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ؟ انہوں نے کہا اللہ کے پاس سے،بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب روزی دیتا ہے۔

کرامت کو حق ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی کے واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کو اس کے وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام آیت- 35)
ترجمہ: اور (اے حبیب ﷺ ) اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس چلے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لے آؤ۔
نبی کا معجزہ ہو یا ولی کی کرامت اصل حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضح نہ ہو تو نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت کو ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کو ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ حالانکہ وہ تو اللہ کے حکم سے تھا۔فرمایا :
و ابریٔ الاکمہ و الابرص و احی الموتٰی باذن اللٰہ
میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں
سورہ انفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی( (الانفال-17 )
ترجمہ: اور (اے محمد ﷺ ) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔
یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
اسی طرح اولیا کرام کی جو کرامات صحیح طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس کے ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوح الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
’’جب تم اپنی مرضی مولا کی مرضی میں مٹا دو گے تو پھر تم بشری کدورتوں سے پاک ہوجاؤ گے تمہارا باطن ارادہ الہی کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (کن فیکون ،تصرفات)اور خرق عادت (کرامات) کی نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل و تصرف ظاہر عقل وحکم کے اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا حالانکہ وہ تکوین اور خرق عادت حقیقت میں اللہ کے فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں کو تبدیل کرنا ہے۔معجزوں یا کرامتوں کی حیثیت بس ایک ذریعہ کی ہے کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ کی طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک و مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان کو توحید کی حدوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف محض اللہ رب العزت ہی کو حاصل ہے۔

Share:

Shirak ko Samjhe,kis ko Pukara Jaye.

شرک کو سمجھیے-9:کس کو پکارا جائے، دعا عبادت ہے!
دیوان
دیوان
رکن اردو مجلس
کس کو پکارا جائے؟
اوپرالہ کون ہوتا ہے؟ کے عنوان کے تحت واضح کیا گیا کہ الہ کے مفہوم میں کیا کچھ داخل ہے۔ اولا تو پیچھے جو کچھ بیان کیا گیا اس کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پکارے جانے کے قابل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ لیکن وہ مسلمان جو اپنی حاجتوں کے لیے غیراللہ کو پکارتے ہیں، یہاں قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے پکارنے کو شرک بتایا ہے۔ ان آیات میں اس کی وضاحت ہے کہ ایسا کرنا شرک کیوں ہے۔ لیکن اس سےپہلے یہ آیات پڑھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان بیان کی ہے۔
وله اسلم من في السمٰوٰت والارض طوعا وكرها و اليه يرجعون (آل عمران: 83)
ترجمہ: سب اہل آسمان و زمین خوشی یا ناخوشی سے اللہ کے فرماں بردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
وان يمسسك الله بضر فلا كاشف له الا هو وان يردك بخير فلا راد لفضله (یونس: 107)
ترجمہ: اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر تم سے بھلائی کرنی چاہے تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔
اور مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے:
قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين () لا شريك له وبذلك امرت وانا اول المسلمين (الانعام:162-163)
ترجمہ: کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔
پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو بااختیار ہو، باخبر ہو، قدرت والا ہو، سمیع و بصیرہو
والذين تدعون من دونه ما يملكون من قطمير ان تدعوهم لا يسمعوا دعاءكم ولو سمعوا ما استجابوا لكم ويوم القيامة يكفرون بشرككم ولا ينبئك مثل خبير (فاطر: 13-14)
ترجمہ: اور جن لوگوں کو تم اس (اللہ) کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی تو (کسی چیز کے) مالک نہیں اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کردیں گے اور (اللہ) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا۔
یعنی اپنی حاجتوں کے لیے اسی کو پکارا جاسکتا ہے جس کو حاجتوں کو پورا کرنے کی قدرت ہو۔ غیراللہ تو کھجور کی گٹھلی پر جو باریک سی جھلی لگی ہوتی ہے اتنی چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ وہ زمان مکان سے ماورا ہر پکارنے والی کی پکار کو سنتا ہو۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔وہ بیک وقت تمام مخلوقات کی دعاؤوں کو سنتا ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دونه فلا يملكون كشف الضر عنكم ولا تحويلا (بنی اسرائیل: 56)
ترجمہ:کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے
پکارے جانے کے لائق وہی ہے جو نفع و نقصان کا اختیار رکھتا ہو
ومن اضل ممن يدعو من دون الله من لا يستجيب له الى يوم القيامة وهم عن دعائهم غافلون (الاحقاف: 5)
ترجمہ:اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔
وهم عن دعائهم غافلون
ترجمہ: ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو۔
جو سن نہیں سکتا وہ اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتا۔
دعا عبادت ہے!
قرآن پاک میں دعا کا لفظ پکارنے اور عبادت کرنے کے معنوں میں آیا ہے۔ دعا اور پکارنا خود عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وقال ربكم ادعوني استجب لكم ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين (المومن: 60)
ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے (ازراہ)تکبر (انکار) کرتے ہیں۔ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے دعا نہ کرنے والوں کو اس کی عبادت سے انکار کہا ہے یعنی دعا کرنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔
1) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن النعمان بن بشير قال سمعت رسول الله صلى الله عليه يقول ان الدعاء هو العبادة ثم قرا ادعوني استجب لكم (سنن الترمذی)
ترجمہ: نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دعا عبادت ہے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے آیت پڑھی ادعوني استجب لكم
2) حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
عن ابن عباسؓ افضل العبادة هو الدعاء وقرا وقال ربكم ادعوني استجب لكم ان الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين.(مستدرک حاکم)
ترجمہ: بہترین عبادت دعا ہے اور اس کےبعد یہ آیت تلاوت کی وقال ربكم ادعوني استجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين
3) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن ابي هريرة ؓعن النبي صلى الله عليه وسلم قال اشرف العبادة الدعاء (الادب المفرد، للبخاری)
ترجمہ: دعا تمام عبادتوں میں اشرف (اعلی ترین) عبادت ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جلاء الخواطر کی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:
اے اللہ کے بندو! عقل سیکھو، اپنے معبود کو اپنی موت سے پہلے پہچاننے کی کوشش کرو، اپنی حاجات مانگو، تمہارا دن رات اس سے مانگنا اس کی عبادت ہے۔

Share:

Gairullah ko Pukarna kyu Galat hai?

شرک کو سمجھیے-10: غیر اللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟، مشرکین عرب اورآج کل کا غلو، شفاعت کس کو کہتے ہیں
دیوان
دیوان
رکن اردو مجلس
غیراللہ کو پکارنا کیوں غلط ہے؟
ياايها الناس ضرب مثل فاستمعوا له ان الذين تدعون من دون الله لن يخلقوا ذبابا ولو اجتمعوا له وان يسلبهم الذباب شيئا لا يستنقذوه منه ضعف الطالب والمطلوب (الحج: 73-74)
ترجمہ: لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں۔ اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے جائے تو اسے اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب اور مطلوب (یعنی عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں
اس آیت سے چند باتیں واضح ہوئیں۔ مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ وہ جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو:· وہ کوئی چیز بنا نہیں سکتے کیونکہ وہ خالق نہیں ہیں۔ تخلیق ایک مافوق الاسباب (یعنی انسانی کو جو اسباب میسر ہیں ان سے بالا) امر ہے جو صرف اللہ رب العزت ہی کی صفت ہے۔· انہیں کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ مکھی جیسی بے حیثیت مخلوق بھی اگر کوئی چیز لے جائے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔
قل افرءيتم ما تدعون من دون الله ان ارادني الله بضر هل هن كاشفات ضره او ارادني برحمة هل هن ممسكات رحمته قل حسبي الله عليه يتوكل المتوكلون (الزمر: 38)
ترجمہ: کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں
اس آیت میں مشرکین عرب کو خطاب کرکے بتایا گیا ہےکہ:
· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے یعنی وہ مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
· وہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے وہ کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتے۔· مشرک کا بھروسہ غیراللہ پر ہوتا ہے۔
·مومن کا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتاہے۔
صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جنگ احد کے دن ایک موقعے پر ابوسفیان نے کچھ باتیں کہیں اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا جواب دیا گیا۔ غور سے پڑھیے!
قال ابو سفيان اعل هبل (صنمهم الذي يعبدونه )
ترجمہ: ابوسفیان نے کہا: ہبل (بت کا نام) سربلند ہو (ھبل سے مدد مانگی)
فقال النبي ﷺ اجيبوه قالوا ما نقول
ترجمہ: اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو جواب دو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا:’’کیا کہیں؟‘‘
قال قولوا الله اعلى و اجل
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کہو، اللہ ہی کے لیے سربلندی ہے وہی بزرگ (بھی) ہے‘‘
قال ابو سفيان لنا العزى ، ولا عزى لكم
ترجمہ: اس پر ابوسفیان بولا: ’’ہمارے پاس عزی (ان کے بت کا نام) ہے اور تم لوگوں کے پاس کوئی عزی نہیں۔‘‘ (تم لوگ بے یار و مددگار ہو)
فقال النبي ﷺ اجيبوه ، قالوا : ما نقول؟ ، قال : قولوا : الله مولانا ولا مولى لكم
ترجمہ:اس پررسول اللہﷺنےحکم فرمایا: ’’اس کوجواب دو۔‘‘ لوگوں نےپوچھا:’’کیاکہیں؟‘‘ رسول اللہﷺنےفرمایا: ’’کہو، اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔‘‘(حاشیہ: [1])
مشرکین عرب اور آج کل کا غلو
مشرکین عرب بعض معاملات میں اپنے الہوں کو اپنا سفارشی اورمتصرف سمجھتے تھے لیکن بڑے بڑے کاموں اور انتہائی مشکل وقت میں وہ بھی اللہ ہی کو پکارتے تھے۔
مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے پہلی مثال
ارشاد ربانی ہے:
فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجاهم الى البر اذا هم يشركون (العنکبوت: 65)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے (اور) خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگے جاتے ہیں
فرمایا:فاذا ركبوا في الفلك دعوا الله مخلصين له الدين
ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں سے بحفاظت منزل تک پہنچادینا مافوق الاسباب امر ہے، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں یہ بات مشرکین عرب بھی سمجھتے تھے اس لیے ایسے موقعوں پر ان کی امیدوں کا مرکز صرف اللہ ہوتا تھا۔
سنن النسائی کی ایک روایت میں آتا ہے:
حضرت عکرمہؓ بن ابوجہل فتح مکہ کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے سمندر کے راستے فرار ہونے کے لیے ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ کشتی طوفان میں پھنس گئی تو ملاحوں نے مسافروں سے کہا:
اخلصوا فان آلهتكم لا تغني عنكم شيئا هاهنا (سنن النسائی)
ترجمہ: یعنی مشرکین عرب موجوں کے تھپیڑوں میں خالص اللہ کو یاد کرتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کا عقیدہ کیا ہے پڑھیے: پورے اخلاص والے ہوجاؤ (یعنی پورے اخلاص سے اللہ تعالیٰ کو پکارو) کیونکہ تمہارے الہ اس موقع پر تمہارے کام نہیں آسکتے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
المدد یاغوث اعظم المدد یادستگیر
تیری نگاہ درکار ہے پیران پیر

جہاز تاجراں گرداب سے فورا نکل آیا
وظیفہ جب انہوں نے پڑھ لیا یاغوث اعظم کا

مشرکین عرب مافوق الاسباب امور میں صرف اللہ کو پکارتے تھے دوسری مثال
· قرآن پاک میں آتاہے:
قل ارايتكم ان اتٰكم عذاب الله او اتتكم الساعة اغير الله تدعون ان كنتم صادقين() بل اياه تدعون فيكشف ما تدعون اليه ان شاء وتنسون ما تشركون() (الانعام: 40-41)
ترجمہ: کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)، بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لئے اسے پکارتے ہو وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو
عن عمران بن حصين: قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي كم تعبد اليوم الها فقال ستة في الارض وواحدا في السماء قال فايهم تعد لرغبتك ورهبتك قال الذي في السماء (سنن الترمذی)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: ’’آج کل تم کتنے الہوں کی عبادت کرتے ہو؟‘‘ (میرے باپ نے) کہا: ’’چھ زمین پر اور ایک (وہ جو) آسمان پر ہے( کی)۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (مزید) پوچھا:’’ان میں خوف و امید کے وقت تم کس الہ کو کام کا سمجھتے ہو؟‘‘ میرے باپ نے کہا:’’وہی جو آسمانوں میں ہے۔‘‘
یعنی تمام امور میں جن میں مخلوق کا کوئی اختیار نہیں، مشرکین مکہ خوف اور امید اللہ ہی کے ساتھ رکھتے تھے۔ اب پڑھیے کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے:
انت شافی انت کافی فی مہمات الامور
انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل
یعنی تمام بڑے بڑے مسائل (مہمات الامور) میں مجھے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کافی ہیں۔ وہی میرے لیے کافی ہیں وہ میرے رب ہیں۔بہترین سازگار۔
مشرکین مکہ شفا اللہ سے مانگتے تھے، تیسری مثال
مشرکین عرب نے رسول اللہ ﷺ کی توحید کی دعوت سن کر آپ کو مجنون مشہور کردیا تھا اس پر ضماد نامی ایک کافر جو جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا اس نے کہا:
لوارايت هذاالرجل لعل الله يشفيه على يدي(صحیح مسلم)
ترجمہ: اگر میرا ان پر گزر ہوا تو ممکن ہے اللہ میرے ہاتھوں ان کو شفا دے دے۔
یعنی مشرکین عرب بھی شفا کی امید اللہ تعالیٰ ہی سے رکھتے تھے۔ کلمہ گو مشرک کیا کہتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
شفا پاتے ہیں صدہا جاں بلب امراض مہلک سے
عجب دارالشفا ہے آستانہ غوث اعظم کا
شیخ عبدالقادر جیلانی کا یہ قول ذرا غور سے پڑھیے:
تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔ تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔ تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے
ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہ لا یحب المعتدین (الاعراف -55)
یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔
کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔ (ملفوظات شیخ)
خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ بالکل نہیں چھوڑ بیٹھے تھے اور صرف بتوں کو ہی اپنا سب کچھ نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔ اس کے برخلاف آج شرک میں الجھے ہوئے کلمہ گو ہر چیز کی امید غیراللہ ہی سے لگائے بیٹھے ہیں۔
شفاعت کس کو کہتے ہیں؟
مشرکین عرب اپنے معبودوں کو اللہ کے یہاں سفارشی سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
ترجمہ: یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
شفاعت کا مطلب ہے کسی دوسرے کو نفع پہنچانے یا اس سے نقصان کو دور کرنے کے لیے سفارش کرنا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو جس کی سفارش قبول کی جاتی ہے وہ یا تو وجاہت کے سبب ہوتی ہے یا چاہت کے سبب۔
وجاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا اتنا بااختیار ہے کہ حاکم وقت اس کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول سکتا۔
چاہت کا مطلب یہ ہے کہ سفارش کرنے والی کی حیثیت ایسی ہے کہ خود حاکم وقت کو اس سے تعلق رکھنے کی ضرورت ہے لہذا وہ اس کی سفارش کو مان لیتا ہے۔یا پھر کبھی سفارش کرنے والے کے کسی احسان کا بدلہ چکانا مطلوب ہوتا ہے اس لیے اس کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں باتوں سے بالاتر ہے۔ وہ نہ کسی چیز کی امید کرتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ کسی کا محتاج ہے۔ سورۃ سبا آیات 23 اور 24 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله
کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔
لا يملكون مثقال ذرة في السماوات ولا في الارض
وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں
وما لهم فيهما من شرك
اور نہ ان میں ان کی (اللہ کے ساتھ) شرکت ہے
و ما له منهم من ظهير ()
اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
ولا تنفع الشفاعة عنده الا لمن اذن له حتىٰ اذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير()
اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
-------------------------------------------------------------
[1]: غور کریں اہل حق اور اہل ہوی کا یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ ایک طرف اللہ ہی اللہ دوسری طرف غیراللہ!

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS