Roma ka Badshah aur Mujahidin-E-Islam
اورنیل بہتارہا
*قسط نمبر/12*
ہرقل نے اپنے ایک ہارے ہوئے محاذ سے بھاگے ہوئے جرنیل کی پوری بات سن تو لی لیکن اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار نہ کیا، اس پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات، اور اٹھنا، کمرے میں ٹہلنا، پھر بیٹھ جانا ،اور پھر اٹھ کر ٹہلنے لگنا ،ایسی علامت تھی جو اس بے چینی اور بے قراری کا پتہ دیتی تھی، جو اس کے اندر بپا تھی اس سے توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کی عظمت اور افادیت پر غور کرے گا اور اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کرے گا۔
چوں کہ یہ داستان فتح مصر کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ہم انطاکیہ کی فتح کا مزید ذکر نہیں کریں گے۔
البتہ اتنی سی بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ انطاکیہ کی فتح اسلام کے نظریے اور دین کے اصولوں کی فتح تھی۔
سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے شہریوں پر جزیہ عائد کردیا اور باقی تمام ٹیکس اور محصولات ختم کردیئے شہر میں بعض لوگ کٹر عیسائی تھے انہوں نے روم کی بادشاہی کو تو قبول کیا ہی نہیں تھا ،انہوں نے درپردہ لوگوں کو اکسانا شروع کردیا کہ وہ مسلمان فاتحین کو جزیہ نہ دیں اور خود مختار ہو جائیں ،کچھ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے اور جزیہ دینے سے انکار کردیا ابوعبیدہ کے حکم سے ایسے لوگوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔
مسلمان فاتحین کے سامنے صرف یہ کام نہیں تھا کہ وہ مفتوحہ شہروں کا نظم و نسق درست کرنے بیٹھ جاتے ۔
سالاروں کے سامنے اصل کام یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی رومی فوج کو کہیں بھی اکٹھا نہ ہونے دیا جائے ۔
جاسوسوں نے اطلاع دی کہ انطاکیہ سے بھاگی ہوئی رومی فوج حلب کے مقام پر اکٹھا ہو رہی ہے ابو عبیدہ نے کچھ لشکر اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہوگئے، خالد بن ولید کو انھوں نے ایک اور سمت بھیج دیا جہاں رومی فوج تازہ دم ہونے کے لیے رک گئی تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابوعبیدہ حلب پہنچے تو انطاکیہ سے ایک قاصد یہ پیغام لے کر ان تک پہنچا کہ انطاکیہ کے لوگوں نے نافرمانی شروع کردی ہے اور صورت بغاوت والی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
ابو عبیدہ نے ایک نائب سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ بغاوت پر قابو پائے لیکن یہ احتیاط کریں کہ کسی پر بلا وجہ اور غیر ضروری تشدد اور زیادتی نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہ نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھیجا جس میں انہوں نے ایک تو انطاکیہ کی فتح کی خوشخبری سنائیں اور ساتھ یہ اطلاع دی کہ انطاکیہ کے لوگوں نے جزیہ کے معاملے میں بغاوت کردی ہے۔
امیرالمومنین نے یہ پیغام ملتے ہیں جواب بھیجا جس میں انھوں نے لکھا کہ لوگوں کو ہر وہ سہولت دو جو ان کا حق ہے، اگر کچھ لوگوں کے وظیفے مقرر کیے ہیں تو وہ انہیں بروقت ادا کیے جائیں، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شہر میں مجاہدین کے دو تین دستے موجود رہے۔ اور وہ نظم ونسق برقرار رکھیں، تا کہ لوگوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی فوج ہے ہی نہیں کہ وہ مفتوحہ آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔
تدبر اور ہوشمندی سے اس بغاوت پر قابو پالیا گیا بغاوت تو کچھ اور علاقوں میں بھی ہوئی تھی ان سب پر قابو پالیا گیا تھا۔
ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جا رہے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہرقل کس انجام کو پہنچا اور اسے اس انجام تک کس طرح پہنچایا گیا۔ پھر ہم یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہرقل کی اس چال کو اس طرح بے کار کیا کہ اس نے اپنی فوج کو مختلف مقامات پر تقسیم کردیا تھا ۔ اسے توقع تھی کہ مسلمان بھی اس کے مطابق تقسیم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو اللہ کی مدد اور رہنمائی حاصل تھی۔ ورنہ اتنی قلیل تعداد کو اتنے زیادہ حصوں میں بانٹ دینا مسلمانوں کے لئے بڑا ہی تباہ کن اقدام ہوتا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
ہرقل کا جرنیل راستین اسے انطاکیہ کی صحیح صورت حال بتا کر اور شکست کی وجوہات واضح کرکے پھر محاذ پر چلا گیا تھا. ہرقل اب دوسرے مقامات سے آنے والے قاصدوں کا انتظار کرنے لگا، لیکن کہیں سے کوئی قاصد نہیں آ رہا تھا ۔اس کی زندگی اب سراپا انتظار بن کے رہ گئی تھی، یہ تمام مقامات سرحدی تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ روم کی فوج تمام تر شام سے نکل گئی ہے اور اب سرحد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
معروف تاریخ دان الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرقل مایوسیوں میں ڈوب گیا تھا ،اور اپنے مشیروں اور مصائبو کے ساتھ جو باتیں کرتا تھا ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا تھا کہ اس کی شہنشاہی کا ستارہ جو شام پر چمکتا ہی رہتا تھا ٹوٹ کر شام کے افق میں ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔
آخر ایک روز حلب سے اس کی فوج کا ایک افسر آیا جو کچھ زخمی بھی تھا، اس نے ہرقل کو ایسی ہی کہانی سنائی جیسی راستین انطاکیہ کی سنا چکا تھا۔ اس نے سنایا کہ اب بچی کچھی فوج ادھر ادھر سے حلب آ رہی تھی کہ مسلمانوں کا مختصر سا لشکر آن پہنچا ، رومیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری تھی کہ وہ جم کر لڑ ہی نہ سکے۔
وہاں کے لوگوں کا رویہ کیا تھا؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ؟۔۔۔ہمارے حق میں اچھا نہیں تھا اس افسر نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ بعض لوگوں نے مسلمانوں کی کسی نہ کسی طرح مدد بھی کی تھی ہمارے خلاف وہ مخبری تو ضرور ہی کرتے رہے۔کیا اس کی کوئی وجہ بتا سکتے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔
راستین جرنیل تھا اس لیے اس نے ہرقل کو بڑے صاف الفاظ میں جرات کے ساتھ وجہ بتا دی تھی، لیکن یہ رومی معمولی سا افسر تھا اس لیے اس نے سچ بولنے کی جرات نہیں کی، ہرقل نے پھر اپنا سوال دہرایا تو افسر بے چین سا ہو گیا اور ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ ہرقل نے اسے کہا کہ وہ ڈرے جھجکے بغیر وجہ بتا دیے تاکہ آئندہ ایسی وجہ پیدا نہ ہونے دی جائے۔
شہنشاہ معظم! ۔۔۔افسر آخر بولا۔۔۔ ہماری شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں لڑنے، زخمی ہونے اور اپنی جان قربان کرنے والا افسر اتنی جرات نہیں رکھتا کہ آپ نے شہنشاہ کے آگے سچ بول سکے ،آپ نے مجھے سچ بولنے کا حکم دیا ہے میں چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں لوگ کہتے ہیں ،ہمیں بادشاہ کی نہیں بندے کی حکمرانی چاہیے ،ہم نے سنا ہے مسلمان ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں کسی کی بادشاہی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی بلکہ وہ خود کسی بندے کو حکمران بنا لیتے ہیں اور رعایا کا پیٹ کاٹتے نہیں بلکہ پیٹ بھرتے ہیں۔
ہرقل نے سر جھکالیا جیسے وہ بات کی تہ تک پہنچ گیا ہو، ہرقل سر جھکا لینے والا بادشاہ نہیں تھا اب جو اس کا سر جھکتا تھا اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے شکست تسلیم کرلی ہے۔
ایک دو دن ہی اور گزرے تھے کہ ایک اورمقام مرعش سے ایک رومی قاصد آ گیا۔
ہرقل نے اپنی فوج کا کچھ حصہ اس قلعہ بند اور بڑے مضبوط مقام پر بھیج دیا تھا قاصد نے بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آیا اور مرعش کو محاصرے میں لینے لگا، لیکن وہاں کے جرنیل نے فوج کو حکم دیا کہ یہ بہت ہی کم تعداد لشکر ہے، اسے محاصرہ نہ کرنے دیا جائے ،بلکہ باہر نکل کر اسے گھیرے میں لے کر ختم کیا جائے، اس حکم کے تحت فوج باہر نکلی تو مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے بھی ہٹنے لگے اور دائیں بائیں پھیلنے بھی لگے پھر یوں ہوا کہ اس لشکر کو گھیرے میں لینے کے بجائے لشکر نے اپنے دونوں پہلو پھیلا کر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور جو مسلمان رومی فوج کے عقب میں چلے گئے تھے وہ قلعے میں داخل ہوگئے۔
قاصد نے بتایا کہ رومی فوج پیچھے ہٹنے لگی تو قلعے کے دیواروں سے اس پر تیر اور برچھیاں برسنے لگی، نفسا نفسی کا عالم طاری ہوا کہ رومی نہ باہر لڑنے کے قابل رہے نہ قلعے میں داخل ہو سکے جانی نقصان بےانداز ہوا ،اور زخمیوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی، اور وہی زندہ رہے جو اس معرکے سے نکل گئے تھے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور رومی فوج کی جو نفری وہاں موجود تھی اسے تباہ وبرباد کردیا۔
اس کے بعد رہاء میں ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ بیروت پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔
اور اس تمام سرحدی علاقے سے مسلمانوں نے رومی فوج کو بے دخل کردیا ہے۔
اس سرحدی علاقے میں شام کے دفاع کیلئے کئی ایک قلعے بنائے گئے تھے ان سب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
یہ تھے یزید بن ابی سفیان جو اس وقت دمشق میں تھے سپہ سالار ابوعبیدہ کا حکم پہنچا تو وہ دمشق سے نکلے اور بیروت جاپہنچے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہ کارنامے معجزوں سے کم نہ تھے بیروت اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ ہوجانے کا مطلب یہ تھا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کوئی مدد اور کوئی کمک نہیں مل سکتی تھی ۔
اس وقت مصر پر رومیوں کی ہی حکومت تھی ہرقل مصر سے کمک مانگوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے راستے مسدود کردیئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ہرقل تو بڑا کایاں اور منجھا ہوا جرنیل تھا، لیکن اس نے مسلمانوں کے لشکر کو بکھیرنے کے لئے جو چال چلی تھی اس سے مسلمان سالاروں نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کی فوج کو خون میں نہلا کر بچ جانے والے رومیوں کو تتربتر کردیا ۔ ہرقل اللہ کے اس قانون سے واقف نہیں تھا کہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ذلت میں پھینک دیتا ہے، لیکن اللہ کسی کو بلاوجہ عزت اور کسی کو ویسے ہی ذلت نہیں دے دیا کرتا، اس کی کچھ شرائط بھی اللہ نے مقرر کی ہے اللہ انہیں ہی چاہتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
ہرقل نے اپنے مشیروں اور مصاحبوں کو بلایا اور انہیں صورتحال بتا کر کہا کہ وہ مشورہ دیں کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو کہاں یکجا کیا جائے، اور کیا فوج یکجا ہو جائے تو یہ لڑنے کے قابل ہوگی؟
ایک مشیر فوراً بول اٹھا اس نے سب سے پہلے ہرقل کی مداح سرائی کی پھر مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور پھر اس قسم کے الفاظ کہے کہ روم کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اٹھو!،،،، ہرقل نے اس مشیر سے کہا۔۔۔ باہر نکل جاؤ پھر مجھے کہیں نظر نہ آنا۔
ہرقل دوسرے مشیروں سے مخاطب ہوا مجھے صحیح مشورہ چاہیے صورتحال تم سب کے سامنے ہے۔
مشیروں اور مصائبو پر خاموشی طاری ہوگئی جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ تھے، یا مر ہی گئے تھے، ہرقل انہیں دیکھتا رہا سب کو غالبا توقع تھی کہ ہرقل گرج کر بولے گا اور حکم دے گا کہ اسے صحیح مشورہ دیا جائے ان میں سے کوئی بھی سچ بات کہنے کی جرات نہیں رکھتا تھا ،غالبا ہرقل نے محسوس کرلیا کہ یہ لوگ کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہیں اسے شاید یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کو مدح سرائی اور خوشامد کا عادی اس نے خود بنایا ہے اس کے سامنے بڑی ہی تلخ اور اذیت ناک حقییقت آ گئی تھی جو اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ سچ کا سامنا کریں۔
ہم اب کہیں بھی نہیں لڑسکتے۔۔۔ ہرقل نے خود ہی فیصلہ سنا کر مشیروں کو ذہنی اذیت سے نکالا۔۔۔ ایک ہی صورت رہ گئی ہے وہ یہ کہ ہم شام سے نکل جائیں اور مصر جا کر فوج کو منظم اور تیار کریں اور پھر شام پر حملہ آور ہوں۔
ہم پہلے اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔۔۔ ایک بوڑھے مشیر نے کہا ۔۔۔ایرانیوں نے ہم سے صرف شام ہی نہیں مصر بھی چھین لیا تھا آپ اس وقت بادشاہ نہیں تھے خود مختار نہیں تھے لیکن آپ نے بادشاہ کو بے اختیار کر کے سلطنت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے فوج کو تیار کیا، اور جب مصر اور شام پر حملہ کیا تو ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر دونوں ملکوں سے نکال دیا تھا۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ملک شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے، مصر تو ہمارے پاس ہے فیصلہ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے نکل چلیں۔
اس کے بعد تمام مشیر باری باری بولنے لگے اور سب نے اسی فیصلے کی تائید کی کہ شام سے نکل جانا چاہیے اگر ہم اس توقع پر فوج کو لڑاتے رہے کہ مسلمانوں کو ایک زوردار حملے سے پسپا کر دیں گے تو حاصل کچھ بھی نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جو فوج بچ گئی ہے وہ بھی کٹ جائے گی۔
ہرقل نے حکم جاری کر دیا کہ وہ قسطنطنیہ جانا چاہتا ہے ،اور جتنی جلدی ہوسکے روانگی کی تیاری شروع کر دی جائے، اس وقت قسطنطنیہ بھی رومیوں کی سلطنت کا ایک بڑا شہر تھا، اور جنگ سے محفوظ ۔
ہرقل کو اب وہی پناہ گاہ نظر آئی تھی اس کے کوچ کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی۔
ہرقل تو اس دور کی سب سے بڑی اور ہیبت ناک جنگی طاقت کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ تھا۔
اس کے غرور اور تکبر نے اور انسانوں پر اس کے ظلم و تشدد نے اسے یہ روز عبرت دکھایا۔
جب اس کی ہیبت ناک جنگی طاقت ڈرے سہمے ہوئے سپاہیوں کی صورت میں بکھر گئی تھی،
اس کے نامور جرنیل مارے گئے تھے، ہر طرف اور ہر جگہ اس کے فوجیوں کی گلتی سڑتی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں، اور زخمی فوجی اپنے آپ کو گھسیٹتے تھے، اس فوج کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ مجسم حسرت و یاس بنے اس منزل کو روانہ ہو رہا تھا جسے وہ سب سے زیادہ محفوظ پناہ سمجھتا تھا لیکن یقین نہیں تھا کہ اس منزل تک خیریت سے پہنچ بھی سکے گا یا نہیں؟
تاریخ میں صرف وہ واقعات ملتے ہیں جو عینی شاہدوں کے حوالے سے کبھی قلمبند کئے گئے تھے، ان واقعات میں انسان چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور روئے زمین پر اچھی بری حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔
کسی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ فلاں صورتحال میں فلاں کے دل میں کیا تھا اور اس کے اندر کا کیسے طوفان بپا ہو رہے تھے ،کسی نے لکھا بھی تو یہ قیاس آرائی تھی یا قافیہ شناسی ۔
ہرقل کے متعلق متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ مایوسی اور نامرادی میں ڈوب گیا تھا، اور اس قدر بے چین اور بے قرار رہنے لگا تھا کہ اس کے لیے کوئی معمولی سا فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا ۔
وہ فتوحات کا عادی ہو گیا تھا اور اس وہم میں مبتلا کے کوئی اسے شکست دے ہی نہیں سکتا اس خوش فہمی نے اسے رعایا کے لئے فرعون بنا دیا تھا۔
ہم تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی ۔اسے اپنا ایک بڑا ھی نامور جرنیل تذارق یاد آیا ہوگا یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے۔ مجاہدین اسلام کے دو عظیم سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھا، کی قیادت میں زرتشت کے پجاری ایرانیوں کے خلاف ایران میں برسر پیکار تھے ،آتش پرست ایرانی پسپا ہوتے چلے جارہے تھے، شام سلطنت روم میں شامل تھا اور حکومت ہرقل کی تھی۔
اس وقت تک ہرقل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی لٹیرے کہا کرتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ شام کی سرحدوں سے باہر رہیں ورنہ نیست و نابود کر دیے جائیں گے اپنا ایک بڑا زبردست کثیر تعداد لشکر یرموک کے مقام پر بھیج دیا، اور مسلمانوں کو للکارا اس لشکر کا جرنیل تاریخ کا ایک مشہور جنگجو تذارق تھا۔ ہرقل کو توقع تھی کہ وہ ایک ہی معرکے میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ لیکن اس معرکے کا انجام یوں ہوا کہ تذارق مارا گیا ،اس کا تقریبا آدھا لشکر کٹ مرا، اور جو تعداد بچ گئی وہ بندہ بندہ ہوکر بکھری اور دہشت زدگی کے عالم میں واپس پہنچی۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ تذارق کے بعد ہرقل کو خود آگے بڑھنا چاہیے تھا تاکہ مسلمانوں پر اس کا دبدبہ قائم ہوجاتا لیکن وہ اس لیے باہر ہی نہ نکلا کہ اسے بھی شکست ہوگی اور اس کا وقار یرموک کی زمین میں ہی دفن ہو جائے گا ۔
اب جبکہ وہ شکست خوردگی کی حالت میں قسطنطنیہ جا رہا تھا اسے یرموک کا معرکہ یاد آیا ہوگا اور وہ پچھتایا بھی ہوگا کہ اس نے عبرت حاصل نہ کی اور مسلمانوں کو کمزور ہی سمجھتا رہا۔
پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط یاد آیا ہوگا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اس واقعے کا مختصر سا پس منظر یوں ہے کہ جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے، ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا ایرانیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی (فرضی) قبر سے صلیب اعظم اٹھا کر لے گئے تھے۔
ہرقل نے شاہ فوکاس کا تختہ الٹا خود شاہ روم ،یا قیصر روم بنا، اور ایرانیوں کو شکست دے کر ان سے صلیبی اعظم واپس لے لی تھی، وہ صلیب اعظم واپس حضرت عیسی علیہ السلام کی مفروضہ قبر پر رکھنے بیت المقدس جارہا تھا رسول اکرم صلی اللہ وسلم نے اس کے نام ایک خط بھیجا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
یہ خط ایک صحابی احیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ لے جارہے تھے۔
ہرقل انہیں بیت المقدس کے راستے میں ملا۔
انہوں نے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کو دے دیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے۔
آج جب شکشت خوردہ ہرقل مسلمانوں کے قہر و عتاب سے بھاگا ہوا شام کی سرحد سے نکل رہا تھا، اسے یقینا مسلمانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط یاد آیا ہوگا، اور یہ بھی اس نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا، وحیہ بن خلیفہ کلبی پر پھبتیاں کسی تھیں۔ اور پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے کے کہے تھے، اور خط آپ کے ان صحابی کے منہ پر دے مارا تھا اور بڑی بے ہودگی سے انہیں رخصت کیا تھا۔
عین ممکن ہے اب ہرقل دل ہی دل میں پستایا ہوگا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتا تو آج وہ بھی فاتحین میں شامل ہوتا، اور اس ذلت و رسوائی تک نہ پہنچتا ۔
تاریخ میں ہرقل کی اس وقت کی کیفیت اتنی سی ہی لکھی ملتی ہے ،کہ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا ،سر جھکا ہوا ،اور کندھے سکڑے ہوئے تھے۔
اس کے دل کو اس خیال نے بھلایا ہوگا کہ ابھی پورے کے پورے مصر اس کے قبضے میں ہے اور وہاں جاکر فوج کو تیار کرے گا اور پھر شام پر حملہ کر کے مسلمانوں سے انتقام لے گا۔
جاری ہے
بقیہ قسط۔13۔میں پڑھیں۔
Mohammad Yahiya Sindhu
No comments:
Post a Comment