Haroot Maroot Ka Kissa Quran Se
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ کی تفسیر
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
﴿وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۤوَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ﴾ (البقرۃ: 102)
(اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی)؟
جواب: بلاشبہ اس آیت کی تفسیر کے تعلق سے علماء کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک ذاتی طور پر جو بات راجح ہے وہ یہ کہ یہاں ’’ما‘‘ نافیہ نہیں ہے، بلکہ موصولہ ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو نازل فرمایا تاکہ لوگوں کو جادو سکھائیں۔ کیونکہ اس زمانے میں جادو حدسے بڑھ گیا تھا اور پھیل گیا تھا۔ اور اس کا معاملہ بعض ان معجزات کے ساتھ خلط ملط ہورہا تھاجو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلاملے کر آئے جیسے جادوگروں کا قصہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ۔ جہاں فرعون چاہتا تھا کہ ان جادوگروں کے ہاتھوں سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوت حق سے عوام کو گمراہ کردے ، اس طرح کہ ثابت کردے جو کچھ یہ لائے ہیں یہ تو محض جادو ہی ہے۔ پھر جیساکہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالی نے جادوگروں کے عمل کا کام تمام کردیا، اور وہ اسلام لائے، اللہ رب العالمین پر ایمان لائے۔ لہذا ان لوگوں کا جادو کی اصلیت کے بارے میں علم دراصل سبب بنا کہ انہوں نے سحر اور خیالی جادو کے درمیان اور جو حقیقت ہوتی ہے اس کے درمیان تمیز کرلی۔ چناچہ حقیقت یہ تھی کہ جب سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنا عصا (لاٹھی) پھینکی تو وہ:
﴿فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ﴾ (الاعراف: 117)
(تو اچانک وہ ان چیزوں کو نگلنے لگی جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے)
یہ ایک حقیقت تھی جس پر یہ جادوگر لوگوں سے بھی پہلے خود ایمان لے آئے۔وہ خود جادوگر تھے اور اپنے جادو کے علم کی وجہ سے اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ بس نظروں کا دھوکہ اور فریب ہوتا ہے حقیقت نہيں۔ لیکن جب انہیں غیرمتوقع طور پر سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزے کا سامنا ہوا تو ان کے سامنےحقیقت اور جادو کے مابین فرق ظاہر ہوگیا اور کہا کہ:
﴿قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الاعراف: 121)
(انہوں نے کہا ہم رب العالمین پر ایمان لائے)
پس اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ ہاروت وماروت فرشتوں کو نازل کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو جادو سکھائیں، اور وہ جادو کو محض بطور جادو کے نہيں سکھاتے تھے بلکہ اس لیے تاکہ لوگ اس جادو میں تمیز کرسکیں جسے ان دنوں بہت سے دجالین نے لوگوں کو دھوکہ دینے اور غلام بنانے کے لیے اپنا رکھا تھا۔ جیسا کہ اس لڑکے اور راہب کے قصے میں ذکر ہوا۔ اور شاید کہ آپ کو اس کا قصہ یاد ہو۔ بہرحال اس کا خلاصہ یہ ہے اور ضروری ہے کہ ہم یہ خلاصہ ذکر کریں کہ:
اس زمانے میں جو بادشاہ تھا وہ وہی صاحب الاخدود (خندقوں والا) ہے جس کا قرآن (سورۃ البروج) میں ذکر ہے۔ وہ ایک جادوگر سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو غلام بنائے رکھتا تھا۔ جب اس جادوگر کو احساس ہوا کہ اب وہ بہت عمررسیدہ اور بوڑھا ہوچکا ہے تو اس نے کہا: اپنی رعایا میں سے میرے لیے ایک لڑکا چن لیں تاکہ وہ آپ کے بعد آپ کا جانشین ہو، کیوں؟ تاکہ وہ عوام کو اپنے جادو کے ذریعے غلام بنائے رکھے۔ اسی طرح سے زمانۂ قدیم کے بادشاہ ہوا کرتے تھے کہ وہ جادو کے ذریعے لوگوں کا استحصال کیا کرتے تھے۔ پس اللہ عزوجل نے دو فرشتے بھیجے تاکہ یہ تمام لوگو ں کو ہی سکھلا دیں۔ الاخدود والے بادشاہ کے جادوگر کے برعکس کے اس نے یہ کہا تھا میرے لیے بس ایک لڑکا چن لو ، کیونکہ اس کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ تمام لوگوں میں جادو کا علم عام کردے، کیونکہ اس طرح جادو جان لینے کی وجہ سے تو وہ عنقریب جان جائيں گے کہ کیسے اس بادشاہ نے انہیں دھوکے میں رکھا۔
چناچہ اللہ تعالی کی حکمت کا یہ تقاضہ ہوا کہ دو فرشتوں کو بھیجا جائے تو لوگوں کو جادو سکھائیں تاکہ وہ جادو اور معجزہ کے مابین فرق کرسکیں۔ کیونکہ بلاشبہ جادو ایک فساد برپا کرنے والی چیز ہے، اسی قصے کے سیاق میں فرمایا:
﴿وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۭ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ﴾
(حالانکہ وہ دونوں کسی ایک کو بھی نہیں سکھاتے تھے، جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، سو تو کفر نہ کر۔ پھر وہ ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے جس کے ساتھ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے)
لہذا یہ دونوں تو ایک خاص مقصد کے لیے جادو کی تعلیم لے کر آئے تھے، لیکن یہ تعلیم کبھی فتنے میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ پس لوگ وہ کچھ سیکھنے لگے جو انہیں نقصان پہنچائے نفع نہيں، جس کے ذریعے سے وہ مرد اوراس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں۔
یہ میری ( الشیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ ) رائے ہے اس آیت کی تفسیر کے تعلق سے۔ واللہ اعلم۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ کی تفسیر
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
﴿وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۤوَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ﴾ (البقرۃ: 102)
(اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی)؟
جواب: بلاشبہ اس آیت کی تفسیر کے تعلق سے علماء کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک ذاتی طور پر جو بات راجح ہے وہ یہ کہ یہاں ’’ما‘‘ نافیہ نہیں ہے، بلکہ موصولہ ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے دو فرشتوں کو نازل فرمایا تاکہ لوگوں کو جادو سکھائیں۔ کیونکہ اس زمانے میں جادو حدسے بڑھ گیا تھا اور پھیل گیا تھا۔ اور اس کا معاملہ بعض ان معجزات کے ساتھ خلط ملط ہورہا تھاجو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلاملے کر آئے جیسے جادوگروں کا قصہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ۔ جہاں فرعون چاہتا تھا کہ ان جادوگروں کے ہاتھوں سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوت حق سے عوام کو گمراہ کردے ، اس طرح کہ ثابت کردے جو کچھ یہ لائے ہیں یہ تو محض جادو ہی ہے۔ پھر جیساکہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالی نے جادوگروں کے عمل کا کام تمام کردیا، اور وہ اسلام لائے، اللہ رب العالمین پر ایمان لائے۔ لہذا ان لوگوں کا جادو کی اصلیت کے بارے میں علم دراصل سبب بنا کہ انہوں نے سحر اور خیالی جادو کے درمیان اور جو حقیقت ہوتی ہے اس کے درمیان تمیز کرلی۔ چناچہ حقیقت یہ تھی کہ جب سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنا عصا (لاٹھی) پھینکی تو وہ:
﴿فَاِذَا هِىَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَ﴾ (الاعراف: 117)
(تو اچانک وہ ان چیزوں کو نگلنے لگی جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے)
یہ ایک حقیقت تھی جس پر یہ جادوگر لوگوں سے بھی پہلے خود ایمان لے آئے۔وہ خود جادوگر تھے اور اپنے جادو کے علم کی وجہ سے اچھی طرح سے جانتے تھے کہ وہ بس نظروں کا دھوکہ اور فریب ہوتا ہے حقیقت نہيں۔ لیکن جب انہیں غیرمتوقع طور پر سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزے کا سامنا ہوا تو ان کے سامنےحقیقت اور جادو کے مابین فرق ظاہر ہوگیا اور کہا کہ:
﴿قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الاعراف: 121)
(انہوں نے کہا ہم رب العالمین پر ایمان لائے)
پس اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضہ ہوا کہ ہاروت وماروت فرشتوں کو نازل کیا جائے تاکہ وہ لوگوں کو جادو سکھائیں، اور وہ جادو کو محض بطور جادو کے نہيں سکھاتے تھے بلکہ اس لیے تاکہ لوگ اس جادو میں تمیز کرسکیں جسے ان دنوں بہت سے دجالین نے لوگوں کو دھوکہ دینے اور غلام بنانے کے لیے اپنا رکھا تھا۔ جیسا کہ اس لڑکے اور راہب کے قصے میں ذکر ہوا۔ اور شاید کہ آپ کو اس کا قصہ یاد ہو۔ بہرحال اس کا خلاصہ یہ ہے اور ضروری ہے کہ ہم یہ خلاصہ ذکر کریں کہ:
اس زمانے میں جو بادشاہ تھا وہ وہی صاحب الاخدود (خندقوں والا) ہے جس کا قرآن (سورۃ البروج) میں ذکر ہے۔ وہ ایک جادوگر سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو غلام بنائے رکھتا تھا۔ جب اس جادوگر کو احساس ہوا کہ اب وہ بہت عمررسیدہ اور بوڑھا ہوچکا ہے تو اس نے کہا: اپنی رعایا میں سے میرے لیے ایک لڑکا چن لیں تاکہ وہ آپ کے بعد آپ کا جانشین ہو، کیوں؟ تاکہ وہ عوام کو اپنے جادو کے ذریعے غلام بنائے رکھے۔ اسی طرح سے زمانۂ قدیم کے بادشاہ ہوا کرتے تھے کہ وہ جادو کے ذریعے لوگوں کا استحصال کیا کرتے تھے۔ پس اللہ عزوجل نے دو فرشتے بھیجے تاکہ یہ تمام لوگو ں کو ہی سکھلا دیں۔ الاخدود والے بادشاہ کے جادوگر کے برعکس کے اس نے یہ کہا تھا میرے لیے بس ایک لڑکا چن لو ، کیونکہ اس کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ تمام لوگوں میں جادو کا علم عام کردے، کیونکہ اس طرح جادو جان لینے کی وجہ سے تو وہ عنقریب جان جائيں گے کہ کیسے اس بادشاہ نے انہیں دھوکے میں رکھا۔
چناچہ اللہ تعالی کی حکمت کا یہ تقاضہ ہوا کہ دو فرشتوں کو بھیجا جائے تو لوگوں کو جادو سکھائیں تاکہ وہ جادو اور معجزہ کے مابین فرق کرسکیں۔ کیونکہ بلاشبہ جادو ایک فساد برپا کرنے والی چیز ہے، اسی قصے کے سیاق میں فرمایا:
﴿وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۭ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ﴾
(حالانکہ وہ دونوں کسی ایک کو بھی نہیں سکھاتے تھے، جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، سو تو کفر نہ کر۔ پھر وہ ان دونوں سے وہ چیز سیکھتے جس کے ساتھ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے)
لہذا یہ دونوں تو ایک خاص مقصد کے لیے جادو کی تعلیم لے کر آئے تھے، لیکن یہ تعلیم کبھی فتنے میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ پس لوگ وہ کچھ سیکھنے لگے جو انہیں نقصان پہنچائے نفع نہيں، جس کے ذریعے سے وہ مرد اوراس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں۔
یہ میری ( الشیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ ) رائے ہے اس آیت کی تفسیر کے تعلق سے۔ واللہ اعلم۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
No comments:
Post a Comment