find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 08)

Ismail kaun tha unhen Tarikh ki Kitabo me Kyu Yad kiya jata hai?
         طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

     قسط نمبر 8___________________Part 8
________اسے ایک مسلمان کھڑا ہوا ملا جو اپنے کپڑے نچوڑ رہا تھا-
ان کا نام اسماعیل تھا انہوں نے اتنے عیسائیوں کو قتل کیا تھا کہ ان کے دامن تک خون میں تر ہو رہے تھے-
اسماعیل نوجوان اور شیر دل بہادر امامن ان کے قریب پہنچا-
اس نے کہا- بہادر نوجوان کیا تم میری مدد کرو گے؟ "
اسماعیل نے کہا-"
ضرور مگر ابھی جنگ جاری ہے ذرا ٹھہر جاؤ میں ان ناقصوں کو اچھی طرح سے قتل کر لوں-"
امامن: مگر میری مدد کا موقع یہی ہے! !!!!
اسماعیل: کیا مدد چاہتے ہو تم؟
امامن: میری لڑکی تدمیر کے خیمے میں ہے جسے وہ زبردستی مجھ سے چھین کر لے گیا ہے،میں اسے آزاد کرانا چاہتا ہوں-
اسمٰعیل: ابھی زرا صبر و تحمل سے کام لو جنگ ختم کر لینے دو! !!!
امامن نے عاجزی سے کہا-"
یہی موقع ہے اللہ کے لیے میری مدد کرو تمہاری اولاد نہیں ہے اس لیے تم باپ کی محبت کا حال نہیں جانتے! !!!"
دونوں چلے مگر زرا تیزی سے قدم بڑھا کر-
وہ عیسائیوں کے خیموں میں پہنچ گئے پھر اس خیمے پر پہنچے جو سب سے زیادہ شاندار تھا-
دونوں خیمہ کے اندر گھس گئے انہوں نے دیکھا کہ بلقیس ریشم کے مضبوط ڈوروں سے بندھی ہوئی ایک کوچ پر پڑی تھی-
امامن اسے دیکھتے ہی دوڑا اس نے کہا-"
آہ میری بیٹی! "
بلقیس نے اٹھنے کا ارادہ کیا مگر وہ ایسی بری طرح جکڑی ہوئی تھی نہ اٹھ سکی اس نے کہا-"
ابا ابا اللہ کا شکر ہے-"
امامن جاتے ہی اس کے اوپر جھک گیا اور محبت پدری سے بے خود ہو کر اس کی پیشانی چومنے لگا-
بلقیس حقیقت میں حسین-
اس کے چہرہ سے حسن کے انوار نکل رہے تھے-
آنکھیں بڑی بڑی اور غضب کی رسیلی تھیں-
چہرہ گول عارض گلاب کی پتیوں کی طرح سے سرخ و سفید تھے وہ حسن و جمال کی بے نظیر تصویر تھی-
اسمٰعیل اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے-
بلقیس نے کہا-" ابا مجھے کھول دو بندشوں سے بڑی تکلیف ہو رہی ہے-"
امامن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا جس سے کہ آپ کے بند کاٹ ڈالتا-
اس نے اسمٰعیل کی جانب دیکھا اسمٰعیل رشک حور بلقیس کے نظارہ میں محو تھے! !
امامن نے کہا-"
رحم دل نوجوان اس کی بندش دور کر دو-"
اسمٰعیل چونکے وہ بڑے اور تلوار سے ڈوریں کاٹنا شروع کر دیں بلقیس نے اب تک اسمٰعیل کو نہیں دیکھا تھا-
جونہی اس کی نظر ان پر پڑی تو وہ حیرت نیز محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی-
اسمٰعیل کے دل پراس کی اس ادائے دل ربائی کا اور بھی اثر ہونے لگا وہ اس کے شکریہ کا جواب تک نہیں دے سکا-"
امامن نے کہا اب یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے لہذا آئیے اور جلدی سے نکل چلیں-"
بلقیس نے کہا ہاں چلئے ابا جان-"
اب یہ تینوں چلے اور خیمے سے باہر نکلے باہر نکلتے ہی انہیں تدمیر اور پچاس ساٹھ عیسائی باہر کھڑے ملے-
تدمیر نے انہیں دیکھتے ہی کہا-"
اچھا تو تم اس پیکر جمال کو لے جانا چاہ  رہے ہو؟ "
یہ تینوں اتنے عیسائیوں کو دیکھ کر ٹهٹهکے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-
_________پہلی فتح__________
جس وقت امامن اور اسمٰعیل عیسائیوں کے خیموں کی طرف چلے تھے اس وقت جنگ زور شور سے ہو رہی تھی-
ہر طرف تلواریں اٹھتی اور جھکتی نظر آ رہی تھیں-
خون کی پهوہاریں برس رہی تھیں سر کٹ کر گیندوں کی طرح سے اچھل رہے تھے اور زمین گر رہے تھے-
اس وقت مسلمان اور عیسائی دونوں اپنی اپنی ہستیوں کو بھولے ہوئے تھے اور نہایت جوش نیز بڑے غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لڑ رہے تھے-
عیسائیوں کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کو یا تو مار ڈالیں گے یا پسپا کر دیں گے مگر اس سے پہلے ان کا کبھی مسلمانوں سے مقابلہ نہ ہوا تھا بلکہ مقابلہ تو درکنار انہوں نے کبھی ان کو دیکھا تک نہ تھا-
اس سے پہلے وہ یہ سمجھ رہے تھے، بلکہ مار رہے تھے، جو عیسائی ان تلواروں کی زد میں آ جاتا ہے تها -
وہ بہت جدوجہد کرنے کے باوجود بھی نہ بچتا موت اسے آ دباتی تھی-
عیسائیوں کو اپنی کیفیت دیکھ دیکھ کر بہت طیش آ رہا تھا-
وہ جوش و غیظ میں آ کر گھوڑوں کو ایڑیں لگا لگا کر جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے-
ان کی بے پناہ تلواریں اٹھتی تھیں اور بجلی کی طرح کوندتے ہوئے مسلمانوں کے سروں پر جھکتی تھیں لیکن مجاہدین نہایت اطمینان اور بڑی تجربہ کاری سے ان کو اپنی ڈھالوں پر روک لیتے تھے اور ان کے حملے کو روکتے ہی خود بھی حملہ کر دیتے تھے-
ان کا ہر حملہ ایسا جان لیوا ہوتا تھا کہ دس بیس عیسائیوں کو آن کی آن میں ختم کر دیتا تھا-
چونکہ محاذ جنگ دور تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے دور تک تلواروں کا کھیت آگا ہوا معلوم ہوتا تھا-
جنگ دوپہر سے پہلے شروع ہوئی تھی اور اب دوپہر کو ڈھلے ہوئے کافی وقت ہو گیا تھا-
جنگ ہنوز پورے زور و شور سے ہو رہی تھی-
سرفروش بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے مسلمان جس جوش و جرات سے لڑ رہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جنگ ظہر کا وقت قضا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے مگر عیسائی بھی کچھ موم کے بنے ہوئے نہ تھے وہ بھی نہایت دلیری اور بہادری سے لڑ رہے تھے-
مغیث الرومی دائیں طرف والے دستے کو سنبھالے تھے اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے-
انہوں نے اس قدر عیسائیوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ انہیں شمار ہی نہ کر سکے تھے اور اب بھی وہ تھکے نہیں تھے-
برابر اسی شد و مد سے حملے کر رہے تھے اور دشمنوں کو ہمہ تن مصروف نظر آ رہے تھے-
ان کی خون آشام تلوار جس طرف جھکتی تھی اور جس کے سر پر پڑتی تھی اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتی تھی وہ ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسری ہاتھ تلوار لئے بڑی جان بازی سے لڑ رہے تھے عیسائی ان کو غصہ بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح سے انہیں مار ڈالیں مگر ان کے پاس جانے کی جرات نہ پڑتی تھی اور جو قسمت کا مارا ان کے پاس پہنچ بھی جاتا تو وہ قتل ہو کر گر پڑا تھا-
عیسائیوں پر ان کا رعب طاری ہو گیا تھا اور ان سے بچنے کے لیے ادھر ادھر دبنے لگے تھے مگر وہ انہیں بچنے بھی نہ دیتے تھے خود ہی جھپٹ کر اور جست کر کے حملہ کرتے تھے -
طارق لشکر کے درمیان میں تھے وہ بھی بھوکے شیروں کی طرح سے غنیم پر جا پڑتے تھے-
یہاں تدمیر بھی موجود تھا اور وہ بڑے جوش و خروش سے لڑ رہا تھا اسے لڑتے ہوئے دیکھ کر عیسائی پوری قوت سے لڑ رہے تھے۔
        *جاری ہے.......*

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS