Sadqat ul Fitr Ki Sharayi Haishiyat, SADQAT UL FITRA KE MASAIL
Sadqat ul Fitr Ki Sharayi Haishiyat, SADQAT UL FITRA KE MASAIL
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌍 صدقةالفطر کی شرعئی حیثیت :⬇
فطرانے کی فرضیت پر اجماع ہے۔
(الاجماع لابن المنذر : ٤٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں پر فطرانہ فرض قرار دیا ہے، وہ غلام ہو ، آزاد ہو، مرد ہو ،عورت ہو،چھوٹا ہو یا بڑا ہو، فطرانے کی مقدار ایک صاع ''کھجور ''یا ''جو''ہے۔''
(صحیح البخاری : ١٥٠٣، صحیح مسلم : ٩٨٤)
👈 تنبیہ :
فطرانہ مسلمان غلام پر فرض ہے ، کافر پر نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیس فی العبد صدقۃ الّا صدقۃ الفطر ۔
''غلام پر سوائے صدقہ فطر کے زکوۃ واجب نہیں۔''(صحیح مسلم : ٩٨٢)
یہ حدیث عام ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے کہ عبد سے مراد مسلمان غلام ہے۔
👈 فائدہ :
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم بصدقۃ الفطر قبل أن تنزل
الزّکاۃ ، فلمّا نزلت الزّکاۃ لم یأمرنا ولم ینھنا ، ونحن نفعلہ ۔
''زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ منع فرمایا ، البتہ ہم اسے ادا کرتے رہے۔''
(مسند الامام احمد : ٦/٦، سنن النسائی : ٢٥٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/١٥٩٩، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٩٤) اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤١٠٠) نے ''صحیح'' کہا ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا لا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العبادۃ لا یوجب
نسخ الأصل المزید علیہ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأموال ومحلّ زکاۃ الفطر الرّقاب ۔
''اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقہ فطر واجب نہیں رہا،
کیونکہ عبادت میں کسی اضافے سے اصل منسوخ نہیں ہوتی۔یہ فرق
بھی ملحوظ رہے کہ زکوۃ مال پر اور صدقہ فطر جان پر فرض ہے۔''
(معالم السنن : ٢/٢١٤)
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار
كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.
۔|
شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری|
🌍 صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے ادا کیا جائے:⬇
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔
🌟 ملحوظ:
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔
🌟 یتیم اور دیوانے کا صدقہ
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘
🌟 غرباء بھی صدقۃ الفطر ادا کریں:
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،
چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو
لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اسکے
گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)
۔|
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 7 صفحہ 59۔64
🌍 کیافطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزے آسمان و زمين كے مابين معلق رہتے ہيں❓⬇
تو عرض ہے کہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں
اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں "
* سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے،
* مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہےيہ
صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے"
* اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 )
ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے
" پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى
ادائيگى تک رمضان المبارك كےروزوں كى قبوليت موقوف رہیگى، توجو شخص فطرانہ
ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى
بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا.
🌍 صدقةالفطر کی جنس :⬇
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
اور اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں ۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
🌍 صدقةالفطر کی مقدار ⬇
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
صحیح مسلم صفحہ۳۱۸ /جلد ۱
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة))(بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیح اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)
🌟 صاع نبوی کی تحقیق :
صاع نبوی یا صاع ابن ابی ذئب پانچ رطل اور ۳؍۱ رطل کا تھا جو انگیزی اوزان کے اعتبار سے ۲ سیر ۱۰ چھٹانک اور ۴ماشہ کے برابر ہے۔ اب انگریزی نظام کی جگہ اعشاری نظام وزن جڑ پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا اب حضرت مفتی مولانا محمد صدیق سرگودھوی رحمہ اللہ اور دوسرے اہل علم کے مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اس لئے اب غلہ کی ہر ایک جنس میں سے فی کس اڑھائی کلو گرام صدقہ فطر ادا کرنا فرض اور ضروری ہے۔
رقم اور نقدی کی صورت میں:
اگر کوئی شخص گندم یا چاول کے بجائے رقم یا نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گندم یا چاول کی جو نوع (قسم) خود کھاتا ہے وہ اس کی قیمت فی کلو گرام کے حساب سے اڑھائی کلو گرام کی قیمت ادا کرے۔مثلاً: اگر آپ پانچ روپے فی کلو گرام والا آٹا کھاتے ہیں تو آپ کو ساڑھے بارہ روپےفی کس ادا کرنے ہوں گے۔ اور اگر آپ ایک وقت چاول اور ایک وقت روٹی کھانے کا معمول رکھتے ہیں۔ اور آپ آٹا پانچ روپے فی کلو گرام کھاتے ہیں۔ اور چاول انیس روپے کلو ہوں تو اس حساب سے آپ کو تیس روپے فی کس ازراہ احتیاط ادا کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایک وقت چاول کھانے کے باوجود (صرف گندم یا) گندم کے آتے کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کر دیں گے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی تفصیل مروی نہیں کہ دونوں وقتوں کی مختلف غذاؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
۔|
فتاویٰ محمدیہ / جلد1/صفحہ 565
🌍 فطرانہ کی نقد ادائیگی :⬇
🌟 رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود اور اسکے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار مبارکہ میں اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں۔ درہم و دینار تھے تو وہ بھی سونے اور چاندی کی جنس سے ہی بنے ہوئے۔ جس طرح آج پیپر کرنسی, یا چپ کرنسی, یا الیکٹرانک کرنسی کا دور ہے اسکا تصور بھی اس زمانہ میں موجود نہ تھا۔ وہ لوگ اجناس کا ہی تبادلہ کرتے تھے۔ کبھی غلہ واناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا کبھی اناج کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ۔ اور اسلام میں یہی اصل کرنسی ہے, جو ڈی ویلیو نہ ہوسکے۔ مروجہ پیپر کرنسی وغیرہ تو اصل زر نہیں ہیں بلکہ یہ مالیت کی رسیدیں ہیں, شرعی طور پہ انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت یہود کی سازشوں کی نتیجہ میں پوری دنیا اس بے قیمت کرنسی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ اور مجبورا تمام تر لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اسکے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی ۔ لیکن عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے , تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں , اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے , تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
۔|
أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا اللہ عنہ
🌟 فطرانہ کیلئے غذائی اجناس دینا واجب ہے، نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر فقراء غذائی اجناس قبول نہ کریں ، اور نقدی کا مطالبہ کریں تو اس وقت نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز ہوگا، اور انکا مطالبہ غذائی اجناس سے فطرانہ ادا نہ کرنے کا عذر بن سکتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص کو یہ علم ہو کہ فطرانہ غذائی اجناس سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن وہ نقدی کی صورت میں فطرانہ ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے لئے فطرانہ ادا کرنا آسان اور مشقت طلب نہیں ہے، تو یہ فطرانہ کفایت نہیں کریگا۔
لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اگر کوئی ایسا فقیر نہیں ملتا جو چاول، کھجور، گندم فطرانے میں قبول کرے، بلکہ سب نقدی کا مطالبہ کرتے ہیں ، تو اس وقت نقدی سے فطرانہ ادا کرینگے، چنانچہ مناسب غذائی جنس کے ایک صاع کی قیمت کے برابر رقم ادا کردی جائے گی"انتہی
۔|
"فتاوى نور على الدرب"
🔸 چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک بہت بڑے فقیہ و امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه المتوفی362) کہتے ہیں:
أداء القيمة أفضل؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه،
والتنصيص على الحنطة والشعير كان؛ لأن البياعات في ذلك الوقت بالمدينة يكون
بها فأما في ديارنا البياعات تجرى بالنقود، وهي أعز الأموال فالأداء منها أفضل
صدقۃ الفطر میں قیمت دینا ہی افضل ہے اس لئے کہ اس میں فقیرومحتاج کے لئے زیادہ فائدہ
ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ فوراجو چاہےخرید سکتاہے۔اور حدیث میں گیہوں،جو (وغیرہ)
کا ذکر اس لئے ہے کیونکہ اس وقت مدینہ میں خریدو فروخت انہیں چیزوں سے ہوتی تھی
(یعنی غلے اسوقت بطورکرنسی چلتےتھے) لیکن ہمارے علاقوں میں نقدی کےذریعہ خریدوفروخت
ہوتی ہے اور یہ اموال میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس لئے اسی سے صدقہ الفطر اداء کرنا افضل ہے۔
[المبسوط للسرخسي : 3/ 107]
🔸امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه کے بارے میں امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562) کہتے ہیں:
كان إماما فاضلا ۔۔۔ حدث بالحديث
یہ امام اورفاضل تھے ۔۔۔انہوں نے حدیث کی روایت کی
[الأنساب للسمعاني، ت المعلمي: 13/ 432]
🔸امام ذہبی(المتوفى748)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من براعته في الفقه يقال له أبو حنيفة الصغير توفي ببخارى وكان شيخ تلك الديار في زمانه
فقہ میں آپ کی مہارت کا یہ حال تھا کہ انہیں ابوحنیفہ الصغیر کہا جاتا تھا ،
یہ بخاری میں فوت ہوئے اور اپنے زمانے میں وہاں کے شیخ تھے
[العبر في خبر من غبر 2/ 334]
🔸 امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
من يضرب به المثل۔۔۔أخذ عنه أئمة
یہ ایسے تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی تھی۔۔۔ان سے ائمہ نے علم حاصل کیا ہے۔
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 131]
یہ حوالہ ہم اس لئے دے رہے ہیں کیوں کہ بعض حضرات نے بڑی عجلت اور انتہائی بے باکی سے یہ دعوی کردیا کہ گذشتہ چودہ سوسال کے اندر کسی نے بھی قیمت دینے کو افضل نہیں کیا ہے اورنہ کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ طعام بطور کرنسی دئے جاتے تھے ۔ہمارے پاس اوربھی حوالے ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، کیونکہ یہ حوالے اصل دلائل نہیں ہیں ۔
🌟 فطرانہ کی نقد ادائیگی شریعت کے منافی: سعودی مفتیِ اعظم👇
سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اور سینیر علماء کمیشن اور افتاء کونسل کے سربراہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ حاجت مندوں کو زکوٰۃ الفطر (صدقۂ فطر) کی نقدی کی شکل میں ادائی اسلامی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''زکوٰۃ فطر خوراک کی شکل میں غریبوں اور حاجت مندوں کو ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح عیدالفطر کی خوشیاں منا سکیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''زکوٰۃ الفطر نماز عید ادا کرنے سے پہلے ادا کر دی جانی چاہیے اور یہ زکوٰۃ انہی ممالک میں ادا کی جا سکتی ہے جہاں مسلمان موجود ہوں''۔
بہ الفاظ دیگر غیر مسلموں کو زکوٰۃ الفطر ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
SADQAT UL FITR KE MASAIL |
فطرانے کی فرضیت پر اجماع ہے۔
(الاجماع لابن المنذر : ٤٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں پر فطرانہ فرض قرار دیا ہے، وہ غلام ہو ، آزاد ہو، مرد ہو ،عورت ہو،چھوٹا ہو یا بڑا ہو، فطرانے کی مقدار ایک صاع ''کھجور ''یا ''جو''ہے۔''
(صحیح البخاری : ١٥٠٣، صحیح مسلم : ٩٨٤)
👈 تنبیہ :
فطرانہ مسلمان غلام پر فرض ہے ، کافر پر نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیس فی العبد صدقۃ الّا صدقۃ الفطر ۔
''غلام پر سوائے صدقہ فطر کے زکوۃ واجب نہیں۔''(صحیح مسلم : ٩٨٢)
یہ حدیث عام ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے کہ عبد سے مراد مسلمان غلام ہے۔
👈 فائدہ :
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم بصدقۃ الفطر قبل أن تنزل
الزّکاۃ ، فلمّا نزلت الزّکاۃ لم یأمرنا ولم ینھنا ، ونحن نفعلہ ۔
''زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ منع فرمایا ، البتہ ہم اسے ادا کرتے رہے۔''
(مسند الامام احمد : ٦/٦، سنن النسائی : ٢٥٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/١٥٩٩، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٩٤) اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤١٠٠) نے ''صحیح'' کہا ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا لا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العبادۃ لا یوجب
نسخ الأصل المزید علیہ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأموال ومحلّ زکاۃ الفطر الرّقاب ۔
''اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقہ فطر واجب نہیں رہا،
کیونکہ عبادت میں کسی اضافے سے اصل منسوخ نہیں ہوتی۔یہ فرق
بھی ملحوظ رہے کہ زکوۃ مال پر اور صدقہ فطر جان پر فرض ہے۔''
(معالم السنن : ٢/٢١٤)
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار
كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.
۔|
شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری|
🌍 صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے ادا کیا جائے:⬇
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔
🌟 ملحوظ:
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔
🌟 یتیم اور دیوانے کا صدقہ
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘
🌟 غرباء بھی صدقۃ الفطر ادا کریں:
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،
چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو
لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اسکے
گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)
۔|
فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 7 صفحہ 59۔64
🌍 کیافطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزے آسمان و زمين كے مابين معلق رہتے ہيں❓⬇
تو عرض ہے کہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں
اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں "
* سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے،
* مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہےيہ
صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے"
* اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 )
ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے
" پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى
ادائيگى تک رمضان المبارك كےروزوں كى قبوليت موقوف رہیگى، توجو شخص فطرانہ
ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى
بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا.
🌍 صدقةالفطر کی جنس :⬇
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
اور اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں ۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
🌍 صدقةالفطر کی مقدار ⬇
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
صحیح مسلم صفحہ۳۱۸ /جلد ۱
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة))(بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیح اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)
🌟 صاع نبوی کی تحقیق :
صاع نبوی یا صاع ابن ابی ذئب پانچ رطل اور ۳؍۱ رطل کا تھا جو انگیزی اوزان کے اعتبار سے ۲ سیر ۱۰ چھٹانک اور ۴ماشہ کے برابر ہے۔ اب انگریزی نظام کی جگہ اعشاری نظام وزن جڑ پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا اب حضرت مفتی مولانا محمد صدیق سرگودھوی رحمہ اللہ اور دوسرے اہل علم کے مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اس لئے اب غلہ کی ہر ایک جنس میں سے فی کس اڑھائی کلو گرام صدقہ فطر ادا کرنا فرض اور ضروری ہے۔
رقم اور نقدی کی صورت میں:
اگر کوئی شخص گندم یا چاول کے بجائے رقم یا نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گندم یا چاول کی جو نوع (قسم) خود کھاتا ہے وہ اس کی قیمت فی کلو گرام کے حساب سے اڑھائی کلو گرام کی قیمت ادا کرے۔مثلاً: اگر آپ پانچ روپے فی کلو گرام والا آٹا کھاتے ہیں تو آپ کو ساڑھے بارہ روپےفی کس ادا کرنے ہوں گے۔ اور اگر آپ ایک وقت چاول اور ایک وقت روٹی کھانے کا معمول رکھتے ہیں۔ اور آپ آٹا پانچ روپے فی کلو گرام کھاتے ہیں۔ اور چاول انیس روپے کلو ہوں تو اس حساب سے آپ کو تیس روپے فی کس ازراہ احتیاط ادا کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایک وقت چاول کھانے کے باوجود (صرف گندم یا) گندم کے آتے کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کر دیں گے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی تفصیل مروی نہیں کہ دونوں وقتوں کی مختلف غذاؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
۔|
فتاویٰ محمدیہ / جلد1/صفحہ 565
🌍 فطرانہ کی نقد ادائیگی :⬇
🌟 رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود اور اسکے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار مبارکہ میں اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں۔ درہم و دینار تھے تو وہ بھی سونے اور چاندی کی جنس سے ہی بنے ہوئے۔ جس طرح آج پیپر کرنسی, یا چپ کرنسی, یا الیکٹرانک کرنسی کا دور ہے اسکا تصور بھی اس زمانہ میں موجود نہ تھا۔ وہ لوگ اجناس کا ہی تبادلہ کرتے تھے۔ کبھی غلہ واناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا کبھی اناج کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ۔ اور اسلام میں یہی اصل کرنسی ہے, جو ڈی ویلیو نہ ہوسکے۔ مروجہ پیپر کرنسی وغیرہ تو اصل زر نہیں ہیں بلکہ یہ مالیت کی رسیدیں ہیں, شرعی طور پہ انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت یہود کی سازشوں کی نتیجہ میں پوری دنیا اس بے قیمت کرنسی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ اور مجبورا تمام تر لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اسکے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی ۔ لیکن عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے , تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں , اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے , تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
۔|
أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا اللہ عنہ
🌟 فطرانہ کیلئے غذائی اجناس دینا واجب ہے، نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر فقراء غذائی اجناس قبول نہ کریں ، اور نقدی کا مطالبہ کریں تو اس وقت نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز ہوگا، اور انکا مطالبہ غذائی اجناس سے فطرانہ ادا نہ کرنے کا عذر بن سکتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص کو یہ علم ہو کہ فطرانہ غذائی اجناس سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن وہ نقدی کی صورت میں فطرانہ ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے لئے فطرانہ ادا کرنا آسان اور مشقت طلب نہیں ہے، تو یہ فطرانہ کفایت نہیں کریگا۔
لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اگر کوئی ایسا فقیر نہیں ملتا جو چاول، کھجور، گندم فطرانے میں قبول کرے، بلکہ سب نقدی کا مطالبہ کرتے ہیں ، تو اس وقت نقدی سے فطرانہ ادا کرینگے، چنانچہ مناسب غذائی جنس کے ایک صاع کی قیمت کے برابر رقم ادا کردی جائے گی"انتہی
۔|
"فتاوى نور على الدرب"
🔸 چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک بہت بڑے فقیہ و امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه المتوفی362) کہتے ہیں:
أداء القيمة أفضل؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه،
والتنصيص على الحنطة والشعير كان؛ لأن البياعات في ذلك الوقت بالمدينة يكون
بها فأما في ديارنا البياعات تجرى بالنقود، وهي أعز الأموال فالأداء منها أفضل
صدقۃ الفطر میں قیمت دینا ہی افضل ہے اس لئے کہ اس میں فقیرومحتاج کے لئے زیادہ فائدہ
ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ فوراجو چاہےخرید سکتاہے۔اور حدیث میں گیہوں،جو (وغیرہ)
کا ذکر اس لئے ہے کیونکہ اس وقت مدینہ میں خریدو فروخت انہیں چیزوں سے ہوتی تھی
(یعنی غلے اسوقت بطورکرنسی چلتےتھے) لیکن ہمارے علاقوں میں نقدی کےذریعہ خریدوفروخت
ہوتی ہے اور یہ اموال میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس لئے اسی سے صدقہ الفطر اداء کرنا افضل ہے۔
[المبسوط للسرخسي : 3/ 107]
🔸امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه کے بارے میں امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562) کہتے ہیں:
كان إماما فاضلا ۔۔۔ حدث بالحديث
یہ امام اورفاضل تھے ۔۔۔انہوں نے حدیث کی روایت کی
[الأنساب للسمعاني، ت المعلمي: 13/ 432]
🔸امام ذہبی(المتوفى748)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من براعته في الفقه يقال له أبو حنيفة الصغير توفي ببخارى وكان شيخ تلك الديار في زمانه
فقہ میں آپ کی مہارت کا یہ حال تھا کہ انہیں ابوحنیفہ الصغیر کہا جاتا تھا ،
یہ بخاری میں فوت ہوئے اور اپنے زمانے میں وہاں کے شیخ تھے
[العبر في خبر من غبر 2/ 334]
🔸 امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
من يضرب به المثل۔۔۔أخذ عنه أئمة
یہ ایسے تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی تھی۔۔۔ان سے ائمہ نے علم حاصل کیا ہے۔
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 131]
یہ حوالہ ہم اس لئے دے رہے ہیں کیوں کہ بعض حضرات نے بڑی عجلت اور انتہائی بے باکی سے یہ دعوی کردیا کہ گذشتہ چودہ سوسال کے اندر کسی نے بھی قیمت دینے کو افضل نہیں کیا ہے اورنہ کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ طعام بطور کرنسی دئے جاتے تھے ۔ہمارے پاس اوربھی حوالے ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، کیونکہ یہ حوالے اصل دلائل نہیں ہیں ۔
🌟 فطرانہ کی نقد ادائیگی شریعت کے منافی: سعودی مفتیِ اعظم👇
سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اور سینیر علماء کمیشن اور افتاء کونسل کے سربراہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ حاجت مندوں کو زکوٰۃ الفطر (صدقۂ فطر) کی نقدی کی شکل میں ادائی اسلامی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''زکوٰۃ فطر خوراک کی شکل میں غریبوں اور حاجت مندوں کو ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح عیدالفطر کی خوشیاں منا سکیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''زکوٰۃ الفطر نماز عید ادا کرنے سے پہلے ادا کر دی جانی چاہیے اور یہ زکوٰۃ انہی ممالک میں ادا کی جا سکتی ہے جہاں مسلمان موجود ہوں''۔
بہ الفاظ دیگر غیر مسلموں کو زکوٰۃ الفطر ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment