find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt

Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat

Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Roza Iftar Ka Waqt, Iftar Aur Sehri Ki Kuchh Biddaten, Kis Chij Se Roza Ifttar Karen, Iftar Ki Dua, Iftar Ki Dua Ki Haqeeqat
Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail

◆ روزہ افطار کا وقت :
حدیث کےمطابق افطاری کا وقت غروب آفتاب ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے
2 : سورة البقرة 187
 اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ َ ﴿۱۸۷﴾
  پھر رات تک روزے کو پورا کرو 
یعنی رات ہوتےہی روزہ افطار کردوتاخیر نہ کرو۔رات(لیل) کی ابتداغروب آفتاب سے ہوتی ہے۔علامہ محمدبن یعقوب فیروز آبادی رقمطراز ہیں”رات غروب شمس سےلےکرفجرصادق کےطلوع ہونےتک یاطلوع شمس تک ہے۔(القاموس المحیط١٤٦٤)
علامہ ابن منظورالافریقی فرماتےہیں”رات کی ابتداءغروب شمس سےہے“(لسان العرب٣٧٨/١٢۔المعجم الاوسط٨٥٠ ) آئمہ لغات کی توضیع سے معلوم ہواکہ لیل کی ابتداء غروب آفتاب سےہوتی ہے۔لہٰذاجوں ہی سورج غروب ہو روزہ افطار کرلیاجائے۔تاخیر نہ کی جائے۔کیونکہ تاخیر سے روزہ افطارکرنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
” دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتےرہیں گے
    کیونکہ یہودونصاریٰ افطاری کرنےمیں تاخیرکرتےہیں “
(ابو داؤد ،کتاب الصوم ،باب مایستحب من تعجیل الفطر،ح ٢٣٥٣ ۔ ابن ماجہ ، کتاب الصیام ، باب
ما جاء فی تعجیل الافطار، ح ١٦٩٨ ۔ابن خزیمہ ٢٠٦٠ ۔ابن حبان ٨٨٩ ۔حاکم ٤٣١/١ )
اس صحیح حدیث سےمعلوم ہواکہ روزہ دیر سےکھولنا یہودونصاریٰ کا کام ہے۔اورموجودہ دور میں انکے متبعین کاروزہ بھی مسلمانوں سےدس یا پندرہ منٹ بعدکھلتا ہے۔وہ افطاری کے لیے سائرن کا انتظارکرتےرہتے ہیں ،اور سائرن بھی غروب آفتاب کے بعد بجایا جاتا ہے ۔سائرن کے بارےمیں بھی ہم معلومات دینا ضروری سمجھتےہیں کہ عبادات کے لیے سائرن بجانا یہود و نصاری کا عمل ہے ۔اہل اسلام کی عبادات کےساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ غروب آفتاب کےساتھ ہی روزہ دار کو روزہ کھول دینا چاہیے ۔
سیدنا سہلؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” جب تک لوگ روزہ افطارکرنےمیں جلدی کرتےرہیں گے بھلائی سےرہیں گے “
(بخاری ،کتاب الصوم ١٩٥٧ ۔مسلم ،کتاب الصیام ١٠٩٨ )
سیدنا سہل بن سعد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” میری امت ہمیشہ میری سنت پررہےگی جب تک روزے کی افطاری
    کےلیے ستاروں کا انتظار نہیں کرے گی ۔
( موارد الظمان ، ٨٩ )
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّراحمدربّانی
احکام ومسائلِ رمضان
◆ افطار و سحر کی کچھ بدعتیں
جب رمضان المبارک، ابن آدم کیلئے اس قدر سود مند ہے توپھر اس کا ازلی دشمن ابلیس کیسے برداشت کرسکتا ہے کہ ابن آدم اس ماہ سے بہرہ ورہو،لہذا ابلیس ،ابن آدم کو اس ماہ مبارک کی برکات سے محروم کرنے کیلئے، اس طریق سے حملہ آور ہوا کہ ابن آدم مطمئن بھی رہا اور اجروثواب سے محروم بھی ہوگیا۔
مطمئن اس طرح کہ معمولاتِ رمضان ،سحری، افطاری، تراویح، تلاوت وغیرہ کی پابندی کرتا رہا اور محروم یوں کہ ابلیس نے اسے رمضان المبارک ہی کے حوالہ سے مختلف بدعات کاعادی بنادیا۔ جبکہ بدعت ان اعمال میں سرفہرست ہے جو انسان کیلئے اعمالِ صالحہ کے اجروثواب سے محرومی کاباعث ہیں، چنانچہ صحیح مسلم میں اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث ہے:من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد.
یعنی: جس نے ہمارے اس دین میں(کوئی) ایسی چیز شامل کی جو اس میںنہیں ) تو وہ مردود ہے۔
ابلیس نے ابن آدم کو رمضان المبارک کے اجروثواب سے محروم کرنے کیلئے جو بدعات جاری کیں ان میں سے چند ایک کاتذکرہ کرتے ہیں:
1روزانہ سحری کے وقت بذریعہ وضع کردہ الفاظ، روزہ کی نیت کرنا، یعنی :وبصوم غدم نویت من شھر رمضان.
2عوام الناس کو سحری کیلئے بیدار کرنے کیلئے مساجد سے سائرن بجانا اور ڈھو لچیوں کاگلی محلہ میں ڈھول اور بانسری بجانا حالانکہ اس کا نبوی طریقہ اذان تھی۔
3سحری نہ کھانا۔ رات بھرفٹبال، کرکٹ،تاش کھیلتے رہنا، اور مختلف اشیاء کھاتے پینے رہنا اور عین سحری کے وقت سوجانا۔
4افطار میں تاخیر اور سحری میں جلدبازی۔ اس کیلئے باقاعدہ میڈیا پرزور دیاجاتاہے کہ افطار ؍وقت مقررہ سے تین منٹ بعد کرنی چاہئے اور سحری تین منٹ قبل ختم کردینی چاہئے اور اسے احتیاط کا نام دیا جاتاہے۔
5رمضان کے مختلف اوقات میں ادعیہ غیرمسنونہ کا اہتمام کرنا مثلاہر دو رکعت تروایح کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے ،صحیح احادیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، اسی طرح افطار کے وقت :اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت.دعاپڑھی جاتی ہے جوکہ سنداً ضعیف ہے۔
یہ اور ان جیسے کئی امور ابلیس نے رائج کردیئے تاکہ ان بدعات کا ارتکاب کرکے ابن آدم رمضان المبارک کی خیر وبھلائی سے محروم ہوجائے۔
شیخ ابوعمیر حزب اللہ بلوچ حفظہ اللہ
◆   کس چیزسےروزہ افطارکرناچاہیے   
سیدنا سلمان بن عامرؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” جب تم میں سےکوئی روزہ کھولےتو وہ کھجورسےکھولے کیونکہ اس میں برکت ہے۔
   اگرکھجورنہ پائےتوپانی سےکھولے،اس لیے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔“
( ترمذی ،کتاب الزکوة ٦٥٨ ۔ابو داؤد کتاب الصیام،باب ما یفطر علیہ ٢٣٥٥
احمد ١٨٬١٧/٤ ۔ابن ماجہ ١٦٩٩ ۔ دارمی ١٧٠٨ ۔ مواردالظمان ٨٩٤ )
سیدنا انسؓ بیان کرتےہیں
” رسول اللہ نماز پڑھنےسےپہلےچندکھجوریں کھا کر روزہ افطار کرتے تھے ۔
   اگرتازہ کھجوریں دستیاب نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں کھاکرافطارکرتے ۔
   اگر وہ بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے “
(ابوداؤد،کتاب الصیام ٢٣٥٦ ۔ترمذی کتاب الصوم ٢٩٢
دارقطنی ١٨٥/٢١ ۔ مستدرک حاکم ٤٣٢/١ )
مندرجہ بالا صحیح احادیث سےمعلوم ہواکہ کھجور کےساتھ روزہ کھولنابہتر ہےاور اگر کھجور میسرنہ ہوتو پانی سے افطار کرلیں۔روزے کی وجہ سے جسم میں نقاہت وکمزوری محسوس ہوتی ہے ۔کھجور سے جسم کو تقویت ملتی ہے ۔کیونکہ کھجور نہایت
مفید اور مقوی غذا ہے ۔
فضیلة الشیخ ابوالحسن مبشّر احمد ربّانی
احکام و مسائلِ رمضان
◆  افطار میں اسراف  
افطاری کے کھانوں کی تیاری میں اسراف سے روزے کے ثواب پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔یہاں تک کہ روزہ ختم ہو جانے کے بعد اگر انسان کوئی حرام کام کا ارتکاب کرتا ہے تو اس سے روزے کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی ۔ہاں البتہ افطاری میں اسراف درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے۔
  وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا  تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا  یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ 
 اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ۔  بیشک اللہ تعالٰی
 حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا  ۔ ﴿الاعراف ٪ ۳۱﴾
لہٰذا اسراف بجائے خود ممنوع ہے۔جبکہ کھانے پینے میں اعتدال اختیار کرنا تو نصف معیشت ہے۔اگر کسی کےپاس رزق کی فراوانی ہو تو اسے چاہیے کہ اسراف کے بجائے صدقہ کردے کیونکہ یہ ایک افضل عمل ہے۔
فضیلة الشیخ محمد بن صالح العثیمینؒ
فتاوی اسلامیہ
جلد ۔دوم
◆ افطار کی مروجہ دعا کی تحقیق :
معاذ بن زہرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب افطار کرتے تھے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے ھے:
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
” اے اللہ! تیرے ہی لیے میں نے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے سے افطار کیا۔“
(سنن أبي داود کتاب الصیام باب القول عند الإفطار: ۲۳۵۸)
ضعیف: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ؛
۱: اس کا راوی معاذ بن زہرہ مجہول ہے۔
۲: نیز سند مرسل (ضعیف)ہے۔ کیونکہ تابعی (معاذ بن زہرہ رحمہ اللہ) ڈائریکٹ نبیٔ اکرم ﷺ سے روایت کررہے ہیں۔
تنبیہ: روزہ افطار کرتے وقت کی دعا: ”اللَّهُمَّ اِنِّى لَكَ صُمْتُ وَبِكَ امنْتُ [وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ] وَعَلَى رِزْقِكَ اَفْطَرْتُ“ جو عوا م میں بہت مشہور ہے اور جو تقریباً ہر ٹی وی چینل پر افطار کے وقت چلائی جاتی ہے۔
اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے، یعنی یہ روایت احادیث کی کتب میں نہیں ملتی۔
روزہ افطار کرتے وقت کی صحیح دعا کی موجودگی میں اس من گھڑت دعا کو پڑھنے کا اہتمام بالکل بھی نہ کریں۔
◆ روزہ افطار کرنے کی صحیح دعا
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، جب نبی ﷺ روزہ افطار کرتے تو آپ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ
”پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہوگئیں اور ثواب لازم و ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔“
(سنن أبی داود: کتاب الصیام باب القول عند الإفطار: ۲۳۵۷ وسندہ حسن
❓ یہ دعا " ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " بسم اللہ پڑھ کر کھجور کھانے سے پہلے پڑھنی ہے یا پانی پی کر بعد میں، کیونکہ افطار کی دعا تو پہلے پڑھنی چاہئے، لیکن اس دعا کا عربی متن دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس دعا کو پانی پینے کے بعد پڑھنا چاہئے، اس کے متعلق بتائیں۔
روزہ صرف بسم اللہ سے کھولا جائے گا
افطار سے قبل حسب موقع دعائیں شوق و اہتمام سے کیا جائے
پھر بسم اللہ پڑھ کر افطار کریں ،اور افطار کرنے کے بعد کھانا کھانے کی دعاء
« الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا الطَّعَامَ، وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ »
اور یہ دعاء پڑھ لیں :
« ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ »
اکثر لوگوں کو یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ دعا " ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ " بسم اللہ پڑھ کر کھجور یا دیگر افطار کے لوازمات کھانے سے پہلے پڑھنی ہے یا بعد میں ؟
کیونکہ افطار کی دعا تو پہلے پڑھنی چاہئے، لیکن اس دعا کا عربی متن دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس دعا کو پانی پینے کے بعد پڑھنا چاہئے۔ 👇👇👇
 اس سوال کا جواب علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ دیتے ہیں :
السؤال
فضيلة الشيخ: للصائم دعوة مستجابة عند فطره، فمتى يكون محل هذه الدعوة: قبل الفطر أم في أثناءه أم بعده؟ وهل من دعوات وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أو من دعاء تشيرون به في مثل هذا الوقت؟
سوال :
شیخ محترم : افطار کے وقت روزہ دار کی دعاء قبول ہوتی ہے ، آپ یہ بتائیں کہ یہ دعاء کس وقت کی جائے ،کیا روزہ افطار کرنے سے پہلے یا افطار کرنے کے بعد ؟
اور ایسے مواقع کیلئے نبی کریم ﷺ سے کوئی مخصوص دعائیں منقول ہیں ، یا آپ نشاندہی فرماسکتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب
الدعاء يكون قبل الإفطار عند الغروب؛ لأنه يجتمع في حقه انكسار النفس والذل لله عز وجل وأنه صائم وكل هذه من أسباب الإجابة، أما بعد الفطر فإن النفس قد استراحت وفرحت، وربما يحصل غفلة، لكن ورد ذكر إن صح عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم فإنه يكون بعد الإفطار: (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله) هذا لا يكون إلا بعد الفطر، ‘‘
جواب :
روزہ دار کیلئے قبول ہونے والی دعاء کا وقت افطار سے قبل غروب آفتاب کے وقت ہے ، کیونکہ اس وقت روزہ دار کیلئے انکسار نفس ،اور اللہ کے حضور تواضح ،جمع ہوجاتی ہیں ، اور وہ روزے کی حالت میں ہوتا ہے (اور یہ امور قبولیت دعاء کیلئے بہت مؤثر ہیں )
اور افطار کے بعد تو راحت وفرحت حاصل ہوتی ہے ، اور کبھی کبھی غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے ،
لیکن :۔ وہ دعاء جو نبی مکرم ﷺ سے افطار کے وقت منقول ہے : (ذهب الظمأ، وابتلت العروق، وثبت الأجر إن شاء الله)
تو یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
’’ اللقاء الشهري ‘‘ 8/ 25
المؤلف : محمد بن صالح بن محمد العثيمين (المتوفى : 1421هـ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ ( مرعاۃ المفاتیح ) میں لکھتے ہیں :
قوله: (إذا أفطر) من صومه (قال) أي بعد الإفطار (ذهب الظمأ) بفتحتين فهمز أي العطش أو شدته
یعنی یہ دعاء افطار کے بعد پڑھی جائے گی ‘‘
شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں
عمر رضي اللہ تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے :
( ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس تی رہی ، اوررگیں تر ہوگئيں ، اوران شاء اللہ اجرثابت ہوگيا ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2357 )
سنن الدار قطنی حدیث نمبر ( 25 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
لیکن وہ دعا جو اس وقت لوگوں میں عام ہے اورافطاری کے وقت مندرجہ ذيل دعا پڑھی جاتی ہے وہ صحیح نہیں وہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے : یعنی 👇
( اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت ) اے اللہ میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اورتیرے رزق پر ہی افطار کیا ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2358 )
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ضعیف سنن ابو داود ( 510 ) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
لھذا اس دعا کے بدلے میں دوسری دعا جواس سے پہلے بیان کی گئی ہے وہ پڑھی جائے گی کیونکہ وہ صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے ۔
اورعبادات بجالانے کےبعد دعا کرنا شریعت اسلامیہ میں اصل چيز ہے مثلا فرض نمازوں کےبعد دعا کرنا ، اوراسی طرح مناسک حج وعمرہ ادا کرنے کے بعد دعا اسی طرح روزہ بھی ان شاء اللہ دعا سے باہر نہیں رہتا ، بلکہ اللہ تعالی نے روزں کا ذکر کرتےہوئے درمیان میں ہی دعا کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے میں اس کی پکار قبول کرتا ہوں ، اس لیے لوگوں کو بھی چاہۓ کہ وہ میری بات مان لیا کریں ، اورمجھ پر ایمان رکھیں ، یہی ان کی بھلائي کا باعث ہے } البقرۃ ( 186 ) ۔
اس آیت میں اس ماہ مبارک میں دعا کرنے کی اہمیت واضح ہورہی ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں :
اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے قریب ہے اوردعا کرنے والے کی دعا کوسنتا ہے وہ جب بھی پکارے اللہ تعالی اسے قبول کرتا ہے ، اس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ربوبیت کی خبردے رہا ہے اورانہيں اس کا سوال اوران کی دعا کی قبولیت کا شرف بخش رہا ہے کیونکہ جب بندے اپنے رب سے دعا کرتے ہيں تو وہ اس کی ربوبیت پر ایمان لا کرایسا کرتے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ فرمایا کہ :
{ اس لیے انہیں بھی چاہۓ کہ وہ بھی میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں تا کہ وہ راہ راست پر آجائيں } البقرۃ ( 186 ) ۔
توپہلی بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے عبادت واستعانت میں جس چيز کا حکم دیا ہے وہ اس میں اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس کی بات تسلیم کریں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ : اللہ تعالی کی ربوبیت اوراس کی الوھیت پر ایمان ، اوریہ ایمان رکھنا کہ وہ ان کا رب ہے الہ ہے ، اوراسی لیے کہا جاتا ہے کہ : دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب اعتقاد صحیح ہو اوراطاعت بھی مکمل پائي جاتی ہو ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے دعا کی آيت کے آخر میں اسے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے :
{ لھذا انہيں چاہۓ کہ وہ میری بات تسلیم کریں اورمجھ پر ایمان لائيں }
 دیکھیں مجموع الفتاوی ( 14 / 33 ) ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه


Share:

1 comment:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS