Najer-o-Neyaz Kiska Kiya Jana Chahiye?
Kya Wali, Darwesh, Bujurg, Peer ke name Se Mannat Maang Sakte Hai?
نذر و نیاز عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی جائز ہے۔مخلوق کے نام پر نذر کرنا حرام اور شرک ہے۔اگر کوئی انسان کسی بزرگ یا ولی کے نام پر منت یا نذر کرتا ہے، صالحین اور اولیاء اللہ کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اسے صاحب ِقبر کا تقرب حاصل ہو جائے گا، وہ اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے گا یا اس کی فریاد رسی یا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرے گا، یا وہ اس کی قبر سے فیض پائے گا۔بلاشک و شبہ یہ شرک فی العبادت ہے، جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
{وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْـاَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوْا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَہٰذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِہِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَائِہِمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ}
(الأنعام 6 : 136)
’’انہوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپائیوں میں سے اللہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا، پھر بزعمِ خویش کہنے لگے:یہ اللہ کے لیے ہے، اور یہ ہمارے دیوتائوں کے لیے ہے،پھر ان کے دیوتائوں کا حصہ تو اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، لیکن اللہ کا حصہ ان کے دیوتائوں کے پاس پہنچ جاتا ہے، یہ لوگ کس قدر برافیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {وَمَا أُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} (البقرۃ 2 : 173)
’’اوروہ چیز(بھی حرام ہے)جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے۔‘‘
مزاروں اور آستانوں پر نذر کے نام پر مشرکانہ و ہندوانہ رسومات اور نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل جس انداز میں ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اس کے باوجود بعض لوگوں نے عوام کا قیمتی مال ہڑپ کرنے کے لیے قبروں پر نذر و نیاز کا جواز پیش کیا ہے۔ایسی ہی کوشش کرتے ہوئے امامِ بریلویت جناب احمد یار خان نعیمی(1391-1324ھ)لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،یہ نذر شرعی نہیں،نذر لغوی ہے،جس کے معنیٰ ہیںنذرانہ،جیسے کہ میں اپنے استاذ سے کہوں کہ یہ آپ کی نذر ہے،یہ بالکل جائز ہے۔ اور فقہاء اس کو حرام کہتے ہیں،جو کہ اولیاء کے نام کی نذر شرعی مانی جائے۔اس لیے فرماتے ہیں تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ۔نذر شرعی عبادت ہے، وہ غیر اللہ کے لیے ماننا یقینا کفر ہے۔‘‘
(’’جاء الحق‘‘ : 307/1)حالانکہ یہ کہنا کہ’’ اولیاء اللہ کے نام کی جو نذر مانی جاتی ہے،وہ نذر شرعی نہیں،لغوی ہے‘‘، محض ناخواندہ حواریوں کو مطمئن کر کے اسباب ِ شکم پروری کو دوام بخشنے کی نامراد کاوش ہے۔نذر کی لغوی اور اصطلاحی تقسیم ایسی قبیح بدعت ہے،جو اہل سنت والجماعت کی کتب میں کہیں مذکور نہیں۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کوئی بزرگ ہستی مخلوق میں موجود ہے؟ اور کیا صحابہ کرام ] رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں رکھتے تھے،جتنی بعد کے لوگوں کو اپنے بعد والے بزرگوں سے ہے؟کیا کبھی کسی قبرپرست نے غور کیا کہ اگر غیر اللہ اور فوت شدگان کے نام پر نذر ونیاز جائز ہوتی،تو صحابہ کرام اس کار ِخیر سے کبھی محروم نہ رہتے۔کیا کوئی شخص صحابہ کرام] میں کسی سے بھی ایسا کوئی عمل پیش کر سکتا ہے؟
عام لوگوں کا تحفہ اور ہدیہ کے لیے نذرانے کا لفظ استعمال کرنا اس کی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ قبروں اور مردوں کے پجاری ان کے لیے جو نذر پیش کرتے ہیں، وہ اس عقیدے سے پیش کرتے ہیں کہ وہ دافع البلاء ہیں۔ان کے پیش نظر لغوی نہیں، شرعی اور عرفی نذر ہوتی ہے۔تب ہی تو اس کے بارے میں ’’نذر اللہ اور نیاز حسین‘‘ کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ اگر مجھے مقدمہ میں فتح یابی ہوئی یا مرض سے شفا ہوئی یا دشمن زیر ہو گیا یا مجھے اولادِ نرینہ مل گئی یا میرا کاروبار چمک گیا،تو فلاں مزار پر جا کر نذر ونیاز کا لنگر چڑھاؤں گا،ننگے پاؤں جا کر سلام کروں گا،مزار پر ٹاکی باندھوں گا،وغیرہ۔
منصف مزاج لوگ بتائیں کہ کیا یہ سب کچھ لغوی نذر و نیاز کے لیے کیا جاتا ہے؟یہ سب امور تعظیم و تقرب کے نقطۂ نظر سے کیے جاتے ہیں،جس میں نذر ماننے والا اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔تحفہ و ہدیہ میں ایسی صورت موجود نہیں ہوتی۔
شیخ الاسلام ثانی،عالمِ ربانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیںفَمَا أَسْرَعَ أَہْلُ الشِّرْکِ إِلَی اتِّخَاذِ الأَْوْثَانِ مِنْ دُونِ اللّٰہِ، وَلَوْ کَانَتْ مَا کَانَتْ، وَیَقُولُونَ : إِنَّ ہٰذَا الْحَجَرَ، وَہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ، وَہٰذِہِ الْعَیْنَ، تَقْبَلُ النَّذَرَ، أَيْ تَقْبَلُ الْعِبَادَۃَ مِنْ دُونِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّ النَّذَرَ عِبَادَۃٌ وَّقُرْبَۃٌ، یَتَقَرَّبُ بِہَا النَّاذِرُ إِلَی الْمَنْذُورِ لَہٗ ۔
’’مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی چیز کو معبود ٹھہرانے میں کتنے جلد باز واقع ہوئے ہیں۔وہ کہتے ہیں : یہ پتھر،یہ درخت اور یہ شخص نذر و نیاز کے لائق ہے۔دوسرے لفظوں میں ان مشرکین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ یہ شخص بھی عبادت کے لائق ہے،کیونکہ نذرونیاز عبادت وتقرب ہے،جس کے ذریعے نذر دینے والا کسی کا تقرب حاصل کرتا ہے۔‘‘
(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 212/1)
علامہ،احمد بن عبد الرحیم،المعروف بہ شاہ ولی اللہ دہلوی(1176-1114ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّہُمْ یَسْتَعِینُونَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فِي حَوَائِجِہِمْ مِنْ شِفَائِ الْمَرِیضِ وَغِنَائِ
الْفَقِیرِ، وَیَنْذُرُونَ لَہُمْ، یَتَوَقَّعُونَ إِنْجَاحَ مَقَاصِدِہِمْ بِتِلْکَ النُّذُورِ، وَیَتْلُونَ أَسْمَائَہُمْ رَجَائَ بَرَکَتِہَا، فَأَوْجَبَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِم أَنْ یَّقُولُوا فِي صَلَاتِہِمْ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}(الفاتحۃ 1 : 5)، وَقَالَ تَعَالٰی : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا}(الجنّ 72 : 18)، وَلَیْسَ الْمُرَادُ مِنَ الدُّعَائِ الْعِبَادَۃُ، کَمَا قَالَہُ الْمُفَسِّرُونَ، بَلْ ہُوَ الِاسْتِعَانَۃُ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) ۔مشرکین اپنی حاجات،مثلاً مرض میں شفا اور فقیری میں خوشحالی کے لیے غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ اس نذرونیاز کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔وہ برکت کی امید پر غیراللہ کے ناموں کا ورد بھی کرتے ہیں۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہرنماز میں یہ کہنا فرض کیا ہے کہ : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحۃ 1 : 5)(ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں)۔نیز فرمایا : {فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا} (الجنّ 72 : 18) (تم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔اس آیت ِکریمہ میں دعا سے مراد عبادت نہیں،جیسا کہ (عام)مفسرین نے کہا ہے،بلکہ یہاں استعانت مراد ہے ،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ}(الأنعام 6 : 41) (بلکہ تم [سخت مصیبت کے وقت]اسی[اللہ] کو پکارتے ہو،چنانچہ وہ تمہاری مصیبتوں کو دُور فرماتا ہے)۔‘‘
(حجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 185/1، طبعۃ السلفیّۃ)
علامہ،محمودبن عبد اللہ،آلوسی،حنفی(1270-1217ھ)فرماتے ہیں :
وَفِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)إلخ إِشَارَۃٌ إِلٰی ذَمِّ الْغَالِینَ فِي أَوْلِیَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَیْثُ یَسْتَغِیثُونَ بِہِمْ فِي الشِّدَّۃِ غَافِلِینَ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَیَنْذُرُونَ لَہُمُ النُّذُورَ، وَالْعُقَلَائُ مِنْہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّہُمْ وَسَائِلُنَا إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، وَإِنَّمَا نَنْذُرُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَنَجْعَلُ ثَوَابَہٗ لِلْوَلِيِّ، وَلَا یَخْفٰی أَنَّہُمْ فِي دَعْوَاہُمُ الْـأُولٰی أَشْبَہُ النَّاسِ بِعَبَدَۃِ الْـأَصْنَامِ، الْقَائِلِینَ : إِنَّمَا نَعْبُدُہُمْ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی، وَدَعْوَاہُمُ الثَّانِیَۃُ لَا بَأْسَ بِہَا لَوْ لَمْ یَطْلُبُوا مِنْہُمْ بِذٰلِکَ شِفَائَ مَرِیضِہِمْ أَوْ رَدَّ غَائِبِہِمْ أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَالظَّاہِرُ مِنْ حَالِہِمُ الطَّلَبُ، وَیُرْشِدُ إِلٰی ذٰلِکَ أَنَّہٗ لَوْ قِیلَ : انْذُرُوا لِلّٰہِ تَعَالٰی وَاجْعَلُوا ثَوَابَہٗ لِوَالِدَیْکُمْ، فَإِنَّہُمْ أَحْوَجُ مِنْ أُولٰئِکَ الْـأَوْلِیَائِ لَمْ یَفْعَلُوا، وَرَأَیْتُ کَثِیرًا مِّنْہُمْ یَسْجُدُ عَلٰی أَعْتَابِ حَجَرِ قُبُورِ الْـأَوْلِیَائِ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّثْبُتُ التَّصَرُّفَ لَہُمْ جَمِیعًا فِي قُبُورِہِمْ، لٰکِنَّہُمْ مُّتَفَاوِتُونَ فِیہِ حَسَبَ تَفَاوُتِ مَرَاتِبِہِمْ، وَالْعُلَمَائُ مِنْہُمْ یَحْصُرُونَ التَّصَرُّفَ فِي الْقُبُورِ فِي أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ، وَإِذَا طُولِبُوا بِالدَّلِیلِ قَالُوا : ثَبَتَ ذٰلِکَ بِالْکَشْفِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی، مَا أَجْہَلَہُمْ وَأَکْثَرَ افْتَرَائَہُمْ، وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّزْعَمُ أَنَّہُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْقُبُورِ وَیَتَشَکَّلُونَ بِأَشْکَالَ مُخْتَلِفَۃٍ، وَعُلَمَاؤُہُمْ یَقُولُونَ : إِنَّمَا تَظْہَرُ أَرْوَاحُہُمْ مُّتَشَکَّلَۃً وَّتَطُوفُ حَیْثُ شَائَ تْ، وَرُبَّمَا تَشَکَّلَتْ بِصُورَۃِ أَسَدٍ أَوْ غَزَالٍ أَوْ نَحْوَہٗ، وَکُلُّ ذٰلِکَ بَاطِلٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَکَلَامِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ، وَقَدْ أَفْسَدَ ہٰؤُلَائِ عَلَی النَّاسِ دِینَہُمْ، وَصَارُوا ضِحْکَۃً لِّأَہْلِ الْـأَدْیَانِ الْمَنْسُوخَۃِ فِي الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، وَکَذَا لِأَہْلِ النِّحَلِ وَالدَّہْرِیَّۃِ، نَسْأَلُ اللّٰہُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ ۔
’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73)(بلاشبہ جن کو[اے مشرکو] تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے)۔اس آیت ِکریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے،جو اولیاء اللہ کے بارے میں غلوّ کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں ان اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیںاور ان کے نام پر نذرونیاز دیتے ہیں۔ان میں سے ’دانشور‘لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اولیاء تو ہمارے لیے اللہ کی طرف وسیلہ ہیں اوریہ نذرونیاز تو ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں،البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پہلے دعوے میں بالکل ان بت پرستوں جیسے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔رہا دوسرا دعویٰ تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ بزرگوں سے اپنے مریضوں کے لیے شفاء اور غائب ہونے والوں کی واپسی وغیرہ کا مطالبہ نہ کرتے[حالانکہ شرعاً یہ بھی ناجائز ہے۔ناقل]۔ان کی حالت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کہے کہ اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔بعض مشرکین تو سب اولیاء کے لیے ان کی قبروں میں تصرف (قدرت)بھی ثابت کرتے ہیں،البتہ مراتب کے اعتبار سے یہ تصرف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ان مشرکین کے ’اہل علم‘قبروں میں اولیاء کے لیے چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں،لیکن جب ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ چیز کشف سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ وبرباد کرے،یہ کتنے جاہل اور جھوٹے لوگ ہیں!ان میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں،جبکہ ان کے ’اہل علم‘ کا کہنا ہے کہ اولیاء کی صرف روحیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ان کے بقول بسااوقات اولیاء کی روحیں شیر، ہرن وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں،کتاب و سنت اور اسلاف ِامت کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ان مشرکین نے (سادہ لوح)لوگوں کا دین بھی برباد کر دیا ہے۔ایسے لوگ یہود و نصاریٰ ،دیگر ادیانِ باطلہ کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے (دین و دنیا کی )عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔‘‘(روح المعاني : 213-212/2)
نیز فرماتے ہیں : وَمِنْ أُولٰئِکَ عَبَدَۃُ الْقُبُورِ، النَّاذِرُونَ لَہَا، الْمُعْتَقِدُونَ لِلنَّفْعِ وَالضَّرِّ، مِمَّنِ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ بِحَالِہٖ فِیہَا، وَہُمُ الْیَوْمَ أَکْثَرُ مِنَ الدُّودِ ۔
’’ان مشرکوں میں سے بعض وہ ہیں جو قبروں کے پجاری ہیں،ان پر نذرونیاز دیتے ہیں اور ان لوگوں سے نفع و نقصان کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ قبر میں جن کی حالت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔موجودہ دور میں ایسے مشرکین کیڑے مکوڑوں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
(روح المعاني : 67/17)
علامہ،محمد بن علی،حصکفی،حنفی(1088-1021ھ)اپنے اکثر عوام کی اصلاح میں لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّذَرَ الَّذِي یَقَعُ لِلْـأَمْوَاتِ مِنْ أَکْثَرِ الْعَوَامِّ، وَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمْعِ وَالزَّیْتِ وَنَحْوِہَا إِلٰی ضَرَائِحِ الْـأَوْلِیَائِ الْکِرَامِ تَقَرُّبًا إِلَیْہِمْ، فَہُوَ بِالْإِجْمَاعِ بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ ۔
’’ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اکثر عوام جو مُردوں کے نام کی نذونیاز دیتے ہیں اور جو رقوم،چراغ اور تیل وغیرہ اولیائے کرام کی قبروں پر تقرب کی نیت سے لائے جاتے ہیں،وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔‘‘(الدرّ المختار، ص : 155، ردّ المحتار : 439/2)
مشہور حنفی امام،محمد امین بن عمر،ابن عابدین، شامی(1252-1198ھ)اس عبارت کی تشریح میں لکھتے ہیں : کَأَنْ یَّقُولَ : یَا سَیِّدِي فُلَانُ ! إِنْ رُّدَّ غَائِبِي أَوْ عُوفِيَ مَرِیضِي أَوْ قُضِیَتْ حَاجَتِي، فَلَکَ مِنَ الذَّہَبِ أَوِ الْفِضَّۃِ أَوْ مِنَ الطَّعَامِ أَوِ الشَّمْعِ أَوِ الزَّیْتِ کَذَا، (قَوْلُہٗ : بَاطِلٌ وَّحَرَامٌ) لِوُجُوہٍ : مِنْہَا أَنَّہٗ نَذَرَ لِمَخْلُوقٍ، وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لاَ یَجُوزُ، لِأَنَّہٗ عِبَادَۃٌ، وَالْعِبَادَۃُ لَا تَکُونُ لِمَخْلُوقٍ، وَمِنْہَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَہٗ مَیِّتٌ، وَالْمَیِّتُ لَا یَمْلِکُ، وَمِنْہُ أَنَّہٗ ْ ظَنَّ أَنَّ الْمَیِّتَ یَتَصَرَّفُ فِي الْـأُمُورِ دُونَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَاعْتِقَادُہٗ ذٰلِکَ کُفْرٌ ۔
’’اولیاء کے لیے نذرونیاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کہے : اے میرے فلاں پیر! اگر میرا غائب رشتہ دار واپس آ گیا یا میرا مریض شفایاب ہو گیا یا میرا کام ہو گیا تو اتنا سونا، اتنی چاندی ،اتنا کھانایا چراغ یا اتنا تیل آپ کی نذر کروں گا۔یہ نذرو نیاز کئی وجوہ سے باطل اور حرام ہے ؛ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ مخلوق کے لیے نذرونیاز ہے،حالانکہ نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کے لیے جائز نہیں۔دوسری وجہ یہ کہ جس کے نام کی نذر ونیاز دی جا رہی ہوتی ہے،وہ مُردہ ہوتا ہے اور مُردہ کسی چیز کا مالک نہیں بن سکتا۔تیسری وجہ یہ کہ نذرونیاز دینے والا اللہ کو چھوڑ کر اس ولی کے امور میں تصرف کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ اس کا اعتقاد کفر ہے۔‘‘(ردّ المحتار المعروف بہ الفتاوی الشامي : 439/2)
مشہور حنفی،قاسم بن قطلوبغا (879-802ھ)لکھتے ہیں :
No comments:
Post a Comment