Gair Muslim ko Salam karna Kaisa Hai, Kya Gair Muslim Ko Salam ka Jawab De Sakte Hai , Salm ka Byan
غیر مسلم کو سلام اور جواب
سوال:
میں ایک فیکٹری میں ملازم ہوں‘ میرے ساتھ کچھ عیسائی بھی کام کرتے ہیں‘ وہ میل ملاقات کے وقت مجھے سلام کہتے ہیں‘ کیا انہیں جواب دیتے وقت ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ نیز میں انہیں سلام کہہ سکتا ہوں؟ اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
جواب:
بوقت ملاقات سلام کہنا ہم مسلمانوں کا شعار ہے‘ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ ملے تو اسے سلام کہا جائے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ جب وہ اس سے ملاقات کرے تو سلام کرے۔‘‘ (مسلم‘ السلام: ۵۶۵۱)
اس کے علاوہ ’’السلام علیکم‘‘ دعائیہ کلمات بھی ہیں‘ جس کا معنی ہے ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ اس بناء پر غیر مسلم کو ’’السلام علیکم‘‘ نہیں کہنا چاہیے‘ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہود ونصاریٰ کو تم سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔‘‘ (مسلم‘ السلام: ۵۶۶۱)
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اہل کتاب کو ابتدائی طور پر سلام کرنے کی ممانعت ہے۔‘‘ اگر وہ سلام کریں تو انہیں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنے کی بجائے صرف ’’وعلیکم‘‘ کہا جائے‘ اس امر کی بھی حدیث میں صراحت ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں صرف یہ کہو ’’وعلیکم‘‘ تم پر ہو۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد سلام کے وقت بد دعا کی نیت کرتے تھے‘ یعنی وہ ’’السام علیکم‘‘ کہتے تھے‘ جس کا معنی ہے: ’’تم پر موت واقع ہو۔‘‘ اس کے جواب میں ’’وعلیکم‘‘ کہا جائے کہ جو تم ہمارے لیے مانگتے ہو وہی تم پر ہو۔ اس لیے ان احادث کی روشنی میں انہیں نہ تو ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور نہ ہی ان کے سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہا جائے بلکہ ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر جواب دے دیا جائے۔ واللہ اعلم!
سوال:
میں ایک فیکٹری میں ملازم ہوں‘ میرے ساتھ کچھ عیسائی بھی کام کرتے ہیں‘ وہ میل ملاقات کے وقت مجھے سلام کہتے ہیں‘ کیا انہیں جواب دیتے وقت ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ نیز میں انہیں سلام کہہ سکتا ہوں؟ اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟
جواب:
بوقت ملاقات سلام کہنا ہم مسلمانوں کا شعار ہے‘ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ ملے تو اسے سلام کہا جائے۔ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے: ’’مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ جب وہ اس سے ملاقات کرے تو سلام کرے۔‘‘ (مسلم‘ السلام: ۵۶۵۱)
اس کے علاوہ ’’السلام علیکم‘‘ دعائیہ کلمات بھی ہیں‘ جس کا معنی ہے ’’تم پر سلامتی ہو‘‘ اس بناء پر غیر مسلم کو ’’السلام علیکم‘‘ نہیں کہنا چاہیے‘ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہود ونصاریٰ کو تم سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔‘‘ (مسلم‘ السلام: ۵۶۶۱)
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’اہل کتاب کو ابتدائی طور پر سلام کرنے کی ممانعت ہے۔‘‘ اگر وہ سلام کریں تو انہیں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہنے کی بجائے صرف ’’وعلیکم‘‘ کہا جائے‘ اس امر کی بھی حدیث میں صراحت ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں صرف یہ کہو ’’وعلیکم‘‘ تم پر ہو۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد سلام کے وقت بد دعا کی نیت کرتے تھے‘ یعنی وہ ’’السام علیکم‘‘ کہتے تھے‘ جس کا معنی ہے: ’’تم پر موت واقع ہو۔‘‘ اس کے جواب میں ’’وعلیکم‘‘ کہا جائے کہ جو تم ہمارے لیے مانگتے ہو وہی تم پر ہو۔ اس لیے ان احادث کی روشنی میں انہیں نہ تو ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور نہ ہی ان کے سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہا جائے بلکہ ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر جواب دے دیا جائے۔ واللہ اعلم!