Raat Me Roze Ki Niyat, Kya Nafli Roze Ki Niyat Ko Kaza Roze Ki Niyat Me Badal Sakte Hain
Raat Me Roze Ki Niyat, Nafli Roze Ki Niyat Kaza Roze Me Badalna Kaisa Hai, Kya Nafli Roze Ki Niyat Ko Farz Roze Ki Niyat Me Badal Sakte Hain
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Raat Me Roze Ki Niyat |
وجوب نیت: فرض روزوں کے لیے رات کو روزے کی نیت کرنا ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
" مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلا صِيَامَ لَهُ"
(سنن ابی داؤد، الصیام، باب النیۃ فی الصوم)
"جس نے فجر سے پہلے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں"
رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے، علاوہ ازیں فجر کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس نے سحری بھی کھانی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے نیت تو بہرحال ہوتی ہی ہے، کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔ اور یہ جو عام کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں " بصوم غد نويت من شهر رمضان" بالکل بے اصل ہیں، اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا پڑھنا گناہ ہے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
قضا روزے رکھتے ہوئے بھی رات کے حصے میں نیت کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ قضا کا بھی وہی طریقہ ہوتا ہے جو وقت پر روزے رکھنے کا ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
(جو شخص فجر سے قبل روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں)
ترمذی: (730)
اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ:
"اہل علم کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص رمضان میں طلوعِ فجر سے
پہلے روزے کی نیت نہ کرے اسکا روزہ نہیں ہے، یا رمضان کے قضا روزے یا نذر
کے روزے رکھتے ہوئے نیت نہ کرے ۔ لہذا اگر رات کے حصے میں روزے کی نیت
نہیں کی تو کفایت نہیں کرے گا ۔ تاہم نفل روزے کی نیت فجر کے بعد کی جا
سکتی ہے ، یہ امام شافعی ، احمد اور اسحاق کا موقف ہے"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ رمضان، قضائے رمضان ، کفارہ، فدیہ اور اسی طرح کے دیگر واجب روزے کی فجر کے بعد دن کے وقت نیت کرنا صحیح نہیں ہے، اس سے روزہ بھی صحیح نہیں ہو گا" ختم شد
"المجموع" (6/ 289) ، اسی طرح دیکھیں: "المغنی" از ابن قدامہ(3/ 26)
نیز یہ بھی ہے کہ عبادت سے فراغت کے بعد نیت میں تبدیلی مؤثر نہیں ہوتی۔
اس بارے میں امام سیوطی رحمہ اللہ "الأشباه والنظائر" (ص37) میں کہتے ہیں
"اگر کوئی شخص نماز سے فراغت کے بعد کہیں جا کر نماز کی نیت ختم کرے تو اس سے اس کی نماز باطل نہیں ہو گی، اس پر سب کا اجماع ہے، اور یہی حکم دیگر تمام عبادات کا ہے" ختم شد
لہذا جو روزے نفل روزوں کی نیت سے رکھے گئے ہیں وہ اب قضا روزوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔
نیز یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص نفل روزہ رکھنا شروع کرے اور پھر اس کا ارادہ بنے کہ دن میں کسی وقت اس روزے کو قضا میں تبدیل کر لے تو اس طرح اس کے روزے کا ایک حصہ نفل ادا ہو چکا ہے، لہذا یہ روزہ کسی بھی واجب یا فرض روزے سے کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ اس کی فرض روزے کی نیت پورے دن کو شامل نہیں تھی، اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔
نیز یہ بھی ہے کہ اس طرح کرنا مطلق روزے کو معین روزے کی نیت سے تبدیل کرنا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔
ہم آپ کو مزید یہ بھی بتلانا چاہیں گے کہ جس پر رمضان کے روزے ہوں اس کے لیے نفل روزے رکھنا منع نہیں ہیں؛ جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، بلکہ راجح موقف یہی ہے کہ جو شخص نفل روزے رکھنا چاہتا ہے وہ نفل روزے رکھ لے چاہے اس پر کسی بھی قسم کے واجب روزے ہوں مثلاً: رمضان کی قضا وغیرہ کے تو ان کے ہوتے ہوئے بھی نفل روزے رکھنا صحیح ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پاس نفل روزے رکھنے کے بعد اتنا وقت ہو کہ وہ آئندہ رمضان آنے سے پہلے سابقہ رمضان کے روزوں کی قضا دے سکے۔
البتہ صرف شوال کے روزے رمضان کی قضا دینے سے پہلے رکھنا منع ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
صلاح الدین یوسف
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
" مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلا صِيَامَ لَهُ"
(سنن ابی داؤد، الصیام، باب النیۃ فی الصوم)
"جس نے فجر سے پہلے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی، اس کا روزہ نہیں"
رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے، علاوہ ازیں فجر کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس نے سحری بھی کھانی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے نیت تو بہرحال ہوتی ہی ہے، کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔ اور یہ جو عام کیلنڈروں میں روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں " بصوم غد نويت من شهر رمضان" بالکل بے اصل ہیں، اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ اس لیے ان الفاظ کا پڑھنا گناہ ہے، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہیں۔
قضا روزے رکھتے ہوئے بھی رات کے حصے میں نیت کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ قضا کا بھی وہی طریقہ ہوتا ہے جو وقت پر روزے رکھنے کا ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
(جو شخص فجر سے قبل روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں)
ترمذی: (730)
اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ:
"اہل علم کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص رمضان میں طلوعِ فجر سے
پہلے روزے کی نیت نہ کرے اسکا روزہ نہیں ہے، یا رمضان کے قضا روزے یا نذر
کے روزے رکھتے ہوئے نیت نہ کرے ۔ لہذا اگر رات کے حصے میں روزے کی نیت
نہیں کی تو کفایت نہیں کرے گا ۔ تاہم نفل روزے کی نیت فجر کے بعد کی جا
سکتی ہے ، یہ امام شافعی ، احمد اور اسحاق کا موقف ہے"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ رمضان، قضائے رمضان ، کفارہ، فدیہ اور اسی طرح کے دیگر واجب روزے کی فجر کے بعد دن کے وقت نیت کرنا صحیح نہیں ہے، اس سے روزہ بھی صحیح نہیں ہو گا" ختم شد
"المجموع" (6/ 289) ، اسی طرح دیکھیں: "المغنی" از ابن قدامہ(3/ 26)
نیز یہ بھی ہے کہ عبادت سے فراغت کے بعد نیت میں تبدیلی مؤثر نہیں ہوتی۔
اس بارے میں امام سیوطی رحمہ اللہ "الأشباه والنظائر" (ص37) میں کہتے ہیں
"اگر کوئی شخص نماز سے فراغت کے بعد کہیں جا کر نماز کی نیت ختم کرے تو اس سے اس کی نماز باطل نہیں ہو گی، اس پر سب کا اجماع ہے، اور یہی حکم دیگر تمام عبادات کا ہے" ختم شد
لہذا جو روزے نفل روزوں کی نیت سے رکھے گئے ہیں وہ اب قضا روزوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔
نیز یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص نفل روزہ رکھنا شروع کرے اور پھر اس کا ارادہ بنے کہ دن میں کسی وقت اس روزے کو قضا میں تبدیل کر لے تو اس طرح اس کے روزے کا ایک حصہ نفل ادا ہو چکا ہے، لہذا یہ روزہ کسی بھی واجب یا فرض روزے سے کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ اس کی فرض روزے کی نیت پورے دن کو شامل نہیں تھی، اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔
نیز یہ بھی ہے کہ اس طرح کرنا مطلق روزے کو معین روزے کی نیت سے تبدیل کرنا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔
ہم آپ کو مزید یہ بھی بتلانا چاہیں گے کہ جس پر رمضان کے روزے ہوں اس کے لیے نفل روزے رکھنا منع نہیں ہیں؛ جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، بلکہ راجح موقف یہی ہے کہ جو شخص نفل روزے رکھنا چاہتا ہے وہ نفل روزے رکھ لے چاہے اس پر کسی بھی قسم کے واجب روزے ہوں مثلاً: رمضان کی قضا وغیرہ کے تو ان کے ہوتے ہوئے بھی نفل روزے رکھنا صحیح ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پاس نفل روزے رکھنے کے بعد اتنا وقت ہو کہ وہ آئندہ رمضان آنے سے پہلے سابقہ رمضان کے روزوں کی قضا دے سکے۔
البتہ صرف شوال کے روزے رمضان کی قضا دینے سے پہلے رکھنا منع ہے ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
صلاح الدین یوسف
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
No comments:
Post a Comment