Maiyat Ke Rozon Ke Ahkaam, MarneKe Baad Uska Roza Kaun Rakhega
Maiyat Ke Rozon Ke Ahkaam, Marne Ke Baad Uska Roza Kaun Rakhega
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Maiyat Ke Rozon Ke Ahkaamt |
میت کے روزوں کے احکام :
میت کی طرف سے رمضان کے چھوٹےہوئے روزوں کی قضا
میت کی طرف سے فرضی اور نذر کے روزے رکھنے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ ذیل میں دونوں فریقین کے مئوقف پیش کیے جارہے ہیں :
❶ - سوال : میرے باپ نے اپنی پوری ازدواجی زندگی (تقریباً 11 یا 12 سال )میں روزے نہیں رکھے، اور شادی سے پہلے کے روزوں سے متعلق علم نہیں ہے ، وجہ یہ تھی کہ 70 اور 80 کی دہائی میں بطور ٹرک ڈرائیور ان پر روزہ رکھنا بہت گراں تھا، کیونکہ اس وقت ائیر کنڈیشنڈ ٹرک نہیں ہوتے تھے، اور وہ خلیجی صحراؤں میں لمبی ڈیوٹی دیتے تھے ۔ ا ب میرا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے والد کی طرف سے ان تمام سالوں کے روزوں کی قضا کیسے دیں ؟؟؟
جواب :
الحمد للہ:
© اول:
سفر اور شفا یابی کی امید رکھتے ہوئے بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینا واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ان روزوں کی قضا دیے بغیر فوت ہو جائے حالانکہ وہ روزوں کی قضا دے سکتا تھا تو یہ روزے اس کے ذمہ باقی رہیں گے، ایسی صورت میں میت کے ورثا کی جانب سے روزے رکھنا مستحب ہے؛ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) بخاری: (1952) مسلم: (1147)
لیکن اگر قضا دینے کی صلاحیت حاصل ہونے سے پہلے فوت ہو جائے ، مثال کے طور پر وہی بیماری وفات کا سبب بن جائے، تو ایسی صورت میں اس کے ذمہ روزے نہیں ہوں گے، اور نہ ہی میت کے ورثا اس کی طرف سے روزے رکھیں گے۔
تاہم جو شخص بغیر کسی عذر کے صرف سستی اور کاہلی کی وجہ سے روزے چھوڑ دے تو ایسا شخص روزے نہیں رکھ سکتا اور اگر رکھ بھی لے تو اس کے یہ روزے صحیح نہیں ہوں گے؛ کیونکہ روزے رکھنے کا وقت گزر چکا ہے۔
چنانچہ اس بنا پر :
ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کے والد نمازوں کے پابند اور صدقہ خیرات کرتے تھے اس لیے وہ روزے بغیر کسی عذر کے نہیں چھوڑ سکتے، تو اب ایک ہی صورت باقی رہتی ہے کہ وہ روزے سفر میں رہنے کی وجہ سے نہیں رکھتے تھے، اب یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا موسم سرما کے دنوں میں دوران سفر وہ روزوں کی قضا دیتے تھے یا نہیں؟ -آپ کی والدہ کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے- نیز کیا گھر میں رہتے ہوئے انہی روزوں کی قضا دینے کا موقع ملتا تھا یا نہیں؟ یا وہ ہمیشہ ہی سفر میں رہتے تھے کیونکہ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں روزوں کی قضا دینے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔
ان تمام احتمالات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جائے گا کہ: اگر آپ کو حقیقت تک رسائی حاصل نہ ہو اور آپ ان کی طرف سے اپنی استطاعت کے مطابق روزے رکھ دو تو یہ اچھا کام ہوگا، ان شاء اللہ آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا، واضح رہے کہ اس صورت میں آپ پر ان کی طرف سے روزے رکھنا واجب نہیں ہے، اسی طرح انہوں نے کتنے سال روزے نہیں رکھے ان کی یقینی تحدید بھی لازمی نہیں ہے، چنانچہ اس کیلیے ظن غالب اور اندازے سے ان سالوں کی تعداد معین کر لی جائے، اور آپ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف سے روزے رکھیں، یہ آپ کا اپنے والد پر احسان ہوگا، لیکن واضح رہے کہ یہ روزے آپ کیلیے اس سے اہم ذمہ داریوں میں رکاوٹ نہ بنیں۔
آپ کے والد صاحب کی طرف سے روزوں کی قضا دینے کیلیے تمام ورثا بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور جس کیلیے روزہ رکھنا مشکل ہو تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میت کی طرف سے ولی پر روزے رکھنا مستحب ہے، اگر ولی روزے نہ رکھے تو ہم کہیں گے کہ: فرض روزے پر اسے قیاس کرتے ہوئے ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے"
اسی طرح ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
"مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ ایک آدمی کے 15 بیٹے ہیں اور ہر ایک بیٹا 30 روزوں میں سے 2 روزے رکھے تو یہ درست ہوگا، اسی طرح اگر ورثا کی تعداد 30 ہو اور ہر کوئی ایک ایک روزہ رکھ دے تو یہ بھی درست ہوگا؛ کیونکہ اس طرح روزوں کی تعداد 30 پوری ہو گئی ہے، نیز ایک ہی دن سب روزے رکھیں یا تیس روزے مکمل کرنے تک یکے بعد دیگرے روزے رکھیں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے" انتہی
"الشرح الممتع" (6/ 450- 452)
© دوم:
آپ کی والدہ نے بلوغت کے بعد اور شادی سے پہلے جو روزے ترک کیے ہیں ان کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:
1- جو روزے انہوں نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے بغیر کسی عذر کی بنا پر چھوڑے تو وہ ان روزوں کی قضا نہیں دے سکتیں، جیسے کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔
2- جو روزے انہوں نے حیض، سفر اور بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہیں ان کی قضا دینا ان پر لازمی ہے، ان کی تعداد اتنی مقرر کریں جس سے دل مطمئن ہو جائے کہ روزوں کی تعداد مکمل ہو جائے گی ۔
الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ / ماخذ: الاسلام سوال و جواب
❷ - میت کے فرض روزے رہتے ہوں خواہ وہ رمضان المبارک کے ہوں نذر کے ہوں یا کفارہ کے میت کے اولیاء اسکی طرف سے روزے ہی رکھیں گے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»
جو شخص فوت ہو جائے اور اسکے ذمہ روزہ ہو تو اسکا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے۔
صحیح البخاری: 1952
یہ روایت عام ہے اس میں ہر قسم کے فرض روزے داخل و شامل ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روایت عام نہیں ہے بلکہ نذر کے روزوں کے ساتھ ہے اور اسکے لیے وہ بطور دلیل یہ روایت پیش کرتے ہیں: نذر کے روزوں کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ:
«أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسکے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے ۔ تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ کہنے لگی جی ہاں! آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حقدار ہے۔
صحیح مسلم: 1148
صحیح البخاری میں وضاحت ہے :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اس پر نذر کے روزے ہیں۔
صحیح البخاری: 1953
لیکن اس روایت سے صحیح بخاری کی پہلی عام روایت کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ
- اولا:
علم اصول کا مسلمہ قاعدہ ہے : اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے سبب کے خصوص کا نہیں اور دوسرا قاعدہ ہے: عام کے افراد میں سے کسی ایک فرد کا ذکر اس عام کے عموم کو ختم نہیں کرتا ۔ اور حدیث " من مات وعلیہ صیام میں عموم کا ذکر ہے ۔اور نذر والی حدیث میں اس عام کے ایک فرد کا تذکرہ ہے ۔لہذا اسے نذر کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں !
- ثانیا:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: «وَجَبَ أَجْرُكِ، وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: «صُومِي عَنْهَا» قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: «حُجِّي عَنْهَا»
میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی اور میری والدہ اب فوت ہوگئی ہے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اجر مل گیا اور وراثت میں وہ لونڈی پھر تجھے مل گئی۔ اس نے کہ اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے تو کیا میں اسکی طرف سے روزے رکھوں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی طرف سے روزے رکھ۔ کہنے لگی کہ اس نے کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میں انکی طرف سے حج کروں؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انکی طرف سے حج کر۔
صحیح مسلم: 1149
یہی روایت ابو عوانہ میں وضاحت کے ساتھ ہے:
وَعَلَيْهَا صَوْمٌ مِنْ رَمَضَانَ انکے ذمہ رمضان کے روزے ہیں۔
مستخرج أبی عوانۃ : 2906
اس روایت سے واضح ہوگیا کہ رمضان کے روزے بھی میت کی طرف رکھے جائیں گے ولی پہ لازم ہے کہ انکی قضائی دے۔
- ثالثا:
فدیہ کا حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں اللہ تعالى نے اسے منسوخ فرما دیا۔
ابن ابی لیلى فرماتے ہیں:
حدثنا أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نزل رمضان فشق عليهم فكان من أطعم كل يوم مسكينا ترك الصوم ممن يطيقه ورخص لهم في ذلك فنسختها وأن تصوموا خير لكم فأمروا بالصوم
کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہمیں بتایا کہ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت نازل ہوئی تو جس پر روزہ گراں گزرتا , اگر اسکے پاس طاقت ہوتی تو وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور روزہ چھوڑ دیتا , اور انہیں اس بات کی رخصت تھی , پھر اس رخصت کو وأن تصوموا خير لكم نے منسوخ کر دیا اور انہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
صحیح البخاری:
قبل حدیث 1949 نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے
(فِدْيَةُ طَعَامِ مَسَاكِينَ)
کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
«هِيَ مَنْسُوخَةٌ» یہ منسوخ ہے
صحیح البخاری: 1949
فضیلةالشیخ ابوعبدالرحمٰن رفیق طاہرحفظہ اللہ
❸ - اگر کسی نے روزوں کی نذر مانی ہوا اور اس کو پورا کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کی طرف سے یہ روزے اس کا ولی رکھ ےگا، جیسا کہ
۱ – سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
من مات وعلیہ صیام ، صام عنہ ولیّہ۔
جو آدمی فوت ہوجائے ، اس حال میں کہ اس کے ذمّہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔” (صحیح بخاری: ۱۹۵۲، صحیح مسلم: ۱۱۴۷) .
۞ عمرہ سے روایت ہے:
ان امھا ماتت ولیھا من رمضان، فقالت لعا ئشۃ : أقضیہ عنھا؟ قالت : لا، بل تصد قی عنھا وکان کل یوم نصف صاع علی کل مسکین .
“ان کی ماں فوت ہوگئی، اس پر رمضان کے روزے باتی تھے، اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے پوچھا ، کیا میں اپنی ماں کی طرف سے ان کی قضائی دوں ؟ آپﷺ نے فرمایا، نہیں ، بلکہ ہر روزے کے بدلے کسی مسکین پر ایک صاع گندم صدقہ کر۔” (مشکل الآ ثار للطحاری: ۱۴۲/۳، وسندۂ صحیح، المحلی لابن حزم: ۴/۷، واللفظ لہ، وسندۂ صحیح) .
بخاری و مسلم کی پہلی حدیث کا مفہوم راویہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ کے درج بالا فرمان سے واضح ہوگیا کہ اُس حدیث سے نذر کے روزے مراد ہیں ، نہ کہ رمضان کے، راوی اپنی روایت کو بہتر جانتا ہے۔
امام ابوداؤدؒ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
،ھذا فی النذر ، وھو قول أ حمد بن حنبل .
“یہ (حدیث) نذر کے (روزوں کے ) بارے میں ہےے، امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔” (سنن ابی داؤد، تحت حدیث:۲۴۰۰).
حدیث ِ عائشہ ؓ کے عموم کی تخصیص یہ حدیث بھی کرہی ہے کہ سید نا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے:
(جاء رجل الی االنبی ﷺ ، فقال یا رسول اللہ! ان اُمّی شھر ، أ فأ قضیہ عنھا؟ قال : نعم ، فد ین اللہ أ حق أن یقضٰی.)
“ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پر ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضائی دوں ؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں!اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ ” (صحیح بخاری: ۱۹۵۳، صحیح مسلم: ۱۱۴۸) .
۞ سید نا ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے:
ان سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ استفتی رسول اللہﷺ ، فقال : ان أمّی ماتت وعلیھا نذر ، فقال: اقضہ عنھا) .
“سیدنا سعد بن عبادہ ؓ نےرسولِ کریم ﷺ سے فتویٰ طلب کیا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہیں ، ان پر نذ ر کے روزے تھے ، آپ نے فرمایا ، ا ن کی طرف سے قضائی دے۔” (صحیح بخاری :۲۷۶۱، صحیح مسلم ۱۶۳۸).
یہ حدیث نص ہے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں گے۔
۞ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے ایسے انسان کے بارے میں پوچھا گیا جو فوت ہوگا ہواور اس پر نذر کے روزے تھے تو آپ نے فرمایا:
( یصام عنہ النذر) .
“اس کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں گے۔” (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۲۵/۱/۴، وسندۂ صحیح).
فائدہ: اگر مرنے والے پر رمضان کے روزوں کی ادائیگی ہو تو اس کی طرف سے روزہ نہیں رکھا جائے گا، بلکہ سیدہ عائشہ ؓ کے اس فرمان کے مطابق ہر روزے کے بدلے آدھا صاع یا ایک مد گندم ولی صدقہ کرے گا۔
امام احمد بن حنبل ؒ بھی یہی فرما تے ہیں ۔
امام بخاری ؒ کا بھی یہی مؤقف ہے۔
سیدناابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں : (مسائل الا مام احمد برویۃ ابی داؤد: ص۹۶) .
“کوئی کسی کی طرف سے نہ نماز پرھے اور نہ کوئی کسی کی طرف سےروزہ رکھے، بلکہ (روزے کے بدلےمیں ) ہر دن ایک مد گندم صدقہ کرے۔”السنن الکبری للسائی : ، ۲۹۱۸وسندۂ صحیح)
میت کی طرف سے نذر کے روزوں کے علاوہ ولی روزے نہیں رکھ سکتا، کیو نکہ سیدنا ابنِ عباس ؓ اسی بات کے قائل ہیں کہ میت کے طرف سے نذر کے روزے رکھے جائی۔
الحاصل: میت پر نذر کے روزے ہوں تو اس کا ولی ان کی قضائی دے گا، اگر رمضان کے روزے ہوں تو ولی ہر روزے کے بدلے میں آدھا صاع یا ایک مد گندم کسی مسکین پر صدقہ کرے گا۔
مقلدین نبئ اکرم ﷺ ، سیدہ عائشہ ؓاور سید ناابنِ عباس ؓ کی مخالفت میں کہتے ہیں :
(ولا یصوم عنہ الولیّ)
“ولی میت کی طرف سےنذر کے روزے نہیں رکھے گا۔” (الھدایۃ الدرایۃ، کتاب الصوم: ۲۰۳/۱)
قارئین کرام! انصاف شرط ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو لیں گے یافقہ حنفی کو؟
الشیخ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ تعالیٰ
❹ میرے والدِ ماجد کچھ عرصہ پہلے وفات پاچکے ہیں ، اور بیماری کی وجہ سے ماہِ رمضان کے روزوں میں سے کئی ہفتے انہوں نے روزے نہیں رکھے اور مسلسل مرض کی وجہ سے ان کی قضاء بھی نہیں کی تو اس صورت میں ہم پر کیا کفارہ واجب ہوتا ہے؟
مات وعليه صوم بسبب المرض
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
والد کی اصل فرمانبرداری یہی ہے کہ ان کے متعلق حقوق اللہ اور حقوقِ عباد کی ادائیگی کے بارے میں چھان بین اور جانچ پڑتال کی جائے اور ان کو پورا ادا کرنے میں تگ ودَو اور دوڑ دھوپ کی جائے ، جیسا کہ ایک آدمی خدمتِ اقدس میں حاضرہوا اوربعض روایات میں ہے کہ ایک عورت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوئی : ’’اے اللہ کے رسول! میری ماں نے منت مانی تھی کہ وہ حج ادا کرے گی لیکن منت پوری کرنے سے پہلے وہ پیوندِ خاک ہوگئی لہٰذا اب میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں ؟ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا: جی ہاں ، اس کی طرف سے حج ادا کرلو اللہ تعالیٰ اس کی قضاء کو پورا کرنے والے ہیں‘‘۔ یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ باپ کی اصل فرمانبرداری یہی ہے کہ ان کے اوپر لوگوں کے واجبہ حقوق کو تلاش کیا جائے اور ان کو پورا پورا اد ا کیا جائے ۔
اور جہاں تک اس خاص مسئلہ کا تعلق ہے ، اور وہ یہ کہ جو شخص مستقل بیمار رہا حتی کے مر گیا، تو اب اگر اس کی بیماری ایسی تھی کہ صحتیاب ہونے کی امید تھی اس صورت میں اس پر قضاء نہیں ہے نہ اس پر نہ بعد میں اس کے ورثاء پر ، نبی ﷺنے فرمایا جو کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث بخاری میں مروی ہے: ((جو اس حالت میں مر گیا کہ اس پر کچھ روزے باقی تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے)) یہ حدیث اس صورت کے بارے میں ہے کہ اگر اس پر روزے واجب ہوئے اور اس کے ذمہ میں ثابت ہوئے یا تو اداء کے اعتبار سے یا قضاء کے اعتبار سے، جبکہ پیچھے مذکورہ صورت میں صرف قضاء کے اعتبار سے ہی واجب ہوئے اور اس کو اتنا وقت نہ مل سکا جس میں وہ قضاء کرتا لہذا وہ بریء الذمہ ہو گیا، اور اس پر اہل علم کی ایک جماعت نے اتفاق ذکر کیا ہے کہ اگر مرض طول پکڑ جائے اور ہو بھی ایسا کہ صحتیابی کی امید ہو لیکن قضاء نہ کر سکا تو اس کے بیٹے پر کوئی قضاء نہیں اور نہ ہی یہ پیچھے ذکر کی گئی حدیث میں داخل ہو گا ۔
اور اگر مرض ایسا ہو کہ صحتیابی کی کوئی امید نہیں اور مرض جاری رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا، نہ اس نے کھانا کھلایا نہ قضاء کی تو اس صورت میں اس کے ولی پر واجب ہے کہ اگر وہ قدرت رکھتا ہو تو اس کے ترکہ میں سے جو روزے اس پر تھے ان کا فدیہ نکالے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور جو طاقت رکھتے ہیں ان پر فدیہ ہے، مسکین کو کھانا کھلانا)) [البقرہ:۱۸۴]
اور جہاں تک ولی کا میت کی طرف سے روزے رکھنے کا تعلق ہے تو اگر روزے نذر کے مانے گئے ہوں اور اس نے مؤخر کر دئے یا اس پر قضاء تھی مگر اس نے قضاء نہیں کئے یہاں تک کے اسے موت آگئی تو اس حالت میں اس کی طرف سے ولی روزے رکھے گا، لیکن باقی دو صورتوں میں وہ یہ کہ اگر اس پر کچھ نہ ہو، یا اس پر اپنی زندگی میں کھانا کھلانا واجب تھا جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرما یا: ((اور جو طاقت رکھتے ہیں ان پر فدیہ ہے، مسکین کو کھانا کھلانا)) [البقرہ:۱۸۴]
تو اس دوسری حالت میں صرف کھانا کھلانا ہی لازم ہے اور قضاء مشروع نہیں کیونکہ اس پر روزے ثابت ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ اس کے ذمہ میں روزے کا بدل ثابت ہوا تھا جو کہ کھانا کھلانا ہے تو اب یہی لازم ہے کہ ترکہ میں سے اتنی مقدار نکال دے، اور اگر اس نے کوئی مال نہیں چھوڑا تو اب وہ عاجز ہے اس میں استطاعت نہیں جبکہ واجبات استطاعت کی بنیاد پر ثابت ہوتے ہیں، تو اب اگر استطاعت نہیں تو کچھ بھی اس پر واجب نہیں۔
الشیخ محمدخالدالمصلح حفظہ اللہ تعالیٰ
خلاصہ کلام اور راحج قول یہ ہے کہ میت کی طرف چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزے قضا کئے جائیں گے ،یہ مسئلہ منصوص اور جائزو مشروع ہے ۔ نبی ﷺ نے اسے میت کا قرض قرار دیا ہے اور قرض کی ادائیگی اسی شکل میں ادا کرنا اولی ہے جس شکل کا قرض ہے یعنی میت کے ذمہ روزہ کا قرض باقی ہے تو اس کے وارثین روزہ کی قضا دے کر اس قرض کو اتارے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اضافہ کرتا ہوں اگر میت کے وارثین میں سے کوئی روزہ نہ رکھ سکےیا نہ رکھنا چاہے یا روزہ رکھنے والا کوئی موجود ہی نہ ہو تو فدیہ ادا کردیا جائے۔آخری بات یہ جان لیں کہ ایسی کوئی مرفوع حدیث نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ رمضان کے روزوں کی قضا نہیں ہے البتہ صحیح مرفوع احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میت کے چھوٹے ہوئے رمضان کے فرض روزوں کی قضا ہے ۔ اس مسئلہ کے ساتھ سب سے اوپربیان کردہ میت کے روزوں کی اقسام کی بھی دھیان رہے ۔
کتابچہ ڈاونلوڈ کیجیے :
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment