find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label jannat. Show all posts
Showing posts with label jannat. Show all posts

Jannat me Mardo ko Hooren milegi to Auraton ko kya milega, Duniya me Koi Khawateen Agar Ek se Jyada Mardo se Shadi ki hogi to wah Jannat me kis ke sath rahegi?

Agar Jannat me Mard ko Hooorein milegi to Aurato ko kya milega?

Sawal: Quran me Jagah Mardo Mardo ke liye Hooron ka Zikr hai, magar Auraton ke liye Zikr nahi, to Jannat me Auraton ko kya Milega? Jis aurat ki Shadi nahi hui ya Duniya me ek se jyada mardo se Shadi hui ya uska Shauhar Jahannum me hoga to wah Jannat me kis ke sath rahegi?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-196"
سوال_قرآن میں جگہ جگہ مردوں کے لیے حوروں کا ذکر ہے، مگر عورتوں کے لیے ذکر نہیں، تو جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟ اور جس عورت کی شادی نہیں ہوئی یا دنیا میں ایک سے زائد مردوں سے شادی ہوئی یا اسکا شوہر دوزخ میں گیا تو وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟

Published Date: 23-1-2019

جواب:
الحمدللہ:

*انسانی ذہن تجسس و سوالات کی آماجگاہ ہے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اگر انکے جوابات نہ دیے جائیں تو شکوک وشبہات اپنی جگہ لینے لگتے ہیں،یہ سوال بہت سے لوگ پوچھ چکے ہیں کہ جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی تو جو عورتیں ہوں گی انکو کیا ملے گا ؟ یہ ناانصافی نہ ہوگی کہ انکے لیے کوئی نہیں تو اس سوال کا مختصر پیرائے میں جواب قرآن و حدیث کے مطابق دینے کی کوشش کرتے ہیں،*

اسلام ایک مکمل دین ہے اس قدر مکمل کہ انسانوں کے حقوق سے لے کر جانوروں کے حقوق بھی اس دین نے ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں عورت کو جو مقام و مرتبہ اسلام نے دیا ہے وہ کوئی مذہب نہ دے سکا،

اگر تو آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ مرد کو بہت سی عورتیں اور حوریں ملیں گی اور عورتوں کو کتنے مرد ؟

تو یہ انتہائی واہیات بات ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا،لیکن اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں،
*کیا دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ قابل قبول ہے کہ ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں .اگرچہ یہ عادت یعنی پولی گیمی افریقہ کے بہت پرانے معاشروں میں اور ہندو مت میں بھی کسی صورت میں موجود رہی ہے،مگر ایک ذرا سا بھی سمجھ دار اور غیرت مند شخص اس کے جواز کے لیئے کوئی رائے قائم کر سکتا ہے کیا.؟؟؟.......ہرگز نہیں ہرگز نہیں...
پھر اللہ سے بڑا غیرت مند کون ہے،
اللہ سے بڑا عزت دار کون ہے ...
کیا اللہ کے ہاں ایسی بات کو گوارا کیا جا سکتا ہے؟؟؟

*دوسری بات کہ*
قرآن میں جگہ جگہ حوروں کا ذکر نہیں نہیں،بلکہ جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ہے جو ہر مومن مرد و عورت کو یکساں طور پر ملیں گی، حوروں کا تذکرہ قرآن میں تقریباً صرف چار مقامات پر ہے,اب رہا آپ کا سوال کہ عورتوں کو جنت میں کیا ملے گا، تو واضح رہے کہ قرآن نے اس حوالے سے بالکل صراحت کے ساتھ جو لفظ استعمال کیا ہے وہ زوج (ازواج) کا ہے ۔جس کے معنی جوڑا یعنی Spouseکے ہیں ۔ یعنی مرد و عورت دونوں کے لیے جوڑے ہوں گے،

*لفظ حور جو قرآن کریم میں چار مختلف مقامات پراستعمال ہوا ہے*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذٰلِكَ  وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍؕ
’’یوں ہی ہوگا اور ہم ان کا نکاح کردیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے۔‘‘
(الدخان :54)

مُتَّكِـــِٕيۡنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَةٍ‌ ۚ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍ
ایسے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جو قطاروں میں بچھائے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کا نکاح سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتوں سے کردیا، جو بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں۔‘‘
(الطور : 20)

حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِى الۡخِيَامِ‌
سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں، جو خیموں میں روکی ہوئی ہیں۔۔‘‘
(الرحمٰن :72)

وَحُوۡرٌ عِيۡنٌۙ
كَاَمۡثَالِ اللُّـؤۡلُـوٴِالۡمَكۡنُوۡنِ‌ۚ
’’اوران کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔‘‘
(الواقعۃ : 23,22)

*حور کا مطلب*
قرآن کریم کے بہت سے مترجمین نے لفظ حور کا ترجمہ خصوصاً اردو تراجم میں خوبصورت دوشیزائیں یا لڑکیاں کیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف مردوں کے لیے ہوں گی۔ تب جنت میں جانے والی عورتوں کے لیے کیا ہوگا؟

لفظ ’’حُوْر‘‘ فی الواقع اَحْوَرْ (مردوں کے لیے قابل اطلاق) اور حَوْرَاء ( عورتوں کے لیے قابل اطلاق) دونوں کا صیغہ ٔ جمع ہے اور یہ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی آنکھیں حَوْرَ سے متصف ہوں، جو جنت میں جانے والے مردوں اورخواتین کی صالح ارواح کو بخشی جانے والی خصوصی صفت ہے اور یہ روحانی آنکھ کے سفید حصے کی انتہائی اجلی رنگت کو ظاہر کرتی ہے،

دوسری کئی آیات میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جنت میں تمھارے ازواج، یعنی جوڑے ہوں گے۔ اور تمھیں تمھارا جوڑا یا پاکیزہ ساتھی عطاکیا جائے گا۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ‌ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ‌ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ‌ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ
ترجمہ:
اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بیشک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
(سورہ البقرۃ : 25)

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ لَـهُمۡ فِيۡهَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ  وَّنُدۡخِلُهُمۡ ظِلًّا ظَلِيۡلًا
ترجمہ:
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔۔‘‘
(النساء :57)

لہٰذا لفظ ’’ حُور‘ ‘ کسی خاص جنس یا صنف کے لیے مخصوص نہیں۔ علامہ محمد اسد نے لفظ حور کا ترجمہ خاوند یا بیوی (Spouse)کیا ہے ،
جبکہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ ساتھی (Companion)کیا ہے،

*چنانچہ بعض علماء کے نزدیک جنت میں کسی مرد کو جو حور ملے گی وہ ایک بڑی بڑی چمکتی ہوئی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ ہوگی جبکہ جنت میں داخل ہونے والی عورت کو جو ساتھی ملے گا وہ بھی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہوگا*

علماء کا خیال ہے کہ قرآن میں جو لفظ ’’حور‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد صرف خواتین ہیں کیونکہ اس کے بارے میں خطاب مردوں سے کیا گیا ہے۔ اس کا وہ جواب جو سب قسم کے لوگوں کے لیے لازماً قابل قبول ہو، حدیث مبارک میں دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے : 
قَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالی: اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِینَ مَا لَا عَیْنٌ رَاَتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ ’’
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے نہ ان کے کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے ۔‘‘
(صحیح البخاری ، التفسیر ، حدیث: 4779) 

حدیث کے لفظ عِبَاد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں،لہذا مردوں کا جوڑا عورتوں کے ساتھ اور عورتوں کا مردوں کے ساتھ بنایا جائے گا۔

*اور قرآن میں زوج کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ یہ کہنا کہ عورتوں کو مرد دیے جائیں گے، حیا کے منافی تھا،*

رہا سوال حوروں کے خصوصی تذکرے کا تو انسانی نفسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس معاملے میں مردوں کی نفسیات عورتوں سے ذرا مختلف رہی ہے۔ اس نفسیات کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

البتہ اس کی ایک جھلک دیکھنی ہے تو موجودہ دور کے میڈیا میں اشتہارات کی صنعت اور ان میں عورتوں کے استعمال کودیکھ لیجیے یا تاریخ کے اوراق میں طاقتور لوگوں کے حرم کی داستانوں کی تفصیلات پڑ ھ لیجیے،
اسی نفسیات کی بنا پر قرآن بھی بعض مقامات پر حوروں کا ذکر کر دیتا ہے، وگرنہ اس کا اصولی موقف جنت کی ان نعمتوں کے بارے میں جن کی طلب فطرتِ انسانی میں پائی جاتی ہے ،

اللہ پاک فرماتے ہیں:

اور تم کو اس (جنت) میں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے ،
(سورہ فصلت:آئیت نمبر_31)

*جنت کی نعمتوں کے حوالے سے جب کوئی سوال پیدا ہو تو قرآن کی اس آیت کو پڑھ لیا کریں ہر سوال کا جواب اس مختصر آیت میں پوشیدہ ہے*

اور آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ،
 اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے:آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (الکھف _49)

اور دوسرے مقام پر فرمایا :
( بے شک اللہ تعالی ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دگنی کر دیتا ہے اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے )
(سورہ النساء / 40)

اللہ تعالی نے اس شریعت کو مردوں اور عورتوں کے لۓ برابر نازل کیا ہے قرآن کریم میں جہاں بھی مردوں کو خطاب ہے وہی عورتوں کو بھی ہے اور جہاں پر حکم میں مردوں کو خطاب کیا گیا ہے اس میں عورتیں بھی داخل ہیں الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل ہو جہاں پر مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیا گیا ہو مثلا جہاد اور حیض اور ولی کے احکام میں فرق ہے وغیرہ ۔

*اور اس بات کی دلیل کہ جہاں پر مذکر کا صیغہ استعمال ہوا اور اس میں مونث یعنی عورتیں بھی داخل ہیں*

 عائشہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذیل حدیث ہے :
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :
< رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو ( اپنے کپڑوں میں ) گیلا پن (تری) پاتا ہے لیکن اسے احتلام کا یاد نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غسل کرے اور اس شخص کے متعلق جسے احتلام ہوا لیکن گیلا پن نہیں پاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس پر غسل نہیں ہے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کہنے لگیں عورت دیکھے تو کیا اس پر بھی غسل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس پر بھی اس لیۓ کہ عورتیں مردوں کی طرح ہیں )
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-236)

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ
آپ نے فرمایا:
عورتیں بھی ( شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں
(سنن ترمذی حدیث نمبر 113)
( صحیح الجامع حدیث نمبر 2333)

________&_______

*اور یہ کہ آخرت میں عورت کو جنت میں کیا بدلہ ملے گا تو اس کے متعلق ذیل میں کچھ آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں*

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ہجرت کے معاملہ میں اللہ تعالی کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئےنہیں سنا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی :

( تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی کہ بیشک میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہر گز ضائع نہیں کرتا تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیۓ گۓ اور جنہیں میری راہ میں ایذا اور تکلیف دی گئي اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کر دۓ گۓ میں ضرور اور لازمی ان کی برائیاں ان سے معاف کر دوں گا اور یقینا انہیں ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے ثواب اور اجر ہے اور اللہ تعالی کے پاس ہی بہترین ثواب ہے )
(سورہ آل عمران آئیت نمبر_ 195)

(سنن ترمذی حدیث نمبر 3023)

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
( اللہ تعالی کا فرمان ہے ( ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی) یعنی ان کے رب نے قبول فرما لیا اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ( بیشک میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرتا )

تو یہ اس قبولیت کی تفسیر ہے یعنی اللہ تعالی نے انہیں خبر دیتے ہوئےیہ کہا کہ وہ تم میں سے کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ہر عمل کرنے والے کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت اسے انصاف کے ساتھ پورا پورا بدلہ دے گا ،اور اللہ تعالی کا یہ قول کہ :( تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ) یعنی تم سب ثواب میں برابر ہو،

اور اللہ تعالی کا فرمان :
( اور جو مرد اور عورت بھی ایمان کی حالت میں نیک اعمال کرے تو یہی لوگ جنت میں جائیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ان پر ظلم نہیں ہو گا )
(سورہ  النساء ،آئیت نمبر_ 124)

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے :
اس آیت میں اللہ تعالی کا اپنے بندوں چاہے وہ مرد ہو یا عورت ان کے اعمال کو قبول کرنے میں اللہ کا احسان اور اس کا کرم اور اس کی رحمت کا بیان ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ بندے مومن ہوں اور انہیں اللہ تعالی یقینا جنت میں داخل کرے گا اور ان کی نیکیوں کے بارہ میں کسی ایک پر نقیر کے برابر بھی ظلم نہیں ہو گا اور نقیر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کو کہتے ہیں،

اور فرمان ربانی ہے :
( جو بھی اعمال صالحہ کرے اگرچہ وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو مومن تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور اور یقنی طور پر دیں گے )
(سورہ النحل_ 97)

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
( اللہ تعالی کی طرف سے اس شخص کے لۓ یہ وعدہ ہے جو نیک اعمال کرے اور وہ عمل کتاب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونے ضروری ہیں اگرچہ یہ عمل مرد یا پھر عورت کے ہوں اور اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہونا ضروری ہے اور پھر یہ عمل جس کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے مشروع ہے اس کی بنا پر اللہ تعالی اسے دنیا میں اچھی زندگی مہیا اور اسے اس کی عمل کا آخرت میں اچھا بدل دے گا اور اچھی زندگی ہر اعتبار سے راحت پر مشتمل ہے )

ارشاد باری تعالی ہے :
( جس نے گناہ کیا اسے تو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور جس نے نیکی کی چاہے وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو مومن تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بغیر حساب کے روزی پائیں گے )
(سورہ غافر ،آئیت نمبر_ 40)

* آپ کے سامنے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے آپ کے سینے میں عورتوں کے ذکر کے متعلق تمام وسوسوں کا قلع قمع کر دے گی*

ام عمارہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھتی ہوں وہ سب کچھ مردوں کے لۓ ہی ہے اور مجھے عورتوں کے متعلق کچھ ذکر نہیں ملتا تو یہ آیت نازل ہوئی :
( بیشک مسمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں )
(سورہ الاحزاب،35)
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3211 )

اور مسند احمد میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے :
( ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے کہ ہمارا ذکر قرآن کریم میں اس طرح نہیں جس طرح کہ مردوں کا ہے تو وہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے کسی چیز نے بھی کسی دن خوفزدہ نہیں کیا مگر ان کی منبر پر آواز نے آپ یہ فرما رہے تھے کہ اے لوگو ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں اپنے سر کو سنوار رہی تھی تو میں نے اپنے بالوں کو لپیٹا اور دروازے کے قریب آئی اور کان دہلیز کے ساتھ لگا دیۓ تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئےسنا بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
( بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومنہ عورتیں اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لۓ اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بہت زیادہ ثواب تیار کر رکھا ہے )
( سورہ الاحزاب آئیت نمبر 35)

*جنت میں داخل ہونے والی خواتین کو اللہ تعالی نئے سرے سے پیدا فرمائیں گے اور وہ کنواری حالت میں جنت میں داخل ہوں گی اور ہمشیہ کنواری رہیں گی، انکے خاوند جب بھی ان سے ملاپ کریں گے تو ہر دفعہ انہو کنوارا پائیں گے اور اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی اور جنتی خواتین اپنے شوہروں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ہوں گی،*

قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو اس طرح بیان کیا ہے

اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰهُنَّ اِنۡشَآءًۙ @ فَجَعَلۡنٰهُنَّ اَبۡكَارًاۙ‏ @ عُرُبًا اَتۡرَابًاۙ
اہل جنت کی بیویوں کو ہم نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں اور انکی ہم عمر
(سورہ الواقعہ ،آئیت نمبر_35٫36٫37)

*اہل ایمان میں مردوں کے ساتھ کوئی خاص معاملہ نہ ہوگا بلکہ ہر نفس کو اسکے اعمال کے بدولت نعمتیں عطا کی جائیں گی اور ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہ ہوگی اور جنت کی خوشیوں کی تکمیل خواتین کی رفاقت میں ہو گی*

اللہ پاک فرماتے ہیں:
اُدۡخُلُوا الۡجَنَّةَ اَنۡتُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ‌
جنت میں داخل ہوجاؤ تم اور تمہاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے۔
(سورہ زخرف ائیت نمبر-70)
تفسیر:
اسکی تفسیر میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو دنیا میں ان کے ہم مشرب اورساتھی رہے۔ دوسری یہ کہ مراد ان کی بیویاں ہیں جنہوں نے نیک اعمال میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ دونوں بیک وقت بھی مراد ہوسکتے ہیں، مگر بیویاں مراد لینا زیادہ قریب ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ان کا بار بار ذکر ہے اور ان کے ساتھ مل کر جانے میں جو لذت اور خوشی ہے وہ دوسرے ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ نہیں۔
(مزید دیکھیے سورة یٰسین (٥٥، ٥٦)
دخان (٥٤) ، واقعہ (٢٢، ٢٣) ،
رحمان (٧٠ تا ٧٢) ، صافات (٤٨)
اور سورة ص (٥٢)

*جنت میں حوروں سے افضل مقام نیک صالح عورت کو حاصل ہوگا مرد کو حوریں ملیں گی تو نیک مرد کی نیک بیوی ان حوروں کی سردار ہوگی*

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے میں نے عرض کیا " اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم !
یہ فرمائیے کہ دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنت کی حور ؟ "
آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دنیا کی خاتون کو جنت کی حور پر وہی فضیلت حاصل ہو گی جو ابرے (باہر والا کپڑا) کو استر (اندر والا کپڑا ) پر حاصل ہوتی ہے (طبرانی مجمع الزوائد الجز ء العاشر ،رقم الصفحہ (418-417 )

*یہ ان انعامات کو مختصر سے بھی مختصر حصہ ہے جو جنت میں عورتوں کو عطا کیے جائیں گے،جنتی عورتیں حسن وجمال اور حسن سیرت کے اعتبار سے بے مثال ہوں گی،عورت کے اندر فطری طور پر حیا کا مادہ مرد کی نسبت زیادہ ہے اور وفاداری و محبت بھی خالص ایک کے لیے رکھتی ہے اور حسن و جمال اور زینت کو پسند کرتی ہے ان تمام باتوں کی مناسبت سے جنت میں یہ عیش کریں گی اور نیک عورتیں حوروں پر افضل ہوں گی*

__________&________

*رہی یہ بات کہ جس عورت کے دنیا میں ایک سے زیادہ خاوند ہوں گے وہ عورت جنت میں کس خاوند کے ساتھ ہوگی؟*

اس مسئلہ کے بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:

1- ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے  اچھے سلوک کرنے والے  خاوند کے ساتھ ہوگی۔

2- ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

3- وہ سب سے آخری خاوند کی بیوی  ہوگی،

*اس بارے میں قریب ترین، اور صحیح ترین قول  آخری قول ہی ہے، کہ جنتی عورت دنیا کے آخری شوہر کی بیوی ہو گی اور  اسی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع حدیث بھی ملتی ہے*

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کسی خاتون کا خاوند فوت ہو جائے، اور وہ اس کے بعد آگے شادی کر لے تو وہ [آخرت میں] آخری خاوند کیلئے ہوگی)
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے
(صحیح الجامع: (2704)
اور "سلسلہ صحیحہ_1281)
میں  صحیح قرار دیا ہے۔

یہ تو ہے مختصر جواب، جبکہ  تفصیلی اور مذکورہ بالا تینوں اقوال  کے دلائل درج ذیل ہیں:

*پہلے قول کی دلائل:*

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر بن نجاد نے ذکر کیا ہے کہ  ہمیں جعفر بن محمد بن شاکر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں  عبید بن  اسحاق عطار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں  سنان بن ہارون نے حمید سے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ایک عورت کے دنیا میں دو خاوند ہو، اور پھر وہ فوت ہو کر تمام جنت میں اکٹھے   ہو جائیں تو ان دونوں میں سے کس کے پاس جائے گی؟ پہلے خاوند کے پاس یا دوسرے کے پاس ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ام حبیبہ! جو اس خاتون کیساتھ  اچھے سلوک کے ساتھ رہتا ہو گا اسی کے پاس جائے گی، حسن خلق دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹ لیتا ہے)
(التذكرة في أحوال الموتى والآخرة2 / 278 )
(طبرانی النھایہ لابن کثیرفی الفتن والملاحم الجز الثانی رقم الصفحہ 387 )

یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اور اس  کے ضعیف ہونے کی وجہ دو راوی ہیں،
1_عبید بن اسحاق عطار: جو کہ سخت ترین ضعیف راوی ہے،
2_جبکہ سنان بن ہارون: ضعیف ہے۔

چنانچہ اس حدیث سے استدلال کرنا بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اسلیے پہلا قول (کہ عورت سب سے اچھے اخلاق والے شوہر ساتھ جنت میں ہوگی) ساقط ہو گیا،

*دوسرے قول کی دلیل:*
یعنی: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

مجھے اس قول کے قائلین کی کوئی دلیل نہیں ملی۔

تاہم  " التذكرة في أحوال الموتى والآخرة " ( 2 / 278 ) میں صاحب کتاب نے یہی مسئلہ ذکر کرنے کے بعد کہا:  "یہ بھی کہا گیا ہےکہ : اگر اسکا [دوسرا] خاوند ہو اتو ایسی خاتون کو اختیار دیا جائے گا" انتہی

عجلونی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی خاتون زیادہ اچھے  اخلاق والے خاوند کیساتھ ہوگی! اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ :  خاتون کو ہر دو میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا جائے گا"
" كشف الخفاء " (2 / 392)

البتہ اسی موقف کو ابن عثیمین حفظہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، جیسے کہ آپ کے فتاوی: (2/53) میں یہ بات موجود ہے۔

*تیسرے اور درست قول کی دلیل*

امام ابو الشیخ اصبہانی  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں  احمد بن اسحاق جوہری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن زرارہ نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو ملیح  رقی نے حدیث بیان کی، انہوں نے میمون بن مہران سے اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی کہ
ابو درداء رضی اللہ عنہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:
([قیامت کے دن]عورت اپنے آخری خاوند  کیلئے ہوگی)"
" طبقات المحدثين بأصبهان " ( 4 / 36 )

اس حدیث کے رواۃ مشہور  ثقہ راوی ہیں، صرف احمد بن اسحاق جوہری  کے حالات زندگی نہیں ملے، تاہم  ابو الشیخ [مؤلف] نے خود ہی اس حدیث کو انکی حسن احادیث میں شمار کیا ہے
اور اگر حقیقت بھی ایسے ہی ہے تو یہ سند اس مسئلہ کے بارے میں اعلی ترین  سند ہوگی۔ (واللہ اعلم)

اس پر ایک اثر بھی ہے جسے ابن عساکر نے
( 19 / 193 / 1 ) عکرمہ سے بیان کیا ہے کہ:
"اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا زبیر بن عوام  کے عقد میں تھیں،  زبیر آپ  پر  بہت گراں تھے، تو انہوں نے آکر اپنے والد [ابو بکر] سے اس بات کی شکایت کی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "بیٹی  صبر کرو! کیونکہ  جب عورت کا خاوند اچھا ہو، اور  وہ فوت ہو جائے، پھر عورت بھی اس کے بعد کہیں اور شادی نہ کرے تو انہیں جنت میں بھی اکٹھا کر دیا جائے گا"

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اس اثر کے تمام راوی ثقہ ہیں، تاہم اس میں انقطاع ہے، کیونکہ عکرمہ نے ابو بکر کا زمانہ نہیں پایا، تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ عکرمہ نے یہ بات اسماء بنت ابی بکر سے سنی ہو۔ واللہ اعلم"
"سلسلہ صحیحہ" (3/276)

*خلاصہ یہ ہوا کہ:*
یہ کہنا کہ: ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے  اچھے سلوک کرنے والے  خاوند کے ساتھ ہوگی، اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔اور  یہ کہنا کہ: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا، جس کے ساتھ مرضی رہے، یہ بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے اور یہ کہنا کہ عورت اپنے دنیاوی آخری خاوند کے ساتھ  ہوگی، یہی موقف درست حق  کے قریب ہے، کیونکہ ام درداء رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت حسن درجے کی ہوسکتی ہے، مزید برآں  اس حدیث کو حذیفہ اور اسماء کی موقوف روایات کی تائید بھی حاصل ہے، جو کہ دونوں ہی مرفوع روایت کو تقویت بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور ان دونوں آثار سے  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  اس موقف  کیلئے معتبر دلیل کا وجود  پایا جاتا ہے،  ویسے بھی علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث کو "سلسلہ صحیحہ" (1281) میں صحیح قرار دیا ہے،

___________&________

*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شادی شدہ عورت جنت میں بھی اپنے خاوند ہی کے ساتھ ہوگی،لیکن جنت میں جس طرح عورت جوان خوبصورت اور دلکش ہوگی اسی طرح اسکا جنتی شوہر بھی ہر طرح کے عیب سے پاک،خوبصوت ،جوان ہو گا، اور جسکے خاوند دنیا میں زیادہ رہے ہونگے اسکو اسکے آخری خاوند کے ساتھ رکھا جائے گا البتہ جن کی شادی نہ ہوئی یا جن کے خاوند کافر رہے یا جنکے خاوند جنت میں نا گئے ان کو جنت میں انکی خواہش اور پسند کے  مَردوں کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا اسکی دلیل اوپر ذکر کردہ وہ آیات ہیں جن میں جنت کے اندر من پسند انعامات کے ملنے کا ذکر ہے،*

ماخوذ:  از محدث فورم

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Gair Muslim (Non Muslim) Ke bache Kahan jayenge Jannat me Ya Jahannum?

Gair Muslimon ke Wafat pane Wale Bache kaha jayenge?
Gair Muslimon ke bache jo Inteqal kar chuke hai wah kahan jayenge Jannat me ya jahannum?

لسَّــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

غیر مسلموں کے وفات پانے والے بچے کہاں جائیں گے؟
۔┄┅══════════┅┄

تحریر : الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ
مترجم ( مختصرًا ): محترم بھائی رضا میاں
۔┄┅═════════┅┄

کفار کے بچوں کے متعلق علماء میں درج ذیل اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے :

❶پہلا قول:
یہ ہے کہ کفار کے بچے بھی جنت میں جائیں گے، جبکہ بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ اعراف کے مقام پر رہیں گے (جو جنت اور جہنم کے درمیان کی جگہ ہے) اور ان کے اس قول کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ اہل اعراف کا آخری مقام جنت ہی ہو گا۔ یہ اکثر اہل علم کی رائے ہے جیسا کہ ابن عبد البر نے التمہید (18:96) میں نقل کیا ہے۔

⇇اس قول کی دلیل:
ان کے اس قول کی دلیل حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ: نبی علیہ السلام نے معراج پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکین کے بچوں کو دیکھا (صحیح البخاری: 6640)۔

دوسری دلیل حسناء بنت معاویہ کی حدیث ہے وہ جو اپنے عم سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ جنت میں کون ہو گا؟
تو نبی ﷺ نے فرمایا: جنت میں انبیاء ہوں گے، شہداء ہوں گے، نومولود بچے ہوں گے، اور وہ لڑکیاں ہوں گی جو بچپن میں دفنا دی جاتی تھیں۔
(مسند احمد 5:409)۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الجامع میں ضعیف قرار دیا ہے۔

❷دوسرا قول:
یہ ہے کہ وہ بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ اس قول کو قاضی ابو یعلی نے امام احمد کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن شیخ الاسلام نے ان کی اس پر شدید تردید کی ہے۔ دیکھیں حاشیہ ابن القیم علی سنن ابی داود (7:87)

⇇اس قول کی دلیل:
سلمہ بن قیس کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کے ہمراہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ہماری والدہ دورِ جاہلیہ میں فوت ہو گئ تھیں اور وہ ایک مہمان نواز اور رشتوں کا پاس رکھنے والی عورت تھیں لیکن انہوں نے ہماری ایک نا بالغ بہن کو دورِ جاہلیہ میں زندہ دفنا دیا تھا، تو نبی ﷺ نے فرمایا: "جس کو دفن کیا گیا اور جس نے اسے دفن کیا دونوں جہنم میں ہیں الا یہ کہ جس نے دفن کیا اس نے اسلام کو پا لیا اور مسلمان ہو گئی۔"
اس حدیث کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حسن قرار دیا ہے اور ابن عبد البر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اس کے علاوہ اس پر دیگر احادیث بھی ہیں لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔

❸تیسرا قول:
یہ ہے کہ اس پر کوئی رائے نہ دی جائے اور اس معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔  یہ قول حماد بن زید، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن مبارک، اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔

⇇اس قول کی دلیل:
ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کے بچوں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
"الله أعلم بما كانوا عاملين" اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔
(البخاری: 1383، ومسلم: 2660) وغیرہ

❹چوتھا قول:
یہ ہے کہ وہ بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں: "اس قول کی کوئی اصل نہیں ہے" (مجموع الفتاوی 4:279)
میں (شیخ المنجد) کہتا ہوں کہ اس کے اوپر بھی ایک حدیث مروی ہے جسے طبرانی اور بزار نے نقل کیا ہے لیکن اسے ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں ابن حجر بھی شامل ہیں۔

❺پانچواں قول:
یہ ہے کہ آخرت میں وہ آزمائے جائیں گے پس جس نے اس وقت اللہ کی اطاعت کی وہ جنت میں جائیں گے اور جس نے نافرمانی کی وہ جہنم میں جائیں گے۔ یہ قول جمہور ائمہ اہل السنہ الجماعت کا ہے جسے ابو الحسن الاشعری نے نقل کیا ہے، اور یہی قول امام بیہقی و دیگر محققین کا ہے۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امام احمد سے نصوص کا یہی مطلب نکلتا ہے اور ابن کثیر نے بھی اسی قول کو سب سے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس قول سے تمام احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے اور اوپر بیان کردہ تمام احادیث ایک دوسرے کی شاہد ہیں۔

⇇اس قول کی دلیل:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"يؤتى بأربعة يوم القيامة : بالمولود ، والمعتوه ، ومن مات في الفترة ، والشيخ الفاني ، كلهم يتكلم بحجته ، فيقول الرب تبارك وتعالى لعُنُق من النار : أُبْرزْ ، ويقول لهم : إني كنت أبعث إلى عبادي رسلا من أنفسهم ، وإني رسول نفسي إليكم ، اُدخلوا هذه ( أي النار ) ، قال : فيقول من كتب عليه الشقاء : يا رب أنى ندخلها ومنها كنا نفرّ ، قال : ومن كتب عليه السعادة يمضي فيقتحم فيها مسرعاً ، قال : فيقول الله تعالى أنتم لرسلي أشد تكذيبا ومعصية ، فيدخل هؤلاء الجنة وهؤلاء النار"
قیامت والے دن چار (قسم کے) لوگوں کو لایا جائے گا: نومولد بچہ، پاغل انسان، وہ شخص جو دورِ فترۃ میں فوت ہو گیا (یعنی دو نبیوں کے درمیان کا وقت)،

اور اوپر بیان کردہ تمام احادیث ایک دوسرے کی شاہد ہیں۔

⇇اس قول کی دلیل:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"يؤتى بأربعة يوم القيامة : بالمولود ، والمعتوه ، ومن مات في الفترة ، والشيخ الفاني ، كلهم يتكلم بحجته ، فيقول الرب تبارك وتعالى لعُنُق من النار : أُبْرزْ ، ويقول لهم : إني كنت أبعث إلى عبادي رسلا من أنفسهم ، وإني رسول نفسي إليكم ، اُدخلوا هذه ( أي النار ) ، قال : فيقول من كتب عليه الشقاء : يا رب أنى ندخلها ومنها كنا نفرّ ، قال : ومن كتب عليه السعادة يمضي فيقتحم فيها مسرعاً ، قال : فيقول الله تعالى أنتم لرسلي أشد تكذيبا ومعصية ، فيدخل هؤلاء الجنة وهؤلاء النار"

قیامت والے دن چار (قسم کے) لوگوں کو لایا جائے گا: نومولد بچہ، پاغل انسان، وہ شخص جو دورِ فترۃ میں فوت ہو گیا (یعنی دو نبیوں کے درمیان کا وقت)، اور بہت بوڑھا شخص۔ سب اپنے دفاع میں بولیں گے۔ تو رب تبارک وتعالیٰ جہنم کی گردن کو حکم دیں گے کہ قریب آ جا اور ان لوگوں سے کہیں گے، "میں لوگوں میں اپنے بندوں میں سے رسول بھیجا کرتا تھا اور آج میں خود تمہاری طرف رسول ہوں پس اس جہنم کی آگ میں داخل ہو جاؤ۔" پس جن پر بدبختی لکھی جا چکی ہے وہ کہیں گے: "اے رب ہم اس میں کیسے داخل ہو جائیں جب کہ ہم اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔" جبکہ وہ لوگ جن پر خوش بختی لکھی جا چکی ہے وہ اس میں داخل ہونے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کہے گا: تم میرے رسولوں کے تو پھر اس سے زیادہ نافرمان اور جھٹلانے والے ہوتے، چنانچہ وہ لوگ جنت میں داخل کردیے جائیں گے اور یہ لوگ جہنم میں۔
(مسند ابی یعلی: 4224) اس حدیث کے کئی شواہد ہیں جنہیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔

تمام اقوال میں تطبیق:

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وهذا أعدل الأقوال وبه يجتمع شمل الأدلة وتتفق الأحاديث في هذا الباب . وعلى هذا فيكون بعضهم في الجنة كما في حديث سمرة ، وبعضهم في النار كما دل عليه حديث عائشة ، وجواب النبي صلى الله عليه وسلم يدل على هذا ؛ فإنه قال : "الله أعلم بما كانوا عاملين إذْ خلقهم" ، ومعلوم أن الله لا يعذبهم بعلمه فيهم ما لم يقع معلومه ، فهو إنما يعذب من يستحق العذاب على معلومه وهو متعلق علمه السابق فيه لا على علمه المجدد وهذا العلم يظهر معلومه في الدار الآخرة.
وفي قوله : "الله أعلم بما كانوا عاملين" : إشارة إلى أنه سبحانه كان يعلم ما كانوا عاملين لو عاشوا ، وأن من يطيعه وقت الامتحان كان ممن يطيعه لو عاش في الدنيا ، ومن يعصيه حينئذ كان ممن يعصيه لو عاش في الدنيا فهو دليل على تعلق علمه بما لم يكن لو كان كيف كان يكون ."

"اور یہ سب سے معقول قول ہے جس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے اور اس باب کی تمام احادیث متفق ہو جاتی ہیں۔ پس اس طرح ان میں سے بعض جنت میں جائیں گے جیسا کہ سمرۃ کی حدیث میں ہے، اور بعض جہنم میں جائیں گے جیسا کہ عائشہ کی حدیث میں ہے۔ اور نبی ﷺ کا جواب کہ 'اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے' بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ اللہ کسی کو اپنے علم کی بنا پر سزا نہیں دیتا جب تک جو وہ جانتا ہے وہ واقع نہ ہو جائے۔ پس ۔۔۔" باقی ترجمہ کرتے ہوئے مجھے سستی لاحق ہو گئی، ابتسامہ!
(حاشية ابن القيم على سنن أبي داود " ( 7/87 ))
بقیہ حصہ:
وما جاء في بعض الأحاديث السابقة أنهم في الجنة أو النار لا يشكل على ما رجحناه ، قال ابن كثير رحمه الله : أحاديث الامتحان أخص منه فمن علم الله منه أنه يطيع جعل روحه في البرزخ مع إبراهيم وأولاد المسلمين الذين ماتوا على الفطرة ومن علم منه أنه لا يجيب فأمره إلى الله تعالى ويوم القيامة يكون في النار كما دلت عليه أحاديث الامتحان ونقله الأشعري عن أهل السنة . أ.هـ " التفسير " ( 3 / 33 ) .
= وما جاء من قوله صلى الله عليه وسلم " الله أعلم بما كانوا عاملين " : لا يدل على التوقف فيهم .
قال ابن القيم رحمه الله : وفيما استدلت به هذه الطائفة نظر والنبي صلى الله عليه وسلم لم يُجِب فيهم بالوقف وإنما وكل علم ما كانوا يعملونه لو عاشوا إلى الله وهذا جواب عن سؤالهم كيف يكونون مع آبائهم بغير عمل وهو طرف من الحديث …. والنبي صلى الله عليه وسلم وَكَل العلم بعملهم إلى الله ، ولم يقل الله أعلم حيث يستقرون أو أين يكونون ، فالدليل غير مطابق لمذهب هذه الطائفة. أ.هـ " حاشية ابن القيم على سنن أبي داود " ( 7/ 85 )
والله تعالیٰ أعلم بالصواب

Share:

Jannat ki hooron ki Sifaat. जन्नत की हूरों की सीफात

Jannati hooro ki sifaat
Allah ne Duniya Me jin kamon se bachane ko kaha hai, use Bachane wale ke liye Janmat me inaam rakha gaya hai.
जन्नती हूरों की विशेषता

*جنت کی حوروں کی صفات*

الحمد للہ
اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی صفات اور جنتی لوگوں کی صفات کا کئ جگہ پر قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

فرمان باری تعالی ہے :

(اس میں بہتا ہوا چشمہ ہو گا اور اس میں اونچے اونچے تخت ہوں گے اور آبخورے رکھے ہوئےہوں گے اور ایک قطار میں لگے ہوئےتکیۓ ہوں گے اور مخملی مسندیں پھیلی ہوں گی ) الغاشیہ /12- 16

اور فرمان باری تعالی ہے :

( اور اس شخص کے لۓ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ (دونوں جنتیں ) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ تو ان دونون جنتوں میں دو بہتے چشمے ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میووں کی دو قسمیں ہوں گی ) الرحمن / 46 – 52

جنت کی صفات میں بہت سی آیات ہیں اور جنت کی عورتوں کی صفات میں کئ ایک آیات آئی ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

( ان جنتوں میں نیچی (شرمیلی) نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ گویا وہ حوریں یاقوت اور مونگے مرجان ہیں ) الرحمان / 56- 58

اور فرمان ربانی ہے :

( گوری رنگت والی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ) الرحمان / 72

اور ارشاد باری تعالی ہے :

( اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں یہ اس کا صلہ ہے جو کہ وہ عمل کرتے رہے ہیں ) الواقعۃ /22/24

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی عورتوں کی صفات کے متعلق بہت سی صحیح احادیث ثابت ہیں کہ وہ قیامت کے دن متقی لوگوں کے لۓ تیار کی گئي ہیں ان میں بعض ذکر کی جاتی ہیں :

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جنت میں سب سے پہلا گروہ اسی شکل میں داخل ہو گا جس طرح کہ چودھویں رات کا چاند ہو پھر ان کے بعد اس ستارے کی مانند جو کہ آسمان میں سب سے زیادہ چمکدار اور روشن زیادہ ہے وہ نہ تو پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ اور نہ ہی تھوکیں اور نہ ہی انہیں ناک آئے گی ان کی کنکھیاں سونے اور پسینے کی خوشبو مسک کستوری کی اور ان کی انگیٹھیوں میں اگر کی لکڑی ( ایک خوشبو دار لکڑی) جلتی ہو گی اور ان کی بیویاں حور العین ہوں گیں ان کی پیدائش ایک آدمی کی پیدائش ان کے باپ آدم کی صورت پر آسمان میں ساٹھ ساٹھ ہاتھ ہو گی ) صحیح الجامع حدیث نمبر 2015

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( موتی کا خیمہ جس کی آسمان میں لمبائی ساٹھ میل ہو گی اس کے ہر کونے میں مومن کے لۓ اس کی بیوی ہو گی جنہیں دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے ) صحیح الجامع حدیث نمبر 3357

تو ان احادیث میں جنت کی ان عورتوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جو کہ مومن کے لۓ تیار کی گئیں ہیں اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کا نام حور رکھا ہے اور حور حوراء کی جمع ہے ۔

احکام ( 17 /122) میں قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ : وہ بہت زیادہ سفید جس کی آنکھیں زیادہ سیاہ ہوں انہیں حور کہا جاتا ہے ۔

تو ہمار اس پر ایمان مطلق ہے جس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں اور یہ ہمارے مضبوط عقیدہ میں سے ہے اس کی مزید تفصیل کے لۓ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں باب صفۃ الجنۃ اور صحیح مسلم ابواب صفۃ الجنۃ اور اسی طرح ابو نعیم اصفہانی کی کتاب صفۃ الجنۃ جو کہ جنتی عورتوں اور ان کے حسن کے متعلق ہے کا مطالعہ کریں ۔

اور رہا یہ سوال کہ اسلام ان اشیاء کی خوشخبری دیتا اور اس پر ابھارتا ہے جو کہ جنت میں ہیں اور دنیا میں وہ چیزیں حرام ہیں مثلا عورتوں سے شادی کے علاوہ تعلقات رکھنے ۔

تو جواب سے قبل ہم ایک خطرناک معاملے پر تنبیہ کرنا بہتر سمجھتے ہیں وہ یہ کہ بیشک اللہ تعالی اس دنیا میں دنیا والوں پر جو چاہے حرام کرے وہ تو ان اشیاء کا خالق اور مالک ہے تو کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حکم پر اپنی بیمار رآئے اور الٹ فہم کے ساتھ اعتراض کرے تو اللہ تعالی ہی کے لۓ پہلے بھی بعد میں بھی حکم ہے اللہ تعالی کے حکم اور فیصلے پر کوئی گرفت نہیں کر سکتا ۔

اور رہا یہ مسئلہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ایسی چیزیں جنہیں دنیا میں حرام قرار دی ہے اور پھر اس کے ترک کرنے والے کو آخرت میں اس کا بدلہ دے گا ( مثلا شراب، زنا اور مردوں پر ریشم پہننا وغیرہ ) تو یہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جو اطاعت کرے اور دنیا میں اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرے اسے ثواب دے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے )

اور حرمت کی علت کیا ہے تو اس کے متعلق ذیل میں چند نقاط دۓ جاتے ہیں :

اول یہ ضروری نہیں کہ ہم حرمت کی ساری علتیں جان سکیں اور ہمیں ان کا علم ہو تو کئ ایک ایسی علتیں ہیں جن کا ہمیں علم تک نہیں ہوتا ۔

تو نصوص میں اصل یہی ہے کہ انہیں تسلیم کیا جائے اگرچہ ہمیں علت کا علم نہ بھی ہو کیونکہ تسلیم کرنا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے اس لۓ اسلام اللہ تعالی کی مکمل اطاعت پر مبنی ہے ۔

دوم : بعض اوقات ہم پر حرمت کی علت ظاہر ہو جاتی ہے مثلا وہ فساد پیدا کرنے والی اشیاء جو کہ زنا سے مرتب ہوتی ہیں جیسا کہ نسب نامے میں خلط ملط ہونا اور موذی اور مہلک امراض کا پیدا ہونا وغیرہ تو جب شریعت نے غیر شرعی تعلقات کو منع قرار دیا تو اس سے مراد یہی تھی کہ نسب ناموں میں حفاظت ہو سکے جس کا کفار اور اہتمام نہیں کرتے تو وہ گدھوں کی طرح جفتی کرتے ہیں تو دوست اپنی سہیلی اور رشتہ دار اپنی رشتہ دار کے ساتھ زنا کرتا ہے اور اسی طرح گویا کہ وہ جنگلی جانور ہوں بلکہ بعض جانور بھی اس طرح کا کام نہیں کرتے اور یہ لوگ اسے برا نہیں جانتے اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتے ہیں تو معاشرہ اس سبب سے انحلال پزیر ہو چکا اور رشتہ داریاں اور تعلقات کٹ چکے ہیں اور معاشرہ جنسی اور مہلک اور موذی بیماریوں سے بھرا پڑا ہے جو کہ اس شخص پر اللہ تعالی کے غضب کی دلالت کرتا ہے جو اللہ کی حرمت کو پامال اور اس کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کر لیتا ہے ۔

اور یہ سب کچھ جنت میں بندے اور حور کے تعلق کے خلاف ہے - اور یہی ہے جس کا سوال آپ نے کیا ہے – یہ تو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فاحشہ عورت دنیا میں اپنی عزت کو نیلام کرتی پھرتی اور وہ بے دین اور بے حیاء ہوتی ہے اور کسی ایک شخص کے ساتھ صحیح نکاح کی بنا پر مستقل شرعی تعلقات نہیں رکھتی تو مرد جس کے ساتھ چاہے تعلقات قائم کرے اور عورت جس کے ساتھ چاہے پغیر کسی دینی اور اخلاقی لحاظ سے تعلقات بناتی پھرے۔

لیکن جنت میں حوریں تو اپنے ان خاوندوں کے لۓ چھپائی ہوئی ہوں گی جن کو دنیا میں حرام سے بچنے اور صبر کرنے کی بنا پر یہ بدلہ میں ملیں گیں ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

(گوری رنگت والی )حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں >

اور ان کے متعلق فرمایا :
( جنہیں ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ تک نہیں لگایا )

تو یہ حقیقت میں اس کی بیوی ہو گی ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

( اور ہم نے ان کی شادی حور عین سے کر دی )

وہ اس پر چھپائی ہوئی ہوں گی جس میں اس کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں ہو گا ۔

سوم : بیشک اللہ عزوجل نے آدمی کے لۓ دنیا کے اندر قانون بنایا ہے کہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں جمع نہیں کر سکتا ۔

تو وہ ہی جنتیوں کو بطور انعام جتنی چاہے حوریں عطا کر دے تو دنیا میں حرام ہونا اور آخرت میں نہ اس میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ان دونوں کے احکام اللہ تعالی کی مشیت کے اعتبار سے مختلف ہیں اور اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ آخرت دنیا سے افضل اور باقی رہنے والی ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( لوگوں کے لۓ مرغوب چیزوں کی محبت مزین کر دی گئي ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کۓ ہوئےخزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپآئے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ۔ آپ کہہ دیجۓ کیا میں تمہیں اس سے بھی بہت ہی بہتر چیز بتاؤ ؟ جن لوگوں نے تقوی اختیا کیا ان کے لۓ ان کے رب کے پاس ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالی کی رضا مندی ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ اس کی نگاہ میں ہیں ) آل عمران / 14 – 15

چہارم – ہو سکتا ہے کہ یہ حرمت اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش کے لۓ ہو آیا کہ وہ ان احکام پر عمل کرتے ہیں کہ یا نہیں جو انہیں دیۓ جاتے ہیں اور جس سے انہیں روکا جاتا ہے اس سے وہ رکتے ہیں کہ نہیں ۔

اور پھر بات یہ ہے کہ ایسی چیز سے آزمائش نہیں ہوتی جس کی طرف انسان کی میلان ہی نہ ہو اور نہ وہ اسے پسند کرتا ہو آزمائش تو اس کے ساتھ ہوتی ہے جس کی طرف دل کا میلان ہو اور اپنی طرف کھینچے اور اسی آزمائش میں سے ایک چیز مال بھی ہے ۔

تو کیا انسان اسے حلال طریقے سے حاصل کرتا اور اسے حلال میں خرچ کرتا اور اس میں سے اللہ تعالی کا حق ادا کرتا ہے کہ نہیں ۔

اور عورتوں کے ساتھ آزمائش اس لۓ ہے کہ آیا وہ اس پر اقتفاد کرتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حلال کی ہیں اور ان سے اپنی نظریں نیچی رکھتا اور ان سے نفع اٹھانے سے بچتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حرام کی ہیں یا کہ نہیں ۔

اور اللہ تعالی کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ایسی کسی چیز کو حرام نہیں کیا جس کی طرف میلان نفس نہ لیکن اس کے بدلے میں اسی جنس اور قسم سے کئ چیزیں حلال کی ہیں ۔

پنجم- یہ کہ دنیاوی احکام آخرت کے احکام کی طرح نہیں ہیں ۔

تو دنیا کی شراب عقل کو ماؤف کر دیتی ہے آخرت کی شراب اس کے خلاف کہ اس سے نہ تو عقل میں فتور آتا اور نہ ہی سر چکراتا اور نہ ہی پیٹ میں مروڑ پیدا ہوں گے ۔

اور وہ جو اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ قیامت کے دن اس اطاعت کے بدلے میں عورتیں تیار کی ہیں جو وہ کرتے رہے تو وہ زنا کی طرح نہیں کہ ان سے ہتک ہو اور نسب ناموں میں ملاوٹ پیدا ہو جائے اور امراض پھیل جائیں اور اس کے بعد ندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔

تو جنت کی عورتیں پاک صاف ہوں گی اور دنیا کی عورتوں کی طرح نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ ہی بوڑھی ہوں گی ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( ہم نے ان ( کی بیویوں کو ) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم انہیں کنواریاں رکھا ہے محبت والیاں اور ہم عمر ہیں )

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور خیر نصیحت کرے اور ہمیں اپنے احکام کی اطاعت کر نے کی توفیق اور اس پر ثواب کا یقین کرنے اور اس پر اجر حاصل ہونے اور اپنے عذاب سے امن وامان میں رکھے ۔ آمین

واللہ اعلم .

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS