find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts
Showing posts with label MRS ARSHAD ANSARI. Show all posts

Mangani (Engagement) Ka Islam me Sharai Haisiyat. Musalmano ke yaha Mangani ka riwaz sahi ya galat?

Mangani (Engagement) Aur Modern Muashera.
Shadi se Pahle Ladke Ladki ka Apas me milna julna?
Islam me Mangani (Engagement) ki ahamiyat.

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

📚  منگنی درحقیقت کیا ہے ؟

منگنی ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ کہ فلاں لڑکی یا لڑکے کو فلاں لڑکی یا لڑکے کے ساتھ نکاح کرنا طے پایا اور اس معاہدہ  کی پابندی اس حد تک ہونی چاہیے ,  جب تک خلاف شرع نہ ہو۔ اور ان کے مفاد کے خلاف نہ ہو جن کے حق میں یہ معاہد ہ ہوا ہے۔ جیسے منگنی کے بعد معلوم ہوا کہ  لڑکی بڑی عمر کی ہے۔ اور لڑکا چھوٹا تو اس وعدہ کو توڑنا  ضروری ہے یہ درست نہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔  کہ اگر کوئی قسم کھالے اور قسم کھانے کے بعد اس کام سے روکنا خلاف شرع سمجھے۔ جس سے رکنے کی قسم کھائی ہے تو ا س کو چاہیے۔ کہ قسم کفارہ دے اور وہ کام کرلے۔ واللہ اعلم۔

(نوٹ ) اس قسم کے وعدے کرنے بھی منع ہیں۔  مگر غرض مند لوگ کر لیتے ہیں۔ پھر مصیبت میں پڑتے ہیں۔ مسلمان یہ سمجھیں کہ لڑکیاں خدا کی امانت ہیں۔ اللہ کے سوا ان کے حقوق میں تصرف جائز نہیں ہے۔
(14 اکتوبر 1938ء)
شرفیہ

اول تو ایسا وعدہ ہ بے قاعدہ اور غلط ہے پھر اگر  قرائن اغلبیا جیسے ہوں جن سے کہ طرفین کا بندہ نہ معلوم ہوتا ہو۔ اور یہ ایفائے وعدہ مغضی الی الفساد    ہو تو توڑنا لازم ہے۔ واللہ  یعلم المفسد من المصلح
(ابو سعید شرف الدین دہلوی)

فتاویٰ ثنائیہ /جلد 2
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📚  کیا منگنی شریعت میں جائز ہے ؟

اگر منگنی سے مراد پیغام نکاح بھیج کر کسی عورت سے مستقبل میں نکاح کی بات طے کرنا ہے تو یہ جائز ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

﴿وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاء أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ عَلِمَ اللّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَـكِن لاَّ تُوَاعِدُوهُنَّ سِرّاً إِلاَّ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىَ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ }البقرة235

تم پر اس میں کوئی گناه نہیں کہ تم اشارةً کنایتہً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیده اراده کرو، اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے، لیکن تم ان سے پوشیده وعدے نہ کرلو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بوﻻ کرو اور عقد نکاح جب تک کہ عدت ختم نہ ہوجائے پختہ نہ کرو، جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم ہے، تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور علم واﻻ ہے۔

باقی منگنی کے رسوم و رواج یا  اسے بطور رسم  کے منانے میں تفصیل ہے۔
فتویٰ کمیٹی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نکاح کے امور میں سے ایک امر منگنی بھی ہے ۔ یہ ہندی لفظ ہے اسے عربی میں خطبہ کہتے ہیں اور اردو میں شادی کا پیغام دینا کہتے ہیں جو عقد نکاح سے پہلے ہوتا ہے ۔ ویسےعقد نکاح شرعی طریقے پہ انجام دینے سے پورا ہوجاتا ہے یعنی لڑکی کے ولی کی طرف سے ایجاب اور لڑکا کی طرف سے قبول ہو اور یہ ایجاب و قبول دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو۔
اسلام میں منگنی کا ثبوت ملتا ہے اس کے کئی دلائل ہیں ، چند ایک ملاحظہ فرمائیں :

🌟 اللہ تعالی فرمان ہے :ولا جناح عليكم فيما عرضتم به من خطبة النساء
(البقرة :235)
ترجمہ: اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو ۔

🌟 نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو شادی کا پیغام دیا تھا اور ان سے منگنی کی تھی ۔
(بخاری :4793 )

🌟 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا سے منگنی کی تھی۔
( صحیح بخاری :4830 ) ۔

📚  شرعی حکم :

مذکورہ دلائل کی روشنی میں منگنی مشروع ہے، لہذا منگنی ہونے کے بعد بغیر کسی عیب کے قول و قرار سے مکرنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر فریقین میں سے کسی پہ کوئی معقول عیب ظاہر ہوجائے تو منگنی ختم کرسکتا ہے ۔

📚  منگنی کی حکمت اور فوائد :

روزمرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی دو فریق یا دو ادارہ یا دو محکمہ میں معاہدہ ہوتا ہے تو آپس میں ملاقات کرتے ہیں ، منگنی کی رسم بھی صدیوں سے ہے شکل مختلف رہی ہوگی ۔ اس کی حکمت ایک دوسرے کو قاعدے سے جان لینا ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے جانبین کو قریب سے دیکھ کر شادی کا معاملہ طے کرنے یا انکار کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے ۔

📚  منگنی کے مباح امور :

٭ کسی سے منگنی کا ارادہ ہو تو استخارہ کرے جیسا کہ فرمان نبوی ہے "جب تم میں سے كوئی شخص كسی (مباح) كام كا ارادہ كرے تو دو ركعات نفل نماز پڑھے اس كے بعد دعا كرے"۔(بخاری : 6382)

٭دیندار لڑکی کو پیغام دے :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۔ (متفق علیہ)

ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کی وجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)۔

٭باکرہ سے شادی: آپ ﷺ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں :فهلا بكراً تلا عبها وترعبك (متفق عليه)
ترجمہ: کیوں تم نے کنواری سے شادی نہیں کی، وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے۔
(اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے۔)
٭زیادہ بچہ جننے والی عورت سے شادی:اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الوَلُودَ ، فَاِنِّی مُکَاثِر بِکُمُ الأُمَمَ۔( أبوداوؤد )

ترجمہ: تم زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو ، کیونکہ دیگر امتوںکے مقابلے میں مجھے اپنی امت کی کثرتِ تعداد پر فخر ہوگا۔

٭ منگیتر کو دیکھنا: شادی سے پہلے لڑکی (منگیتر) کو دیکھنا دیکھنا مسنو ن ہے چنانچہمغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنے والا ہوں، آپ نے فرمایا: جاؤ اسے جاکر دیکھ لو،کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار (محبت اور رشتے کی مضبوطی) کا باعث بنے گا ۔( صحیح ابن ماجہ : 1524)

📚 منگنی کے غیر شرعی امور:

🌟 منگنی پہ منگنی:نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:لا یخطب الرجل علی خطبة اخیہ حتی ینکحہ او یترک (رواہ البخاری)
ترجمہ: آدمی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے یہاں تک وہ اس سے شادی کرلے یا چھوڑ دے“ (صحیح بخاری)

🌟 انگوٹھی کی رسم: منگنی میں لڑکا اور لڑکی انگوٹگیوں کا تبادلہ کرتے ہیں جسے ڈبلہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اعتقاد کے ساتھ کے اس کے اس کے پہننے سے فائدہ ہوگا۔ یہ جاہلی تصور ہے بلکہ ضفیف الاعتقادی ہے اور یہ غیروں کی نقالی بھی ہے ۔ سونے کی انگوٹھی مردوں پہ حرام ہے ۔

🌟 منگنی پہ آڈر کی دعوت: اگر مہمانی کے طور پر دعوت کھلادی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر آڈر کرکے جبری دعوت کھانا جائز نہیں ہے ، اسی طرح مٹھائیاں تقسیم کرنے کی رسم بھی درست نہیں ہے ۔

🌟 پھول مالا پیش کرنا: بعض علاقوں میں رسم کے طور پہ پھول مالا پیش کئے جاتے ہیں یہ بھی غیر شرعی ہے ۔

🌟 شراب و کباب کی محفل: منگنی کے نام ستارے ہوٹلوں میں شراب و کباب اور رقص و سرود کی محفل قائم کی جاتی ہے جو سراسر حرام ہے ۔

🌟 اختلاط : منگنی کی رسم میں بے پردہ خواتین اجبنی مردوں کے ساتھ اکٹھی ہوتی ہیں یہ بھی اسلام میں حرام ہے ۔

🌟 مہنگے تحائف: اس موقع سے ایک دوسرے کو مہنگے تحائف پیش کئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ پیسے نہ ہوں تو اس رسم کی ادائیگی کے لئے قرض لیا جاتا ہے ۔ یہ غیرشرعی رسم کے ساتھ ساتھ فضول خرچی میں بھی شامل ہے ۔

📚  منگیتر سے متعلق غیر شرعی امور:

٭ اسلامی اعتبار سے منگیتر کا ہتھیلی اور اس کا چہرہ دیکھنا جائز ہے مگر یہاں بدن کا حصہ تک کھول کر دیکھا جاتا ہے ، یہ کام کہیں لڑکا انجام دیتا ہے تو کہیں منگنی میں آنے والی خواتین انجام دیتی ہیں۔
٭لڑکا کو خلوت کی چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لے، یہ حرام کام ہے ۔
٭ منگنی کے بعد لڑکی سے رابطہ ، فون پہ بات چیت اور اس کے ساتھ ادھر ادھر گھوم گھام شروع ہوجاتا ہے ۔
٭ بسا اوقات کھلی جھوٹ سے شادی پہ برا اثر پڑتا ہے اور شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی جسمانی تعلق تک قائم کر لیتے ہیں ۔ یہ زنا کاری جسے اسلام نے حرام ٹھہرایا ہے ۔

لمحہ فکریہ:
کچھ لوگوں نے منگنی کے نام پہ لڑکیوں کو دیکھنا، دعوت کھانا، تحائف حاصل کرنا دھندا بنالیاہے ، شادی کا پیغام محض ایک بہانہ ہوتا ہے ۔
غریب گھر کی بیٹی یا خوبصورتی سے محروم لڑکی کی شادی اس وقت ایک چیلنج بن گیاہے ، ہزاروں گھر سے لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں، اورجہاں ایک طرف کھاپی کے مزید کنگال بناتے ہیں وہیں طرح طرح کے عیب نکال کر سماج میں بدنام بھی کرتے ہیں ۔ اگر منگنی کا یہی مطلب ہے تو اسلام ایسی منگنی کی اجازت نہیں دیتا۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📚  منگنی سے پہلے ہمبستری زنا ہے :

آج کل ہمارے منگنی کا جو رواج پایا ہے ،یہ انتہائی خطرناک اور متعدد قباحتوں پر مشمل ہے۔صرف منگنی سے منگیتر حلال نہیں ہوتی،بلکہ وہ غیر محرم ہی رہتی ہے ،لہذا اس سے گفتگو کرنا ،اس سے ملنا جلنا سمیت تمام معاملات ناجائز اور حرام ہیں۔جب تک اس سے نکاح نہیں ہوجا تا اس وقت تک وہ غیر محرم ہی رہتی ہے۔ اگر کسی سے یہ فعل شنیع اور حرام عمل کا ارتکاب ہو گیا ہو تو ان دونوں کو چاہئے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔

ان دونوں کی شادی ہو جائے گی ،بلکہ اب ان دونوں کو ایک دوسرے سے ضرور شادی کرنی چاہئے ،کیونکہ دونوں ہی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ لیکن ان کو اللہ سے توبہ ضرور کرنی چاہئے۔

نیز یہ بات یاد رہے کہ کسی حرام فعل کے وقوع سے کوئی حلال فعل حرام نہیں ہوتا ہے۔

نبی کریم نے فرمایا:

«لا يحرم الحرام الحلال»
حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرتا
سنن ابن ماجه » كتاب النكاح » باب لا يحرم الحرام الحلال

فتوی کمیٹی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📚  منگنی کی انگوٹھی کی شرعئی حیثیت :

منگنی کرنے والے مرد کے دائیں ہاتھ اور منگیتر کے بائیں ہاتھ میں یہ جو انگوٹھی (چھلا) پہنائی جاتی ہے شریعت میں اس عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے لہٰذا افضل  یہی ہے کہ اسے ترک کردیا جائے خواہ یہ چاندی کی انگوٹھی ہو یا کسی اور چیز کی اور اگر یہ سونے کی بنی ہوئی ہو تو پھر یہ مرد کے لئے حرام ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔

فتاویٰ اسلامیہ /جلد 3 / صفحہ147

JOIN US : ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Aaj Musalman Sunnat se itna Door kaise Ho gaya?

Aaj Musalmano me itna ikhtilaf kyu hai?
Sunnat chhor kar Biddat me Sawab talashne wale Musalman.

سنتیں مارڈالی جارہی ہیں، تفرقہ اور اشتعال بڑھ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

وقت آگیا ہے کہ فرقہ واریت اور دھڑے بندیوں کی دعوت دینے والے اور نفرت و اشتعال پھیلانے والوں کی تعداد آج اُن سلفی علماء سے زیادہ ہوگئی ہے جو ان تفرقہ بازوں اور فسادیوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں، مگر کچھ بکھر کر اپنی طاقت کھو بیٹھے اور کچھ دنیا پرستی میں گُم ہوگئے ۔

اپنی تبلیغ سے مساجد آباد کرو، دعوتِ دین اور خیروبھلائی کی نشرواشاعت عظیم ترین کام ہیں، ان کی عظمت کا حق ہر مبلغ پر یہ ہے کہ ان کاموں سے مساجد آباد کریں ، مساجد وہ جگہ ہیں جہاں ذکر واذکار کے لیے ٹہیرنے والے شخص سے اللہ تعالیٰ یوں خوش ہوتا ہے جیسے گمشدہ شخص مل جانے پر اس کا کوئی خیر خواہ خوش ہوتا ہے ۔ مساجد معزز لوگوں کا اعزاز ہیں، مومنوں کی مجالس ہیں ۔

آج ہر جگہ سنتوں کو مار ڈالا جا رہا ہے، لوگوں کو پُرکشش رنگینیوں کی طرف ڈال کر ان کے دل و دماغ سے سنتیں بھلائی جارہی ہیں، ایسے میں بھولی بسری اور فوت ہوجانے والی سنتوں کے احیاء کا سب سے بہترین ذریعہ مساجد ہیں اور ایمان کی روح سے خالی مرے ہوئے جسموں میں سنت کی روح ڈالنے کا ذریعہ ہیں

وَقَالَ عَلِيٌّ:
(الْمَسَاجِدُ مَجَالِسُ الْأَنْبِيَاءِ، وَحِرْزٌ مِنَ الشَّيْطَانِ)
مساجد انبیاءکرام کی مجالس اور شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہیں ۔

[[ الجامع لاخلاق الراوی( 1181 ) التحقیق الطحان(ْ١٢۰۰) تحقیق دجاج، وادب الاملا (١١٣) ، وفتح المغیث(٢۵٢/٣) ایڈیشن ہند(٣٣۵/٢) ، ایڈیشن مصر ]]

وَقَالَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ:
(الْمَسَاجِدُ مَجَالِسُ الْكِرَامِ)
مساجد معزز لوگوں کی مجالس ہیں
[[ شعب الایمان : ٢۹۶۵ | تاریخ دمشق : ١۶٧/٢۶ | الفوائد الجزء الثانی : ١۹۹ ]]

Share:

Quran o Hadees ki Raushani me Aurat ka Ghar ki namaj me Chehre ka Parda karna kaisa hai?

Kya Aurat Masjid me Namaj padhne ja sakti hai?
Namaj ke Dauran Khawateen chehre ke alawa kin hisso ki Parda karegi?
Ghar me Agar Na mehram ho to Aurat kaise Namaj Padhegi?
Shariyat ki raushani se Aurat ka Ghar ki Namaj me Chehare ka Parda.

السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

شریعت کی رُو سے عورت کا گھر کی نماز میں چہرے کا ستر
۔┄┅════════════════┅┄
🖋: مسز انصاری

صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے عورت کی خیر و عافیت اور عفت و عصمت  کی حفاظت اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مساجد کے مقابلہ میں گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ۔ اور گھر میں نماز کے لیے بھی عورت گھر کا پوشیدہ حصہ یا اندرونی کوٹھری کو ترجیح دے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةُ المرأةِ في بيتِها أفضلُ من صلاتِها في حجرتِها وصلاتُها في مَخدعِها أفضلُ من صلاتِها في بيتِها
(صحيح أبي داود : ۵٧٠)

عورت کی نماز اس کے اپنے گھر میں صحن کے بجائے کمرے کے اندر زیادہ افضل ہے ، بلکہ کمرے کی بجائے ( اندرونی ) کوٹھری میں زیادہ افضل ہے ۔

گھر میں نماز ادا کرنا عورت کو نماز کا وہی اجر وثواب دے گا جو وہ کسی مسجد میں باجماعت ادا کرے ۔ یاد رہے مسجد میں باجماعت نماز ادا نا کرنے سے عورت اس فضیلت سے محروم نہیں ہوتی جو فضیلت مردوں کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے سوائے دو مساجد مسجد حرام یا مسجد نبویﷺ کے ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کے لیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھر سے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد نبوی ﷺ ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)

تاہم عورت کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صحابیات جمعةالمبارک کی نماز میں بھی شریک ہوتی تھیں ، صحیح احادیث کی روشنی میں پیارے نبیﷺ نے عورت کو مسجد جانے کی اجازت فرمائی ہے تاہم گھر کی نماز کو افضل قرار دیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا :
لا تمنعوا نساءَكمُ المساجدَ وبيوتُهنَّ خيرٌ لَهنَّ
(صحيح أبي داود: ۵٦٧)
اپنی عورتوں کو مساجد سے مت روکو ، مگر ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔

رہی بات گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے عورت کے ستر کی تو نا محرم کے لیے عورت پوری کی پوری واجب الستر ہے ، اور نامحرم کی غیر موجودگی میں عورت کا چہرہ واجب الستر نہیں ، جیسے اپنے گھر میں اپنے محرموں کے سامنےعورت بغیر اوڑھنی کے بھی رہ سکتی ہے ، تاہم گھر میں نامحرم کی موجودگی میں وہ مکمل ستر کے ساتھ رہے گی ۔

نماز کے لیے اگر عورت تنہا ہے یا صرف اس کے محرم ہی موجود ہیں تو اس صورت میں چہرے کے علاوہ پورے بدن کا ستر عورت کے لیے واجب ہے ، بصورتِ دیگر اگر وہ گھر میں نماز ادا کر رہی ہے اور نامحرم بھی گھر میں موجود ہیں تو اس صورت میں عورت کے لیے پورے بدن کے ستر کے ساتھ چہرہ بھی واجب الستر ہوگا ۔

اس بارے میں الشیخ ابن جبرین فرماتے ہیں :
نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز عورت کا دستانے پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں الشیخ ابن جبرین کہتے ہیں

دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔

’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔

لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔

البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :

’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---

اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
[ دیکھیے : خواتین کی نماز اور چند مسائل ]

دورانِ نماز پاوں ڈھانپنے کے بارے میں علماء کی دو رائے ہیں ، افضل اور راجح یہی ہے کہ پاوں کو بھی ڈھانپا جائے ۔ اس بارے میں الشیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں

" ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے ۔"

اس بارے میں علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟

الجواب ــــــــــــــــــــــ​

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ/جلد : ١ /صفحہ : ٣٨١

والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

Share:

Na Tamam Qayenat me Na Tamam Zindagi ka Maksad Kya hai?

Musalmano ki Zindagi ka Maqsad kya hai?

ناتمام کائنات میں ناتمام زندگی کا مقصد :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🖋️: مسز انصاری

اس حیاتِ ناتمام میں جبکہ تمہارے جسم میں سانسوں کی روانی ہو تو تم یوں جیو کہ جب بھی لوگوں کے سامنے تمہارا نام لیا جائے تو تمہارا نام ان کے کانوں میں رس گھولے ، تمہارا نام سن کر ان کے لب مسکرانے لگیں، جب تمہارا ذکر کسی مجلس میں چھِڑ جائے تو ہر قلب محبت و احترام سے بھرجائے، جس محفل کو تم چھوڑ کر اٹھ جاؤ وہاں تمہارے اخلاص کی خوشبو تادیر پھیلی رہے اور ہر شخص تم سے ملاقات کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے بے چین ہوجائے ۔
اور جب اللہ الہ العالمین تمہارے جسم میں سانسوں کو روک دے ، تو تم اس طرح رخصت ہو کہ جب بھی تمہارا تذکرہ کسی مجلس میں ہو تو کہا جائے کہ فلاں شخص مجھے بے حد معزز تھا وہ میرا مئونس و ہمدم تھا، اپنی زبان سے کبھی مجھ پر لفظوں کے نشتر نہیں چبھوتا تھا ، میری نادانیوں کا تمسخر نہیں اڑاتا تھا، جب جب مجھ پر زندگی تنگ ہوئی اور آزمائشوں نے مجھے جھنجوڑا اس نے میری دلجوئی کی اور مجھے تنہا نہیں چھوڑا، اس نے کبھی مجھے بیچ راستے میں اکیلا نہیں چھوڑا، میرا ہاتھ یکبار تھاما تو پھر کبھی نہیں چھوڑا، مجھے تکلیف میں چھوڑ کر اپنی راہ نہیں بدلی اور تمہاری یاد میں لوگ بے اختیار روپڑیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ تمہاری زندگی ابھی ناتمام ہے، تمہیں شاید اس زندگی میں بہت سارے اذیت رساں ملیں جو تمہیں اذیت دے کر خود تو چل دییے، مگر ان کے چلائے گئے تیر ہنوز تمہارے دل میں پیوست ہیں، تو تم ان جیسے ہرگز نا بننا جن کی یادیں اور باتیں جب تمہیں چھو کر گزریں تو سماعت میں زہر گھول دیں ۔۔۔۔۔۔

انسانیت اْن کے نزدیک کائنات کی دانائی ہے بہت بڑی
جو لوگ معرفتِ الہی سے سر تاپیر شرابور ہوتے ہیں.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS