Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat, Janabat Me Gusul Kab Kiya Jaye, Janabat Ki Halat Me Der Se Jaga Aur Sehri Ka Kam Waqt Hai, Ramzan Me Din Ke Waqt Ehtalam Ho Gaya To Kya Karen, Bahalat Roza Ehtalam, Bekhabri Me Roze Ki Halat Me Ehtalam Ho Jaye to Kya Kare, Masjid Me Soya Jab Bedar Hua ToEhtalam Ho Gaya, Roze Me Ehtalam Ke Masail
Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat, Janabat Me Gusul Kab Kiya Jaye, Janabat Ki Halat Me Der Se Jaga Aur Sehri Ka Kam Waqt Hai, Ramzan Me Din Ke Waqt Ehtalam Ho Gaya To Kya Karen, Bahalat Roza Ehtalam, Bekhabri Me Roze Ki Halat Me Ehtalam Ho Jaye to Kya Kare, Masjid Me Soya Jab Bedar Hua ToEhtalam Ho Gaya, Roze Me Ehtalam Ke Masail
Ehtalam Aur Janaabat Me Roze Ke Ahkaamat |
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
▓ حالت جنابت میں روزے کے احکامات :
۔┄┅═══════════════┅┄
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة، انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن، قال: كنت انا وابي حين دخلنا على عائشةوام سلمة. ح وحدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان اباه عبد الرحمن اخبر مروان، ان عائشة، وام سلمةاخبرتاه: "ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من اهله، ثم يغتسل ويصوم"، وقال مروان لعبد الرحمن بن الحارث: اقسم بالله، لتقرعن بها ابا هريرة، ومروان يومئذ على المدينة، فقال ابو بكر: فكره ذلك عبد الرحمن، ثم قدر لنا ان نجتمع بذي الحليفة، وكانت لابي هريرة هنالك ارض، فقال عبد الرحمن، لابي هريرة: إني ذاكر لك امرا، ولولا مروان اقسم علي فيه لم اذكره لك، فذكر قول عائشة وام سلمة، فقال: كذلك حدثني الفضل بن عباس وهن اعلم، وقال همام، وابن عبد الله بن عمر، عن ابي هريرة، كان النبي صلى الله عليه وسلم: يامر بالفطر، والاول اسند.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ (کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف تھا)ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
بَابُ الصَّائِمِ يُصْبِحُ جُنُبًا:
باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1925 - 1925
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ اس مفہوم پر فرماتے ہیں
اگر كوئي شخص احتلام يا جماع سے جنبي ہو جبكہ جماع اذان فجر سے كيا قبل گيا ہواورصبح ہوجائے تواس پر كچھ لازم نہيں آتا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
( عائشہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتي ہيں كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك ميں بعض اوقات احتلام كےبغير جنبي ہوتے توفجرہوجاتي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم غسل كركے روزہ ركھ ليتے تھے )
صحيح بخاري ( 1926 ) صحيح مسلم ( 1109 ) .
طہارت روزے کیلئے شرط نہیں ہےحالانکہ نماز صحیح ہونے کیلئے طہارت شرط ہے، اور اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، جیسے کہ ابن المنذر نے الاجماع(1) اور نووی نے شرح مسلم: (3/102) میں نقل کیا ہے۔کیونکہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کا وقت اپنی اہلیہ کیساتھ ہم بستری کی وجہ سے جنابت کی حالت میں ہو جاتا تھا، آپ پھر بھی روزہ رکھتے تھے"
بخاری: (1926) مسلم:(1109)
اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ: "۔۔۔آپ احتلام کی وجہ سے جنبی نہیں ہوتے تھے"
اگر یہ معاملہ جماع کی وجہ سے جنبی ہونے کے بارے میں ہے تو احتلام کے بارے میں یہی حکم بالاولی ہونا چاہیے؛ کیونکہ جماع انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے، لیکن احتلام میں کسی کو اختیار نہیں ہے۔
نیز علمائے کرام کا جنابت کی حالت میں روزہ صحیح ہونے سے متعلق اجماع ہے ، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں:
"پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو رات کے وقت احتلام ہوگیا ، اور فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہ کیا ، اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں ہوا ، یا پھر دن میں احتلام ہو گیا تو اس کا روزہ صحیح ہے" انتہی
"المجموع" (6/308)
اور اگر کسی نے تیمّم سے لاعلمی پر نمازیں ادا کر لیں تو اس پر نمازوں کا اعادہ نہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوی" (23/37) میں اسی موقف کی بھر پوری تائید کی ہے، چنانچہ رقمطراز ہیں:
"اور اگر کسی کو وجوب کا علم ہی نہیں تھا، چنانچہ جس وقت سے اس کو علم ہوا ہے اس کے بعد والی نمازیں اسی کے مطابق ادا کرے گا، البتہ سابقہ نمازوں کا اعادہ لازمی نہیں ہے، جیسے کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "مسیء الصلاۃ" دیہاتی سے فرمایا تھا: "جاؤ جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی" آخر کار اس دیہاتی نے کہا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے آپکو حق دیکر مبعوث فرمایا، مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی، آپ مجھے ایسی نماز سکھا دیں جس سے میری نماز مکمل ہو" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز سکھائی" اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، سابقہ نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس دیہاتی کا بیان تھا: " مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی "
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما کو نماز کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا، جس واقعہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے نماز نہ پڑھی جبکہ عمار چوپائے کی طرح زمین میں لوٹ پوٹ ہوئے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو جنابت کی حالت میں چھوڑی ہوئی نمازوں کا حکم نہیں دیا، اسی طرح استحاضہ کو بھی چھوڑی ہوئی نمازوں کا حکم نہیں دیا، حالانکہ مستحاضہ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ: "مجھے اتنا سخت استحاضہ ہوتا ہے کہ میں نماز روزہ نہیں کر سکتی" اسی طرح آپ نے ان لوگوں کو بھی دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جو رمضان میں اس وقت کھاتے پیتے رہے جب تک سفید رسی سیاہ رسی سے عیاں نہیں ہوگئی۔
◆ علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا اس شخص کا روزہ درست ہے جس نے جنبی ہونے کی حالت میں صبح کی ؟
تو فتاوی جات کمیٹی کا جواب تھا
انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ جنبی ہونے کی حالت میں روزے کی نیت کرے، اور پھر وہ اس کے بعد جنابت کا غسل کر لے، اس لئے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی بعض اوقات حالتِ جنابت میں فجر ہوجاتی تھی، تو آپ روزہ رکھتے پھر غسل فرماتے۔
◆ جنبی مرد و عورت کو سورج طلوع ہونے سےپہلے پہلے غسل کرکے نماز ادا کرنا چاہیے ۔خصوصًا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد غسل کرے تاکہ نمازِ فجر با جماعت ادا کرسکے۔
جب عورت فجر سے پہلے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔طلوع فجر کے بعد تک غسل کو مئوخر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن تاخیر اسقدر نہیں ہونی چاہیے کہ سورج طلوع ہو جائے بلکہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کر کے نماز پڑھنا واجب ہے ۔
۔|
سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
فتاویٰ اسلامیہ
جلد دوم
◆ آنکھ دیر سے کھلی۔ ابھی غسل جنابت کرنا ہے، سحری کا وقت تھوڑا ہے، کیا کرے ؟
ابن ماجہ میں حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنبی ہوئے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلاتے تو آپ اٹھتے اور غسل کرتے پھر نماز پڑھاتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے اگر وقت غسل کا قبل سحری نہیں ملتا تو باوضو ہو کر سحری کھا لے اور پھر بعد صبح صادق غسل کر کے نماز پڑھ لے روزہ میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
۔|
(عبد اللہ امر تسری روپڑی)
(فتاویٰ اہل حدیث ج ۲ ص ۵۶۶)
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 /ص 118
◆رمضان میں رات کو بیوی سے ہمبستری کی، سحری کا وقت ختم ہو رہا ہے کیا کرے گا ؟
اس صورت میں نہائے بغیر سحری کھائی جا سکتی ہے۔کیونکہ سحری کھانے کے لئے طہارت شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمان کہ «اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ » میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی بات کی۔ صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
دیکھیے : فتاویٰ ثنائیہ جلد 1
جنابت کی حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحا لت جنا بت روزہ رکھ لیتے تھے ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم )
اگر چہ سید نا ابو ہریرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا فتوی تھا کہ جنبی آدمی غسل کیے بغیر روزہ نہ رکھے لیکن ان کے سا منے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آیا تو انہوں نے فو راً اپنے فتوی سے رجو ع کر لیا ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم)
سید ہ عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہو تے پھر آپ نہائے بغیر روزہ رکھ لیتے سحری کھا نے کے بعد غسل کر کے نماز فجر ادا کرتے ۔(صحیح مسلم )
اسی طرح احتلا م سے بھی روزہ خرا ب نہیں ہو تا اذان فجر سے قبل صحبت کر نے سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہا ں اگر اذان کے بعد ہم بستری کرتا رہا تو پھر روزہ ٹو ٹ جا ئے گا اسے کفا رہ بھی دینا ہو گا اور اس رو ز ہ کی قضا بھی ضروری ہے ۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/ج1/ص207
▓ احتلام کے احکامات :
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں
اللہ سبحانہ وتعالى نے انسان ميں شہوت كا مادہ ركھا ہے، اور اپنے بندوں كو حكم ديا ہے كہ اگر ان ميں نكاح كى استطاعت ہے تو وہ اس طاقت كو صحيح طرح استعمال كريں، تا كہ دنياوى مصلحت پورى ہو اور خاندان بن سكيں، اور معاشرہ كو تقويت حاصل ہو، اور اللہ تعالى كى سنت كے مطابق دنيا كى آبادى ہو.
پھر اللہ تعالى نے جو بندوں ميں يہ طاقت ( شہوت ) جمع كى ہے وہ زيادہ ہوتو اسے نكالنے كے ليے احتلام كے ذريعہ خارج كيا ہے، اور يہ دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت ميں قوت خارج كرنے كا سبب ہے، جس ميں انسان كا اپنا كوئى دخل نہيں، بلكہ يہ بشرى اور انسانى طبعيت كا تقاضا ہے، اس پر انسان كا مواخذہ نہيں كيا جائيگا، اس كى دليل يہ ہے كہ:
1 - على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور مجنون اور پاگل سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے "
* سنن ترمذى حديث نمبر ( 1343 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3032 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3378 ).
* حديث ترمذى كے علاوہ باقى سنن ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے.
* حديث كو امام ترمذى نے اور امام نووى نے شرح مسلم ( 8 / 14 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور سوئے ہوئے شخص كو كوئى پتہ نہيں ہوتا كہ وہ كيا كر رہا ہے، چنانچہ وہ بھى مرفوع القلم ميں شامل ہوتا ہے، اور خواب نيند ميں آتى ہے اس ليے خواب ان اشياء ميں شامل ہو گى جو معاف ہيں.
2 - بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے احتلام كو تو بلوغت كى علامت قرار ديا ہے، اسى ليے فرمان بارى تعالى ہے:
* ﴿ اور جب تم ميں سے بچے بلوغت كو پہنچ جائيں تو وہ اجازت طلب كريں .. ﴾النور ( 59 ).
* اس ليے اگر احتلام حرام ہوتا تو اللہ تعالى اسے بلوغت كى علامت قرار نہ ديتا.
3 - زينب بنت ام سلمہ بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا،
چنانچہ كيا اگر عورت كو احتلام ہو تو وہ بھى غسل كرے گى ؟ تو رسول كريم صلى اللہ
عليہ وسلم نے فرمايا: "ہاں جب وہ پانى ديكھے، تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى نے اپنا چہرہ
ڈھانپ ليا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا عورت كو بھى
احتلام ہوتا ہے ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:ہاں، تيرے ہاتھ خاك آلودہ
ہوں، تو پھر اس كى بچہ اس كى مشابہت كيسے اختيار كرتا ہے ؟ "
* صحيح بخارى حديث نمبر ( 130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
4 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنا لباس گيلا پائے اور اسے احتلام ہونا ياد نہ ہو ۔ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا كہ وہ غسل كرے.اور ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جسے احتلام تو ہوا ہو ليكن وہ لباس گيلا نہ پائے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے.ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ہاں، عورتيں بھى مردوں كى طرح ہى ہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 236 ).
عجلونى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
ابن قطان رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے صحيح ہے.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ : احتلام ايك طبعى چيز ہے، اور اس سے چھٹكارا اور خلاصى ممكن نہيں ۔
▓ احتلام اور روزہ :
◆ رمضان میں دن کے وقت روزہ دار کو احتلام ہو جائے تو کیا کرے :
احتلام روزہ کو باطل نہیں کرتا کیونکہ یہ بات روزہ دار کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ البتہ اس صورت میں اس پر غسل واجب ہے، جبکہ منی لگی ہوئی دیکھ لے۔
اگر اسے نماز فجر کے بعد احتلام ہو اور وہ ظہر کی نماز کے وقت تک غسل کو موخر کر لے تو بھی کوئی حرج نہیں … اسی طرح اگر وہ رات کو اپنی بیوی سے صحبت کرے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ جماع سے جنبی حالت میں صبح کرتے پھر نہاتے اور روزہ رکھتے۔
حیض اور نفاس والی عورتوں کی بھی یہی صورت ہے۔ اگر وہ رات کو پاک ہو جائیں اور طلوع فجر کے بعد نہائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ان کا روزہ صحیح ہوگا… لیکن انہیں اور اسی طرح جنبی کو بھی یہ جائز نہیں کہ وہ طلوع آفتاب یا نماز فجر کو موخر کرے۔ بلکہ ان سب پر واجب ہے کہ نہانے میں جلدی کریں تاکہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کو اپنے وقت پر ادا کر سکیں ۔
اور مرد پر لازم ہے کہ جنابت کے غسل سے جلد فارغ ہو تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کر سکے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلد1/صفحہ 125-مقالات وفتاویٰ ابن باز/صفحہ284
احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان کے اختیار میں نہیں اور حالت نیند میں انسان مرفوع القلم ہواکرتا ہے۔ یہاں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے جو آج کل بہت سے لوگ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ رمضان کی راتوں میں وہ بیدار رہتے ہیں اور بیدار بھی ایسے کام کی وجہ سے رہتے ہیں، جسکا کوئی نفع ونقصان نہیں ہوتا ، پھر سارا دن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ، یہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو اطاعت، ذکر قراءت قرآن اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنانا چاہیے، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا تقرب حاصل ہو۔
فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ390
◆ دن کو سویا اور احتلام ہو گیا۔ اب روزہ گیا یا رہا :
روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسے پورا کرنا چاہیے۔
(اخبار اہل حدیث سوہدرہ جلد ۶ شمارہ ۲۱۔ ۲۹ رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ)
توضیح:
اس لیے روزہ نہیں ٹوٹا کہ انسان نیند کی حالت میں مکلف نہیں۔ ہاں احتلام کی وجہ سے غسل واجب ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 ص 440
◆ بحالت روزہ احتلام ہوجائے تو کیا روزہ ٹوٹ گیا ؟
احتلام سے روزہ خراب نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان کا غیر ارادی فعل ہے، اس کے علاوہ بحالت نیند مرفوع ا لقلم ہوتا ہے ، اس لئے روزہ کی حالت میں اگر کسی کو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔اس سے روزہ ٹوٹنے کی صراحت قرآن وہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی،البتہ ایک چیز کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک کی راتیں فضول باتوں میں گزارتے ہیں،پھر سارادن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ،اسی گہری نیند میں پراگندہ خیالات کی وجہ سے احتلام ہوجاتا ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو تلاوت قرآن ،ذکر الہٰی اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنایا جائے ،جس سے اللہ تعالی ٰ خوش ہو۔رات کے وقت گپیں لگاتے رہنا اور دن کو روزہ رکھ کر سوئے رہنا دانشمندی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد:2/صفحہ :230
◆ اگر کسی شخص کو بے خبری میں روزے کی حالت میں احتلام ہوگیاتو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ایک آدمی سحری کھا کر اور فجر کی نماز پڑھ کر سوگیا۔ مگر جب بیدار ہوا’اس پر غسل فرض ہوچکا تھا۔ ایسی حالت میں اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر اس نے جان بوجھ کر کوئی ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے احتلام ہوا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
دیکھیے : فتاویٰ صراط مستقیم/ص301
◆ مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا احتلام ہوگیا۔ کیا روزہ پر اثر انداز ہوگا :
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔
اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں۔
اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَن ذَرَعَه القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیه، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیه القضَاء))
’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔
دیکھیے : فتاویٰ دارالسلام/ جلد 1
◆ روزے کیلیے اٹھا تو احتلام تھا،وقت بھی کم ہے تو پہلے نہاناچاہئے یا کھانا کھانا چاہئے۔؟
احتلام کی حالت میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔چاہئے کہ پہلے روزہ رکھ لے اور بعد میں نہا لے ،کیونکہ روزہ رکھنے کے لئے پاکیزگی کی شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ
" میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے،
تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ
صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ
اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ »
میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت
میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور
انہوں نے بھی یہی بات کی۔
صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
فتوی کمیٹی
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
۔┄┅═══════════════┅┄
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام بن المغيرة، انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن، قال: كنت انا وابي حين دخلنا على عائشةوام سلمة. ح وحدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان اباه عبد الرحمن اخبر مروان، ان عائشة، وام سلمةاخبرتاه: "ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من اهله، ثم يغتسل ويصوم"، وقال مروان لعبد الرحمن بن الحارث: اقسم بالله، لتقرعن بها ابا هريرة، ومروان يومئذ على المدينة، فقال ابو بكر: فكره ذلك عبد الرحمن، ثم قدر لنا ان نجتمع بذي الحليفة، وكانت لابي هريرة هنالك ارض، فقال عبد الرحمن، لابي هريرة: إني ذاكر لك امرا، ولولا مروان اقسم علي فيه لم اذكره لك، فذكر قول عائشة وام سلمة، فقال: كذلك حدثني الفضل بن عباس وهن اعلم، وقال همام، وابن عبد الله بن عمر، عن ابي هريرة، كان النبي صلى الله عليه وسلم: يامر بالفطر، والاول اسند.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام بن مغیرہ کے غلام سمی نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان نے خبر دی اور انہیں عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ (بعض مرتبہ) فجر ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کے ساتھ جنبی ہوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے تھے، اور مروان بن حکم نے عبدالرحمٰن بن حارث سے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو تم یہ حدیث صاف صاف سنا دو۔ (کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتوی اس کے خلاف تھا)ان دنوں مروان، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، ابوبکر نے کہا کہ عبدالرحمٰن نے اس بات کو پسند نہیں کیا۔ اتفاق سے ہم سب ایک مرتبہ ذو الحلیفہ میں جمع ہو گئے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہاں کوئی زمین تھی، عبدالرحمٰن نے ان سے کہا کہ آپ سے ایک بات کہوں گا اور اگر مروان نے اس کی مجھے قسم نہ دی ہوتی تو میں کبھی آپ کے سامنے اسے نہ چھیڑتا۔ پھر انہوں نے عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (میں کیا کروں) کہا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی تھی (اور وہ زیادہ جاننے والے ہیں) کہ ہمیں ہمام اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو جو صبح کے وقت جنبی ہونے کی حالت میں اٹھا ہو افطار کا حکم دیتے تھے لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت زیادہ معتبر ہے۔
بَابُ الصَّائِمِ يُصْبِحُ جُنُبًا:
باب: روزہ دار صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھے تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1925 - 1925
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ اس مفہوم پر فرماتے ہیں
اگر كوئي شخص احتلام يا جماع سے جنبي ہو جبكہ جماع اذان فجر سے كيا قبل گيا ہواورصبح ہوجائے تواس پر كچھ لازم نہيں آتا اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
( عائشہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتي ہيں كہ: نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك ميں بعض اوقات احتلام كےبغير جنبي ہوتے توفجرہوجاتي تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم غسل كركے روزہ ركھ ليتے تھے )
صحيح بخاري ( 1926 ) صحيح مسلم ( 1109 ) .
طہارت روزے کیلئے شرط نہیں ہےحالانکہ نماز صحیح ہونے کیلئے طہارت شرط ہے، اور اس پر تمام علمائے کرام کا اجماع ہے، جیسے کہ ابن المنذر نے الاجماع(1) اور نووی نے شرح مسلم: (3/102) میں نقل کیا ہے۔کیونکہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کا وقت اپنی اہلیہ کیساتھ ہم بستری کی وجہ سے جنابت کی حالت میں ہو جاتا تھا، آپ پھر بھی روزہ رکھتے تھے"
بخاری: (1926) مسلم:(1109)
اور مسلم کے الفاظ ہیں کہ: "۔۔۔آپ احتلام کی وجہ سے جنبی نہیں ہوتے تھے"
اگر یہ معاملہ جماع کی وجہ سے جنبی ہونے کے بارے میں ہے تو احتلام کے بارے میں یہی حکم بالاولی ہونا چاہیے؛ کیونکہ جماع انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے، لیکن احتلام میں کسی کو اختیار نہیں ہے۔
نیز علمائے کرام کا جنابت کی حالت میں روزہ صحیح ہونے سے متعلق اجماع ہے ، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں:
"پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص کو رات کے وقت احتلام ہوگیا ، اور فجر سے پہلے غسل کا موقع ملنے کے باوجود غسل نہ کیا ، اور صبح کی نماز کا وقت جنابت کی حالت میں ہوا ، یا پھر دن میں احتلام ہو گیا تو اس کا روزہ صحیح ہے" انتہی
"المجموع" (6/308)
اور اگر کسی نے تیمّم سے لاعلمی پر نمازیں ادا کر لیں تو اس پر نمازوں کا اعادہ نہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "مجموع الفتاوی" (23/37) میں اسی موقف کی بھر پوری تائید کی ہے، چنانچہ رقمطراز ہیں:
"اور اگر کسی کو وجوب کا علم ہی نہیں تھا، چنانچہ جس وقت سے اس کو علم ہوا ہے اس کے بعد والی نمازیں اسی کے مطابق ادا کرے گا، البتہ سابقہ نمازوں کا اعادہ لازمی نہیں ہے، جیسے کہ صحیحین میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "مسیء الصلاۃ" دیہاتی سے فرمایا تھا: "جاؤ جا کر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی" آخر کار اس دیہاتی نے کہا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے آپکو حق دیکر مبعوث فرمایا، مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی، آپ مجھے ایسی نماز سکھا دیں جس سے میری نماز مکمل ہو" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز سکھائی" اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجودہ نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، سابقہ نمازوں کے اعادہ کا حکم نہیں دیا، حالانکہ اس دیہاتی کا بیان تھا: " مجھے اس سے اچھی نماز نہیں آتی "
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما کو نماز کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا، جس واقعہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے نماز نہ پڑھی جبکہ عمار چوپائے کی طرح زمین میں لوٹ پوٹ ہوئے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو جنابت کی حالت میں چھوڑی ہوئی نمازوں کا حکم نہیں دیا، اسی طرح استحاضہ کو بھی چھوڑی ہوئی نمازوں کا حکم نہیں دیا، حالانکہ مستحاضہ خاتون کا یہ کہنا تھا کہ: "مجھے اتنا سخت استحاضہ ہوتا ہے کہ میں نماز روزہ نہیں کر سکتی" اسی طرح آپ نے ان لوگوں کو بھی دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جو رمضان میں اس وقت کھاتے پیتے رہے جب تک سفید رسی سیاہ رسی سے عیاں نہیں ہوگئی۔
◆ علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ کیا اس شخص کا روزہ درست ہے جس نے جنبی ہونے کی حالت میں صبح کی ؟
تو فتاوی جات کمیٹی کا جواب تھا
انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ جنبی ہونے کی حالت میں روزے کی نیت کرے، اور پھر وہ اس کے بعد جنابت کا غسل کر لے، اس لئے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی بعض اوقات حالتِ جنابت میں فجر ہوجاتی تھی، تو آپ روزہ رکھتے پھر غسل فرماتے۔
◆ جنبی مرد و عورت کو سورج طلوع ہونے سےپہلے پہلے غسل کرکے نماز ادا کرنا چاہیے ۔خصوصًا مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد غسل کرے تاکہ نمازِ فجر با جماعت ادا کرسکے۔
جب عورت فجر سے پہلے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔طلوع فجر کے بعد تک غسل کو مئوخر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن تاخیر اسقدر نہیں ہونی چاہیے کہ سورج طلوع ہو جائے بلکہ طلوع آفتاب سے پہلے پہلے غسل کر کے نماز پڑھنا واجب ہے ۔
۔|
سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
فتاویٰ اسلامیہ
جلد دوم
◆ آنکھ دیر سے کھلی۔ ابھی غسل جنابت کرنا ہے، سحری کا وقت تھوڑا ہے، کیا کرے ؟
ابن ماجہ میں حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنبی ہوئے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کے لیے بلاتے تو آپ اٹھتے اور غسل کرتے پھر نماز پڑھاتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی ضرورت سے اگر وقت غسل کا قبل سحری نہیں ملتا تو باوضو ہو کر سحری کھا لے اور پھر بعد صبح صادق غسل کر کے نماز پڑھ لے روزہ میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
۔|
(عبد اللہ امر تسری روپڑی)
(فتاویٰ اہل حدیث ج ۲ ص ۵۶۶)
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 /ص 118
◆رمضان میں رات کو بیوی سے ہمبستری کی، سحری کا وقت ختم ہو رہا ہے کیا کرے گا ؟
اس صورت میں نہائے بغیر سحری کھائی جا سکتی ہے۔کیونکہ سحری کھانے کے لئے طہارت شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمان کہ «اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ » میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی بات کی۔ صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
دیکھیے : فتاویٰ ثنائیہ جلد 1
جنابت کی حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحا لت جنا بت روزہ رکھ لیتے تھے ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم )
اگر چہ سید نا ابو ہریرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا فتوی تھا کہ جنبی آدمی غسل کیے بغیر روزہ نہ رکھے لیکن ان کے سا منے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آیا تو انہوں نے فو راً اپنے فتوی سے رجو ع کر لیا ۔(صحیح مسلم :کتا ب الصوم)
سید ہ عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کا بیا ن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہو تے پھر آپ نہائے بغیر روزہ رکھ لیتے سحری کھا نے کے بعد غسل کر کے نماز فجر ادا کرتے ۔(صحیح مسلم )
اسی طرح احتلا م سے بھی روزہ خرا ب نہیں ہو تا اذان فجر سے قبل صحبت کر نے سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہا ں اگر اذان کے بعد ہم بستری کرتا رہا تو پھر روزہ ٹو ٹ جا ئے گا اسے کفا رہ بھی دینا ہو گا اور اس رو ز ہ کی قضا بھی ضروری ہے ۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/ج1/ص207
▓ احتلام کے احکامات :
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ فرماتے ہیں
اللہ سبحانہ وتعالى نے انسان ميں شہوت كا مادہ ركھا ہے، اور اپنے بندوں كو حكم ديا ہے كہ اگر ان ميں نكاح كى استطاعت ہے تو وہ اس طاقت كو صحيح طرح استعمال كريں، تا كہ دنياوى مصلحت پورى ہو اور خاندان بن سكيں، اور معاشرہ كو تقويت حاصل ہو، اور اللہ تعالى كى سنت كے مطابق دنيا كى آبادى ہو.
پھر اللہ تعالى نے جو بندوں ميں يہ طاقت ( شہوت ) جمع كى ہے وہ زيادہ ہوتو اسے نكالنے كے ليے احتلام كے ذريعہ خارج كيا ہے، اور يہ دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت ميں قوت خارج كرنے كا سبب ہے، جس ميں انسان كا اپنا كوئى دخل نہيں، بلكہ يہ بشرى اور انسانى طبعيت كا تقاضا ہے، اس پر انسان كا مواخذہ نہيں كيا جائيگا، اس كى دليل يہ ہے كہ:
1 - على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين اشخاص سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، سوئے ہوئے شخص سے حتى كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے حتى كہ وہ بالغ ہو جائے، اور مجنون اور پاگل سے حتى كہ وہ عقلمند ہو جائے "
* سنن ترمذى حديث نمبر ( 1343 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3032 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3378 ).
* حديث ترمذى كے علاوہ باقى سنن ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے.
* حديث كو امام ترمذى نے اور امام نووى نے شرح مسلم ( 8 / 14 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور سوئے ہوئے شخص كو كوئى پتہ نہيں ہوتا كہ وہ كيا كر رہا ہے، چنانچہ وہ بھى مرفوع القلم ميں شامل ہوتا ہے، اور خواب نيند ميں آتى ہے اس ليے خواب ان اشياء ميں شامل ہو گى جو معاف ہيں.
2 - بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے احتلام كو تو بلوغت كى علامت قرار ديا ہے، اسى ليے فرمان بارى تعالى ہے:
* ﴿ اور جب تم ميں سے بچے بلوغت كو پہنچ جائيں تو وہ اجازت طلب كريں .. ﴾النور ( 59 ).
* اس ليے اگر احتلام حرام ہوتا تو اللہ تعالى اسے بلوغت كى علامت قرار نہ ديتا.
3 - زينب بنت ام سلمہ بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:
" ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائيں اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا،
چنانچہ كيا اگر عورت كو احتلام ہو تو وہ بھى غسل كرے گى ؟ تو رسول كريم صلى اللہ
عليہ وسلم نے فرمايا: "ہاں جب وہ پانى ديكھے، تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى نے اپنا چہرہ
ڈھانپ ليا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا عورت كو بھى
احتلام ہوتا ہے ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:ہاں، تيرے ہاتھ خاك آلودہ
ہوں، تو پھر اس كى بچہ اس كى مشابہت كيسے اختيار كرتا ہے ؟ "
* صحيح بخارى حديث نمبر ( 130 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 313 ).
4 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنا لباس گيلا پائے اور اسے احتلام ہونا ياد نہ ہو ۔ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا كہ وہ غسل كرے.اور ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جسے احتلام تو ہوا ہو ليكن وہ لباس گيلا نہ پائے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے.ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگيں: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ہاں، عورتيں بھى مردوں كى طرح ہى ہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 236 ).
عجلونى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
ابن قطان رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كے طريق سے صحيح ہے.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ : احتلام ايك طبعى چيز ہے، اور اس سے چھٹكارا اور خلاصى ممكن نہيں ۔
▓ احتلام اور روزہ :
◆ رمضان میں دن کے وقت روزہ دار کو احتلام ہو جائے تو کیا کرے :
احتلام روزہ کو باطل نہیں کرتا کیونکہ یہ بات روزہ دار کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ البتہ اس صورت میں اس پر غسل واجب ہے، جبکہ منی لگی ہوئی دیکھ لے۔
اگر اسے نماز فجر کے بعد احتلام ہو اور وہ ظہر کی نماز کے وقت تک غسل کو موخر کر لے تو بھی کوئی حرج نہیں … اسی طرح اگر وہ رات کو اپنی بیوی سے صحبت کرے اور طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ جماع سے جنبی حالت میں صبح کرتے پھر نہاتے اور روزہ رکھتے۔
حیض اور نفاس والی عورتوں کی بھی یہی صورت ہے۔ اگر وہ رات کو پاک ہو جائیں اور طلوع فجر کے بعد نہائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور ان کا روزہ صحیح ہوگا… لیکن انہیں اور اسی طرح جنبی کو بھی یہ جائز نہیں کہ وہ طلوع آفتاب یا نماز فجر کو موخر کرے۔ بلکہ ان سب پر واجب ہے کہ نہانے میں جلدی کریں تاکہ طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کو اپنے وقت پر ادا کر سکیں ۔
اور مرد پر لازم ہے کہ جنابت کے غسل سے جلد فارغ ہو تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کر سکے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
دیکھیے : فتاوی بن باز رحمہ اللہ/جلد1/صفحہ 125-مقالات وفتاویٰ ابن باز/صفحہ284
احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان کے اختیار میں نہیں اور حالت نیند میں انسان مرفوع القلم ہواکرتا ہے۔ یہاں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے جو آج کل بہت سے لوگ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ رمضان کی راتوں میں وہ بیدار رہتے ہیں اور بیدار بھی ایسے کام کی وجہ سے رہتے ہیں، جسکا کوئی نفع ونقصان نہیں ہوتا ، پھر سارا دن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ، یہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو اطاعت، ذکر قراءت قرآن اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنانا چاہیے، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا تقرب حاصل ہو۔
فتاویٰ ارکان اسلام/روزےکےمسائل/صفحہ390
◆ دن کو سویا اور احتلام ہو گیا۔ اب روزہ گیا یا رہا :
روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسے پورا کرنا چاہیے۔
(اخبار اہل حدیث سوہدرہ جلد ۶ شمارہ ۲۱۔ ۲۹ رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ)
توضیح:
اس لیے روزہ نہیں ٹوٹا کہ انسان نیند کی حالت میں مکلف نہیں۔ ہاں احتلام کی وجہ سے غسل واجب ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 ص 440
◆ بحالت روزہ احتلام ہوجائے تو کیا روزہ ٹوٹ گیا ؟
احتلام سے روزہ خراب نہیں ہوتا کیونکہ احتلام انسان کا غیر ارادی فعل ہے، اس کے علاوہ بحالت نیند مرفوع ا لقلم ہوتا ہے ، اس لئے روزہ کی حالت میں اگر کسی کو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہے ۔اس سے روزہ ٹوٹنے کی صراحت قرآن وہ حدیث میں بیان نہیں ہوئی،البتہ ایک چیز کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک کی راتیں فضول باتوں میں گزارتے ہیں،پھر سارادن گہری نیند سوئے رہتے ہیں ،اسی گہری نیند میں پراگندہ خیالات کی وجہ سے احتلام ہوجاتا ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ روزے کو تلاوت قرآن ،ذکر الہٰی اور دیگر ایسے امور کا ذریعہ بنایا جائے ،جس سے اللہ تعالی ٰ خوش ہو۔رات کے وقت گپیں لگاتے رہنا اور دن کو روزہ رکھ کر سوئے رہنا دانشمندی نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ اصحاب الحدیث/جلد:2/صفحہ :230
◆ اگر کسی شخص کو بے خبری میں روزے کی حالت میں احتلام ہوگیاتو اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ایک آدمی سحری کھا کر اور فجر کی نماز پڑھ کر سوگیا۔ مگر جب بیدار ہوا’اس پر غسل فرض ہوچکا تھا۔ ایسی حالت میں اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ ہاں اگر اس نے جان بوجھ کر کوئی ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے احتلام ہوا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
دیکھیے : فتاویٰ صراط مستقیم/ص301
◆ مسجد میں سو گیا۔ جب بیدار ہوا تو معلوم ہوا احتلام ہوگیا۔ کیا روزہ پر اثر انداز ہوگا :
احتلام سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ یہ بندے کے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب منی نکلے تو اس پر غسل جنابت لازم ہے۔ کیونکہ نبیﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب احتلام والا پانی یعنی منی دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے۔
اور یہ جو آپ نے بلا غسل نماز ادا کی۔ یہ آپ سے غلطی ہوئی ہے اور بہت بری بات ہے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اس نماز کو دہرائیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف توبہ بھی کریں۔
اور جو پتھر آپ کے سر پر لگا، جس سے خون بہہ نکلا، تو اس سے آپ کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
اور جو قے آپ کے اندر سے نکلی۔ اس میں بھی آپ کا کچھ اختیار نہ تھا، لہٰذا آپ کا روزہ باطل نہیں ہوا۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
((مَن ذَرَعَه القَیئُ؛ فلَا قَضائَ علیه، ومَنِ اسْتَقَائَ؛ فعلیه القضَاء))
’’جسے بے اختیار قے آئی،اس پر روزہ کی قضاء نہیں اور جس نے عمداً قے کی، اس پر قضاء ہے۔‘‘
اس حدیث کو احمد اور اہل سنن نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا۔
دیکھیے : فتاویٰ دارالسلام/ جلد 1
◆ روزے کیلیے اٹھا تو احتلام تھا،وقت بھی کم ہے تو پہلے نہاناچاہئے یا کھانا کھانا چاہئے۔؟
احتلام کی حالت میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔چاہئے کہ پہلے روزہ رکھ لے اور بعد میں نہا لے ،کیونکہ روزہ رکھنے کے لئے پاکیزگی کی شرط نہیں ہے۔ ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ
" میں اور میرے والد، عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئے،
تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ
صَلی اللَّہ علیه و علی آله وسلم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ
اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُهُ »
میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت
میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے»،
پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور
انہوں نے بھی یہی بات کی۔
صحیح البخاری ، حدیث نمبرۛ ١۹۳١
عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
فتوی کمیٹی
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
- Kya Napaki Ki Halat Me Sehri Kha Sakte Hai?
- Haamila Aur Doodh Pilane Waali Aurat Ke Liye Roze Ke Ahkaamat
- Ramzan ke Mahine Me Shaitan Ko Kaid Kar Liya Jata Hai.
- Taraweeh Ki Namaj 8 ya 20 rakaat Sunnat HAi?
- Ramzan Ke Mahine Me Kya Aurat Haiz ko rokne ke liye Dawa Le Sakti hai?
- Iftar ke Waqt Padhi Jane wali Dua.
- Kiske Nam Se Mannat Mangna Chahiye?
Ramzan Ka Mahina Kaisa Mahina Hai? - ramzan Ke mahine me Jhoot nahi bolne walo ko khush khabri.
- Quran Padhne Walo Ki Azmat
- Roza Farz Hone Ke Sharayet, Kis Par Ramzan Ke Roze Farz Hain
- Rozedar Ke Liye Jayez Kaam
- Roze Ki Niyat Ke Masail ~ Kya Har Roze Ke Liye Niyat Karna Hoga
- Iftar Ka Waqt Aur Uske Masail~ Iftar Ki Dua, Iftar Ka Sahih Waqt
- Musaafir Ke Roze Ke Ahkaam Aur Masail
- Roza Ke Fazail Wa Masail,Ramzan Ka Chaand Aur Dua
- Kya Bhook Lagne Par Roza Tod Sakte Hain, Kya Roza Ke Badle Miskeen Ko Khana Khila Sakte Hain
No comments:
Post a Comment