Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
طارق بِن زِیاد
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 4___________________Part 4
راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلے.
موسی نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-
اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے-
سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزار لشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے-
صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-
آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز سعید آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا-"
حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے-
نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پر ہو گئی-
وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسی مکبر پر آئے-
انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی:
موسی نے کہا: مسلمانو قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے-
جسے ہم دیکھتے ہیں اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، وہ بنائے ہیں-
وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے-
وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-
زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-
سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں-
یاد رکھو میں صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی-
چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مزہب توحید کا علمبردار رہے گا-
گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں-
انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے-
قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا-
یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-
اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:
ان نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (سورۃ الحجر آیت نو)
خیال کرو اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے-
اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا-
ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے-
فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-
ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-
اسلام کے بہادر فرزندو : دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں-
اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا-
دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے-"
تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-
اب موسی نے کہا:"
غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا-
میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں-
ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو-
اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-
وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-
اس کا نام طارق ہے"-
طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،
چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا،
مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا-
موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا-
دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو-
ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں-
جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment