find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

EID KE NAMAZ KA SAHIH TARIQA

EID KE NAMAZ KA SAHIH TARIQA

بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🔹 تکبیراتِ عیدین کے ساتھ رفیع الیدین 👇
تکبیرات عیدین کے ساتھ رفیع الیدین کرنےکی بابت محدثین اکرام ” امام ابن المنذرؒ اور امام بیہقیؒ نے سیدنا ابن عمرؓ کی حدیث سےاستدلال کیا ہے۔جس میں ہے کہ ” اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہررکعت اور تکبیر کے ساتھ جو رکوع سےپہلے ہے
دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔“ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان محدثین کا مخالف نہیں ۔اور یہ استدلال قوی ہے۔اس بارے میں ائمہ کےاقوال بھی ملتےہیں۔
جیساکہ عطاء بن ابی رباح سے پوچھا گیا” کیا امام نماز عیدین میں ہرتکبیرکےساتھ رفیع الیدین کرے ؟ انہوں نے جواب دیا ” ہاں وہ رفیع الیدین کرے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہاتھ اٹھائیں ۔
(المصنف ،لعبدالزاق ٢٩٧/٣ )
نیز امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ تکبیراتِ عیدین کے موقعہ پر ہاتھ اٹھانے چاہییں اگرچہ میں نے اس کے متعلق کچھ سنا نہیں۔
( الفریابی بحوالہ ارواء الغلیل ١١٣/٣ ) امام شافعیؒ اور امام بن حنبلؒ کا بھی یہی موقف ہے کہ تکبیراتِ عیدین میں ہاتھ اٹھانے چاہییں ۔(الامام ٢٣٧/١ )
لہٰذا تکبیرات عید کے ساتھ رفیع الیدین کرنا بہتر ہے ۔
🔹 تکبیرات عیدین میں رفع الیدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار :
👈 ۱:امام عبدالرحمن بن عمر و الاوز اعی الشامی رحمہ اللہ =ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
‘‘قلت للأّ وزاعی : فأرفع یدي کرفعي فی تکبیرۃ الصلوۃ؟قال: نعم، ارفع یدیک مع کلھن’’ میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں(عید میں) رفع یدین کروں ، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔(احکام العیدین للفریابی: ۱۳۶و إسنادہ صحیح)
👈 ۲:امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ= ولید بن مسلم سے روایت ہے کہ:
‘‘سألت مالک بن أنس عن ذلک فقال: نعم، ارفع یدیک مع کل تکبیرۃ ولم أسمع فیہ شیئاً’’
میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں ، ہر تکبیر کےس اتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔(احکام العیدین:۱۳۷، و إسنادہ صحیح)
تنبیہ: امام مالک کا ‘‘ ولم أسمع فیہ شیئاً’’ دو باتوں پر ہی محمول ہے۔
اول: میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔
دوم: میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔
اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزھری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
تنبیہ:۲: مجموع شرح المہزب للنووی(۵؍۲۶)الاوسط لابن المنذر (۴؍۲۸۲) اور غیر مستند کتاب المدونہ (۱؍۱۶۹)وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند و بے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
👈 ۳: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ =دیکھئے کتاب الام(ج۱ص۲۳۷)
👈 ۴: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ=دیکھئے مسائل الامام احمد، روایۃ ابی داود (ص۶۰)
👈 ۵:امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ=دیکھئے تاریخ ابن معین(روایۃ الدوری:۲۲۸۴)
معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اور شام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی(کذاب؍کتاب الضعفاء للعقیلی:۴ ؍۵۲و سندہ صحیح، الحدیث حضرو: ۷ص۱۷) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے، دیکھئے کتاب الاصل (۱؍۳۷۴ ، ۳۷۵)والا وسط لابن المنذر(۴؍۲۸۲) سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفیع الیدین کے قائل نہیں تھے
(مجموع : ۵؍۲۶والا وسط: ۴؍۲۸۲)یہ قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
بعض حنفیوں نے بغیر کسی سند متصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔ یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔
👈 ۱:بے سند ہے۔
👈 ۲: قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ:
‘‘ألا تعجبون من یعقوب، یقول علي مالا أقول’’ کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر للبخاری ج ۲ص ۲۱۰و فیات: عشر إلی تسعین و مائتہ ؍ و إسنادہ حسن ولہ شواہد‘‘فالخبر صحیح’’ انظر تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء ص ۱۲۲ت ۴۲۵) معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذاب سمجھتے تھے۔
تنبیہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔ (مصنف عبدالرزاق۳؍۲۹۷ح۵۶۹۹) اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ھمامدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔ سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ۳؍۲۹۳) یہ روایت ان دونوں سندوں کےساتھ ضعیف ہے۔
اختتام بحث: تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری ، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔ وما علینا إلا البلاغ۔
🔹 طریقہ نماز 👇
⭐ وضو کرکے قبلےکی طرف منہ کریں اور ” اَللہُ اَکۡبَرۡ “ کہتے ہوئے رفیع الیدین کریں ۔
( صحیح البخاری ، الاذان ، حدیث ٧٣٨ )
⭐ پھر سینے پر ہاتھ باندھ کردعاء استفتاح پڑھیں ۔
⭐ پھردعائے استفتاح پڑھ کرقرآت سےپہلے ٹھہرٹھہرکرسات تکبیریں کہیں۔
(حسن ، سنن ابی داؤد، الصلاة ،باب التکبیرفی العیدین ،حدیث ١١٥١
وسندہ حسن۔امام احمداورعلی بن مدینی نےاسےصحیح کہا ہے۔ )
⭐ پھرامام اونچی آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے ” الحمد شریف “ پڑھیں۔
⭐ پھر امام اونچی آواز سے قرآت کرے اور مقتدی چپ چاپ سنیں ۔
⭐ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےعیدالضحیٰ اورعیدالفطر میں قٓ ۟ ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾۔اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ ﴿۱﴾ پڑھاکرتےتھے۔
⭐ ایک اورروایت میں سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾اورہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾پڑھنےکابھی ذکرآیاہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ
عَبْدِاللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ مَا كَانَ يَقْرَأُبِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ فَقَالَ كَانَ يَقْرَأُ فِيهِمَابِق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِوَاقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
مالک نےضمرہ بن سعید مازنی سےاورانھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سےروایت کی کہ حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو واقدلیثی سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ اور
عید الفطر میں کون سی سورت قراءت فرماتے تھے ؟ توانھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان
دونوں میں سورہ ق وَالْقُرْ‌آنِ الْمَجِيدِ اور سورہ اقْتَرَ‌بَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ‌ پڑھا کرتے تھے ۔
( صحیح مسلم ،صلاة العیدین ،حدیث ٨٩١ ۔ والجمعة ، حدیث ٨٧٨ )
⭐ بہتر ہے کہ سورة الفاتحہ کے بعد مسنون قرآت کی جائے ۔جب پہلی رکعت پڑھ کر آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں اور قیام کی تکبیرکہہ لیں تو قرآت شروع کرنے سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں ۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏عَنْ
عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّكْبِيرُفِي الْفِطْرِسَبْعٌ فِي الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا .
اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں
اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، اوردونوں میں قرأت تکبیر ( زوائد )کے بعد ہے ۔
( حسن ، سنن ابی داؤد ، الصلاة ، باب التکبیر فی العیدین ، حدیث ١١٥١،
وسندہ حسن ، امام احمدؒ نے اسے صحیح کہا ۔)
⭐ پھر دو رکعتیں پڑھ کرسلام پھیر دیں ۔
❄ خطبہ عید ⬇
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے كثير بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے روايت بيان كى ہے كہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين ميں پہلى ركعت ميں سات تكبيريں اور دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيريں قرآت سے قبل كہيں.
امام ترمذى كہتے ہيں:
ميں نے محمد ـ يعنى بخارى رحمہ للہ تعالى ـ سے اس حديث كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے كہا:
اس باب ميں اس حديث سے زيادہ صحيح كوئى نہيں.
اور ميں بھى يہى كہتا ہوں. اھـ
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز سے مكمل كر ليتے تو لوگوں كى طرح رخ كر كے كھڑے ہو جاتے، اور لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے رہتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں وعظ و نصحيت كرتے، اور انہيں حكم ديتے اور منع كرتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، يا پھر كسى چيز كا حكم دينا ہوتا تو اس كا حكم ديتے.
عيدگاہ ميں منبر نہيں ہوتا تھا جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چڑھ كر خطبہ ديتے، بلكہ لوگوں كے سامنے زمين پر كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے.
اور ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى كے دن عيدگاہ جاتے اور سب سے پہلے نماز پڑھاتے، اور نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كى سامنے كھڑے ہو كر خطبہ ارشاد فرماتے تو لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے"
اس حديث كو مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے سارے خطبے الحمد للہ سے شروع كرتے تھے، اور كسى بھى حديث ميں يہ بيان نہيں ملتا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيدين كا خطبہ تكبير سے شروع كيا ہو.
لہٰذا نماز کے بعد امام مرد و خواتین کو وعظ و نصیحت کرے ۔ خطبہ صحیح قول کی روشنی میں سنت ہے، واجب نہیں ہے ۔ عید کی نماز کےبعد نبی ﷺ نے فرمایا تھا:
⭐ مَن أحبَّ أن ينصرفَ فلينصرِفْ ، ومن أحبَّ أن يُقيمَ للخطبةِ فليُقِمْ۔
جو لوٹنا پسند کرے وہ لوٹ جائے اور جو خطبہ کے لئے رکنا چاہے وہ رک جائے۔
(صحيح النسائي:1570)
👈٭ جمعہ کی طرح اس کا سننا واجب نہیں لیکن وعظ ونصیحت کو سنے بغیر جانا بھی نہیں چاہئے۔
👈٭ عید کا ایک ہی خطبہ حدیث سے ثابت ہے ۔
👈٭ خطبہ کھڑے ہوکر دینا ہے اور بغیر منبر کے دینا ہے ۔
( دیکھیے صحیح لبخاری ، العیدین حدیث ٩٥٦ ۔وصحیح مسلم، صلاة العیدین حدیث ٨٨٩ )
👈٭ خطبہ کے بعد یا نماز عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا لہذا اس نئی ایجاد سے بچنا چاہئے۔
❄ عید کی مبارک باد ⬇
ہمارے معاشرےمیں جس دھوم دھام سےعید کے بعد مصافحہ و معانقہ کیا جاتا ہےاور ایکدوسرےسے بغلگیرہواجاتاہے یہ عمل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اجمعینؓ سے بلکل ثابت نہیں ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
” جس عمل پرہماری طرف سےکوئی امرنہ ہو وہ رد کردینے کے قابل ہے ۔“
(صحیح مسلم ، الاقضیہ ، ٤٤٩٣ )
مولانا ثنا اللہ امرتسریؒ سے کسی نے عیدکےدن مصافحہ و معانقہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نےبڑےجامع الفاظ میں فرمایا
” مصافحہ بعداز سلام آیا ہے۔عید کے روز بھی بنیتِ تکمیل سلام ، مصافحہ
تو جائز ہےلیکن بنیت خصوص عید ، بدعت ہے۔کیونکہ زمانہ رسالت و
خلافت میں یہ طریقہ مروج نہیں تھا ۔“
( فتاوٰی ثنائیہ ، جلد ١ ، صفحہ ٤٥٠ )
امام احمد بن حنبلؒ سے سوال کیا گیا کہ لوگ عیدین کےمواقع پر ”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “سےایکدوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ۔اسکی شرعئی حیثیت کیا ہے۔آپ نے فرمایا
” ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔کیونکہ اہل شام اسے ابوامامہ باہلیؒ سے
اسے بیان کرتے ہیں ۔اسکی سند جیّد ہے ۔“
عید کےدن مبارک باد کی بابت فضیلة الشیخ محمدبن صالح العثیمینؒ رقمطراز ہیں
” عید کی مبارک باد دیناجائز ہے لیکن اسکے لیے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں ۔
لوگوں کا جو بھی معمول ہو وہ جائز ہے ۔بشرطیکہ گناہ نہ ہو ۔“
( فتاوٰی ارکانِ اسلام )
امام ابن تیمیہؒ سے سوال ہوا کہ لوگ عید کے موقعہ پر ایکدوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں کیا شرعئی طور پر اسکی کوئی بنیاد ہے ؟ اگر ہے تو اسکی وضاحت فرمائیں ۔امام ابن تیمیہؒ نے فرمایا
” عید کے دن نماز کےبعد”تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد
دی جا سکتی ہے ۔کیونکہ چند ایک صحابہؓ سے یہ عمل مروی ہے ۔ اور امام احمد
بن حنبلؒ جیسے ائمہ اکرام نے بھی اس کی رخصت دی ہے ۔اس کے متعلق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حکم یا نہی مروی نہیں ہے ۔ اس لیے
اس کےکرنے میں یا نہ کرنے میں چنداں مضائقہ نہیں ہے ۔“
( فتاوٰی ابن تیمیہؒ ، جلد ٢٤ ، صفحہ ٢٥٣ )
امام ابن تیمیہؒ نے جن صحابہ اکرامؓ کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں
⭐(1) * حضرت جبیر بن معطمؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ اکرامؓ جب عیدکےدن ملتے تو
” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ “ سے ایکدوسرے کو مبارک باد دیتے تھے ۔“
( فتح الباری ، جلد ٣ ،صفحہ ٤٤٦ )
⭐(2) * محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلیؓ اور دیگر صحابہ اکرامؓ کے
ہمراہ تھا ۔جب وہ عید پڑھ کرواپس ہوئے توانہوں نے ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ“
کے ساتھ ایکدوسرے کو مبارک باد دی ۔
( الجواہر المقعی ، جلد ٣ ، صفحہ ٣٢٠ )
ان روایات کے پیش نظرمذکورہ الفاظ ” تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنۡکُمۡ“ سے مبارک باد تو دی جاسکتی ہے لیکن مصافحہ ومعانقہ یا گلے ملنا ایک رواج ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔اور کتب احادیث سے بعض روایات ایسی ملتی ہیں جن سے اس کی کراہت محسوس ہوتی ہے اور اسے اہل کتاب کا طریقہ بتایاگیا ہے۔لیکن وہ روایات محدثین کے معیارصحت پر پوری نہیں اترتیں ۔( سنن بیہقی ٣٢/٣ )
❄ عید کی اڈوانس میں مبارکبادی دینے کا حکم ⬇
سنت سےعید کی مبارکباد دینا ثابت ہے ۔ صحابہ کرام ایک دوسرے کو عید کے دن عید کی مبارکباد دیتے تھے ۔ یہ مبارکبادی عید کی نماز کے بعد دینی چاہئے ۔ مبارکبادی کے الفاظ ہیں : تقبل اللہ منا ومنک۔ کوئی عید مبارک کے الفاظ کہتا ہے تو بھی درست ہے ۔جہاں تک عید کی مبارکبادی دینا قبل از وقت تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ، عید کی مبارکبادی تو عید کے دن ،عید کی نماز کے بعد ہونی چاہئےکہ اللہ کے فضل کے سبب ہمیں عید ومسرت میسر ہوئی ۔اس سلسلے میں بعض علماء ایک دودن پہلے تہنیت پیش کرنے کے قائل ہیں مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ عید سے پہلے مبارکبادی پیش کرنے کو سنت کی مخالف کہی جائے کیونکہ لوگ اس وقت ہرچیز کے لئے مبارک پیش کرنے لگے ہیں اور وہ بھی کتنے دنوں پہلے سے ہی ۔ لوگوں میں دین پر عمل کرنے کا جذبہ کم اور مبارکبادی پیش کرنے کا رواج زیادہ ہوتا نظر آرہاہے ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے عید سے ایک دودن پہلے مبارکبادی پیش کرنے کے متعلق سوال کیاگیا تو شیخ نے جواب دیاکہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے ،مبارکبادی توعید کے دن یا عید کے بعد والے دن مباح ہے لیکن عید کے دن سے پہلے مبارکبادی دینے سے متعلق مجھے نہیں معلوم کہ اسلاف سے کچھ ثابت ہے تو پھر لوگ عید سے پہلے کیسے تہنیت پیش کرتےہیں جس کے متعلق کچھ ثبوت نہیں ہے ۔(مقبول احمدسلفی)
❄ عید کی مبارک باد میں ” عیدکارڈ “ کی شرعئی حیثیت⬇
آج کل کے معاشرےمیں یہ رواج بہت عام ہو گیا کہ رمضان میں عید سے قبل بے شمار عید کارڈز بازاروں میں برائے فروخت آجاتے ہیں ۔ان میں کچھ اسلامی ، کچھ ہندو پاک کے فلمی ہیروز اور ہیروئینز کی نا شائستہ تصاویر ، کچھ کرکٹرز کی تصاویر اور کچھ برہنہ عورتوں کی تصاویر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ہرکوئی اپنے اپنے ذوق و فطرت کے مطابق کارڈ خرید کر اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اور پیاروں کو بھیجتے ہیں۔یہ عمل سراسر غلط ہے۔عید کارڈز کی یہ روایت بھی دراصل عیسائیوں کے کرسمس کارڈز کی مشابہت ہے ۔عید کی مبارکباد بے شک ارسال کی جاسکتی ہے ، لیکن اس کے لیے کارڈز بھیجنا عیسائیوں کی تہذیب اپنانا ہے۔ارشاد نبوی ہے
مَنۡ تَشَبَّہَ بِقَوۡمٍ فَھُوَا مِنۡھُمۡ
” جس نے کسی قوم سےمشابہت اختیارکی وہ انہی میں سے ہے۔“
❄ نمازعید اور قضا ⬇
٭ اگر کسی کو ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی ،جو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ۔ نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS