find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

EID KA NAMAZ KAHAN PADHNA CHAHIYE

EID KA NAMAZ KAHAN PADHNA CHAHIYE

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
❄ عید کی نماز کہاں پڑھی جائے :⬇
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عیدین کی نمازکھلے میدان میں پڑھتےتھے۔کسی چاردیواری یامسجد وغیرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکبھی نمازِ عیدین ادا نہیں فرمائی ۔باوجود یہ کہ مسجدنبوی میں ایک رکعت کا ثواب عام مسجد سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن آپؐ نے کبھی بھی اپنی مسجد میں بھی نمازعید ادا نہیں فرمائی (بجز عذرِ باراں) ۔
⭐ حضرت ابو سعیدخدریؓ سےروایت ہے۔وہ بیان کرتے ہیں
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطراورعیدالضحیٰ کے دن عید گاہ کی طرف نکلتے تھے۔ “
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ، باب الخروج الیٰ المصلی بغیرمنبر ، ح ٩٥٦ )
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ
جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏""أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ
لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نکلے اور ( عیدگاہ ) میں دو رکعت نماز عید
پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
⭐ حضرت ابن عباسؓ سے مروی حدیث ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ "أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،
وَلَوْلَا مَكَانِي مِنَ الصِّغَرِ مَا شَهِدْتُهُ حَتَّى أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏
ثُمَّ خَطَبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُنَّ
يَهْوِينَ بِأَيْدِيهِنَّ يَقْذِفْنَهُ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَبِلَالٌ إِلَى بَيْتِهِ"".
کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور
اگر باوجود کم عمری کے میری قدر و منزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا ۔
آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔آپ نے وہاں نماز پڑھائی
پھر خطبہ دیا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے ۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی
تھے۔آپ نے انہیں وعظ اورنصیحت کی اورصدقہ کےلیےکہا۔چنانچہ میں نے دیکھاکہ عورتیں
اپنےہاتھوں سے بلال رضی اللہ عنہ کےکپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ گھر واپس ہوئے۔
⭐ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"أَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ""، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِي حَدِيثِ
حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتِ الْعَوَاتِقَ:‏‏‏‏ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى.
ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہا سےبھی اسی طرح روایت کی ہے۔حفصہ رضی اللہ عنہاکی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ
دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
أَخْبَرَنِي نَافِعٌ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ
بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا"".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےآگےآگےلے جایا جاتا تھا پھر یہ عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
( صحیح بخاری ، کتاب العیدین ،حدیث ٩٧٣ )
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "
"كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏
فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔
کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔ یہ سب مردوں کےپیچھےپردہ
میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس
دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
⭐ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَ هُمْ قَالَ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ،عَنْ جَابِرِ
بْنِ عَبْدِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ"إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِفَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ"
آپ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن
عیدگاہ تشریف لے گئے تو پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ سنایا۔
لہٰذا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوا کہ کھلے میدان میں نمازِ عیدادا کرنا مسنون ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھلے میدان میں عیدکی نماز ادا فرماتے تھے۔لہٰذا میدان میں نماز پڑھنا مسنون اور افضل ہے۔کسی عذر یا بارش کے بغیرمسقف مسجدمیں نمازِ عید پڑھنا درست نہیں۔امام مالکؒ کے نزدیک میدان افضل ہے۔اس کےلیے انہوں نے دو دلائل سے استدلال کیا ہے
؎١ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عید کی نماز کھلےمیدان میں پڑھی ۔اور جس کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی اختیارکریں وہ مقام افضلیت سےنہیں اتر سکتا ۔
؎٢ دوسری دلیل یہ ہے کہ
” حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان کی طرف نکلے اور فرمایا
لَوۡ لاَ اَنَّہُ السُّنَّةُ لَصَلَّیۡتُ فِیۡ المَسۡجِدِ
اگر میدان کی طرف نکلنا مسنون نہ ہوتاتومیں نمازمسجد میں پڑھتا
❄ بعذر بارش مسجد میں صلاةالعید کی صورت میں تحیةالمسجد :⬇
نما زِعید اگر مسجد میں پڑھی جائے تو عمومِ حدیث کے پیش نظر تحیة المسجد پڑھنی چاہئے۔
بارش وغیرہ کی صورت میں نماز عید کا اہتمام مسجد میں کرنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیةالمسجد کا اہتمام کرنا لازم ہے ۔ چنانچہ عام صورت میں تحیةالمسجد کے التزام کے ٹھوس دلائل سے انحراف کے عذر نہیں تراشے جاتے ۔ لیکن عید کے دن عوام الناس یہ بہانہ بنا کرکہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاةالعید سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے، لہٰذا عید کے دن مسجد میں بیٹھنے سے قبل تحیةالمسجد پڑھنا ضروری نہیں ، جبکہ شریعت کی رو سے عیدین و غیر عیدین میں مسجد میں بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز پڑھنا شرط ہے ۔ تحیّةالمسجد ایک سببی نماز ہے جو کسی وقت یا دن کے ساتھ خاص نہیں ۔ اسکی دلیل حسب ذیل ہے👇
⭐ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ"".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
صحيح بخاري/كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
بَابُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ:
باب: جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
حدیث نمبر: 444
❄ عید کی نماز اور خواتین ⬇
نماز عیدین عورتوں پر بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے ۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
عَنْ اُمِّ عَطِیّۃَ قَا لَتْ : اُمِرْ نَا اَنْ نُخْرِجَ الحُیّضَ یَومَ الْعِیْدَیْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَیَشْھَدْنَ جَمَاعَۃَالْمُسْلِمِیْنَ وَ دَعْو تَھُمْ ،وَ تَعْتَزِلُ الُحیّضُ عَنْ مُصَلّاَ ھُنَّ ، قَالَتِ امْرَ اۃُّ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِحْدَانَا لَیْس لَھَا جِلْبَابُ ۔ قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَا حِبَتُھَا مِنْ جِلْبَا بِھَا ۔
​ترجمہ ! ام ِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ عورتوں اور پردہ نشین لڑکیوں (کوُاریوں کو جوخدر میں بیٹھتی ہیں) کو بھی باہر (عید کے میدان میں ) لے جائیں ، تاکہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ دعاؤں میں شامل ہو سکیں ، البتہ حائضہ عورتوں کو صلوٰۃ کی جگہ سے علیحدہ رکھیں ۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ ! ہم مین بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کیلئے ) چادر نہیں ہوتی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنی چادر کا ایک حصّہ اسے اوڑھا دے ۔
( صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب وجوب الصلاۃ فی الثیاب )

اے ایمان والو! غور کرو کہ عورتوں کا عید گاہ میں جانا کتنا ضروری ہے ،نماز نہ پڑھنے کے شریعی عذر ہونے کے باوجود ان عورتوں کو بھی رخصت نہیں دی گئی اور وہ لڑکیاں جو عرب کے دستور کے مطابق اپنا زیادہ تر وقت پردہ (خدر) کے پیچھے گزارتی تھیں ان کو بھی نکال کر عید کے میدان میں لانے کا حکم یہ ظاہر کر رہا ہےکہ ہر ایک کا عید کے میدان میں حاضر ہونا اشد ضروری ہے ۔
اے ایمان والو ! صلوٰۃ العیدین میں عورتوں کا جانا حکم رسول ﷺ سے ثابت ہے ۔
کیا آج کل اس حکم رسولﷺ پر یہ امت عمل کررہی ہے ؟؟؟
یوں تو زبانی رسول اللہ ﷺ کا کلمہ تو سبھی پڑھتے ہیں مگر اکثریت فرمان رسولﷺ پرعمل نہیں کرتے کیا یہی ایمان بالرسالت ہے کہ زبانی دعویٰ امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی اطاعت کا مگر عمل دوسروں کے اقوال پر ، ہر فرقہ وارانہ مذاہب کا امام الگ الگ کیوں ہے ؟
کیا یہ سب ایک امام اعظم و امام الانبیآء محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیروی و اطاعت پر اکٹھے نہیں ہو سکتے جن کو اللہ تعالیٰ نے امام مقرر کیا ہے ۔؟؟؟
اے ایمان والو!
ذرا غور کیجیئے کہ جو لوگ عورتوں کو صلوٰۃ العیدین کے اجتماع میں جانے کے لیئے منع کرتے ہیں جو کہ ایک عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لیئے اللہ کے رسول ﷺ کا حکم بھی ہے ، مگر شادی بیاہ کی جاہلانہ رسموں میں گانے بجانے کی محفلوں میں جانے کی اجازت تو عام ہے اور خوشی سے دیتے ہیں اور وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔
⭐عورت کا عیدگاہ جانا صحیح احادیث سے ثابت ہے 👇
نبی ﷺ نے عورتوں کو عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا لہذا خواتین کو نماز عید میں شریک ہونا چاہئےخواہ بوڑھی ہو جوان، شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اور بالغہ ہو یا نابالغہ یہاں تک آپ ﷺ نے حائضہ کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکے ۔
⭐ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا
الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ .قُلْتُ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .
(صحیح البخاري :324وصحیح مسلم :890)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور
عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور
پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سےالگ رہیں لیکن
وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں،میں نےعرض کی یارسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سےکسی ایک کےپاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔ "
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ،
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏"كُنَّانُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَمِنْ خِدْرِهَا
حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ
يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ"".
( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں
جانےکاحکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اورحائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہرآتی تھیں۔
یہ سب مردوں کے پیچھےپردہ میں رہتیں۔جب مرد تکبیر کہتےتویہ بھی کہتیں
اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل
کرنے کی امید رکھتیں۔ (صحیح البخاری #971 )
اس لئے عید کے دن خواتین کے لئے افضل ہے کہ وہ عیدگاہ جائیں ۔ ذمہ داروں کو چاہئے کہ خواتین کے لئے الگ سے خیمے کا انتظام کرے تاکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکے ۔ خواتین کا الگ سے عید کی نماز ادا کرنا مشروع نہیں ہے ۔
⭐ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏
قَالَ:‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ:‏‏‏‏ "أُمِرْنَا أَنْ نَخْرُجَ فَنُخْرِجَ الْحُيَّضَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ،
قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:‏‏‏‏أَوِ الْعَوَاتِقَ ذَوَاتِ الْخُدُورِ، ‏‏‏‏فَأَمَّاالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَالْمُسْلِمِينَ
وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلْنَ مُصَلَّاهُمْ"".
ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عیدگاہ لے
جائیں ابن عون نےکہاکہ یا(حدیث میں)پردہ والی دوشیزائیں ہےالبتہ حائضہ
عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں شریک ہوں اور ( نماز سے )
الگ رہیں۔( صحیح البخاری صحیح حدیث # ٩٨١)
ان احادیث سےثابت ہواکہ مردوں کےعلاوہ مستورات کابھی عیدگاہ میں جاکرنمازعیدمیں شریک ہونا مسنون ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں
” شوکت اسلام کے لیے تمام افراد کا عورتوں اور بچوں سمیت عیدگاہ میں جانا مستحب ہے۔ “ (حجة اللہ البالغہ)
حافظ ابن حجرؒ نےاس مسئلہ پر تمام صحابہ اکرامؓ کا اجماع نقل کیا ہے ۔( فتح الباری )
البتہ اس سنت پر عمل کرنےکےلیے مندرجہ ذیل امورکوپیش نظر رکھنا چاہیے ۔
👈* عورتیں باپردہ ،سادہ لباس میں عیدگاہ جائیں اور مہکنے والی خوشبو وغیرہ سے اجتناب کریں ۔
👈* ظاہری آرائش وزیبائش سے بھی گریزکریں وگرنہ نیکی برباد گناہ لازم کے مترادف ہوگا ۔
👈* راستہ کے ایک طرف ہوکرچلیں اور مردوں سے اختلاط سے پرہیز کریں ۔
👈* عید گاہ میں تکبیرات اور ذکرالہیٰ میں مصروف رہیں اورادھرادھرکی باتوں میں وقت ضایع نہ کریں ۔
👈* شور وغل کرنےوالے شرارتی بچوں کوساتھ نہ لائیں جو نمازیوں کےلیےپریشانی کاسبب بنیں ۔
👈* عورتوں کا عیدگاہ جا کربناؤ سنگھارکی نمائش کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔عورتوں کو عام حالات میں بھی ان احکامات کا پابند کیا گیا ہے کہ
⭐وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَ یَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَ لَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا
مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَ لَایُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّالِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ
اَوۡاٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤاِخۡوَانِہِنَّ اَوۡبَنِیۡۤ
اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ
الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪وَ لَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ
وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ سورة النور ....۳۱﴾
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت
میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے
اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کوکسی کے سامنے
ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والدیا اپنے خسر کے یااپنےلڑکوں کے
یا اپنےخاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوںکے یااپنے بھانجوں
کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کےیا غلاموں کے یاایسےنوکر چاکر مردوں کےجو
شہوت والےنہ ہوں یاایسےبچوں کےجو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں
اوراس طرح زورزورسے پاؤں مارکرنہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے
،اےمسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔
👈* خوشبو لگا کرباہر نکلنا بھی عورت کے لیے جائز نہیں ہے ۔اورجو ایسا کرتی ہےوہ شریعت کی نظرمیں بدکار ہے۔
اگرکوئی عورت مذکورہ بالا احکامات کی خلاف ورزی کرتےہوئے نماز عید یا عام نماز کےلیے گھرسے باہرنکلے تو سرپرست کو چاہیے کہ انہیں روک دے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک ہے بصورت دیگروہ باہرجانے کے لیے ایسی عورتوں پر پابندی لگادیں ۔ عورت کو شمع محفل بننے کے بجائے چراغ خانہ بننا چاہیے تاکہ اسکی چادراور چاردیواری کا تحفظ ہو ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS