Tarik Bin Jeyad Aur Fatah Andalas.
Jab Bilkis Saanp ko Dekh kar behosh Ho gayi.
*<فاتح اندلس>*
*طارق بِن زِیاد*
تحریر:- *صادق حسين*
قسط نمبر 29_________________Part 29
گمشدہ نازنین ____________اسمعیل چیخ کی آواز سن کر نہایت تیزی سے لپکے ۔
انہیں وہ آواز بلقیس کی معلوم ہوئی تھی اس وقت وہ پھولوں کو مسلتے ہوئے اور سبزہ کو پامال کرتے بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔
کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے پھولوں کے تختے میں حوروش بلقیس کو بے ہوش پڑے پایا ۔
وہ تنہا تھی انہیں تعجب ہوا کہ وہ یہاں کیسے آ گئی اور کس وجہ سے بے ہوش ہو گئی ہے ۔
جب وہ اس کے قریب پہنچے تو انہوں نے ایک سیاہ سانپ کو اس کے بازو کے پاس کھڑے ہوئے دیکھا ۔
وہ یہ منظر دیکھ کر اسمعیل کا دل ہل گیا انہیں خوف ہوا کہ شاید سانپ نے اسے ڈس لیا ہے ۔
وہ بے قرار ہو گئے اور سودائیوں کی طرح بڑھے ۔
انہوں نے جلدی سے سانپ کو پتھر سے کچل دیا اور آگے بڑھ کر بلقیس کو آغوش میں اٹھا کر وہاں سے ہٹ کر صاف جگہ پر لٹا دیا ۔
بلقیس بے ہوش تھی ۔
اس کے چہرے کا گلابی رنگ اڑ گیا تھا بالکل سفید رنگت نکل آئی تھی آنکھیں بند تھیں ۔وہ سانس لے رہی تھی مگر اس قدر رک رک اور آہستہ آہستہ کہ سانس لیتے ہوئے معلوم نہ ہو رہی تھی ۔
اسمعیل حیران پریشان اور متفکر ہو رہے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اسے ہوش میں لانے کی تدبیر کریں ۔
دیر تک خاموش بیٹھے اس کی طرف دیکھتے رہے اور پریشان ہوتے رہے ۔
وہ یہ سوچ رہے تھے کہ سانپ کے کاٹے کا علاج کیا ہے ۔
انہوں نے سن رکھا تھا کہ مار گزیدہ کو زیادہ نیند آتی ہے اور اسے ہرگز سونے نہیں دینا چاہیے کیونکہ سونے ہی سے تمام جسم میں زہر سرایت کر جاتا ہے ۔
انہوں نے بلقیس کو جھنجوڑا مگر وہ ہوشیار نہ ہوئی انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اگر سانپ نے اسے کاٹا ہے تو کس جگہ اگر معلوم ہو جاتا تو وہ بند باندھ دیتے اور آب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس کے بازو وغیرہ کھول کر دیکھیں ۔اس طرح سے شاید کچھ معلوم ہو جائے ۔
چنانچہ انہوں نے اس کی قبا کے بوتام کھولنے شروع شروع کر دیئے ۔
ابھی انہوں نے ایک ہی بوتام کھولا تھا کہ وہ ہوش میں آ گئی ۔
پہلے تو اس کا سانس تیز تیز چلنے لگا پھر چہرے کی سفید رنگت میں گلابی پن جھلکنے لگا اور اس نے آنکھیں کھول دیں ۔
اسمعیل بہت خوش ہوئے انہوں نے پکارا بلقیس- ------"
ابھی بلقیس کے حواس مجتمع نہ ہوئے تھے ۔وہ پڑی ہوئی انہیں دیکھتی رہی ۔
اس کی نگاہیں بتا رہی تھیں کہ وہ انہیں پہچاننے کی کوشش کر رہی ہے ۔
اسمعیل کی نظریں بھی اس کی پیاری آنکھوں پر جمی ہوئی تھیں ۔وہ دیکھ رہے تھے اور جواب کے منتظر تھے مگر ابھی تک وہ نہیں بولی تھی ۔
دراصل ابھی اس کی قوت بحال نہیں ہوئی تھی اور اسمعیل کو سب سے زیادہ تکلیف بھی یہی تھی ۔
کیونکہ وہ خیال کر رہے تھے کہ سانپ نے نہیں کاٹا ہوتا تو ہوش میں آتے ہی نہ بولنا سمجھ میں نہیں آتا وہ فورا سانپ کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ کہیں خوف سے پھر بے ہوش نہ ہو جائے ۔
کچھ دیر اور انتظار کر کے انہوں نے پھر محبت بھرے لہجہ میں پکارا ۔بلقیس!!!!!!!!
اب اس نے ایک لمبا ٹھنڈا سانس لیا اور کہا اہ آپ- --'--------؟
اسمعیل ہاں میں تم ہوش میں ہو؟
بلقیس نے جواب نہ دیا بلکہ سر کے اشارہ سے بتایا کہ وہ ہوش میں ہے ۔
اسمعیل: کیا اٹھ سکتی ہو؟
بلقیس نہیں ۔۔
اسمعیل کہیں درد ہے؟
بلقیس نہیں!!!!!
اسمعیل کہیں کسی قسم کی سوزش معلوم ہو رہی ہے؟
بلقیس نہیں!!
اسمعیل پھر اٹھ کیوں نہیں رہی؟
بلقیس دل بیٹھا جاتا ہے!
اسمعیل کس وجہ سے؟
بلقیس خبر نہیں!
اسمعیل کیا پانی پیا ہے؟
بلقیس پی لیا ہے مگر- -------
اسمعیل مگر کیا؟
بلقیس شاید زیادہ پی گئی ہوں!!!
اسمعیل مگر تم نے احتیاط کیوں نہ کی؟
بلقیس اس وجہ سے کہ پیاس زیادہ معلوم ہو رہی تھی ۔
اسمعیل میں سہارا دے کر بٹھا دوں تمہیں؟ "
بلقیس: نہیں ذرا لیٹے رہنے دیں ۔
اسمعیل: مگر تم بے ہوش کیوں ہوئی تھی؟
بلقیس: ٹھیریں مجھے یاد کرنے دیں ۔
اسمعیل:تم کو نیند تو نہیں آ رہی؟
بلقیس: نہیں ۔
اسمعیل: دماغ میں کچھ بھاری پن تو نہیں؟
بلقیس: ہاں کچھ کچھ ۔
اسمعیل: شاید عرصہ کے بعد پانی اور وہ بھی زیادہ پی لینے کی وجہ سے یہ کیفیت ہے ۔
بلقیس: ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ۔
اسمعیل: کچھ یاد آیا کیوں بے ہوش ہوئی تھی؟
بلقیس: ایسی باتیں کیوں دریافت کر رہے ہیں؟ "
اسمعیل: اس لیے کہ آپ کو بے ہوش دیکھ کر مجھے تعجب ہوا تھا!!!
بلقیس: مگر آپ چلے کہاں گئے تھے؟ "
اسمعیل: تمہارے لیے پانی تلاش کرنے گیا تھا- "
بلقیس: مجھے اکیلا چھوڑ کر؟ "
اسمعیل: ہاں یہ مجھ سے خطا ہوئی مگر ۔
بلقیس: مگر کیا؟
اسمعیل: میں یہ دیکھا تھا کہ تم پانی نہ ملنے کی وجہ سے بہت مضمل ہو گئی تھی بلکہ تم سے تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔میں نے چاہا کہ اتنے میں تم سو کر اٹھو میں پانی تلاش کر لوں چنانچہ میں چل پڑا ۔
بلقیس: اور میری تنہائی کا خیال نہ کیا؟
اسمعیل: تمہاری پیاس کی شدت نے تمہاری تنہائی کا خیال نہ کرنے دیا ۔
۔
بلقیس: پھر پانی ملا؟
اسمعیل: ہاں ملا ایک آبشار ۔۔۔۔۔۔ ۔
بلقیس: پھر تم پانی لائے؟
اسمعیل: کس میں لاتا میں تم کو وہاں لے جانے کے لیے واپس لوٹا مگر جب وہاں پہنچا تو تم وہاں نہیں تھی جہاں میں چھوڑ کر گیا تھا مجھے سخت رنج ہوا بلقیس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور اس نے کہا کیوں قلق ہوا؟ "
اسمعیل: اس لیے کہ تم میری بیوقوفی کی وجہ سے مجھ سے جدا ہو گئی تھی میں تمہیں تلاش کرتا اور پکارتا ہوا ایک جگہ چٹان پر چڑھ گیا وہاں سے پھسل پڑا اور ایک بھاری چٹان کچلنے کے لئے مجھ پر گرنے لگی وہ تو زندگی تھی بچ گیا ۔
بلقیس ہمدردانہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی اس نے کہا اللہ کا شکر ہے آپ بچ گئے ۔۔۔۔۔۔
اسمعیل: سب سے زیادہ شکر اس بات کا ہے کہ تم مل گئی!!!!!
بلقیس: آپ نے پانی پی لیا؟
اسمعیل: نہیں ۔
بلقیس نے حیران ہو کر کہا ابھی نہیں پیا؟ "
اسمعیل: جب تک آپ نہ پی لیتی میں کیسے پی لیتا؟ "
اب بلقیس اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا اہ آپ نے ابھی تک پانی نہیں پیا؟ "
اسمعیل اس کا افسوس نہ کرو اور یہ بتاو کہ تم بے ہوش کیوں ہوئی تھی؟
بلقیس: مجھے یاد آ گیا کہ میں نے ایک سانپ دیکھا تھا وہ میرے طرف دوڑا چلا آ رہا تھا میں فرط خوف سے بے ہوش ہو گئی ۔
اسمعیل :اس نے تمہیں کاٹا تو نہیں؟ ؟
بلقیس: نہیں!!!!
اسمعیل: اللہ کا شکر ہے میں نے اس موذی کو تمہارے پاس کھڑا دیکھا تھا ۔
بلقیس: پھر کیا کیا تم نے؟
اسمعیل: میں نے اسے مار ڈالا!!!!!
بلقیس: اچھا کیا آب چلیئے پہلے پانی پی لیں ۔
اسمعیل کو پیاس لگ رہی تھی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بلقیس کے ہمراہ پانی پینے چل پڑے_____________
جاری ہے.......
No comments:
Post a Comment