find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Bagair Kisi wajah ke Ghar par Salat (Namaj) Ada Karna Kaisa Hai?

 Masjid Me N Jaker Ghar me hi Namaj Padhna Kisa Hai?

Kya bagair kisi Wajah ke Ghar pe hi Namaj Padh Sakte Hai kyu ke Akser Log Bina kisi Sabab Ke Ghar par hi Namaj Padh lete Hai Jabke wo tandurust aur Sehat mand rahte hai.
 
گھر نماز پڑھنے سے منع فرمایا
تندرست اور غیر معذور آدمی پر فرض نماز با جماعت کرنا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( وارکعو ا مع الراکعین ) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یعنی نماز با جامعت ادا کرو ۔ یہ امر ہے او ریہاں امر ( حکم ) وجوب کیلئے ہے ۔ دارقطنی میں حدیث ہے، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جس شخص نے اذان سنی، پھر وہ بغیر کسی عذر کے مسجد میں نہ آیا، اس کی نماز ہی نہیں ''( مشکوۃ۱/۳۳۸)
Ghar Pe namaj Padhna
علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں '' اسناد صحیح '' اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔
صحیح مسلم میں ہے ایک نا بینا شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُ سنے کہا کوئی مجھے مسجد میں لانے والا نہیں ۔ گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت دے دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دے دی ۔ جب وہ واپس پلٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تو اذان سنتا ہے؟ اُس نے کہا جی ہاں ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فا جب ) تو پھر قبول کر یعنی تیرا مسجد میں آنا لازمی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ رسو ل اللہ نے ایک نا بینا شخص کو اذان سننے کے بعد اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تو بینائی والے شخص کو بغیر شرعی عذر کے بھلا گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت کس طرح ہوگی ۔ صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلاؤں اور ایک شخص کو نماز با جماعت پڑھانے کیلئے کھڑا کر کے ایسے لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز با جماعت کیلئے حاضر نہیں ہوتے اور ان کو ان کے گھر سمیت جلا ڈالوں۔
یہ سخت وعید اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں پر با جماعت نماز ادا کرنا فرض ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت یہیں اور اذان سننے کے بعد اپنے کاموں میں ہی مشغول رہتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے اپنے مقام پر ہی نماز پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں جبکہ بغیر شرعی عذر کے ایسے لوگوں کی نماز ہوتی ہی نہیں جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوا.
Share:

Gusse Me Talaq Dene Se kya Talaq ho Jayegi?

Gusse me Talaq De dena ya Dar aur khauf paida Karne ke liye ya Sharab piker Nashe me Talaq De dene se Kya Talaq Ho jati Hai?

غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.
كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.
ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
Triple Talaq Aur Shariyat 
 عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "
اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.
غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.
دوسرى حالت:
اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.
تيسرى حالت:
عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 - 21 ).
شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام " اغاثۃ اللھفان في حكم طلاق الغضبان " ركھا ہے، اس ميں درج ہے:
غصہ كى تين قسميں ہيں:
پہلى قسم:
انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كاادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.
دوسرى قسم:
غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.
تيسرى قسم:
ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 ) اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.
خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.
اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.
اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.
اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.
واللہ اعلم .
Share:

Qadyani Ke Aqaid Aur Quran-O-Sunnat Se Unke Jawab.

Qadyani Ke Aqaid Aur Quran O Hadeeth se Unke Jawab

قادیانیوں کے عقائد و نظریات اور قرآن و حدیث سے انکے جوابات
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
 قادیانیت ایک دجالی تنظیم اور جماعت ہے۔ دجال خدائی کا دعویدار ہوگا اور دنیا بھر میں بے تحاشہ لوگوں کو مرتد کر دے گا۔۔ اسی طرح دجال کی آمد سے قبل ہی یہ قادیانی/مرزائی یا نام نہاد احمدی جماعت اپنے آقا،، اپنے باس،، اپنے لیڈر (دجال ملعون) کی خدمت پر مامور ہے۔۔ اور اپنے خراب عقائد و نظریات، من گھڑت باتوں و تاویلات سے سادہ لوح لوگوں کو گمراہ و مرتد کر کے دجال کی راہ ہموار کر رہی ہے۔۔ لیکن جیسے فتنہ دجال کا ایک انجام لکھا گیا ہے جو ہو کر رہے گا،، اسی طرح دیگر تمام فتنوں کا بھی خاتمہ ضرور ہوگا ان شاءاللہ۔۔ الحمداللہ پوری دنیا میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلام کے ان گنت سچے پیروکار موجود ہیں جو اس دجالی اور زہریلی جماعت کا پردہ فاش کر کے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔۔ اور اللہ پاک نے چاہا تو ذلت و رسوائی اور شکست ہی اس لعنتی دجالی جماعت کا مقدر ہے۔
قادیانی نہ صرف اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان کے آئین کے بھی دشمن ہیں۔۔ ہمیشہ سے انکا جھکائو اسرائیل، امریکہ اور انڈیا کی طرف رہا۔۔ ان شاءاللہ ایسے تمام اسلام و پاکستان دشمنوں کے مذموم منصوبے کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچیں گے۔
ویسے تو اس خطرناک ترین دجالی جماعت کے بہت سارے غلط اور گھٹیا قسم کے خیالات و نظریات ہیں جو ساتھ ساتھ اینٹی دجال مشن ڈاٹ کام پر آپکو پڑھنے کو ملتے رہیں گے تاکہ اس دجالی جماعت کی اصلیت کا علم ہو سکے،، لیکن انکے جو انتہائی اہم اور بنیادی عقائد ہیں وہ یہاں شئیر کیے جا رہے ہیں اور قرآن وحدیث سے انکے مدلل جوابات بھی دیے جا رہے ہیں۔ جس نے بھی ایک بار غور و فکر سے یہ آرٹیکل پڑھا،، اسے ضرور فائدہ ہوگا ان شاءاللہ۔
نوٹ۔۔ آرٹیکل کے اختتام میں کچھ تصاویر ضرور دیکھیں جن سے اس گمراہ جماعت کی اصلیت آپ پر عیاں ہو جائے گی۔
پہلا عقیدہ: مرزا غلام احمد کا دعویٰ ہے کہ آخر الزماں نبی میں ہوں۔
جواب: جبکہ اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ آخر الزماں نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، آپﷺ کے بعد کسی کو نبی ماننا یہ دائرۂ اسلام سے خروج ہے، یہ بات آیاتِ قرآنی، متعدد احادیثِ نبویہؐ سے ثابت ہے اور اسی پر تمام مسلمان متفق ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کی قرآنی شہادت
۱۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللہ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا o
(احزاب ۴۰)
ترجمہ: محمدﷺ باپ نہیں کسی کے تمہارے مردوں میں سے، لیکن رسول ہیں اللہ اور مہر سب نبیوں پر ہیں اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے ہے۔
۲۔ وَإِذْ أَخَذَ اللہ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۔
(اٰل عمران:۸۱)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب اور نبوت دوں اور تمہارے پاس ایک رسول آجائے جو تمہاری کتابوں اور دین کی تصدیق کرنے والا ہو، تو تم ضرور بالضرور اس پر ایمان لا اور اس کی مدد کرنا۔
۳۔ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللہ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ۔
(اعراف:۵۸)
ترجمہ: فرمادیجئے کہ لوگوں میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔
نوٹ: مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اپنی کتاب ختم نبوت میں سو آیات سے استدلال کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت پر احادیث کا شہادت
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد صفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً دو سو سے زائد احادیث اس ضمن میں پیش کی ہیں اور وہ احادیث متواتر ہیں جن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔
چند احادیث درج ذیل ہیں
:
۱۔ و انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی اللہ و انا خاتم النبین لا نبی بعدی۔
(ابوداؤد۲/۲۲۸۔ ترمذی:۲/۴۵۔ مشکوٰۃ:۲/۴۶۵)
ترجمہ: اور بے شک میری امت میں تیس کے قریب بڑے بڑے جھوٹے نبی ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں، حالانہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
۲۔ عن ابی ھریرۃؓ ان رسول اللہ ﷺ قال ان مثلی و مثل الانبیاء من قبلی کمثال رجل بنیٰ بیتاً فاحسنہ و اجملہ الا موضع لبۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولوںن ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ قال فانا اللبۃ و انا خاتم النبیین۔
(بخاری:۱/۵۹۔ مسلم:۲/۲۴۸۔ مشکوٰۃ:۲/۵۱۱)
۳۔ و انی عبد اللہ مکتوب خاتم النبیین و ان اٰدم لمنسجدل فی طینۃ۔
ترجمہ: بیشک میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا گیا ہوں جبکہ حضرت آدم علیہ السلام گوندھی ہوئی مٹی کی صورت میں تھے۔
۴۔ یا ایھا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم۔
ترجمہ: اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ہے۔
اسی طرح اجماعت امت سے بھی یہ عقیدہ ثابت ہے، جیسے کہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
۵۔ دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم کفرٌ بالاجماع۔
ترجمہ: ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔
دوسرا عقیدہ: مرزا غلام احمد پر وحی بارش کی طرح نازل ہوتی تھی، وہ وحی کبھی عربی میں کبھی ہندی میں اور کبھی فارسی اور کبھی دوسری زبان میں بھی ہوتی تھی۔
(حقیقۃ الوحی:۱۸۰۔ البشری:۱/۱۷)
جواب: علماء فرماتے ہیں کہ جب نبوت کا دوازہ بند ہوگیا تو لا محالہ وحی کا بھی دروازہ بند ہوگیا، یہ کیسے ممکن ہے وحی تو نازل ہو اور نبی نہ ہو۔
یہی بات قرآن و حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔
حضورﷺ کے بعد وحی نازل نہیں ہوئی: قرآن کی شہادت
مثلاً قرآن میں آتا ہے:
۱۔ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ o
(الزمر:۶۵)
ترجمہ: آپ کی طرف اور آپ سے پہلے بھی جس قدر انبیاء آئے سب کی طرف وحی کی گئی، اگر تم بھی شرک کرو تو تمہارے بھی سارے عمل برباد ہوں جائیں گے اور تم خاسرین میں سے ہوجاؤ گے۔
اس میں ’’من قبلک‘‘ کے بعد ’’من بعدک‘‘ نہیں ہے کہ آپﷺ سے پہلے تو وحی نازل ہوئی اور آپﷺ کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ہے، اس لئے یہ جملہ نہیں لایا گیا۔
۲۔ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ o
(بقرہ:۴)
ترجمہ: جو ایمان لائے ہیں اس وحی پر جو آپ پر نازل ہوئی اور اس وحی پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔
اس میں بھی ’’من قبلک‘‘ کے بعد ’’من بعدک‘‘ نہیں ہے، آپ پر اور آپ سے پہلے نازل تو ہوئی ہے آپ کے بعد نازل نہیں ہوئی، اسی طرح قرآن میں سیکڑوں آیات میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
آپ کے بعد وحی نازل نہیں ہوگی: احادیث کی شہادت
۱۔ و عن عمر رضی اللہ تعالیٰ ….. فقال ابوبکر انہ قد انطقع الوحی و تم الدین۔
(مشکوٰۃ:۵۵۶)
ترجمہ: حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ فرمایا حضرت ابوبکرؓ نے بیشک وحی نبوت ختم ہوگئی اور دین مکمل ہوچکا۔
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
:
۲۔ و ان الوحی قد انقطع۔
(الشفاء:۲/۲۷۱)
ترجمہ:وحئی نبوت ختم ہوچکی ہے۔
۳۔ و کذالک من ادّعیٰ منھم انہ یوحی الیہ و ان لم یدع النبوۃ ……. فھٰؤلاء کلطم کفار مکذبون لِلنبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(الشفاء:۲/۲۷۱)
ترجمہ: ایسے ہی وہ شخص بھی کافر ہے جس نے دعویٰ کیا کہ میری طرف وحی نبوت نازل ہوتی ہے، اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ بھی کرے …… پس یہ کل کے کل کافر ہیں، نبی کریمﷺ کے جھٹلانے کی وجہ سے ۔
ابتداء میں خود مرزا صاحب کا بھی عقیدہ تھا کہ وحی ختم ہوچکی ہے، اپنی کتاب حقیقت النبوۃ میں خود کہتے ہیں کہ وحی پر ۱۳ سو برس سے مہر لگ گئی ہے، پھر بعد میں انکار کردیا۔
(حقیقۃ النبوۃ:۸۹۔ و کذا ازالہ:۲۲۱)
تیسرا عقیدہ: مرزا غلام احمد کی تعلیم اب تمام انسانوں کے لئے نجات ہے۔
(اربعین:۴،۱۷)
جواب: علماء فرماتے ہیں کہ نجات کا دار و مدار نبی کریمﷺ کی پیروی میں ہے نہ کہ مرزا غلام احمد کی تعلیمات میں یہی بات قرآن و احادیث سے ثابت ہوتی ہے ،مثلاً:
۱۔ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ o
(القلم:۵۲)
ترجمہ: اور نہیں یہ قرآن مگر تمام عالم والوں کے لئے تذکیر ہے۔
۲۔ تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا o
(فرقان:۱)
ترجمہ: مبارک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے محمدﷺ پر نازل فرمایا تاکہ تمام ہی جہاں والوں کے لئے ڈرانے والے ہوجائیں۔
۳۔ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ۔
(انعام:۱۹)
ترجمہ: میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ میں تم کو (اور تمام انسانوں کو) قرآن کے نزول کی خبر پہنچے ڈراؤں۔
۴۔ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۔
(نور:۵۴)
ترجمہ: اگر تم محمدﷺ کی اطاعت کروں گے تو بس (نجات) ہادیت پاؤگے۔
اسی طرح قرآن کی متعدد آیات سے اس عقیدہ کا بطلان معلوم ہوتا ہے۔
چوتھا عقیدہ: جو مرزا غلام احمد کی نبوت کو نہ مانے وہ جہنمی کافر ہے۔
(حقیقۃ النبوۃ:۲۷۲۔ فتاویٰ احمدیہ:۳۷۱)
جواب: علماء اہل سنت و الجماعت فرماتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نبی ہی نہیں، جب نبی نہیں تو اب اس کی نبوت کا تسلیم کرنا کیسے ممکن ہے، بلکہ اس کی نبوت کو ماننا ہی دخول جہنم کا سبب ہے۔
پانچواں عقیدہ: مرزا غلام احمد کے معجزات کے تعداد دس لاکھ ہے۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی:۱۳۶) (جبکہ رسول اکرم ﷺ کے معجزات تین ہزار ہیں)
جواب: علماء اہل سنت و الجماعت فرماتے ہیں کہ یہ بات عقائد میں ہے کہ معجزہ خصائص نبوت میں سے ہے اور نبوت خاتم الانبیاء ﷺ پر ختم ہوچکی ہے، لہٰذا اب اگر کوئی عمجزہ کا دعویٰ کرے گا وہ کافر ہوگا۔
(یواقیت مبحث:۱/۱۵۷)
اسی طرح ابو شکور سلمی میں ہے:
و من ادّعی النبوۃ فی زماننا فانہ یصیر کافراً و من طلب منہ المعجزات فانہ یصیر کافرا لانہ شک فی النص۔
(ابوشکور سلمی:۱۰۵، قلمی بحوالہ اسلام اور قادیانیت)
ترجمہ: کہ جو شخص ہمارے زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے اور جو شخص اس سے معجزات کا مطالبہ کرے وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے نص قرآنی میں شک کیا ہے۔
چھٹواں عقیدہ: مرزا صاحب نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر شان والے تھے۔
(قول فصل:۶۔ احمد پاکٹ بکس:۲۵۴۔ اربعین:۱۰۳)
جواب: علماء فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے نہ کوئی نبوت میں آگے ہے اور نہ درجات میں کوئی آپﷺ سے آگے ہوسکتا ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا: …..لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ…..۔ (اٰل عمران:۸۱) ’’تمام انبیاء سے اس بات کا عہد لیا گیا تھا کہ اگر تم محمدﷺ کے زمانہ کو پاؤ تو آپﷺ پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا بھی واجب ہے‘‘۔
حضور اکرم ﷺ کی افضلیت پر احادیث کی گواہی
۱۔ عن جابرؓ ان النبی ﷺ قال انا قائد المرسلین و لا فخر ۔
(دارمی و کذا مشکوٰۃ:۵۱۴)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں، اس پر مجھ کو فخر نہیں۔
۲۔ انا حامل لواء الحمد یوم القیامۃ تحتہ آدم فمن دونہ و لا فخر ….. انا اکرم الاولین و الآخرین علی اللہ و لا فخر ۔
(ترمذی کذا مشکوٰۃ:۵۱۳، ۵۱۴)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں، قیامت کے دان کے نیچے آدمؑ اور اس کے بعد کے لوگ سب ہوں گے، میں اللہ کے نزدیک تمام پہلوں اور پچھلوں سے افضل ہوں، اس میں مجھ کو فخر نہیں۔
ساتواں عقیدہ: مرزا صاحب بنی اسرائیل کے انبیاءؑ سے افضل تر ہیں۔
(دافع البلاد:۲۰۔ ازالہ کلاں:۶۷)
جواب: اس عقیدہ کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ کوئی امتی جیسا بھی ہو نبی سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا اور جب یہ بات مسلم ہے تو غلام احمد نبی نہیں، تو پھر یہ انبیاء سے افضل کیسے ہوسکتا ہے؟ خود مرزا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ غیر نبی نبی سے افضَل نہیں ہوسکتا۔
(تریاق القلوب و حقیقۃ النبوۃ:۱۵)
آٹھواں عقیدہ: مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام و دیگر انبیاءؑ اور صحابہؓ کے بارے میں تحقیر آمیز جملے استعمال کئے ہیں۔
(حاشیہ ضمیمہ انجام آتم: ۴، ۷۔ روحانی خزائن:۱۶/۱۷۸۔ اعجاز احمدی:۱۸، ۸۳، ۵۱)
جواب: علماء اہل سنت و الجماعت فرماتے ہیں کہ نبی کی تعظیم و تکریم کا حکم اللہ کی طرف سے ہے، اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ مثلاً قرآن میں آتا ہے:
۱۔ لِتُؤْمِنُوا بِاللہ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ ۔
(فتح:۹)
ترجمہ: اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر اور رسول کی عزت اور وقار کرو۔
۲۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ۔
(حجرات:۲)
ترجمہ: اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو اور ایسی بلند آواز سے باتیں مت کرو، جیسا کہ آپس میں کرتے ہو’’۔
۳۔ قُلْ أَبِاللہ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۔
(توبہ:۶۵، ۶۶)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ اور کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ استہزاء کرتے تھے، اب عذر مت بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے۔
نبی کریم ﷺکی تعظیم کا احادیث سے ثبوت
۱۔ عن ابی ھریرۃؓ لا تفضلوا بین انبیاء اللہ۔
(مشکوٰۃ:۱/۵۰۷)
ترجمہ: انبیاء کو آپس میں فضیلت دیا کرو۔
۳۔ و عن مجاھدؒ قال ابی عمر یرجل سب النبی ﷺ فقتلہ ثم قال عمرؓ من سب اللہ تعالیٰ او سبّ احدا من الانبیاء فاقتلوہ۔
(الصارم المسلول لابن تیمییہ:۱۹۵)
ترجمہ: حضرت عمرؓ کےپاس ایک آدمی لایا گیا جس نے نبی کریمﷺ کو گالی دی اس پر حضرت عمرؓ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا جو شخص اللہ کو یا کسی نبی کو گالے دے اس کو قتل کردو۔
نبی کی تعظیم کا ثبوت کتبِ عقائد سے
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
من کذب باحد من الانبیاء او تنقص احد منھم او برئ منہ فھو مرتد۔
(الشفاء:۲/۲۶۲)
ترجمہ: جس کسی نے کسی نبی کی تکذیب کی یا تنقیص کی یا کسی نبی سے بری ہوا وہ مرتد ہے۔
اسی طرح علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و یکفر اذا شکّ فی صدق النبی او سبہ او نقصہ و یکفر بنسبۃ الانبیاء الی الفواحش۔
(الاشباہ و النظائر:۱۳۷)
ترجمہ: کافر ہوجاتا ہے جب کسی نبی کے سچا ہونے میں کوئی شک کرے یا گالی دے یا تنقیصِ شان کرے یا توہین سے نام لے، فواحش کو انبیاء کی طرف منسوب کرے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم کا حکم قرآن و حدیث اور اجماعِ امت سے ملتا ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعظیم کا حکم قرآن حکیم سے
۱۔ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللہ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللہ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًاo
(فتح:۲۹)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر ، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی حوشی یہ نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے یہ شان ہے ان کی تورات میں اور مثال ان کی انجیل میں، جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مضبوط کی، پھر موٹا ہوا، پھر کھڑا ہوگیا اپنی نال پر ، خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاکہ جلائے ان سے کافرووں کا وعدہ کیا ہے اللہ نے ان سے جو یقین لائے ہیں اور کئے بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔
۲۔ لَا يُخْزِي اللہ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ۔
(التحریم:۸)
ترجمہ: اس دن اللہ شرمندہ نہیں کرے گا نبی اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔
اسی طرح بہت سی آیات میں صحابہ کرامؓکی تعظیم کا حکم قؤرآن مجید میں دیا گیا ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعظیم کا حکم احادیث سے
احادیث میں بہت ہی کثرت سے صحابہؓ کی تعظیم کا حکم ہے، مثلاً:
۱۔ میری امت کے بہترین لوگ میرے ساتھی ہیں، پھر اس کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین۔
(بخاری:۱/۵۱۵)
۲۔ تم لوگ میرے صحابہؓ کو گالیاں نہ دو، کیونکہ تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہار کے برابر بھی سنا صدقہ کرے تو وہ بھی میرے صحابہؓ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔
(بخاری)
۳۔ میرے بعد میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنتوں پر عمل کرنا۔
(ترمذی:۲/۹۶)
اسی وجہ سے علمائے حق کا اجماع رہا ہے کہ صحابہؓ کی طرف انگلی اٹھانا اور ان کو گالیاں دینا، یہ کام آدمی کو اسلام سے خارج کردیتا ہے۔
(الدرر المضیۃ: ۲/۲۳۸۔ شرح العقیدۃ الواسطیۃ:۳،۴۔ لابن تیمیہ:۳۔ دیکھئے تذکرہ:۳۵۶۔ حقیقۃ الوحی:۸۰۔۸۲)
مزید وضاحت الکفایہ خطیب بغدادی میں اور الاصابہ ابن حجر میں دیکھ سکتے ہیں۔
نواں عقیدہ: قرآن کی بیس سے زائد آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو خطاب کیا، مگر مرزا غلام احمد نے کہا کہ سب میں مجھ کو خطاب کیا ہے۔
(اعجاز احمدی:۱۱/۲۹۱۔ دافع البلاد:۱۳)
جواب: اس عقیدہ کی مذمت قرآن میں اس طرح کی گئی ہے۔
الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللہ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَo
(انعام:۹۳)
ترجمہ: آج قیامت کے دن سخت ذلت کا عذاب تم کو دیا جائے گا جیسا کہ تم اللہ پر جھوٹ بولتے تھے اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے۔
اسی طرح حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:
عن ابن عباسؓ عن النبی ﷺ منقال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ معقدہ من نار۔
(ترمذی:۲/۱۱۹۔ و کذا فی مشکوٰۃ:۴۱۹)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن میں اپنی طرف سے کچھ کہا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
اسی طرح امت کا اجماع ہے جس کو قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے:
کذالک وقع الاجماع علی تکفیر من دافع نصّ الکتاب۔
(الشفاء:۲/۲۴۷)
ترجمہ: ایسا ہی اس شحص کے کفر پر اجماع ہے جو قرآن کو رد کرے۔
دسواں عقیدہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیاں جھوٹی نکلیں۔
(اعجاز احمدی:۱۴)
جواب: مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ اللہ جل شانہ کے حکم سے ہی کہتے ہیں تو نبی کی پیشین گوئیاں حقیقتاً اللہ کی پیشین گوئیاں ہیں اور اللہ کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں؟ یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہے: مثلاً:
۱۔ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللہ وَعْدَهُ۔
(الحج:۴۷)
ترجمہ: آپ سے وہ جلدی عذاب مانتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔
۲۔ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللہ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ o
(ابراہیم:۴۷)
ترجمہ: آپ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے جو وعدہ کرتا ہے اس کے خلاف کرے گا، ضرور اللہ غالب انتقال لینے والا ہے۔
۳۔ مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ ۔
(ق:۲۹)
ترجمہ: میرے قول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
گیارہواں عقیدہ: جہاد کا حکم اب ختم ہوگیا۔
(حاشیہ اربعین:۱۵۴۔ خطبہ البا:۲۵)
تحفہ گولڑھویہ اور تبلیغی رسالت میں یہ انکار بھی منقول ہے ؎
اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دین کا امام ہے دین کی تمام جنگوں کا اب اختتام
اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد فتویٰ فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے یہ رکھتا ہے اعتقاد
جواب: یہ عقیدہ بھی اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہے اور یہ عقیدہ رکھنا بھی ملحدانہ اور کافرانہ ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
قرآن کریم میں جہاد کا حکم
۱۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ ۔
(بقرہ:۲۱۶)
ترجمہ: تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اگرچہ وہ تم کو برا ہی لگتا ہے۔
۲۔ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللہ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ o
(بقرہ:۱۵۴)
ترجمہ: جو لوگ جہا دمیں قتل کئے گئے ہیں ان کو مردہ مت خیال کرو وہ زندہ ہیں، لیکن تم اس کا ادراک نہیں رکھتے۔
۳۔ إِنَّ اللہ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللہ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۔
(توبہ:۱۱۱)
ترجمہ: بیشک اللہ نے مومنین سے ان کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے اس عمل کے ساتھ کہ ان کو جنت ملے، وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر یہ وعدہ تورات، انجیل اور قرآن میں موجود ہے۔
اور بھی بہت سی آیات جہاد کے ثبوت پر دلادلت کرتی ہیں۔
احادیث میں جہاد کا حکم
۱۔ قال رسول اللہ ﷺ والذی نفسی بیدہ لوددتُ ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیٰ ثم اقتل ثم احیٰ ثم اقتل ثم احی ثم اقتل۔
(بخاری ومسلم و کذا فی المشکوٰۃ:۳۲۹)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے خدا کی! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں۔
۲۔ قال رسول اللہ ﷺ لن یبرح ھذا الدین قائما یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ۔
(مسلم و کذا فی مشکوٰۃ:۳۳)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ یہ دین باقی رہے گا ایک جماعت مسلمانوں کی قیامت تک جہاد کرتی رہے گی۔
بارہواں عقیدہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہیں۔
(حاشیہ ازالہ اوھام:۱۲،۱۲۱۔ حقیقۃ الوحی:۷۸)
جواب: یہ عقیدہ بھی قرآن و حدیث کے حکم کے صریح انکار کی وجہ سے کفر ہے۔ مثلاً:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ثبوت قرآن سے
۱۔ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللہ ۔
(اٰل عمران:۴۹)
ترجمہ: حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں کہ میں اللہ کی طرف سے معجزے اور نشان صداقت لایا ہوں کہ تحقیق میں بناؤں گا مٹی سے مثل شکل پرندے کی پھر پھونک ماروں گا پس وہ اللہ کے حکم سےپرندہ (زندہ) ہوجائے گا۔
۲۔ إِذْ قَالَ اللہ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔
(مائدہ:۱۱۰)
ترجمہ: جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰؑ! یاد کرو میری نعمتوں کو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوئیں، اور جب تم بناؤ مٹی سے میرے حکم سے پرندے کی شکل، پھر اس میں پھونک مارو پس وہ میرے حکم سے پرندہ ہوجائے گا۔
معجزات کا انکار کفر ہے!
جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرے اس کے لئے قرآن کا اعلان ہے:
۱۔ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ o
(لقمان:۳۲)
ترجمہ: ہماری آیات معجزات کا کوئی انکار نہیں کرے گا مگر انکار کرنے والا کافر۔
۲۔ وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ o
(اعراف:۳۶)
ترجمہ: وہ لوگ جو ہماری آیات معجزات کا انکار کرتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں وہ اہل جہنم میں سے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
یہی بات علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و کذالک وقع الاجماع علی تکفیر من دافع نص الکتاب۔
(الشفاء:۲/۲۴۷)
ایسے ہی اس شخص کے کفر پر بھی اجماع ہے جو نصِ قرآن کی مدافعت کرے۔
تیرہواں عقیدہ: رسول اللہ ﷺ کو معراج روحانی ہوئی تھی جسمانی نہیں ہوئی تھی۔
(ازالہ احکام کلاں:۱۴۴۔۱۴۷)
جواب: یہ عقیدہ بھی کہ رسول اللہ ﷺ کو اسراء (مکہ سے بیت المقدس کا سفر) جسمانی نہیں ہوئی، یہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے کفر ہے اور معراج (یعنی بیت اللہ سے آسمانوں تک کا سفر) یہ بھی قرآن میں سورۃ النجم سے ثابت ہے اور احادیث سے بھی ثابت ہے، اس میں بھی انکار قرآن کی وجہ سے کفر ہے اور احادیث کا انکار زندیقیت ہے، یہ بھی احادیث سے ثابت ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی معراج جسمانی ہے، قرآن سے اس کا ثبوت!
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ ۔
(اسراء:۱)
رسول اکرم ﷺ کی معراج جسمانی ہے، حدیث سے اس کا ثبوت!
۱۔ عن ابن عباسؓ ھی رؤیا عین اریھا رسول اللہ ﷺ لیلۃ اسری بہ ۔
(بخاری)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ معراج میں جو کچھ واقعات رسول اللہ ﷺ نے دیکھے وہ اسی آنکھ سے دیکھے ہیں۔
۲۔ عن ابی بکرؓ من روایۃ شداد بن اوسؓ انہ قال للنبی ﷺ لیلۃ اسری بہ طنیتک یا رسول اللہ البارحۃ فی مکانک فلم اجدک فاجابہ ان جبریل حملہ الی المسجد الاقصی۔
(الشفاء للقاضی عیاض:۱/۱۵۳)
ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے آپ کو کل رات آپ کے مکان پر تلاش کیا، آپ کو نہیں پایا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو جبرئیل علیہ السلام مسجد اقصیٰ کی طرف اٹھاکر لے گئے تھے۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ
من انکر المعراج ینظر ان انکر الاسراء من مکۃ الی بیت المقدس فھو کافر و لو انکر المعراج من بیت المقدس لا یکفر و ذالک لان الاسراء من الحرم الی الحرم ثابت بالاٰیۃ وھی قطعیۃ الدلالۃ والمعراج من بیت المقدس الی السماء تثبت بالسنۃ وھی ظنیۃ الروایۃ والدرایۃ۔
(شرح فقہ اکبر:۱۳۵)
ترجمہ:جس نے معراج کا انکار کیا تو دیکھا جائے گا کہ اس مکہ سے بیت المقدس کے اسراء کا انکار کیا تو وہ کافر ہوجائے گا اور اگر بیت المقدس سے آگے کا انکار کیا (یعنی آسمان پر جانے کا) تو وہ کافر نہیں ہوگا، کیونکہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر یعنی اسراء یہ تو آیت قطعی قرآنیہ سے ثابت ہے اور معراج کی بیت المقدس سے آسمان کا سفر یہ سنت سے ثابت ہے جو ظنی ہے۔
چودھواں عقیدہ: مرنے کے بعد میدان حشر نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد ہی سیدھا جنت یا جہنم میں جانا ہے۔
(ازالہ اوہام کلاں:۱۴۴۔۱۴۷)
جواب: علماء اہل حق کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی قرآن و احادیث کے خلاف ہے، قرآن میں متعدد مقامات یہ بات ثابت ہے کہ میدان حشر قائم ہوگا، حساب کتاب بھی ہوگا، انبیاء کی سفارش بھی ہوگی، مثلاً:
۱۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ o
(یٰسین:۵۱)
ترجمہ: صور پھونکا جائے گا اس وقت سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر رب کی طرف چلیں گے۔
۲۔ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى o
(طٰہٰ:۵۵)
ترجمہ: تم کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور پھر اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔
۳۔ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ o قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ o
(یٰسین:۷۸،۷۹)
ترجمہ: کہا کہ کون ہے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرے گا، کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ زندہ کیا وہی دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ہر مخلوق کو خوب جانتا ہے۔
اسی طرح متعدد احادیث سے یہ عقیدہ ثابت ہے مثلاً:
۱۔ اول من بقرع باب الجنۃ انا۔
(مسلم:۱/۱۱۲)
ترجمہ: سب سے پہلے جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹائے گا وہ میں ہوں گا۔
۲۔ آتِی باب الجنۃ یوم القیامۃ فاستفتح فیقول الخازن من انت؟ فاقول محمد! فیقول بک امرتُ ان لا افتح لاحد قبلک۔
(مسلم:۱/۱۱۲)
ترجمہ: میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا، جن کا داروغہ پوچھے کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد(ﷺ)! تو وہ کہے گا: آپ ہی کے لئے مجھے حکم ہوا ہے کہ آپﷺ سے پہلے کسی کے لئے بھی دروازہ نہ کھولوں۔
۳۔ یُحشرُ الناسُ فی صعید واحد یوم القیامۃ۔
(مشکوٰۃ:۴۸۷)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ ایک میدان میں جمع کئے جائیں گے۔
پندرہواں عقیدہ: فرشتوں کے وجود کا انکا ہے کہ فرشتے کوئی مخلوق نہیں ہیں۔
(توضیح مرام:۲۹، ۳۷)
جواب: فرشتوں کا ثبوت قرآن کی متعدد آیات سے ثابت ہے، مثلاً:
فرشتوں کا ثبوت قرآنی آیات سے
۱۔ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۔
(مریم:۶۴)
ترجمہ: (آپ نے جبرئیلؑ سے فرمایا کہ جلدی جلدی ملاقات کیا کرو، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ) ہم بغیر حکم کے نازل نہیں ہوتے۔
۲۔ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ o لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَo
(انبیاء:۲۶، ۲۷)
ترجمہ: وہ اللہ کے بندے ہیں، عزت دئے گئے ہیں، وہ کسی بات میں اللہ کے حکم سے پہل نہیں کرتے۔
۳۔ لَا يَعْصُونَ اللہ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ o
(تحریم:۶)
ترجمہ: وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی عمل کرتے ہیں جس کا ان کو حکم ہوتا ہے اور ان کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
فرشتوں کا ثبوت احادیث سے
۱۔ عن ابن عباسؓ ان النبی ﷺ قال یوم بدر ھذا جبرئیل احذ برأس فرسہ علیہ اواۃ الحرب ۔
(بخاری:۲/۵۷۰)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کے دن ارشاد فرمایا، یہ جبرئیل ہیں، جو اپنے گھوڑے کا سرپکڑے ہوئے ہتھیار پہنے ہوئے ہیں۔
۲۔ کان جبرئیل یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان فیدارسہ القراٰن۔
(بخاری:۱/۴۵۷)
ترجمہ: رمضان المبارک کی ہر رات میں حضرت جبرئیلؑ آپﷺ سے ملاقات کرتے تھے اور قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔
۳۔ عن ابن مسعودؓ یقول سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول نزل جبرئیل علیہ السلام فامّنی فصلیتُ معہ ثم صلیتُ معہ ثم صلیتُ معہ ثم صلیتُ معہ ثم صلیتُ معہ۔
(بخاری:۱/۴۵۷)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا کہ جبرئیل امینؑ نازل ہوکر مجھ کو پانچوں نمازیں پڑھائیں۔
اسی طرح مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ:
النُّصوص یحمل علی ظواھرھا و العدولُ عنھا حرامٌ۔
(میزان الکبری:۶۰۔۶۴)
ترجمہ: نصوص سے عدول کرنا بلا کسی شرعی دلیل کے قطعی حرام ہے۔
سولہواں عقیدہ: خدا اور اس کے رسولﷺ پر افتراء اور جھوٹ کا الزام (معاذ اللہ) لگایا ہے۔
(ازالہ اوہام:۳۹۸۔ انجام آثم:۲۳۳۔ حقیقۃ الوحی:۱۸۵۔ کشتئ نوح:۶)
جواب: یہ عقیدہ رکھنا بھی اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر ہے، کیونکہ قرآن و احادیث متواترہ میں کثرت سے یہ بات وارد ہوئی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سچے ہیں، جھوٹ کی نسبت ان کی طرف کرنا حرام ہے، مثلاً :
آیاتِ قرآنیہ و حدیث
۱۔ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللہ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَىo
(طٰہٰ:۶۱)
ترجمہ: تم پر افسوس ! اللہ پر افترا ء اور جھوٹ نہ بولو، ورنہ تم کو اللہ سخت عذاب سے ہلا کردے گا، جس نے افتراء کیا وہ نقصان ہی میں رہے گا۔
۲۔ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۔
(ابراھیم:۴۷)
ترجمہ: ہرگز خیال مت کرو کہ اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا۔
۳۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللہ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَo
(انعام:۹۳)
ترجمہ: آج (یعنی قیامت کے دن) سخت ذلت کا عذاب تم کو دیا جائے گا، کیونکہ تم اللہ پر جھوٹ بولتے تھے اور اللہ کی آیات سے مذاق اڑاتے تھے۔
اسی طرح احادیث متواتر میں آیا ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
۱۔ من کذب علیَّ متعمّداً فلیتبوّأ معقدہ من النار۔
(بخاری:۲۱۔ مسلم:۷۔ ترمذی:۲/۵۰۔ ابن ماجہ:۵۔ ابوداؤد و نسائی و غیرھم من کتاب الاحادیث)
ترجمہ: جس نے مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
سترہواں عقیدہ: مرزا غلام احمد تمام انبیاء کے مظہر ہیں، تمام انبیاء کے کمالات ان میں جمع ہیں۔
جواب: اس عقیدہ میں مرزا غلام احمد اپنے آپ کو تمام انبیاء کا مظہر بتاتے ہیں، اس میں اپنے آپ کے لئے نبوت بھی ثابت کرتے ہیں، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ باجماع اہل سنت کفر ہے۔
۱۔ عن ثوبانؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی۔
(بخاری:۱/۵۰۵۔ مسلم:۲/۳۹۷۔ابوداؤد:۲/۲۴۸۔ ترمذی:۲/۴۵)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، وہ سب یہ خیال کریں گے کہ وہ نبی ہیں، حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ:
۲۔ اذا لم یعرف ان محمداً رسول اللہ ﷺ آخرُ الانبیاء فلیس بمسلم ولو قال انا رسول او قال بالفارسیۃ من پیغمبر گوید بمن پیغام می یوم یکفّر۔
(فتاویٰ عالمگیری۲/۲۶۳)
ترجمہ: جو شخص یہ اعتقاد نہ رکھے کہ نبی کریم ﷺ آخر الانبیاء ہیں وہ مسلمان نہیں ہے اور اگر یہ کہا کہ میں رسول ہوں مراد پیغام رساں ہوں تب بھی وہ کافر ہوجائے گا۔
اسی طرح ابن حجر مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
۳۔ من اعتقد وحیاً بع دمحمد ﷺ کفر باجماع المسلمین۔
ترجمہ: جو شخص محمد ﷺ کے بعد کسی وحی کا اعتقاد رکھے وہ باجماعِ مسلمین کافر ہے۔
علامہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے زرقانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے:
۴۔ من ذھب الی ان النبوۃ مکتسبۃ لا تنقطع او اِلیٰ ان الولیّ افضل من النبی فھو زندیق یجب قتلہ۔
(زرقانی:۶/۱۸۸)
ترجمہ: جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ نبوت کسب و عمل سے حاصل ہوسکتی ہے اور کبھی منقطع نہ ہوگی یا یہ کہ نبی سے ولی افضل ہے تو ایسا شخص زندیق ہے، اس کو قتل کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
۵۔ و دعوی النبوّۃ بع دنبینا صلی اللہ علیہ وسلم کفرٌ بالاجماع۔
(شرح فقہ اکبر:۱۹۱)
ترجمہ: ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا باجماعِ مسلمین کفر ہے۔
اسی طرح عقائد کی تمام ہی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد پھر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ بالاجماع کافر ہے۔
اٹھارہواں عقیدہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوچکا ہے، اب وہ واپس دنیا میں نہیں آئیں گے۔
جواب: یہ بات بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ ہیں، قیامت کے قریب اتریں گے۔
حضرت عیسیٰؑ کے آسمانوں پر زندہ ہونے کا ثبوت قرآن سے
۱۔ وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا o بَلْ رَفَعَهُ اللہ إِلَيْهِ وَكَانَ اللہ عَزِيزًا حَكِيمًاo
(النساء:۱۵۷،۱۵۸)
ترجمہ: (ہم نے یہودیوں پر لعنت کی) ان کے اس قول کی وجہ سے کہ ہم نے اللہ کے رسول عیسیٰ بن مریم کو قتل کیا ہے، حالانکہ نہ انہوں نے انہیں قتل کیا ہے اور نہ سولی پر لٹکایا، لیکن ان کو شبہ میں ڈالا گیا اور جو معاملہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ خود شک میں ہیں، ان کو اس کا کچھ علم نہیں، لیکن انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰؑ کو یقیناً قتل نہیں کیا،بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
۲۔ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًاo
(النساء:۱۵۹)
ترجمہ: اور کوئی اہل کتاب نہیں مگر وہ ضرور ایمان لائیں گے عیسیٰؑ پر (قیامت کے قریب) عیسیٰؑ کی موت سے پہلے قیامت کے دن ان پر گواہ ہوں گے۔
۳۔ وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ o
(زخرف:۶۱)
ترجمہ: حضرت عیسیٰؑ یہ قیامت کی نشانیوں سے ہیں، قیامت میں شک نہ کریں اور اتباع میری کرو یہی صراطِ مستقیم ہے۔
۴۔ وَإِذْ قَالَ اللہ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللہ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ o مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللہ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ ۔
(مائدہ:۱۱۶،۱۱۷)
ترجمہ: جب قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام سے ان کے شرک کے بارے میں سوال ہوگا تو کہیں گے کہ جب تک میں ان میں موجود رہا اس وقت تک تو میں نگہبان رہا اور جب آپ نے مجھے ان سے الگ کرکے مجھ کو آسمان پر اٹھالیا اس وقت سے تو آپ ہی ان کے نگہبان تھے۔
(تفسیر ابن کثیرؒ:۳/۴۷۳۔ ابو السعود:۴/۱۰۱۔ خازن:۱/۵۴۲۔ روح المعانی:۲/۴۱۴)
حضرت عیسیٰؑ کے آسمانوں پر زندہ ہونے کا ثبوت احادیث سے
۱۔ عن علی بن ابی طالبؓ قال یقتل اللہ تعالیٰ الدجال بالشام علی عقبۃ یقال لھا عقبۃ رفیق لثلاث ساعات یمضین من النھار علی یدی عیسی بن مریم علیہ السلام۔
(کنز العمال: ۷/۲۶۷۔ حدیث نمبر:۲۹۹۸)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسی بن مریم علیہ السلام کے ہاتھ سے دجال کو شام میں تین ساعت دن چڑھے ایک گھاٹی پر جس کو رفیق کی گھاٹی کہا جاتا ہے قتل کرے گا۔
۲۔ عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ ﷺ ینزل اخی عیسی بن مریم من السمآء۔
(کنز العمال: ۷/۲۶۷۔ وکذا:۷/۲۵۹)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بھائی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔
۳۔ عن نجیح بن عاریۃ الانصاریؓ یقول سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لدّ۔
(ترمذی:۲/۴۸)
ترجمہ: حضرت نجیح بن عاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ سے سنا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو مقام لدّ کے قریب (عقبۂ رفیق پر) قتل کریں گے۔
یہ روایت سولہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔
یہی بات اجماعِ امت سے ثابت ہے، ان سب کا انکار کرنا کفر ہے۔
۴۔ اجمعتِ الامّۃ علی ان اللہ عزّ و جلّ رفع عیسیٰ الی السمآء ۔
(کتاب الابانۃ للشیخ الاشعری رحمۃ اللہ علیہ:۴۶)
ترجمہ: امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا ہے۔
(اسی طرح (۱)علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’التصریح بما تواتر فی نزول المسیح’’ میں ۷۳ احادیث اور ۱۲۷ آثارِ صحابہؓ کو جمع کیا ہے، وہ سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں، قیامت کے قریب زمین پر اتریں گے۔ (۲)ترجمان السنۃ:علامہ بدر عالم رحمۃ اللہ علیہ۔ (۳)نزولِ عیسیٰ علیہ السلا: مولانا بدر عالم رحمۃ اللہ علیہ۔ (۴) الجواب الفصیح لمنکر حیات المسیح: مولانا بدر عالم رحمۃ اللہ علیہ۔ (۵)حیات عیسیٰ علیہ السلام: مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ۔ (۶)لطائف الحکم فی اسرار نزول عیسی بن مریمؑ: مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ۔ (۷)حقیقت المسیح: مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ۔ (۸)معیار المسیح: علامہ سید محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ۔ (۹)المھدی والمسیح: مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ۔
(۱۰)نزول عیسیٰ علیہ السلام پر چند شبہات کا جواب: مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ)
۵۔ واجتمعت الامّۃ علی ان عیسی علیہ السلام حیٌّ فی السمآء ینزل الی الارض۔
(تفسیر النھرالما:۲/۴۷۳۔ و کذا بحر المحیط:۲/۴۷۳۔ تلخیص الحبیر لابن حجرؒ:۳۱۹۔ فتح البیان:۳/۳۴۴)
ترجمہ: تمام امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور زمین پر نازل ہوں گے۔
انیسواں عقیدہ: مرزا غلام احمد قرآن میں تحریف کے قائل تھے اور متعدد آیات کو انہوں نے بدل دیا۔
(البشری:۲/۱۱۹۔ براھین احمدیہ:۲۹۶، ۳۵۵۔ حقیقۃ الوحی:۲۴۸۔ نور الحق:۱/۱۰۹۔ مقدمہ حقیقت الاسلام:۳۳۰۔ روحانی خزائن:۴۳۹۔ جنگ مقدس:۱۹۴۔ تبلیغِ رسالت:۳/۱۹۴۔ ازالہ اوہام:۱/۴۷۴)
جواب: جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آج بھی جو قرآن موجود ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جو لوح محفوظ میں ہے، اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی، تغیر و تبدل اور حذف و اضافہ نہیں ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہوسکے گا اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ بالاتفاق کافر ہے، اسی کو قرآن میں فرمایا گیا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ o
(الحجر:۹)
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بے شک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔
اب آخر میں انکے کارناموں کی صرف یہ کچھ تصاویر ملاحظہ فرما لیں۔۔ یقیناً سمجھ آ جائے گی۔
جن دوستوں نے ہماری ویب سائٹ پر فتنہ دجال پر تحاریر اور دیگر اصلاحی آرٹیکلز پڑھے ہیں انھیں یقیناً فائدہ بھی ہوا ہوگا۔ ان شاءاللہ آپ کو مزید منفرد اور اہم موضوعات پر بھی بے تحاشہ اور اہم ترین آرٹیکلز پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔
آپ ہماری ویب سائٹ کو اپنے حلقہ احباب تک ضرور پہنچائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہو۔ اینٹی دجال مشن فتنہ دجال اور دیگر ملحقہ فتنوں پر پہلی ویب سائٹ ہے اور اس ویب سائٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کے صدقہ جاریہ میں شامل ہوں۔
فی امان اللہ
Share:

Islam me Auraton ke Talim (Education) ki Ahmiyat.

Talim (Education) kitni Jaruri Hai khawateen ke liye aur Islam me Talim ki Ahmiyat.
ﺗﻌﻠﯿﻢ  ( education) ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺣﻘﻮﻕ ﻧﺴﻮﺍﮞ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮨﯿﮟ . ..
ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﺮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ۔ ﺩﻭﺭَ ﺟﺪﯾﺪ ﮐﮯ ﺗﻨﺎﻇﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺕ ﻭ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺎﺩﯾﺖ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ۔ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺲ ﺑﺮﻕ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺗﺮﻗّﯽ ﮐﯽ ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﻃﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﮨﻞِ ﻋﻠﻢ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ ۔ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﻋﻠﻮﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻭ ﺗﺪﻭﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﯿﺰ ﺭﻓﺘﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻧﮕﺸﺖ ﺑﺪﻧﺪﺍﮞ ﮨﮯ ۔
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﻓﺮﺽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻃﻠﻮﻉِ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﯿﺪﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﺎﺭ ﮨﺎﺋﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﺋﮯ ﻭﮦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﭘﺮ ﺭﻗﻢ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺣﺼﻮﻝِ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩ ﻭ ﺯﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻔﺮﯾﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ۔ ﻧﺒﯽ ِﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ۔ :
ﻃﻠﺐ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻓﺮﯾﻀۃُ ﻋﻠﯽ ﮐﻞِ ﻣﺴﻠﻢ ﻭ ﻣﺴﻠﻤۃ
ﻋﻠﻢ ﮐﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ‏( ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ‏) ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻨﯽ ﻭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﻋﻠﻮﻡ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺨﺼﯿﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﺎﮦ ﺭﮨﮯ ۔
ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺁﻏﻮﺵ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎ ﺩﻡِ ﺁﺧﺮ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺑﭽّﮯ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺎ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﻣﺎﮞ ﮨﯽ ﺑﺨﻮﺑﯽ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﮑﺘﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺳﯽ ﺷﻔﻘﺖ ، ﻣﺤﺒّﺖ ﺍﻭﺭﻃﺎﻟﺐِ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﯿﺮ ﺧﻮﺍﮨﯽ ﮐﺎ ﺟﺬﺑﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮ ﺗﻮﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﺍﺣﻞ ﺁﺳﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﭘﺮ ﺍﺛﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﺎﺕ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺁﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﻧﻘﻼﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺩﻭﭼﺎﺭ ﮨﮯ ۔ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﺑﺎ ﺧﺒﺮ ﺭﮨﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔
ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺧﻄﺮﮦ ﺳﮯ ﺑﺎﺧﺒﺮ ﮨﻮﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺳﻤﯿﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﮮ ۔ ﺍﯾﮏ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﻣﻦ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺳﺎ ﺟﺎﺗﺎ ۔
ﯾﮧ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺯﯾﻮﺭ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﮨﻮﮞ، ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮐﮧ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﺳﮑﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﻤﺮﺗﺒﺖ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﯿﺎ۔ .
ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﺟﻨّﺖ ﮨﮯ ۔
ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﻦ ﮐﺮﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺪﺍﺭﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﻣّﮧ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﺳﮯ ﻧﺌﮯ ﻧﺌﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﺩﻭﭼﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺪﺍﺭﺝ ﺳﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ۔ ﺍﮔﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﻋﺎدی ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﺍﭼﮭّﮯ ﺧﺎﺻﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ جنت میں ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻋﻠﯽٰ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﻌﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮐﺖ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﻮﺛﺮ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ۔
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺮﻭﭖ ﺟﻨﻢ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﻭ ﻣﻠّﺖ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻣﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺻﺤﯿﺢ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ .. #  اور یاد رکھے کے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت ضروری ہے کیو کے تربیت کے بغیر تعلیم حاصل کرنے سے انسان نہیں بنتا اور وہ صرف کتاب میں پڑھ لینے اور ایک اچھی نوکری پا لینے سے انسان نہیں کہلاتا، تربیت ہی ہمیں اپنے چھوٹو برو کی عزت کرنا اور ان سے محبت اور شفقت سے ملنے، اپنے بزرگوں، ضعیف لوگو کا احترام کرنا، اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا، برو سے ادب سے پیش آنا، اپنے استاد کی فرمابرداری کرنا، اُنکے حکم کی تعمیل کرنا، اور صحیح غلط کا فیصلہ اپنے برو سے لیا کرنا یہ ساری چیزیں ہمیں تربیت سے آتی ہے اور تربیت کے بغیر انسان ہونا نا ممکن ہے، لہٰذا ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی چاہئے ورنہ تعلیم مکمل نہیں ہوتا۔
اللہ ہم سب کو نیک انسان بننے کی توفیق دے، ہمیں اپنے برو اور چھوٹو کی عزت کرنا سیکھا، یہ اللہ جو لوگ اپنے ماں باپ کا کہنا نہیں مانتے تو انہیں صحیح سمجھ عطا کر، ہمیں دین کی سمجھ عطا کر اور نبی کریم صلی علیہ وسلم کے نقشے قدم پے چلا، تو ہمیں قرآن و سنت پے چلا۔ آمین ثمہ آمین

Share:

Kya Aurat Fitna Hai?

Kya Aurat fitna Hai kyu Mardo Ko Isse Hoshiyar rahne ko kaha Gya hai?
ﮐﯿﺎ ﻋﻮﺭﺕ ﻓﺘﻨﮧ ﮨﮯ !
ﺗﺤﺮﯾﺮ : ﺫﮨﯿﻦ ﺍﺣﻤﻖ ﺁﺑﺎدی
ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﺯﯾﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻓﺘﻨﮧ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺘﻨﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﮨﮯ ۔ ‏( ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻭ ﻣﺴﻠﻢ ‏)
.
ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﺪﻇﻦ ﮨﻮ ﮔﺊ ﮨﻮﻧﮕﯽ ... ﻟﯿﮑﻦ ﺧﯿﺮ ... ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﭼﯿﮟ ﺑﮧ ﺟﺒﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ... ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﮦِ ﺭﺍﺳﺖ ﻓﺘﻨﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ... ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ... ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺑﻨﺪﮮ ﭘﺮ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﺑﺮﺍ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺑﺮﯼ ﮨﮯ ... ﻣﺮﺩ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻭﮨﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻨﮑﻮﺣﮧ ﮨﮯ ... ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﺘﻨﮯ ﮐﮯ ﺿﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺁﺋﯿﻨﮕﯽ ... ﻭﮦ ﺳﺐ ﺟﻮ ﻧﺎﻣﺤﺮﻡ ﮨﯿﮟ ... ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻧﯿﮏ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ... ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺍﺋﯿﺎﮞ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﺍﻗﻊ ﺑﺮﯼ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ... ﻧﺸﮧ ﺁﻭﺭ !...
.
ﺁﭖ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯﯼ ﺳﻠﻮﮎ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ... ﻧﮩﯿﮟ ... ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ... ﺟﺒﮑﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻣﺘﺎﻉ ﻧﯿﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮔﺮﺩﺍﻧﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ... ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﺟﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺑﺖ ﺗﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﺬﮐﻮﺭ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﺮ ﻓﻮﻗﯿﺖ ﺑﮧ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ... ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻮﺭۃ ﺍﻻﺣﺰﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ !...
.
ﺍﺏ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻓﺘﻨﮧ ﮐﮩﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮔﯿﺎ !... ؟ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﮦ ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ' ﻟﻮﮔﻮﮞ ' ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺟﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮔﻨﻮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮔﻨﻮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺳﻄﺤﯽ ﺣﺴﻦ ﮨﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﯼ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻔﺲ ﮐﯽ ﭼﻮﻟﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮈﮬﯿﻠﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺭﺍﻝ ﺑﮩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﺍﻗﻊ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﯽ ... ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺤﺾ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﯿﻨﭽﺘﯿﮟ ... ﺑﻠﮑﮧ ﺁﻭﺍﺯ، ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮨﺮ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻤﺎﻟﯿﺎﺗﯽ ﺣﺲ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ... ﮐﭽﮫ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭘﮑﻮ ﺍﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮨﺮ ﻣﺮﺩ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﺘﻨﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ... ﭼﻤﮏ ﺩﻣﮏ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﻮﻥ ﻧﮧ ﺑﮩﮑﮯ ﮔﺎ ... ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﮩﮑﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻨﺘﯽ ﺳﻨﻮﺭﺗﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺑﻠﮑﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﭘﯿﺶِ ﻧﻈﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺬﻣﻮﻡ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﮑﺎﺋﯿﮟ ... ﻣﮕﺮ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺍﻧﮑﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻓﺮﻕ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ ... ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﮔﺮ ﮨﯽ ﻧﺎﭘﯿﻨﮕﮯ ... ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﮔﻮﮐﮧ ﻣﻄﻤﺢ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﮑﺎ ﺷﻤﺎﻝ ﺑﻨﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ... ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺫﺍﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯼ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ !...
.
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻭﻗﺖ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺟﻮ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭘﮭﯿﮑﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﺮﺩﻭﮞ ﺑﺮﻗﻌﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﻧﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮐﺸﺶ ﺍﻧﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ... ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻣﺮﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ... ﺟﻮ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ... ﻋﺮﺻﮧ ﮨﻮﺍ ﺳﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺏ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻓﺘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ... ﺻﺤﯿﺢ ﺳﻨﺎ ﺗﮭﺎ ... ﺑﮯﺷﮏ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺩﯾﮟ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺩﯾﮟ ... ﻭﮦ ﮨﻤﮧ ﻭﻗﺖ ﺍﻥ ﮨﯽ ﮐﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮩﻤﮏ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ... ﺍﻧﮩﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﻭﮌﺗﺎ ﮨﮯ ... ﮐﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﭼﺎﮨﮯ ﮨﮉﯼ ﻣﻠﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﯽ ﻧﮑﻠﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ... ﺍﺳﮑﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﮮ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺩﯼ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺮﺽ ﮨﮯ ﺟﻮﻥ ﺳﻤﯿﺖ
" ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺗﯽ ﺣﻖ ﺗﻠﻔﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮ "!...
.
ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺫﮨﻦ ﻋﺠﺐ ﮨﺌﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ... ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺮﺩ ﺟﺐ ﺻﻨﻒِ ﻧﺎﺯﮎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﯽ ﮐﮭﻮﭘﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﭘﮑﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﮭﻠﺴﭙﮭﮯ ﮐﻮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺩﮨﮑﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻧﻔﺲ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺟﻮ ﻣﻨﺼﻮﺑﮧ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ... ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﻭ ﺯﯾﺒﺎﺋﺶ ﺗﻮ ﮐﺠﺎ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﺎﻧﻌﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ .... ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻋﺎﻣﺮ ﻋﺜﻤﺎﻧﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﻣﻼ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ ﻣﮑﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﺮﻣﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮐﮭﻮﭘﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ... ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﻮﭘﮍﯼ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﺍﻗﻊ ﭼﮭﻠﻨﯽ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﭨﮭﺎﺭﻭﯾﮟ ﺳﺎﻝ ﮨﯽ !...
ﻣﺎﺣﺼﻞ ﺍﺱ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ... ﺑﮩﺖ ﺑﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻓﺘﻨﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ ... ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﺎ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ... ﻋﺎﻡ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺣﯿﺎ ﺑﺬﺍﺕِ ﺧﻮﺩ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﮐﺸﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ... ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺷﯿﻠﮯ ﻧﻮﮐﯿﻠﮯ ﻧﻔﺴﯿﻠﮯ ﺭﺳﯿﻠﮯ ﺑﮩﮑﯿﻠﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﻠﭙﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ... ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﻧﯿﭽﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ... ﺍﯾﺴﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﮧ ﻃﺮﺯِ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﻭّﻝ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﮨﻤﮑﻼﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺷﺮﻑ ﮨﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﺘﺮﺍﺋﮯ ﻏﯿﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ... ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺍﻭﺭ ﻧﺮﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﭙﺎ ﺗﻼ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺰﯾﺪ ﺁﮔﮯ ﻧﮧ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺽ ﮨﻮ ﺑﮭﯽ ... ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ... ﺗﻮ ﺳﻨﻮ ... ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮐﺮﻭ !... ﮬﺬﺍ ﻣﺎﻋﻨﺪﯼ ... ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺍﻋﻠﻢ ﺑﺎﺻﻮﺍﺏ !...
ــــــــ۔۔ــــــــــ۔۔ــــ۔۔۔۔ــــ۔۔ــــــــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺟﺎﺕ -:
ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﻋُﺒَﻴْﺪُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺑْﻦُ ﻣُﻌَﺎﺫٍ ﺍﻟْﻌَﻨْﺒَﺮِﻱُّ، ﻭَﺳُﻮَﻳْﺪُ ﺑْﻦُ ﺳَﻌِﻴﺪٍ، ﻭَﻣُﺤَﻤَّﺪُ ﺑْﻦُ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻷَﻋْﻠَﻰ، ﺟَﻤِﻴﻌًﺎ ﻋَﻦِ ﺍﻟْﻤُﻌْﺘَﻤِﺮِ، ﻗَﺎﻝَ ﺍﺑْﻦُ ﻣُﻌَﺎﺫٍ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺍﻟْﻤُﻌْﺘَﻤِﺮُ ﺑْﻦُ ﺳُﻠَﻴْﻤَﺎﻥَ، ﻗَﺎﻝَ ﻗَﺎﻝَ ﺃَﺑِﻲ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ، ﻋَﻦْ ﺃُﺳَﺎﻣَﺔَ ﺑْﻦِ ﺯَﻳْﺪِ ﺑْﻦِ ﺣَﺎﺭِﺛَﺔَ، ﻭَﺳَﻌِﻴﺪِ ﺑْﻦِ ﺯَﻳْﺪِ ﺑْﻦِ ﻋَﻤْﺮِﻭ ﺑْﻦِ ﻧُﻔَﻴْﻞٍ، ﺃَﻧَّﻬُﻤَﺎ ﺣَﺪَّﺛَﺎ ﻋَﻦْ ﺭَﺳُﻮﻝِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃَﻧَّﻪُ ﻗَﺎﻝَ " ﻣَﺎ ﺗَﺮَﻛْﺖُ ﺑَﻌْﺪِﻱ ﻓِﻲ ﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﻓِﺘْﻨَﺔً ﺃَﺿَﺮَّ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﺮِّﺟَﺎﻝِ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻨِّﺴَﺎﺀِ " .
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ ٢٧٤١ ‏)
ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺁﺩَﻡُ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺷُﻌْﺒَﺔُ، ﻋَﻦْ ﺳُﻠَﻴْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟﺘَّﻴْﻤِﻲِّ، ﻗَﺎﻝَ ﺳَﻤِﻌْﺖُ ﺃَﺑَﺎ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟﻨَّﻬْﺪِﻱَّ، ﻋَﻦْ ﺃُﺳَﺎﻣَﺔَ ﺑْﻦِ ﺯَﻳْﺪٍ ـ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ـ ﻋَﻦِ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗَﺎﻝَ " ﻣَﺎ ﺗَﺮَﻛْﺖُ ﺑَﻌْﺪِﻱ ﻓِﺘْﻨَﺔً ﺃَﺿَﺮَّ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﺮِّﺟَﺎﻝِ ﻣِﻦَ ﺍﻟﻨِّﺴَﺎﺀِ ."
‏( ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ٥٠٩٦ )

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS