find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Tarawih, Tahajjud Aur Qyam ul Lail Me Kya Farq Hai

Tarawih , Tahajjud Aur Qyam ul Lail Me Kya Farq Hai
Kya Tarawih , Tahajjud Aur Qyam ul Lail ek hi Namaz Hain

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌍 تہجد ، تراویح اور قیام اللیل ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں ۔
بخاری کی شرح فیض الباری کی جلد 2 ، صفحہ 420 ، پر نامور حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری بیان فرماتے ہیں :
عام طور پر علماء (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تراویح اور صلوٰۃ اللیل (تہجد) دو مختلف النوع نمازیں ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہیں ۔
ان دونوں نمازوں کا متغائر النوع ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تراویح کے ساتھ ساتھ نمازِ تہجد بھی ادا فرمائی تھی ۔
مولانا اشرف علی تھانوی ، جس عالمِ دین (مولانا رشید احمد گنگوہی) کے لیے فرماتے ہیں کہ : اس امت میں ان کا وجود اسلام کی صداقت کی دلیل اور مستقل معجزہ ہے ۔۔۔ (بحوالہ : الفرقان بریلی ، صفر 1372 ھ ۔ )
وہی عالمِ دین مولانا رشید احمد گنگوہی بیان کرتے ہیں کہ :
اہلِ علم پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) اور قیام اللیل (تہجد) فی الواقع دونوں ایک ہی نماز ہے ۔۔۔۔۔ رمضان کی تہجد جو عین تراویح ہے دلیل قولی کی بنا پر سنتِ موکدہ ہی رہے گی ۔
(بحوالہ : لطائف قاسمیہ ، مکتوب سوم ، ص 13-17 )
مذکورہ بالا دلائل کی بنیاد پر ثابت کیا گیا ہے کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد ، دونوں ایک ہی نماز کے نام ہیں ۔
تو اب دیکھا جائے گا کہ تراویح کی نماز کتنی رکعات کی ثابت ہے ؟
صحيح بخاري ، كتاب صلاة التراويح ، باب فضل من قام رمضان ، حدیث : 2052 صحیح بخاری کی یہ حدیث گیارہ رکعات (آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعات وتر) کو بیان کرتی ہے ۔
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر
ہمیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ماہِ رمضان میں نماز (تراویح) کی آٹھ رکعتیں پڑھائیں اور وتر پڑھائے ۔
صحیح ابن خزیمہ ، كتاب الصلاة ، باب ذكر دليل بان الوتر ليس بفرض ، حدیث نمبر 1070 ۔
1۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس حدیث پر جرح و تعدیل بیان کرنے کے بعد کہا کہ اس کی سند اوسط درجے کی ہے۔
2۔ علامہ البانی نے اس حدیث کو تعلیاقاتِ ابن خزیمہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔
3۔ حافظ ابن حجر کے دعویٰ کے مطابق انہوں نے فتح الباری میں کم از کم حسن درجے کی حدیث شامل کی ہے ۔ اور حافظ صاحب نے ابن خزیمہ کی اس حدیث کو فتح الباری میں نقل کیا ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) اور حضرت تمیم داری (رضی اللہ عنہ) کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ (11) رکعتیں پڑھایا کریں ۔ اور امام ایک ایک رکعت میں سو سو آیات پڑھتا حتٰی کہ ہم تھک کر عصا کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے تھے اور طلوعِ فجر کے قریب جا کر ہم (نمازِ تراویح سے) فارغ ہوتے تھے ۔
موطاٴ مالك ، كتاب الصلاة فى رمضان ، باب ما جاء في قيام رمضان ، حدیث نمبر 250 ۔
1۔ علامہ شوق نیموی (حنفی) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس کی سند صحیح ہے ۔
2۔ علامہ البانی نے بھی اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
3۔ اس حدیث پرعلامہ ابن البر کےاعتراض پر علامہ زرقانی نے موطا کی شرح میں ابن عبدالبرکےقول کی تردید کی ہے۔
4۔ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں اور شوق نیموی نے آثار السنن میں ابن عبدالبر کے اس اعتراض کو باطل قرار دیا ہے۔
🌍 احادیث سے ثبوت
🌟 پہلا ثبوت
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ فَجِئْتُ فَقُمْتُ إِلَی جَنْبِهِ وَجَائَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَامَ أَيْضًا حَتَّی کُنَّا رَهْطًا فَلَمَّا حَسَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّا خَلْفَهُ جَعَلَ يَتَجَوَّزُ فِي الصَّلَاةِ ثُمَّ دَخَلَ رَحْلَهُ فَصَلَّی صَلَاةً لَا يُصَلِّيهَا عِنْدَنَا قَالَ قُلْنَا لَهُ حِينَ أَصْبَحْنَا أَفَطَنْتَ لَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ فَقَالَ نَعَمْ ذَاکَ الَّذِي حَمَلَنِي عَلَی الَّذِي صَنَعْتُ قَالَ فَأَخَذَ يُوَاصِلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاکَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَأَخَذَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يُوَاصِلُونَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَالُ رِجَالٍ يُوَاصِلُونَ إِنَّکُمْ لَسْتُمْ مِثْلِي أَمَا وَاللَّهِ لَوْ تَمَادَّ لِي الشَّهْرُ لَوَاصَلْتُ وِصَالًا يَدَعُ الْمُتَعَمِّقُونَ تَعَمُّقَهُمْ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں نماز پڑھ رہے تھے تو میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو کی جانب کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے نماز میں تخفیف شروع فرما دی پھر آپ گھر میں داخل ہوئے آپ نے نماز پڑھی جو ہمارے ساتھ نہیں پڑھی تھی ۔۔۔۔۔۔الحدیث (صحیح مسلم جلد ۲ ص ٤٥١)
🌟 دوسرا ثبوت
صحيح البخاري - (ج 7 / ص 135)
1871 - وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ
خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ قَالَ عُمَرُ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ
۔۔۔۔۔۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: وہ نماز جس سے تم لوگ سو رہتے ہو بہتر ہے اس سے جسے تم پڑھتے ہو۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد رات کے آخری پہر کی نماز تہجد تھی اور لوگ رات کے پہلے پہر کی نماز تراویح پڑھتے تھے تہجد کے وقت سو رہتے تھے۔
🌟 تیسرا ثبوت
صحيح مسلم - (ج 4 / ص 148)
1270 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں تین دن نماز باجماعت پڑھائی چوتھے دن نہیں پڑھائی۔ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ تہائی رات تک نماز تراویح پڑھائی اور بقیہ رات سوئے نہیں یا تو تراویح پڑھتے رہے یا پھر تہجد پڑھی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخر رات کو تہجد پڑھنے کا تھا۔
نوٹ: آخری دفعہ رمضان میں رات کو عشاء کے بعد جو نماز باجماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی اس میں تہجد کو بھی باجماعت تراویح سے متصلاً ادا کیا بقیہ دنوں میں تہجد کی جماعت نہیں کروائی۔
تنبیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد کی نماز باجماعت مسجد میں پڑھانے کی کوئی روایت کتب احادیث میں نہیں
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں انصاف اور دیانت سے غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ، دونوں نام ایک ہی نماز کے ہیں ۔
دونوں نمازوں میں جو فرق بعض علماء بیان کرتے ہیں ۔۔۔ وہ اس طرح کہ ۔۔۔
👈 1 ۔ تراویح شروع رات میں پڑھی جاتی ہے اور تہجد اخیر رات میں ۔
⬅ حالانکہ ۔۔۔ صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رات کے ہر حصہ میں تہجد کی نماز پڑھی ہے ۔ کبھی شروع رات میں ، کبھی درمیان رات میں اور کبھی اخیر رات میں ۔
👈 2 ۔ تراویح جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور تہجد بلا جماعت ۔
⬅ یہ بھی دوسرا مغالطہ ہے ۔ دونوں ہی نمازیں جماعت سے بھی پڑھی جاتی ہیں اور بلا جماعت بھی ۔ صحیح مسلم کی احادیث دیکھ لیں جس میں نمازِ تہجد میں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ایک بار حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) اور ایک بار حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) اور ایک بار حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی شرکت کے واقعات ملتے ہیں۔ لہذا تہجد باجماعت بھی پڑھی گئی ہے ۔
صحیح بخاری کی حدیث کے بموجب تراویح کی جماعت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صرف تین دن پڑھائی اس کے بعد گھروں میں پڑھنے کا مشورہ دیا (تاکہ اس کو فرض نہ سمجھا جائے ) جس پر خلافتِ فاروقی (رضی اللہ عنہ) کے ابتدائی دور تک عمل ہوتا رہا ۔ لہذا تراویح بلا جماعت بھی پڑھی گئی ہے ۔
👈 3 ۔ تیسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ ایک ہی نماز کسی زمانے میں بلاجماعت اور کسی زمانے میں جماعت سے پڑھی جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ الگ الگ نمازیں (تہجد اور تراویح) ہیں ۔
⬅ اس کا جواب یہ ہے کہ نمازِ وتر ، رمضان میں جماعت سے پڑھی جاتی ہے اور غیر رمضان میں بلا جماعت ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رمضان میں پڑھی جانے والی وتر ایک الگ نماز ہے اور غیر رمضان والی وتر ایک علحدہ نماز ۔۔۔؟
رہی بات قرآنی نصوص کی ۔۔۔ کہ جن کے ذریعے تہجد کی نماز آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو رمضان اور غیر رمضان دونوں وقت ادائیگی کا حکم ہے ۔
سیدھی سی بات ہے ۔۔۔ اوپر حضرت ابوذر کی روایت کردہ حدیث بیان ہوئی ہے ۔۔۔ جس کے مطابق رمضان کی انتیسویں رات آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنا طویل قیام کیا کہ سحر کا وقت ہو گیا ۔
اب یا تو کسی صحیح مستند حدیث سے ثابت کیا جائے کہ اس رات قیامِ رمضان کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے علحدہ سے ایک نماز ، نمازِ تہجد کے طور پر ادا کی ۔۔۔ یا پھر کشادہ دلی ، دیانت داری اور انصاف پسندی سے یہ اعتراف کر لیا جائے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو مختلف نام ہیں ۔
جیسا کہ نامور حنفی علماء مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے بلاجھجھک واضح ترین الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ : تراویح اور صلوٰۃ اللیل (تہجد) ، دونوں نمازیں ایک ہی ہیں ۔
🌍 ایک اعتراض :👇👇👇
❀ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمض ان میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی ؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : ما كان يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة إلخ ”رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“ الخ۔ [صحيح بخاري : 229/1 ح 2013، عمدة القاري : 128/11، كتاب الصوم، كتاب التراويح باب فضل من قام رمضان]
اعتراض :⤵
❔ کیا اس حدیث کا تعلق صرف نمازِ تہجد کے ساتھ ہے ؟
تہجد، تراویح، قیام اللیل، قیام رمضان، وتر ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔
🌟 دلیل ① نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔
🌟 دلیل ② ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً :
✔ ● صحیح بخاری، كتاب الصوم (روزے کی کتاب) كتاب صلوة التراويح (تراویح کی کتاب) باب فضل من قام رمضان (فضیلت قیام رمضان)۔
✔ ● مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : [ص 141] ، باب قيام شهر رمضان و مافيه من الفضل
👈 ◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے :
قوله، قيام شهررمضان ويسمي التراويح
یعنی : قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
✔ ● السنن الکبری للبیہقی [495/2، 496] باب ماروي فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان۔
🌟 دلیل ③ مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔
🌟 دلیل ④ اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً :
👈 ◈ علامہ زیلعی حنفی۔ [نصب الرايه : 153/2]
👈 ◈ حافظ ابن حجر عسقلانی۔ [الدرايه : 203/1]
👈 ◈ علامہ ابن ہمام حنفی۔ [فتح القدير : 467/1، طبع دار الفكر]
👈 ◈ علامہ عینی حنفی۔ [عمدة القاري : 128/11]
👈 ◈ علامہ سیوطی۔ [الحاوي للفتاوي348/1] وغيرهم
🌟 دلیل ⑤ سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے۔ [ملخصا من خاتمه اختلاف : ص 64 باختلاف يسير]
🌟 دلیل ⑥ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ :
تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 رکعات تراویح [3، 20] پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد [3، 8] پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے)
یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا وتران فى ليلة ”ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں۔“ [ترمذي : 107/1 ح 470، ابوداود : 1439، نسائي : 1678، صحيح ابن خزيمه : 1101، صحيح ابن حبان : 1671 سانده صحيح]
↰ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا :
هذا حديث حسن غريب
یاد رہے کہ اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف گیارہ رکعات [3، 8] ثابت ہیں، 23 ثابت نہیں ہیں [3، 20] لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔
🌟 دلیل ⑦ مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے :[فیض الباری 420/2] ، [العر ف الشذی 166/1] یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
🌟 دلیل ⑧ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کے لئے دیکھئے : [فیض الباری 420/2]
🌟 دلیل ⑨ متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نماز تراویح پڑھ لی ہو۔ [قيام الليل للمروزي : بحواله فيض الباري : 420/2]
↰ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔
🌟 دلیل ⑩ سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی روایت : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان ثمان ركعات والوتر الخ بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آ رہا ہے، لہٰذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔
وتلك عشرة كاملة۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS