find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 05)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
        طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

      قسط نمبر 5_________________Part 05
یہ سات ہزار کا لشکر جس کا سپہ سالار طارق بن زیاد تھا اور اس کے دست راست طریف بن مالک اور مغیث کی سر کردگی میں  روانہ ہوا اور ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک شہر جس کا نام سبتہ تھا پہنچ گیا۔ وہاں پر امیر بحر عبداللہ  اپنے بہری بیڑے کے ساتھ اس لشکر کے انتظار میں  کھڑا تھا ۔کاونٹ جولین لشکر کو دوسرے کنارہ تک پنچانے کے لیے ساتھ ہو لیا۔
سبتہ شہر کا حکم ایک عیسائی تھا جو کے مسلمانوں  کی عملداری میں  تھا۔  لشکر  سبتہ پہنچ کر بہری بیڑے  میں  سوار ہوا ۔اور ہسپانیہ کیطرف روانہ ہوا۔وسرے کنارہ پر پہنچ کر سمندر میں  جہاں تک بہری بیڑا جا سکتا تھا پہنچ گیا ۔جب طارق بن زیاد نے دیکھا کہ آگے بڑھنا نا ممکن ہو گیا تھا، چنانچہ لنگر ڈال دیئے گئے اور جہاز معمولی جھٹکے کے ساتھ رک گئے-
کشتیاں نکال نکال کر سمندر میں ڈال دی گئیں اور سب سے پہلے ان میں سامان بار کیا جانے لگا-
جولین نے کہا ہم آپ کی رہنمائی کے لیے یہاں تک آئے ہیں اب ہم رخصت ہونا چاہتے ہیں-"
طارق: اب آپ کہاں جائے گا؟ "
جولین: سیوطا-"
طارق: بہت اچھا لیکن ہاں ایک بات-
جولین: جی فرمائیے!
طارق: ہم اس ملک کے راستوں سے بالکل نا واقف ہیں اگر کوئی رہبر مل جاتا تو اچھا ہوتا! !!!
جولین: افسوس ہے کہ ایسا کوئی آدمی میرے علم میں نہیں ہے-
طارق: خیر اللہ مالک ہے-
جولین: ان پہاڑوں سے گزر کر آپ کھلے ہوئے میدان میں پہنچیں گے، سیدھے راستے بڑھتے چلے جائیے-
اندلس کے دارالسلطنت ٹولیڈو (طلیطلہ) میں پہنچ جائیں گے-
کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہے-
طارق:اللہ خود ہی سبیل نکال دے گا-
جولین: ایک بات اور سن لیجیے-
طارق: کہیے؟ "
جولین: جزیرہ سبز سے جو راستہ اندلس کو گیا ہے وہاں شاہ رازرک کامشہورا سپہ سالار تدمیر کچھ لشکر لے کر ٹھہرا ہوا ہے-
زرا ہوشیار رہنے گا کہیں وہ آپ کو غافل پا کر حملہ نہ کر دے-"
طارق: کیا وہ سرحد کی حفاظت پر مامور ہے؟ "
جولین: نہیں بلکہ وہ اتفاق سے اس طرف آیا ہوا ہے-
طارق: اس کا لشکر کتنا ہے؟ "
جولین: مجھے صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے-
طارق: اور تعداد معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے-
جب اس ملک میں آ گئے ہیں تو پھر جتنی مرضی تعداد میں لشکر آ جائے مقابلہ پر موت یا فتح دونوں میں ایک حاصل کرنا ہے-"
جولین: اللہ آپ کو فتح دے، میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب آپ فتح یاب ہوں اور وہ وسیہ کا رازرک مار ڈالا جائے-"
طارق: اطمینان رکھئیے اللہ ہر ظالم کو سزا دیتا ہے-"
جولین: مجھے بھی یہی توقع ہے میری بیٹی______بے عزتی کے غم میں گھل گهل کر مر رہی ہے-
طارق: اسے تسلی دیجئے! !!!
جولین: آپ کے لشکر کا حال جان کر اسے خود ہی تسلی ہو جائے گی"-
اچھا اب رخصت ہونا چاہتا ہوں-
طارق: اللہ حافظ-
جولین: دیکھئے تدمیر ایک چالاک اور تجربہ کار آدمی ہے اس سے ہوشیار رہیے گا-
طارق: ہمارا تو اللہ پاک پر بھروسہ ہے اور وہی ہمارا معاون مددگار ہے-
جولین: خدا آپ کی مدد کرے-
وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے جہاز پر چلا گیا-
اس عرصے میں تمام سامان کشتیوں کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا گیا تھا اب شیر دل سپاہی ساحل پر جا رہے تھے جب تمام لشکر ساحل پر پہنچ گیا، تب طارق اور مغیث الرومی بھی کشتی پر بیٹھ کر کنارے پر جا پہنچے-
یہاں پہنچتے ہی طارق نے کہا-"
مسلمانوں اللہ وحدہ لا شریک بلند و بالا کی مہربانی سے ہم اندلس کے سر سبز ساحل پر پہنچ گئے ہیں-"
تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کی مدد اللہ کرتا ہے اور ان شاءالله ہم اس کی مدد سے پورے اندلس پر قابض ہو جائیں گے-
رات جب میں سو رہا تھا تو سرکار دو عالم فخر مدینہ سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں تشریف لائے اور مجھے اندلس کی فتح کی بشارت دی-
جیسا کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں ایسا ہی فتح اندلس پر بھی یقین ہو گیا ہے مگر میں کسی پر جبر نہیں کرنا چاہتا-
سوچ لو کہ یہ مہم معمولی نہیں ہے، اس ملک کے چپہ چپہ پر ٹڈی دل عیسائی بکھرے ہوئے ہیں-
ہم راستوں سے نا واقف ہیں پیدل ہیں اور بے سروسامان ہیں، نیز تعداد میں بھی بہت کم ہیں ہم کو زیادہ محنت مشقت کرنا پڑے گی-
اس لیے میں ان کو جو واپس جانا چاہتے ہیں خوشی سے واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں شوق سے واپس چلے جائیں بتایئں کتنے لوگ واپس جانا چاہتے ہیں؟ "
تمام مسلمان چپ رہے ایک بھی نہ بولا سب خاموش رہے طارق نے کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی واپس نہیں جانا چاہتا؟ "
ہر طرف سے آوازیں آئیں-"
ہرگز نہیں، ہم میں سے ایک بھی واپس نہیں جائے گا-"
طارق: پھر سوچ لیجیے-"
سب نے کہا خوب سوچ لیا ہے ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کی آرزو شہادت کے کے سوا کیا ہو سکتی ہے!
طارق: یہی بات ہو سکتی ہے-اچها! جب آپ میں سے کوئی بھی واپس نہیں جانا چاہتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جہاز بے کار ہیں-
ایک شخص: ہاں بالکل بے کار ہیں-
طارق: پھر بے کار کیوں رہنے دیا جائے؟
طارق: نہیں!
مغیث: اور کیا ارادہ ہے آپ کا؟
طارق: میں ان جہازوں کو آگ لگوانا چاہتا ہوں-
سب نے کہا ہاں جب یہ بے کار ہیں تو ضرور انہیں جلوا دیجئے-
طارق: اچھا تو تم جہازوں اور کشتیوں کو جلا دو-
کئی آدمی بڑھے اور انہوں نے کشتیاں، جہازوں میں ڈال کر جہازوں کو آگ لگا دی گئی اور تمام مسلمان ساحل پر کھڑے ہو کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھنے لگے-
ممکن ہے کہ موجودہ دور کے لوگ کہیں کہ طارق نے غلطی کی کہ انہوں نے ان کے جہازوں کو جن کے ذریعے سے واپس جانا ممکن تھا، جلوا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں ک
کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں کے دلوں میں جوش و امنگ کا دریا امڈ آیا تھا اور ہر مجاہد نے تہیہ کر لیا کہ وہ شہید ہو جائے گا یا فتح حاصل کرے گا-
واپسی کا خیال تک دل میں نہیں آنے دے گا-
مسلمان جزیرہ و خضر پر پانچویں رجب 93ہجری سہ شنبہ کے روز وہاں پہنچے تھے-
تھوڑے ہی عرصے میں تمام جہاز جل کر سمندر کی تہہ میں بیٹھ گئے-
طارق نے کہا-
مسلمانوں تمہاری واپسی کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا ہے-
اب صرف دو ہی باتیں ہیں یا تو شہید ہو جاو یا ملک فتح کرو-"
طارق چو بر کنارہ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار توبہ نکاہ خرد خطا است
دوریم سبب زروئے شریعت کجا ردا است
خندید و دست خویش بہ شمشیرِ بدو گفت
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
( اقبال رح)
سب نے کہا ان شاءالله ہم اندلس فتح کر کے ہی رہیں گے-
طارق: جب انسان کسی نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی مدد کرتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے-
سب نے کہا ان شاءالله! !!!!
طارق: اچھا اللہ کا نام لے کر بڑھو-
نصر من اللہ فتح قریب (فتح اللہ کی طرف سے ہے اور وہ قریب ہے)
سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا-
اس پر ہیبت نعرہ سے تمام پہاڑ اور ساحل سارا گونج اٹھا، اگرچہ اس جگہ کا نام لائنز
راک یا قلعہ الاسد تھا مگر جب سے طارق اس جگہ آئے اس وقت سے اس کا نام جبل الطارق مشہور ہو گیا اور آج بھی دنیا اسے جبل طارق کے نام سے پکارتی ہے-
اب یہ لوگ آگے بڑھے اور پہاڑ کو طے کرنے لگے-
تمام پہاڑ نہایت سر سبز و شاداب تھے-
طرح طرح کے چھوٹے بڑے درخت قسم قسم کے خوش رنگ اور خوشبو دار پھلوں کے پودے اور نئی نئی وضع کی گھاس تھی جس کی طرف بھی نظر جاتی تھی، گل پوش اور سبزہ زار چٹانیں نظر آتی تھیں-
اس جاذب نظر اور فرحت افزا پہاڑ کو عبور کر کے یہ لوگ دوسری طرف اس کے دامن میں اترے لگے-
ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ایک شخص زرد رنگ کا ریشمی جبہ پہنے ملا وہ کچھ پریشان و مضطرب اور بے قرار تھا-
طارق نے اسے دیکھا-
انہوں نے مغیث الرومی سے کہا-"
یہ شخص عیسائی نہیں معلوم ہوتا-"
مغیث: میرا بھی یہی خیال ہے-
طارق: اسے بلوائیں اور دریافت کریں کون کون ہے اور یہاں کیوں پھر رہا ہے-
مغیث:بہتر ہے-
اسے بلوائیں اور پوچھیں کہ کون ہے؟ "
انہوں نے ایک سپاہی کو اسے بلانے کے لیے بھیجا-
سپاہی گیا اور اسے بلا لایا-
اس نے آتے ہی طارق کو سلام کیا-
طارق نے دریافت کیا"-
تم تنہا یہاں کیا کر رہے ہو؟ "
اس نے کہا میں آپ کی تلاش میں تھا"-
طارق نے حیران ہو کر پوچھا ہماری تلاش میں؟ "
وہی شخص جی ہاں!
طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟
وہی شخص: جی ہاں-
طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟ "
وہی شخص: مجھے بتایا گیا تھا! !!
طارق: کس نے بتایا تھا؟ "
وہی شخص:میں سب کچھ عرض کرتا ہوں-
میں مظلوم ہوں ظالم عیسائیوں کا ستایا ہوا ہوں کیا آپ میری داستان سنے گے؟
طارق: ضرور سنو گا ہم مظلوموں کے حامی ہیں-
وہی شخص: آپ میری داد رسی کریں گے؟ "
طارق: ان شاءالله اچھا تم اپنی داستان سناو؟"
وہی شخص: بہتر ہے-
طارق مغیث الرومی کھڑے ہوئے ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے________________________
عیسائی لشکر________یہ زرد پوش اڈهیر عمر کا آدمی تھا-
خوش رنگ اور بیش قیمت پوشاک پہنے تھا-
اس کے گلے میں جواہرات کا نہایت قیمتی ہار پڑا تھا-
اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہا میں ایک بد بخت یہودی ہوں-
میرا نام امامن ہے-
قرطبہ کا رہنے والا ہوں جواہرات کی تجارت کرتا ہوں میں عرصہ سے یہاں مقیم ہوں اور تمام ملک میں میری ساکھ ہے، عزت ہے-
اللہ کی دی ہوئی دولت بھی کافی ہے مگر اس ملک کا قانون نرالا ہے-کوئی آئین نہیں ہے کوئی ضابطہ نہیں ہے-
حکام جس کے پاس دولت دیکھتے ہیں لوٹ لیتے ہیں جس کی بیوی حسین یا لڑکی دیکھتے ہیں تو اسے چھین لیتے ہیں-"
طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا شاید تمہاری دولت چھین لی گئی ہے-"
امامن: جی نہیں دولت چھین لیتے تو مجھے اتنا رنج نہ ہوتا-
طارق: تو کیا بیوی لے اڑا ہے؟ "
امامن: عرصہ ہو گیا میری بیوی کو فوت ہوئے-
طارق: اچھا تو پھر بیٹی کو چھین لیا ہے؟ "
امامن نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا-"
جی ہاں میری مرحومہ بیوی کی نشانی میری نور نظر میرے دل کا چین میرے کلیجے کے ٹکڑے کو چھین لیا ہے-"
یہ کہتے ہوئے امان کا دل بھر آیا، آنکھوں میں آنسو چھلک آئے-
طارق مغیث اور دوسرے لوگوں کو بڑا افسوس ہوا-
طارق نے کہا"-
امامن غم نہ کر-
ان شاءالله تمہاری بیٹی کو واپس لا کر تمہارے دل کو ٹھنڈا کیا جائے گا"-
امامن: مجھے آپ کی ذات سے یہی امید ہے-
طارق: کون لے گیا ہے آپ کی بیٹی کو؟
امامن: حضور جب سے رازرک اس ملک کا بادشاہ بنا ہے تب سے لوگوں کے جذبات جان و مال اور آبرو خطرہ میں پڑ گئے ہیں-
وہ اس درجہ سیہ کار ہے کہ اس نے ان لڑکیوں کی بھی آبرو ریزی کرنا شروع کر دی ہے جو بادشاہ بیگم کے پاس تہزیب و تربیت حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں-
ایک لڑکی فلورنڈا کو جو کونٹ جولین کی بیٹی ہے ہوس کاری کی بھینٹ چڑھا گیا ہے-
طارق: ہم کو معلوم ہے! !!!!
امامن: اس نے ملک میں کچھ عورتیں اور لوگ چھوڑ دئیے ہیں وہ جس عورت یا لڑکی کو حسین دیکھتے ہیں لالچ دے کر اور ڈرا دھمکا کر لے جاتے ہیں-"
طارق: رازرک کی عمر کیا ہے؟ "
امامن: بڈھا ہے حضور بڑھاپے میں خبیث کو سیہ کاری کی سوجھی ہے-
طارق: لیکن لوگ اسے سمجھاتے کیوں نہیں-
امامن: حضور ہم یہودیوں کی حالت قابل رحم ہے سب سے زیادہ ہم تیر ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں دولت ہماری لوٹی جا رہی ہے عزت ہماری پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے-
طارق: مگر وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ کھیل رہا ہے-
امامن: اللہ کرے کہ وہ کہیں جلد غارت ہو-
طارق: اللہ کی گرفت سخت ہے وہ ہر بدکار قوم کو تباہ کر دیتا ہے-
امامن: ہم یہودیوں کا بھی یہی ایمان ہے-
طارق: تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمہاری لڑکی کو کون لے گیا ہے-
امامن: شاہ رازرک کا ایک معتمد خاص لے گیا ہے، میں اس کا نام نہیں جانتا-
طارق: کیا بہکا کر لے گیا ہے-
امامن: نہیں حضور میرے سامنے اور میرے آدمیوں کی موجودگی میں زبردستی لے گیا-
آہ جس وقت اسے لے جایا جا رہا تھا، وہ رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، اس کی معصومانہ نگاہیں کہہ رہی تھیں کہ اس کی امداد کروں اور اسے ان درندوں سے بچاوں-"
امامن کا دل بھر آیا-
آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے نیز اس کا گلا رندھ گیا-
طارق نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:
غم نہ کر امامن! !
دیکھو جب انسان زیادہ غمگین زیادہ پریشان اور زیادہ متفکر رہتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا اور تم کو اپنی لڑکی کو رہائی دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے-
اپنے دل میں جوش انتقام پیدا کرو اور ظالموں سے انتقام لو"-
امامن: ضرور لوں گا. انتقام لینے کے لیے تو میں نے اسی وقت قسم کھائی تھی جب وہ وحشی میری قرتہ العین کو کو میری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے-
طارق: مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری دل گداز داستان سننے کی فرمائش کر کے تمہارے دل کو دکھانے کا باعث بنا-"
امامن:اگرچہ اس روح فرسا داستان کو سناتے ہوئے مجھ پر غم و اندوہ کا غلبہ تھا مگر اس سے میرے غم کا کچھ بار بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور میرے محترم آپ کو تو میں خود اپنی درد انگیز داستان سنانا چاہتا تھا تا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ عیسائی کیا بن گئے ہیں-
طارق: جب تو تم سناؤ اگرچہ تمہاری داستاں سن کر ہمارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں....
      جاری ہے......

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS