Biddat aur Uski Qismein.
"Teri Biddat Teri Barbadi" Kaise?Eid Miladunnabi manana Sunnat ya Biddat?
https://findmrf.blogspot.com/2018/11/eid-miladunnabi-mnane-ki-barailwi-ki.html
Eid Miladunnabi manane ke Dalail ki Haqeeqat.
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
تیری بدعت، تیری بربادی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️: مسز انصاری
اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے جس دینِ اسلام کو کامل فرمایا وہ دین اس کی سعادت اور ہدایت کا منبع و مرکز ہے، اذہان و قلوب کی مثال آنکھ کی ہے جو روشنی میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق دیکھتی ہے، تاریکی میں کوئی بھی آنکھ چیزوں کو دیکھنے اور ان کی حقیقت و نوعیت کو جاننے سے معذور ہوجاتی ہے ۔ انسانی عقل کے لیے بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی ہے جو اشیاء کی حقیقت اور پہچان کے لیے ضروری ہے ، مگر جب انسان اس روشنی سے دور ہوجاتا ہے تو شرک و بدعت کی پہچان سے بھی محروم ہوجاتا ہے ۔ یہ شرک و بدعات ہی شیطان کے وہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں جن کے وار سے وہ لوگوں کو سبیل اللہ سے ہٹا کر سبیل الشیطان کی راہ پر ڈال دیتا ہے، اور شرک و بدعت ، سبیل الشیطان ہے ، بدعت ان عقائد و عبادات کا نام ہے جو کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہﷺ اور اجماع امت کے خلاف ہو ،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’دین اسلام میں بدعت ہر اس امر کو کہتے ہیں جسے نہ اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہو، نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ، یعنی جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو، نہ واجب نہ مستحب‘‘
[ دیکھیے : فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ ، ۴/۱۰۷-۱۰۸۔]
ائمہ کرام کے نزدیک اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں :
-عادات اور ،
-عبادات۔
عبادات میں اصل اللہ کی مشروع کردہ عبادات میں اضافہ نہ کرنا ہے، جبکہ عادات میں اصل اللہ تعالیٰ کے منع کردہ احکامات کے علاوہ کسی بات سے منع نہ کرنا ہے ، عادات چونکہ عام امور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان میں بدعت نہیں ہوتی، البتہ جب انھیں عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے ، یا عبادت کے قائم مقام سمجھا جائے تب ان میں بدعت داخل ہوجاتی ہے۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں :
۱- بدعت مکفرہ: یہ وہ بدعت ہے جس کا مر تکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
۲- بدعت مفسقہ : یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔
[دیکھئے: الاعتصام ،از امام شاطبی، ۲/۵۱۶ ]
بدعات عام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور بدعتی پر زجر و توبیخ فرمائی :
شَرَعوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم
﴿سورةالشورىٰ : ٢١﴾
انہوں (مشرکوں) نے دین میں لوگوں کے لیے ایسے کام مشروع قرار دیے جن کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا تھا۔ اگر (اللہ رب العزت کا) یہ طے شدہ امر نہ ہوتا (کہ روزِ قیامت انہیں اس کی سزا دی جائے گی) تو (دنیا ہی میں) ان کا فیصلہ کر دیا جاتا (یعنی ان پر عذابِ الہٰی نازل ہو جاتا)"
اور اس سنگینی کی وجہ یہ بھی ہے کہ شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ابنِ آدم کو مختلف گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اترنے کی دعوت دیتا رہے ، اس کی سب سے پہلی گھاٹی شرک باللہ ہے، اگر بندئہ مومن اس گھاٹی سے نجات پا لیتا ہے، تو وہ اسے بدعت کی گھاٹی پر طلب کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے ، اگر تو مسلمان دینی احکام سے لا علمی ہوجائے، خواہشات کی پیروی کرے، حق کی دعوت دینے والوں سے تعصب برتے اور کفار سے مشابہت اختیار کرنے لگے تو وہ بہت جلد بدعت کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ گر پڑتا ہے ، اور پھر دین کو ناقص سمجھ کر اس میں کمی بیشی کرنا شروع کردیتا ہے، جبکہ اللہ رب العزت نے انسان سے اپنے کامل دین میں کمی زیادتی کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس فرمایا:
﴿اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿سورة المائدة : ٣﴾
میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے"
اپنی رحلت سے قبل نبی کریمﷺ نے امت کو بھلائی کے تمام امور کی وضاحت فرما دی، اور یہ باور فرمایا کہ جو کام میرے عہدِ مسعود میں دین نہیں تھے ، وہ میرے بعد بھی دین نہیں ہو سکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبۂ جمعہ میں اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعدارشاد فرمایا کرتے تھے:
’’من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، إن أصدق الحدیث کتاب اللّٰه ، وأحسن الھدي ھدي محمد ، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ في النار‘‘
جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، بیشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین امور نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں ، اور ہر نئی چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں ہے، اِن الفاظ کے ساتھ سنن نسائی میں ہے ، دیکھئے:کتاب صلاۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ، ۳/۱۸۸، حدیث نمبر(۱۵۷۸)۔]
علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکرکیا ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لوگو! میں متبع سنت ہوں ،بدعتی نہیں ہوں ، لہٰذا اگر درست کروں تو میری مددکرو، اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو‘‘
[ دیکھیے : الطبقات الکبری ،از ابن سعد، ۳/۱۳۶۔ ]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ اصحاب الرائے (بدعتیوں ) سے بچو، کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں ، ان سے حدیثیں نہ یاد ہوسکیں تو انہوں نے اپنی من مانی کہنا شروع کردیا،خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا‘‘
[ دیکھیے : شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۱۳۹، نمبر(۲۰۱)،وسنن الدارمی، ۱/۴۷، اثرنمبر(۱۲۱)،وجامع بیان العلم وفضلہ، از ابن عبد البر، ۲/۱۰۴۱، نمبر(۲۰۰۱،۲۰۰۳و ۲۰۰۵)۔ ]
(۳) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’(سنت کی) اتباع کرو، بدعت نہ ایجاد کرو، سنت ہی تمہارے لئے کافی ہے،ہربدعت گمراہی ہے‘‘
[ في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۳، نمبر(۱۴،۱۲)، والمعجم الکبیر ، از،امام طبرانی، ۹/۱۵۴، حدیث نمبر(۸۷۷۰)، امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ (۱/۱۸۱)میں فرماتے ہیں :’’اس حدیث کے راویان صحیح بخاری کے ہیں ‘‘،نیز، شرح أصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۹۶،حدیث نمبر(۱۰۲)، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دیگر آثار کے لئے دیکھئے: في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۵، ومجمع الزوائد، از امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ، ۱/۱۸۱۔ ]
تابعین وتبع تابعین میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک شخص کے پاس ایک خط میں لکھا:
’’امابعد : میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کررکھا ہے اسے ترک کرنے کی وصیت کرتاہوں ‘‘
[سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ۴/۲۰۳، حدیث نمبر(۴۶۱۲)، نیز دیکھئے:صحیح سنن ابوداؤد، از علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ ، ۳/۸۷۳ ]
بدعت کا سب سے بھیانک اور تباہ کن نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی سنت اور اہل سنت سے بغض رکھتا ہے ،
امام اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اہل بدعت کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ، ان کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ وہ حاملین سنت رسول ﷺسے شدید دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں، اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں''
[ دیکھیے : عقیدۃ اھل السنۃ واصحاب الحدیث" صفحہ:299۔ ]
شرک وبدعت کے گناہ ہر روز اپنی نسل بڑھاتے ہیں، ہر روز ان کے گندے انڈوں سے بدتر سے بدتر نسل باہر آتی ہے، ان ہی شیطانی نسلوں نے مسلمان گھروں میں عابد و معبود کا فرق مٹادیا، تبلیغِ دین کو قوالیوں کا رنگ دے کر دین کا مقصد تفریح بنادیا، مسجدوں میں بندروں کی طرح ناچنے، گانے، داڑھیوں کی سنت منڈانے مٹانے اور حشیش (بھنگ) پینے کو عبادت کا درجہ دے دیا ، گھروں کی چار دیواری میں محفوظ بنتِ حوا کو بازاروں اور مزاروں پر محوِ رقص کر دیا ، اللہ کے دین نے عورت کے جسم پر حلال رشتوں کو حلال کیا، مگر شرک و بدعت نے اسے مجاوروں کےہاتھوں کاکھلونا بنادیا، جہاں عورت کے محارم مجاوروں کی گندی ہوس کو دین سمجھ کر اپنی عورتوں کو ان کے شیطانی نفوس کے حوالے کردیتے ہیں ، یہ اور اس طرح کی دیگر وہ ساری خو دساختہ عبادتیں ان بدعات میں سے ہیں جنھیں کتاب و سنت کے مخالفین عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں ۔ سنت پر قلیل عمل سے ماجور ہونے کے بجائے بدعت کی کثیر مشقت کو عبادت کا اعلیٰ درجہ سمجھنا بدعتی کا فضول زعم ہی دراصل شیطان کی فتح ہے ۔
وھٰذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
اے بدعتی، اے بدنصیب !!
زمین کے سینے پر تو جب تلک چل رہا ہے
اور تیرے سینے میں تیرا دل دھڑک رہا ہے
ہر روز دنیا کے کھیل تماشوں میں
پیسوں کے زور پہ یاروں کے شور میں
بازؤوں کی طاقت پر
جوانی کی اٹھان پر
جب تلک تو پنپ رہا ہے
اور دنیا کے مزے لوٹ رہا ہے
مگر جب جائے گا تو اس جگہ
نہیں کسی زور آور کا زور اس جگہ
حکمرانی نہیں کسی کے تخت و تاج کی
وقعت نہی جہاں کسی سرکش مہاراج کی
لگتا نہیں دربار کسی شاہ کا جہاں
سجتا نہیں مزار کسی مجاور کا جہاں
جہاں بادشاہوں کے قہر نہیں ٹوٹتے
کمزور پر پہاڑ عہدوں کے نہیں ٹوٹتے
اس شاہانِ شاہ کے دربار میں
خالق و مالک کے دربار میں
جائے گا جب تو ساتھ بدعتوں کی نجاست کے
جرم یہ بڑا ہے بہت مقابلے میں سارے گناہ کے
سوختہ جاں آگ بنے گی ٹھکانہ تیرا
درد جہنم کا بنے گا مقدر تیرا
اس سے پہلے کہ موت تجھے آن دبوچے
ملائک تجھ سے قبر میں کچھ پوچھے
قبر تیری انگاروں کا مسکن بنے
شعلوں میں ہرروز تو راکھ بنے
غور کر شریعت میں صاحبِ شریعتﷺ کی
کر تحقیق رب کے قرآن اور نبیﷺ کےفرمان کی
منہ موڑ گیا گر تو ہدایت سے خالی
نہیں گر رب نے تیرے دل میں ہدایت ڈالی
پہنچے گا تو انجام اُس بڑے بھیانک کو
تصور نا کیا ہو کسی قلب نے جس کو
نسبت تجھ سے اس پاک کلمہ کی ہے میری
اس رشتہ سے ایک التجا ہے تجھ سے میری
گرا نہیں سکتا تو قصرِ اسلام کو مگر
اٹھائے گا خسارہ نا کی تو نے توبہ اگر
بدعت کے انگاروں سے خود کو بچالے
وقت ہے ابھی، عذاب سے خود کو چھڑالے
کل رب کی عدالت میں بہت پچھتائے گا
تیری آہ وزاری چیخ پکار کچھ کام نا آئے گا.
No comments:
Post a Comment