find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts
Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts

Kya Ek Aurat Kisi Riyasat, Mulk ka Hakim Ban Sakti hai? Can a women be a PM, cM and Head of State in Islam?

Islam me Aurat ki Sarbarahi ke bare me kya kaha gaya hai?

Kya Aurat PM, CM, DM ban sakti hai?
Kya Mulk ka Hakim Ek Aurat ban sakti hai?


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️ : مسز انصاری ۔۔۔۔۔۔۔

بلا شبہ پاکستان کا طرزِ حکومت جمہوری ہے اور خود پاکستان کی عوام آمریت کی مخالف اور جمہوریت پسند عوام ہے، اور واضح رہے کہ مغربی جمہوریت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جمہوریت میں تو حکمران کا مسلمان ہونا یا مرد ہونا ہی ضروری نہیں ،  حاکمیت کے لیے مرد و زن کی بھی تخصیص نہیں ہوتی  ۔
اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانۂ جنگی کے بعد (Colonolization) اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔ جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘ کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔ موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی(ابو معاذ القرنی)

لہٰذا مغربی جمہوری طرزِ حکومت میں عورت کی سربراہی کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دینا اسلامی اصولوں کی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ یہ اسلامی اوامر میں تحریف اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے ۔
لہٰذا عورت کی سربراہی کا عدم جواز اسلامی نظامِ حکومت سے مشروط ہے، اور یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اسلامی نظام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت کی بالفعل بالادستی اولین شرط ہے ، پاکستان میں سربراہی محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ کی ہو یا محترمہ مریم نواز صاحبہ کی، مغرب کے سیلیولر ڈیموکریسی سسٹم میں تو جائز ہوسکتی ہے مگر اسلامی نظام میں نہیں ۔

لیکن قطع نظر مغربی جمہوریت کی ان دفعات کے جب ہم پاکستان کے آئین کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت مغربی جمہوریت سے یکسر جدا حیثیت رکھتی ہے، ان دستوری دفعات کا تجزیہ کیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً‌ مذکور نہیں ہے ، کیونکہ پاکستان کے آئین کی کئی دفعات لبرل ڈیموکریسی کے منافی ہیں مثلاً
- پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔۔۔۔۔
- پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہوگا ۔۔۔۔۔
- صدر کے عہدے کے لیے مسلمان صدر لازم ہے ۔۔۔۔
- صدر اور وزیرِ اعظم دونوں کے حلف نامے میں توحید، ختم نبوت اور قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھنا اور اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔
- پارلیمنٹ کے مسلم اراکین کے لیے شرائط ہیں کہ وہ

1- اسلامی احکامات سے انحراف کرنے میں مشہور نا ہوں
2- اسلام کے فرائض کے پابند ہوں ۔
3- کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والے ہوں ۔
4- فاسق نا ہوں ۔
5- اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں ۔

اسی طرح دستور میں اسلامی احکام سے متعلق دفعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ آئینِ پاکستان میں جمہوریت کے مفہوم کو اختیار نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا ایسی شخصی حکومت جس کے آئین کی خاص دفعات اسلامی ہوں، جس میں اقتدارِ اعلیٰ مسلمان ہو اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے

کتاب وسنت اورجمہور علمائے امت کے فیصلوں کی روشنی میں عورت کی حکمرانی کو قطعاً حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں اسلام میں عورت کی سر براہی کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ۔ خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺنے اجازت نہیں دی ہے , اسلامی قوانین کی رو سے بتقاضہ عورتوں کی کچھ فطرتی عقلی کمزوریوں اور شرعی حدود کے پیش نظر مسلمان عورت کسی ملک کی سربراہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی قاضی بن سکتی ہے، کیونکہ ان دونوں عہدوں کے فرائض کی ادائیگی کے لیے ، اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے عورت کو کھلے عام عوام کے درمیان آنا پڑتا ہے تاکہ مسلم معاشرے اور عوام کے معاملات نمٹائے جائیں، جبکہ نا تو عورت مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہوسکتی ہے اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہے ، جبکہ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘                              (سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
عورت کو پردے کا حکم ہے ، اور اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ عورت پردے میں رہے ، جتنا عورت پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے مخفی رکھتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے
یا ایھالناس !! اہل خرد جانتے ہیں کہ مسلم مملکت میں جب بحیثیت مسلمان کوئی حکمرانی قائم کرنا ہماری غرض وغایت اور فلاح وبہبود کے مقاصد ہوں تو اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہﷺ کی سنت وحدیث۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

- اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
’’مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

- وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔
’’اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘

عورت کی سربراہی احادیث کی نظر میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب نبی صرف اور صرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔
اور شرع سے متصادم، عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔

بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:

لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔

اور بعض روایت میں ہے:

لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔

اور ایک روایت میں ہے:

مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے ارشادات میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ عورت کی حکمرانی نہ صرف عدم فلاح اور ہلاکت کا موجب ہے بلکہ مردوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:

امام بخاریؒ کتاب المغازی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:

- لن يُفْلِحَ قومٌ ولَّوْا أمرَهَمُ امرأَةً
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو"۔

الراوي : أبو بكرة نفيع بن الحارث | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع | الصفحة أو الرقم : 5225 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (4425)

- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانت أمراؤكم خيارَكم وكان أغنياؤكم سمحاءَكم وكانت أموركُم شورى بينكم فظَهْرُ الأرضُ خيرٌ لكم من بطنها وإذا كانت أمراؤكم شرارُكم وكان أغنياؤكم بخلاءكم وكانت أمورُكم إلى نسائِكم فبطنُ الأرضِ خيرٌ لكم من ظهْرها
الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن جرير الطبري | المصدر : مسند عمر
الصفحة أو الرقم : 1/113 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
التخريج : أخرجه الترمذي (2266)، والبزار (9529)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (6/176)

’’جب تمہارے حکمران تم میں سے اچھے لوگ ہوں، تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے حکمران تم میں سے برے لوگ ہوں، تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے ہے۔‘‘

امام حاکمؒ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو امام ذہبی نے صحیح تسلیم کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فتح و نصرت حاصل کر کے آیا اور اپنی فتح کی رپورٹ پیش کی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین سے جنگ کے احوال اور ان کی فتح کے ظاہری اسباب دریافت کیے تو آپؐ کو بتایا گیا کہ کفار کے لشکر کی قیادت ایک خاتون کر رہی تھی۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

- ھَلَکَتِ الـرِّجَالُ حِـیْنَ اَطَاعَتِ النِّسَآءَ۔
(مستدرک حاکم ج ۴ ص ۲۹۱)
مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔

- علامہ ابن حجر الہتیمیؒ حضرت ابوبکرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں ملکہ سبا بلقیسؓ کا ایک دفعہ ذکر ہوا تو آنحضرتؐ نے فرمایا:

لَا یُـقْدِسَ اللّٰەُ اُمَّـةً قَادَتْـھُمْ اِمْـرَاَۃٌ۔
(مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۰)
اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطا نہیں فرماتا جس کی قیادت عورت کر رہی ہو۔

- امام طبرانیؒ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ یَمْلِکُ رَاْبَـھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۰۹)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جن کی رائے کی مالک عورت ہو۔

- امام ابوداؤد طیاسیؒ حضرت ابوبکرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔ (طیاسی ص ۱۱۸)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنی حکمرانی عورت کے حوالہ کر دی۔

- امام ابن الاثیرؒ اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:

مَا اَفْلَحَ قَوْمٌ قَیِّمُھُمْ اِمْرَاَۃٌ ۔ (النہایۃ ج ۴ ص ۱۳۵)
وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس کی منتظم عورت ہو۔

- مسند احمد میں ہے:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۴۳)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس کی حکمران عورت ہو۔

اجماع امت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے

علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:

اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)

’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘

علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘

نویں صدی ہجری کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون ’’شجرۃ الدر‘‘ حکمران بن گئی۔ اس وقت بغداد میں خلیفہ ابوجعفر مستنصر باللہؒ کی حکومت تھی، انہوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ

اعلمونا ان کان ما بقی عند کم فی مصر من الرجال من یصلح للسلطنۃ فنحن نرسل لکم من یصلح لھا اما سمعتم فی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لا افلح قوم ولوا امرھم امراۃ۔ (اعلام السناء ج ۲ ص ۲۸۶)
ہمیں بتاؤ اگر تمہارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔

خلیفہ وقت کے اس پیغام پر ’’شجرۃ الدر‘‘ منصب سے معزول ہوگئی اور اس کی جگہ سپہ سالار کو مصر کا حکمران بنا لیا گیا

امام بغویؒ (شرح السنۃ ج ۷۷) میں فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی۔

امام ابوبکر بن العربیؒ (احکام القرآن ج ۳ ص ۴۴۵) حضرت ابوبکرؓ والی حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔
یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

امام ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:

اجمع المسلمون علیہ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۱۴۹)
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔

امام الحرمین الجوینیؒ فرماتے ہیں:

واجمعوا ان المراۃ لایجوز ان تکونا اماما۔ (الارشاد فی اصول الاعتقاد ص ۲۵۹)
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کا حکمران بننا جائز نہیں۔

حافظ ابن حزمؒ امت کے اجماعی مسائل کے بارے میں اپنی معروف کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع ص ۱۲۶)
اور علماء کا اتفاق ہے کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

دورِ حاضر کے معروف محقق ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی عالم کو نہیں جانتے جس نے عورت کی حکمرانی کو جائز کہا ہو۔

فالاجماع فی ھذہ القضیۃ تام لم یشذ عنہ۔ (عبقریۃ الاسلام فی اصول الحکم ص ۷۰)
اس مسئلہ میں اجتماع اتنا مکمل ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔

پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ دستوری نکات پر اتفاق کیا اور ان میں حکومت کے سربراہ کے لیے مرد کی شرط کو لازمی قرار دیا۔(عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت : ابوعمار زاھدالراشدی )

مختلف مذہبی طبقہ فکر :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنفی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’’الدر المختار‘‘ اور اس کی شرح ’’رد المحتار‘‘ میں اس امر کی تصریح ہے کہ حکمران کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور

لا یصح تقریر المراۃ فی وظیفۃ الامامۃ۔ (شامی ج ۴ ص ۳۹۵، ج ۱ ص ۵۱۲)
عورت کو حکمرانی کے کام پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

فقہ شافعی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ شافعیؒ کی مستند کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں لکھا ہے:

القضاء لایجوز لامراۃ۔
قضا کا منصب عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

فقہ حنبلی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنبلیؒ کی مستند کتاب المغنی (ج ۱۱ ص ۳۸۰) میں ہے:

المراۃ لا تصلح للامامۃ ولا لتولیۃ البلد ان ولھذا لم یول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا احد من خلفاء ولا من بعدھم قضاء ولا ولایۃ ولو جاز ذلک لم تخل منہ جمیع الزمان غالباً۔
عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے اور نہ شہروں کی حاکم بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا، نہ ان کے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے قضا یا حکمرانی کے کسی منصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اس کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔

فقہ مالکی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ مالکیؒ کی مستند کتاب ’’منحۃ الجلیل‘‘ میں نماز کی امامت، لوگوں کے درمیان فیصلوں، اسلام کی حفاظت، حدود شرعیہ کے نفاذ اور جہاد جیسے احکام کی بجا آوری کے لیے شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

فیشترط فیہ العدالہ والذکورۃ والفطنۃ والعلم۔
پس اس کے لیے شرط ہے کہ عادل ہو، مرد ہو، سمجھدار ہو اور عالم ہو۔

فقہ ظاہری :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل ظاہر کے معروف امام حافظ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:

ولا خلاف بین واحد فی انھا لاتجوز لامراۃ۔ (المحلی ج ۹ ص ۳۶۰۔ الملل ج ۴ ص ۱۶۷)
اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

اہل تشیع :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف شیعہ محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی لکھتے ہیں:

فقد اجمع علماء الامامیۃ کلھم علی عدم انعقاد القضاء للمراۃ وان استکملت جمیع الشرائط الاخریٰ۔ (معالم الحکومۃ الاسلامیۃ ص ۲۷۸)
امامیہ مکتب فکر کے تمام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ قضاء کا منصب عورت کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں دوسری تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔

اہل حدیث

معروف اہلحدیث عالم قاضی شوکانیؒ حضرت ابوبکرؓ والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فیہ دلیل علی ان المراۃ لیست من اھل الولایات ولایحل لقوم تولیتھا۔ (نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۷۴)
اس میں دلیل ہے کہ عورت حکمرانی کے امور کی اہل نہیں ہے اور کسی قوم کے لیے اس کو حکمران بنانا جائز نہیں ہے۔

الغرض قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی واضح نصوص، اجماع امت اور تمام مسلم مکاتب فکر کے فقہاء کے صریح ارشادات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کا مسلمان ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا شرعی طور پر بالکل ناجائز ہے۔

عورت کی سربراہی کے لیے جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)

حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)

عورت کی سربراہی پر ملکہ سبا بلقیس کے واقعہ سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی لکھتے ہیں :

کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)

’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:

’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)

قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مزید مفصل مواد کے لیے درج ذیل پی ڈی ایف مطالعہ کیجیے :

https://kitabosunnat.com/kutub-library/oratkisarbrahikaislammekoitasawwarnahi

https://kitabosunnat.com/kutub-library/aourat-ki-sarbrahi-quran-w-sunnat-ki-roshni-me

Share:

Rooh Kabz hone ka Bayan Quran O Hadees me, Rooh kaise Kabz karte hai Farishte?

Quran o Hadees me Marne wale ki Rooh kabz hone ka bayan.

Jis Shakhs ki maut hoti hai uske Rooh kabz hone ka Zikr Quran o Hadees me.


قرآن و حدیث میں مرنے والے کی روح کے قبض ہونے کا بیان:
…ﷲ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت روح قبض کرنے کیلئے فرشتے بھیجتا ہے، وہ اس کی روح قبض کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف لے جاتے ہیں۔
( الانعام : ۶۱۔۶۲)

…فرشتے انسان کے جسم میں تیرتے ہوئے، ڈوب کر آگے بڑھ کر اس کی روح کھینچ لیتے ہیں۔
( نازعات: ۱ تا ۴)

ظالم لوگوں کی روح نکالتے ہوئے فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں نکالو اپنی روحوں کو۔ مرنے والے کی روح یہ جسم و دنیا سب کچھ چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے پاس چلی جاتی ہے۔
( الانعام: ۹۳۔۹۴)

جان کنی کے وقت جان گلے تک پہنچ جاتی ہے، پنڈلی سے پنڈلی مل جاتی ہے جان لیاجاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت ہے اپنے رب کے پاس جانے کا وقت ہے۔
(القیامۃ:۲۶۔۳۰)

جب روح گلے میں آپہنچتی ہے انسان اس حالت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن بے بس ہوتے ہیں۔
( الواقعہ: ۸۳ تا ۸۷)

نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا:
…جب روح نکلتی ہے تو بصارت اس کے پیچھے نکل جاتی ہے۔ 
( مسلم۔ کتاب
الجنائز)

Share:

Aurat Ke liye Bazaro me Dance karna hai aur Kya Biwi apne Shauhar Ke Samne Raks kar sakti hai?

Kya Koi Aurat Apne Shauhar ke Samne Raksh (Dance) kar sakti hai?

Kya Koi Aurat Kahi par Dance kar sakti hai?


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

عورت کا اپنے خاوند کےسامنے رقص کرنا :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

: مســــــــــز انصــــــــــاری

اپنے شوہر کے سامنے، چاہے شوہر مطالبہ کرے یا نا کرے عورت کا رقص کرنے میں کوئی گناہ یا عیب کی بات نہیں ہے ، بلکہ یہ خوش طبعئی کا ایسا انداز ہے جس سے خاوند كا دل خوش ہوگا، اس کے دل میں بیوی کی محبت بڑھے گی اور اپنی بیوی سے فائدہ اٹھانے کی رغبت بڑھے گی اور بیوی کے دل میں بھی اپنے خاوند کے لیے محبت میں اضافہ ہوگا ۔

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عورت كا اپنے خاوند كے سامنے ناچنا اور رقص كرنا جبكہ ان دونوں كے پاس كوئى اور نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ ہو سكتا ہے ايسا كرنا خاوند كے ليے اپنى بيوى ميں اور زيادہ رغبت كا باعث ہو، اور ہر وہ كام جو خاوند كے ليے اپنى بيوى ميں رغبت كا باعث بنے وہ اس وقت تك مطلوب ہے جب تك وہ بعينہ حرام نہ ہو.
اسى بنا پر خاوند كے ليے عورت كا بناؤ سنگھار اور بن سنور كر سامنے آنا مسنون ہے، اسى طرح خاوند كے ليے بھى مسنون ہے جس طرح بيوى اس كے ليے بناؤ سنگھار كرتى ہے وہ بھى بيوى كے ليے كرے " انتہى
[ ديكھيے : اللقاء الشھرى ١٢ |سوال : ۹ ]

علامہ ناصر الدين البانى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا بيوى كا خاوند كے سامنے تھيٹروں ميں ناچنے اور گانے واليوں جيسا لباس پہننے ميں ان كے عمل سے محبت اور جو وہ كرتى ہيں اس كا اقرار نہيں ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اگر تو يہ چيز صرف خاوند اور بيوى ميں ہو اور انہيں كوئى دوسرا نہيں ديكھ رہا تو جائز ہے.
شيخ رحمہ اللہ نے بيان كيا كہ يہ لباس مذموم تشبہ ميں شامل نہيں ہوگا، اور وہ ناچنے گانے والياں تو اعلانيہ طور پر دوسرے غير محرم لوگوں كے سامنے ناچتى ہيں، ليكن يہ عورت تو صرف اپنے خاوند كے سامنے ہے، ان دونوں ميں بہت فرق ہے.
[ دیکھیے : سلسلۃ " الھدى والنور " | كيسٹ نمبر( ٨١۴) ]

البتہ کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے

✦- اس رقص ميں موسيقى اور آلات موسيقى استعمال نہ كيے جائيں، موسیقی کے آلات اور سازوں کے ساتھ گانا حرام ہے ، یہ شیطان کے باجے ہوتے ہیں ، چاہے گانے والا مرد ہو یا عورت، اور مجلس میں گائے یا تنہائی میں، بیوی شوہر کے سامنے گائے یا شوہر بیوی کے سامنے ، آلاتِ موسیقی سے اجتناب ضروری ہے۔ آیات قرانیہ اور احادیث نبویﷺ میں گانے بجانے اور آلات موسیقی کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے ، ان کا استعمال اسباب ضلالت اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،ارشاد باری تعالی ہے،
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان
’’اور لوگوں میں بعض ایسا  ہے جو بے حودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ [لوگوں] کو بغیر علم کے اللہ کے راستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی وہ لوگ ہیں جنکو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔‘

ليكوننَّ من أمتي أقوامٌ يستحِلُّونَ الحِرَ والحريرَ والخمرَ والمعازفَ ولَينزلنَّ أقوامٌ إلى جنبِ عَلَمٍ يروحُ عليهم بسارحةٍ لهم تأتيهم الحاجةُ فيقولون ارجعْ إلينا غدًا فيُبَيِّتُهم اللهُ ويضعُ العِلمَ ويَمسخُ آخرين قِردةً وخنازيرَ إلى يومِ القيامةِ

الراوي : أبو مالك الأشعري | المحدث : ابن القيم | المصدر : تهذيب السنن | الصفحة أو الرقم : 10/153 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري موصولا وصورته معلقاً بصيغة الجزم (5590) باختلاف يسير

   صحیح حدیث میں ہے :

لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ، ولَيَنْزِلَنَّ أقْوامٌ إلى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عليهم بسارِحَةٍ لهمْ، يَأْتِيهِمْ -يَعْنِي الفقِيرَ- لِحاجَةٍ، فيَقولونَ: ارْجِعْ إلَيْنا غَدًا، فيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ، ويَضَعُ العَلَمَ، ويَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وخَنازِيرَ إلى يَومِ القِيامَةِ.
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عن قریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ،شراب اور باجوں کو حلا ل سمجھیں گے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں عن قریب میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے اور اس کا نام بد ل دیں گے ۔ ان کے سروں پر ناچ گا نے ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو خنزیر  اور بندر بنا دے گا ۔

الراوي : أبو مالك الأشعري | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري | الصفحة أو الرقم: 5590 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح] | التخريج : أخرجه البخاري موصولا وصورته معلقاً بصيغة الجزم (5590) ]

نوٹ : یاد رہے یہاں مراد لھوالحدیث نہیں ہے ، واضح رہے کہ لہو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہوتا ہے ، ناہی مراد وہ عشقیہ کفریہ اور شرکیہ گانے ہیں جو منکر ہیں اور معصیت کی رغبت دلاتے ہیں ، بلاشبہ جدید ترین ایجادات ریڈیو ٹی وی وغیرہ یا ویڈیو فلموں وغیرہ سے بے راہ روی کا درس لینا اپنی عاقبت کو خراب کرنا ہے ، کیونکہ فلمی گانے یا دوسرے بیہودہ گانے درست نہیں ہوتے ، البتہ اگر اظہار محبت پر مشتمل کوئی اشعار غزل ہو تو وہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے گا سکتے ہیں، اسی کو گانا کہاگیا ہے ۔
لہٰذا بلاکفریہ اور شرکیہ کلمات کے گیت اور غزل اختیارکرتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے گنگنانے یااشعار کہنے  میں فی نفسہ  کوئی قباحت نہیں،بشرطیکہ ان اشعار میں شریعت کے خلاف کوئی  مضمون نہ ہو ۔
جیسے شادی وغیرہ میں عام گانا جس میں کسی حرام چیز کی دعوت نہ ہو نہ اس میں کسی حرام چیز کی مدح ہو، تو ایسے گانے گانا اور دف بجانا مشروع ہے ۔

✦- بشمول گانے کے رقص میں خیال رکھا جائے کہ بعض اشعار کفریہ اور شرکیہ ہوتے ہیں جو بےحیائی اور گناہ و معصیت کی دعوت دیتے ہیں، ایسے کفریہ و شرکیہ اشعار اسی طرح گناہ ہیں جس طرح آلاتِ موسیقی حرام ہے ۔

✦- اپنی اولاد کے سامنے یہ خوش طبعئی نا کی جائے، والدین بچوں کے لیے نقشِ پا ہوتے ہیں، زندگی کے پیچ و خم پر روانی سے چلنے کے لیے والدین اولاد کے لیے رول ماڈلز ہوتے ہیں، مبادا ان کے کچے ذہنوں پر منفى اثر پڑے اور ناصرف وہ اپنے والدین كى تعظيم اور قدر کھو دیں بلکہ رقص و موسیقی کے غلط استعمال کی طرف بھی راغب ہوسکتے ہیں، والدین کے کچھ مباح امور ہرگز یہ معنی نہیں رکھتے کہ انہیں اولاد كے سامنے کیا جائے ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Shamshi Calender (Angrezi Saal) Kab se Shuru hua aur Iske mahino ke Naam kaise Pada? New Year Ki shuruwat kab se hui?

Shamshi Calender ki tarikh.

Angrezi Mahino ke Naam kab aur kaise Pada?
1January Ya New Year Kab se Shuru hua?

Kisi Musalman ke liye Angrezi ya Arabi saal ki pahli tarikh par Jashn manana kaisa hai? 

1 January ko Naya Saal ka jashn manana aur Mubarakbad dena Musalman ke liye Jayez nahi. 

Sari Duniya angrezi saal ke aamad me jashn mana rahi hai Aatishbazi kar ke jabki Gaza me Salebi o Sahyuni Bombari karke Jashn mana raha hai?. 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

شمسی تقویم، تاریخ کے تناظر میں ::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مســــزانصــــاری

ہر عیسوی سال کے آغاز میں مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ فکر جب ہجری تقویم کی افادیت اور اہمیت اجاگر کرتا ہے تو چند بے وقوف عیسوی سال کی حمایت میں مختلف دلائل دیتے نظر آتے ہیں ، یہ کہ شمس و قمر اللہ ہی کے ہیں تو شمسی تقویم میں برائی کیا ہے، کیا گریگورین کیلنڈر کے آزادانہ استعمال کے حق میں دلائل دینے والے یہ بے عقل لوگ جانتے ہیں کہ یہ عیسوی تقسیم گریگورین کیلنڈر کے نام سے پوپ گریگوری ہشتم نے متعارف کرایا تھا اور کیتھولک ممالک میں یکم جنوری کو نئے سال کے طور پر از سر نو بحال کیا گیا۔
گریگورین کیلنڈر کے زیادہ تر مہینوں کے نام رومی دیوتاؤں کے ناموں اور اعزازوں میں مقرر کیے گئے۔

❶- جنوری :
جنوری کا ماخذ آگے پیچھے دو چہرے والے ایک رومن دیوتا کا نام ”جانوس“(Janus)ہے۔
(دنیائے معلومات / صفحہ : ١۶۰)

❷- فروری :
قدیم رومن باشندے 15فروری کو گناہوں سے بخشش کا دن مناتے تھے۔ اسی دن یا تہوار کا نام فیبروور(Februare) تھا۔ اسی تہوار کی نسبت سے اس کا نام فیبروری(February)پڑ گیا ۔

❸- مارچ :
مارچ کا نام قدیم رومی دیوتا مارس(Mars)کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔

❹- اپریل :
قدیم رومی زبان میں اپریل اپریلیس کہلاتا ہے جس کا منبع ایپرائر(Aperire) ہے جس کے معنی کھلنا(open) کے ہیں۔ چونکہ اپریل میں بہار آتی ہے اسی لیے اس مہینے کا نام اپریل رکھا گیا۔

❺- مئی :
مئی کا نام قدیم روم کی دیوی میا(Maia) کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ جو دیوتا جیوپیٹر(Jupiter) کی بیوی تھی ۔

❻- جون :
جون قدیم روم کی سب سے بڑی دیوی کے نام پر رکھا گیا جس کا نام جونو تھا ۔

❼- جولائی :
قیصرِ روم " جولیس سیزر " 44قبل مسیح میں پیدا ہوا چنانچہ اس کے نام کے نسبت سے اس مہینے کا نام جولائی رکھ دیا گیا۔

❽- اگست :
قدیم روم میں اگست کا نام سکسٹیلیس (Sextilis) تھاجسے 8قبل مسیح میں تبدیل کرکے اس وقت کے رومی حکمران آگسٹس سیزر(قیصر روم آگسٹس) کے نام پر آگسٹ کر دیا گیا ۔

❾- ستمبر :
ستمبر لاطینی لفظ سیپٹیم(Septem)سے ماخوذ ہے۔اس مہینے میں جولیس سیزر کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

❿- اکتوبر :
اکتوبر لاطینی لفظ اوکٹو(Octo)سے ماخوذ ہے جس کے معنی 8کے ہیں ۔

⓫- نومبر :
نومبر لاطینی لفظ نویم(Novem) سے نکلا ہے جس کے معنی 9کے ہیں ۔

⓬- دسمبر :
اکتوبر اور نومبر کی طرح دسمبرکا منبع بھی لاطینی لفظ ڈیسیم(Decem) ہے جس کے معنی 10کے ہیں۔

اسلامی ہجری تقویم میں ہفتہ کے ایام کے ناموں میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی نہیں پائی جاتی جبکہ عیسوی اور دوسری تقویم میں مہینوں اور دنوں کے نام دیوتاؤں کی دیوتائی اور سیاروں کی فرمانروائی کی یاد تازہ کرنے کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
سن ہجرت کی ابتداءکے متعلق قاضی سلیمان منصور پوری، علامہ شبلی نعمانی سے کچھ اختلافات رکھتے ہیں ” رحمة للعالمین“ میں لکھتے ہیں

” اسلام میں سنہ ہجرت کا استعمال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جاری ہوا، جمعرات 30 جمادی الثانی 17 ہجری: مطابق 9/12 جولائی 638ءحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے محرم کو حسب دستور پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔

مزید تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ہجرت سے سنین کے شمار کی ابتداءاس سے بھی بہت پہلے ہو چکی تھی۔ ( تاریخ ابن عساکر جلد اول رسالہ التاریخ للسیوطی بحوالہ تقویم تاریخ )

ڈاؤنلوڈ کیجیے :
شمسی تقویم، تاریخ کے تناظر میں

https://articles.rasailojaraid.com/Resources/ArticleFiles/11/737/13449.pdf

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Aasmani Kitabein Kitni hai? Quran Kis Nabi par Nazil hua? Yahudis, Christanity aur Islam.

Allah Ne Kitni Aasmani kitabein Nazil ki hai?

Aasmani kitabon ki Tadad kitni hai?

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

اللّٰـــــہﷻ نے کتنی آسمانی کتابیں نازل فرمائی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مســــــز انصــــــاری

گزشتہ روز وال پر شيخ الإســـــلام ابن تيميـــــة رحمـــــةاللہ تعـــــالیٰ رحمة واسعة ( كان عالما على منهج الكتاب والسنة ) کا ایک قول شئیر کیا تھا، جس میں ١۰۴ آسمانی کتابوں کا ذکر ہے

‏يقــــول شيخ الإســـــلام ابن تيميـــــة رحمـــــةاللہ تعـــــالیٰ :
أن الله أنزل مـــــــائة كتاب وأربعـــــــة كتــــب جمـــــــع علمـــــــها في الكـــتب الأربعـــــــة وجمع الكتب الأربعـــــة في الــــقرآن وجمـــــع علـــــم القـــــرآن في فاتـــــــحة الكـــــتاب وجمــــع علـــــم فاتحـــــة الكــــتاب في قـــــــوله تعـــــــالى:
{ إيَّـــــــاكَ نَعْـــــبُدُ وَإِيَّـــــاكَ نَسْـــــتَعِينُ } .

شيخ الإسلام ابن تيمية رحمةاللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اللّــــــہﷻ نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں ⇲
ان سب کا علم چار کتابوں میں جمع کر دیا، ⇲
پھر ان چاروں کا علم قرآنِ مجید میں جمع کر دیا، ⇲
پھر پورے قرآن کا علم سورۂ فاتحہ میں سمیٹ دیا ⇲
اور سورۃ الفاتحہ کا علم اس ایک آیت میں جمع کر دیا ⇲

⇐⇐⇐《إيَّـــــاكَ نَعْـــــبُدُ وَإِيَّـــــاكَ نَسْـــــتَعِينُ》⇒⇒⇒
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں
【 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ || مجموع الفتاوى(22|607) 】

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلا شبہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کی اصلاح وفلاح کے لیے مختلف انبیاء و رسل پر کتب و صحیفے نازل فرمائے ، بعض انبیاء کو مکمل کتابیں دیں اور بعض کو چھوٹے چھوٹے صحیفے عطا فرمائے، واضح رہے کہ مختصر مختصر سی چھوٹی چھوٹی کتابیں یا اوراق ، جو قرآن مجید سے پہلے اتارے گئے ، انہیں صحیفے کہتے ہیں ، مختلف مصادرِ اسلامی میں ان آسمانی کتابوں کی تعداد ١۰۴ ذکر ہے۔ نیز حضرت ابوذر غفاری سے مروی ہے اُنھوں نے کہا کہ :

" میں نے سورۃ الاعلیٰ کے نزول کے بعد رسول اﷲﷺ سے دریافت کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے کتنی کتابیں نازل کیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے ۱۰۴/ کتابوں کو نازل فرمایا ۔ ان میں سے دس صحیفے حضرت آدم پر نازل کئے، پچاس صحیفے حضرت شیث پر نازل ہوئے، تیس صحیفے حضرت ادریس پر نازل ہوئے، دس صحیفے حضرت ابراھیم پر اور چار کتابیں تورات، زبور ، انجیل اور قرآن مجید نازل ہوئے۔"
[ حیاۃِ ابراہیم : احمد شلبی ،صفحہ ۴٢٨ || قصص الانبیاء : ثعلبی ،صفحہ ١۰۶ ]

١۰۴ آسمانی کتابوں کی تعداد سے متعلق شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

" حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ ٰ عنہ  سے مروی ایک طویل حدیث میں ان کی  تعداد ایک سو چار بیان کی گئی ہے۔جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے تفسیر میں مذکورہ آیت کے  تحت لکھا ہے "
[ فتاوی بن باز رحمہ اللہ/ جلددوم ]

لہٰذا دلائل سے ثابت ہے کہ  اللہ تعالی نے انسانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے دنیا میں  کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام مبعوث فرمائے،جن میں سے بعض  پرکتابیں نازل ہوئی اوربعض پیغمبروں کو صحیفے دیے گئے،صحیفوں کی تعدادکم وبیش ١۰۰ ہے،جن میں سے

- ١۰ صحیفے حضرت آدم علیہ السلام پراترے،
- ۵۰ صحیفے شیث علیہ السلام پر،
- ٣۰ صحیفے حضرت ادریس علیہ السلام پر
- اور ١۰ صحیفے حضرت ابراہیم علیہ السلام پراتریں،مشہور آسمانی  کتابیں چار ہيں:

ان میں سے چار مشہور کتابیں یہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر نازل فرمائیں۔

١- توریت : حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
٢- زبور : حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
٣- انجیل : حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔
۴- قرآن حکیم : اللہ تعالیٰ کی آخری اور افضل و اکمل کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب نبی خاتم الانبیاء و المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Gam, Pareshani, Musibat, Khauf aur Kamzori me Padhi jane wali Dua.

Mayusi, Kamzori, Be Qarai ko door karne ki Dua.


زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ آیات پہنچائیے، اللہ تعالیٰ اس کے عوض ان شاءاللہ آپ کی زندگی میں سکون پیدا فرمائے گا ۔۔۔۔ آمین یارب العالمین

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

غم، کمزوری، اضطراب، بے قراری اور شیطانی ارواح کے غلبہ کو دور کرنے کے لیے سکینت والی آیات :-
۔┄┅═══════════════════┅┄

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جب کبھی شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ پر معاملات شدت اختیار کر لیتے (مشکلات آتیں) تو وہ آیاتِ سکینہ کی تلاوت فرماتے۔ ایک بار انہیں ایک حیرت انگیز اور ناقابل فہم واقعہ انکی بیماری میں پیش آیا جب شیطانی ارواح کمزوری کی حالت میں ان پر غالب آئیں، میں نے انہیں کہتےسنا، وہ فرماتے ہیں، "جب یہ معاملہ زیادہ زور پکڑ گیا تو میں نے اپنے رشتے داروں اور ارد گرد کے لوگوں سے کہا، "آیاتِ سکینہ پڑھو"۔ کہتے ہیں، "پھر میری یہ کیفیت ختم ہو گئی، اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا ( ٹھیک ہو گیا) اور مجھے کوئی بیماری باقی نہ رہی"۔
اسی طرح، میں نے بھی اضطراب قلب دور کرنے کے لئے ان آیات کی تلاوت کا تجربہ کیا۔ اور حقیقتاً اس میں سکون اور اطمینان کے حوالے سے بڑی تاثیر پائی۔ سکینت اصل میں وہ اطمینان، وقار اور سکون ہے جو اللہ اپنے بندے کے دل پر اس وقت اُتارتا ہے جب وہ شدتِ خوف کی وجہ سے لاحق اضطراب کے باوجود اس سے خفا نہیں ہوتا۔ اور اِس سے اُس کے ایمان، قوتِ یقین اور مثبت سوچ میں اضافہ ہوتا ہے۔

[ دیکھیے : تہذیب مدارج السالکین از ابن القیّم رحِمهُ اللّٰه (باب: منزلة السکینة، ج: 2، ص: 502) ]

آیات سکینۃ یہ ہیں:
۔═══════┅┄

❶- ( وَقَالَ لَهُمْ نِبِيّهُمْ إِنّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مّن رّبّكُمْ وَبَقِيّةٌ مّمّا تَرَكَ آلُ مُوسَىَ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنّ فِي ذَلِكَ لاَيَةً لّكُمْ إِن كُنْتُـم مّؤْمِنِينَ)
[البقرة: 248]
⓵- اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا کہ اس کی بادشاہت کی علامت یہ ہو گی کہ تمہارے پاس وہ تابوت (واپس) آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین بھی ہے اور آل موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے بقیہ جات بھی ہیں جسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یقینا اس میں تمہارے لیے ایک (بڑی) نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ [البقرہ : 248]

۔┄┅══════════════════┅┄

❷- ( ثُمّ أَنَزلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىَ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُوداً لّمْ تَرَوْهَا وَعذّبَ الّذِينَ كَفَرُواْ وَذَلِكَ جَزَآءُ الْكَافِرِينَ)
[التوبة:26]

⓶- پھر اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل کی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نہیں دیکھ سکتے تھے، اور کافروں کو عذاب دیا، اور کافروں کا یہی بدلہ ہے [التوبہ : 26]

۔┄┅════════════════┅┄

❸- ( إِلاّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيّدَهُ بِجُنُودٍ لّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الّذِينَ كَفَرُواْ السّفْلَىَ وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)
[التوبة:40]

⓷- اگر تم اسکی مدد نہیں کرو گے تو اللّٰہ (سبحانہ وتعالیٰ) اسکی مدد اسوقت بھی کر چکے ہیں جب انہیں کافروں نے نکال دیا تھا، جب وہ ان دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے، اسوقت وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا "غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے"، تو اللّٰہ نے اس پر اپنی سکینت اتار دی اور نظر نہ آنے والے لشکروں کے ذریعے اس کی مدد فرمائی اور کافروں کی بات کو پست کر دکھایا اور اللہ ہی کی بات بلند ہے اور اللّٰہ بہت زبردست، خوب حکمت والا ہے [التوبہ : 40]

۔┄┅═══════════════┅┄

❹- ( هُوَ الّذِيَ أَنزَلَ السّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوَاْ إِيمَاناً مّعَ إِيمَانِهِمْ وَلِلّهِ جُنُودُ السّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَكَانَ اللّهُ عَلِيماً حَكِيماً )
[الفتح:4]

⓸- وہی ذات ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت اتاری تاکہ وہ اپنے ایمان میں اضافہ کریں اور اللّٰہ ہی کے لیے زمین و آسمان کے لشکر ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ بہت علم والا، خوب حکمت والا ہے [الفتح : 4]

۔┄┅══════════════════┅┄

❺- ( لّقَدْ رَضِيَ اللّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأنزَلَ السّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً )
[الفتح:18]

⓹- اللہ تعالیٰ ان مومنین سے اسی وقت راضی ہو چکا تھا جب وہ درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، وہ ان کے دلوں کے حال سے واقف تھا، پھر اس نے ان پر سکینت اتاری اور قریبی فتح سے ہم کنار کیا [الفتح : 18]

۔┄┅═════════════════┅┄

❻-( إِذْ جَعَلَ الّذِينَ كَفَرُواْ فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيّةَ حَمِيّةَ الْجَاهِلِيّةِ فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىَ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التّقْوَىَ وَكَانُوَاْ أَحَقّ بِهَا وَأَهْلَهَا وَكَانَ اللّهُ بِكُلّ شَيْءٍ عَلِيماً )
[الفتح:26]

⓺- جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد پال لی تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی سکینت اتاری اور انکو تقوی کی بات پر جما دیا جس کے وہ سب سے زیادہ حقدار اور اہل تھے، اور اللّٰہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے [الفتح : 26]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Cricket Match: Playground me Match jitne ke Bad Sazda karna kaisa hai? Kya Islam iski ijazat deta hai?

Khel ke Maidan me Urdu Nam ke Khilariyo Ka Sajda karna kaisa hai?

Cricket Match Jitne ke Bad Musalman Cricketer ka Field me Sajda karne ke Bare Me Islam kya hukm deta hai?
Kya Koi Musalman Player kisi Khel me Fatahyab hone par Sazda kar sakta hai?

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

سجدہ ہی تو ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

کھیلوں کے میدانوں میں سجدہ شکر کو لے کر آج کل لوگوں کی مبالغہ آرائیاں بڑی مایوس کن ہیں، کہا جارہا ہے سجدہ تو ایک عبادت ہے اللہ کو سجدہ پسند ہے جہاں بھی جس وقت بھی کیا جائے کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔۔ الحمق داء لا دواء له (حماقت لاعلاج مرض ہے)

سجدہ تو مزاروں پر بھی ہوتا ہے، کیا اللہ کو مزاروں پر سجدہ خوش کرے گا ؟ اگر سجدہ ہر جگہ ہر موقعہ پر جائز ہوتا تو نمازِ جنازہ میں بھی جائز ہوتا، مگر سجدہ صرف اللہ کے لیے جائز ہے اور جائز کام و مقام کی شرط کے ساتھ جائز ہے ۔

بلا شک سجدہ عبادت ہے، مگر ہر عبادت سعادت نہیں ہوتی، اگر عبادات بلا شرائط کے سعادتیں ہوتیں تو بدعتیں جائز ہوجاتیں ، اسی طرح ناجائز ذرائع سے جائز کام مقبول نہیں ہوتے ورنہ حرام کمائی کے حج بھی حج مبرور ہوتے اور حرام کمائیوں سے تعمیر شدہ مکانات پر اللہ کا فضل ہوتا۔۔۔۔

کسی ظاہری نعمت کے حاصل ہونے یا کسی ظاہری مصیبت کے ٹلنے کے وقت انسان کا اپنے جسم کے سب سے معزز ترین حصہ یعنی چہرہ کو زمین پر رکھ کر دل ، زبان اور تمام اعضا ء سے  اللہ کا شکر ادا کرنا سجدہ شکر کہلاتا ہے ، سجدہ شکر کرنا مستحب ہے، سجدہ شکر شریعت سے ثابتہ ہے سجدہ شکر کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بھی ملتا ہے ، جب انسان کو اُس کی وہ مطلوبہ جائز چیز یا جائز دیرینہ تمنا حاصل ہوجائے جس کی وہ تمنا کرتا تھا اور اس کے لیے اللہ جل و علا سے دعا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ کے شکر اور (اُس کی) حمد کے لیے وہ سجدہ شکر کرے گا ، تاہم سجودِ شُکر کی بھی شرائط ہیں، یہ کہ جائز خوشیوں پر سجدہ شکر کیا جائے، محض سجدہ کی عبادت، عبادت نہیں بلکہ اپنی شرائط کے ساتھ عبادت ہے ورنہ سوائے جسم کی حرکت کے کچھ نہیں ، اگر سجدہ شکر کی شرائط نا ہوتیں تو حرام کاموں کی کامیابیوں پر سجود جائز ہوتے ۔
رہی بات کھیلوں کے میدان میں سجدے تو اول بات یہ کہ کھیلوں کی مروجہ صورتیں ہی غلط ہیں، اگرچہ اسلام میں کھیلوں کی ممانعت نہیں ہے بلکہ چند شرائط کے ساتھ کھیل جائز ہے، یہ کہ
- اسراف نا ہو
- وقت کا ضیاع نا ہو
- عبادات متاثر نا ہوں
- مرد و زن کا اختلاط
- ننگ نیم برہنہ بے پردہ عورتوں کی موجودگی نا ہو
- موسیقی جو کہ حرام ہے اس کی کوئی بھی صورت نا پائی جائے.

اگر تو ان شرائط کا خیال رکھا جائے تو کھیل جائز ہے اور اس میں کیے گئے سجود بھی جائز ہیں، مگر کھیلوں کی موجودہ صورتوں میں یہ شرائط مفقود ہیں، اسی لیے یہ لہو و لعب کے سوا کچھ نہیں، اور لہو و لعب پر سجدے نہیں کیے جاتے بلکہ توبہ استغفار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس حرکت سے بچائے جسے شیطان بظاہر لاحرج اور خوشنما دکھا کر راغب کرتا ہے ۔

ھذا ماعندی والعلم عند ربی و علمہ اتم۔

Share:

Modern Muashera aur Musalmano Ki Gairat : Aurat Kya Hai Aur Kya Nahi hai?

Aaj ka Modern Muashera aur Musalmano ki Gairat.


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

عورت کیا ہے ، کیا نہیں ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️: مسز انصاری

اگر ایک حکمران کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و عورت کے اختلاط سے اس کی سلطنت میں کتنی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں ، اس اختلاط سے اس کی سلطنت کی تعمیر میں حصہ لینے والے جوان مٹی کا ڈھیر بن سکتے ہیں، گھروں کے قوام ذہنی انتشار کا شکار ہوکر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے سے معذور ہوسکتے ہیں تو واللہ حکمران ملکی قوانین کو مرتب کرتے ہوئے سب سے پہلے مردو زن کے بیچ میں لمبی لمبی فصیلیں کھڑی کردے گا ۔۔۔۔

اور اگر ایک مرد کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و زن کے اختلاط سے اس کے گھر میں کتنی خرابی پیدا ہوسکتی ہے جو نسلوں تک کو تباہ و برباد کرنے کی طاقت رکھتی ہے ، اس کے بچے صدقہ جاریہ کے بجائے گناہ جاریہ بن کر ہر لمحہ اس کی قبر کو آگ سے بھرتے رہیں گے اور یہ گناہ جاریہ نسلوں میں سفر کرے گا، تو واللہ وہ اپنی گھر کی عورتوں کو جاہل رکھنے میں مکمل عافیت محسوس کرے گا لیکن انہیں دورِ جدید کی ترقیوں سے شیطان کا آلہ کار نہیں بننے دے گا ۔

ہر عورت اپنے نفس پر گرفت رکھنے کے لیے اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ جائے ۔ شیطان اسی جگہ نقب لگاتا ہے جو کسی ملک یا کسی گھر کی خوشحالی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہو، عورت گھر آباد بھی کرسکتی ہے اور برباد بھی، فطری طور پر بھی عورت کمزور ہوتی ہے اور ایمان کے لحاظ سے بھی کمزور ہوتی ہے، ہم نے قرآن حافظ عورتوں کو اپنے حجاب نظرِ آتش کرتے دیکھا ہے، ہم نے وہ عورتیں بھی دیکھی ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کی حلاوت چکھنے کے باوجود شیطان کی پیروی اختیار کی، وہ عورتیں بھی ہیں جو دعوتِ دین کی آڑ میں شیطان کی کامیابیوں کا سبب بنیں، ایسی بھی عورتیں ہیں جنہوں نے جہنم کی گرمی کو محسوس کرنے کے باوجود بھی دنیا کے عارضی دھوکہ میں آکر اپنے ایمانوں کی قیمتی متاع شہوتوں کی راہوں میں گُم کردیں، وہ عورتیں بھی ہیں جو رات کو اپنے شوہروں کی شفیق اور امان والی آغوشوں میں سوتی ہیں اور دن کی روشنی میں جب ان کے مرد اپنی عزتوں کو بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ تنہا چھوڑ کر کسبِ معاش کے نکلتے ہیں تو یہی عورتیں غیر کی آغوشوں میں چلی جاتی ہیں، والدین کی سرپرستی میں پنپنے والی وہ عورتیں بھی ہم نے دیکھی ہیں جن کے لیے جسم کی راحت تقویٰ و پرہیزگاری پر غالب آجاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ساری عورتیں ہر دور میں دیکھی گئی ہیں مگر جتنی کثرت آج کے دور میں ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں رہی، اور اس کا سبب سوشل میڈیا ہے ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا تلبیس ابلیس کا گھات ہے جہاں سے وہ مسلمان عورتوں کو جہنم کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے ۔ پس اپنی عورتوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں سے باخبر رہیے، انہیں گھر کی چاردیواری میں محفوظ نہیں سمجھیے کیونکہ شیطان موبائل کی صورت میں آپ کی عورتوں کا لُٹیرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Musalmano ko Palestine ke liye Kya karna chahiye? Musalmano par Zulm magar Muslim Hukamran Khamosh.

Muslim Hukamran Filisteen Ke Sath kyu khade nahi hai?

Aaj Musalamno ke tadad itni Jyada hote hue bhi kyo us par Zulm ho raha hai?
Jab Koi Musalmano ke Zameen Par Kabza kar le to Musalmano ko kya karna chahiye?
 

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

️: مسزانصاری

جب دشمن کسی مسلمان خطہ ارضی میں گھس آئے اور وہاں کے جملہ باسیوں پر بلا مرد و ظن ، بوڑھے اور بچوں کی تفریق کے دھاوا بول دے تو اس خطہ کے تمام تر رہنے والوں پر قتال (جہاد فی سبیل اللہ) فرض عین ہوجاتا ہے ۔ اور اگر اس خطہ کی مسلمان قوم کمزور ہے اور دشمن کے مقابلہ میں آلاتِ حرب سے بھی تہی دست ہے کہ دشمن سے مقابلہ کرسکے تو پھر انکے قریب والوں پہ انکی مناصرت میں جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔

سلطنتِ اسلامیہ موجودہ تقسمیات میں کئی ملکوں میں منقسم ہے تاہم امت مسلمہ جسدِ واحد ہے یعنی مشرق سے لے کر مغرب تک ایک ہی ہے ، اسی لیے اہل اسلام پر واجب ہے کہ اسلاف کی عظیم روایات کو زندہ و جاوید رکھنے ، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ، اسلام کی مناصرت اور اس کے حکم پر قائم رہنے کے لیے اپنے ایمانی عزائم کو جگائیں ، آلاتِ حرب اور تمام تر جنگی ساز و سامان کے ساتھ باطل طاقتوں اور قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے میدان میں اتریں ، ماضی کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ ہر دور میں فتنے ایمان کے بالمقابل مغلوب ہوئے ہیں، مسلم امّہ کی طاقت ایمان کی بلندی ہے اور تمام طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی بابرکت ذات ہے ۔

اللہﷻ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو محسنِ انسانیت نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحاب پر، اللہﷻ تعالیٰ کی فتح و نصرت اترے اہلِ فلسطین پر اور اللہﷻ مسلم امّہ کو وہن کی بیماری سے شفاء کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ۔۔۔۔
اَلَّلھُمَ انصُر المُجَاہِدینَ فِی کُل مَکان
اَلَّلھُمَ انصُر المُجَاہِدینَ فِی غَزہ
اَلَّلھُمَ انصُر المُجَاہِدینَ فِی فَلسطِین
اَلََلھُم انصُر کَنَصر یُوم البَدر
یاربُ العَالمین یاقَوی
یارَبُ المُستضعَفِین
یارَبُ المُجَاہِدین
آمین یارب
العالمین

Share:

Kaise Sanpo (Snakes) ko marna Jayez hai, Zahrile Saanpo ki Pehchan kya hai?

Kin Saanpo (Snakes) ko Marna chahiye aur kise nahi?

Agar koi Saanp hame nuksan Pahuchaye to kya Use Qatal karna Jayez hai?


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

سانپوں کو اُن کی طرف سے انتقام لیے جانے کے خوف سے قتل نہ کرنا :
۔━━━━━━━━━━━━━━━

عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إِقتلوا الحیَّات کلَّھُن ، فَمَن خَافَ ثأرَھُنَّ فَلَیس مِنّا ::: سب سانپوں(چھپکلیوں وغیرہ)کوقتل کرو اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا(اور اِس ڈر کی وجہ سے اُن کو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾سنن أبو داؤد/حدیث 5238/أبواب السلام/باب33 باب فی قتل الحیات،سُنن النسائی/حدیث 3193/کتاب الجہاد/باب 48،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 1149/المشکاۃ 4140 ،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا:::جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾
[ سنن أبی داؤد/حدیث5237/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، اور امام ابو داؤد رحمہ ُ اللہ کی اس روایت کو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،]

أبو ھریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
﴿ مَا سَالَمْنَاهُنَّ مُنْذُ حَارَبْنَاهُنَّ وَمَنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنْهُنَّ خِيفَةً فَلَيْسَ مِنَّا
جب سےہم نےاُن(یعنی سانپوں)کےساتھ لڑائی شروع کی ہے ہم نے اُنہیں سلامتی نہیں دی جِس نے اُن(سانپوں)کو (اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾
تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان/حدیث5615/کتاب الحَظر و الإِباحۃ / باب 4 ، سنن أبی داؤد/حدیث5250/کتاب الادب /أبواب السلام/ باب باب فی قتل الحیات ، ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے امام ابو دواد رحمہُ اللہ کی روایت کو حسن صحیح قرار دِیا ،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےامام ابن حبان رحمہُ اللہ کی اِس روایت کو حسن اور گواہ کےطورپرصحیح کہا ہے،

◉ فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام​ :
۔━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

رسول اللہﷺ کی ہر بات اُن کی اُمت کے لیے سبق رکھتی ہے اور خاص طور پر عقیدے کی اِصلاح کے لیے خاص مفہوم رکھتی ہے ، اُوپر بیان کی گئی دونوں أحادیث شریفہ میں رسول اللہﷺ نے ایک شرکیہ عقیدے کا اِنکار فرمایا ہے ، اور اُس کو رَد فرماتے ہوئے اپنی اُمت کے عقیدے کی درستگی کے لیے یہ اِرشاد فرمایاہے
﴿ فَمَن خَاف ثأرھُنَّ فَلَیس مِنّا
اور جو اُن کے انتقام سے ڈرا (اور اِس ڈر کی وجہ سے اُنکو قتل نہ کیا) تو وہ ہم میں سے نہیں﴾

اور﴿مَن تَرکَ قَتل شيء مِنھُنَّ خِیفَۃً فَلیس مِنا
جِس نےاُن(سانپوں)کو(اُنکے انتقام کے)ڈر کی وجہ سےقتل نہ کیا تو وہ ہم میں سے نہیں ﴾

یہ وضاحتیں اِس لیے بیان فرمائیں کہ اُس وقت کے معاشرے میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ سانپ کو مارنے سے اُس سانپ کے رشتہ دار مارنے والے سے انتقام لیتے ہیں ، اور اِس عقیدے کی وجہ سے لوگ سانپوں کو مارنے سے ڈرتے تھے ، اور یہ بات آج بھی ہے ، ہمارے معاشرے میں اکثرزبانوں،اور کتابوں میں اِس قِسم کی کہانیاں ملتی ہیں جو اِس عقیدے کی غماز ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
اوپر بیان کی گئی أحادیث میں ہر قِسم کےسانپوں کو قتل کرنے کا حُکم ملتا ہے ، اور چند دوسری أحادیث میں دو قسم کے سانپوں کے لیے الگ حُکم ملتا ہے ،

⓵ جِن میں سے ایک قِسم کے سانپ کو مارنےسے منع کیا گیا،لہذا اِس معاملے میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر قِسم کے سانپوں میں سے ایک قِسم کے سانپوں کو نہیں مارا نہیں جائے گا ،
⓶ اور ایک قِسم کے سانپوں کو مارنے سے پہلے اُن سانپوں کو تنبیہ(warning)کی جائے گی ،

◉ کِس قِسم کے سانپوں کو مارنے کی ممانعت ہے :
۔━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

❶ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنْ قَتْلِ حَيَّاتِ الْبُيُوتِ إِلاَّ الأَبْتَرَ وَذَا الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَخْطَفَانِ - أَوْ قَالَ يَطْمِسَانِ - الأَبْصَارَ وَيَطْرَحَانِ الْحَمْلَ مِنْ بُطُونِ النِّسَاءِ وَمَنْ تَرَكَهُمَا فَلَيْسَ مِنَّا::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گھروں میں پائے جانے والے جِنَّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ،سوائے اُس کے جس کی دُم بہت چھوٹی سی ہوتی ہے اور وہ جِس کی کمر پر دو دھاریاں بنی ہوتی ہیں،کیونکہ یہ (دونوں) بینائی کو چھین لیتے ہیں ،یا فرمایا کہ ، مٹا دیتے ہیں اور عورتوں کے پیٹ سے حمل گرا دیتے ہیں اور بینائی ختم کر دیتے ہیں ۔

[ مُسند أبی یعلی الموصلی/حدیث4341/مُسند عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری حدیث ، مُسند أحمد/حدیث24511/حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا کی پہلی حدیث ، اِس حدیث کے بارےمیں إِمام أبوبکر الہیثمی نے کہا"""أحمد کی روایت کے راوی صحیح روایات والے ہیں """، بحوالہ المجمع الزوائد / کتاب الصید و الذبائح / باب النھی عن قتل عوامر البیوت /باب32 ۔]

❷ سعید ابن المسیب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت ()اِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے پاس حاضر ہوئی تو ان کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ، اُس نے پوچھا ، اے ایمان والوں کی امی جان ، آپ اِس سے کیا کرتی ہیں ، تو انہوں نے اِرشاد فرمایا""" یہ چھپکلیوں( کو قتل کرنے کے لیے ہے ) کے لیے ہے """، کیونکہ نبی کریمﷺ نے ہمیں بتایا تھا ۔

أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ شَىْءٌ إِلاَّ يُطْفِئُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلاَّ هَذِهِ الدَّابَّةُ، فَأَمَرَنَا بِقَتْلِهَا ، وَنَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ إِلاَّ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يُطْمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ::: کہ جب ابراہیم (علیہ السلام)کو آگ میں ڈالا گیا تو (جائے وقوع کے قریب )زمین میں پر چلنے والا (رینگنے والا)کوئی ایسا جانور نہ تھا جس نے آگ بھجائی (کی کوشش)نہ (کی)ہو ، سوائے چھپکلی کے، یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ (کو تیز کرنے کے لیے) پھونکتی رہی، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا، اور ہمیں جِنّان کو قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے دو دھاری والے کے ، اور چھوٹی دُم والے کے کیونکہ یہ دونوں بینائی ختم کر دیتے ہیں اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ گرا دیتے ہیں ۔
[ سُنن النسائی /حدیث/2844کتاب الحج/باب85،امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ]

❸ ابن ابی مُلیکہ رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ، عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہُما و أرضاہُما سب ہی سانپوں کو قتل کر دِیا کرتے تھے ، پھر انہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دِیا اور(منع کرنے کا سبب بتاتے ہوئے )فرمایا :

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ حَائِطًا لَهُ فَوَجَدَ فِيهِ سِلْخَ حَيَّةٍ فَقَالَ انْظُرُوا أَيْنَ هُوَ فَنَظَرُوا فَقَالَ اقْتُلُوهُ
نبی کریمﷺ نے اُن کے باغ کی دیوار گرائی تو اُس (دیوار) میں ایک سانپ کی اتاری ہوئی کھال دیکھی ، تو اِرشاد فرمایا ، دیکھو کہ سانپ کہاں ہے ؟ ، صحابہ نے سانپ دیکھ لیا ، تو رسول اللہﷺ اِرشاد فرمایا ، اُسے قتل کر دو
اس لیے میں سانپوں کو قتل کیا کرتا تھا ، پھر (ایک دفعہ)میری ملاقات ابو لبابہ (البدری رضی اللہ عنہ ُ )سے ہوئی تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ ، رسول اللہﷺ نے اِرشاد فرمایا
لَا تَقْتُلُوا الْجِنَّانَ إِلَّا كُلَّ أَبْتَرَ ذِي طُفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُ يُسْقِطُ الْوَلَدَ وَيُذْهِبُ الْبَصَرَ فَاقْتُلُوهُ
جِنّان کو قتل مت کرو، سوائے اس کے جس کی دُم کٹی ہوتی ہے ، (یا اتنی چھوٹی ہوتی ہے گویا کہ کٹی ہوئی ہو)،اور سوائے اُس کے جِس کی کمر پر دو دھاریاں نبی ہوتی ہیں ، کیونکہ یہ (دونوں قِسم کے سانپ)حمل ضائع کر دیتے ہیں ، اور بینائی ختم کر دیتے ہیں.

[ صحیح البُخاری/حدیث3311/کتاب بدء الخلق/باب 15، صحیح مُسلم/ حدیث 2233/کتاب قتل الحیات وغیرہ/پہلا باب، اُوپرلکھے ہوئے الفاظ صحیح البُخاری کی روایت کے ہیں ]

اور سنن ابی داؤد میں اس کے یہ الفاظ ہیں کہ

نَهَى عَنْ قَتْلِ الْجِنَّانِ الَّتِى تَكُونُ فِى الْبُيُوتِ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يَخْطِفَانِ الْبَصَرَ وَيَطْرَحَانِ مَا فِى بُطُونِ النِّسَاءِ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے جِنّان جو کہ گھروں میں ہوتے ہیں ، انہیں قتل کرنے سے منع فرمایا ، سوائے اس کے کہ وہ جِنّان دو دھاری والوں میں سے ہو ، اور چھوٹی دُم والا ہو ، کیونکہ یہ دونوں (قِسم کے سانپ)بینائی چھین لیتے ہیں ، اور جو کچھ عورتوں کے پیٹ میں ہوتا ہے نکال دیتے ہیں [ سُنن ابو داؤد /حدیث /5255کتاب الادب /باب175 ]

اس حدیث شریف سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ پہلے ہر قِسم کے سانپوں کو مارنے کا عام حکم فرمایا گیا تھا ، پھر اُس حکم میں تبدیلی فرما کر اسے مُقیّد فرما دِیا گیا،
إِمام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح البُخاری میں لکھا :::

""" جِنَّان ::: جان کی جمع ہے ، اور جان چھوٹےسے باریک ہلکے وزن والے سانپ کو کہتے ہیں ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جان وہ سانپ ہوتا ہے جو باریک اور سفید رنگ کا ہوتا ہے""" ،
إِمام الترمذی رحمہُ اللہ نے ابن المبارک رحمہُ اللہ کا قول نقل کیاہے کہ """جان وہ سانپ ہے جو چاندی کے طرح (چمکدار رنگت والا)ہوتا ہے ،اور اُسکی چال سیدہی ہوتی ہے"""،
عام طور پر
( جِنّان ) سے مُراد چھوٹے سانپ ہوتے ہیں ،
( أبتر ) اُس سانپ کو کہا جاتا ہے جِس کی دُم چھوٹی سی ہوتی ہے ، اور عموماً اُس کی رنگت نیلی سی ہوتی ہے،
( ذی طفیتین ) وہ سانپ جِس کی پُشت پر دو سُفید یا سُفیدی مائل دھاریاں ہوتی ہیں،

مذکورہ بالا سب احادیث شریفہ کے مطالعہ سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں میں سے دودھاری والے ، اور چھوٹی دُم والے سانپوں کو فوراً قتل کر دیا جانا چاہیے کیونکہ یہ سانپ دو خوفناک کام کرتے ہیں ،
⓵بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور ،
⓶ حاملہ عورتوں کا حمل گِرا دیتے ہیں

اس کے بعد گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے کے حکم میں سے ایک احتیاطی کاروائی ، کے حکم کے بارے میں مطالعہ کریں گے ، وہ احتیاطی کاروائی گھروں میں دِکھائی دینے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے انہیں تنبیہ کرنے کی ہے ،

کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :

━━━━━━━━━━━━━

یہاں سے آگے چلنے سے پہلے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ کچھ ایسے لوگوں کے شبہات کا جواب دیا جائے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کو اپنی ناقص اور جہالت زدہ عقلوں کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور اس میں علمیت کا رنگ بھرنے کے لیے انہیں جدید سائنسی علوم کی معلومات کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اور اگر اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی کوئی معلومات حاصل نہ کر سکیں تو معاذ اللہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا تو انکار ہی کر ڈالتے ہیں اور قران کریم کی آیات مبارکہ کی باطل تاویلات کرنے لگتے ہیں ،
جبکہ قران کریم اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ سائنسی معلومات کا ذریعہ نہیں ہیں ، اور ان پر """ ایمان بالغیب """ رکھنے کا حکم ہے ، لیکن اس کی توفیق ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ، خاص طور پر کسی ایسے کو تو نہیں ہوتی جو اپنی عقل ، ذاتی سوچ و فِکر اور مادی علوم کو اللہ اور اس کی خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال اور افعال کی جانچ کی کسوٹی بناتا ہے ،
ایسے ہی جاھلوں میں سے کچھ اِن صحیح ثابت شدہ احادیث پر بھی اعتراض کرتے ہیں ، کیونکہ ان کی عقلوں میں یہ بات نہیں آ پاتی کہ کوئی سانپ کس طرح کسی کی بینائی ضائع کر سکتا ہے؟؟؟ اور کس طرح کسی حاملہ عورت کا حمل گرا سکتا ہے ؟؟؟
میں یہاں کچھ زیادہ تفصیلات ذِکر نہیں کروں گا ، بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جدید علوم میں سے جانوروں کی صِفات اور عادات سے متعلق علم میں یہ چیز معروف ہے کہ سانپوں میں ایسے بھی ہیں جو کافی فاصلے سے اپنا زہر فوارے کی صورت میں پھینکتے ہیں ، اور اگر وہ زہر کسی کی آنکھ میں داخل ہو جائے ، اور مناسب وقت کے اندر اندر اس کا کوئی علاج نہ کیا جائے تو اُس آنکھ کی بینائی ہمیشہ کے لیے جاری رہتی ہے ،
ایسے سانپوں کو عام طور پر """Spitting Snakes, Rinkhals cobra, Ringhals cobra """وغیرہ کہا جا تا ہے ، اور ان کی کئی مختلف اقسام بتائی جاتی ہیں ،
ان معلومات کو انٹر نیٹ پر بھی بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے
عقل پرستوں کی جہالت اگر اس کا علم نہیں رکھتی تو یہ ان کی بد عقلی ، اور جہالت کی ایک اور کھلی نشانی ہے ، نہ کہ صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں کسی کمی کی ،
بلکہ صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ میں ایسی باتوں کا علم عطا فرمانا جن کا علم اس وقت کے انسانی معاشرے میں نہ تھا، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس علم کے لیے جدید علوم میں سے گواہیوں کا میسر ہونا اس بات کے دلائل میں سے ہے کہ احادیث شریفہ اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز بان مبارک پر جاری ہوتی تھیں ، اور یہ ہی وہ وحی ہے ، جسے ہمارے عُلماء " وحی غیر متلو " ، یعنی تلاوت نہ کی جانے والی وحی کہتے ہیں، اور جِس کی گواہی خود اللہ جلّ و علا نے یہ فرما کر دی کہ :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى O إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى O عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى
(ہم نے بھیجے ) اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتے O اُن کی بات تو صِرف اُن کی طرف کی گئی وحی ہےOجو وحی انہیں بہت زیادہ قوت والے (فرشتے جبریل)نے سکھائی
[ سُورہ النجم (53)/آیات3،4،5 ]

پس جو اپنی بد دماغی کو حدیث ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پرکھ کی کسوٹی بناتا ہے وہ عملی طور پر اللہ کے اس فرمان کا انکار کرنے والا ہے ، اور قران کا مخالف ہے ،
اِن احادیث شریفہ کی شرح کرنے والے ہمارے اِماموں رحمہم اللہ نے اِن کے بارے میں بہت صدیوں سے بہت شاندار قِسم کی علمی معلومات مہیا کر رکھی ہیں ، اگر میں اُن سب کا ذِکر یہاں کرنے لگوں تو بات کافی لمبی ہو جائے گی ، صِرف ایک امام ربانی ، اِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی پیش کردہ شرح میں سے ایک اقتباس پڑھتے ہے۔

وَلَا رَيْبَ أَنّ اللّهَ سُبْحَانَهُ خَلَقَ فِي الْأَجْسَامِ وَالْأَرْوَاحِ قُوًى وَطَبَائِعَ مُخْتَلِفَةً وَجَعَلَ فِي كَثِيرٍ مِنْهَا خَوَاصّ وَكَيْفِيّاتٍ مُؤَثّرَةً وَلَا يُمْكِنُ لِعَاقِلٍ إنْكَارُ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ فِي الْأَجْسَامِ فَإِنّهُ أَمْرٌ مُشَاهَدٌ مَحْسُوسٌ وَأَنْتَ تَرَى الْوَجْهَ كَيْفَ يَحْمَرّ حُمْرَةً شَدِيدَةً إذَا نَظَرَ إلَيْهِ مِنْ يَحْتَشِمُهُ وَيَسْتَحِي مِنْهُ وَيَصْفَرّ صُفْرَةً شَدِيدَةً عِنْدَ نَظَرِ مَنْ يَخَافُهُ إلَيْهِ وَقَدْ شَاهَدَ النّاسُ مَنْ يَسْقَمُ مِنْ النّظَرِ وَتَضْعُفُ قُوَاهُ وَهَذَا كُلّهُ بِوَاسِطَةِ تَأْثِيرِ الْأَرْوَاحِ وَلِشِدّةِ ارْتِبَاطِهَا بِالْعَيْنِ يُنْسَبُ الْفِعْلُ إلَيْهَا وَلَيْسَتْ هِيَ الْفَاعِلَةَ وَإِنّمَا التّأْثِيرُ لِلرّوحِ وَالْأَرْوَاحُ مُخْتَلِفَةٌ فِي طَبَائِعِهَا وَقُوَاهَا وَكَيْفِيّاتِهَا وَخَوَاصّهَا فَرُوحُ الْحَاسِدِ مُؤْذِيَةٌ لِلْمَحْسُودِ أَذًى بَيّنًا وَلِهَذَا أَمَرَ اللّهُ - سُبْحَانَهُ - رَسُولَهُ أَنْ يَسْتَعِيذَ بِهِ مِنْ شَرّهِ وَتَأْثِيرُ الْحَاسِدِ فِي أَذَى الْمَحْسُودِ أَمْرٌ لَا يُنْكِرُهُ إلّا مَنْ هُوَ خَارِجٌ عَنْ حَقِيقَةِ الْإِنْسَانِيّةِ وَهُوَ أَصْلُ الْإِصَابَةِ بِالْعَيْنِ فَإِنّ النّفْسَ الْخَبِيثَةَ الْحَاسِدَةَ
تَتَكَيّفُ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ وَتُقَابِلُ الْمَحْسُودَ فَتُؤَثّرُ فِيهِ بِتِلْكَ الْخَاصّيّةِ وَأَشْبَهُ الْأَشْيَاءِ بِهَذَا الْأَفْعَى فَإِنّ السّمّ كَامِنٌ فِيهَا بِالْقُوّةِ فَإِذَا قَابَلَتْ عَدُوّهَا انْبَعَثَتْ مِنْهَا قُوّةٌ غَضَبِيّةٌ وَتَكَيّفَتْ بِكَيْفِيّةٍ خَبِيثَةٍ مُؤْذِيَةٍ فَمِنْهَا مَا تَشْتَدّ كَيْفِيّتُهَا وَتَقْوَى حَتّى تُؤَثّرَ فِي إسْقَاطِ الْجَنِينِ وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي طَمْسِ الْبَصَرِ كَمَا قَالَ النّبِيّ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ فِي الْأَبْتَرِ وَذِي الطّفْيَتَيْنِ مِنْ الْحَيّاتِ إنّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ الْحَبَل
وَمِنْهَا مَا تُؤَثّرُ فِي الْإِنْسَانِ كَيْفِيّتُهَا بِمُجَرّدِ الرّؤْيَةِ مِنْ غَيْرِ اتّصَالٍ بِهِ لِشِدّةِ خُبْثِ تِلْكَ النّفْسِ وَكَيْفِيّتِهَا الْخَبِيثَةِ الْمُؤَثّرَةِ وَالتّأْثِيرُ غَيْرُ مَوْقُوفٍ عَلَى الِاتّصَالَاتِ الْجِسْمِيّةِ كَمَا يَظُنّهُ مَنْ قَلّ عِلْمُهُ وَمَعْرِفَتُهُ بِالطّبِيعَةِ وَالشّرِيعَةِ بَلْ التّأْثِيرُ يَكُونُ تَارَةً بِالِاتّصَالِ وَتَارَةً بِالْمُقَابَلَةِ وَتَارَةً بِالرّؤْيَةِ وَتَارَةً بِتَوَجّهِ الرّوحِ نَحْوَ مَنْ يُؤَثّرُ فِيهِ وَتَارَةً بِالْأَدْعِيَةِ وَالرّقَى وَالتّعَوّذَاتِ وَتَارَةً بِالْوَهْمِ وَالتّخَيّلِ ، وَنَفْسُ الْعَائِنِ لَا يَتَوَقّفُ أَعْمَى فَيُوصَفُ لَهُ الشّيْءُ فَتُؤَثّرُ نَفْسُهُ فِيهِ وَإِنْ لَمْ يَرَهُ وَكَثِيرٌ مِنْ الْعَائِنِينَ يُؤَثّرُ فِي الْمَعِينِ بِالْوَصْفِ مِنْ غَيْرِ رُؤْيَةٍ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى لِنَبِيّهِ { وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ } [سُورۃ الْقَلَمُ /آیۃ 51 ] .
وَقَالَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ }،
فَكُلّ عَائِنٍ حَاسِدٌ وَلَيْسَ كُلّ حَاسِدٍ عَائِنًا فَلَمّا كَانَ الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ كَانَتْ الِاسْتِعَاذَةُ مِنْهُ اسْتِعَاذَةً مِنْ الْعَائِنِ وَهِيَ سِهَامٌ تَخْرُجُ مِنْ نَفْسِ الْحَاسِدِ وَالْعَائِنِ نَحْوَ الْمَحْسُودِ وَالْمَعِينِ تُصِيبُهُ تَارَةً وَتُخْطِئُهُ تَارَةً

ترجمہ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ ُ وتعالی نے (مخلوق کے ) جسموں اور روحوں میں مختلف طبیعتیں اور قوتیں بنائی ہیں ، اور ان میں سے بہت سی (طبیعتیں اور قوتیں عام معمول سے دُور رکھتے ہوئے) خاص اور اثر کرنے والی بنائی ہیں ،کسی (درست ) عقل والے کے لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ روح کے ( کسی دوسرے ) اجسام میں اثر ہونے کا انکار کرے ، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مشاھدہ میں ہے اور احساس کی حدود میں ہے ، پس تم دیکھتے ہو کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ شرم کرتا ہو، جس کی حیاء کرتا ہو تو دیکھنے والا کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے (خاص طور پر مؤنث کے چہرے پر یہ اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے ، بشرطیکہ وہ حیا ء والی ہو ،فطرت کی اس خو بصورت دل نشین صِفت سے خود کو آزاد کرنے والی نہ ہو )اور کہ جب (کوئی ) کسی ایسے شخص جو دیکھے جِس سے وہ ڈرتا ہو ، تو دیکھنے والا کا چہرہ پیلا ہو جاتا ہے ، اور یہ بھی لوگوں کے مشاھدے میں ہے کہ لوگ نظر کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں ، اور کمزور ہو جاتے ہیں ، یہ سب کچھ روح کی تاثیر کے ذریعے ہوتا ہے ،

اور رُوح کا ربط آنکھ کے ساتھ بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے رُوح کی تاثیر کو آنکھ سے منسوب کیا گیا ، جب کہ (درحقیقت ) آنکھ بذات خود اس قسم کی تاثیر کرنے والی چیز نہیں ، بلکہ تاثیر رُوح کی ہوتی ہے ، اور رُوحیں اپنی طبعیتوں ، قوتوں، کیفیات اور خصوصیات میں (ایک دوسرے سے)مختلف ہوتی ہیں ، پس حسد کرنے والی رُوح محسود (جس سے حسد کیا جاتا ہے)کے لیے واضح طور پر نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے ، اِسی لیے اللہ سُبحانہ ُ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کو یہ حکم فرمایا کہ وہ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)حسد کرنے والوں سے اللہ کی پناہ طلب فرمایا کریں ،
حسد کرنے والے کی محسود پر نقصان دہ تاثیر ایسا معاملہ ہے جس سے صِرف وہی انکار کر سکتا ہے جو انسانیت کی حقیقت (سمجھنے کی عقل و فراست) سے خارج ہو ، اور یہی (رُوحوں کی تاثیر) نظر لگنے کی اصلیت ہے ، برے نفس ، حسد کرنے والے ہوتے ہیں ایسے نفوس بری کیفیات کے ہی حامل ہوتے ہیں ، اور (جب) یہ محسودکے سامنے آتے ہیں تو اس بری کیفیت کا محسود پر اثر ہوتا ہے ، اور ایسے نفوس کے جیسی چیزوں میں سب سے زیادہ قریبی چیز سانپ ہے ، اس کا زہر اس میں قوت کے ساتھ خفیہ رہتا ہے ، اور جب یہ سانپ اپنے دشمن کے سامنے آتا ہے تو اس کے غصے کی طاقت پھٹ پڑتی ہے ، اور یہ بری اور نقصان دینے والی صِفت سے مغلوب ہو جاتا ہے ، پس ان سانپوں میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جِس کی یہ بری صِفت اس قدر طاقتور ہوجاتی ہے کہ وہ حمل تک گرا دیتے ہیں ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو بینائی ختم کر دیتے ہیں ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ، اور ان سانپوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کی برائی کی قوت کی وجہ سے انسانوں پر کسی مادی تعلق (ربط ، اتصال) کے بغیر ہی اپنا اثر کر دیتے ہیں ،اور (یاد رکھیے کہ ایسی ) اثر پذیری کے لیے جسمانی ربط ضرور ی نہیں ہوتا ، جیسا کہ طبعی اور شرعی علوم سے جاھلوں کا خیال ہے ، بلکہ نفوس کا اثر بعض اوقات جمسانی تعلق ہونے سے ہوتا ہے ، تو بعض اوقات صِرف آپنے سامنے ہو جانے سے ہوتا ہے ، اور بعض اوقات صِرف نظر ملنے سے ہو جاتا ہے ، اور بعض اوقات کسی روح کی دوسرے کی طرف توجہ سے (جس کی طرف توجہ کی جائے ) اثر ہو جاتا ہے ، اور بعض اوقات دعاؤں سے، اور بعض اوقات جھاڑ پھونک (دم وغیرہ) کرنے سے، اور بعض اوقات (شر اور شریر سے ) پناہ طلب کرنے والے کلمات سے اثر ہوجاتا ہے ، اور (تو اور) بعض اوقات تو صِرف (اپنے خود ساختہ، یا لاشعور کے بنائے ہوئے) وھم اور تخیل سے اثر ہو جاتا ہے، اور نظر لگانے والا نفس کو اندھا پن (بھی ) نہیں روکتا ، کہ اگر کسی (ایسے نفس والے) اندھے کو بھی کسی چیز کے بارے میں بتایا جائے (جس چیز سے وہ حسد کرے ) تو اُس کا( برا ، نظر لگانے والا ) نفس اُس چیز میں اثر کرتا ، اور وہ اُس چیز کو دیکھ نہیں رہا ہوتا ، اور (یہ معاملہ بھی مشاھدے میں ہے کہ)بہت سے نظر لگانے والے ، کسی کو دیکھے بغیر صِرف اُس کے بارے میں کچھ معلومات پا کر ہی اسے نظر کا شکار کر لیتے ہیں ، اور (اسی لیے ، اور اسی چیز کو سمجھاتے ہوئے )اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے اِرشاد فرمایا

وَإِنْ يَكَادُ الّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمّا سَمِعُوا الذّكْرَ
اور بالکل قریب تھا کہ کافر آپ کو اُن کی نظروں کے ساتھ پِھسلا دیں ، جب انہوں نے (یہ) ذِکر (قران کریم) سُنا [ سُورہ القلم /آیت 51 ]

اور اِرشاد فرمایا ہے :

قُلْ أَعُوذُ بِرَبّ الْفَلَقِ O مِنْ شَرّ مَا خَلَقَ O وَمِنْ شَرّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ O وَمِنْ شَرّ النّفّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ O وَمِنْ شَرّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ

(اے محمد ) کہیے میں صُبح کے رب کی پناہ طلب طلب کرتا ہوں O اُس شر سے جو اُس نے تخلیق فرمایا O اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے O اور گانٹھوں (گرہوں) پر پڑھ پڑھ کر پھونکنے والیوں کے شر سے O اور حسد کرنے والےکے شر سے جب وہ حسد کرے
[ سُورہ الفلق ]

پس (اللہ کے اس کلام کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوا کہ) ہر حاسد نظر لگانے والا ہوتا ہے ، اسی لیے نظر لگانے والا حاسدوں کی گنتی میں ہوتا ہے ، لہذا حاسد سے پناہ طلب کرنا ، نظر لگانے والے سے پناہ طلب کرنے کو شامل کر لیتا ہے ، اور نظر ایسا تِیر ہوتی ہے جو حسد کرنے والے نفس میں سے محسود اور نظر کا شکار ہونے والے کی طرف نکلتا ہے ، جو تِیر کبھی تو نشانے پر لگتا ہے اور کبھی نشانہ چُوک جاتا ہے """""، زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/ فصل الرّدّ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ الْإِصَابَةَ بِالْعَيْنِ اور فصل الْحَاسِدُ أَعَمّ مِنْ الْعَائِنِ۔

پس واضح ہوا کہ کسی مخلوق کا کسی دوسری مخلوق پر مختلف طور پر اثر انداز ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین سے ثابت شدہ ہے ، اور ایسی ہی کچھ تاثیر کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں دی گئی ہے ،
جس کی تائید اللہ تبارک و تعالیٰ نے جدید علوم کے ذریعے بھی مہیا فرمادی ، اب اس کے بعد بھی اگر کوئی اِن صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ کاا نکار کرے ، یا ان پر اعتراض کرے تو میں یہی دُعا کرتاہوں کہ اللہ جلّ و علا اُن لوگوں کو ہدایت دے ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں ہے تو اللہ جلّ جلالہُ اپنی ساری ہی مخلوق کو اُن لوگوں کے شر سے محفوظ فرما دے ۔

کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی :
۔━━━━━━━━━━━━━━

⓵ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما و أرضاہُما کا کہناہے کہ ایک دفعہ میں ایک سانپ کو قتل کرنے کی کوشش میں تھا کہ أبو لبابہ (رضی اللہ عنہ ُ ) نے مجھے ایسا کرنےسےمنع کیا ، تو میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے سانپوں کو قتل کرنے کا حُکم فرمایاہے ، تو أبو لُبابہ(رضی اللہ عنہ ُ) نے کہا
إِنَّهُ نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ ، وَهْىَ الْعَوَامِرُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے( تمام سانپوں کو مارنےکے حُکم کے)بعد میں گھروں میں رہنے والے عوامر(یعنی گھروںمیں رہنےوالے جِنَّات جو سانپوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں)کو قتل کرنےسے منع فرما دیا تھا ۔
[ صحیح البُخاری /حدیث 3298/ کتاب بدء الخلق/باب 14 ]

ایک اضافی فائدہ :
۔━━━━━━━━

اس حدیث شریف سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو رسول اللہﷺ کی ہر بات کا پتہ نہیں ہوا کرتا تھا، جو کچھ اُس نے خود سے نہ سنا ، اُس کے بارے میں تب ہی جانتا تھا جب اُسے اپنے کسی دوسری صحابی بھائی سے کوئی خبر ملتی ، رضی اللہ عنہم ا جمعین۔

رسول اللہﷺ نے گھروں میں رہنے والے جنّات کو قتل کرنے سے منع کرنے کا سبب بھی بیان فرمایا اور اپنی عادتِ مُبارک کے مُطابق اپنی اُمت پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے اُس کی مکمل وضاحت فرمائی ، ملاحظہ فرمایے :

⓶ أبی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اِرشاد فرمایا
إِنَّ بِالْمَدِينَةِ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ قَدْ أَسْلَمُوا فَمَنْ رَأَى شَيْئًا مِنْ هَذِهِ الْعَوَامِرِ فَلْيُؤْذِنْهُ ثَلاَثًا فَإِنْ بَدَا لَهُ بَعْدُ فَلْيَقْتُلْهُ فَإِنَّهُ

شَيْطَانٌ::: مدینہ میں کچھ جن مُسلمان ہو چکےہیں ، لہذا جب تم لوگ گھروں میں کوئی سانپ دیکھو تو اُنہیں تین دفعہ تنبیہ کرو ، اگر اِس کے بعد بھی وہ نظر آئے تو اُسے قتل کر دو کیونکہ وہ شیطان ہے .

[ صحیح مُسلم حدیث 2236 ،کتاب السلام/ باب 37 /قتل الحیات و غیرھا کی آخری حدیث ]

اِن أحادیث کی شرح میں لکھا گیا " اگر تین دفعہ تنبیہ کرنے اور گھر سے نکل جانے یا ظاہر نہ ہونے اور نُقصان نہ پہنچانے کا کہہ دینے کے بعد بھی وہ سانپ نظر آئے تو اُسے قتل کیا جائے گا ، کیونکہ یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ وہ مسلمان جنوں میں سے نہیں ، لہذا اُس کو قتل کرنا حرام نہیں ، کیونکہ اس کو قتل کرنے کا حق مل گیا ، اِس لیے اللہ تعالیٰ اُس کے رشتہ داروں میں سے کِسی کو بھی ہر گِز یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ قتل کرنے والے سے اِنتقام لے.

اِن أحادیث شریفہ کے مفہوم کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں :

⓵ گھروں میں رہنے یا نظر آنے والے سانپوں کو قتل کرنے سے پہلے تنبیہ کرنے کا معاملہ صرف مدینہ کے گھروں کے لیے خاص ہے،

⓶ أحادیث کے عام اِلفاط کے مطابق یہ حُکم تمام دُنیا کے گھروں کے لیے ہے ، رہا معاملہ گھروں سے باہر والے سانپوں کو تو اُن کو فوراً اور ہر حال میں قتل کرنے کا حُکم واضح ہے اور اُس کی شرح میں سب کا اتفاق ہے ، شرح إِمام النووی علیٰ صحیح مُسلم ، فتح الباری شرح صحیح البُخاری ، التمھید لأبن عبدالبَر ۔

یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ سانپوں کو تنبیہ کرنے کےلیے کوئی خاص اِلفاظ کِسی صحیح حدیث میں نہیں ملتے ، ایک ضعیف یعنی کمزور، نا قابل روایت ہے جِس کے اِلفاظ کو عام طور پر سانپوں کو تنبیہ کرنے کے لیے بطورء سُنّت استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنا دُرست نہیں کیونکہ یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے الفاظ کے طور پر ثابت شدہ نہیں ، لہذا ان الفاظ کو سُنّت سمجھنا اور سُنّت سمجھ کر استعمال کرنا دُرُست نہیں ، وہ ضعیف (کمزور، نا قابل حُجت ) درج ذیل ہے،

إِذا ظھرت الحیۃ فی المسکن فقولوا لھا إِنا نسألکِ بعھد نوحٍٍ وبعھدسلیمان بن داؤد أن لا تؤذینا ، فإن عادت فأقتلوھا

اگر کِسی گھر میں سانپ نظر آئے تو اُسے کہو ہم تمہیں نوح اور سلیمان بن داؤد کے ساتھ کیے ہوئے عہد کے واسطے سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں نقصان مت پہنچانا ، اگر یہ کہنے کے بعد بھی وہ واپس نظر آئے تو اُسے قتل کر دو

[ سُنن الترمذی حدیث 1483 /کتاب الأحکام و الفوائد/ باب 2 ما جاء فی قتل الحیات ، سُنن أبو داؤدحدیث 5249/أبواب السلام/باب 33 فی قتل الحیات ، تفصیلات کے لیے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کی کتاب سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ 1507،ملاحظہ فرمائیے ۔]

الحمد للہ ،یہاں تک کی معلومات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو گیا کہ گھروں میں پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم مُقید ہے ، اور گھروں سے باہر پائے جانے والے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم عام ہے ، اور جو دو قِسم کے سانپوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ بینائی ختم کر دیتے ہیں ، اور حامل عورتوں کا حمل گرا دیتے ہیں ، وہ خبر بالکل حق ہے ، جس کا ثبوت قران کریم میں سے بھی میسر ہوا ، اور جدید علوم کی""" جدید تحقیقات """ سے بھی ، جن پر کچھ مسلمان، عملی طور پر ، اللہ کے قران اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین سے زیادہ اِیمان رکھتے ہیں ۔ ولا حول و لا قوۃ اِلا باللہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ : الشیخ عادل سہیل حفظہ اللہ.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS