Eid Ke Namaz Ke Masail, Ahkam Eid ul Fitr
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 احکامِ عیدالفطر : ⬇
❄🌙رویت ہلال: ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ)
یعنین۲۹ دنوں پر رمضان کا اختتام کر کے عید الفطر شروع کرنے کیلئے کم از کم ۲ گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
(فإن شهد شاهدان فصوموا وأفطروا)
رواه أحمد 18416 والنسائي 2116
اس کے علاوہ حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے آپ فرماتے ہیں:
(عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنابشهادتهما)
رواه أبو داود 2338
❄🌙رویت ہلال کی دعا:⬇
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» (ترمذی)
سنن الترمذی ، مسند احمد 1397 ، سنن الدارمی 1730 ،امام طبرانیؒ نے الدعاء 903 ،امام ابوبکر ابن السنی ؒ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے ))
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي
بِلالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ
كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلاَلَ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے
تھے تو کہتے تھے: ”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور
اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
سنن الترمذي (3451 )
شیخ الالبانیؒ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے ، اور شیخ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک ضعیف ہے ، جیساکہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے
👈 قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3451) إسناده ضعيف ¤ سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما
👈 قال الشيخ الألباني: صحيح،
الصحيحة (1816) ، الكلم الطيب (161 / 114)
❄ صدقۃ الفطر: انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیںَ اس لئے رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر فرض کیا، تاکہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں، جس طرح رمضان مبارک کے روزے فرض ہیں اسی طرح صدقۃ الفطر فرض ہے۔
⭐صدقۃ الفطر کس پر فرض ہے؟ 👇
ہر مسلمان پر چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، روزہ رکھتا ہو یا نہ، جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ نماز عید سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہے کہ مساکین کو اس روز سوال سے بے نیاز کر دیا جائے۔
⭐صدقۃ الفطر کس وقت دیا جائے؟ 👇
1۔ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔
2۔ اگر عید کے بعد ادا کیا تو صدقہ فطر شمار نہ ہو گا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر عید جانے سے پہلے ادا کرو۔ (بخاری)
3۔ عید سے دو تین روز پیشتر ادا کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ دو دن پہلے ہی صدقہ فطر مساکین کو دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)
موطا امام مالک میں روایت ہے کہ ابن عمرؓ صدقہ فطر عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیتے جس کے پاس جمع ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اور زکوٰۃ ایک جگہ جمع ہو کر بصورت بیت المال صاحب حاجات پر تقسیم کی جائے تو نہایت بہتر ہے۔ اس سے بڑے بڑے اسلامی کام نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اس کا احساس پیدا کرے۔ آمین۔
❄ شبِ عید میں عبادت کی حقیقت :⬇
شب عید ( چاند رات ) میں عبادت کی فضیلت کے ضمن میں دو احادیث پیش کی جاتی ہیں
⭐ 1- حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمَرَّارُ بْنُ حَمُّويَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ»
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى
كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے"
یہ👆 روایت سنن ابن ماجہ بایں طور مروی ہے
سنن ابن ماجہ : 1782
⭐اسکی سند بقیہ بن ولید کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور متن منکر و موضوع ہے! اس مضمون کی کوئی بھی روایت شدید ضعف سے خالی نہیں ہے۔
⭐یہ روایت موضوع(من گھڑت ) ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی ” عمربن ہارون بلخی “ ہے۔جس کےمتعلق علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ
” ابن معین نے اس کوکذاب کہا ہے۔اور محدثین کی جماعت نے اسے متروک قراردیا ہے ۔“
( تلخیص المستدرک ٨٧/٤ )
⭐علامہ ذہبیؒ نے ایک مقام پراس راوی کےلیے ”کذاب خبیث “ کے الفاظ بھی استعمال کیےہیں۔(میزان الاعتدال٢٢٨/٢)
⭐علامہ البانیؒ نےبھی اس روایت کو خودساختہ قرار دیاہے۔ (السلسلة الاحادیث ضعیفہ١١/٢ )
اسی طرح کی ایک روایت ابن ماجہ میں بھی ہے۔وہ بھی بقیہ بن ولید نامی راوی کی وجہ سےسخت ضعیف ہے۔کیونکہ یہ راوی مدلس ہے۔محدثین نےاسکی تدلیس سےاجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔علامہ البانیؒ نےاس روایت کوسخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے ۔ السلسلة الاحادیث الضعیفہ ١١/٢ )
⭐ 2- مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ : لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ
عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔“
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
( منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 182)
موضوع (من گھڑت):
یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
⭐ الحاصل :
لہذا عیدین کی راتوں میں کوئی خاص عبادت کرنا درست نہیں ہے۔
❄مسنونات عید : ⬇
غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔
❄ عید کی شرعئی حیثیت اوراس کا صحیح وقت ⬇
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔
شیخ ابو صالح العثیمینؒ رقمطرازہیں
” نماز عید فرض عین ہے لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعًا نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کوبھی نماز عیدکےلیے باہرنکلنے کا حکم دیا۔حتّیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کوبھی (عید کی دعا میں شرکت کےلیے ) نکلنے کا حکم دیا۔البتہ وہ عیدگاہ سے الگ تھلگ رہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کی بہت یادہ تاکید ہے۔
لہٰذا یہ نماز فرض عین ہے اور یہی قول راجح ہے۔اسی قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اختیار کیا ہے۔لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے ۔اگرفوت ہو جائے تواسکی قضا ادا نہیں کی جائیگی۔کیونکہ وجوبِ قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔لہٰذا اسکے بدلےکوئی نماز نہیں پڑھی جائیگی۔البتہ نماز جمعہ کے فوت ہونےکی صورت میں نماز ظہرادا کرنا واجب ہے۔کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے۔لیکن نمازِ عید کےفوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضاء نہیں ہے۔
❄ نمازِ عید کا صحیح وقت ⬇
امام بخاری نے تعلیقًا اورامام داؤد اورامام ابن ماجہ نے موصولاً حدیث روایت فرمائی ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ، قَالَ:
خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ
أَوْ أَضْحَى، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .
صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید
الاضحیکے دن نکلے ، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو نا پسند کیا اور کہا :ہم تو
اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔
(ابو داؤد ، الجمعہ ، باب وقت الخروج الیٰ العید )
راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا ۔تو ثابت ہوا کہ سورج طلوع ہوجائے اور کراہت والا وقت گزرجائے ، سورج اچھی طرح روشن ہوجائے اور چمکنے لگے تو نمازِ عیدکا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔یعنی سورج کارنگ سفید ہوجائے ،کراہت کا وقت گزر جائے تو وقتِ نماز عیدالفطر تیار ہو جاتا ہے۔پوری کوشش کی جائے کہ عید کی نماز جلدی پڑھی جائے ۔عبداللہ بن بسرؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے بخوبی پتا چل رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے اور آپؐ تاخیر نہیں کرتے تھے۔
👈 (1)ایک روایت اس طرح سے آئی ہے ۔
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي بنا يومَ الفطرِ والشمسُ على قيدِ رُمحيْنِ والأضحَى على قيدِ رُمْحٍ(ارواء الغلیل: 3/101)
ترجمہ: نبی ﷺ ہمیں عیدالفطر کی نماز دونیزے کے برابر سورج ہونے پرپڑھاتے اور عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ پر ہوتا ۔
شیخ البانی اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں معلی بن ہلال کے کذب پر سارے نقاد کا اتقاق ہے۔ دیکھیں ارواء الغلیل کا مذکورہ حوالہ۔
👈 (2)ایک دوسری روایت اس قسم کی ہے ۔
أنَّ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - كتب إلى عمرو بنِ حَزْمٍ وهو بِنَجْرانَ : عَجِّلِ الأضحى وأَخِّرِ الفِطرَ وذَكِّرِ الناسَ۔
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے والی نجران عمروبن حزم کو لکھا کہ وہ عیدالاضحی میں جلدی اور عیدالفطر میں تاخیر کریں اور لوگوں کو (خطبہ میں) نصیحت کریں۔
یہ مرسل روایت ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہےاورشیخ البانی نے کہا کہ اس میں مہتم روای ہے ۔ دیکھیں (تخريج مشكاة المصابيح:1394)
کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور ہمیں اوپرمعلوم ہوا کہ نمازعیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنا چاہئے ۔
جناب ابوعمیر بن انس اپنے چچوں سے ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ، بیان کرتے ہیں:
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم(صحيح أبي داود:1157)
ترجمہ: ایک قافلے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ ہم نے کل شام کو چاند دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور اگلے دن صبح کو عید گاہ میں پہنچیں ۔
❄ جمعہ کے دن عید کی صورت میں نمازِ جمعہ کا کیا حکم ہے؟ ⬇
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ
ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف
(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی
نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں
پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔
لہٰذاجو شخص جمعہ کےدن نماز عیدپڑھ لے تواسے رخصت ہےکہ جمعہ نہ پڑھے ۔البتہ امام کے لیے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے ۔تاکہ مسجدمیں آنے والوں اور عید نہ پڑھ سکنے والوں کو جمعہ پڑھایا جائے۔اور اگر صورت حال یہ ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ آئے تو جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائےگا۔اور امام کو نمازظہر پڑھنی ہو گی ۔
استدلال سنن ابی داؤد کی اس روایت سے ہے جو ایاس بن ابی رملہ شامی سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ
الشَّامِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ : أَشَهِدْتَ
مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ صَنَعَ؟
قَالَ: صَلَّى الْعِيدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ .
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں
جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر
آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر
جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎ ۔
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاة ، باب اذا وافق یوم الجمعة یوم عید ، حدیث ١٠٧٠ )
ابو داؤد نے سنن ہی میں ایک اورحدیث بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: اجْتَمَعَ يَوْمُ
جُمُعَةٍ وَيَوْمُ فِطْرٍ عَلَى عَهْدِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: عِيدَانِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَجَمَعَهُمَا جَمِيعًا
فَصَلَّاهُمَا رَكْعَتَيْنِ بُكْرَةً لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِمَا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہوگئے
تو آپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھرآپ نے دونوں کو ملا کر
صبح کے وقت صرف دورکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی ۱؎۔
(سنن ابی داؤد ،صحیح حدیث ١٠٧٠ )
حضرت نعمان بن بشیرؓ سےروایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ،
عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ،
قَالَ: وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَقَرَأَ بِهِمَا .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں اور جمعہ کے روز «سبح اسم ربك الأعلى»
اور«هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور بسا اوقات عید اور جمعہ دونوں
ایک ہی دن پڑ جاتا تو ( بھی ) انہیں دونوں کو پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم ، کتاب الجمعہ ، ح ٨٧٨ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو جمعہ کی رخصت ہے کہ جمعہ پڑھا جائے یا ظہرادا کی جائے ۔اور جو شخص نماز عید تو پڑھے مگرجمعہ نہ پڑھے تو اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ان دلائل کے عموم سے ثابت ہےجن میں واضح ہے کہ جو شخص نماز جمعہ نہ پڑھ سکے وہ نماز ظہر ادا کرے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 احکامِ عیدالفطر : ⬇
❄🌙رویت ہلال: ہلال عید کی شہادت کے لئے دو مسلمانوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک کی شہادت منظور نہیں ہو سکتی۔ (مشکوٰۃ)
یعنین۲۹ دنوں پر رمضان کا اختتام کر کے عید الفطر شروع کرنے کیلئے کم از کم ۲ گواہوں کی ضرورت ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
(فإن شهد شاهدان فصوموا وأفطروا)
رواه أحمد 18416 والنسائي 2116
اس کے علاوہ حارث بن حاطب رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے آپ فرماتے ہیں:
(عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنابشهادتهما)
رواه أبو داود 2338
❄🌙رویت ہلال کی دعا:⬇
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» (ترمذی)
سنن الترمذی ، مسند احمد 1397 ، سنن الدارمی 1730 ،امام طبرانیؒ نے الدعاء 903 ،امام ابوبکر ابن السنی ؒ نے عمل الیوم واللیلۃ میں روایت کی ہے ))
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنِي
بِلالُ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ
كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلاَلَ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالإِيمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَالإِسْلاَمِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے
تھے تو کہتے تھے: ”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور
اسلام کے ساتھ، (اے چاند!) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
سنن الترمذي (3451 )
شیخ الالبانیؒ کے نزدیک یہ حدیث شواہد کے سبب صحیح ہے ، اور شیخ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک ضعیف ہے ، جیساکہ انوارالصحیفہ میں انہوں نے لکھا ہے
👈 قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(3451) إسناده ضعيف ¤ سليمان بن سفيان: ضعيف (تقدم:2167) وبلال بن يحيحي: لين (تق:8780) وللحديث شواهد ضعيفة عند ابن حبان (2374) والطبراني (الأوسط:6237) وغيرهما
👈 قال الشيخ الألباني: صحيح،
الصحيحة (1816) ، الكلم الطيب (161 / 114)
❄ صدقۃ الفطر: انسان سے بتقاضائے بشریت حالت روزہ میں بعض خطائیں اور غلطیاں ہو جاتی ہیںَ اس لئے رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر فرض کیا، تاکہ روزے پاک صاف ہو کر مقبول ہو جائیں، جس طرح رمضان مبارک کے روزے فرض ہیں اسی طرح صدقۃ الفطر فرض ہے۔
⭐صدقۃ الفطر کس پر فرض ہے؟ 👇
ہر مسلمان پر چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، روزہ رکھتا ہو یا نہ، جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھتے ہیں ان پر بھی فرض ہے۔ نماز عید سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے مقصد یہ ہے کہ مساکین کو اس روز سوال سے بے نیاز کر دیا جائے۔
⭐صدقۃ الفطر کس وقت دیا جائے؟ 👇
1۔ عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔
2۔ اگر عید کے بعد ادا کیا تو صدقہ فطر شمار نہ ہو گا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ صدقہ فطر عید جانے سے پہلے ادا کرو۔ (بخاری)
3۔ عید سے دو تین روز پیشتر ادا کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ عبد اللہ بن عمرؓ دو دن پہلے ہی صدقہ فطر مساکین کو دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)
موطا امام مالک میں روایت ہے کہ ابن عمرؓ صدقہ فطر عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس بھیج دیتے جس کے پاس جمع ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اور زکوٰۃ ایک جگہ جمع ہو کر بصورت بیت المال صاحب حاجات پر تقسیم کی جائے تو نہایت بہتر ہے۔ اس سے بڑے بڑے اسلامی کام نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں اس کا احساس پیدا کرے۔ آمین۔
❄ شبِ عید میں عبادت کی حقیقت :⬇
شب عید ( چاند رات ) میں عبادت کی فضیلت کے ضمن میں دو احادیث پیش کی جاتی ہیں
⭐ 1- حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمَرَّارُ بْنُ حَمُّويَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ»
" جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى
كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے"
یہ👆 روایت سنن ابن ماجہ بایں طور مروی ہے
سنن ابن ماجہ : 1782
⭐اسکی سند بقیہ بن ولید کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور متن منکر و موضوع ہے! اس مضمون کی کوئی بھی روایت شدید ضعف سے خالی نہیں ہے۔
⭐یہ روایت موضوع(من گھڑت ) ہے۔کیونکہ اس میں ایک راوی ” عمربن ہارون بلخی “ ہے۔جس کےمتعلق علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ
” ابن معین نے اس کوکذاب کہا ہے۔اور محدثین کی جماعت نے اسے متروک قراردیا ہے ۔“
( تلخیص المستدرک ٨٧/٤ )
⭐علامہ ذہبیؒ نے ایک مقام پراس راوی کےلیے ”کذاب خبیث “ کے الفاظ بھی استعمال کیےہیں۔(میزان الاعتدال٢٢٨/٢)
⭐علامہ البانیؒ نےبھی اس روایت کو خودساختہ قرار دیاہے۔ (السلسلة الاحادیث ضعیفہ١١/٢ )
اسی طرح کی ایک روایت ابن ماجہ میں بھی ہے۔وہ بھی بقیہ بن ولید نامی راوی کی وجہ سےسخت ضعیف ہے۔کیونکہ یہ راوی مدلس ہے۔محدثین نےاسکی تدلیس سےاجتناب کرنے کی تلقین کی ہے۔علامہ البانیؒ نےاس روایت کوسخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
(دیکھیے ۔ السلسلة الاحادیث الضعیفہ ١١/٢ )
⭐ 2- مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِی الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ : لَيْلَةَ التَّرْوِيَة، وَلَيْلَةَ
عَرَفَةَ، وَلَيْلَةَ النَّحْرِ، ولَيْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہوکر عبادت کی) اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، تو یہ (راتیں) آٹھ ذوالحجہ کی رات، عرفہ کی رات، عید الفطراور عید الاضحیٰ کی راتیں اور پندرہ شعبان کی رات (ہے)۔“
(الترغیب و الترھیب للاصبہانی:327)
( منذری، الترغيب والترهيب، 1 : 182)
موضوع (من گھڑت):
یہ روایت موضوع ہے، اس کا راوی عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک "ضعیف” ہے.
٭ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ "اس نے اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل للحاکم: ص 154)
یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔
⭐ الحاصل :
لہذا عیدین کی راتوں میں کوئی خاص عبادت کرنا درست نہیں ہے۔
❄مسنونات عید : ⬇
غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔
❄ عید کی شرعئی حیثیت اوراس کا صحیح وقت ⬇
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔
شیخ ابو صالح العثیمینؒ رقمطرازہیں
” نماز عید فرض عین ہے لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعًا نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشین عورتوں کوبھی نماز عیدکےلیے باہرنکلنے کا حکم دیا۔حتّیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کوبھی (عید کی دعا میں شرکت کےلیے ) نکلنے کا حکم دیا۔البتہ وہ عیدگاہ سے الگ تھلگ رہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کی بہت یادہ تاکید ہے۔
لہٰذا یہ نماز فرض عین ہے اور یہی قول راجح ہے۔اسی قول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اختیار کیا ہے۔لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے ۔اگرفوت ہو جائے تواسکی قضا ادا نہیں کی جائیگی۔کیونکہ وجوبِ قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔لہٰذا اسکے بدلےکوئی نماز نہیں پڑھی جائیگی۔البتہ نماز جمعہ کے فوت ہونےکی صورت میں نماز ظہرادا کرنا واجب ہے۔کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے۔لیکن نمازِ عید کےفوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضاء نہیں ہے۔
❄ نمازِ عید کا صحیح وقت ⬇
امام بخاری نے تعلیقًا اورامام داؤد اورامام ابن ماجہ نے موصولاً حدیث روایت فرمائی ہے ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ الرَّحَبِيُّ، قَالَ:
خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ فِي يَوْمِ عِيدِ فِطْرٍ
أَوْ أَضْحَى، فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا قَدْ فَرَغْنَا سَاعَتَنَا هَذِهِ وَذَلِكَ حِينَ التَّسْبِيحِ .
صحابی رسول عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید
الاضحیکے دن نکلے ، تو انہوں نے امام کے دیر کرنے کو نا پسند کیا اور کہا :ہم تو
اس وقت عید کی نماز سے فارغ ہو جاتے تھے اور یہ اشراق پڑھنے کا وقت تھا۔
(ابو داؤد ، الجمعہ ، باب وقت الخروج الیٰ العید )
راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا ۔تو ثابت ہوا کہ سورج طلوع ہوجائے اور کراہت والا وقت گزرجائے ، سورج اچھی طرح روشن ہوجائے اور چمکنے لگے تو نمازِ عیدکا وقت شروع ہو جاتا ہے ۔یعنی سورج کارنگ سفید ہوجائے ،کراہت کا وقت گزر جائے تو وقتِ نماز عیدالفطر تیار ہو جاتا ہے۔پوری کوشش کی جائے کہ عید کی نماز جلدی پڑھی جائے ۔عبداللہ بن بسرؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے بخوبی پتا چل رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے اور آپؐ تاخیر نہیں کرتے تھے۔
👈 (1)ایک روایت اس طرح سے آئی ہے ۔
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يُصلِّي بنا يومَ الفطرِ والشمسُ على قيدِ رُمحيْنِ والأضحَى على قيدِ رُمْحٍ(ارواء الغلیل: 3/101)
ترجمہ: نبی ﷺ ہمیں عیدالفطر کی نماز دونیزے کے برابر سورج ہونے پرپڑھاتے اور عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ پر ہوتا ۔
شیخ البانی اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں معلی بن ہلال کے کذب پر سارے نقاد کا اتقاق ہے۔ دیکھیں ارواء الغلیل کا مذکورہ حوالہ۔
👈 (2)ایک دوسری روایت اس قسم کی ہے ۔
أنَّ رسولَ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - كتب إلى عمرو بنِ حَزْمٍ وهو بِنَجْرانَ : عَجِّلِ الأضحى وأَخِّرِ الفِطرَ وذَكِّرِ الناسَ۔
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے والی نجران عمروبن حزم کو لکھا کہ وہ عیدالاضحی میں جلدی اور عیدالفطر میں تاخیر کریں اور لوگوں کو (خطبہ میں) نصیحت کریں۔
یہ مرسل روایت ہے جسے امام شافعی نے بیان کیا ہےاورشیخ البانی نے کہا کہ اس میں مہتم روای ہے ۔ دیکھیں (تخريج مشكاة المصابيح:1394)
کبھی کبھی عید کی اطلاع زوال کے بعد ہوتی ہے اور ہمیں اوپرمعلوم ہوا کہ نمازعیدین زوال تک ہی پڑھی جاسکتی ہیں لہذا اس صورت میں روزہ توڑ دینا چاہئے اور اگلے دن نماز عید پڑھنا چاہئے ۔
جناب ابوعمیر بن انس اپنے چچوں سے ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ، بیان کرتے ہیں:
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم(صحيح أبي داود:1157)
ترجمہ: ایک قافلے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ ہم نے کل شام کو چاند دیکھا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر لیں اور اگلے دن صبح کو عید گاہ میں پہنچیں ۔
❄ جمعہ کے دن عید کی صورت میں نمازِ جمعہ کا کیا حکم ہے؟ ⬇
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ
ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف
(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی
نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں
پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔
لہٰذاجو شخص جمعہ کےدن نماز عیدپڑھ لے تواسے رخصت ہےکہ جمعہ نہ پڑھے ۔البتہ امام کے لیے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے ۔تاکہ مسجدمیں آنے والوں اور عید نہ پڑھ سکنے والوں کو جمعہ پڑھایا جائے۔اور اگر صورت حال یہ ہو کہ جمعہ پڑھنے کے لیے کوئی نہ آئے تو جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائےگا۔اور امام کو نمازظہر پڑھنی ہو گی ۔
استدلال سنن ابی داؤد کی اس روایت سے ہے جو ایاس بن ابی رملہ شامی سے مروی ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ أَبِي رَمْلَةَ
الشَّامِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ : أَشَهِدْتَ
مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدَيْنِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ صَنَعَ؟
قَالَ: صَلَّى الْعِيدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِي الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ .
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ
سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں
جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر
آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر
جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎ ۔
(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلاة ، باب اذا وافق یوم الجمعة یوم عید ، حدیث ١٠٧٠ )
ابو داؤد نے سنن ہی میں ایک اورحدیث بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: اجْتَمَعَ يَوْمُ
جُمُعَةٍ وَيَوْمُ فِطْرٍ عَلَى عَهْدِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: عِيدَانِ اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَجَمَعَهُمَا جَمِيعًا
فَصَلَّاهُمَا رَكْعَتَيْنِ بُكْرَةً لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِمَا حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ.
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ اور عید دونوں ایک ہی دن اکٹھا ہوگئے
تو آپ نے کہا: ایک ہی دن میں دونوں عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، پھرآپ نے دونوں کو ملا کر
صبح کے وقت صرف دورکعت پڑھ لی، اس سے زیادہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ عصر پڑھی ۱؎۔
(سنن ابی داؤد ،صحیح حدیث ١٠٧٠ )
حضرت نعمان بن بشیرؓ سےروایت ہے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ،
عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ
يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ،
قَالَ: وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَقَرَأَ بِهِمَا .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں اور جمعہ کے روز «سبح اسم ربك الأعلى»
اور«هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور بسا اوقات عید اور جمعہ دونوں
ایک ہی دن پڑ جاتا تو ( بھی ) انہیں دونوں کو پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم ، کتاب الجمعہ ، ح ٨٧٨ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو جمعہ کی رخصت ہے کہ جمعہ پڑھا جائے یا ظہرادا کی جائے ۔اور جو شخص نماز عید تو پڑھے مگرجمعہ نہ پڑھے تو اسے نماز ظہر ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ان دلائل کے عموم سے ثابت ہےجن میں واضح ہے کہ جو شخص نماز جمعہ نہ پڑھ سکے وہ نماز ظہر ادا کرے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment