jab Andalas Pe Musalmanon ne apna Jhanda Lahraya.
< *فاتح اندلس* >
*طارق بِن زِیاد*
تحریر:- صادق حسين
قسط نمبر 18________________Part 18
گنبد کا راز _____________اس جماعت نے دروازے پر پہنچتے ہی کواڑ کھولے اور ایک طرف ہٹ گئے تا کہ گنبد کے اندر کی خراب و سموم ہوا خارج ہو جائے-
جب ذرا وقفہ گزر گیا تب رازرق انہیں اپنے ہمراہ لے کر اندر داخل ہوا-
یہ ایک وسیع کمرے میں پہنچے یہ کمرہ خالی تھا اور چونکہ ایک عرصہ سے بند پڑا تھا اس لیے گرد و غبار وغیرہ سے اٹا ہوا تھا -
یہ بڑھے اور سامنے والے دروازے سے نکل کر دوسرے کمرے میں پہنچے-
اس کمرے میں ایک پیتل کا بہت بڑا مہیب اور خوفناک بت کهڑا تھا - اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تهیں -
اس کے ہاتھوں میں ایک لوہے کا گرز تھا اور وہ اسے دم بدم مار رہا تھا -
بت اتنا لمبا تھا کہ اس کی ٹانگوں کے درمیان میں ایک محرابی دروازہ تھا جو کہ اتنا اونچا بنا ہوا تھا جس میں سے کہ بڑے سے قد کا آدمی بخوبی گزر سکتا تھا-
اس کے پیروں والے دروازے کے سامنے ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا جو کسی کمرے کا معلوم ہو رہا تھا مگر اس دروازے تک پہنچنا اس وجہ سے غیر ممکن تھا کہ وہ بت جو گزر مار رہا تھا کسی شخص کا ایک قدم بھی آگے بڑھانا اسے موت کو دعوت دینا تھا - "
کسی دوسری طرف سے کوئی راستہ نہ تھا.
ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سینے پر سرخ حروف میں لکھا تھا-"
میں اپنا فرض منصبی ادا کر رہا ہوں - "
رازرق نے اسے پڑھ کر کہا -
اے خوفناک بت میں طلسمی گنبد کا راز معلوم کرنے آیا ہوں اس سے میرا منشا اس گنبد کو گزند پہنچانا یا اس تخریب کرنا نہیں ہے - " لیکن بت دستور اپنے کام میں مصروف رہا اور رازرق نے ایک قدم بڑھایا-
اتفاق سے اس کا پاوں ایک ہک پر پڑ گیا اور اس کے دبتے ہی بت سیدھا کهڑا ہو گیا-
رازرق پیچھے ہٹا وہ دیکھنے لگا کہ آیا یہ بت حرکت کرتا ہے یا نہیں لیکن بت نے کوئی حرکت نہ کی-
وہ سیدھا کهڑا ہو گیا تھا اور آہنی گرز اپنے دونوں ہاتھوں میں اس انداز سے پکڑے ہوئے تھا جیسے کہ وہ حملہ کرنے والا ہے اس کی صورت نیز اس کی ڈول ڈیل وغیرہ سب خوف ناک معلوم ہو رہے تھے نیز آنکھیں اب بھی انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں _
رازرق اور اس کے ساتھی بڑھے مگر زرا ڈرتے ہوئے اس خیال سے کہ کہیں بت پهر نہ گرز مارنا شروع کر دے اور وہ سب کے سب گرز کے نیچے پس کر نہ رہ جائیں مگر بت نے حرکت نہ کی اور سب ان کے پیروں کے پیروں والے دروازے میں نکل کر دوسرے میں داخل ہوئے-
اس کے دوسری طرف ایک کمرہ تھا جس کی دیواریں سنگ مرمر کی اور چھت سفید گول اور ڈاٹ دار تهی -
اس کی دیواروں پر قد آدم سے اوپر عجیب عجیب نیز قسم قسم کے بیش قیمت پتھروں کے ٹکڑے نصب تھے -
کمرے کے عین وسط میں ایک میز رکهی تهی جو ہرقل اعظم کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھی-
یہ پرانے زمانے کی صناعی کا نہایت بہترین نمونہ تھا -
نہایت خوب صورت اور سبک تهی. میز پر ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا تھا -
اس پر یہ عبارت کندہ تهی - اس گنبد کے تمام مخفیات اس بکس کے اندر محفوظ رہیں-"
رازرق نے کہا - "
واہ واہ اتنا چھوٹا سا صندوقچہ اور اس کے اندر تمام راز ہائے سر بستہ کا خزینہ ہے-"
وزیر نے کہا مگر حضور یہاں تو کوئی خزانہ نہیں ہے - "
رازرق نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا - "
ابهی یہ تم نے کیسے سمجھ لیا اس صندوقچہ کو کهولنے دو میرا خیال ہے کہ خزانہ کا راز ضرور اس کے اندر بند ہے-"یہ کہتے ہوئے اس نے پھر صندوقچہ کی طرف دیکھا-
اوپر والی تحریر کے نیچے اسے ایک اور عبارت نظر آئی جو زرا باریک تهی اس نے جھک کر پڑھا-
اس بکس کو کهولنے کی جرات صرف ایک بادشاہ کرے گا مگر اسے ہوشیار اور خبردار رہنا چاہئے کیونکہ اس کے اندر اسے ایسے واقعات نظر آئیں گے جو مرنے سے پہلے اسے پیش آنے والے ہیں-"
یہ پڑھ کر چہرہ زرد پڑ گیا اس کے پاس ہی وزیر کهڑا تھا - اس نے بھی یہ عبارت پڑهہ لی تھی-
اس نے دست بستہ ہوتے ہوئے کہا! !!
حضور بس کیجئے اب اس خطرناک صندوقچہ کو نہ کهولئیے! "
رازرق اب باقی رہ ہی گیا ہے؟ گنبد کهل چکا ہے اور صرف یہ صندوقچہ کھولنا باقی ہے.
وزیر اور اس کے اندر تمام مخفیات بند ہیں-
رازرق اور میں ان کو ہی معلوم کرنا چاہتا ہوں-
یہ کہتے ہوئے اس نے صندوقچہ کهول ڈالا-
وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صندوقچہ کے اندر ایک چمڑے کا لمبا فیتہ ہے جو کہ لوہے کی میخ پر لپٹا ہوا تھا -
اس کے دونوں طرف تانبے کی دو تختیاں لگی ہوئی تھیں-
چمڑے کے فیتے پر سواروں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں جو نیزوں تلواروں پیش قبضوں وغیرہ سے مسلح تھے -
ان کی صورتیں نورانی تهیں لیکن بڑی رعب دار فیتے کی پیشانی پر لکھا تھا -
بد قسمت اور بد اندیش بادشاہ دیکھ کر ان لوگوں کو جو تجھے سر پر حکومت سے نیچے گرا کر تیرے ملک پر قبضہ کر لیں گے-"
رازرق اس عبارت کو پڑھ کر دم بخود رہ گیا اور وزیر کی طرف دیکھنے لگا-
وزیر بھی اس عبارت کو پڑھ چکا تھا اور وہ بادشاہ کو تک رہا تھا - "
رازرق نے شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیں اور اب جو اس کی نگاہ فیتے پر پڑی تو وہ نہایت سرعت سے گھومنے لگا تھا-
سب حیرت بهری نظروں سے اسے دیکھنے لگے -
دیکھتے ہی دیکھتے ایک میدان نمودار ہوا اور اس کے ساتھ ہی شور و غل کی آوازیں بھی آنے لگیں-
میدان میں پہلے کچھ بادل سے اٹھے غبار چھایا اور جب وہ دور ہوا تو گھوڑا سوار آتے جاتے نظر آئے-
سب نہایت حیرت سے دیکھ رہے تھے -
فیتے کی تصویریں حرکت کر رہی تھیں اور خالی میدان میدان کارزار بن گیا تھا -
عجیب جان گداز واقعات پیش آنے لگے تھے جو بلترتیب ایک دوسرے کے بعد نظر آ آ نقش آب کی طرح سے مٹتے چلے جاتے تھے - "
انہوں نے دیکھا کہ میدان بہت زیادہ کشادہ ہو گیا ہے اور اس میں ایک طرف مسیح سوار اندلس کا علم اٹھائے صف بستہ ہیں اور دوسری طرف چوڑے چوڑے سوار اور کچھ پیدل کھڑے ہیں-
ان کی ڈاڑھیاں لمبی لمبی اور چہرے نورانی ہیں، کچھ لوگ نیزے اور پیش قبض لیے ہوئے تھے اور کچھ تلواریں-
دفعتاً طبل جنگ بجنے لگا-
نر سنگھے اور قرنے پھونکے جانے لگے اور ان کی مہیب آوازوں سے ان کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے-
ابهی یہ آوازیں گونج ہی ان کی مہیب آوازوں سے ان کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے-
ابهی یہ آوازیں گونج ہی رہی تھیں کہ اللہ اکبر کے پر زور-
نعرے کی آواز آئی اس آواز کو سن کر یہ سب دہل گئے-
وہ فیتے کی طرف دیکھ رہے تھے ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہر دو فریق نے حرکت شروع کی تلواریں اور نیزے بلند ہونے لگے اور خون کا دریا بہنے لگا-
آہ و فریاد کی آوازیں آنے لگیں-
خون آشام ہنگامہ آرائی دار و گیر بلند ہونے لگے.
مسیح بہت زیادہ تهے اور مسلمان بہت کم مگر اس کے باوجود عیسائی ہی زیادہ مر رہے تھے اور غنیم کا ایک آدمی بھی مرتا نظر نہیں تھا آ رہا-"
رازرق اور اس کے ساتھی ان لوگوں کو نہیں جانتے تھے وہ حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ گئے ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں تهوڑی ہی دیر بعد اس نے دیکھا کہ مسیحیوں کو شکست فاش ہو گئی ہے ان کا جھنڈا جس پر صلیب کا نشان بنا ہوا تھا زمین پر گر گیا -"
عیسائی لشکر میں سخت ابتری اور بد حواسی پھیلی ہوئی تھی وہ بھاگ رہے تھے اور ڈھیلی عباؤں والے ان کے پیچھے بھاگ بھاگ کر انہیں تہ تیغ کر رہے تھے - "
ہزیمت خوردہ عیسائی چیخ چلا رہے تھے -
قریب المرگ آہ زاری کر رہے تھے ان کی مختلف آوازوں سے میدان گونج رہا تھا - "
یہ لوگ اس خون آشام منظر کو دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے - "
وہ جو دیکھ رہے تھے اسے جادو کا کرشمہ سمجھ رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے-
انہوں نے پهر فیتے کی طرف دیکھا اس وقت ان کی نظر ایک سوار پر پڑی جو ریشمی لباس اور جواہرات کے زیورات پہنے ہوئے شاہی تاج اوڑھے ہوئے ایک سفید گھوڑے پر سوار کهڑا تھا - "
ان لوگوں کی طرف ان کی پشت تهی اور وہ مسیحی فوج میں سے تها اس کا لباس زیورات سب رازرق جیسے تهے اور گھوڑا بھی ایسا ہی تھا جیسا رازرق کا لڑائی والا گھوڑا تھا رازرق کے اس گھوڑے کا نام" اوریلیا" تها
یہ لوگ اور بھی حیران ہو کر اس سوار کی طرف دیکھنے لگے - "
ایک ڈهلی عبا والا آیا اور اس سے لڑنا شروع کر دیا -
مسیحی کے نیزہ لگا اور اس نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا -
اس کی صورت بالکل رازرق سے ملتی جلتی تهی -
تکلیف کی وجہ سے اس کا منہ بنا ہوا تھا اور اس کا بشرہ بگڑتا جا رہا تھا -
بالآخر وہ گھوڑے سے گر پڑا اور گرتے ہی اس کی لاش نظروں سے غائب ہو گئی -
اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر یہ سب پراگندہ اور حواس باختہ ہو گئے - "
انہوں نے دیکھا کہ تمام کمرہ اک عجیب سی روشنی سے بھر گیا ہے اور دم بدم روشنی بڑھنے لگی-
روشنی ایسی بڑی کہ آنکھیں چندھیا گئیں اسی وقت صندوقچہ میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا اور تمام صندوقچہ جلنے لگا-"
یہ لوگ بد حواس تو ہو ہی گئے تھے اور خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے بے تحاشا بھاگ کھڑے ہوئے-
ان کے بھاگتے وقت میز میں بھی آگ لگ گئی اور اس کے ساتھ ہی نہایت ہولناک کڑاکے کی آواز آئی جیسے کہیں بجلی گری ہو یا کوئی چٹان ہی پهٹ گئی ہو-"اس ہولناک آواز کو سن کر ان کے رہے سہے حواس بهی جاتے رہے اور وہ اور بھی تیزی سے بھاگے: جب وہ اس کمرے سے نکل کر اس کمرے میں آئے جہاں پیتل کا بت رکھا ہوا تھا وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بت غائب تھا اور جس جگہ بت رکھا ہوا تھا وہاں زمین پهٹ گئی تھی اور ایک غار نمودار ہوا تھا جب وہ جھپٹ کر اس غار کے کنارے پہنچے تو ان کی نظر غار کے اندر جا پڑی انہوں نے پیتل کا بت اس کے اندر پڑا ہوا دیکھا اس کی آنکھیں اس وقت مزید سرخ ہو چکیں تهی - "
ابهی یہ لوگ اسے دیکھ ہی رہے تھے کہ اس بت کا منہ کھلا ایک مہیب آواز اس کے منہ سے نکلی جو واضح طور پر ایسی تھی جیسے کوئی دیو قہقہے لگا رہا ہو یا طوفان آ گیا ہو یا بادل ہولناک آواز میں گرج رہا ہو،
اس گرج کے ساتھ ایک اور تڑاخے کی آواز آئی اس کمرے کی چھت جس میں وہ کھڑے تھے صندوقچہ اور میز تها گری اور گرتے ہی روشنی اور بھی زیادہ تیز ہو گئی -
یہ سب غار کو کود کر بھاگے اور پھاٹک کے قریب والے کمرے سے نکل کر دروازے کو پھلانگتے ہوئے باہر آئے انہوں نے باہر آ کر دیکھا کہ دونوں بوڑھے مرے پڑے ہیں-"
ان بے شمار غیبی آفات کے نظاروں نے ان کا دل دہلا دیا وہ بغیر ادھر ادھر دیکهے وہاں سے بھاگے اور قلعہ کوہ سے اتر کر اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے-
جس وقت وہ گھوڑے پر بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے پورے گنبد کو جلتے ہوئے دیکھا-
آگ کے شعلے نہایت اونچے اڑ رہے تھے دیوار کے پتهر پلاسٹر کا چونا اور دوسری چیزیں چٹخ چٹخ کر دور جا کر گر رہے تھے اور جس جگہ گرتے وہاں آگ لگا دیتے-
اس وقت رات ہو گئی تھی اور گنبد کی آگ کے شعلے تمام چٹانوں کو روشن کر رہے تھے - "
اب ان لوگوں کو وہاں ٹھہرنا دشوار ہو گیا تھا انہوں نے گھوڑوں کو مہمیزیں لگائیں اور نہایت تیزی سے روانہ ہوئے__________
جاری ہے......
No comments:
Post a Comment