Ager Sehri Ke waqt Kisi Pe Ghusal Wajib ho aur use itna waqt nahi hai ke Ghusal kare to kya wah Sehri Kha Kar Roze Rakh Sakta Hai Ya Koi Bagair wuzu ke Sehri Kha Sakta Hai jabke Uske Pas Waqt bhi utna ho ke Wah Wuzu kar sakta Ho Mager kya Kulli Pe Hi Sehri Kha Sakta Hai?
سوال عرض ہے کیا بنا وضوء کے سحری کھا سکتے ہیں جبکہ وقت بھی میسر ہو صرف کلي پر ہی اکتفادہ کرے.
الجواب بعون رب العباد:
اگر کوئی شخص سحری کھانے کے لئے دیر سے جاگے اور اس پر غسل بھی واجب ہو لیکن غسل کرنے کے لئے اتنا وقت نہیں اور اسے خدشہ ہے کہ وقت کی قلت کی وجہ سے سحری فوت ہوجائے گا اس حال میں وہ وضوء پر ہی اکتفاء کرے گا پہلے سحری کھائے اور پہر سحری کے بعد نماز فجر سے قبل اگر اسے غسل واجب نہیں تو و ضوء كرے گا اور اگر غسل واجب ہے تو غسل کرکے نماز فجر ادا کرے گا سحری کھانے کے لئے غسل یا وضوء شرط نہیں ہے چاھئے جنبی کا غسل ہو یا احتلام کا یا حائضہ عورت کا یا اسے و ضوء كرنا هو!، اگر سحری کھانے کے لیے وقت کم ہو تواسکے لئے بھتر یہی ہے کہ وہ وضوء كرلے اگر و ضوء كرنے کے لئے بھی وقت نہیں تو کم از کم اپنے ہاتھ اچھی طرح دھوئے اور پہلے سحری کھائے اور پہر وضوء ، غسل کرے اسلئے کہ سحری کے لئے غسل یا و ضوء شرط اور ضروري نہیں ہے البتہ نماز ادا کرنے کے لئے پاکی غسل اور وضوء شرط ہے اسکے بغیر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی بغیر پاکی کے نماز قبول نہیں کرتا.[صحيح مسلم حديث نمبر:224، باب وجوب الطھارة للصلاة حديث ابن عمر رضي الله عنهما].
اسی طرح اگر کسی شخص کو سحری سے قبل اتنا وقت بھی میسر نہیں کہ وہ وضوء كر سکے تو وہ اچھی طرح اپنے دونوں ہاتھ دھو کر سحری کھائے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کا کوئی نیند سے بیدار ہوجاتی وہ کسی برتن میں ہاتھ نہ ڈالے یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں ہاتھ تین بار نہ دھوئے اسے پتہ نہیں کہ اسکے ہاتھ نے کہاں رات گذاری ہے۔[بخاری حدیث نمبر:162، مسلم حدیث نمبر:278، حدیث ابي هريره رضي الله عنه].
اسلئے کھانا کھانے سے قبل ہاتھ دھونے ضروري هے البتہ غسل یا وضوء ضروري نہیں ہے۔
دلیل: عائشہ اور ام سلمہ ر ضي الله عنھما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ بعض دفعہ جنبی کی میں سحری کھاتے اور سحری کھانے کے بعد آپﷺ غسل فرماتے تھے۔ [بخاری 1925، ومسلم 1109]۔
اس بارے میں علامہ ابن جبرین رحمہ اللہ کا فتوی بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ [فتاوي الصيام لابن جبرين ص نكبر:68].
اگر کوئی شخص سحری کھانے کے لئے جنبی کی حالت میں جاگا اور اسکے پاس غسل کرنے کے لئے وقت میسر نہ ہو تواسکے حق میں یہی مشروع ہے کہ وہ و ضوء کرے اور سحری کھائے اور سحری کے بعد نماز ادا کرنے سے پہلے غسل کرے جیساکہ اوپر گذر گیا۔
دلیل:عائشہ ر ضي الله عنها سے مروی ہے کہ نبیﷺ جب جنبی کی حالت میں سونے یا کھانے کا ارادہ کرتے توآپﷺ پیلے و ضوء فرمایا کرتے تھے۔ [صحیح مسلم حدیث نمبر:461 کتاب الحيض].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ و ضوء کرکے سوئے اسی طرح وہ کھاتے اور پیتے وقت و ضوء كرے ، اور بعض اہل علم كا كہنا ہے کہ اگر جنبی بغیر و ضوء کے کھائے پیئے اس میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔ [الشرح الممتع لابن عثيمين].
جنبی شخص کے لئے و ضوء كرنا مستحب ہے واجب نہیں یہی رائے جمہور اہل علم ائمہ اربعہ امام ثوری ، حسن بن حی، ابن المسیب ، امام ابویوسف رحمھم اللہ اور یہی قول حضرت علي بن ابي طالب، ابن عمر ، عائشہ ، شداد بن اوس، ابوسعید خدری ، ابن عباس ر ضي الله عنهم اور یہی رائے امام عطا، ابن مبارک اور حسن رحمھم اللہ کی ہے۔[المغني 1/303-304، والتمهيد 305-314، وفتح الباري357/1]۔
خلاصہ کلام/اس بارے میں یہ رائے راجح معلوم ہوتی ہے کہ جنبی کے لئے سحری سے پہلے، سونے سے پہلے یا کھانے سے پہلے وضوء كرنا مستحب ہے لیکن نماز کی طرح غسل لازمی نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی شخص سحری کے وقت تاخیر سے جاگے اور وہ جنبی بھی نہیں ہے تو اسکے لئے بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ بغير وضوء کے سحری کھائے البتہ کھانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئے جیساکہ احادیث میں اسکا ذکر ملتا ہے کہ کوئی شخص بیدار ہونے کے بعد بغیر ہاتھ دھوئے برتن میں ہاتھ داخل نہ کرے۔
هذا ماعندي والله اعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وآصحابه اجمعين.
كتبه/ابو زهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریا ضي.
No comments:
Post a Comment