find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 34)

Musalmano Ki Hukumat Andalas pe.
<فاتح اندلس>

          طارق بِن زِیاد

          تحریر:- صادق حسين

          قسط نمبر 34_________Part 34
العزم مجاہدین_____
بارش ابهی تک ہو رہی تھی - ہوا کے تیز جھونکے چل رہے تھے اور بجلی برابر کڑک رہی تھی -
چونکہ مسلمانوں کو بھیگتے دیر ہو گئی تھی، اس لیے اب انہیں سردی محسوس ہونے لگی تھی اور وہ کانپنے بھی لگے تھے -
مغیث الرومی نے بجلی کی روشنی میں نظر اٹھا کر دیکھا-
انہیں قریب ہی ایک برج نظر آیا وہ صرف پچاس آدمیوں کو لے کر برج کے اندر پہنچے-
برج کافی بڑا تھا اور اس کے اندر روشنی بھی ہو رہی تھی - بہت سے عیسائی پڑے سو رہے تھے جو اڑھائی تین سو سے کم نہیں تھے-
مغیث الرومی نے جاتے ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا-
ان کے نعرے کی آواز سنتے ہی عیسائی چونک چونک کر اٹھنے لگے-
جب اٹھتے ہی انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا تو گھبرا گئے اور جلد جلد اٹهہ کر ہتھیاروں کی طرف دوڑے-
مغیث الرومی نے ڈپٹ کر کہا - "
خیریت چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال دو - "
مگر عیسائی چونکہ عربی نہیں جانتے تھے انہوں نے ان کی بات سمجھی ہی نہیں اور ہتھیار لے لے کر مسلمانوں کے اوپر آ ٹوٹے-
چونکہ مسلمان صرف پچاس ہی برج کے اندر آئے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کہ وہ ان کو مار ڈالیں گے یا فصیل سے نیچے گرا دیں گے -
انہوں نے نہایت جوش میں آ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا -"
اس سے مسلمانوں کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے بھی فوراً تلواریں کهنیچ لیں اور عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے-
عیسائی غضبناک ہو ہو کر تلواریں چلا رہے تھے لیکن مسلمانوں پر گویا ان کی تلواروں کا اثر ہی نہ ہوتا تھا اور مسلمان انہیں برابر قتل کر رہے تھے -
تهوڑی ہی دیر میں ایک ایک کر کے تمام عیسائی مارے گئے-
مسلمانوں نے ان کی لاشیں کھینچ کھینچ کر فصیل سے نیچے گرا دیں اور اب وہ زینہ کی تلاش میں چلے-
اندھیرا اور اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ کسی طرف کی کوئی چیز بھی دکھائی نہ دیتی تھی -
دوسرے یہ لوگ زینوں سے بالکل ناواقف تھے - غور سے دیکھنے اور ٹٹول کر چلنے پر بھی انہیں کوئی زینہ نہ ملا، حالانکہ انہوں نے دور تک دیکھ لیا یہاں تک کہ وہ دوسرے برج کے قریب پہنچ گئے-
مغیث الرومی نے برج کے اندر جھانک کر دیکھا. اس میں بھی اتنے ہی عیسائی تھے جتنے پہلے میں تهے لیکن اس برج کے زیادہ عیسائی جاگ رہے تھے اور بہت کم سو رہے تھے -
مغیث الرومی تھوڑے سے سپاہیوں کو ساتھ لے کر بڑھے اور برج میں داخل ہوئے - "
ان کی صورتیں دیکھتے ہی عیسائی کانپ گئے اور انہوں نے خوف زدہ ہو کر چلانا شروع کر دیا جن آ گئے! جن آ گئے! "
سچ پوچھئے تو مسلمانوں نے کام ہی جنوں والے ہی کئے تھے-
ہوا اور بارش کے ایسے شدید طوفان میں جیسا کہ اس روز آیا جب ہر ذی روح اپنی اپنی خواب گاہوں میں جا گھسا تھا تو مسلمان قرطبہ کے قلعہ پر چڑھ رہے تھے -
تمام عیسائی خوف زدہ ہو گئے اور ان اور ان کے چلانے کی آوازیں سن سن کر ان کے سونے والے ساتھی بھی اٹھ بیٹھے-
اٹھتے ہی جب انہوں نے مسلمانوں کو کھڑے دیکها تو ڈر کر پهر آنکهیں بند کر کے پڑ گئے-"
مغیث الرومی نے بلند آہنگی سے کہا-
عیسائیو فضول کو دعوت نہ دو ہتھیار ڈال دو - "
ان میں سے بھی کسی نے ان کی بات نہ سمجھی اور سب اپنی اپنی حفاظت کے لیے شمشیر بہ کف ہو کر ان کے مقابلے میں آ گئے-
یہ دیکھتے ہی مسلمانوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے تلواریں سونت سونت کر انہیں تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیا-
عیسائی بھی خوب جوش و خروش سے لڑنے لگے لیکن مسلمانوں نے بہت جلد ان کی زیادہ تعداد کاٹ کاٹ کر ڈال دی.
یہ دیکھ کر کچھ عیسائی چلاتے ہوئے برج سے باہر نکلے-
ان کے باہر نکلتے ہی بجلی چمکی اور بجلی کی روشنی میں انہوں نے سینکڑوں مسلمانوں کو برج کے باہر فصیل پر دور تک دیکها-
وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان صرف اتنے ہی ہیں جتنے فصیل کے اندر ہیں اس لیے وہ ان سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے ان کے سامنے سے گزر کر باہر نکلتے رہے، لیکن جب انہوں نے باہر بھی مسلمانوں کو کھڑے پایا تو اور بھی لرز گئے اور شور کرتے ہوئے برج کی طرف بھاگے-
برج سے باہر کھڑے ہوئے مسلمانوں نے عیسائیوں کو برج سے نکلتے اور پھر غل مچاتے ہوئے بھاگتے دیکھا تو وہ سب ان کے پیچھے دوڑ پڑے-
جب کبھی بجلی چمکتی اور عیسائی پیچھے مڑ کر دیکھتے تو عقب میں مسلمانوں کو دیکھ کر اور شدت سے چلانے لگتے تھے - "
عیسائی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے -
وہ اپنی مدد کے لیے ان سپاہیوں کو بلا رہے تھے جو طوفان سے بچ کر بارکوں میں جا چھپے تھے -
بارکیں قلعہ کے اندر فصیل کے سامنے تهیں -
ان کی آوازوں نے تمام سپاہیوں کو بیدار کر دیا اور وہ صورت حال معلوم کرنے کے لیے بارکوں کے دروازہ میں آ آ کر جھانکنے لگے-
بارش اب بھی ہو رہی تھی مگر اب زرا اس کا زور کم ہو گیا تھا -
گویا بادلوں کا غصہ سرد پڑ گیا تھا -
ہوا بھی کم ہو گئی تھی مگر اندھیرا ابهی تک پھیلا ہوا تھا کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا-
عیسائی بارکوں میں سے جھانک رہے تھے  لیکن ان کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ بارکوں سے باہر نکل کر سپاہیوں کے چلانے کی وجہ معلوم کریں-
ایک مرتبہ بجلی چمکی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے سپاہی زینہ سے بھاگ بھاگ کر نہایت بد حواسی سے آ رہے ہیں اور ان کے پیچھے مسلمان تلواریں لئے انہیں قتل کرتے ہوئے بڑھتے چلے آ رہے ہیں - "
یہ منظر دیکھ کر پہلے انہیں حیرت ہوئی اس بات پر کہ مسلمان کہاں سے اندر آئے ہیں اور پھر ان پر خوف نے غلبہ کر دیا اور وہ دوڑ کر ڈر کر بارکوں میں جا چھپے-
بعض بارکوں میں روشنی ہو رہی تھی خوف زدہ سپاہیوں نے جلدی جلدی روشنیاں گل کر دیں تاکہ مسلمان روشنی کو دیکھ کر ان کی بارکوں پر نہ آن چڑھیں-
فصیل کے اوپر سے جو عیسائی بھاگے تھے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو مسلمانوں نے مار ڈالا تھا اور جو بچ رہے تھے وہ چلاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے -
دراصل ان کی عقلیں جاتی رہی تھیں اور چلا چلا کر اپنی موت کو خود ہی بلا رہے تھے -
آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ایک کر کے سب مارے گئے-
چونکہ اب آواز آنا بالکل بند ہو گئی تھی -
اس لیے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ سب ختم ہو گئے -
اب اگرچہ وہ قلعہ کے اندر داخل ہو ہو گئے تھے لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے انہیں نظر کچھ نہیں ہی اور نہیں سمجھتے تھے کہ قلعہ کے اندر شہر کس طرف ہے-
چھاؤنی کس سمت ہے اور صدر دروازہ کس جانب ہے وہ کھڑے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں اور کس طرف چلیں-
ابهی مغیث الرومی بھی نہ آئے تھے اور وہ ان کے لیے بھی منتظر تھے -
تهوڑی دیر میں مغیث الرومی بھی آ گئے اور انہوں نے آتے ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا -
تمام مسلمانوں نے مل کر اس پر ہیبت و جلال نعرہ کی تکرار کی-
اس نعرہ سے تمام قلعہ گونج اٹھا اور عیسائیوں سپاہیوں پر اور بھی خوف طاری ہو گیا -
اب مغیث الرومی ایک جانب چلے اور ان کے پیچھے لشکر چلا-
اتفاق سے ان کا رخ صدر دروازہ کی طرف ہو گیا -
اس وقت بارش بالکل بند ہو گئی تھی اور ہوا بھی رک گئی تھی -
بادل پهٹ گیا تھا نیز اندھیرا بھی دور ہونے لگا-
بڑھتے بڑھتے مغیث الرومی صدر دروازہ پر پہنچ گئے-
یہاں تقریباً پانچ سو سپاہی کمانچوں میں مسلح کھڑے تھے -
غالباً انہوں نے مسلمانوں کے نعرہ کی آواز سن لی تھی اور وہ یہ سمجھ کر کہ کہیں مسلمان اس دروازہ پر حملہ نہ کر دیں، پہلے ہی سے تیار کھڑے تھے -
وہ مسلمانوں کو دیکھتے ہی دروازے سے باہر نکل آئے اور صفیں باندھ لڑنے پر تیار ہو گئے مسلمانوں نے بھی ان کے سامنے ہی صفیں ترتیب دے لیں اور تلواریں نکال کر ان کی طرف بڑھے-
عیسائیوں نے ان کے بڑھتے ہی حملہ کر دیا -
مسلمانوں کو کہاں تاب تهی انہوں نے نے بھی حملہ کر دیا اور اس زور و شور سے حملہ کیا چشم زدن میں ان کی پہلی صف کاٹ کر ڈال دی اور اس کے بعد دوسری صف پر حملہ آور ہو گئے -
مسلمان رات بھر بھیگتے رہے تھے -
انہیں بڑا جوش اور غصہ آ رہا تھا اور وہ نہایت غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے -
عیسائی بھی جوش میں آ آ کر پیچ و تاب کھا کها کر حملے کر رہے تھے مگر ان کی تلواریں گویا کند ہو گئی تھیں کہ مسلمانوں پر ان پر کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا-
ہاں مسلمانوں کی تلواریں برابر کاٹ کر رہی تھیں اور عیسائی کٹ کٹ کر گر رہے تھے -
تهوڑی ہی دیر میں میں تمام عیسائی مار ڈالے گئے -
جب میدان صاف ہو گیا تب ہو گیا تب چند مسلمانوں نے بڑهہ کر قفل توڑ کے پھاٹک کهول دیا-
باہر وہ پانچ سو مسلمان جنہیں مغیث الرومی نے دروازہ پر بهیجا تها گھوڑوں پر سوار ان مسلمانوں کے گھوڑے لئے جو فصیل پر چڑھ گئے تھے کھڑے تھے وہ دروازہ کھلتے ہی اندر داخل ہونا شروع ہو گئے-
اب صبح صادق کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور اندھیرا دور ہو کر اجالا پھیلنے لگا تھا -
بادل چھٹ گئے تھے اور آسمان دهل کر نکھر آیا تھا، جس وقت یہ پانچ سو سوار قلعہ میں داخل ہو گئے تو فوراً ہی ان کے اندر چلنے کا ارادہ کیا-
ابهی چند وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ قلعہ کے باہر اللہ اکبر کا پر زور نعرہ بلند ہوا-
مسلمان سمجھ گئے کہ ان کا تمام لشکر آ گیا ہے-
انہوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سارے لشکر کے آنے کا انتظار کرنے لگے-
چند ہی لمحوں میں مسلمانوں کا سیلاب قلعہ میں داخل ہوا اور ان کے آتے ہی مغیث الرومی آگے بڑھے
*

خون ریز جنگ _____قرطبہ کے عیسائی رات کے طوفان کے خوف سے گھروں کے اندر چھپے ہوئے میٹھی نیند سو رہے تھے کہ انہوں نے پہیم اللہ اکبر کے نعروں کی دل دہلانے والی آوازیں سنیں ۔
وہ نہایت حیران ہوئے اور خوفزدہ بھی انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ گزشتہ روز مسلمانوں قاصد آیا تھا اور اس نے صلح کا پیغام دیا تھا جیسے قلعہ دار نے مسترد کردیا تھا ۔
انہیں خیال تھا کہ اگر مسلمان پورے ایک سال بھی قلعہ کا محاصرہ کئے پڑے رہیں گے تب بھی اسے فتح نہیں کر سکیں گے، لیکن آج جب انہوں نے قلعہ کے اندر ہی تکبیروں کی آوازیں سنیں تو سب بھول گیے اور صورت حال معلوم کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے ۔
باہر نکلتے ہی انہوں نے دیکھا کہ مسلمان بارکوں پر حملہ کر کر کے ان عیسائیوں کو قتل کر رہے ہیں جو وہاں چھپے پڑے ہیں-
اب آفتاب طلوع ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا اور چونکہ اس وقت مطلع صاف ہو چکا تھا اس لئے صبح کی دلفریب روشنی اچھی طرح پھیل گئی تھی اور اس روشنی میں دور دور تک کی چیزیں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔
مسلمانوں نے آگے بڑھتے ہی بارکوں میں چھپے ہوئے سپاہیوں کو دیکھ لیا تھا ۔
انہیں دیکھتے ہی انہوں نے بارکوں پر حملہ کر دیا ۔
عیسائی اپنی جانیں بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے لیکن ان پر مسلمانوں کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا تھا کہ وہ ان کے وہ ان کے سامنے آتے ہوئے ایسے ہچکچانے لگے کہ جیسے انسان شیروں کے سامنے جانے سے ڈرتا اور پس و پیش کرتا ہے-
ان کے اس طرح ڈرنے اور ہچکچانے سے مسلمان اور بھی شیر ہو گئے تھے اور وہ انہیں جہاں تہاں قتل کر رہے تھے-
عیسائی سپاہی چیخ و پکار کر رہے تھے اور اپنی مدد کے لیے اوروں کو بلا رہے تھے-
زخمی لوگ بری طرح سے کراہ رہے تھے اور ان کی آوازوں سے تمام قلعہ گونجنے لگا تھا-
مسلمانوں کو ان کے شور مچانے کی پرواہ نہ تھی نہ چیخنے کی ۔
وہ بڑی تیزی سے تلوار چلا چلا کر انہیں قتل کر رہے تھے-
قلعہ دار بھی شور و ہنگامہ سن کر اپنے محل سے باہر نکل آیا-
اس نے قصر کے پہرے داروں سے دریافت کیا یہ کیسا ہنگامہ ہو رہا ہے؟ سپاہی کیوں چیخ رہے ہیں؟
پہرے داروں کے جمعدار نے کہا حضور معلوم ہوا ہے کہ مسلمان قلعہ کے اندر گھس آئے ہیں- "
قلعہ دار فرط حیرت و خوف سے چونک پڑا-
اس نے متعجب ہو کر کہا- "
مسلمان گھس آئے ہیں اور قلعہ میں؟ ؟؟"
جمعدار: جی ہاں حضور
قلعہ دار: کیا تم نے دیکھا ہے؟
جمعدار: نہیں حضور
قلعہ دار: پھر کیسے معلوم ہوا؟
جمعدار: ابھی ایک سپاہی بارکوں میں سے بھاگ کر آیا تھا وہ کہتا تھا-
قلعہ دار: کیا اس نے مسلمانوں کو دیکھا ہے؟
جمعدار: جی ہاں حضور وہ کہتا ہے کہ کمبخت مسلمان بارکوں پر حملہ کر کے سپاہیوں کو قتل کر رہے ہیں-
قلعہ دار: لیکن مسلمان قلعہ کے اندر آئے کیسے؟
جمعدار: حضور وہ تو جن ہیں اور جنوں کو کہیں بھی آنا جانا کیا مشکل ہے ۔
قلعہ دار: بے شک ان بدبختوں کو جن ہی کہا جا سکتا ہے نہ معلوم کس قسم کے لوگ ہیں نہ مرتے ہیں نہ ڈرتے ہیں جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا یہ وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں-
جمعدار: حضور جلدی وہاں تشریف لے چلیے جہاں جنگ ہو رہی ہے- "
قلعہ دار: ضرور چلوں گا تم اپنے ماتحت سپاہیوں کو جمعکر لو میں تیار ہو کر آتا ہوں-
جمعدار: بہتر جناب
قلعہ دار چلا گیا اور جمعدار نے اپنے ماتحتسپاہیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکھٹا کیا تھوڑی دیر میں قلعہ دار آ گیا اس نے آتے ہی دریافت کیا-
کہو تمہارے سپاہی جمع ہو گئے- "
قلعہ دار: آو تم سب میرے ہمراہ چلو-
جمعدار: چلئے حضور!!!!!!
قلعہ دار ان سب کو اپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا محل سے باہر نکل کر یہ سب گھوڑوں پر سوار ہوئے اور فصیل کی طرف چلے ۔
اس وقت آفتاب نکل آیا تھا اور دھوپ تمام بھیگی چیزوں پر پھیلنے لگی تھی-
مسلمان نے اپنے لشکر کے کئ حصے کرلیے تھے ایک حصہ بارکوں کے سپاہیوں پر حملہ کر رہا تھا دوسرا برجوں میں سے آنے والوں سے لڑ رہا تھا اور تیسرا ان کے شہریوں سے جنگ کر رہا تھا جو وطنیت کے جذبے سے سرشار ہو کر لڑنے لگے تھے مگر ان کے حملے زیادہ تر بیکار جا رہے تھے ۔
ان میں سے جو بھی حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھتا مسلمانوں کی تلوار کا شکار ہو جاتا تھا-
ان کی دلیری قوت کثرت کچھ بھی ان کے کام نہیں آ رہی تھی ۔
مسلمان شیروں کی طرح ان پر جھپٹ جھپٹ کر حملہ کر رہے تھے اور ان کی تلواریں انہیں چیر پھاڑ رہیں تھیں ۔
مسلمانوں کے کپڑے ہتھیار زین سب پانی میں بھیگے ہوئے تھے ۔
خون کے فوارے انہیں سرخ رنگ میں رنگ رہے تھے ۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر مسلمان خون کے دریا میں غوطہ لگا کر آیا ہو ۔
وہ گھوڑے دوڑائے ادھر ادھر پھر رہے تھے جس طرفجاتے اسی طرف موت کا بازار گرم کر دیتے تھے ۔
جگہ جگہ ہاتھوں پیروں اور سروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔
لاشوں پر لاشیں بچھی پڑی تھیں ۔
اب بارکوں میں سے عیسائی باہر نکل آئے تھے اور وہ بھی موت کی لڑائی لڑنے لگے تھے وہ پیدل تھے اور مسلمان سوار-
اگرچہ وہ بہت زیادہ تھے اور مسلمان بہت کم-
لیکن ان میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ نہیں تھا نہ ہی جرآت و ہمت تھی-
اس لئے وہ قتل ہو رہے تھے اور وہ انہیں قتل کر رہے تھے ۔
عیسائی چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کو مار ڈالیں یا انہیں قلعہ سے باہر نکال دیں مگر یہ ان کی طاقت سے باہر تھا ۔
اگرچہ مسلمان بھی شھید ہو رہے تھے مگر بہت کم اتفاقیہ ہی کوئی مر جاتا تھا لیکن عیسائی جلدی جلدی اور کثرت سے مر رہے تھے ۔
عیسائی گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے تھے زخمی بری طرح سے چیخ رہے تھے شہری عیسائی شور کر کر کے لڑنے والوں کی ہمتیں بڑھا رہے تھے ۔
ان کی مختلف آوازوں سے قلعہ گونج رہا تھا چونکہ رات بھر زور و شور سے بارش ہوتی رہی تھی، اس لئے پانی ابھی تک نالیوں اور خون کا دریا لہریں لینے لگا تھا اور اس دریا کو دیکھ دیکھ کر عیسائی اور بھی سہم گئے تھے ۔
چونکہ اب دن بہت چڑھ آیا تھا اور شور و ہنگامہ بھی زیادہ ہورہا تھا اس لئے قریب قریب تمام عیسائی گھروں سے باہر نکل آئے تھے ۔
وہ دوڑ دوڑ کر اس جگہ آتے جاتے تھے جہاں جنگ ہو رہی تھی اور مسلمانوں کو دیکھتے ہی دم بخود ہو کر ایک طرف کھڑے ہو جاتے تھے ۔
جب کہیہ ہنگامہ دار و گیر بلند تھا اس وقت قلعہ دار بھی بہت سے سواروں کو لے کر آ گیا اور اس نے آتے ہی مسلمانوں پر حملہ کر دیا-
یہ حملہ مغیث الرومی کے دستے پر ہوا ۔
انہیں جوش آ گیا اور انہوں نے ہر جگہ سنبھل سنبھل کر پر شور نعرہ بلند کیا ۔
ان نعروں کی آوازوں سے عورتوں اور بچے اچھل پڑے ۔
لڑنے والے ڈر گئے اور نہ لڑنے والے مرد سہم گئے ۔
مسلمان نے نعرہ لگاتے ہی زور و شور سے حملہ کیا اور عیسائیوں کو گھاس پھوس کی طرح کانٹا شروع کر دیا-
ادھر مغیث الرومی کے دستے نے قلعہ دار کے ساتھ دو ہزار سوار تھے ۔
ظاہر ہے کہ برابر کا مقابلہ نہ تھا مگر مسلمان جو قلت اور کثرت کی پرواہ نہ کیا کرتے نہایت جرآت بہادری سے لڑنے لگے ۔
ان کی بے پناہ تلواریں سروتن کے فیصلے کرنے لگیں ۔
موت بڑی تیزی سے روحیں قبض کر کرنے لگی اور جنگ کے شعلے بھڑک کر دور تک پھیل گئے ۔
تمام عیسائیوںکو مسلمانوں پر بہت غصہ آ رہا تھا کہ مسلمان نہ مرتے ہیں نہ قلعے سے باہر نکلتے ہیں بلکہ ایک جگہ جمع ہوئے نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے اور جو کوئی بھی ان کی تلوار کی ذد میں آتا اسے کاٹ ڈالتے تھے ۔
مسلمانوں کی تلواروں میں سے انہیں موت کی جھلک نظر آ رہی تھی
اس لئے وہ محض اپنی جانیں بچا رہے تھے جو مسلم دستہ شہر والے عیسائیوں سے لڑرہے تھے انہوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے نہایت زور و شور سے حملہ کیا اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر وہ بپھرے ہوئے شیروں کو روک نہ سکے ۔
مسلمانوں نے ان کا قتل عام شروع کر دیا جس طرف ان کا رخ ہوتا پشتوں کے پشتے لگاتے چلے جاتے ۔
صفوں کی صفیں الٹ دیں اور مردوں کے ڈھیر لگا دئیے ۔
یہ کیفیت دیکھ کر شہری عیسائیوں کے چھکے چھوٹ گئے ۔وہ سمجھ گئے کہ کہ اب مزید ایک گھنٹہاور مسلمان اسی طرح لڑتے رہے تو انمیں سے ایک بھی زندہ نہیں رہے گا ۔انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور امان امان چلانے لگے ۔
مسلمانوں کو ان کے ہتھیار ڈالنے اور ان کی بزدلی پر بہت غصہ آ رہا تھا وہ چاہتے تھے کہ ان سب کو قتل کر ڈالیں لیکن ان کے سپہ سالار کی نصیحت تھی کہ نہتے پر ہاتھ نہیں اٹھانا اس لئے مجبورا انہیں گرفتار کرنا شروع کر دیا اور اپنی تلواریں میانوں میں ڈال لیں ۔
جس وقت انہیں گرفتار کیا جارہا تھا تو تمام شہریوںنے اپنی گرفتاری کا سوچ کر رونا اور فریاد کرنا شروع کر دیا ۔
ان کی اہ بکاہ کی آوازیں سن کر عیسائیوں کی رہی سہی ہمتیں بھی ٹوٹ گئیں ۔
وہ حسرت بھری نظروں سے مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے ۔
مسلماںان نگاہوں کو دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ اب ان میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی انہوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر رحم کی التجائیں کرنے لگے ۔
مسلمانوں نے جنگ بندی کر دی کچھ لوگ گرفتاریوں میں لگ گئے اور کچھ مغیث الرومی کے دستے کی مدد کے لیے بڑھے ۔
مغیث الرومی اور ان کا دستہ نہایت جوش و خروش سے لڑ رہا تھا لیکن عیسائی زیادہ تھے اور مسلمان بہت کم اس لئے عیسائی بھی نہایت دلیری سے لڑ رہے تھے ۔
وہ چاہتے تھے یا ان کا خیال تھا کہ وہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کو ختم کر ڈالیں گے مگر مسلمان حلوائے تر نہ تھے ۔
وہ نہایت شجاعت سے لڑرہے تھے اور پھرتی سے انہیں قتل کر رہے تھے ۔
جب کہ یہاں خون ریز معرکہ کارزار گرم تھا ان مسلمانوں نے بھی حملہ کر دیا جو بارکوں کے سامنے سے آئے تھے اور کچھ ایسی شدت سے حملہ کیا کہ مسلمان تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے لگے ۔
ادھر مغیث الرومی اور ان کے دستے نے بھی سنبھل کر حملہ کیا ان دونوں حملوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی کثیر تعداد کو قتل کر ڈالا اور جونہی انہوں نے دوسرا حملہ کیا عیسائی بے تحاشابھاگے قلعہ دار سب سے آگے تھا ۔
مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرنا چاہا لیکن مغیث الرومی نے انہیں منع کر دیا اور سب مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم
دیا ۔حکم سنتے ہی ہر طرف سے مسلمان سمٹ سمٹ کر جمع ہونے لگے ۔۔۔۔۔۔۔
*

قرطبہ پر قبضہ _____مسلمان چونکہ ساری رات کے بھیگے ہوئے جاگتے اور سفر کرتے رہے تھے اور پچھلی رات سے مسلسل لڑ رہے تھے اس لیے تھک کر چور ہو گئے تھے-
اس کے علاوہ مغیث الرومی کو اندیشہ ہوا کہ زیادہ عرصہ تک بھیگے کپڑے پہنے رہنے سے کہیں مسلمانوں کو نمونیا نہ ہو جائے اس لئے انہوں نے سر دست انہیں تعاقب کرنے سے روک دیا- "
جب تمام مسلمان اور سارے قیدی آیک جگہ جمع ہو گئے تب مغیث الرومی نے مسلمانوں کو کپڑے بدلنے کو کہا لیکن مشکل یہ پیش آئی کہ تمام مسلمانوں کے کپڑے خیموں میں تھے چنانچہ یہ دیکھ کر مغیث الرومی نے پانچ سو آدمیوں کو اسلامی خیموں میں بھیجا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ خیمے اکھیڑ کر معہ تمام سامان کے لدوا لائیں اور باقی کے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بھیگے کپڑے اتار کر دھوپ میں بیٹھ جائیں صرف ایک ایک شلوار پہنے رکھیں-
مسلمانوں نے ان کے حسب حکم سوائے شلواروں کے تمام کپڑے اتار دیئے اور منہ ہاتھ دھو کر دھوپ میں جا بیٹھے ۔
کچھ دیر بعد خیموں کا تمام سامان منتقل ہو کر خیموں میں آ گیا اور مسلمانوں نے صاف اور دھلے کپڑے پہنے-
فصیل کے قریب ہی خیمے کھڑے کر دیئے گئے ۔
قیدیوں کو خیموں کے درمیان میں رکھا گیا اور ڈھائی سو آدمی پہرے پر مقرر کر کے باقی سب آدمیوں کو سونے کی ہدایت کی گئی اور وہ خیموں میں گھس گھس کر سو گئے ۔مغیث الرومی کے ہمراہیوں نے آرام کیا اور ظہر کے وقت اٹھ کر انہوں نے نماز پڑھی کھانا کھایا اور وہ سب قلعے کا جائزہ لینے چلے ۔
امامن بھی قلعہ کے اندر آ گیا اور وہ اپنا مکان اور دیگر سامان دیکھنے لگا تھا ۔
اس کا مکان محفوظ تھا وہ مغیث الرومی کے پاس اس وقت آیا جب وہ قلعہ کا جائزہ لینے جا رہے تھے- "
اس نے دریافت کیا:
کہاں جا رہے ہیں آپ؟ "
مغیث الرومی: میں قلعہ کو دیکھنے جا رہا ہوں ۔
امامن: ابھی آپ کو ایک مقام فتح کرنا باقی رہ گیا ہے ۔
مغیث الرومی کون سا؟"
امامن گرجا
مغیث الرومی ہم معبد گاہوں پر حملہ نہیں کرتے ۔
امامن لیکن وہاں دشمن چھپے ہوئے اور لڑائی کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔
مغیث کون سے دشمن؟ "
امامن قلعہ دار چار سو سپاہیوں کو لے کر وہاں چھپا ہوا ہے ۔
مغیث الرومی: بہت خوب مجھے تو لگا تھا وہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے ۔
امامن: وہ بھاگا نہیں تھا بلکہ گرجا میں پناہ لے کر جنگ کی دھمکی دے رہا ہے ۔
مغیث الرومی اچھا بتاو گرجا کہاں ہے؟
امامن چلئے!!!!!!
مغیث الرومی پانچ سو سپاہیوں کا دستہ لے کر امامن کے ساتھ روانہ ہوئے ۔
چند راستوں اور گلیوں کو طے کر کے ایک عظیم الشان گرجا کے سامنے جا پہنچے ۔
یہ گرجا نہایت بلند اور خوبصورت تھا اس کی چار دیواری اتنی اونچی تھی کہ قلعہ کے اندر ایک اور قلعہ لگتا تھا- "
مغیث الرومی نے اس کی فصیل کے قریب پہنچ کر بلند آواز سے کہا ۔
عیسائیو یہ گرجا ہے معبدہ گاہ کہلاتا ہے تمہیں اس جگہ آ کر چھپنا مناسب لیکن اب جب کہ تم آ کر چھپ گئے ہو تو تم کو امن اور پناہ دیتا ہوں ۔
تم ہتھیار ڈال دو اور گرجے سے چپ چاپ نکل کر جہاں جانا چاہے چلے جاو کوئی تم سے تعرض نہ کرے گا قلعہ دار فصیل پر آیا اور اس نے کہا- "
ہم اس وقت تک اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے۔ جب تک ہمارا ایک بھی آدمی زندہ ہے- "
مغیث الرومی کو غصہ آ گیا ۔
انہوں نے اپنے جانباز سپاہیوں کو حکم دیا کہ حملہ کر دیں ۔
مسلمان بڑھے تو عیسائیوں نے اوپر سے تیروں کی بارش کر دی ۔
بہت سے مسلمان زخمی ہو گئے ۔
مغیث الرومی کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا وہ ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں ڈال لے کر دروازے کی طرف بڑھے ۔
انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ کر تمام مسلمانوں غضب سے بھر کر بڑھے اور انہوں نے ڈھالوں کو آگے کر لیا
عیسائیوں نے پوری شدت سے تیرافگنی شروع کر دی مگر جانباز و سرفروش مجاہدین نے تیروں کی مطلق بھی پروا نہ کی وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ وہ عین فصیل کے قریب آ گئے ۔
مغیث الرومی نے تئر نکال کر پھاٹک پر مارا پچاس ساٹھ مسلمانوں نے ایک ساتھ نیزوں کے وار کئے دروازہ بہت مظبوط تھا مگر ٹوٹ گیا ۔
مسلمان تلواریں سونت سونت کر قلعے کے احاطے میں میں پہنچ گئے ۔
عیسائی فصیل سے اتر کر گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور صفیں قائم کر کے مقابلے پر آمادہ نظر آئے ۔
مسلمانوں نے انہیں دیکھتے ہی ان پر جھپٹ کر حملہ کر دیا عیسائیوں نے جواں مردی سے مقابلہ کیا ۔
تلواریں چلنے لگیں اور سر کٹ کٹ کر گرنے لگے چونکہ بہت سے مسلمان زخمی تھے اس لیے وہ جوش سے بھرے ہوئے حملہ کر رہے تھے ۔انہوں نے متواتر حملے کر کر کے عیسائیوں کی ایک صف کا مکمل خاتمہ کر دیا ۔
اور اب دوسری صف سے لڑائی کرنے لگے عیسائی بھی نہایت جوش و خروش سے لڑ رہے تھے مگر وہ مسلمانوں کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے تھے ۔
مسلمان غیض و غضب سے بھرے نہایت پھرتی سے حملے کر رہے تھے اور بڑی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے  انہیں قتل کر رہے تھے ۔
مغیث الرومی کو اتنا غصہ آ رہا تھا کہ وہ ہر حملہ پر علم کو حرکت دیتے تھے اور ہر حملہ میں عیسائیوں کو مار رہے تھے ۔
اس طرح بہت سارے عیسائیوں کو انہوں نے خود ہی مار ڈالا ۔
لڑتے لڑتے وہ قلعہ دار کے قریب پہنچ گئے تھے قلعہ دار انہیں دیکھ کر ہنسا اور بولا ۔
مسلم سردار آخر تمہاری موت تمہیں میرے سامنے کھینچ ہی لائی- "
مغیث الرومی اس کی بات نہ سمجھ سکے اور پوچھا کیا کہہ رہے ہو کیا پناہ چاہیے؟ "-
قلعہ دار نے مغرورانہ انداز میں کہا میں تم کو معاف کر سکتا ہوں اگر تم قلعہ سے باہر چلے جانے کا وعدہ کرو ۔
مغیث الرومی نے کہا اچھا پناہ نہیں مانگتے تو کیا لڑنا چاہتے ہو؟ "-
دونوں اپنی اپنی زبان میں گفتگو کر رہے تھے اور لطف یہ تھا کہ ایک دوسرے کی بات بالکل نہیں سمجھتے تھے ۔
آخر قلعہ دار نے حملہ کر دیا مغیث الرومی نے حملہ روک کر پورے جوش سے حملہ کیا اور پوری قوت سے وار کیا ۔
ان کی تلوار کی قلعہ دار کی ڈال کاٹ کر اس کی پیشانی پر جا پڑی اور پیشانی توڑ کر پیچھے تک اتر گئ ۔
اس نے دلدوز اہ کی اور گرا ۔
اب مغیث الرومی نے پلٹ کر دیکھا تو مسلمانوں نے تمام عیسائیوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا ۔
ایک شخص بھی زندہ نہ بچا ۔
مغیث الرومی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اب اپنا دستہ لے کر گرجا کی عمات کی عمارت کی طرف چلے ۔
جب وہاں کوئی عیسائی نہ ملا اور بالکل اطمینان ہو گیا تب واپس لوٹے ۔
وہ خود معہ سردار ان کے گورنر کے محل میں ٹھہرے اور عام مجاہدین اس محل کے سامنے والے میدان میں خیمہ زن ہو گئے ۔
اس طرح سے قرطبہ کا ناقابل تسخیر قلعہ فتح ہوا
*

نرالی تدبیر______
اسمٰعیل اور بلقیس دونوں پہاڑ سے اتر کر نہایت خوش ہوئے-
اسمٰعیل نے مغرب کی نماز پڑھ کر بلقیس سے کہا-"
نہیں کہا جا سکتا کہ ہم پہاڑ کے کس طرف اتر آئے ہیں-"
بلقیس : میری سمجھ میں بھی نہیں آیا! !!!!!
اسمٰعیل : کیا تم اس نواح سے واقف نہیں ہو؟ "
بلقیس : بالکل بھی نہیں
اسمٰعیل : جب تو ہمیں اسی جگہ پر رات بسر کرنی چاہیے-
بلقیس : اور اب ہم رات کو جا بهی کہاں سکتے ہیں؟
اسمٰعیل : لیکن یہاں کهانے کا کیا بند و بست ہو گا؟ "
بلقیس نے شوخی سے مسکرا کر کہا-"
بہت بھوک لگ رہی ہے آپ کو؟ "
اسمٰعیل نے اس کے رخ روشن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا -
مجھے؟ ؟میں ایک عرب ہوں اور ایک ہفتے تک بھوکا پیاسا رہ سکتا ہوں-"
بلقیس : مگر کهانے کی فکر____!
اسمٰعیل : تمہاری وجہ سے ہے!
بلقیس بے اختیار ہنس پڑی-
اس نے کہا آپ میری فکر بالکل نہ کریں-"
اسمٰعیل : تم کس قدر حسین ہو جب تم ہنستی ہو تو تمہارا چہرہ بے حد حسین ہو جاتا ہے -
بلقیس کے مسیحا صفت لبوں پر تبسم کھیل رہا تھا -
اس نے کہا خوب باتیں بانی آتی ہیں آپ کو-"
اسمٰعیل : میں نے کیا باتیں بنائیں،؟
بلقیس : بھوک کا ذکر کرتے کرتے یہ کیا تذکرہ لے بیٹھے؟
اسمٰعیل : بلقیس اللہ کی قسم میں یہ چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کی راحت و سکون تمہیں مہیا کروں___نہیں جانتا کہ میری یہ خواہش کیوں اور کس وجہ سے ہے-
بلقیس نے اسمٰعیل کی طرف دیکھا وہ محبت بهری نظروں سے اس سیم و تن کو دیکھ رہے تھے وہ شرما گئی-
اس نے اپنا سر جھکا لیا اسمٰعیل نے دریافت کیا-
تمہاری کہاں جانے کی تمنا ہے بلقیس؟ "
بلقیس نے سر جھکائے ہوئے کہا-"
جہاں آپ لے جائیں اسمٰعیل نے محبت اور حیرت بهری نظروں سے دیکھ کر کہا -
جی میں لے چلوں__؟"
بلقیس نے شرمیلی نظروں سے دیکھ کر خفیف تبسم کے ساتھ کہا -
جی ہاں! جناب جہاں آپ لے جائیں! !!!
اسمٰعیل : میں تو یہ چاہتا تھا کہ اس بہشت زار پہاڑ پر تمہارے رہتا-
بلقیس : پھر کیوں اتر آئے وہاں سے؟
اسمٰعیل : محض اس وجہ سے کہ میں جہاد کرنے آیا ہوں اور جب تک جنگ کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک آرام نہیں کر سکتا! !!!
بلقیس؛: کیا آپ میدان جنگ میں جائیں گے؟
اسمٰعیل : ہاں! !!
بلقیس:اور میں؟
اسمٰعیل : اگر تم پسند کرو تو اسلامی لشکر میں میرے ساتھ رہتا! !
بلقیس:مگر میں چاہتی ہوں کہ آپ لڑنے نہ جائیں
اسمٰعیل : یہ کیسے ممکن ہے؟
بلقیس : کیوں ممکن نہیں ہے؟ "
اسمٰعیل : اس لیے کہ اللہ ناخوش ہو جائے گا
بلقیس:تب میں منع نہیں کر سکتی.
اسمٰعیل : رات زیادہ ہوتی جا رہی ہے تمہارے لیے آرام کرنے کا کچھ بندوبست کر دوں گا بلقیس نے مسکرا کر کہا کہ میرے ہی لئے یا اپنے لیے بھی؟ "
اسمٰعیل : مجھے اپنے لیے کیا کرنا ہے میں تو سنگلاخ زمین پر بهی آرام سے سو سکتا ہوں.
بلقیس: اور میں
اسمٰعیل : تم نازک ہو تمہیں تو پھولوں پر بھی مشکل نیند آئے گی.
بلقیس: مگر میں بھی پتهروں پر سو چکی ہوں اس لئے اب مجھے بھی عادت ہو گئی ہے.
اسمٰعیل : خیر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں__مگر میرا دل___
بلقیس: مگر آپ کا دل___؟:
اسمٰعیل : شرارت سے تمہاری خدمت کرنے کو کرتا ہے.
بلقیس:میری خدمت کو؟ بس معاف کیجئے میں تو خود آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں یہ کہتے ہوئے وہ شرما گئی اسمٰعیل نے محبت بهری نظروں سے اس کی طرف دیکها اور سوچا میری خدمت کرنے کو کتنا خوبصورت خواب ہے.
بلقیس: خواب نہیں حقیقت!
اسمٰعیل : جب تو میں نہایت خوش قسمت انسان ہوں بلقیس سر جھکائے بیٹھی رہی اسمٰعیل اٹھے اور چشمہ سے زرا فاصلے پر گئے.
انہوں نے ایک نشیب میں نہایت ملائم چھوٹی چھوٹی گھاس دیکهی.
انہوں نے وہاں رات بسر کرنا پسند کیا اور بلقیس کو وہاں لے آئے.
وہ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے صبح ہوتے ہی اسمٰعیل بیدار ہو کر وضو کر کے فجر کی نماز پڑھنے لگے-
انہوں نے قرآت سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی بلقیس بهی اٹهہ بیٹھی تھی وہ سننے لگی اسمٰعیل پڑھ رہے تھے -
ترجمہ: اے پیارے رسول اللہ ﷺ ہم نے تم سے پہلے جو پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے بعض کا حال تمہیں بتایا ہے اور بعض کا نہیں بتایا اور اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور اے پیارے رسول اللہ ﷺ ہم نے پیغمبر خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے ہیں، تا کہ پیغمبر آنے کے بعد لوگ اللہ پاک پر الزام نہ رکهہ سکیں اور اللہ غالب حکمت والا ہے، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ قرآن شریف جو تم پر اتارا ہے وہ اللہ نے اپنے علم سے اتارا ہے اور فرشتے بھی اس کی گواہی دیتے ہیں اور کافی ہیں اور کافی ہے اللہ گواہی دینے والا-"
بلقیس نہایت غور اور توجہ سے سن رہی تھی - جب وہ نماز پڑھ چکے تب بلقیس ان کے پاس آئی اور اس نے دریافت کیا کیا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر مانتے ہیں؟ "
اسمٰعیل : ہاں! !!
بلقیس:پھر یہودی کیوں نہیں ہو جاتے.
اسمٰعیل : اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو تورات لائے تھے بنی اسرائیل کے علماء نے اس میں بہت کچھ گھٹا بڑھا دیا ہے اسی وجہ سے ان کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ نے انجیل دے کر بهیجا لیکن عیسائیوں نے بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ موسائیوں نے کیا تھا تب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر بنا کر بھیجے گئے اور اب جو شریعت رسول اللہ ﷺ لائے ہیں وہی جاری رہے گی.
بلقیس : آج میرے دل پر اس چیز کے پڑهنے کا بڑا اثر ہوا ہے - ا
اسمٰعیل : یہ اللہ کا کلام ہے قرآن مجید کاش تم مسلمان ہو جاو.
بلقیس:مجھے سوچنے کا موقع دیجئے-
اسمٰعیل : ضرور سوچنا چاہیے-
بلقیس : بے شک اچھا اب یہاں سے چلیں!
اسمٰعیل : میں خود بھی یہی سوچ رہا ہوں مگر ابھی تک میں نے یہ طے نہیں کیا کہ چلوں کس طرف؟ میں اس ملک کے جغرافیہ سے واقف نہیں ہوں-
بلقیس : اور میں بھی
اسمٰعیل : میرا خیال ہے لشکر دارالسلطنت کی طرف گیا ہو گا اور طلیطلہ جو دارالسلطنت ہے وہ شمال کی طرف بتایا جاتا ہے ہمیں بھی شمال کی طرف چلنا چاہیے.
بلقیس: یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ کس طرف چلنا چاہیے لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ یہاں سے چلنا چاہیے.
اسمٰعیل : اچھا آو
دونوں اٹهہ کر شمال کی جانب روانہ ہوئے وہ سارا دن دم لے لے کر چلتے رہے رات کو ٹهہر گئے اور صبح ہوتے ہی پهر چل پڑے-
وہ دن بھر چلتے رہتے اور رات کو ٹهہر جاتے راستے میں اگر کوئی جنگلی پهل مل جاتا تو توڑ کر کها لیتے اگرچہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں لیکن قسمت انہیں قرطبہ کی طرف لے جا رہی تھی.
کئ دن چل کر وہ ایک ایسے جنگل میں پہنچ گئے جہاں درخت کثرت سے کھڑے تھے
رات انہوں نے آرام کیا اور صبح ہوتے ہی پهر چل پڑے.
بلقیس نے کہا میں بہت تهک چکی ہوں اور اب مجھ سے ایک میل بھی نہیں چلا جائے گا-"
یہ دونوں پیدل سفر کر رہے تھے بلقیس دهان پان سی تھی متواتر چلنے کی وجہ سے مزید چلنے کی طاقت نہ رہی اسمٰعیل نے کہا-"
مجھے خود تمہاری تکلیف کا احساس ہے لیکن کیا کروں آبادیاں ویران پڑی ہیں کہیں سے بھی کوئی سواری کا انتظام ہو سکتا اور اگر تم کو گود میں اٹھا کر لے چلوں تو شاید تم اسے پسند نہیں کروں گی
بلقیس:ہاں میں اسے مناسب نہیں سمجھتی.
اسمٰعیل : اچھا اس جنگل سے تو باہر نکلو اللہ شاید کوئی سبیل نکال دے
بلقیس:چلئے میں کوشش کرتی ہوں
دونوں اٹھے اور چلے دور تک درختوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا -
جب وہ اس تاریک جنگل سے باہر نکلے تو انہوں نے ایک عیسائی کو ایک گھوڑے پر سوار دیکها.
اسمٰعیل نے بلقیس کو اشارہ سے خاموش اور ایک جگہ پر رہنے کا حکم دیا اور خود پنجوں کے بل چلتے ہوئے تیزی سے سوار کی طرف دوڑے -
سوار معمولی دمکی گھوڑے کو لے جا رہا تھا -
اسمٰعیل نے دوڑ کر گھوڑے کی دم پکڑ لی اور اسے کھینچ کر کھڑے ہو گیے
گهوڑا رک گیا سوار کو معلوم نہ تھا کہ گهوڑا کیوں کهڑا ہو گیا -
اس نے مہمیز لگائی مگر گهوڑا نہ چلا.
اب سوار نے گھوم کر پیچھے دیکها جب اس کی نظر اسمٰعیل پر پڑی اور انہیں دم پکڑے دیکھا تو سخت بد حواس ہو کر گھوڑے سے کودا اور بے تحاشا پیدل بھاگ کهڑا ہوا-
اس کے گھبرانے اور اتر کر بھاگنے سے اسمٰعیل کو ہنسی آ گئی.
انہوں نے گھوڑے کی باگ پکڑی اور اسے بلقیس کے پاس لے آئے-
بلقیس ہنسنے جا رہی تھی اور ہنستے ہوئے دوہری ہوئی جا رہی تھی - ہنسی روکتی تهی مگر نہ رکتی تهی -
اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور آنکهیں چمکنے لگیں تھیں اسمٰعیل نے کہا -
آج اس قدر ہنسی کیوں آ رہی ہے تم کو؟ "
بلقیس نے رک رک کر کہا کہ اس عیسائی نے تمہیں خدا جانے کیا سمجھا کہ گھوڑے سے اتر کر بھاگ کهڑا ہوا.
اسمٰعیل : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو فتوحات نصیب ہو رہی ہیں اور عیسائیوں پر ان کی ہیبت طاری ہو گئی ہے اس لیے وہ مجھے دیکھتے ہی ڈر گیا اور بےتحاشا بھاگا.
بلقیس : مگر آپ نے بھی تو کمال کر دیا کہ گھوڑے کی دم پکڑ کر کھڑے ہو گئے -
اسمٰعیل : اور کیا کرتا اگر باگ پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ گهوڑا بھگا کر لے جاتا یا حملہ کر دیتا.
بلقیس : تدبیر خوب کی آپ نے.
اسمٰعیل : تمہاری اس ہمت افزائی کا شکریہ آو اب تم اس گھوڑے پر سوار ہو جاو
بلقیس:اور آپ؟ "
اسمٰعیل : میں تمہارے جلو میں چلوں گا! !
بلقیس : مگر یہ بات بھی نا مناسب ہے کہ میں سوار ہو کر چلوں اور آپ پیدل.
اسمٰعیل : میں مرد ہوں اور پیدل چل سکتا ہوں تم میری فکر نہ کرو.
بلقیس : کیا ہم دونوں سوار نہیں ہو سکتے؟ "
اسمٰعیل : ہو سکتے ہیں مگر جب میں تهک جاوں گا تو سوار ہو جاوں گا
بلقیس:اچھا تو مجھے سوار کرا دیجئے! !!
اسمٰعیل نے سہارا دے کر بلقیس کو گھوڑے پر سوار کرایا اور آہستہ آہستہ چل پڑے____فرمان

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS