Budhe Shakhsh Ke Roze ke Masail, Zaeef Aadmi ke Roze Rakhne ke Masail
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عمر رسیدہ، عاجز اور بہت زیادہ بوڑھا شخص :👇
عمر رسیدہ بڑھیا اور بہت زیادہ بوڑھا مرد جس کی قوت ختم ہوچکی ہو اور روز بہ روز مزید کمی واقع ہو رہی ہو، ان پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ۔ اگر روزہ ان کے لئے مشکل ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ...﴿١٨٤﴾...سورہ البقرة
''اور اُس کی طاقت رکھنے والے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا دیں ۔''
کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ۔اور جو شخص اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ اس کے حواس بحال نہ رہے ہوں تو اس پر یا اس کے اہل خانہ پر کوئی چیز بھی واجب نہیں ،کیونکہ وہ اب مکلف نہیں ۔ اور اگر کبھی اچھے بُرے کی تمیز ہو اور کبھی ہذیان بکنے لگے تو حالت ِتمیزمیں تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، لیکن حالت ِہذیان میں نہیں ۔
( مجالس شہر رمضان لابن عثیمین ص28)
دشمن سے لڑائی ہو، یا دشمن کے شہر کا محاصرہ ہو اور روزہ قتال میں کمزوری کا سبب بن رہا ہو تو ایسی صورت میں بغیر سفر کے بھی افطار جائز ہے، اسی طرح اگر قتال سے پہلے افطار کی ضرورت محسوس ہو تو روزہ توڑ سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فرمایا:
(إنکم مصبحوا عدوکم والفطر أقوی لکم فأفطروا)
''تم لوگ صبح کو دشمن سے ملاقات کرنے والے ہو، اور افطار تمہارے لئے باعث ِتقویت ہے لہٰذا روزہ توڑ دو۔''
صحیح مسلم :1120
جس شخص کے روزہ توڑنے کا سبب ظاہر ہو جیسے مریض تو وہ کھلے طور پراِفطار کرسکتا ہے، اور جس کے روزہ چھوڑنے کا سبب پوشیدہ ہو جیسے حیض تو بہتر ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر ہی روزہ چھوڑے، کھلے طور پرنہ کھائے پئے، تاکہ اس پرکسی قسم کی تہمت نہ آسکے۔
🌏 مرض کی بنا پر روزہ رکھنا یا چھوڑنا :👇
ہر وہ مرض جس کی وجہ سے انسان مریض سمجھا جائے، اس کی وجہ سے وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥﴾...سورة البقرة
''اور جو بیمار ہو یا مسافر تواسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئے۔''
معمولی عوارض جیسے کھانسی یا سردرد کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ اگر طبی طور سے ثابت ہو یا عادت اور تجربہ سے آدمی کو معلوم ہو یا گمان غالب ہو کہ روزہ سے نقصان ہوگا یامرض میں زیادتی ہوگی یا شفا میں تاخیر ہوگی تو ایسے شخص کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے لئے روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مریض کے لئے روزہ کی نیت کرنا جائز نہیں ۔
کسی شخص کے لئے روزہ اگر غشی کا سبب بنتا ہو تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے مگر بعد میں اس پر قضا ضروری ہے۔ دن کے کسی حصہ میں اگر اس پر بے ہوشی طاری ہوجائے، پھر غروبِ آفتاب سے پہلے یا اس کے بعد اسے افاقہ ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا، کیونکہ اس نے روزہ کی حالت میں صبح کی تھی، لیکن اگر فجر سے لے کر مغرب تک بے ہوشی طاری رہے تو جمہور علما کا خیال ہے کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
جہاں تک ایسے شخص کے روزوں کی قضا کا معاملہ ہے تو اکثر علما کے نزدیک واجب ہے، خواہ بے ہوشی کی مدت کتنی طویل ہی کیوں نہ ہو، اور بعض علما کا فتویٰ ہے کہ جس پر بے ہوشی طاری ہوجائے یا عقل کھو جائے، یا کسی مصلحت کے پیش نظر سکون یا خواب آور دوا دی گئی ہو جس سے ہوش و حواس ختم ہوگئے ہوں تو اگر یہ صورت حال تین دن یا اس سے کم رہے تو وہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے روزے کی قضا کرے گا، اور اگر یہ مدت اس سے زیادہ ہو تو پاگل پر قیاس کرتے ہوئے روزوں کی قضا نہیں ۔
جس شخص کو شدید بھوک یا پیاس لاحق ہوجائے جس سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، یا غالب گمان کے مطابق بعض حواس ضائع ہونے کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے بعد میں اس کی قضا دے دے کیونکہ جان کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ البتہ قابل برداشت شدت یا تھکاوٹ یا مرض کے وہم کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اسی طرح مشقت کا کام کرنے والوں کے لئے بھی روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، بلکہ ان کے لئے رات ہی سے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، روزہ کی حالت میں کام چھوڑنے سے نقصان ہو یا دن کے کسی وقت میں جسمانی نقصان کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ دیں اور بعد میں قضا کریں ۔ طالب علم کے لئے امتحانات روزہ چھوڑنے کے لئے عذر نہیں ہیں ۔
جس مریض کو شفا کی اُمید ہو وہ روزہ چھوڑ دے اور شفا کا انتظار کرے اور بعد میں قضا کرے، کھانا کھلانا کافی نہیں ہے۔ البتہ ایسا مریض جسے شفا کی اُمیدنہ ہو، اسی طرح عمر رسیدہ شخص جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے ، یا آدھا صاع اناج دے جو عام طور پر اس شہرکی خوراک ہو (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو اناج) اس فدیہ کو آخر ماہ میں جمع بھی کرسکتا ہے۔ ایک ساتھ تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دے، اسی طرح روزانہ ایک مسکین کو بھی کھلا سکتا ہے۔
وہ مریض جس نے روزہ چھوڑا اور اس کی قضا کے لئے شفا کی اُمید لگائے ہوئے ہے، پھرپتہ چلا کہ یہ مرض دائمی ہے تو اس پر واجب ہے کہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اور جو مریض شفا کے انتظار میں ہو، پھر انتقال ہوجائے تو اس پر یا اس کے اَولیا پر کوئی چیز نہیں ۔
اگر کوئی ایسا شخص ہوجو مریض تھا، پھر شفایاب ہوگیا اور قضا کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قضا نہیں کیااور اسی حالت میں اس کی موت آگئی تو اس کے مال سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، اور اگر کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے روزہ رکھناچاہے تو جائز ہے۔ کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من مات وعلیه صیام صام عنه ولیه)
''جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر روزے فرض باقی رہ گئے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔''
فتاویٰ اللجنةالدائمة،مجلة الدعوة عدد806
🖊فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ
اس مفہوم میں شیخ غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں 👇👇👇
اس بات پر اجماع ہے کہ بوڑھا آدمی، جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ دیکھیں :
[الا جما ع لابن المنذر : 129]
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”وہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، وہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دیں۔“ [صحيح بخاري : 4505]
✿ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ
[2-البقرة:184]
پڑھی اور فرمایا : ”بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے کی استطاعت و طاقت نہ رکھتا ہو، روزہ نہ رکھے، بلکہ روزانہ ایک مسکین کو آدھا صاع گندم دے دے۔“
[سنن الدارقطني : 207/2، ح : 2361، وسندۂ حسن]
❀ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
”ایک مد (تقریباً آدھا کلو) دے گا۔“ [سنن ادارقطني : 204/6، ح : 2349، وقال : اسناد صحيح، وهو كما قال]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ ایک سال روزہ رکھنے سے عاجز آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹب میں ثرید تیار کی، تیس مساکین کو خوب سیر کر کے کھلا دی۔ [سنن ادارقطني : 206/2، ح : 2365، وسندۂ صحيح]
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا 👇👇👇
وہ بوڑھا آدمی جسکی عمر نوے کے قریب ہے اور دمہ اور بلڈ پریشر کا بیمار بھی ہے ۔ سال گذشتہ تک روزے رکھـ سکتا تھا، لیکن مجبور ہو کر کچھ دن کے روزے چھوڑ دیے، لیکن ابھی تک اس کی قضا رکھنے سے عاجز ہے تو شریعت کا گذشتہ اور مستقبل کے فدیہ سے متعلق کیا حکم عائد ہوتا ہے اور فدیہ کی مقدار کیا ہے؟ اور اگر اس وقت غریب نہ ملیں جو صدقے کو قبول کریں تو کیا یہ ممکن ہے کہ کھانے کے بدلے اس کی قیمت دیں؟ اور اگر یہ درست ہے تو اس کی مقدار کیا ہوگی ۔
دائمہ کمیٹی کا جواب تھا 👇👇👇
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جو مذکور بالا ہے ۔ جس میں نوے سال کی عمر اور اس عمر میں دمہ اور بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کا بیان کیا، اور یہ کہ گذشتہ رمضان میں کچھ روزے نہ رکھے اور ابھی تک اس کی قضا سے معذوری ہے ، تو اس پر قضا لازم نہیں ہے اور اسکے لئے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے جب تک اسکی عجز کی حالت ہے، اور اس پر واجب ہے کہ چھوڑے ہوئے روزے کے ہر دن کے بدلے میں کسی مسکین کو کھانا کھلائے ، اور اسے جمع کر کے بھی نکال سکتا ہے، اور الگ الگ طور پر بھی نکال سکتا ہے، جیسا کہ الله تعالى كا فرمان ہے:
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺩﯾﻦ ﻛﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ،
اور اس کو کھانے کے بدلے قیمت ادا کرنا کافی نہ ہوگا، ہر دن کے بدلے کھانے کی جو مقدار ادا کی جائے گی وہ آدھا صاع جو یا کھجور یا آٹا وغیرہ ملکی غذا سے ہوگی۔
لہٰذا اجماع ہے کہ بوڑھے مردف اور عورتیں جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا شدید مشقت سے روزہ رکھتے ہوں تو روزہ چھوڑ سکتے ہیں "
للجنۃ کمیٹی کے علماء کا بھی فتوی ہے :
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" اور جب ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ يہ بيمارى جس كا شكار ہے اس كى بنا پر وہ روزہ نہيں ركھ سكتا، اور اس سے شفايابى كى بھى اميد نہيں تو پھر آپ كے ذمہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو اپنے علاقے كى غذا كا ايك صاع چاہے وہ كھجور ہو يا كچھ اور دينا واجب ہے، گزرے ہوئے اور آئندہ ماہ كے روزں كے بدلے ميں، اور جب آپ كسى مسكين كو اتنے ايام كى تعداد ميں صبح يا شام كا كھانا كھلا ديں جتنے روزے چھوڑے ہيں تو بھى كفائت كر جائيگا، ليكن اس كے بدلے ميں نقد رقم دينى كفائت نہيں كرتى "
🖊فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 198 )
🌏 رمضان میں کسی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے روزوں کی قضائی رمضان کے فوراً بعد دینا 👇
رمضان کے چھوڑے گئے روزوں کی قضائی پے در پے مستحب تو ہے ، ضرور ی نہیں ، کیونکہ:
🌟 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾
(البقرۃ:۱۸۵)
“دوسرے دونوں کی گنتی ہے۔“
🌟 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں:
کان یکون علیّ الصوم من رمضان فما أستطیع أن أقضیہ إلّا فی شعبان.
“مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضائی ہوتی ، میں انہیں شعبان سے پہلے نہ رکھ سکتی تھی۔”
(صحیح بخاری: ۱۹۵۰، صحیح مسلم: ۱۱۴۶)
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:” اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کی قضاء کو مطلق طور پر مؤخر کرنا جائز ہے ، خواہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے ۔”
(فتح الباری : ۱۹۱/۴)
🌟 سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
لا یضرّک کیف قضیتھا، إنّما ھی عدّۃ من أیام أخر.
” تجھے کوئی نقصان نہیں، جیسے جی چاہے قضائی دے، صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا ضروری) ہے ۔”
(تغلیق التعلیق لابن حجر: ۱۸۶/۳، وسندۃ صحیح)
🌟 امام عطاء بن أبی رباحؒ کہتے ہیں کہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، دونوں نے فرمایا:
فرقہ إذا أحصیتہ.
“جب تو گنتی رکھے، تو وقفے میں کوئی حرج نہیں۔”
(سنن دار قطنی: ۱۹۳/۲، وسندہ حسن)
🌟 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
یو اترہٗ إن شاءَ.
“چاہے ، تو پے در پے رکھ لے ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 بکر بن عبداللہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنہٗ کان لا یری بہٖ بأسا، ویقول؛ إنّما قال اللّٰہ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾.
“آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقفے یا تأخیر میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف دوسرے دنوں کی گنتی کا ذکر فرمایا ہے ۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲۵۸/۴ و سندہ صحیح)
🌟 أبو عامر الہوزنی کہتے ہیں:
سمعت أبا عبیدۃ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ سئل عن قضاء رمضان فقال؛ إنّ اللّٰہ لم یرخص
لکم فی فطرہٖ و ھو یرید أن یشق علیکم فی قضائہٖ، فأحص العدۃ واصنع ماشئت.
“میں نے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا، آپ سے رمضان کی قضاء کے بارے پوچھا گیا ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے روزہ چھوڑنے کی رخصت اس لئے نہیں دی کہ قضاء میں تم پر مشقت ڈال دے ، آپ گنتی شمار کریں اور جو چاہیں کرلیں۔”
(السنن الکبری للبیہقی: ۲۵۸/۴ ، سنن دارقطنی : ۱۹۱/۲، وسندہ حسن)
🌟 سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:
فرق قضاء رمضان، وأحص العدّۃ.
“رمضان کی قضاء کو وقفے سے پورا کرلو، لیکن گنتی شمار کرو۔”
(سنن دار قطنی : ۱۹۲/۲، وسندہ حسن)
🌟 امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ وقفے سے قضاء رمضان میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے ۔
(ابن ابی شیبہ: ۳۳/۳ و سندہ صحیح)
🌟 جعفر بن میمون کہتے ہیں:
قضاء رمضان عدّۃ من أیام أخر.
“قضاء رمضان میں صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا) ضروری ہے۔”
(ابن ابی شیبہ : ۳۳/۳، و سندہ صحیح)
🌏 فوری قضائی کے قائلین کے دلائل:👇
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قضائے رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں:
یتابع بینہ. “اس میں پے در پے روزہ رکھا جائے گا ۔”
(مصنف ابن أبی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 عروہؒ فرماتے ہیں:
یواتر قضاء رمضان.
“رمضان کے روزوں کی قضاء لگاتار دے گا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 سعید بن مسیب فرماتے ہیں:
یقضیہ کھیأتہٖ.
“جس طرح چھوڑے تھے، اسی طرح قضائی دے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ:۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 محمد بن سیرین کہتے ہیں:
أحب إلیّ أن یصومہ کما أفطرہ.
“مجھے محبوب یہی ہے کہ جس طرح روزے چھوڑے تھے ، اسی طرح قضائی دے ۔”
(ابن أبی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 حکم بن عتیبہ کہتے ہیں:
“لگاتار قضائی دینا مجھے پسند ہے ۔”
(ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 قاسم بن محمد کہتے ہیں:
صمہ متتابعا، إلا أن یقطع بک کما قطع بک فیہ.
“لگاتار روزے رکھ ، الا یہ کہ (قضائی میں بھی) وہی عارضہ پیش آجائے ، جو پہلے پیش آیا تھا۔ ”
(ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
ان سب اقوال کو استحباب پر محمول کیا جائے گا ، جیساکہ
🌟 امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
یقضیہ متتابعاً أحبّ إلیّ و إن فرق أجزأہٗ.
“رمضان کی قضائی لگاتار ہو، تو مجھے محبوب ہے ، اگر وقفہ آجائے ، تو کفایت کرجائے گی ۔”
(مصنف ابن أبی شیبہ: ۳۵/۳ ، وسندہ صحیح)
روزوں کی قضائی پے در پے مستحب ہے ، ضروری نہیں ، جو لوگ لگاتار قضائی کو ضروری قرا ر دیتے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے ، نہ سلف صالحین میں سے ان کا کوئی حامی ہے ۔
🖊غلام مصطفے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
🌏 روزہ کا فدیہ :👇
فدیہ کسی بھی چیز کا عوض ہوتا ہے ,
مثلا اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
وَلاَ تَحْلِقُواْ رُؤُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [البقرة : 196]
اور اپنے سروں کو نہ منڈاؤ حتى کہ قربانی اپنے جگہ کو پہنچ جائے تو جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا اسکے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دے دے۔
نیز فرمایا :
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ [الحديد : 15]
تو آج کے دن تم سے کوئی فدیہ نہ لیا جائے گا
یعنی فدیہ عوض اور بدلہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے عوض دیا جاتا ہے
روزے کے فدیہ کے طور پر مسکین کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رقم دینا درست نہیں۔ ملاحظہ کیجئے یہ سوال و جواب:
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد سے سوال کیا گیا 👇👇👇
میں شوگر کا مریض ہوں اوردن میں دوبار انسولین کا انجیکشن لینا ہوتا ہے ، اس لیے میں روزہ رکھنے کی بجائے اپنی افطاری کی قیمت کا فدیہ ادا کرتا ہوں ، کیا اس طریقہ سے میرا فدیہ ادا کرنا صحیح ہے یعنی فدیہ میں نقدی ادا کرنا کیونکہ میں شادی شدہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل میں افطار کرتاہوں ۔
اورکیا یہ فدیہ تین یا زیادہ مسکینوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ مجھے افطاری کا محتاج نہيں ملتا ؟
فضیلةالشیخ کا جواب تھا 👇👇👇
جب آپ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہيں توآپ پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اوراس حالت میں روزہ چھوڑ کر کھانا تقسیم کرنے پرہی اکتفا کرنا جائزنہيں ، اورانسولین کے انجیکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس لیے آپ روزہ رکھ کربھی انسولین استعمال کرسکتے ہيں ، اوررمضان کےبعد افطار کیے ہوئے دنوں کی قضاء کریں ۔
لیکن اگر آپ کو روزہ رکھنے سے نقصان ہوتا ہو یا پھر آپ کوشدید مشقت ہوتی ہو یا دن کو دوائي کھانے کی ضرورت ہوتو اس وقت آپ کے لیےروزہ ترک کرنا جائز ہے ، اوراگر مستقبل میں بھی آپ قضاء نہ کرسکنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کوکھانا کھلائيں ۔
اورآپ کےلیے نقدی حالت میں فدیہ نکالنا جائز نہيں ، بلکہ کھانے کی شکل میں ہی نکالنا واجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوروہ لوگ جوطاقت رکھتے ہيں وہ بطور فدیہ مسکین کوکھانا کھلائیں }
البقرۃ ( 184 ) ۔
آپ پر ضروری ہے کہ واجب ادا کرنے کے لیے مساکین کوتلاش کریں ، یا پھر نقدی اسے ادا کریں جواس کے قائم مقام بن کرکھانا خرید کر مسکینوں تک کھانا پہنچائے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Budhe Shakhsh Ke Roze ke Masail |
🌏 عمر رسیدہ، عاجز اور بہت زیادہ بوڑھا شخص :👇
عمر رسیدہ بڑھیا اور بہت زیادہ بوڑھا مرد جس کی قوت ختم ہوچکی ہو اور روز بہ روز مزید کمی واقع ہو رہی ہو، ان پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ۔ اگر روزہ ان کے لئے مشکل ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُۥ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ...﴿١٨٤﴾...سورہ البقرة
''اور اُس کی طاقت رکھنے والے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا دیں ۔''
کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ۔اور جو شخص اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ اس کے حواس بحال نہ رہے ہوں تو اس پر یا اس کے اہل خانہ پر کوئی چیز بھی واجب نہیں ،کیونکہ وہ اب مکلف نہیں ۔ اور اگر کبھی اچھے بُرے کی تمیز ہو اور کبھی ہذیان بکنے لگے تو حالت ِتمیزمیں تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، لیکن حالت ِہذیان میں نہیں ۔
( مجالس شہر رمضان لابن عثیمین ص28)
دشمن سے لڑائی ہو، یا دشمن کے شہر کا محاصرہ ہو اور روزہ قتال میں کمزوری کا سبب بن رہا ہو تو ایسی صورت میں بغیر سفر کے بھی افطار جائز ہے، اسی طرح اگر قتال سے پہلے افطار کی ضرورت محسوس ہو تو روزہ توڑ سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فرمایا:
(إنکم مصبحوا عدوکم والفطر أقوی لکم فأفطروا)
''تم لوگ صبح کو دشمن سے ملاقات کرنے والے ہو، اور افطار تمہارے لئے باعث ِتقویت ہے لہٰذا روزہ توڑ دو۔''
صحیح مسلم :1120
جس شخص کے روزہ توڑنے کا سبب ظاہر ہو جیسے مریض تو وہ کھلے طور پراِفطار کرسکتا ہے، اور جس کے روزہ چھوڑنے کا سبب پوشیدہ ہو جیسے حیض تو بہتر ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر ہی روزہ چھوڑے، کھلے طور پرنہ کھائے پئے، تاکہ اس پرکسی قسم کی تہمت نہ آسکے۔
🌏 مرض کی بنا پر روزہ رکھنا یا چھوڑنا :👇
ہر وہ مرض جس کی وجہ سے انسان مریض سمجھا جائے، اس کی وجہ سے وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ...﴿١٨٥﴾...سورة البقرة
''اور جو بیمار ہو یا مسافر تواسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئے۔''
معمولی عوارض جیسے کھانسی یا سردرد کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ اگر طبی طور سے ثابت ہو یا عادت اور تجربہ سے آدمی کو معلوم ہو یا گمان غالب ہو کہ روزہ سے نقصان ہوگا یامرض میں زیادتی ہوگی یا شفا میں تاخیر ہوگی تو ایسے شخص کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے لئے روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مریض کے لئے روزہ کی نیت کرنا جائز نہیں ۔
کسی شخص کے لئے روزہ اگر غشی کا سبب بنتا ہو تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے مگر بعد میں اس پر قضا ضروری ہے۔ دن کے کسی حصہ میں اگر اس پر بے ہوشی طاری ہوجائے، پھر غروبِ آفتاب سے پہلے یا اس کے بعد اسے افاقہ ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا، کیونکہ اس نے روزہ کی حالت میں صبح کی تھی، لیکن اگر فجر سے لے کر مغرب تک بے ہوشی طاری رہے تو جمہور علما کا خیال ہے کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
جہاں تک ایسے شخص کے روزوں کی قضا کا معاملہ ہے تو اکثر علما کے نزدیک واجب ہے، خواہ بے ہوشی کی مدت کتنی طویل ہی کیوں نہ ہو، اور بعض علما کا فتویٰ ہے کہ جس پر بے ہوشی طاری ہوجائے یا عقل کھو جائے، یا کسی مصلحت کے پیش نظر سکون یا خواب آور دوا دی گئی ہو جس سے ہوش و حواس ختم ہوگئے ہوں تو اگر یہ صورت حال تین دن یا اس سے کم رہے تو وہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے روزے کی قضا کرے گا، اور اگر یہ مدت اس سے زیادہ ہو تو پاگل پر قیاس کرتے ہوئے روزوں کی قضا نہیں ۔
جس شخص کو شدید بھوک یا پیاس لاحق ہوجائے جس سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، یا غالب گمان کے مطابق بعض حواس ضائع ہونے کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے بعد میں اس کی قضا دے دے کیونکہ جان کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ البتہ قابل برداشت شدت یا تھکاوٹ یا مرض کے وہم کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اسی طرح مشقت کا کام کرنے والوں کے لئے بھی روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، بلکہ ان کے لئے رات ہی سے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، روزہ کی حالت میں کام چھوڑنے سے نقصان ہو یا دن کے کسی وقت میں جسمانی نقصان کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ دیں اور بعد میں قضا کریں ۔ طالب علم کے لئے امتحانات روزہ چھوڑنے کے لئے عذر نہیں ہیں ۔
جس مریض کو شفا کی اُمید ہو وہ روزہ چھوڑ دے اور شفا کا انتظار کرے اور بعد میں قضا کرے، کھانا کھلانا کافی نہیں ہے۔ البتہ ایسا مریض جسے شفا کی اُمیدنہ ہو، اسی طرح عمر رسیدہ شخص جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے ، یا آدھا صاع اناج دے جو عام طور پر اس شہرکی خوراک ہو (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو اناج) اس فدیہ کو آخر ماہ میں جمع بھی کرسکتا ہے۔ ایک ساتھ تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دے، اسی طرح روزانہ ایک مسکین کو بھی کھلا سکتا ہے۔
وہ مریض جس نے روزہ چھوڑا اور اس کی قضا کے لئے شفا کی اُمید لگائے ہوئے ہے، پھرپتہ چلا کہ یہ مرض دائمی ہے تو اس پر واجب ہے کہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اور جو مریض شفا کے انتظار میں ہو، پھر انتقال ہوجائے تو اس پر یا اس کے اَولیا پر کوئی چیز نہیں ۔
اگر کوئی ایسا شخص ہوجو مریض تھا، پھر شفایاب ہوگیا اور قضا کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قضا نہیں کیااور اسی حالت میں اس کی موت آگئی تو اس کے مال سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، اور اگر کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے روزہ رکھناچاہے تو جائز ہے۔ کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من مات وعلیه صیام صام عنه ولیه)
''جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر روزے فرض باقی رہ گئے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔''
فتاویٰ اللجنةالدائمة،مجلة الدعوة عدد806
🖊فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ
اس مفہوم میں شیخ غلام مصطفے ٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں 👇👇👇
اس بات پر اجماع ہے کہ بوڑھا آدمی، جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ دیکھیں :
[الا جما ع لابن المنذر : 129]
❀ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”وہ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، وہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دیں۔“ [صحيح بخاري : 4505]
✿ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ
[2-البقرة:184]
پڑھی اور فرمایا : ”بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے کی استطاعت و طاقت نہ رکھتا ہو، روزہ نہ رکھے، بلکہ روزانہ ایک مسکین کو آدھا صاع گندم دے دے۔“
[سنن الدارقطني : 207/2، ح : 2361، وسندۂ حسن]
❀ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
”ایک مد (تقریباً آدھا کلو) دے گا۔“ [سنن ادارقطني : 204/6، ح : 2349، وقال : اسناد صحيح، وهو كما قال]
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ ایک سال روزہ رکھنے سے عاجز آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹب میں ثرید تیار کی، تیس مساکین کو خوب سیر کر کے کھلا دی۔ [سنن ادارقطني : 206/2، ح : 2365، وسندۂ صحيح]
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی سے سوال کیا گیا 👇👇👇
وہ بوڑھا آدمی جسکی عمر نوے کے قریب ہے اور دمہ اور بلڈ پریشر کا بیمار بھی ہے ۔ سال گذشتہ تک روزے رکھـ سکتا تھا، لیکن مجبور ہو کر کچھ دن کے روزے چھوڑ دیے، لیکن ابھی تک اس کی قضا رکھنے سے عاجز ہے تو شریعت کا گذشتہ اور مستقبل کے فدیہ سے متعلق کیا حکم عائد ہوتا ہے اور فدیہ کی مقدار کیا ہے؟ اور اگر اس وقت غریب نہ ملیں جو صدقے کو قبول کریں تو کیا یہ ممکن ہے کہ کھانے کے بدلے اس کی قیمت دیں؟ اور اگر یہ درست ہے تو اس کی مقدار کیا ہوگی ۔
دائمہ کمیٹی کا جواب تھا 👇👇👇
اگر معاملہ ایسا ہی ہے جو مذکور بالا ہے ۔ جس میں نوے سال کی عمر اور اس عمر میں دمہ اور بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کا بیان کیا، اور یہ کہ گذشتہ رمضان میں کچھ روزے نہ رکھے اور ابھی تک اس کی قضا سے معذوری ہے ، تو اس پر قضا لازم نہیں ہے اور اسکے لئے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے جب تک اسکی عجز کی حالت ہے، اور اس پر واجب ہے کہ چھوڑے ہوئے روزے کے ہر دن کے بدلے میں کسی مسکین کو کھانا کھلائے ، اور اسے جمع کر کے بھی نکال سکتا ہے، اور الگ الگ طور پر بھی نکال سکتا ہے، جیسا کہ الله تعالى كا فرمان ہے:
ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺩﯾﻦ ﻛﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻛﻮﺋﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ،
اور اس کو کھانے کے بدلے قیمت ادا کرنا کافی نہ ہوگا، ہر دن کے بدلے کھانے کی جو مقدار ادا کی جائے گی وہ آدھا صاع جو یا کھجور یا آٹا وغیرہ ملکی غذا سے ہوگی۔
لہٰذا اجماع ہے کہ بوڑھے مردف اور عورتیں جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا شدید مشقت سے روزہ رکھتے ہوں تو روزہ چھوڑ سکتے ہیں "
للجنۃ کمیٹی کے علماء کا بھی فتوی ہے :
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" اور جب ڈاكٹر يہ فيصلہ كريں كہ يہ بيمارى جس كا شكار ہے اس كى بنا پر وہ روزہ نہيں ركھ سكتا، اور اس سے شفايابى كى بھى اميد نہيں تو پھر آپ كے ذمہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو اپنے علاقے كى غذا كا ايك صاع چاہے وہ كھجور ہو يا كچھ اور دينا واجب ہے، گزرے ہوئے اور آئندہ ماہ كے روزں كے بدلے ميں، اور جب آپ كسى مسكين كو اتنے ايام كى تعداد ميں صبح يا شام كا كھانا كھلا ديں جتنے روزے چھوڑے ہيں تو بھى كفائت كر جائيگا، ليكن اس كے بدلے ميں نقد رقم دينى كفائت نہيں كرتى "
🖊فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 198 )
🌏 رمضان میں کسی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے روزوں کی قضائی رمضان کے فوراً بعد دینا 👇
رمضان کے چھوڑے گئے روزوں کی قضائی پے در پے مستحب تو ہے ، ضرور ی نہیں ، کیونکہ:
🌟 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾
(البقرۃ:۱۸۵)
“دوسرے دونوں کی گنتی ہے۔“
🌟 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں:
کان یکون علیّ الصوم من رمضان فما أستطیع أن أقضیہ إلّا فی شعبان.
“مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضائی ہوتی ، میں انہیں شعبان سے پہلے نہ رکھ سکتی تھی۔”
(صحیح بخاری: ۱۹۵۰، صحیح مسلم: ۱۱۴۶)
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:” اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کی قضاء کو مطلق طور پر مؤخر کرنا جائز ہے ، خواہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے ۔”
(فتح الباری : ۱۹۱/۴)
🌟 سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
لا یضرّک کیف قضیتھا، إنّما ھی عدّۃ من أیام أخر.
” تجھے کوئی نقصان نہیں، جیسے جی چاہے قضائی دے، صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا ضروری) ہے ۔”
(تغلیق التعلیق لابن حجر: ۱۸۶/۳، وسندۃ صحیح)
🌟 امام عطاء بن أبی رباحؒ کہتے ہیں کہ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، دونوں نے فرمایا:
فرقہ إذا أحصیتہ.
“جب تو گنتی رکھے، تو وقفے میں کوئی حرج نہیں۔”
(سنن دار قطنی: ۱۹۳/۲، وسندہ حسن)
🌟 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
یو اترہٗ إن شاءَ.
“چاہے ، تو پے در پے رکھ لے ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 بکر بن عبداللہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
أنہٗ کان لا یری بہٖ بأسا، ویقول؛ إنّما قال اللّٰہ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾.
“آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقفے یا تأخیر میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف دوسرے دنوں کی گنتی کا ذکر فرمایا ہے ۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲۵۸/۴ و سندہ صحیح)
🌟 أبو عامر الہوزنی کہتے ہیں:
سمعت أبا عبیدۃ بن الجراح رضی اللّٰہ عنہ سئل عن قضاء رمضان فقال؛ إنّ اللّٰہ لم یرخص
لکم فی فطرہٖ و ھو یرید أن یشق علیکم فی قضائہٖ، فأحص العدۃ واصنع ماشئت.
“میں نے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا، آپ سے رمضان کی قضاء کے بارے پوچھا گیا ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے روزہ چھوڑنے کی رخصت اس لئے نہیں دی کہ قضاء میں تم پر مشقت ڈال دے ، آپ گنتی شمار کریں اور جو چاہیں کرلیں۔”
(السنن الکبری للبیہقی: ۲۵۸/۴ ، سنن دارقطنی : ۱۹۱/۲، وسندہ حسن)
🌟 سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا:
فرق قضاء رمضان، وأحص العدّۃ.
“رمضان کی قضاء کو وقفے سے پورا کرلو، لیکن گنتی شمار کرو۔”
(سنن دار قطنی : ۱۹۲/۲، وسندہ حسن)
🌟 امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ وقفے سے قضاء رمضان میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے ۔
(ابن ابی شیبہ: ۳۳/۳ و سندہ صحیح)
🌟 جعفر بن میمون کہتے ہیں:
قضاء رمضان عدّۃ من أیام أخر.
“قضاء رمضان میں صرف دوسرے دنوں کی گنتی (پوری کرنا) ضروری ہے۔”
(ابن ابی شیبہ : ۳۳/۳، و سندہ صحیح)
🌏 فوری قضائی کے قائلین کے دلائل:👇
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قضائے رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں:
یتابع بینہ. “اس میں پے در پے روزہ رکھا جائے گا ۔”
(مصنف ابن أبی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 عروہؒ فرماتے ہیں:
یواتر قضاء رمضان.
“رمضان کے روزوں کی قضاء لگاتار دے گا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 سعید بن مسیب فرماتے ہیں:
یقضیہ کھیأتہٖ.
“جس طرح چھوڑے تھے، اسی طرح قضائی دے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ:۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 محمد بن سیرین کہتے ہیں:
أحب إلیّ أن یصومہ کما أفطرہ.
“مجھے محبوب یہی ہے کہ جس طرح روزے چھوڑے تھے ، اسی طرح قضائی دے ۔”
(ابن أبی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 حکم بن عتیبہ کہتے ہیں:
“لگاتار قضائی دینا مجھے پسند ہے ۔”
(ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
🌟 قاسم بن محمد کہتے ہیں:
صمہ متتابعا، إلا أن یقطع بک کما قطع بک فیہ.
“لگاتار روزے رکھ ، الا یہ کہ (قضائی میں بھی) وہی عارضہ پیش آجائے ، جو پہلے پیش آیا تھا۔ ”
(ابن ابی شیبہ: ۳۴/۳، وسندہ صحیح)
ان سب اقوال کو استحباب پر محمول کیا جائے گا ، جیساکہ
🌟 امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں:
یقضیہ متتابعاً أحبّ إلیّ و إن فرق أجزأہٗ.
“رمضان کی قضائی لگاتار ہو، تو مجھے محبوب ہے ، اگر وقفہ آجائے ، تو کفایت کرجائے گی ۔”
(مصنف ابن أبی شیبہ: ۳۵/۳ ، وسندہ صحیح)
روزوں کی قضائی پے در پے مستحب ہے ، ضروری نہیں ، جو لوگ لگاتار قضائی کو ضروری قرا ر دیتے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی دلیل ہے ، نہ سلف صالحین میں سے ان کا کوئی حامی ہے ۔
🖊غلام مصطفے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
🌏 روزہ کا فدیہ :👇
فدیہ کسی بھی چیز کا عوض ہوتا ہے ,
مثلا اللہ تعالى نے فرمایا ہے :
وَلاَ تَحْلِقُواْ رُؤُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ [البقرة : 196]
اور اپنے سروں کو نہ منڈاؤ حتى کہ قربانی اپنے جگہ کو پہنچ جائے تو جو کوئی تم میں سے مریض ہو یا اسکے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں یا صدقہ یا قربانی کا فدیہ دے دے۔
نیز فرمایا :
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ [الحديد : 15]
تو آج کے دن تم سے کوئی فدیہ نہ لیا جائے گا
یعنی فدیہ عوض اور بدلہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے عوض دیا جاتا ہے
روزے کے فدیہ کے طور پر مسکین کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رقم دینا درست نہیں۔ ملاحظہ کیجئے یہ سوال و جواب:
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد سے سوال کیا گیا 👇👇👇
میں شوگر کا مریض ہوں اوردن میں دوبار انسولین کا انجیکشن لینا ہوتا ہے ، اس لیے میں روزہ رکھنے کی بجائے اپنی افطاری کی قیمت کا فدیہ ادا کرتا ہوں ، کیا اس طریقہ سے میرا فدیہ ادا کرنا صحیح ہے یعنی فدیہ میں نقدی ادا کرنا کیونکہ میں شادی شدہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹل میں افطار کرتاہوں ۔
اورکیا یہ فدیہ تین یا زیادہ مسکینوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ مجھے افطاری کا محتاج نہيں ملتا ؟
فضیلةالشیخ کا جواب تھا 👇👇👇
جب آپ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہيں توآپ پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اوراس حالت میں روزہ چھوڑ کر کھانا تقسیم کرنے پرہی اکتفا کرنا جائزنہيں ، اورانسولین کے انجیکشن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس لیے آپ روزہ رکھ کربھی انسولین استعمال کرسکتے ہيں ، اوررمضان کےبعد افطار کیے ہوئے دنوں کی قضاء کریں ۔
لیکن اگر آپ کو روزہ رکھنے سے نقصان ہوتا ہو یا پھر آپ کوشدید مشقت ہوتی ہو یا دن کو دوائي کھانے کی ضرورت ہوتو اس وقت آپ کے لیےروزہ ترک کرنا جائز ہے ، اوراگر مستقبل میں بھی آپ قضاء نہ کرسکنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کوکھانا کھلائيں ۔
اورآپ کےلیے نقدی حالت میں فدیہ نکالنا جائز نہيں ، بلکہ کھانے کی شکل میں ہی نکالنا واجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوروہ لوگ جوطاقت رکھتے ہيں وہ بطور فدیہ مسکین کوکھانا کھلائیں }
البقرۃ ( 184 ) ۔
آپ پر ضروری ہے کہ واجب ادا کرنے کے لیے مساکین کوتلاش کریں ، یا پھر نقدی اسے ادا کریں جواس کے قائم مقام بن کرکھانا خرید کر مسکینوں تک کھانا پہنچائے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment