Maiyat Wale Ke ghar Khana Kha Lena Jayez hai ya Nahi?
جنازے کے بعد میت والے گھر کھانا کھا لینا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب تحریری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میت والوں کے ہاں کھانا کھانا
سنن ابن ماجہ کا ایک باب ہے :
بَابُ: مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الاِجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ
باب:" میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونا اور کھانا تیار شرعاً منع ہے "
اس باب کی حدیث یہ ہے :
عن جرير بن عبد الله البجلي ، قال: "كنا نرى الاجتماع إلى اهل الميت وصنعة الطعام من النياحة".
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یعنی صحابہ کرام میت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور ان کے لیے ان کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ (جو شریعت اسلامیہ میں بہت سخت حرام ہے )
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1612 ومصباح الزجاجة: ۵۸۶)، رواه أحمد (6866)
قال الشيخ الألباني: صحيح
مصر کے مشہور محقق محدث محمد فؤادؒ عبد الباقي سنن ابن ماجہ میں اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
[ش (كنا نرى) هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة رضي الله عنهم أو تقرير النبي صلى الله عليه وسلم. وعلى الثاني فحكمه الرفع. وعلى التقديرين فهو حجة]
یعنی سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ : "ہم یعنی صحابہ کرام ایسا سمجھتے تھے " یہ جملہ گویا اجماع صحابہ کا بیان ہے ، اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ تقریری حدیث ہے یعنی خود نبی مکرم ﷺ ایسا ہی سمجھتے تھے ،اس صورت میں یہ موقوف حدیث یعنی اثر صحابی مرفوع حدیث کے حکم میں ہوگی ، اور دوں صورتوں میں یہ قول صحابی شرعی دلیل ہے ۔(کہ اہل میت کے ہاں دوسرے کا کھانا نوحہ کرنے جیسا حرام ہے )
علامہ محمد بن علي الشوكاني (المتوفى: 1250ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
( قوله: (كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت. . . إلخ) يعني أنهم كانوا يعدون الاجتماع عند أهل الميت بعد دفنه، وأكل الطعام عندهم نوعا من النياحة لما في ذلك من التثقيل عليهم وشغلهم مع ما هم فيه من شغلة الخاطر بموت الميت وما فيه من مخالفة السنة؛ لأنهم مأمورون بأن يصنعوا لأهل الميت طعاما فخالفوا ذلك وكلفوهم صنعة الطعام لغيرهم ۔
انتهى من " نيل الأوطار" (4/ 118) .
علامہ محمد بن علی
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی صحابی سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں جمع ہو کر انکے پاس کھانا کھانے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، کیونکہ اس کی وجہ سے اہل میت پر بوجھ آتا ہے، اور میت والوں کو گھر میں مرگ کی وجہ سے ذہنی تناؤ کے باوجود کھانے کے انتظام میں مشغول ہونا پڑتا ہے، اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نا فرمانی ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اہل میت کیلئے کھانا بنائیں، لیکن [یہاں ایسی صورت حال بن جاتی ہے کہ]انہوں نے اُلٹا میت والوں کو اپنے لئے کھانا بنانے میں مصروف کر دیا" انتہی
" نيل الأوطار" (4/ 118)
بات واضح ہے کہ:
میت کے ورثاء کو کھانا کھلانا چاہئے ،جو غم اور دکھ کے عالم میں ہیں ،نا کہ ان سے خود کھانے کے لیئے بیٹھ جائیں۔ اہل میت کا دیگیں پکانا اور تعزیت کے لیئے آنے والوں کا کھانابے حسی اور انسانیت سوز عمل بھی ہے۔ جس کا سدباب لازم ہے۔
ایسا کھانا کھلانا اگر نیکی و ثواب کی نیت سے ہو تو بدعت ہے ،اور نیکی اور اجر وثواب سے قطع نظر رسم و رواج کے طور پر ہو تو فرمان پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ،کیونکہ آپ ﷺ کا حکم ہے کہ دوسرے لوگ اہل میت کے کھانے کا انتظام کریں ؛
سنن ابوداود
باب صَنْعَةِ الطَّعَامِ لأَهْلِ الْمَيِّتِ
باب: اہل میت کے لیے کھانا تیار کرنا۔
عن عبد الله بن جعفر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اصنعوا لآل جعفر طعاما، فإنه قد اتاهم امر شغلهم".
سیدنا جعفر طیار ؓ شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو آپ ﷺ نے سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا :
جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ان پر (غم وحزن کی ایسی ) حالت آپڑی ہے جس نے انہیں مشغول کردیا ہے ( یعنی غم میں ہونے کے سبب یہ اپنے کھانا نہیں بنا سکتے )"
( سنن ابی داود: 3132، وسندہ حسن )“۔
سنن ابی داود 3132، سنن الترمذی/الجنائز ۲۱ (۹۹۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۹ (۱۶۱۰)، مسند احمد (۱/۲۰۵)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کے گھر والے دوسرے لوگوں کے لیے کھانا تیار نہیں کریں گے بلکہ لوگ ان کے لیے کھانا پکا کر بھیجیں گے تاکہ وہ ان ایام غم میں کھانا پکانے کی طرف سے بے فکر رہیں ۔
اس حدیث کی شرح میں عون المعبود شرح سنن ابوداود میں لکھا ہے :
قال بن الهمام في فتح القدير شرح الهداية يستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلتهم ويومهم ويكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة انتهى
یعنی مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن الہمام (كمال الدين محمد بن عبد الواحد (المتوفى: 861هـ)ھدایہ کی شرح فتح القدیر میں فرماتے ہیں کہ : اہل میت کے ہمسایوں اور دور کے رشتہ داروں کیلئے شرعاً مستحب یہ ہے کہ وہ اہل میت کو کم از کم ایک دن رات کا کھانا بناکر کھلائیں ،
اور شریعت میں اہل میت کے ہاں دوسرے لوگوں کا کھانے کی دعوت کھانا مکروہ ہے ،کیونکہ ضیافت (یعنی کھانے کی دعوت ) خوشی کے مواقع پر ہوتی ہے نہ کہ دکھ کے موقع پر ،یہ (اہل میت کے ہاں کھانا ) بہت بری بدعت ہے ۔ (دیکھئے فتح القدیر باب الجنائز )
اس کے بعد علامہ سندھی حنفی (نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ) کا تشریحی نوٹ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کی تعلیق میں لکھا ہے کہ :
وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك "
یعنی معاملہ الٹ ہو رہا ہے ،کیونکہ حدیث رسول ﷺ میں حکم وارد یہ تھا کہ دوسرے لوگ اہل میت کو کھانا کھلائیں ،لیکن اب لوگ اہل میت کے ہاں کھانے کیلئے جمع ہوتے ہیں ،اور اہل میت بے چارےبڑے اہتمام اور تکلف سے ان ندیدوں کیلئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل میت کو کھانے کا انتظام کرنے کی تکلیف دے کر مقروض اور زیرِ بار کرنا ویسے بھی نا مناسب اور اخلاقی جرم ہے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی غمزدہ اور مصیبت زدہ ہوتے ہیں، انہیں اتنی فرصت اور ہوش کہاں کہ اتنی بڑی بڑی جماعتوں کے لیے کھانوں کا انتظام کر سکیں، اسی لیے اصل شرعی صورت یہ ہے کہ متعلقین، دوست احباب وغیرہ انہیں کھانا بہم پہنچائیں؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مخصوص صورت :
جو لوگ دور دراز سے جنازہ میں شرکت کے لیے آتے ہیں اور کسی وجہ سے وہ واپس نہیں ہو سکتے ، یا کہیں اور سے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے ، اور اہل میت کےمتعلقین یا ہمسائے وغیرہ بھی اہل میت اور ان کے مہمانوں کیلئے کھانے کا انتظام نہ کریں تو ان کے لیے کھانے کا انتظام کرنا اضطراری صورت ہے ، یعنی اہل میت کیلئے ایسے مہمانوں کیلئے کھانا بنانا مجبوری ہے، اور ایسے مہمانوں کا میت کے گھر کھانے میں حرج نہیں، جو بات مکروہ اور بدعت ہے وہ یہ کہ غم کے اس موقع پر خوشی و مسرت کی طرح باضابطہ کھانے کا دستر خوان سجانا منع ہے, اسی طرح تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ کرنا یہ سب درست نہیں،
نیز اگر جنازہ اٹھنے کے بعد آنے والے سبھی مہمانوں کو جو کھانا کھلایا جاتا ہے اگر اس میں قریب و بعید ہر طرح کے لوگ شریک ہوتے ہیں اور اس کا رواج بنا ہوا ہے تو اس کو ترک کرنا واجب ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
No comments:
Post a Comment