find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Hasan Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 49)

Hasan Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 49)

Wah Shakhs Jaha ke Awam Use Dili Aur Ruhani taur pe Chahta Ho.

Husn Bin Saba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Badshah To Awam ke Jismo par Hukumat Karta Hai Mager Husn Bin Saba ne Waha ke logo ke Dilo pe Hukumat Kiya tha.

Hasan Bin Saba Kaun Tha, hasan  sabah ki jannat, Hasan sabah story, hasan bin sabah in urdu story,  hasan bin sabah paradise, hasan bin sabah death,
Hasan Sabah History in Urdu

❂❀﷽❀❂

⁩✶┈┈┈•─ ﷺ ─•┈┈┈✶
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
    ✨حســـن بـن صـــبـاح اور✨
  ✨اسکی مصنـــوعی جنـــــت✨
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚

قسط نمبر/49

جس وقت ان زخمیوں کی مرہم پٹی ہورہی تھی اس وقت قلعہ الموت میں حسن بن صباح اپنے اس خصوصی باغیچے میں ٹہل رہا تھا جو اس نے اپنے لئے تیار کروایا تھا ،اب حسن بن صباح کوئی جادوگر یا شعبدہ باز نہیں تھا، نہ وہ اپنے آپ کو سلجوقیوں سے بھاگا ہوا مجرم سمجھتا تھا، نہ اس کے دل میں کسی کا خوف یا ڈر سوار تھا، وہ تو اب خدا سے بھی نہیں ڈرتا تھا، اپنے پیرومرشد اور استاد احمد بن عطاش سے بھی نظر پھیر لیا کرتا تھا، اب وہ ایک طاقت بن گیا تھا، وہ سلطانوں اور بادشاہوں جیسی حکمرانی نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کا حکمران تھا ،سلطان اور بادشاہ لوگوں کے جسموں کو غلام بنا تے ہیں، لیکن جن علاقوں پر حسن بن صباح قابض ہو گیا تھا ان علاقوں کے لوگ اسے دلی اور روحانی طور پر چاہتے تھے، وہ اسے امام بھی کہتے تھے اور شیخ الجبل بھی، اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو اسے نبی مانتے تھے۔
وہ جب اپنے اس خاص باغیچے میں ٹہل رہا تھا اس کے ساتھ اس کے دو مصاحب اور مشیر بھی تھے۔
مرو سے آج بھی کوئی خبر نہیں آئی۔۔۔ حسن بن صباح نے اپنے مصاحبوں سے کہا۔۔۔ وہاں کی خانہ جنگی اب تک اور زیادہ پھیل جانی چاہیے، مرو تو خون میں ڈوب ہی رہا ہے، میں چاہتا ہوں کے ابومسلم رازی کے شہر رے کی گلیاں بھی خون کی ندیاں بن جائیں،،،،،،، لیکن کیا بات ہے کہ ادھر سے کوئی خبر نہیں آرہی۔
آجائےگی شیخ الجبل !،،،،،ایک مصاحب نے کہا۔۔۔ سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل رہی ہیں ،مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ہمارے گھوڑے سلجوقیوں کی لاشوں کو روندتے کچلتے اور مسلتے ہوئے مرو میں فاتحانہ چال چلتے ہوئے داخل ہوں گے۔
سورج غروب ہو رہا تھا جب ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگی ،ٹاپوں کی آواز قریب آ رہی تھی ،حسن بن صباح اس طرف دیکھنے لگا ذرا ہی دیر بعد گھوڑا اور اس کا سوار نظر آئے، سوار قریب آکر گھوڑے سے کود کر اترا اور تیزی سے چلتا حسن بن صباح کے پاس آیا۔
مروسے آئے ہو؟،،،،، حسن بن صبا نے پوچھا۔
ہاں شیخ الجبل!،،،، سوار نے کہا۔۔۔ مرو سے یہاں آیا ہوں۔
قریب سنگ مرمر کا بنا ہوا ایک تخت سا تھا، حسن بن صباح اس پر بیٹھ گیا اور قاصد کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے سامنے بیٹھ جائے، قاصد اور دونوں مصاحب حسن بن صباح کے سامنے بیٹھ گئے۔
کیا مرو والے ابھی تک ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں؟،،،،، حسن بن صباح نے شگفتہ سی آواز میں پوچھا۔
یا شیخ الجبل!،،،،،، قاصد نے کہا۔۔۔میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا ،خانہ جنگی اچانک رک گئی تھی اور یہ سلطان برکیارق کے حکم سے روکی گئی تھی، اس کے فوراً بعد حکم ملا کہ جہاں جہاں کوئی باطنی نظر آتا ہے اسے قتل کردیا جائے، سب سے پہلے ہمارا طبیب اور اس کے ساتھی اپنے گھر میں قتل ہوئے، ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تھا، ہمارے آدمیوں کو بھاگنے کا موقع ہی نہ ملا تھا ،جس کے متعلق ذرا سابھی شک ہوا کہ یہ ہمارے فرقے کا آدمی ہے اسے قتل کر دیا گیا۔
یہ ہوا کیسے؟،،،،،، حسن بن صباح نے بڑی زور سے اپنا ایک پاؤں زمین پر مار کر پوچھا۔۔۔ کیا وہ لڑکی روزینہ دھوکہ دے گئی ہے، یا مر گئی ہے؟
اسے سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کردیا تھا۔۔۔۔ قاصد نے جواب دیا ۔
اگر تم سب کچھ جانتے ہو تو پوری بات سناؤ۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
قاصد نے خانہ جنگی کی تفصیلات سنانی شروع کر دی ،اور بتایا کہ دونوں طرفوں کے لشکر لڑتے لڑتے شہر سے کتنی دور چلے گئے تھے، اس نے یہ بھی بتایا کہ رے کا امیر ابومسلم رازی اپنا لشکر لے کر مرو پہنچ گیا تھا اور وہ سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا ،پھر اس نے بتایا کہ کس طرح خانہ جنگی اچانک رک گئی اور باطنیوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔
یا شیخ الجبل!،،،،، قاصد نے کہا۔۔۔میں خانہ جنگی رکتے ہی وہاں سے چل پڑا ،لیکن میں نے کچھ راز لینے تھے، یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ خانہ جنگی کس طرح رکی، اور سلطان برکیارق نے یہ حکم کس کے کہنے پر یا کس کے دباؤ پر دیا تھا ،بڑی مشکل سے راز حاصل کیے،،،،،،،
یہ تو بتا چکا ہوں کہ ہماری لڑکی روزینہ کو سلطان برکیارق نے اپنے ہاتھوں قتل کیا تھا، طبیب نے سلطان کے محل کے دو ملازم اپنے ہاتھ میں لے لئے اور انہیں مخبر بنالیا تھا ،انھوں نے بتایا کہ روزینہ کو ہماری ہی ایک مفرور لڑکی شمونہ نے قتل کروایا ہے، شمونہ روزینہ کی کنیز بن کر محل میں داخل ہوئی تھی، ان ملازموں کو یہ پتا نہیں چل سکا کے شمونہ نے کس طرح سلطان برکیارق کو اپنے اثر میں لے لیا اور روزینہ کو قتل کروایا تھا، البتہ یہ خبر ملی ہے کہ اس کارروائی میں سلطان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی شامل تھا۔
یہ لڑکی شمونہ اب کہاں ہے؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
وہ مرو میں ہی ہے۔۔۔ قاصد نے جواب دیا۔۔۔اس کی ماں جس کا نام میمونہ ہے وہ بھی اس کے ساتھ ہے۔
شمونہ ابھی تک وہاں سے اٹھائی کیوں نہیں گئی۔۔۔ حسن بن صباح نے غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ میں کبھی کا حکم دے چکا ہوں کہ اس لڑکی کو زندہ میرے سامنے لایا جائے، کیا میرے فدائی میرا یہ حکم بھول گئے ہیں، یا ان میں اتنی ہمت ہی نہیں رہی۔
صرف شمونہ ہی نہیں یا شیخ الجبل!،،،،،قاصد نے کہا۔۔۔ ہماری ایک اور عورت جس کا نام رابعہ ہے وہ بھی سلطان کے محل میں چلی گئی تھی، اس نے ایسے لوگوں کے نام اور پتے بتائے جو ہمارے خاص آدمی تھے ،ان سب کو سلطان نے قتل کروا دیا ہے،،،،،، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے کچھ اور آدمیوں کو سلطان کی فوج نے پکڑ لیا تھا اور ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کی نشاندہی کردی، اس طرح ہمارے آدمی مارے گئے،،،،،،
اور یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے فرقے کے قتل عام کا حکم ابومسلم رازی نےدلوایا ہے ،اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی اس کے ساتھ ہے اس وقت صورت یہ ہے کہ سلطان برکیارق ان دونوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے،،،،،، پھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ عبدالرحمان سمیری ابومسلم رازی سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت سلجوقی حکومت دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک حصے کا سلطان برکیارق ہوگا اور دوسرا حصہ برکیارق کے چھوٹے بھائیوں محمد اور سنجر کو دے دیا گیا ہے، لیکن برتری اور مرکزیت سلطان برکیارق کو حاصل ہوگی تاکہ دونوں حصوں کا اور ان کی فوجوں کا اتحاد قائم رہے۔
ابومسلم رازی اور عبدالرحمن سمیری کو اب تک زندہ نہیں رہنا چاہیے تھا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ رے میں ایک مشہور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی ہے ،مجھے پہلے اطلاع مل چکی ہے کہ یہ عالم ابومسلم رازی کا پیرومرشد بنا ہوا ہے اور رازی اس کے مشوروں اور تجویزوں پر عمل کرتا ہے۔ اس عالم کو بھی ان دونوں کے ساتھ ختم کرنا ہے،،،،،،، میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ رے میں گیا تو ابومسلم رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا تھا ،یہ تو مجھے بر وقت پتہ چل گیا اور میں وہاں سے بھاگ کر مصر چلا گیا تھا، واپس آیا تو بھی رازی نے میری گرفتاری کا حکم دے دیا اس کا بھی مجھے پہلے ہی پتہ چل گیا اور میں وہاں سے ایک بہروپ دھار کر بھاگ نکلا،،،،،،، یہ شخص اسلام کا شیدائی اور سلجوقیوں کی سلطنت کا خیرخواہ بنا ہوا ہے، اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، سب سے پہلے میں اس کا پتا کاٹونگا ،اس کے پیرومرشد ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو بھی صاف کرا دوں گا۔
سورج کبھی غروب ہوچکا تھا حسن بن صباح وہی بیٹھنا چاہتا تھا اس لئے فانوس وہیں لائے گئے اور رات کو دن بنا دیا گیا ،حسن بن صباح کے حکم سے شراب کی صراحی اور پیالے وہیں آگئے، شراب پلانے کے لیے تین چار انتہائی خوبصورت اور نوجوان لڑکیاں آگئیں، ان کے نیم برہنہ جسموں کی خوبصورتی کو صرف جنت کی حوروں سے ہی تشبیہ دی جاسکتی تھی۔
حسن بن صباح نے چار پانچ آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فوراً بلایا جائے، زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ یہ سب آدمی دوڑے آئے، حسن بن صباح نے انہیں بتایا کہ مرو میں کیا ہوا ہے اور اس کے جواب میں انہیں کیا کرنا ہے ،یہ آدمی تمام علاقوں میں پھیلے ہوئے باطنی تخریب کاروں فدائیوں اور جاسوسوں کو سرگرم رکھتے اور ان سے اطلاعیں وصول کیا کرتے تھے۔
ایک ایک باطنی کے بدلے دس دس مسلمانوں کو قتل کرنا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ لیکن سب سے پہلے ان کے سربراہوں اور قائدین کو ختم کرو ،،،،،،تین نام یاد کر لو،،،،،،، رے کا حاکم ابو مسلم رازی ،سلطان برکیارق کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری، رے کا ایک عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی،،،،،، سب سے پہلے ان تینوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دو، اس کے بعد بتاؤں گا کہ کس کی باری ہے۔
مشہور تاریخ نویس ابن جوزی اور ابن اثیر نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح صرف مرو یا رے کے مسلمانوں سے باطنیوں کے قتل عام کا انتقام نہیں لینا چاہتا تھا، بلکہ اس کی نظریں اصفہان پر لگی ہوئی تھیں، دوسرے مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ وہ اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا ،اس نے اصفہان میں بھی اپنا جال بچھا رکھا تھا، مورخوں کے مطابق اس نے اسی محفل میں ایک پلان بناکر اپنے خاص کارندوں کو دے دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو ایسے خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ انہیں کون قتل کر رہا ہے۔
تاریخوں سے ایک شہادت یہ بھی ملتی ہے کہ حسن بن صباح نے یہ حکم دیا تھا کہ اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرکے غائب کر دیا جائے ،یہ پتہ ہی نہ چلے کہ جو آدمی غائب ہوگئے ہیں وہ زندہ ہیں یا مارے گئے ہیں۔
اس کی جنت دور دور تک مشہور ہوگئی تھی اور نوجوان اس جنت کو دیکھنے کے لئے بڑی دور کا سفر کرکے قلعہ الموت جاتے تھے وہاں حسن بن صباح کے تجربے کار کارندے ان نوجوانوں پر نظر رکھتے اور ان میں سے اپنے مطلب کے لڑکے منتخب کرلیتے اور انہیں اس جنت میں داخل کر دیتے تھے۔
یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جو کوئی ایک بار اس جنت میں چلا جاتا تھا تو وہ دنیا کو بھول جاتا بلکہ اپنی اصلیت اپنی ذات بھی اسے یاد نہیں رہتی تھی، پہلے کسی سلسلے میں بیان ہو چکا ہے کہ اس جنت میں حشیش تھی اور حوریں تھیں ،قدرت نے اس خطے کو ایسا حسن دیا تھا کہ حشیش اور حسین لڑکیوں کے بغیر بھی وہ خطہ جنت نظیر تھا، اب تو اس جنت میں چشمے پھوٹ پڑے تھے جس میں رنگین مچھلیاں چھوڑ دی گئی تھیں، اس جنت میں سے جو فدائی تیار ہو کر نکل رہے تھے جو حسن بن صباح کے حکم سے دوسروں کو تو قتل کر دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھی قتل کر دینے میں وہ فخر محسوس کرتے تھے، ان فدائیوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں پھیلایا جا رہا تھا۔
حسن بن صباح کے یہاں تبلیغ بہت کم اور زیادہ تر قتل و غارت گری تھی، اس کا اصول اور طریقہ کار یہ تھا کہ علماء اور دیگر قائدین کو قتل کر دیا جائے اور عوام کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بنا کر انہیں ہانک کر اپنے زیر اثر لے لیا جائے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مرو میں امن قائم ہوچکا تھا امن کا مطلب یہ کہ اب وہاں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا ،لیکن جن گھروں کے جوان بیٹے اس لڑائی میں مارے گئے تھے ان گھروں میں ابھی تک ماتم ہو رہا تھا، اگر انہوں نے کفار کی کسی فوج سے لڑائی لڑی ہوتی تو وہ لوگ فخر سے بتاتے کہ ان کا بیٹا حق و باطل کے اس معرکے میں شہید ہوا ہے، لیکن وہاں تو بھائیوں نے بھائیوں کا خون بہا دیا تھا البتہ حسن بن صباح اور اس کے باطنی فرقے کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھ آیا تھا، ہر کسی کو معلوم تھا اور ہر کسی کو بتایا گیا تھا کہ یہ سارا فتنہ باطنیوں نے زمین دوز طریقوں سے شروع کیا تھا۔
ابومسلم رازی ابھی مرو میں ہی تھا اس نے اپنا لشکر اپنے شہر رے کو بھیج دیا تھا ،وہ خود اس لئے رک گیا تھا کہ مرو میں تینوں بھائیوں سلطان برکیارق ،محمد اور سنجر میں سلطنت کی تقسیم کے متعلق امور طے کرنے تھے، اس نے دو چار دنوں بعد وہاں سے رے کو روانہ ہونا تھا۔
مزمل آفندی اور اس کا ساتھی بن یونس موت کے شکنجے سے نکل آئے تھے، انہیں دودھ اور شہد پلایا جا رہا تھا اور ایسی غذا دی جارہی تھی کہ ان کا جو خون ضائع ہوگیا تھا وہ پورا ہونا شروع ہوگیا، زخم بھی ٹھیک ہو رہے تھے اور اب وہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے تھے، اور بڑی آسانی سے باتیں بھی کرلیتے تھے۔
سلطان برکیارق اور ابومسلم رازی کو جب پتہ چلا کہ مزمل آفندی زخمی ہوکر آیا ہے تو دونوں بڑی تیزی سے محل میں آئے اور اسے دیکھا تھا، انہوں نے طبیب اور جراح سے کہا تھا کہ یہ بہت ہی قیمتی آدمی ہے اسے ہر قیمت پر زندہ رکھنا ہے، اور پھر اس میں وہی روحانی اور جسمانی توانائی پیدا کرنی ہے جو زخمی ہونے سے پہلے ہوا کرتی تھی۔
امیر محترم !،،،،،مزمل نے ابومسلم رازی سے کہا۔۔۔ میں آج ہی آپ کو بتا دیتا ہوں کہ پوری طرح صحت یاب ہوکر میں اپنے ساتھی بن یونس کے ساتھ قلعہ الموت جاؤنگا اور حسن بن صباح کو قتل کر کے ہی واپس آؤں گا ،ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں آئیں گے۔
پہلے صحتیاب ہو لو ۔۔۔ابومسلم رازی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ یہ تو ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ حسن بن صباح اوراسکے باطل فرقے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں گی،،،،، ابھی اپنے خون کو اتنا جوش نہ دو پہلے تندرست ہو جاؤ۔
دو تین دنوں بعد ابومسلم رازی مرو سے رے کو روانہ ہونے لگا ،سلطان برکیارق اس کے بھائیوں اور اس کی ماں نے ابومسلم رازی کو شاہانہ طریقے سے بڑے تپاک سے رخصت کیا، اس کی مزید تعظیم اس طرح کی گئی کہ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اسے الوداع کہنے کے لئے شہر سے باہر تک اس کے ساتھ روانہ ہوگیا ،وہ دونوں پہلو بہ پہلو گھوڑوں پر سوار چل پڑے ان کے پیچھے آٹھ دس محافظوں کا دستہ تھا ،اس کے پیچھے اونٹوں اور خچر گاڑی پر سامان وغیرہ جا رہا تھا۔
سمیری بھائی !،،،،،چلتےچلتے ابومسلم رازی نے سلطان کے وزیراعظم سے کہا۔۔۔ ان لڑکوں پر نظر رکھنا اور انہیں قابو میں رکھنا آپ کا کام ہے، بیشک برکیارق راستے پر آ گیا ہے لیکن جوان آدمی ہے کہیں بھٹک نہ جائے، اور دوسرے بھائی اس سے چھوٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عقل کی بجائے ذاتی جذبات سے سوچنا اور عمل کرنا شروع کردیں، حسن بن صباح کا قلع قمع کرنا اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں ،انہیں کھلی جنگ اور حملے سے ختم نہیں کیا جاسکتا ،میں الموت کی بات کر رہا ہوں، ہمیں کچھ اور طریقے سوچنے پڑے گے، بہرحال میں آپ سے آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ فرض آپ کا ہے ان لڑکوں پر بھروسہ نہ کرنا۔
آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں نے زمین کے نیچے نیچے کیسی کیسی کاروائیاں کی ہیں۔۔۔۔ عبدالرحمن سمیری نے کہا۔۔۔ میں آپ کا ہم خیال ہوں آپ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا ،آپ نے بجا فرمایا ہے کہ یہ کام ہم جیسے تجربہ کار اور گہری سوچ وفکر والے آدمیوں کے کرنے کا ہے ،،،،،،اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے،،،،،، عبدالرحمن سمیری کی بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک غریب سا ادھیڑ عمر آدمی ان کے راستے میں سامنے آ کھڑا ہوا، اس کی خشخشی داڑھی تھی اور وہ بوسیدہ سا چغہ پہنے ہوئے تھا ،اس کے چہرے پر اداسیوں کی گہری پرچھائیاں تھی، اور تاثر ایسا جیسے وہ مظلوم اور التجا کرنا چاہتا ہو، ابومسلم رازی بڑا ہی رحم دل آدمی تھا، عبدالرحمن سمیری بھی رحم دلی میں کم نہ تھا ،دونوں نے گھوڑے روک لیے۔
یا امیر!،،،،، اس آدمی نے ہاتھ جوڑ کر ذرا آگے آتے ہوئے کہا۔۔۔ ذرا رک جا اور ایک مظلوم باپ کی فریاد سنتا جا ۔
کہو میرے بھائی!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو، میں تمہاری مدد کروں گا پھر یہاں سے آگے قدم اٹھاؤ نگا۔
یا امیر!،،،،، اس مفلوک الحال آدمی نے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔ لڑائی تو امیروں اور بادشاہوں کی تھی لیکن میرا ایک ہی ایک جوان بیٹا اس لڑائی میں مارا گیا ہے، اگر میرا بیٹا کفار کے مقابلے میں لڑتا ہوا جان دے دیتا تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی، بلکہ میں فخر سے اپنا سر اونچا کرکے کہتا کہ میں نے اپنا ایکلوتا بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہے، لیکن یہ کیسی لڑائی تھی،،،،، جس میں بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا اور،،،،،،
تم اپنی فریاد سناؤ میرے بھائی!،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ وہ تو میں جانتا ہوں کہ یہ کیا ہوا تھا، تم جو چاہتے ہو وہ بتاؤ تاکہ میں تمھاری مدد کروں۔
اے رحمدل امیر!،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔تیرے متعلق جو سنا تھا ،تو ایسا ہی نکلا، اللہ نے تیرے دل میں رحم ڈالا ہے کچھ رحم مجھ پر بھی کردے۔۔۔۔ یہ آدمی جس نے گھٹنے پہلے ہی زمین پر ٹیکے ہوئے تھے سجدے میں چلا گیا اور سجدے میں بولا میں جانتا ہوں کے سجدہ صرف خدا کے آگے کیا جاتا ہے ،لیکن میں تیرے آگے سجدہ کرتا ہوں۔
کھڑے ہو کر بات کرو بھائی!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔۔۔مجھے گنہگار نہ کرو ،،،،،،کہو کیا بات ہے۔
اس آدمی نے سجدے سے سر اٹھایا اور پھر ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔۔مجھے بتائیے امیر میں کہاں جاؤں، میری فریاد کون سنے گا، تو گھوڑے پر سوار ہے اور میں خاک نشین ہوں،،،،،،میری آواز تیرے کانوں تک نہیں پہنچ پائے گی۔
ابومسلم رازی کی رحم دلی اور انسان دوستی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھوڑے سے اتر آیا وہ پہلے ہی یہ صدمہ دل پر لئے ہوئے تھا کہ اس آدمی کے بیٹے جیسے نہ جانے کتنے بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے ہیں، اب وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جس کا اکلوتا بیٹا مارا گیا ہے اس کے آگے سجدہ کر رہا ہے۔
ابومسلم رازی اس کے قریب پہنچا تو وہ آدمی ایک بار پھر سجدے میں چلا گیا، رازی نے دیکھ لیا تھا کہ اس آدمی کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے، اس نے اس مظلوم آدمی کے اوپر جھک کر اس کے دونوں بغلوں میں ہاتھ رکھے اور اسے اٹھنے کو کہا اور اسے اٹھانے بھی لگا ،اس وقت ابومسلم رازی رکوع کی حالت میں اس آدمی کے اوپر جھکا ہوا تھا اور وہ آدمی اس کے نیچے تھا۔
اس آدمی نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھتے اٹھتے اپنے بوسیدہ چغّے کے اندر کیا اور پھر بڑی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا ،پیشتر اس کے کہ ابو مسلم رازی یا کوئی اور دیکھ سکتا کہ اس آدمی کے ہاتھ میں خنجر ہے خنجر ابومسلم رازی کے سینے میں اترچکا تھا، اس آدمی نے نیچے سے خنجر کا وار کیا تھا، ابومسلم رازی تیزی سے سیدھا ہوا تو اس آدمی نے اٹھ کر دو بار پھر اس کے سینے میں خنجر مارے، ابومسلم رازی تیورا کر گرا اور اس کے جسم سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے۔
محافظ گھوڑوں سے کود کر اترے اور ابو مسلم رازی کی طرف دوڑے، عبدالرحمن سمیری بھی گھوڑے سے اتر آیا اور اس نے ابومسلم رازی کو سہارا دیا، لیکن ابومسلم رازی کے گھٹنے زمین سے لگ چکے تھے۔
باطنی کو وہی پکڑنا تھا لیکن قاتل نے چند قدم پیچھے ہٹ کر اپنے خنجر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اپنے سر کے اوپر کرکے نعرہ لگایا،،،، یا شیخ الجبل تیرے نام پر اپنی جان قربان کر رہا ہوں،،،، تیرے حکم کی تعمیل کردی ہے،،،، اس نے خنجر زور سے نیچے کو کھینچا اور اپنے دل میں اتار لیا ،ذرا سی دیر وہ پاؤں پر کھڑا رہا پھر گر کر ایک طرف کو لڑھک گیا، محافظوں نے اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ مر چکا تھا۔
چونکہ وزیراعظم اور رے کا امیر جا رہے تھے اس لیے لوگ راستے کے دونوں طرف اکٹھے ہوگئے تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ ایک آدمی نے امیر رے کو قتل کردیا ہے تو وہ قاتل پر ٹوٹ پڑے، اسے تلواروں اور خنجروں سے قیمہ کردیا اور جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا اس نے پتھر اٹھا اٹھا کر اسے مارے اور ذرا سی دیر میں قاتل کے جسم کے چھیتھڑے کردیے۔
ابومسلم رازی کی لاش گھوڑے پر ڈال کر واپس سلطان برکیارق کے محل میں لے جائی گئی وہاں تو کہرام بپاہوگیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
ابومسلم رازی کی میت کو مرو میں ہی آخری غسل دے کر کفن پہنا دیا گیا تھا، ایک قاصد کو رے کی طرف دوڑا دیا گیا تھا کہ وہ ابومسلم رازی کے خاندان کو اس حادثے کی اطلاع دے دے، اور یہ بھی بتائے کہ اس کی میت لائی جارہی ہے ۔
ابومسلم رازی ایک تاریخ ساز شخصیت تھی، حسن بن صباح نے اسے قتل کروا کر ایسا خلا پیدا کر دیا تھا جسے اب کوئی اور پورا نہیں کر سکتا تھا۔
جب ابو مسلم رازی کی میت رے پہنچی تو سارا شہر ہی ٹوٹ پڑا ،ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر کوئی جانتا تھا کہ اسے باطنیوں نے قتل کیا ہے، لوگ بلند آواز سے حلف اٹھا رہے تھے اور یہ عہد کر رہے تھے کہ وہ اپنے امیر کے خون کا انتقام لیں گے۔
اس قتل کی اطلاع شہر سے باہر دور دور تک پہنچ گئی تھی اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے تھے، جب جنازہ اٹھا تو رے کی فضا میں صرف آہ و بکا اور عورتوں کے بین سنائی دے رہے تھے، جنازہ گھوڑدوڑ کے میدان میں پڑھا گیا ،عورتیں چھتوں پر کھڑی رو رہی تھی اور بچے بھی جنازے میں شامل ہوگئے تھے، لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم کبھی کم ہی دیکھنے میں آیا تھا۔
جنازہ ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے پڑھایا، جنازہ کے بعد اس نے لوگوں کو بیٹھ جانے کو کہا ،پھر اس نے بڑی بلند آواز میں لوگوں کو مختصر سا خطاب کیا۔
اے لوگو !،،،،،ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے کہا۔۔۔ ہوش میں آؤ اور اپنے دین و ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرو، ابومسلم رازی کو اس ابلیس حسن بن صباح نے قتل کرایا ہے، اس سے ہماری قوم کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی صرف ابومسلم رازی ہی کر سکتا ہے، لیکن عہد کر لو کہ ہمیں ایک اور ابو مسلم رازی پیدا کرنا ہے، پروانے جل جل کر مرتے رہتے ہیں اور شمع جلتی رہتی ہے، ہمیں اسلام کی شمع کو جلتا رکھنا ہے اور اس پر اسی طرح جل جل کر مرنا ہے، انسان مرتے جاتے ہیں لیکن دین اور ایمان زندہ رہتے ہیں، کچھ اور انسان آتے ہیں جو پہلے انسانوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں، اب ہر آدمی اس عزم کو اپنے ایمان میں شامل کرلیں کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے اور اس کے فرقے کا نام و نشان مٹا دینا ہے،،،،،،، لیکن سوچنا عقل سے، جذبات کی شدت اور جوش سے نہیں۔
لوگوں میں اس قدر جوش و خروش اور ایسا غم و غصہ تھا کہ انھوں نے اس عالم کی آگے کوئی بات نہ سنی اور نعرے لگانے شروع کر دیئے، اگر انہیں اشارہ بھی دیا جاتا کہ ابھی قلعہ الموت پر حملہ کرنا ہے تو سب اسی حالت میں چل پڑتے اور کچھ بھی نہ سوچتے،،،،،،،  فاضل اصفہانی نے ہاتھ کھڑے کر کے لوگوں کو خاموش کیا اور دعا پڑھنے لگا ،لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہجوم میں سے راستہ بناتا ہوا مجید فاضل اصفہانی کے پاس جا کھڑا ہوا، اور اس نے لوگوں کی طرف منہ کر لیا، وہ اس عالم کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا۔
اے لوگو!،،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔ تم جوش میں آ کر نعرے لگا رہے ہو، تم نہیں جانتے کہ حسن بن صباح کو قتل کرنا کس قدر مشکل کام ہے، اس کے لیے صرف دو تین آدمیوں کی ضرورت ہے میں اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی جان کو پیش کرتا ہوں،،،،،،، مجھے دو آدمیوں کی ضرورت ہے۔
تم ابھی بیٹھ جاؤ میرے عزیز!،،،، ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی نے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ یہ معاملہ ایسا نہیں جو یہاں جذبات کے جوش میں طے کر لیا جائے، اس پر بعد میں غور کیا جائے گا۔
میں نے غور کر لیا ہے۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ اور بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا ،ہوا میں لہرایا اور اس کا یہ خنجر ابو المظفر مجید فاضل اصفہانی کے سینے پر اس جگہ اتر گیا جہاں دل ہوتا ہے، اس شخص نے دو وار اور کئے اور بیشتر اسکے کہ لوگ اٹھ کر اسے پکڑ لیتے اس نے اپنا خنجر ہوا میں بلند کرکے نعرہ لگایا،،،،، شیخ الجبل کے نام پر!،،،،،،، اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا ،وہ گرا اور مر گیا ،یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح نے قتل کرایا تھا، مجید فاضل اصفہانی صرف عالم ہی نہیں تھا بلکہ وہ عمل کے میدان کا سپاہی تھا ،حقیقت پسند اور کچھ کر کے دکھا دینے والا،،،،،، ابو مسلم رازی اور مجید فاضل اصفہانی کے قاتل دو تین دن پہلے قلعہ الموت سے آئے تھے۔
ابومسلم رازی کو دفن کر دیا گیا اور اس کے پیر استاد مجید فاضل اصفہانی کی میت کو اٹھا کر اس کے گھر لے گئے، اگلے روز اسی بے پناہ اور بے قابو ہجوم نے اپنے اس عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کا جنازہ پڑھا، بے قابو اس لیے کہ ہر کوئی غم و غصے سے پھٹا جا رہا تھا ،لیکن یہ لوگ اب قیادت سے محروم ہو گئے تھے، سلطان برکیارق اور اس کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری وہیں رکے رہے تھے ،جنازے کے بعد عبدالرحمن سمیری نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور اپنی عقل پر پردہ نہ پڑنے دیں، انشاء اللہ ان عظیم شخصیتوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=*
سلطان برکیارق، محمد ، سنجر، ان کی ماں اور ان کا وزیراعظم عبدالرحمن سمیری مرو چلے گئے، تاریخ میں ایسا کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ رے کا شہر اور علاقہ ابومسلم رازی کے بعد کس امیر کو دیا گیا تھا ،ایک اشارہ ملتا ہے کہ سلطان برکیارق نے اس علاقے کو اپنی عملداری اور نگرانی میں رکھ لیا تھا۔
ان لوگوں کے دلوں پر بہت ہی بوجھ تھا ،ایک تو صدمہ تھا اور دوسرے یہ سوچ اور فکر کہ حسن بن صباح کا ہاتھ کس طرح روکا جائے،،،،،، مرو پہنچتے ہی ان لوگوں نے اپنے سالاروں کو بلایا اور باقاعدہ اجلاس میں غور کیا گیا کہ باطنیوں کا قلع قمع کس طرح کیا جاسکتا ہے۔
اس اجلاس میں کئی ایک طریقے سوچے گئے اور منصوبے بھی بنائے گئے اور اجلاس برخاست ہو گیا، ایک فیصلہ یہ ہوا کہ سلطنت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن فوج کو ابھی تقسیم نہ کیا جائے، ورنہ ہمارا دشمن اتنا شعبدہ باز اور چالاک ہے کہ وہ ان دونوں حصوں کو الگ الگ الجھا کر نقصان پہنچائے گا۔
جب اجلاس برخاست ہوا تو سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری کو دربان نے اطلاع دی کہ تین آدمی بڑی دور سے آئے ہیں اور وہ انہیں ملنا چاہتے ہیں ۔
پہلے ان کی تلاشی لو ۔۔۔سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ تلاشی بڑی سختی سے لینی ہے، ان کے پاس چھوٹا سا چاقو بھی نہیں ہونا چاہیے۔
کچھ دیر بعد یہ تین آدمی کمرے میں لائے گئے اور بتایا گیا کہ یہ بالکل نہتے ہیں، اور بہت دور سے آئے ہیں،،،،،، انہوں نے کہا کہ وہ ایک شہر ابہر کے رہنے والے ہیں، اور تجارت پیشہ ہیں، وہ جو مسئلہ لے کر آئے تھے وہ یوں تھا کہ شہر کے قریب ایک قلعہ وسم کوہ پر تھا، وسم کوہ ایک پہاڑی تھی جس پر یہ قلعہ بنا ہوا تھا، ان آدمیوں نے بتایا کہ اس قلعے پر باطنی فدائی قابض ہوگئے ہیں، اور وہاں انہوں نے کسی مسلمان کو زندہ نہیں رہنے دیا، انہوں نے بتایا کہ اس قلعے کے قریب سے چھوٹے بڑے قافلے اور اکّے دکّے  آدمی یا پورے پورے خاندان گزرتے رہتے ہیں، یہ باطنی فدائی انہیں لوٹ لیتے ہیں اور سارا مال قلعے میں لے آتے ہیں، اور یہاں سے یہ مال قلعہ الموت جاتا ہے۔
یہ آدمی عقلمند معلوم ہوتے تھے اور جنگی امور سے بھی کچھ واقفیت رکھتے تھے، انہوں نے بتایا کہ ان فدائیوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں اور وہ باقاعدہ فوجی بھی نہیں، ان میں صرف یہ طاقت تھی کہ اپنی جان پر کھیل جاتے تھے ،لیکن عسکری طریقوں سے بالکل ناواقف تھے۔
اگر آپ فوج لے کر آئیں تو آپ کو وہاں کے لوگوں کی مدد بھی مل سکتی ہے۔۔۔اس وفد کے ایک آدمی نے کہا۔۔۔ وہاں سے قلعہ الموت بہت دور ہے، ان قلعہ بند باطنیوں کو کہیں سے مدد یا کمک نہیں مل سکتی،،،،،، اگر اس قلعے پر قبضہ کرلیا جائے تو اتنے زیادہ باطنی ہاتھ آئیں گے جنہیں قتل کیا جائے اور مال و متاع اور جواہرات کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔
کچھ بحث وتمحیص کے بعد سالار اوریزی نے کہا کہ وہ اس قلعے کا محاصرہ کرےگا اور انشاءاللہ کامیاب بھی ہوگا،،،،، قلعہ کچھ دور تھا ،سلطان برکیارق اور عبدالرحمن سمیری نے اسے اجازت دے دی اور محاصرے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔
دو ہی دنوں بعد سالار اوریزی نے مطلوبہ فوج تیار کرلی اور رخصت ہونے لگا، وزیراعظم عبدالرحمن سمیری نے اس فوج کو رخصت کرنا تھا ،جیسے کہ اس زمانے میں رواج تھا۔ سمیری گھر سے نکلا اور اس جگہ کی طرف چل پڑا جہاں فوج تیار کھڑی تھی، راستے میں اس نے دیکھا کہ ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس عورت زمین پر بیٹھی تڑپ رہی ہے اور زمین پر ماتھا مار رہی ہے، وہ روتی اور بین کرتی تھی۔
ایک آدمی اس کے پاس بیٹھ کر اسے بہلانے لگا ،لیکن عورت ایک ہی رٹ لگائے جا رہی تھی۔۔۔۔ میرا بچہ،،، میرا بچہ مجھے واپس لادو،،،،،سلطان مر گیا ہے جو میرے بچے کو واپس نہیں لاتا۔
عبدالرحمن سمیری نے گھوڑا روک لیا اور اس آدمی سے پوچھا کہ عورت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے۔
اس بیچاری کا ایک کمسن بچہ باطنی اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔۔ اس آدمی نے بتایا۔۔۔یہ کہتی ہے کہ ان لوگوں کو جانتی ہے اور وہ ابھی شہر میں ہی ہیں، لیکن اس کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔
عبدالرحمن سمیری سے اس عورت کی یہ حالت دیکھی نہ گئی، وہ گھوڑے سے اترا ،وہ اس عورت کو تسلی دلاسا دینا چاہتا تھا کہ اس کے بچے کو برآمد کر لیا جائے گا ،سمیری اس عورت کے قریب گیا اور اس پر جھکا، اس عورت کے پاس جو آدمی بیٹھا ہوا تھا اس نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اور عبدالرحمن سمیری کی پیٹھ میں اتار دیا ،پھر اسے سیدھا نہ ہونے دیا اور دو تین وار اور کیے، وزیراعظم سمیری وہیں گر پڑا۔
لوگ قاتل کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن قاتل نے بھاگنے کی ذرا بھی کوشش نہ کی، اس نے دوبار خنجر پوری طاقت سے اس عورت کی پیٹھ میں مارا اور پھر خنجر اپنے دل کے مقام پر اتنی زور سے مارا کہ آدھے سے زیادہ خنجر اس کے سینے میں چلا گیا، ظاہر ہے کہ عورت اس قاتل کی ساتھی تھی اور اسے عبدالرحمن سمیری کو جال میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ،اگر یہ باطنی اس عورت کو قتل نہ کرتا تو اس سے کچھ راز مل سکتے تھے۔
یہ ایک اور تاریخی شخصیت تھی جسے حسن بن صباح کے حکم سے ایک فدائی نے قتل کر دیا،،،،، پانچویں ہجری ختم ہونے میں پانچ سال باقی تھے۔
سالار اوریزی نے اپنی پیش قدمی ملتوی نہ کی، وہ قعلہ وسم کوہ کی طرف کوچ کر گیا۔ یہاں سے قتل و غارت کا ایک اور دور شروع ہو گیا جس نے تاریخ پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔
*<======۔===========>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔50۔میں پڑھیں*
<==========۔=======>

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS