find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Eid ul Fitr. Show all posts
Showing posts with label Eid ul Fitr. Show all posts

Eid ke Din Eidgaah jane tak ki Sunnatein. Aane Aur Jane Jane Me Rasta Badal De

Eid-ul-fitr Ke Din Kiye Jane wali Sunnatein.

عیدالفطر کی سنتیں...
1. عید کا چاند دیکھ کر تکبیرات کہنا شروع کرنا۔
[قرطبی: 479/3]
2. تکبیرات:
الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد۔* [ابن ابی شیبہ: 5652]
3. نماز عیدالفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا۔
[مسلم: 984]
4. غسل کرنا۔
[بیہقی: 278/3]
5. اچھا لباس پہننا۔ [بیہقی: 281/3]
6. خوشبو لگانا اور مسواک کرنا۔
[ابن ماجہ: 1098]
7. نماز عیدالفطر سے پہلے طاق کھجوریں کھانا۔
[بخاری: 953]
8. نماز عیدالفطر کے لئے عید گاہ جانا۔
[بخاری: 956]
9. عید گاہ پیدل جانا۔ [ترمذی: 530]
10. اپنے دوست و احباب کے ساتھ عید گاہ جانا۔
[ابن خزیمہ: 1431]
11. گھر سے عید گاہ جانے تک تکبیرات کہنا۔ [بیہقی: 669/3]
12. تکبیرات:
الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد۔ [ابن ابی شیبہ: 5652]
13. نماز عیدالفطر کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔   [بخاری: 986]
14. عیدالفطر کی مبارکباد ان الفاظ میں دینا:
*تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ* -
  اور تمہاری طرف سے قبول فرمائے۔
[فتح الباری: 517/2]
[اس پوسٹ میں
رسول الله ﷺ اور ان کے
صحابہ رضی الله عنہم کی سنتیں بیان کی گئی ہے۔]
Share:

Shash Eid, (Shawwal Ke 6 Roze) Ki Fazilat

Shash Eid, (Shawwal Ke 6 Roze) Ki Fazilat

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ ⤵شش عید (شوال کے چھ روزے) کی فضیلت،ثبوت اوراحکام ⬇
عن ابي ايوب قال:‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال فذلك صيام الدهر ". وفي الباب عن جابر وابي هريرة وثوبان. قال ابو عيسى:‏‏‏‏ حديث ابي ايوب حديث حسن صحيح قال:‏‏‏‏ وقد روى عبد العزيز بن محمد عن صفوان بن سليم وسعد بن سعيد هذا الحديث عن عمر بن ثابت عن ابي ايوب عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا. وروى شعبة عن ورقاء بن عمر عن سعد بن سعيد هذا الحديث وسعد بن سعيد هو اخو يحيى بن سعيد الانصاري وقد تكلم بعض اهل الحديث في سعد بن سعيد من قبل حفظه.
سنن الترمذي ، حدیث نمبر: 759 ۔۔باب ما جاء في صيام ستة أيام من شوال ۔۔باب: شوال کے چھ دن کے روزوں کا بیان
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1716)
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
اس حدیث کو درج کرنے کے امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال:‏‏‏‏ اخبرنا الحسين بن علي الجعفي عن إسرائيل ابي موسى عن الحسن البصري قال:‏‏‏‏ كان إذا ذكر عنده صيام ستة ايام من شوال فيقول:‏‏‏‏ والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.
کہ جناب حسن بصری کے پاس جب شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ،،
مزید لکھتے ہیں
وقد استحب قوم صيام ستة ايام من شوال بهذا الحديث قال ابن المبارك:‏‏‏‏ هو حسن هو مثل صيام ثلاثة ايام من كل شهر قال ابن المبارك:‏‏‏‏ ويروى في بعض الحديث ويلحق هذا الصيام برمضان واختار ابن المبارك ان تكون ستة ايام في اول الشهر وقد روي عن ابن المبارك انه قال:‏‏‏‏ إن صام ستة ايام من شوال متفرقا فهو جائز
کئی ائمہ نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں،
اور عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۔۔ اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۲۹ (۱۱۶۴)، سنن ابی داود/ الصیام ۵۸ (۲۴۳۳)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۳ (۱۷۱۶)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵)، (تحفة الأشراف : ۳۴۸۲) (حسن صحیح)وضاحت:
شرح
۱؎ : ” ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے “ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
⭐ ریاض الصالحین : جلد دوم میں مذکور ہے
شوال کے ان چھ روزوں کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر ہے۔۔
یہ موقع بھی رمضان کی طرح سال میں ایک بار آتا ہے لہذا اس کو ضائع نہ کیا جائے کیوں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔
اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے۔۔
عن ابي ايوب الانصاري رضي الله عنه ، ان رسول ﷺ قال: من صام رمضان ، ثم اتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر (رواه مسلم ، كتاب الصيام ، رقم الحديث1164 )
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔‘‘
فوائد : الحسنة بعشر امثالها (ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گناہ ہے) کے مطابق ایک مہینے (رمضان) کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں, اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لیے جائیں جنہیں شش عید روزے کہا جاتا ہے تو یہ دو مہینے کے برابر ہوگئے یوں گویا پورے سال کے روزوں کا مستحق ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے پورے سال کے روزے رکھے اور جس کا یہ مستقل معمول ہوجائے تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گزاری وہ اللہ کے ہاں ہمیشہ روزہ رکھنے والا شمار ہوگا ۔ اس اعتبار سے یہ شش عید روزے بڑی اہمیت رکھتے ہیں گو ان کی حیثیت نفلی روزوں ہی کی ہے ۔ یہ روزے متواتر رکھ لیے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں طرح جائز ہیں ، تاہم شوال کے مہینے میں رکھنے ضروری ہیں۔ اسی طرح جن کے رمضان کے فرضی روزے بیماری یا سفر کی وجہ سے رہ گئے ہوں ، ان کیلئے ضروری ہے کہ پہلے وہ فرضی روزوں کی قضا دیں اور اس کے بعد شوال کے چھ نفلی روزے رکھیں۔
(ریاض الصالحین : جلد دوم ، مطبوع دارالسلام ریاض )​
❄ ⤵شش عیدی روزوں کی مشروعیت:ـ
ماہ رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،حدیث ہے:
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ - رضي الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ .
ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جس نے رمضان کے چھ روزے رکھے پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے،اس کو عمربھرکے روزوں کاثواب ملے گا،
[صحیح مسلم:ـکتاب الصیام :باب استحباب صوم ستة أیام من شوال اتباعا لرمضان ،رقم١١٦٤]
❄ ⤵شش عیدی روزوں کی حکمت:ـ
ماہ شوال کے ان روزوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی رقم طراز ہیں :
’’أفضل التطوع ما کان قريبا من رمضان قبله و بعده و ذلک يلتحق بصيام رمضان لقربه منه و تکون منزلته من الصيام بمنزلة السنن الرواتب مع الفرائض قبلها و بعدها فيلتحق بالفرائض في الفضل و هي تکملة لنقص الفرائض و کذلک صيام ما قبل رمضان و بعده فکما أن السنن الرواتب أفضل من التطوع المطلق بالصلاة فکذلک صيام ما قبل رمضان و بعده أفضل من صيام ما بعد منه‘‘
رمضان سے پہلے اوررمضان کے بعدسب سے بہترنفل وہ ہے جوماہ رمضان کے بالکل قریب ہو،رمضان سے قریب ترہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملادیاگیا،اورانہیں رمضان کے روزوں کے فورابعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے وبعد والی سنتوں کامقام دیاگیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملادی گئییں اوریہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہو ں گی اوررمضان سے پہلے اوربعد روزہ رکھنابھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے وبعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہترہیں
[لطائف المعارف :١٣٨١]
ٹھیک یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے چنانچہ آپ حجة اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں:’’والسر في مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب في الصلاة...‘‘ یعنی ان 6روزوں کی مشروعیت کاراز یہ ہے کہ جسطرح نماز کے سنن ونوافل ہوتے ہیں جن سےنماز کا فائدہ مکمل ہوتاہے،اسیطرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن ونوافل کےقائم مقام ہیں۔
''[حجة اللہ البالغة :١٧٦]
❄ ⤵شش عیدی روزوں کے لئے ماہ شوال کی وجہ تخصیص:ـ
رمضان کے بعد چھہ روزو ں کے لئے ماہ شوال ہی کوکیوں منتخت کیاگیا؟اس سلسلے میں علامہ عبدالرؤف المناوی فرماتے ہیں :’’وخص شوال لأنه زمن يستدعي الرغبة فيه إلي الطعام لوقوعه عقب الصوم فالصوم حينئذ أشق فثوابه أکثر‘‘
ان چھہ رورزوں کے لئے ماہ شوال کو اس لئے خاص کیاگیاکیونکہ یہ ایک ایسامہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب رہاکرتے ہیں کیونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے ہوتے ہیں ،لہٰذاجب کھانے کاشوق وخواہش شدت پرہو اوراس حالت میں روزہ رکھاجائے تواس کاثواب بھی زیادہ ہوگا''
[فیض القدیر:١٦١٦ ]
اور علامہ ابن القیم لکھتے ہیں :
’’وَقَالَ آخَرُونَ : لَمَّا کَانَ صَوْم رَمَضَان لَا بُدّ أَنْ يَقَع فِيهِ نَوْع تَقْصِير وَتَفْرِيط , وَهَضْم مِنْ حَقِّهِ وَوَاجِبِهِ نَدَبَ إِلَي صَوْم سِتَّة أَيَّام مِنْ شَوَّال , جَابِرَةٍ لَهُ , وَمُسَدِّدَة لِخَلَلِ مَا عَسَاهُ أَنْ يَقَع فِيهِ . فَجَرَتْ هَذِهِ الْأَيَّام مَجْرَي سُنَن الصَّلَوَات الَّتِي يُتَنَفَّل بِهَا بَعْدهَا جَابِرَة وَمُکَمِّلَة , وَعَلَي هَذَا : تَظْهَر فَائِدَة اِخْتِصَاصهَا بِشَوَّال , وَاَللَّه أَعْلَم‘‘
بعض اہل علم کاکہناہے کہ رمضان کے روزوں کے حقوق وواجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی وکمی ہوہی جاتی ہے ،اس لئے شوال کے چھہ روزے مستحب قراردئے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اورکمیوں کی تلافی ہوسکے گویاکہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جونمازوں میں واقع کمی وکوتاہی کودورکرنے کے لئے ہوتی ہیں ،اس سے ظاہرہوتاہے کہ ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کافائدہ کیاہے [تہذیب سنن أبی داود ویضاح مشکلاتہ:٤٩٠١]
❄ ⤵شش عیدی روزوں کے لئے عدد''چھ(٦)''کی وجہ تخصیص:ـ
شوال کے ان چھ روزوں کی تعداد صرف چھہ ہی کیوں ہے؟اس کی وضاحت حدیث میں آگئی ہے،ملاحظہ ہویہ حدیث:
’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَي رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ کَانَ تَمَامَ السَّنَةِ (مَنْ جَاء َ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا(انعام:٦/١٦٠)‘‘
ثوبان رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جس نے عید الفطرکے بعدچھ روزے رکھے تواسے پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گا،جوایک نیکی کرتاہے اسے دس نیکیوں کاثواب ملتاہے''
[سنن ابن ماجہ:ـکتاب الصوم:باب صیام ستة ایام من شوال،رقم(١٧١٥)واسنادہ صحیح]
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکی ایک نیکی دس نیکی کے برابرہے،یعنی ایک روزہ دس روزہ کے برابرہے،اس لحاظ سے رمضان کے تیس روزوں کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملالئے جائیں توکل چھتیس(٣٦)روزے ہوتے ہیں ،پھران میں ہر روزہ جب دس (١٠)روزے کے برابر ہوگا،توچھتیس (٣٦)روزے تین سوساٹھ(٣٦٠)روزوں کے برابر ہوجائیں گے،اورچونکہ ایک سال میں کم وبیش (٣٦٠)دن ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ روزے پورے سال کے روزوں کے برابرہوئے۔
درج ذیل حدیث میں اسی چیز کی مزید وضاحت ہے:
''عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: " صِيَامُ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَصِيَامُ السِّتَّةِ أَيَّامٍ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِکَ صِيَامُ السَّنَةِ "، يَعْنِي رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ،
ثوبان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رمضان کے ایک ماہ کاروزہ رکھنے سے دس(١٠)ماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اور(شوال کے)چھہ دنوں کاروزہ رکھنے سے دوماہ کے روزوں کاثواب ملتاہے،اس لحاظ سے رمضان وشوال کے مذکورہ دنوں میں روزہ رکھنے سے پورے سال بھرکے روزوں کاثواب ملتاہے''[صحیح ابن خزیمة:٢٩٨٣رقم٢١١٥واسنادہ صحیح]
اب اگرہرسال رمضان کے روزوں کے ساتھ باقاعدگی سے شوال کے چھ روزے رکھے جائیں توہرسال، پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گااوراگریہی سلسلہ عمربھررہاتوگویاکہ اس طرح عمربھر کے روزوں کاثواب ملے گا،جیساکہ مسلم کی گذشتہ حدیث میں ہے''کَصِیَامِ الدَّہْرِ''۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ شوال کے ان روزوں میں عددچھہ کی وجہ تخصیص کیاہے۔
❄ ⤵شش عیدی روزوں کورکھنے کاطریقہ:
شوال کے ان چھہ روزوں کوعید کے بعدفورارکھ سکتے ہیں اسی طرح بیچ میں اوراخیرمیں بھی رکھ سکتے ہیں ،نیزان روزوں کومسلسل بھی رکھ سکتے ہیں اورالگ الگ ناغہ کرکے بھی رکھ سکتے ہیں ،کیونکہ حدیث میں کسی بھی قسم کی کوئی تقییدوتعیین نہیں آئی ہے،علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''إذا ثبت هذا فلا فرق بين کونها متتابعة أو مفرقة في أول الشهر أو في آخره لأن الحديث ورد بها مطلقا من غير تقييد
حدیث میں شوال کے چھہ روزہ رکھنے کی فضیلت مطلقاواردہوئی ہے ،یہ روزے مسلسل ایک ساتھ رکھے جائیں یاالگ الگ ناغہ کرکے رکھے جائیں یاآخری دنوں میں ،ہرطرح جائزہے ،کیونکہ حدیث بغیرکسی تقیید کے مطلق وارد ہوئی ہے''[المغنی :١١٢٣]
''فتاوی اللجنة الدائمة''میں ہے:
سوال👇
هل صيام الأيام الستة تلزم بعد شهر رمضان عقب يوم العيد مباشرة أو يجوز بعد العيد بعدة أيام متتالية في شهر شوال أو لا؟
کیاشش عیدی روزے رمضان کے ختم ہونے پرعید کے فورابعد ہی رکھناضروری ہے یاعیدکے چند دن بعدبھی پے درپے رکھ سکتے ہیں ؟
جواب : 👇
لا يلزمه أن يصومها بعد عيد الفطر مباشرة، بل يجوز أن يبدأ صومها بعد العيد بيوم أو أيام، وأن يصومها متتالية أو متفرقة في شهر شوال حسب ما يتيسر له، والأمر في ذلک واسع، وليست فريضة بل هي سنة.
یہ روزے عید کے بعدفوراہی رکھنے ضروری نہیں ہیں ،بلکہ عید کے ایک دن بعد یاچنددنوں کے بعد بھی اسے رکھاجاسکتاہے ،اورشوال کے مہینے میں کبھی بھی مسلسل یاناغہ کرکے جس طرح بھی سہولت ہو،رکھ سکتے ہیں ،اس معاملے میں وسعت ہے،نیزیہ مسنون روزے ہیں فرض اورواجب نہیں
[فتاوی اللجنة الدائمة:ج١٠ص٣٩١ ]۔
مگرواضح رہے کہ بعض احادیث میں تسلسل کی قید بھی ہے مگروہ تمام احادیث ضعیف ہیں ،
مثلادیکھئے:سلسلة الاحادیث الضیعفة ج١١القسم الاول ص٣٠٧،٣٠٨رقم٥١٨٩۔
❄ ⤵پہلے شش عیدی روزے یارمضان کے فوت شدہ روزے_____❓
اگرشرعی عذرکی بناپرکسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے تویہ شخص پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گا،پھرشوال کے روزے رکھے گا،اس لئے کہ شوال کے ان چھہ روزوں کی فضیلت جس حدیث میں وارد ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ ''مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ''یعنی جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے ہمیشہ روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوگا،
لیکن اگرکوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضاء پہلے نہ کرسکے اورمخصوص نفلی روزوں کے وقت کے نکلنے کاڈر ہو،اس بنیادپروہ پہلے نفلی روزے رکھ لے پھربعدمیں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کرلے،تواس کے دونوں روزے صحیح ہوںگے۔
ڈاکٹرفضل الرحمن مدنی لکھتے ہیں :
''...اگرکسی نے نفلی روزے پہلے رکھ لئے اورفوت شدہ روزوں کی قضاء بعد میں کی تودونوں روزے صحیح ہوجائیں گے،لیکن اگرنفلی روزوں رکھے پھرفرض روزے نہیں رکھ سکاتواس پرمؤاخذہ ہوگا''
[فتاوی رمضان:ص٨٠،٨١] ۔
❄ ⤵شش عیدی روزوں کی قضاء شوال کے علاوہ دوسرے ماہ میں :
اگر کوئی شخص کسی عذر وغیرہ کی بناپرشوال میں شش عیدی روزے نہ رکھ سکے تو وہ شوال کے علاوہ دیگر ماہ میں ان کی قضاء نہیں کرسکتا،خ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''ولا يشرع قضاؤها بعد انسلاخ شوال ؛ لأنها سنة فات محلها سواء ترکت لعذر أو لغير عذر''یعنی شوال کامہینہ گذرجانے کے بعد ان کی قضاء مشروع نہیں ہے خواہ وہ عذر کی وجہ سے چھوٹے ہوں یابغیر عذر کے اس لئے کہ یہ روزے سنت ہیں اوران کاوقت گذرچکاہے
[مجموع فتاوی بن باز:٣٨٩١٥ ]۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Sadqat ul Fitr Ki Sharayi Haishiyat

Sadqat ul Fitr Ki Sharayi Haishiyat, SADQAT UL FITRA KE MASAIL

Sadqat ul Fitr Ki Sharayi Haishiyat, SADQAT UL FITRA KE MASAIL
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

SADQAT UL FITRA KE MSAIL, SADQA KYA HAI, RAMZAN ME KAB ZAKAT NIKALNA CHAHIYE
SADQAT UL FITR KE MASAIL
🌍 صدقةالفطر کی شرعئی حیثیت :⬇
فطرانے کی فرضیت پر اجماع ہے۔
(الاجماع لابن المنذر : ٤٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں پر فطرانہ فرض قرار دیا ہے، وہ غلام ہو ، آزاد ہو، مرد ہو ،عورت ہو،چھوٹا ہو یا بڑا ہو، فطرانے کی مقدار ایک صاع ''کھجور ''یا ''جو''ہے۔''
(صحیح البخاری : ١٥٠٣، صحیح مسلم : ٩٨٤)
👈 تنبیہ :
فطرانہ مسلمان غلام پر فرض ہے ، کافر پر نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیس فی العبد صدقۃ الّا صدقۃ الفطر ۔
''غلام پر سوائے صدقہ فطر کے زکوۃ واجب نہیں۔''(صحیح مسلم : ٩٨٢)
یہ حدیث عام ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے کہ عبد سے مراد مسلمان غلام ہے۔
👈 فائدہ :
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم بصدقۃ الفطر قبل أن تنزل
الزّکاۃ ، فلمّا نزلت الزّکاۃ لم یأمرنا ولم ینھنا ، ونحن نفعلہ ۔
''زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ منع فرمایا ، البتہ ہم اسے ادا کرتے رہے۔''
(مسند الامام احمد : ٦/٦، سنن النسائی : ٢٥٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/١٥٩٩، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٩٤) اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤١٠٠) نے ''صحیح'' کہا ہے ،
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا لا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العبادۃ لا یوجب
نسخ الأصل المزید علیہ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأموال ومحلّ زکاۃ الفطر الرّقاب ۔
''اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقہ فطر واجب نہیں رہا،
کیونکہ عبادت میں کسی اضافے سے اصل منسوخ نہیں ہوتی۔یہ فرق
بھی ملحوظ رہے کہ زکوۃ مال پر اور صدقہ فطر جان پر فرض ہے۔''
(معالم السنن : ٢/٢١٤)
اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار
كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.
۔|
شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری|
🌍 صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے ادا کیا جائے:⬇
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔
🌟 ملحوظ:
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔
🌟 یتیم اور دیوانے کا صدقہ
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘
🌟 غرباء بھی صدقۃ الفطر ادا کریں:
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،
چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو
لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اسکے
گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)
۔|
فتاویٰ علمائے حدیث​/جلد 7 صفحہ 59۔64
🌍 کیافطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزے آسمان و زمين كے مابين معلق رہتے ہيں❓⬇
تو عرض ہے کہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں
اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں "
* سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے،
* مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہےيہ
صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے"
* اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 )
ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے
" پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى
ادائيگى تک رمضان المبارك كےروزوں كى قبوليت موقوف رہیگى، توجو شخص فطرانہ
ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى
بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا.
🌍 صدقةالفطر کی جنس :⬇
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
اور اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں ۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔
🌍 صدقةالفطر کی مقدار ⬇
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
صحیح مسلم صفحہ۳۱۸ /جلد ۱
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة))(بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیح اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)
🌟 صاع نبوی کی تحقیق​ :
صاع نبوی یا صاع ابن ابی ذئب پانچ رطل اور ۳؍۱ رطل کا تھا جو انگیزی اوزان کے اعتبار سے ۲ سیر ۱۰ چھٹانک اور ۴ماشہ کے برابر ہے۔ اب انگریزی نظام کی جگہ اعشاری نظام وزن جڑ پکڑ چکا ہے۔ لہٰذا اب حضرت مفتی مولانا محمد صدیق سرگودھوی رحمہ اللہ اور دوسرے اہل علم کے مطابق ایک صاع اڑھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے، اس لئے اب غلہ کی ہر ایک جنس میں سے فی کس اڑھائی کلو گرام صدقہ فطر ادا کرنا فرض اور ضروری ہے۔
رقم اور نقدی کی صورت میں:
اگر کوئی شخص گندم یا چاول کے بجائے رقم یا نقدی کی صورت میں صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ گندم یا چاول کی جو نوع (قسم) خود کھاتا ہے وہ اس کی قیمت فی کلو گرام کے حساب سے اڑھائی کلو گرام کی قیمت ادا کرے۔مثلاً: اگر آپ پانچ روپے فی کلو گرام والا آٹا کھاتے ہیں تو آپ کو ساڑھے بارہ روپےفی کس ادا کرنے ہوں گے۔ اور اگر آپ ایک وقت چاول اور ایک وقت روٹی کھانے کا معمول رکھتے ہیں۔ اور آپ آٹا پانچ روپے فی کلو گرام کھاتے ہیں۔ اور چاول انیس روپے کلو ہوں تو اس حساب سے آپ کو تیس روپے فی کس ازراہ احتیاط ادا کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایک وقت چاول کھانے کے باوجود (صرف گندم یا) گندم کے آتے کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کر دیں گے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی تفصیل مروی نہیں کہ دونوں وقتوں کی مختلف غذاؤں کا لحاظ رکھنا ضروری ہو۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
۔|
فتاویٰ محمدیہ​ / جلد1/صفحہ 565
🌍 فطرانہ کی نقد ادائیگی :⬇
🌟 رسول اللہ ﷺ کے دور مسعود اور اسکے بعد صحابہ و تابعین کے ادوار مبارکہ میں اجناس ہی بطور قیمت استعمال ہوتی تھیں۔ درہم و دینار تھے تو وہ بھی سونے اور چاندی کی جنس سے ہی بنے ہوئے۔ جس طرح آج پیپر کرنسی, یا چپ کرنسی, یا الیکٹرانک کرنسی کا دور ہے اسکا تصور بھی اس زمانہ میں موجود نہ تھا۔ وہ لوگ اجناس کا ہی تبادلہ کرتے تھے۔ کبھی غلہ واناج کا آپس میں تبادلہ ہوتا کبھی اناج کا سونے چاندی کے ساتھ تبادلہ۔ اور اسلام میں یہی اصل کرنسی ہے, جو ڈی ویلیو نہ ہوسکے۔ مروجہ پیپر کرنسی وغیرہ تو اصل زر نہیں ہیں بلکہ یہ مالیت کی رسیدیں ہیں, شرعی طور پہ انہیں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اس وقت یہود کی سازشوں کی نتیجہ میں پوری دنیا اس بے قیمت کرنسی کے جال میں پھنس چکی ہے۔ اور مجبورا تمام تر لوگ اسے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت جو بھی شخص کوئی بھی جنس لے کر بازار جاتا اسے اس جنس کے صحیح دام ملتے اور اسکے عوض مناسب مقدار میں چیز مل جاتی ۔ لیکن عصر حاضر میں چونکہ بارٹر سسٹم (اجناس کا تبادلہ) تقریبا ختم ہو چکا ہے اور ہر شے کو روپے کے عوض ہی بیچا یا خریدا جاتا ہے , تو آج اگر کوئی مسکین جسے آپ جنس صدقہ فطر میں ادا کریں , اسکے پاس وہ جنس پہلے سے ہی وافر مقدار میں موجود ہو اور وہ اسے بیچنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کرے تو اسے اس جنس کی کم بلکہ کم ترین قیمت ملتی ہے۔ تو ایسے میں اگر آپ خود اس مسکین کے وکیل بن جائیں اور اسے اسی جنس کی بہتر بلکہ بہترین قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ اپنی دیگر حوائج ضروریہ پوری کر سکے , تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ اسلام میں کسی کا وکیل بننا یا کسی کو اپنا وکیل بنانا مستحسن امر ہے۔
۔|
أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا اللہ عنہ
🌟 فطرانہ کیلئے غذائی اجناس دینا واجب ہے، نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔ اگر فقراء غذائی اجناس قبول نہ کریں ، اور نقدی کا مطالبہ کریں تو اس وقت نقدی کی صورت میں فطرانہ دینا جائز ہوگا، اور انکا مطالبہ غذائی اجناس سے فطرانہ ادا نہ کرنے کا عذر بن سکتا ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص کو یہ علم ہو کہ فطرانہ غذائی اجناس سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن وہ نقدی کی صورت میں فطرانہ ادا کر دیتا ہے کیونکہ اس طرح اسکے لئے فطرانہ ادا کرنا آسان اور مشقت طلب نہیں ہے، تو یہ فطرانہ کفایت نہیں کریگا۔
لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ اگر کوئی ایسا فقیر نہیں ملتا جو چاول، کھجور، گندم فطرانے میں قبول کرے، بلکہ سب نقدی کا مطالبہ کرتے ہیں ، تو اس وقت نقدی سے فطرانہ ادا کرینگے، چنانچہ مناسب غذائی جنس کے ایک صاع کی قیمت کے برابر رقم ادا کردی جائے گی"انتہی
۔|
"فتاوى نور على الدرب"
🔸 چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک بہت بڑے فقیہ و امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه المتوفی362) کہتے ہیں:
أداء القيمة أفضل؛ لأنه أقرب إلى منفعة الفقير فإنه يشتري به للحال ما يحتاج إليه،
والتنصيص على الحنطة والشعير كان؛ لأن البياعات في ذلك الوقت بالمدينة يكون
بها فأما في ديارنا البياعات تجرى بالنقود، وهي أعز الأموال فالأداء منها أفضل
صدقۃ الفطر میں قیمت دینا ہی افضل ہے اس لئے کہ اس میں فقیرومحتاج کے لئے زیادہ فائدہ
ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ فوراجو چاہےخرید سکتاہے۔اور حدیث میں گیہوں،جو (وغیرہ)
کا ذکر اس لئے ہے کیونکہ اس وقت مدینہ میں خریدو فروخت انہیں چیزوں سے ہوتی تھی
(یعنی غلے اسوقت بطورکرنسی چلتےتھے) لیکن ہمارے علاقوں میں نقدی کےذریعہ خریدوفروخت
ہوتی ہے اور یہ اموال میں سب سے زیادہ عزیز ہے اس لئے اسی سے صدقہ الفطر اداء کرنا افضل ہے۔
[المبسوط للسرخسي : 3/ 107]
🔸امام محمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفرالفقيه کے بارے میں امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562) کہتے ہیں:
كان إماما فاضلا ۔۔۔ حدث بالحديث
یہ امام اورفاضل تھے ۔۔۔انہوں نے حدیث کی روایت کی
[الأنساب للسمعاني، ت المعلمي: 13/ 432]
🔸امام ذہبی(المتوفى748)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان من براعته في الفقه يقال له أبو حنيفة الصغير توفي ببخارى وكان شيخ تلك الديار في زمانه
فقہ میں آپ کی مہارت کا یہ حال تھا کہ انہیں ابوحنیفہ الصغیر کہا جاتا تھا ،
یہ بخاری میں فوت ہوئے اور اپنے زمانے میں وہاں کے شیخ تھے
[العبر في خبر من غبر 2/ 334]
🔸 امام ذہبی رحمہ اللہ دوسری کتاب میں کہتے ہیں:
من يضرب به المثل۔۔۔أخذ عنه أئمة
یہ ایسے تھے کہ ان کی مثال بیان کی جاتی تھی۔۔۔ان سے ائمہ نے علم حاصل کیا ہے۔
[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 131]
یہ حوالہ ہم اس لئے دے رہے ہیں کیوں کہ بعض حضرات نے بڑی عجلت اور انتہائی بے باکی سے یہ دعوی کردیا کہ گذشتہ چودہ سوسال کے اندر کسی نے بھی قیمت دینے کو افضل نہیں کیا ہے اورنہ کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ طعام بطور کرنسی دئے جاتے تھے ۔ہمارے پاس اوربھی حوالے ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، کیونکہ یہ حوالے اصل دلائل نہیں ہیں ۔
🌟 فطرانہ کی نقد ادائیگی شریعت کے منافی: سعودی مفتیِ اعظم​👇
سعودی عرب کے مفتیِ اعظم اور سینیر علماء کمیشن اور افتاء کونسل کے سربراہ شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ حاجت مندوں کو زکوٰۃ الفطر (صدقۂ فطر) کی نقدی کی شکل میں ادائی اسلامی شریعت کی تعلیمات کے منافی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ''زکوٰۃ فطر خوراک کی شکل میں غریبوں اور حاجت مندوں کو ادا کی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح عیدالفطر کی خوشیاں منا سکیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''زکوٰۃ الفطر نماز عید ادا کرنے سے پہلے ادا کر دی جانی چاہیے اور یہ زکوٰۃ انہی ممالک میں ادا کی جا سکتی ہے جہاں مسلمان موجود ہوں''۔
بہ الفاظ دیگر غیر مسلموں کو زکوٰۃ الفطر ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Sadqat Ul Fitr Ki Adaygi Ka Sahih Waqt

Sadqat Ul Fitr Ki Adaygi Ka Sahih Waqt

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🔵 صدقةالفطرکی ادائیگی کا صحیح وقت :⬇
فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کرنا واجب ہے؛ اسکی دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھلانے کے لئے فطرانہ مقرر فرمایا، لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے اس کا صدقہ مقبول ہوگا، اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا"
ابو داود (1609) اور ابن ماجہ (1827) نے اسے رویات کیا ہے، اورالبانی رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود وغيره میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
حدیث میں ظاہری طور پر فطرانے کیلئے وقت کی حد بندی نما ز عید کیساتھ ہے، چنانچہ جیسے ہی مقرر شدہ امام نماز سے فارغ ہوگا فطرانہ ادا کرنے کا وقت گزر جائے گا، یہاں منفرد کی نماز کا اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اگر ہم منفرد کی نماز کو معتبر سمجھتے ہیں تو اس سے وقت کی حد بندی مشکل ہوجائے گی، چنانچہ امام کی نماز کو معتبر سمجھا گیا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص گاؤں جیسی جگہ میں ہو جہاں نمازِ عید کا اہتمام نہیں ہوتا ، تو قریب ترین شہر کے وقت کے مطابق فطرانہ ادا کرینگے۔
بہوتی رحمہ اللہ کہتےہیں:
"نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کرنا افضل ہے، اور جہاں نماز عید کا اہتمام نہ ہو تو وہاں نماز عید پڑھنے کے وقت کا اندازہ لگا کر فطرانہ ادا کرنے کا وقت مقرر کیا جائے گا؛ کیونکہ ابن عمر کی حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگوں کے نماز کیلئے نکلنے سے پہلے فطرانہ ادا کیا جائے، اگرچہ ایک جماعت نے یہ بھی کہا ہے کہ : افضل یہ ہے کہ نماز کیلئے عید گاہ جاتے ہوئے فطرانہ ادا کیا جائے"انتہی
"كشاف القناع" (2/252)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 صدقۃ الفطر رمضان کے پہلے عشرے میں ادا کرنا :⬇
زکوٰۃ فطر کی اضافت فطر کی طرف ہے کیونکہ فطر ہی اس کا سبب ہے، اس لئے جب فطر رمضان ہی اس کفارے کا سبب ہے تو یہ اسی کے ساتھ مقید رہے گا، لہٰذا اس سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے لیکن اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لینے اور دینے والے دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اس سے زیادہ ایام قبل بطور پیشگی زکوۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا اس کے لیے دو وقت ہیں:
(۱) وقت جواز اور وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت ہے۔
(۲) وقت فضیلت اور وہ عید کے دن نماز سے پہلے کا وقت ہے۔ نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرنا حرام ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے:
«مَنْ اَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِیَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ اَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ» سنن ابی داود، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۲۷۔
’’جس نے اسے(صدقہ فطر)کو نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کا شمار صدقات میں سے ایک عام صدقہ میں ہوگا۔‘‘
اگر آدمی کو عید کے دن کا پتہ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا اس کا علم اسے تاخیر سے ہوپائے یہ یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں نماز عید کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔
فتاویٰ ارکان اسلام/زکوٰۃ کے مسائل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 صدقةالفطر ادا كرنے كا وقت :⬇
كيا فطرانہ كى ادائيگى كا وقت نماز عيد كے بعد سے اس دن رات تك ہے ؟
فطرانہ كا وقت نماز عيد كے بعد سے شروع نہيں ہوتا، بلكہ اس كا وقت رمضان كے آخرى دن كے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے جو كہ شوال كى پہلى رات ہوتى ہے ( اور اسے چاند رات كہا جاتا ہے ) اور يہ وقت نماز عيد كے وقت ختم ہو جاتا ہے.
اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد سے قبل فطرانہ ادا كرنے كا حكم ديا ہے.
اور اس ليے بھى كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" جس نے نماز عيد سے قبل فطرانہ ادا كيا تو يہ فطرانہ قبول ہے، اور جس نے نماز عيد كے بعد ادا كيا تو يہ عام صدقات ميں سے ايك صدقہ ہے "
سنن ابو داود ( 2 / 262 - 263 ) حديث نمبر ( 1609 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 585 ) حديث نمبر ( 1827 ) سنن دار قطنى ( 2 / 138 ) مستدرك الحاكم ( 1 / 409 ).
اور فطرانہ عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كرنا بھى جائز ہے، كيونكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رمضان سے فطرانہ فرض كيا ..... "
اور اس كے آخر ميں كہا:
" اور صحابہ كرام ايك يا دو دن قبل ہى ادا كر ديا كرتے تھے "
چنانچہ جس نے بھى عمدا وقت كے بعد ادا كيا تو وہ گنہگار ہے، اسے اس تاخير ميں توبہ كرنى چاہيے اور وہ فقراء ميں تقسيم كرے"
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء فتوى نمبر ( 2896 ).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 عيد سے ہفتہ قبل فطرانہ كى ادائيگى كرنا کیسا ہے ؟⬇
اول:
فطرانہ كى ادائيگى كے وقت ميں اہل علم كے كئى ايك اقوال ہيں:
🌟 پہلا قول:
عيد سے دو روز قبل ادا كيا جائے، مالكيہ، حنابلہ كا مسلك يہى ہے انہوں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" اور وہ عيد الفطر سے ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كيا كرتے تھے "(صحيح بخارى حديث نمبر ( 1511 ).
اور بعض علماء كا كہنا ہے كہ: عيد سے تين روز قبل فطرانہ ادا كيا جائے.
امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مجھے نافع نے بتايا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فطرانہ دے كر فطرانہ جمع كرنے والے كے پاس عيد سے دو يا تين روز قبل بھيجا كرتے تھے "
ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 385 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 14 / 216 ).
🌟 دوسرا قول:
رمضان المبارك كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، احناف كے ہاں اسى كا فتوى ہے، اور شافعيہ كے ہاں بھى يہى صحيح ہے.
ديكھيں: كتاب الام ( 2 / 75 ) المجموع ( 6 / 87 ) بدائع الصنائع ( 2 / 74 ).
ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ فطرانہ كا سبب روزہ ركھنا اور روزے ختم ہونا ہے، اور جب دونوں سببوں ميں سے كوئى ايك پايا جائے تو اس ميں جلدى كرنى جائز ہے، جس طرح مال كى زكاۃ كى ادائيگى بھى پہلے كى جا سكتى ہے، كہ جب مال نصاب كو پہنچ جائے تو سال پورا ہونے سے قبل زكاۃ دينى جائز ہے.
🌟 تيسرا قول:
سال كے شروع ميں ہى فطرانہ ادا كرنا جائز ہے، يہ بعض احناف اور بعض شافعيہ كا قول ہے، ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ يہ بھى زكاۃ ہے، تو يہ مال كى زكاۃ كى مشابہ ہونے كى بنا پر مطلقا پہلے ادا كرنا جائز ہے.
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ " المغنى " ميں لكھتے ہيں:
" فطرانہ كے فرض ہونے كا سبب روزے ختم ہونا ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اس كى اضافت ہى اس ( يعنى روزے ) كى طرف كى گئى ہے، اور اس سے مقصود ايك مخصوص وقت ميں اس سے مستغنى ہونا ہے، اس ليے اس كى وقت سے پہلے ادائيگى جائز نہيں " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 2 / 676 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 مکہ پہنچنے سےپہلے رمضان کےآغازمیں فطرانہ اداکردیا !! کیا مکہ پہنچ کر فطرانہ دوبارہ اداکرےگا؟ ⬇
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
" ميں نے مكہ آنے سے قبل مصر ميں ہى رمضان كے شروع ميں فطرانہ ادا كر ديا تھا، اور اب ميں مكہ مكرمہ ميں مقيم ہوں، تو كيا ميرے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جى ہاں آپ كے ذمہ فطرانہ كى ادائيگى ہے، كيونكہ آپ نے فطرانہ وقت سے قبل ادا كيا ہے، فطرانہ كى اضافت اس كے سبب كى جانب ہے، اور آپ چاہيں تو يہ بھى كہہ سكتے ہيں: اس كى اضافت اس كے وقت كى جانب ہے، اور ان دونوں صورتوں كى عربى لغت ميں وجوہات ہيں، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
" مكر الليل و النھار "
يہاں كسى چيز كى اس كے وقت كى طرف اضافت ہے، اور اہل علم كا كہتے ہيں: باب السجود السہو، يہ كسى چيز كى اس كے سبب كى جانب اضافت ہے.
تو يہاں فطرانہ كو فطر كى طرف مضاف كيا گيا ہے، كيونكہ يہ فطرانہ كا سبب ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ فطرانہ كى ادائيگى كا وقت ہے، اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ رمضان المبارك كے روزوں سے مكمل افطار، تو رمضان المبارك كے آخرى دن ہوتى ہے، اس ليے رمضان المبارك كے آخرى يوم كا سورج غروب ہونے سے قبل فطرانہ ادا كرنا جائز نہيں.
ليكن عيد الفطر سے صرف ايك يا دو دن قبل فطرانہ ادا كرنے كى اجازت دى گئى ہے، وگرنہ فطرانہ كى ادائيگى كا حقيقى وقت تو رمضان المبارك كے آخرى روزے كا سورج غروب ہونے كے بعد ہى ہے؛ اس ليے كہ يہى وہ وقت ہے جس سے رمضان كا اختتام ہوتا اور عيد الفطر آتى ہے، اس ليے ہم كہينگے كہ:
افضل يہى ہے کہ اگر ممكن ہو سكے تو عيد الفطر كى صبح فطرانہ ادا كیا جائے .
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن عثيمين زكاۃ الفطر سوال نمبر ( 180 )
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كاوکیل بنانا :⬇
کسی كے ليے رمضان المبارك كے شروع ميں ہى كسى خيراتى تنظيم يا بااعتماد شخص كو اپنى جانب سے فطرانہ كى ادائيگى كا وكيل بنانا جائز ہے ليكن شرط يہ ہے كہ وكيل عيد سے ايك يا دو دن قبل آپ كا فطرانہ تقسيم كرے، كيونكہ مشتحقين فقراء اور مساكين كو زكاۃ اور فطرانہ دينا ہى شرعى زكاۃ اور شريعت نے اس كى وقت كو مقيد كرتے ہوئے عيد سے ايك يا دو روز قبل مقرر كيا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 صدقۃ الفطر کی ادائیگی کس عشرہ میں ہو؟ ⬇
صدقۃ الفطر کی فرضیت کا سبب فطر رمضان ہے۔اس بنا پر صدقہ ،فطر کے ساتھ مقید ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے فطر رمضا ن سے پہلے نہیں ادا کرنا چاہیے تاہم اس کی ادائیگی کے دووقت ہیں:👇
🌟 (۱)وقت جواز ،یہ عید سے ایک یا دودن پہلے ہے یعنی اسے عید سےایک یا دودن پہلے ادا کیا جاسکتاہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے سرکاری طورپر صدقہ وصول کرنے والوں کے حوالے کردیتے تھے۔(صحیح بخاری،الزکوٰۃ:۱۵۱۱)
🌟 (۲)وقت فضیلت : یہ عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :‘‘جس نے صدقہ فطر نما زسے پہلے ادا کردیاتو یہ صدقہ قبول ہوگا اور جس نے اسے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے یعنی صدقہ فطر نہیں ہے۔’’ (سنن ابی داؤد،الزکوٰۃ:۱۶۰۹)
اگر کوئی نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے اس سے صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا۔ان تصریحات کے پیش نظر ہمارا رحجان یہ ہے کہ صدقہ فطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے ۔اہل علم کے ہاں راجح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کو اس قدر قبل ازوقت ادا کرنا درست نہیں ہے۔ (واللہ اعلم )
۔|
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد 2 /صفحہ 212
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 رمضان كى ابتدا ميں خيراتى تنظيم كو فطرانہ كى قيمت ادا كر دي⬇
🔵 كسى خيراتى تنظيم كارمضان كے ابتدا ميں فطرانہ كى رقم لينا :⬇
جب علاقے اور ملك ميں فقراء و مساكين ناپيد ہو جائيں يا پھر جو لوگ زكاۃ اور فطرانہ ليتے تھے انہيں ضرورت نہ ہو يا وہ نہ كھاتے ہوں بلكہ وہ اسے نصف قيمت مين فروخت كرنا شروع كر ديں اور فطرانہ تقسيم كرنے كے ليے كھانے والے فقراء كى تلاش مشكل ہو جائے تو پھر اسے علاقے سے منتقل كرنا جائز ہے، اور رمضان كى ابتداء ميں ہى اس كى قيمت وكيل كو ادا كرنى جائز ہے تا كہ وہ خريد كر وقت كے مطابق مستحقين تك پہنچا سكے، يعنى عيد كى رات يا عيد سے ايك يا دو يوم قبل ادا كر سكے" واللہ اعلم.
الفتاوى الجبرينيۃ فى الاعمال الدعويۃ فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين ( 33 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🔵 سستی کی وجہ سے فطرانہ ادا نہیں کیا :⬇
"فطرانے کو عید کے دن سے مؤخر کرنے کے بارے میں ابن رسلان کہتے ہیں کہ: یہ کام بالاتفاق حرام ہے؛ کیونکہ فطرانہ واجب ہے، اس لئے واجب کی تاخیر میں گناہ پایا جانا ضروری ہے، جیسے نماز کو اس کے وقت سے نکالنے پر گناہ ملتا ہے"انتہی
اس لئے جس شخص نے پہلے سے فطرانہ ادا نہیں کیا تو گذشتہ تمام سالوں کا فطرانہ ادا کرے، اور ساتھ توبہ استغفار بھی کرے، کیونکہ یہ فقراء اور مساکین کا حق ہے، اس لئے مساکین تک انکا حق پہنچنے سے ہی ادا ہوگا۔
اس موقف پر ائمہ اربعہ متفق ہیں۔
🌟چنانچہ احناف میں سے عبادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر فطرانہ عید کے دن سے بھی مؤخر کردیں تو فطرانہ ساقط نہیں ہوگا، انہیں ادا کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ چاہے [عدم ادائیگی کی مدت] کتنی ہی لمبی ہوجائے" انتہی
"الجوهرة النيرة" (1/135)
🌟 اسی طرح [مالکی فقہ کی کتاب] "مواهب الجليل شرح مختصر خليل" (2/376) میں ہے کہ:
"وقت گزرنے سے فطرانہ ساقط نہیں ہوتا، اور کتاب: "المدوّنہ" میں ہے کہ: اگر صاحب استطاعت فطرانہ کی ادئیگی مؤخر کردے تو اسے گذشتہ [عدم ادائیگی والے] سالوں کی بھی ادائیگی کرنی ہوگی"انتہی
🌟 اور [فقہ شافعی کی کتاب] "مغنی المحتاج" (2/112) میں ہے کہ:
"بلا عذر عید کے دن سے فطرانہ مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، [اور عذر یہ ہے کہ] مال فی الحال موجود نہ ہو، یا مستحقین افراد نہ ملیں، [مؤخر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تاخیر سے]فطرانے کی حکمت ہی فوت ہوجائے گی، اور وہ یہ ہے کہ خوشی کے دن فقراء کو گداگری و مانگنے کا موقع ہی نہ دیا جائے، چنانچہ اگر کوئی بنا عذر مؤخر کریگا ، گناہگار ہوگا، اور فطرانہ قضا بھی دینا ہوگا"انتہی
🌟 اور [حنبلی فقیہ] مرداوی "الإنصاف" (3/177) میں کہتے ہیں کہ:
" چاہے کوئی فوت بھی ہوجائے فطرانہ واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتا ، میرے علم میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے"انتہی
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:❓
"ایسے شخص کا کیا حکم ہے جو استطاعت کے باوجود فطرانہ ادا نہیں کرتا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
جس شخص نے فطرانہ ادا نہیں کیا اسے چاہئے کہ اللہ تعالی سے توبہ استغفار کرے؛ کیونکہ فطرانہ کی عدم ادائیگی سے وہ گناہگار ہوچکا ہے، اور اب مستحقین کو فطرانہ پہنچائے، اور فطرانہ عید کی نماز کے بعد عام صدقات کی طرح ایک صدقہ شمار کیا جائےگا"انتہی
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
🔵 فطرانہ کسی دوسرے ملک میں بھیجنا :⬇
"ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ، اس طریقے سے فطرانہ ادا ہوجائے گا، لیکن جہاں اقامت پذیر ہوں وہیں پر فطرانہ ادا کرنا افضل ہے، چنانچہ جس جگہ مقیم ہوں وہیں پر کچھ فقراء کو دے دیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے، اور اگر اپنے اہل خانہ کو بھیج دیتے ہیں تا کہ وہ وہیں پر فقراء میں تقیسم کردیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے"انتہی
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

EID KA NAMAZ KAHAN PADHNA CHAHIYE

EID KA NAMAZ KAHAN PADHNA CHAHIYE

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ عید کی نماز کہاں پڑھی جائے :⬇
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عیدین کی نمازکھلے میدان میں پڑھتےتھے۔کسی چاردیواری یامسجد وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکبھی نمازِ عیدین ادا نہیں فرمائی ۔باوجود یہ کہ مسجدنبوی میں ایک رکعت کا ثواب عام مسجد سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن آپؐ نے کبھی بھی اپنی مسجد میں بھی نمازعید ادا نہیں فرمائی (بجز عذرِ باراں) ۔
⭐ حضرت ابو سعیدخدریؓ سےروایت ہے۔وہ بیان کرتے ہیں
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطراورعیدالضحیٰ کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔ “
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ، باب الخروج الیٰ المصلی بغیرمنبر ، ح ٩٥٦ )
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ
جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏""أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ
لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نکلے اور ( عیدگاہ ) میں دو رکعت نماز عید
پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
⭐ حضرت ابن عباسؓ سے مروی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ "أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،
وَلَوْلَا مَكَانِي مِنَ الصِّغَرِ مَا شَهِدْتُهُ حَتَّى أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏
ثُمَّ خَطَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُنَّ
يَهْوِينَ بِأَيْدِيهِنَّ يَقْذِفْنَهُ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَبِلَالٌ إِلَى بَيْتِهِ"".
کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور
اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا ۔
آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔آپ نے وہاں نماز پڑھائی
پھر خطبہ دیا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے ۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی
تھے۔آپ نے انہیں وعظ اورنصیحت کی اورصدقہ کےلیےکہا۔چنانچہ میں نے دیکھاکہ عورتیں
اپنےہاتھوں سے بلال رضی اللہ عنہ کےکپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ گھر واپس ہوئے۔
⭐ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ""، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِي حَدِيثِ
حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سےبھی اسی طرح روایت کی ہے۔حفصہ رضی اللہ عنہاکی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ
دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
أَخْبَرَنِي نَافِعٌ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ
بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےآگےآگےلے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ،حدیث ٩٧٣ )
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏
فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔
کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔ یہ سب مردوں کےپیچھےپردہ
میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس
دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَ هُمْ قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ،عَنْ جَابِرِ
بْنِ عَبْدِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِفَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ"
آپ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن
عیدگاہ تشریف لے گئے تو پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ سنایا۔
لہٰذا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ کھلے میدان میں نمازِ عیدادا کرنا مسنون ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھلے میدان میں عیدکی نماز ادا فرماتے تھے۔لہٰذا میدان میں نماز پڑھنا مسنون اور افضل ہے۔کسی عذر یا بارش کے بغیرمسقف مسجدمیں نمازِ عید پڑھنا درست نہیں۔امام مالکؒ کے نزدیک میدان افضل ہے۔اس کےلیے انہوں نے دو دلائل سے استدلال کیا ہے
؎١ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عید کی نماز کھلےمیدان میں پڑھی ۔اور جس کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی اختیارکریں وہ مقام افضلیت سےنہیں اتر سکتا ۔
؎٢ دوسری دلیل یہ ہے کہ
” حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان کی طرف نکلے اور فرمایا
لَوۡ لاَ اَنَّہُ السُّنَّةُ لَصَلَّیۡتُ فِیۡ المَسۡجِدِ
اگر میدان کی طرف نکلنا مسنون نہ ہوتاتومیں نمازمسجد میں پڑھتا
❄ بعذر بارش مسجد میں صلاةالعید کی صورت میں تحیةالمسجد :⬇
نما زِعید اگر مسجد میں پڑھی جائے تو عمومِ حدیث کے پیش نظر تحیة المسجد پڑھنی چاہئے۔
بارش وغیرہ کی صورت میں نماز عید کا اہتمام مسجد میں کرنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیةالمسجد کا اہتمام کرنا لازم ہے ۔ چنانچہ عام صورت میں تحیةالمسجد کے التزام کے ٹھوس دلائل سے انحراف کے عذر نہیں تراشے جاتے ۔ لیکن عید کے دن عوام الناس یہ بہانہ بنا کرکہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاةالعید سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے، لہٰذا عید کے دن مسجد میں بیٹھنے سے قبل تحیةالمسجد پڑھنا ضروری نہیں ، جبکہ شریعت کی رو سے عیدین و غیر عیدین میں مسجد میں بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنا شرط ہے ۔ تحیّةالمسجد ایک سببی نماز ہے جو کسی وقت یا دن کے ساتھ خاص نہیں ۔ اسکی دلیل حسب ذیل ہے👇
⭐ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ"".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
صحيح بخاري/كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
بَابُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ:
باب: جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
حدیث نمبر: 444
❄ عید کی نماز اور خواتین ⬇
نماز عیدین عورتوں پر بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے ۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
عَنْ اُمِّ عَطِیّۃَ قَا لَتْ : اُمِرْ نَا اَنْ نُخْرِجَ الحُیّضَ یَومَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَالْمُسْلِمِیْنَ وَ دَعْو تَھُمْ ،وَ تَعْتَزِلُ الُحیّضُ عَنْ مُصَلّاَ ھُنَّ ، قَالَتِ امْرَ اۃُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِحْدَانَا لَیْس لَھَا جِلْبَابُ ۔ قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَا حِبَتُھَا مِنْ جِلْبَا بِھَا ۔
​ترجمہ ! ام ِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ عورتوں اور پردہ نشین لڑکیوں (کوُاریوں کو جوخدر میں بیٹھتی ہیں) کو بھی باہر (عید کے میدان میں ) لے جائیں ، تاکہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ دعاؤں میں شامل ہو سکیں ، البتہ حائضہ عورتوں کو صلوٰۃ کی جگہ سے علیحدہ رکھیں ۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ! ہم مین بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کیلئے ) چادر نہیں ہوتی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنی چادر کا ایک حصّہ اسے اوڑھا دے ۔
( صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب )

اے ایمان والو! غور کرو کہ عورتوں کا عید گاہ میں جانا کتنا ضروری ہے ،نماز نہ پڑھنے کے شریعی عذر ہونے کے باوجود ان عورتوں کو بھی رخصت نہیں دی گئی اور وہ لڑکیاں جو عرب کے دستور کے مطابق اپنا زیادہ تر وقت پردہ (خدر) کے پیچھے گزارتی تھیں ان کو بھی نکال کر عید کے میدان میں لانے کا حکم یہ ظاہر کر رہا ہےکہ ہر ایک کا عید کے میدان میں حاضر ہونا اشد ضروری ہے ۔
اے ایمان والو ! صلوٰۃ العیدین میں عورتوں کا جانا حکم رسول ﷺ سے ثابت ہے ۔
کیا آج کل اس حکم رسولﷺ پر یہ امت عمل کررہی ہے ؟؟؟
یوں تو زبانی رسول اللہ ﷺ کا کلمہ تو سبھی پڑھتے ہیں مگر اکثریت فرمان رسولﷺ پرعمل نہیں کرتے کیا یہی ایمان بالرسالت ہے کہ زبانی دعویٰ امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت کا مگر عمل دوسروں کے اقوال پر ، ہر فرقہ وارانہ مذاہب کا امام الگ الگ کیوں ہے ؟
کیا یہ سب ایک امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی و اطاعت پر اکٹھے نہیں ہو سکتے جن کو اللہ تعالیٰ نے امام مقرر کیا ہے ۔؟؟؟
اے ایمان والو!
ذرا غور کیجیئے کہ جو لوگ عورتوں کو صلوٰۃ العیدین کے اجتماع میں جانے کے لیئے منع کرتے ہیں جو کہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لیئے اللہ کے رسول ﷺ کا حکم بھی ہے ، مگر شادی بیاہ کی جاہلانہ رسموں میں گانے بجانے کی محفلوں میں جانے کی اجازت تو عام ہے اور خوشی سے دیتے ہیں اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔
⭐عورت کا عیدگاہ جانا صحیح احادیث سے ثابت ہے 👇
نبی ﷺ نے عورتوں کو عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا لہذا خواتین کو نماز عید میں شریک ہونا چاہئےخواہ بوڑھی ہو جوان، شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اور بالغہ ہو یا نابالغہ یہاں تک آپ ﷺ نے حائضہ کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکے ۔
⭐ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا
الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ .قُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .
(صحیح البخاري :324وصحیح مسلم :890)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور
عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور
پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سےالگ رہیں لیکن
وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں،میں نےعرض کی یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سےکسی ایک کےپاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔ "
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ،
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏"كُنَّانُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَمِنْ خِدْرِهَا
حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ
يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں
جانےکاحکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اورحائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔
یہ سب مردوں کے پیچھےپردہ میں رہتیں۔جب مرد تکبیر کہتےتویہ بھی کہتیں
اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل
کرنے کی امید رکھتیں۔ (صحیح البخاری #971 )
اس لئے عید کے دن خواتین کے لئے افضل ہے کہ وہ عیدگاہ جائیں ۔ ذمہ داروں کو چاہئے کہ خواتین کے لئے الگ سے خیمے کا انتظام کرے تاکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکے ۔ خواتین کا الگ سے عید کی نماز ادا کرنا مشروع نہیں ہے ۔
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏
قَالَ:‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ:‏‏‏‏ "أُمِرْنَا أَنْ نَخْرُجَ فَنُخْرِجَ الْحُيَّضَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ،
قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:‏‏‏‏أَوِ الْعَوَاتِقَ ذَوَاتِ الْخُدُورِ، ‏‏‏‏فَأَمَّاالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَالْمُسْلِمِينَ
وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلْنَ مُصَلَّاهُمْ"".
ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عیدگاہ لے
جائیں ابن عون نےکہاکہ یا(حدیث میں)پردہ والی دوشیزائیں ہےالبتہ حائضہ
عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں شریک ہوں اور ( نماز سے )
الگ رہیں۔( صحیح البخاری صحیح حدیث # ٩٨١)
ان احادیث سےثابت ہواکہ مردوں کےعلاوہ مستورات کابھی عیدگاہ میں جاکرنمازعیدمیں شریک ہونا مسنون ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں
” شوکت اسلام کے لیے تمام افراد کا عورتوں اور بچوں سمیت عیدگاہ میں جانا مستحب ہے۔ “ (حجة اللہ البالغہ)
حافظ ابن حجرؒ نےاس مسئلہ پر تمام صحابہ اکرامؓ کا اجماع نقل کیا ہے ۔( فتح الباری )
البتہ اس سنت پر عمل کرنےکےلیے مندرجہ ذیل امورکوپیش نظر رکھنا چاہیے ۔
👈* عورتیں باپردہ ،سادہ لباس میں عیدگاہ جائیں اور مہکنے والی خوشبو وغیرہ سے اجتناب کریں ۔
👈* ظاہری آرائش وزیبائش سے بھی گریزکریں وگرنہ نیکی برباد گناہ لازم کے مترادف ہوگا ۔
👈* راستہ کے ایک طرف ہوکرچلیں اور مردوں سے اختلاط سے پرہیز کریں ۔
👈* عید گاہ میں تکبیرات اور ذکرالہیٰ میں مصروف رہیں اورادھرادھرکی باتوں میں وقت ضایع نہ کریں ۔
👈* شور وغل کرنےوالے شرارتی بچوں کوساتھ نہ لائیں جو نمازیوں کےلیےپریشانی کاسبب بنیں ۔
👈* عورتوں کا عیدگاہ جا کربناؤ سنگھارکی نمائش کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔عورتوں کو عام حالات میں بھی ان احکامات کا پابند کیا گیا ہے کہ
⭐وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا
مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَایُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّالِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ
اَوۡاٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤاِخۡوَانِہِنَّ اَوۡبَنِیۡۤ
اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ
الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ
وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ سورة النور ....۳۱﴾
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت
میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے
اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کوکسی کے سامنے
ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والدیا اپنے خسر کے یااپنےلڑکوں کے
یا اپنےخاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوںکے یااپنے بھانجوں
کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کےیا غلاموں کے یاایسےنوکر چاکر مردوں کےجو
شہوت والےنہ ہوں یاایسےبچوں کےجو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں
اوراس طرح زورزورسے پاؤں مارکرنہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے
،اےمسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔
👈* خوشبو لگا کرباہر نکلنا بھی عورت کے لیے جائز نہیں ہے ۔اورجو ایسا کرتی ہےوہ شریعت کی نظرمیں بدکار ہے۔
اگرکوئی عورت مذکورہ بالا احکامات کی خلاف ورزی کرتےہوئے نماز عید یا عام نماز کےلیے گھرسے باہرنکلے تو سرپرست کو چاہیے کہ انہیں روک دے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک ہے بصورت دیگروہ باہرجانے کے لیے ایسی عورتوں پر پابندی لگادیں ۔ عورت کو شمع محفل بننے کے بجائے چراغ خانہ بننا چاہیے تاکہ اسکی چادراور چاردیواری کا تحفظ ہو ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

EID KE NAMAZ KA SAHIH TARIQA

EID KE NAMAZ KA SAHIH TARIQA

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🔹 تکبیراتِ عیدین کے ساتھ رفیع الیدین 👇
تکبیرات عیدین کے ساتھ رفیع الیدین کرنےکی بابت محدثین اکرام ” امام ابن المنذرؒ اور امام بیہقیؒ نے سیدنا ابن عمرؓ کی حدیث سےاستدلال کیا ہے۔جس میں ہے کہ ” اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہررکعت اور تکبیر کے ساتھ جو رکوع سےپہلے ہے
دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔“ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان محدثین کا مخالف نہیں ۔اور یہ استدلال قوی ہے۔اس بارے میں ائمہ کےاقوال بھی ملتےہیں۔
جیساکہ عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا” کیا امام نماز عیدین میں ہرتکبیرکےساتھ رفیع الیدین کرے ؟ انہوں نے جواب دیا ” ہاں وہ رفیع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں ۔
(المصنف ،لعبدالزاق ٢٩٧/٣ )
نیز امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ تکبیراتِ عیدین کے موقعہ پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ سنا نہیں۔
( الفریابی بحوالہ ارواء الغلیل ١١٣/٣ ) امام شافعیؒ اور امام بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں ۔(الامام ٢٣٧/١ )
لہٰذا تکبیرات عید کے ساتھ رفیع الیدین کرنا بہتر ہے ۔
🔹 تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار :
👈 ۱:امام عبدالرحمن بن عمر و الاوز اعی الشامی رحمہ اللہ =ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
‘‘قلت للأّ وزاعی : فأرفع یدي کرفعي فی تکبیرۃ الصلوۃ؟قال: نعم، ارفع یدیک مع کلھن’’ میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں(عید میں) رفع یدین کروں ، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔(احکام العیدین للفریابی: ۱۳۶و إسنادہ صحیح)
👈 ۲:امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ= ولید بن مسلم سے روایت ہے کہ:
‘‘سألت مالک بن أنس عن ذلک فقال: نعم، ارفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئاً’’
میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں ، ہر تکبیر کےس اتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔(احکام العیدین:۱۳۷، و إسنادہ صحیح)
تنبیہ: امام مالک کا ‘‘ ولم أسمع فیہ شیئاً’’ دو باتوں پر ہی محمول ہے۔
اول: میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔
دوم: میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔
اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزھری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
تنبیہ:۲: مجموع شرح المہزب للنووی(۵؍۲۶)الاوسط لابن المنذر (۴؍۲۸۲) اور غیر مستند کتاب المدونہ (۱؍۱۶۹)وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند و بے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
👈 ۳: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ =دیکھئے کتاب الام(ج۱ص۲۳۷)
👈 ۴: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ=دیکھئے مسائل الامام احمد، روایۃ ابی داود (ص۶۰)
👈 ۵:امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ=دیکھئے تاریخ ابن معین(روایۃ الدوری:۲۲۸۴)
معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اور شام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی(کذاب؍کتاب الضعفاء للعقیلی:۴ ؍۵۲و سندہ صحیح، الحدیث حضرو: ۷ص۱۷) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے، دیکھئے کتاب الاصل (۱؍۳۷۴ ، ۳۷۵)والا وسط لابن المنذر(۴؍۲۸۲) سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفیع الیدین کے قائل نہیں تھے
(مجموع : ۵؍۲۶والا وسط: ۴؍۲۸۲)یہ قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
بعض حنفیوں نے بغیر کسی سند متصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔ یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔
👈 ۱:بے سند ہے۔
👈 ۲: قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘ألا تعجبون من یعقوب، یقول علي مالا أقول’’ کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر للبخاری ج ۲ص ۲۱۰و فیات: عشر إلی تسعین و مائتہ ؍ و إسنادہ حسن ولہ شواہد‘‘فالخبر صحیح’’ انظر تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص ۱۲۲ت ۴۲۵) معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذاب سمجھتے تھے۔
تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔ (مصنف عبدالرزاق۳؍۲۹۷ح۵۶۹۹) اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ھمامدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔ سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ۳؍۲۹۳) یہ روایت ان دونوں سندوں کےساتھ ضعیف ہے۔
اختتام بحث: تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری ، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔ وما علینا إلا البلاغ۔
🔹 طریقہ نماز 👇
⭐ وضو کرکے قبلےکی طرف منہ کریں اور ” اَللہُ اَکۡبَرۡ “ کہتے ہوئے رفیع الیدین کریں ۔
( صحیح البخاری ، الاذان ، حدیث ٧٣٨ )
⭐ پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعاء استفتاح پڑھیں ۔
⭐ پھردعائے استفتاح پڑھ کرقرآت سےپہلے ٹھہرٹھہرکرسات تکبیریں کہیں۔
(حسن ، سنن ابی داؤد، الصلاة ،باب التکبیرفی العیدین ،حدیث ١١٥١
وسندہ حسن۔امام احمداورعلی بن مدینی نےاسےصحیح کہا ہے۔ )
⭐ پھرامام اونچی آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے ” الحمد شریف “ پڑھیں۔
⭐ پھر امام اونچی آواز سے قرآت کرے اور مقتدی چپ چاپ سنیں ۔
⭐ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےعیدالضحیٰ اورعیدالفطر میں قٓ ۟ ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾۔اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾ پڑھاکرتےتھے۔
⭐ ایک اورروایت میں سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾اورہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾پڑھنےکابھی ذکرآیاہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ
عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ مَا كَانَ يَقْرَأُبِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ فَقَالَ كَانَ يَقْرَأُ فِيهِمَابِق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِوَاقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
مالک نےضمرہ بن سعید مازنی سےاورانھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سےروایت کی کہ حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو واقدلیثی سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ اور
عید الفطر میں کون سی سورت قراءت فرماتے تھے ؟ توانھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان
دونوں میں سورہ ق وَالْقُرْ‌آنِ الْمَجِيدِ اور سورہ اقْتَرَ‌بَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ‌ پڑھا کرتے تھے ۔
( صحیح مسلم ،صلاة العیدین ،حدیث ٨٩١ ۔ والجمعة ، حدیث ٨٧٨ )
⭐ بہتر ہے کہ سورة الفاتحہ کے بعد مسنون قرآت کی جائے ۔جب پہلی رکعت پڑھ کر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں اور قیام کی تکبیرکہہ لیں تو قرآت شروع کرنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏عَنْ
عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُفِي الْفِطْرِسَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا .
اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں
اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اوردونوں میں قرأت تکبیر ( زوائد )کے بعد ہے ۔
( حسن ، سنن ابی داؤد ، الصلاة ، باب التکبیر فی العیدین ، حدیث ١١٥١،
وسندہ حسن ، امام احمدؒ نے اسے صحیح کہا ۔)
⭐ پھر دو رکعتیں پڑھ کرسلام پھیر دیں ۔
❄ خطبہ عید ⬇
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے كثير بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے روايت بيان كى ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين ميں پہلى ركعت ميں سات تكبيريں اور دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيريں قرآت سے قبل كہيں.
امام ترمذى كہتے ہيں:
ميں نے محمد ـ يعنى بخارى رحمہ للہ تعالى ـ سے اس حديث كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا:
اس باب ميں اس حديث سے زيادہ صحيح كوئى نہيں.
اور ميں بھى يہى كہتا ہوں. اھـ
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز سے مكمل كر ليتے تو لوگوں كى طرح رخ كر كے كھڑے ہو جاتے، اور لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے رہتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں وعظ و نصحيت كرتے، اور انہيں حكم ديتے اور منع كرتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، يا پھر كسى چيز كا حكم دينا ہوتا تو اس كا حكم ديتے.
عيدگاہ ميں منبر نہيں ہوتا تھا جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چڑھ كر خطبہ ديتے، بلكہ لوگوں كے سامنے زمين پر كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے.
اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى كے دن عيدگاہ جاتے اور سب سے پہلے نماز پڑھاتے، اور نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كى سامنے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے تو لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے"
اس حديث كو مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سارے خطبے الحمد للہ سے شروع كرتے تھے، اور كسى بھى حديث ميں يہ بيان نہيں ملتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين كا خطبہ تكبير سے شروع كيا ہو.
لہٰذا نماز کے بعد امام مرد و خواتین کو وعظ و نصیحت کرے ۔ خطبہ صحیح قول کی روشنی میں سنت ہے، واجب نہیں ہے ۔ عید کی نماز کےبعد نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
⭐ مَن أحبَّ أن ينصرفَ فلينصرِفْ ، ومن أحبَّ أن يُقيمَ للخطبةِ فليُقِمْ۔
جو لوٹنا پسند کرے وہ لوٹ جائے اور جو خطبہ کے لئے رکنا چاہے وہ رک جائے۔
(صحيح النسائي:1570)
👈٭ جمعہ کی طرح اس کا سننا واجب نہیں لیکن وعظ ونصیحت کو سنے بغیر جانا بھی نہیں چاہئے۔
👈٭ عید کا ایک ہی خطبہ حدیث سے ثابت ہے ۔
👈٭ خطبہ کھڑے ہوکر دینا ہے اور بغیر منبر کے دینا ہے ۔
( دیکھیے صحیح لبخاری ، العیدین حدیث ٩٥٦ ۔وصحیح مسلم، صلاة العیدین حدیث ٨٨٩ )
👈٭ خطبہ کے بعد یا نماز عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا لہذا اس نئی ایجاد سے بچنا چاہئے۔
❄ عید کی مبارک باد ⬇
ہمارے معاشرےمیں جس دھوم دھام سےعید کے بعد مصافحہ و معانقہ کیا جاتا ہےاور ایکدوسرےسے بغلگیرہواجاتاہے یہ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اجمعینؓ سے بلکل ثابت نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
” جس عمل پرہماری طرف سےکوئی امرنہ ہو وہ رد کردینے کے قابل ہے ۔“
(صحیح مسلم ، الاقضیہ ، ٤٤٩٣ )
مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ سے کسی نے عیدکےدن مصافحہ و معانقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نےبڑےجامع الفاظ میں فرمایا
” مصافحہ بعداز سلام آیا ہے۔عید کے روز بھی بنیتِ تکمیل سلام ، مصافحہ
تو جائز ہےلیکن بنیت خصوص عید ، بدعت ہے۔کیونکہ زمانہ رسالت و
خلافت میں یہ طریقہ مروج نہیں تھا ۔“
( فتاوٰی ثنائیہ ، جلد ١ ، صفحہ ٤٥٠ )
امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا کہ لوگ عیدین کےمواقع پر ”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “سےایکدوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔اسکی شرعئی حیثیت کیا ہے۔آپ نے فرمایا
” ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔کیونکہ اہل شام اسے ابوامامہ باہلیؒ سے
اسے بیان کرتے ہیں ۔اسکی سند جیّد ہے ۔“
عید کےدن مبارک باد کی بابت فضیلة الشیخ محمدبن صالح العثیمینؒ رقمطراز ہیں
” عید کی مبارک باد دیناجائز ہے لیکن اسکے لیے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ۔
لوگوں کا جو بھی معمول ہو وہ جائز ہے ۔بشرطیکہ گناہ نہ ہو ۔“
( فتاوٰی ارکانِ اسلام )
امام ابن تیمیہؒ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کے موقعہ پر ایکدوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں کیا شرعئی طور پر اسکی کوئی بنیاد ہے ؟ اگر ہے تو اسکی وضاحت فرمائیں ۔امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا
” عید کے دن نماز کےبعد”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد
دی جا سکتی ہے ۔کیونکہ چند ایک صحابہؓ سے یہ عمل مروی ہے ۔ اور امام احمد
بن حنبلؒ جیسے ائمہ اکرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے ۔اس کے متعلق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم یا نہی مروی نہیں ہے ۔ اس لیے
اس کےکرنے میں یا نہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے ۔“
( فتاوٰی ابن تیمیہؒ ، جلد ٢٤ ، صفحہ ٢٥٣ )
امام ابن تیمیہؒ نے جن صحابہ اکرامؓ کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں
⭐(1) * حضرت جبیر بن معطمؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ اکرامؓ جب عیدکےدن ملتے تو
” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد دیتے تھے ۔“
( فتح الباری ، جلد ٣ ،صفحہ ٤٤٦ )
⭐(2) * محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور دیگر صحابہ اکرامؓ کے
ہمراہ تھا ۔جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے توانہوں نے ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ“
کے ساتھ ایکدوسرے کو مبارک باد دی ۔
( الجواہر المقعی ، جلد ٣ ، صفحہ ٣٢٠ )
ان روایات کے پیش نظرمذکورہ الفاظ ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ“ سے مبارک باد تو دی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ ومعانقہ یا گلے ملنا ایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔اور کتب احادیث سے بعض روایات ایسی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت محسوس ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتایاگیا ہے۔لیکن وہ روایات محدثین کے معیارصحت پر پوری نہیں اترتیں ۔( سنن بیہقی ٣٢/٣ )
❄ عید کی اڈوانس میں مبارکبادی دینے کا حکم ⬇
سنت سےعید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔ مبارکبادی کے الفاظ ہیں : تقبل اللہ منا ومنک۔ کوئی عید مبارک کے الفاظ کہتا ہے تو بھی درست ہے ۔جہاں تک عید کی مبارکبادی دینا قبل از وقت تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ، عید کی مبارکبادی تو عید کے دن ،عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئےکہ اللہ کے فضل کے سبب ہمیں عید ومسرت میسر ہوئی ۔اس سلسلے میں بعض علماء ایک دودن پہلے تہنیت پیش کرنے کے قائل ہیں مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عید سے پہلے مبارکبادی پیش کرنے کو سنت کی مخالف کہی جائے کیونکہ لوگ اس وقت ہرچیز کے لئے مبارک پیش کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کتنے دنوں پہلے سے ہی ۔ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ کم اور مبارکبادی پیش کرنے کا رواج زیادہ ہوتا نظر آرہاہے ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے عید سے ایک دودن پہلے مبارکبادی پیش کرنے کے متعلق سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیاکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،مبارکبادی توعید کے دن یا عید کے بعد والے دن مباح ہے لیکن عید کے دن سے پہلے مبارکبادی دینے سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ اسلاف سے کچھ ثابت ہے تو پھر لوگ عید سے پہلے کیسے تہنیت پیش کرتےہیں جس کے متعلق کچھ ثبوت نہیں ہے ۔(مقبول احمدسلفی)
❄ عید کی مبارک باد میں ” عیدکارڈ “ کی شرعئی حیثیت⬇
آج کل کے معاشرےمیں یہ رواج بہت عام ہو گیا کہ رمضان میں عید سے قبل بے شمار عید کارڈز بازاروں میں برائے فروخت آجاتے ہیں ۔ان میں کچھ اسلامی ، کچھ ہندو پاک کے فلمی ہیروز اور ہیروئینز کی نا شائستہ تصاویر ، کچھ کرکٹرز کی تصاویر اور کچھ برہنہ عورتوں کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ہرکوئی اپنے اپنے ذوق و فطرت کے مطابق کارڈ خرید کر اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اور پیاروں کو بھیجتے ہیں۔یہ عمل سراسر غلط ہے۔عید کارڈز کی یہ روایت بھی دراصل عیسائیوں کے کرسمس کارڈز کی مشابہت ہے ۔عید کی مبارکباد بے شک ارسال کی جاسکتی ہے ، لیکن اس کے لیے کارڈز بھیجنا عیسائیوں کی تہذیب اپنانا ہے۔ارشاد نبوی ہے
مَنۡ تَشَبَّہَ بِقَوۡمٍ فَھُوَا مِنۡھُمۡ
” جس نے کسی قوم سےمشابہت اختیارکی وہ انہی میں سے ہے۔“
❄ نمازعید اور قضا ⬇
٭ اگر کسی کو ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی ،جو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ۔ نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Eid Ke Namaz Ke Masail, Eid Ki Namaz padhne Ka Sahih Tariqa

Eid Ke Namaz Ke Masail, Eid Ki Namaz padhne Ka Sahih Tariqa

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ عورت کا دوسری عوتوں کی الگ جماعت کرانا ⬇
عورت دوسری عورتوں کی علیحدہ جماعت نہیں کرا سکتی ۔کیونکہ عورتوں کا عید گاہ کی نماز مَردوں سےالگ پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ اتنی بات ثابت ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ شاید آپؐ عورتوں کو عید کا خطبہ نہیں سنا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کے موقعہ پر پھربعدمیں الگ وعظ فرمایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏بِمَعْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَشَى إِلَيْهِنَّ
وَبِلَالٌ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ فِي
ثَوْبِ بِلَالٍ.
اس میں یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ آپ عورتوں کو نہیں
سنا سکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے اور بلال رضی اللہ
عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے،آپ نے انہیں وعظ ونصیحت کی اور صدقہ کاحکم
دیا، تو عورتیں بالی اور انگوٹھی بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔
(دیکھیے بخاری ، کتاب العیدین ، باب موعظة الامام النساء یوم عید )
❄ تکبیراتِ عید کا وقت ⬇
حافظ ابن حجرؒ تکبیرات کے وقت ، ابتدء وانتہا کے بارےمیں فرماتےہیں کہ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔صحابہؓ سے جوسب سے زیادہ صحیح روایت مروی ہے وہ سیّدنا علی کا قول ہے۔
⭐ سیّدنا حضرت علیؓ عرفہ کے دن نو ذاالحجة کی فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة کی عصرتک تکبیرات کہتے۔
( دیکھیے (صحیح ) السنن الکبریٰ للبیہقی ، صلاة العیدین ، باب من استحب ان یبتدی بالتکبیر
خلف صلاة الصبح ، ٣١٤/٣ حدیث ، ٢٦٧٥ ، امام حاکم نےالمستدرک٢٩٩/١ میں اور
حافظ ذہبیؒ نےاسےصحیح کہا ہے ۔اسکی سند صحیح ہے )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ عیدالفطرکےدن گھر سےعیدگاہ تک باآواز بلند تکبیرات کہتے ۔
( السنن الکبریٰ للبیہقیؒ ، صلاة العیدین ، باب التکبیر لیلة الفطر ویوم الفطر٢٧٩/٣ ،
ح ٦١٢٩ ،امام بیہقیؒ فرماتےہیں کہ حدیث ابن عمرموقوفًا صحیح ہے۔اسکی سندحسن ہے)
⭐ امام زہریؒ کہتے ہیں کہ لوگ عیدکےدن اپنےگھروں سے عیدگاہ تک تکبیرات کہتے ۔پھر امام کےساتھ تکبیرات کہتے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٨/١،ح ٥٦٢٨ ، وسندہ صحیح )
⭐ سیدنا عبداللہ بن عبّاسؓ نو ذوالحجة نماز فجرسےلےکرتیرہ ذوالحجة عصر تک ان الفاظوں میں تکبیرات کہتے
اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اللہ سب سےبڑا ہے، بہت بڑا ہے، اللہ سب سےبڑا ہے،بہت بڑا
اللہ سب سے بڑا ہے، اورسب سےزیادہ صاحب جلال ہے ، اللہ
سب سےبڑاہے۔اور اللہ ہی کےلیے ساری تعریف ہے ۔
( دیکھیے المصنف لابن ابی شیبہ ; ٤٨٩/١،ح ٥٦٤٥، وسندہ صحیح ٤٩٠/١حدیث ٥٦٥٤ ،
وسندہ صحیح ، امام حاکم نے المستدرک ٢٩٩/١ میں اور ذہبیؒ نے اسے صحیح کہا ہے ۔)
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی
ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
(البقرة:185)
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
⭐(1)اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
⭐(2) اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
⭐(3) اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
⭐(4) اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
⭐(5) اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔
❄ عید گاہ کس طرح جایا جائے ⬇
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ
بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ
خَالَفَ الطَّرِيقَ""، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فُلَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَال مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏عَن فُلَيْحٍ،
عَنْ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ جَابِرٍ أَصَحُّ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل
کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے
اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
(صحيح البخاري:986)
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔
(جاری ہے )
❄ عید کا روزہ⬇
⭐ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی
کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(صحيح مسلم:1138)
⭐ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي
سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ
وَالنَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الصَّمَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی
اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔
(صحیح حدیث ،صحیح البخاری ، ١٩٩١ )
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""يُنْهَى
عَنْ صِيَامَيْنِ وَبَيْعَتَيْنِ:‏‏‏‏ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُلَامَسَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَابَذَةِ"".
آپ نے فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت
سے منع فرمایا ہے۔ عیدالفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت
کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔
( صحیح البخاری ، حدیث ١٩٩٣ ).
❄ عید کے دن کھانا ⬇
کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ
اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ""، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ:‏‏‏‏
حَدَّثَنِي أَنَسٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاء نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا،
کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان
کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔
(صحيح البخاري:953)
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔
۔
❄ عید کی نماز :⬇
نماز عیدین کی آذان و اقامت نہیں
قَالَ قَالَ وَأَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا
بُويِعَ لَهُ""إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ"".
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو
اس زمانہ میں بھیجا جب ( شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا آپ نے
کہلایا کہ ) عیدالفطر کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز
کے بعد ہوتا تھا۔
( صحیح البخاری ، العیدین ،باب صلاة العیدین )
⭐سیدنا جابرؓ نے فرمایا
” نماز عید کے لیے آذان ہے نہ تکبیر ، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز “
( صحیح المسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین ، حدیث ٨٨٦ )
⭐ عیدین میں پہلے نماز عید پڑھی جائیگی اور نماز کے بعد خطبہ دیا جائے گا
قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "شَهِدْتُ
الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے
ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے گیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز
پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔
( دیکھیےصحیح البخاری ، العیدین ، باب الخطبة بعدالعید ، حدیث ٩٦٢ ،
وصحیح مسلم ، صلاة العیدین ، باب کتاب صلاة العیدین حدیث ٨٨٤ )
⭐ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں سوائے عید کی دورکعتوں کےنہ پہلےنفل پڑھےاور نہ بعد میں
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،
‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏""أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ
قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ تُلْقِي
الْمَرْأَةُ خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی
نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر ( خطبہ پڑھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس
آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا خیرات
کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کرنے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی۔
(صحیح البخاری ، العیدین ،باب الصلاة قبل العید وبعدھا )
🔹 عیدین کی بارہ تکبیریں :
مسند الامام احمد اور سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ :
" عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: أن النبي -صلي الله عليه وسلم -كبّر في عيدٍ ثنْتَيْ عَشْرة تكبيرة، سبعا في الأولى، وخمساً في الآخرة، ولم يصلّ قبلها ولا بعدها۔ ( مسند احمد ، 6688 بتحقیق احمد شاکر ،، ابن ماجه مترجم ج ۱ کتاب اقامة الصلوة باب ماجاء فی کم یکبر الامام فی الصلوة العیدین ص ۶۳۴ رقم الحدیث ۱۳۷۷)
سیدنا عبد اللہ عمرو ؓ روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ’پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
اور مسند امام احمد میں اس حدیث کے امام احمدؒ کے بیٹے جناب عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں :
[قال عبد الله بن أحمد]: قال أبي: وأنا أذهب إلى هذا."
میرے والد گرامی امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا بھی یہی مذہب ہے
اس کے حاشیہ میں مصر کے مشہور محقق عالم جناب احمد شاکر لکھتے ہیں :
إسناده صحيح، عبد الله بن عبد الرحمن بن يعلى بن كعب الثقفي الطائفي: ثقة: وثقه ابن المديني والعجلي
یعنی اس کی سند صحیح ہے ؛
اور علامہ نووی " المجموع " میں لکھتے ہیں :واحتج أصحابنا بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " كبر في الأولى سبعا وفي الثانية خمسا " رواه أبو داود وغيره وصححوه كما سبق بيانه وعن جماعة من الصحابة عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله رواه أبو داود
ہمارے شافعی فقہاء نے نماز عید میں بارہ تکبروں کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو کی حدیث سے لی ہے ،جس میں صآف مروی ہے کہ نبی کریم پہلی رکعت میں سات ، اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ، اس کو ابوداود اور دیگر محدثین نے نقل فرمایا ہے ،اور اس کو صحیح کہا ہے ،اور کئی ایک صحابہ کرام نے یہی بات رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے "
اور علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں :ورواه أحمد وأبو داود وابن ماجه والدارقطني من حديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده وصححه أحمد وعلي والبخاري فيما حكاه الترمذي
یعنی اس حدیث کو امام احمد ؒ اور علی بن مدینی ؒ اور امام بخاری ؒ نے صحیح کہا ہے جیسا کہ ترمذیؒ نے نقل کیا ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ترمذی ؒ بارہ تکبیرات کی ایک حدیث لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :
"وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ،
یعنی اہل مدینہ کا یہی قول ہے ، امام مالک ، امام شافعی ؒ ،امام احمد بن حنبلؒ، اور امام اسحاق بن راھویہ ؒ کا بھی یہی قول ہے (کہ نماز عید میں بارہ تکبیریں زائد کہی جائیں )
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Eid Ke Namaz Ke Masail, Ahkam Eid ul Fitr

Eid Ke Namaz Ke Masail, Ahkam Eid ul Fitr

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 احکامِ عیدالفطر : ⬇
❄🌙رویت ہلال: ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ)
یعنین۲۹ دنوں پر رمضان کا اختتام کر کے عید الفطر شروع کرنے کیلئے کم از کم ۲ گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
(فإن شهد شاهدان فصوموا وأفطروا)
رواه أحمد 18416 والنسائي 2116
اس کے علاوہ حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے آپ فرماتے ہیں:
(عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنابشهادتهما)
رواه أبو داود 2338
❄🌙رویت ہلال کی دعا:⬇
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» (ترمذی)
سنن الترمذی ، مسند احمد 1397 ، سنن الدارمی 1730 ،امام طبرانیؒ نے الدعاء 903 ،امام ابوبکر ابن السنی ؒ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے ))
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي
بِلالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ
كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلاَلَ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے
تھے تو کہتے تھے: ”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور
اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
سنن الترمذي (3451 )
شیخ الالبانیؒ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے ، اور شیخ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک ضعیف ہے ، جیساکہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے
👈 قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3451) إسناده ضعيف ¤ سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما
👈 قال الشيخ الألباني: صحيح،
الصحيحة (1816) ، الكلم الطيب (161 / 114)
❄ صدقۃ الفطر: انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیںَ اس لئے رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر فرض کیا، تاکہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں، جس طرح رمضان مبارک کے روزے فرض ہیں اسی طرح صدقۃ الفطر فرض ہے۔
⭐صدقۃ الفطر کس پر فرض ہے؟ 👇
ہر مسلمان پر چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، روزہ رکھتا ہو یا نہ، جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ نماز عید سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہے کہ مساکین کو اس روز سوال سے بے نیاز کر دیا جائے۔
⭐صدقۃ الفطر کس وقت دیا جائے؟ 👇
1۔ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔
2۔ اگر عید کے بعد ادا کیا تو صدقہ فطر شمار نہ ہو گا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر عید جانے سے پہلے ادا کرو۔ (بخاری)
3۔ عید سے دو تین روز پیشتر ادا کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ دو دن پہلے ہی صدقہ فطر مساکین کو دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)
موطا امام مالک میں روایت ہے کہ ابن عمرؓ صدقہ فطر عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیتے جس کے پاس جمع ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اور زکوٰۃ ایک جگہ جمع ہو کر بصورت بیت المال صاحب حاجات پر تقسیم کی جائے تو نہایت بہتر ہے۔ اس سے بڑے بڑے اسلامی کام نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اس کا احساس پیدا کرے۔ آمین۔
❄ شبِ عید میں عبادت کی حقیقت :⬇
شب عید ( چاند رات ) میں عبادت کی فضیلت کے ضمن میں دو احادیث پیش کی جاتی ہیں
⭐ 1- حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمَرَّارُ بْنُ حَمُّويَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ»
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى
كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے"
یہ👆 روایت سنن ابن ماجہ بایں طور مروی ہے
سنن ابن ماجہ : 1782
⭐اسکی سند بقیہ بن ولید کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور متن منکر و موضوع ہے! اس مضمون کی کوئی بھی روایت شدید ضعف سے خالی نہیں ہے۔
⭐یہ روایت موضوع(من گھڑت ) ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی ” عمربن ہارون بلخی “ ہے۔جس کےمتعلق علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ
” ابن معین نے اس کوکذاب کہا ہے۔اور محدثین کی جماعت نے اسے متروک قراردیا ہے ۔“
( تلخیص المستدرک ٨٧/٤ )
⭐علامہ ذہبیؒ نے ایک مقام پراس راوی کےلیے ”کذاب خبیث “ کے الفاظ بھی استعمال کیےہیں۔(میزان الاعتدال٢٢٨/٢)
⭐علامہ البانیؒ نےبھی اس روایت کو خودساختہ قرار دیاہے۔ (السلسلة الاحادیث ضعیفہ١١/٢ )
اسی طرح کی ایک روایت ابن ماجہ میں بھی ہے۔وہ بھی بقیہ بن ولید نامی راوی کی وجہ سےسخت ضعیف ہے۔کیونکہ یہ راوی مدلس ہے۔محدثین نےاسکی تدلیس سےاجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔علامہ البانیؒ نےاس روایت کوسخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے ۔ السلسلة الاحادیث الضعیفہ ١١/٢ )
⭐ 2- مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ : لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ
عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔“
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
( منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 182)
موضوع (من گھڑت):
یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
⭐ الحاصل :
لہذا عیدین کی راتوں میں کوئی خاص عبادت کرنا درست نہیں ہے۔
❄مسنونات عید : ⬇
غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔
❄ عید کی شرعئی حیثیت اوراس کا صحیح وقت ⬇
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔
شیخ ابو صالح العثیمینؒ رقمطرازہیں
” نماز عید فرض عین ہے لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعًا نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کوبھی نماز عیدکےلیے باہرنکلنے کا حکم دیا۔حتّیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کوبھی (عید کی دعا میں شرکت کےلیے ) نکلنے کا حکم دیا۔البتہ وہ عیدگاہ سے الگ تھلگ رہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کی بہت یادہ تاکید ہے۔
لہٰذا یہ نماز فرض عین ہے اور یہی قول راجح ہے۔اسی قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اختیار کیا ہے۔لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے ۔اگرفوت ہو جائے تواسکی قضا ادا نہیں کی جائیگی۔کیونکہ وجوبِ قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔لہٰذا اسکے بدلےکوئی نماز نہیں پڑھی جائیگی۔البتہ نماز جمعہ کے فوت ہونےکی صورت میں نماز ظہرادا کرنا واجب ہے۔کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے۔لیکن نمازِ عید کےفوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضاء نہیں ہے۔
❄ نمازِ عید کا صحیح وقت ⬇
امام بخاری نے تعلیقًا اورامام داؤد اورامام ابن ماجہ نے موصولاً حدیث روایت فرمائی ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ
أَوْ أَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .
صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید
الاضحیکے دن نکلے ، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو نا پسند کیا اور کہا :ہم تو
اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔
(ابو داؤد ، الجمعہ ، باب وقت الخروج الیٰ العید )
راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا ۔تو ثابت ہوا کہ سورج طلوع ہوجائے اور کراہت والا وقت گزرجائے ، سورج اچھی طرح روشن ہوجائے اور چمکنے لگے تو نمازِ عیدکا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔یعنی سورج کارنگ سفید ہوجائے ،کراہت کا وقت گزر جائے تو وقتِ نماز عیدالفطر تیار ہو جاتا ہے۔پوری کوشش کی جائے کہ عید کی نماز جلدی پڑھی جائے ۔عبداللہ بن بسرؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے بخوبی پتا چل رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے اور آپؐ تاخیر نہیں کرتے تھے۔
👈 (1)ایک روایت اس طرح سے آئی ہے ۔
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي بنا يومَ الفطرِ والشمسُ على قيدِ رُمحيْنِ والأضحَى على قيدِ رُمْحٍ(ارواء الغلیل: 3/101)
ترجمہ: نبی ﷺ ہمیں عیدالفطر کی نماز دونیزے کے برابر سورج ہونے پرپڑھاتے اور عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ پر ہوتا ۔
شیخ البانی اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں معلی بن ہلال کے کذب پر سارے نقاد کا اتقاق ہے۔ دیکھیں ارواء الغلیل کا مذکورہ حوالہ۔
👈 (2)ایک دوسری روایت اس قسم کی ہے ۔
أنَّ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - كتب إلى عمرو بنِ حَزْمٍ وهو بِنَجْرانَ : عَجِّلِ الأضحى وأَخِّرِ الفِطرَ وذَكِّرِ الناسَ۔
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے والی نجران عمروبن حزم کو لکھا کہ وہ عیدالاضحی میں جلدی اور عیدالفطر میں تاخیر کریں اور لوگوں کو (خطبہ میں) نصیحت کریں۔
یہ مرسل روایت ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہےاورشیخ البانی نے کہا کہ اس میں مہتم روای ہے ۔ دیکھیں (تخريج مشكاة المصابيح:1394)
کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور ہمیں اوپرمعلوم ہوا کہ نمازعیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنا چاہئے ۔
جناب ابوعمیر بن انس اپنے چچوں سے ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ، بیان کرتے ہیں:
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم(صحيح أبي داود:1157)
ترجمہ: ایک قافلے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ ہم نے کل شام کو چاند دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور اگلے دن صبح کو عید گاہ میں پہنچیں ۔
❄ جمعہ کے دن عید کی صورت میں نمازِ جمعہ کا کیا حکم ہے؟ ⬇
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ
ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف
(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی
نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں
پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔
لہٰذاجو شخص جمعہ کےدن نماز عیدپڑھ لے تواسے رخصت ہےکہ جمعہ نہ پڑھے ۔البتہ امام کے لیے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے ۔تاکہ مسجدمیں آنے والوں اور عید نہ پڑھ سکنے والوں کو جمعہ پڑھایا جائے۔اور اگر صورت حال یہ ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ آئے تو جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائےگا۔اور امام کو نمازظہر پڑھنی ہو گی ۔
استدلال سنن ابی داؤد کی اس روایت سے ہے جو ایاس بن ابی رملہ شامی سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ
الشَّامِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ أَشَهِدْتَ
مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ صَنَعَ؟
قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى الْعِيدَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ .
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں
جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر
آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر
جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎ ۔
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاة ، باب اذا وافق یوم الجمعة یوم عید ، حدیث ١٠٧٠ )
ابو داؤد نے سنن ہی میں ایک اورحدیث بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَطَاءٌ:‏‏‏‏ اجْتَمَعَ يَوْمُ
جُمُعَةٍ وَيَوْمُ فِطْرٍ عَلَى عَهْدِابْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عِيدَانِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَمَعَهُمَا جَمِيعًا
فَصَلَّاهُمَا رَكْعَتَيْنِ بُكْرَةً لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِمَا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہوگئے
تو آپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھرآپ نے دونوں کو ملا کر
صبح کے وقت صرف دورکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی ۱؎۔
(سنن ابی داؤد ،صحیح حدیث ١٠٧٠ )
حضرت نعمان بن بشیرؓ سےروایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏
عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ،
‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَقَرَأَ بِهِمَا .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں اور جمعہ کے روز «سبح اسم ربك الأعلى»
اور«هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور بسا اوقات عید اور جمعہ دونوں
ایک ہی دن پڑ جاتا تو ( بھی ) انہیں دونوں کو پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم ، کتاب الجمعہ ، ح ٨٧٨ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو جمعہ کی رخصت ہے کہ جمعہ پڑھا جائے یا ظہرادا کی جائے ۔اور جو شخص نماز عید تو پڑھے مگرجمعہ نہ پڑھے تو اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ان دلائل کے عموم سے ثابت ہےجن میں واضح ہے کہ جو شخص نماز جمعہ نہ پڑھ سکے وہ نماز ظہر ادا کرے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS