Safer ke Dauran Kitne Din Salat (Namaj) Chhor Sakte Hai?
سوال:کتنے دن تک دوران سفر نماز قصر کرسکتے ہیں؟
الجواب بعون الوھاب:
مسئلہ ھذا میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا کتنے دن تک مسافر قصر کرسکتا ہے اس معاملے میں اہل علم کے بیس کے اقوال منقول ہیں۔
لیکن میں مختصر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
مسافر دوران سفر چار دن تک نماز قصر کرسکتا ہے یعنی اگر اسے کسی جگہ صرف چار دن تک رکنے کا ارادہ ہو تو وہ نماز قصر کرسکتا ہے اور اگر اسے چار دن سے زائد دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو اس صورت میں وہ مکمل نماز ادا کرے گا
البتہ اگر کوئی ایسا مسافر ہو اسے یہ معلوم نہیں کہ وہ کتبے دن اس جگہ ٹھرے گا وہ تب تک قصر نماز کرے گا جب تک کہ وہ اپنے سفر سے گھر واپس نہ لوٹے۔
اس رائے کی دلیل کہ جو شخص حالت سفر میں کسی جگہ چار دن یا چار دن سے کم دن کے ٹھرنے کا ارادہ کرے وہ مسافر نماز قصر کرے۔۔
دلیل:کہ نبی علیہ السلام حج میں منی جانے سے قبل چار دن تک مکہ میں ٹھرے ، اور ان دنوں آپ علیہ السلام نے نماز کی قصر کی۔[رواه البخاري2505 ، مسلم1216]۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علماء اجلا نے لکھا ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی جگہ چار یا چار دن سے کم دن ٹھرنے کا ارادہ کرے اسکے لئے مشروع یہی ہے کہ وہ نماز قصر ادا کرے ، البتہ جب کوئی مسافر چار دن سے زائد کسی جگہ ٹھرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاھئے کہ وہ پوری نماز ادا کرے۔ اور جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے
اور اسی رائے کو راجح قرار دیا گیا ہے۔۔[فتاوی نور علی الدرب42/13]۔
نوٹ:یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے
کبھی اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب۔۔
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
الجواب بعون الوھاب:
مسئلہ ھذا میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا کتنے دن تک مسافر قصر کرسکتا ہے اس معاملے میں اہل علم کے بیس کے اقوال منقول ہیں۔
لیکن میں مختصر جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
مسافر دوران سفر چار دن تک نماز قصر کرسکتا ہے یعنی اگر اسے کسی جگہ صرف چار دن تک رکنے کا ارادہ ہو تو وہ نماز قصر کرسکتا ہے اور اگر اسے چار دن سے زائد دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو اس صورت میں وہ مکمل نماز ادا کرے گا
البتہ اگر کوئی ایسا مسافر ہو اسے یہ معلوم نہیں کہ وہ کتبے دن اس جگہ ٹھرے گا وہ تب تک قصر نماز کرے گا جب تک کہ وہ اپنے سفر سے گھر واپس نہ لوٹے۔
اس رائے کی دلیل کہ جو شخص حالت سفر میں کسی جگہ چار دن یا چار دن سے کم دن کے ٹھرنے کا ارادہ کرے وہ مسافر نماز قصر کرے۔۔
دلیل:کہ نبی علیہ السلام حج میں منی جانے سے قبل چار دن تک مکہ میں ٹھرے ، اور ان دنوں آپ علیہ السلام نے نماز کی قصر کی۔[رواه البخاري2505 ، مسلم1216]۔
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علماء اجلا نے لکھا ہے کہ اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص کسی جگہ چار یا چار دن سے کم دن ٹھرنے کا ارادہ کرے اسکے لئے مشروع یہی ہے کہ وہ نماز قصر ادا کرے ، البتہ جب کوئی مسافر چار دن سے زائد کسی جگہ ٹھرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاھئے کہ وہ پوری نماز ادا کرے۔ اور جمہور اہل علم کی یہی رائے ہے
اور اسی رائے کو راجح قرار دیا گیا ہے۔۔[فتاوی نور علی الدرب42/13]۔
نوٹ:یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے
کبھی اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب۔۔
کتبہ:ابوزھیر محمد یوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
No comments:
Post a Comment