find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Ramzan Ke Mahine Me Jama karne Ka Gunah, Roze Ki Halat Me Sex Karne Ka Gunah

Ramzan Ke Mahine Me Jama karne Ka Gunah, Roze  Ki Halat Me Sex Karne Ka Gunah

Ramzan Ke Mahine Me Jama karne Ka Gunah, Roze  Ki Halat Me Sex Karne Ka Gunah, Ramzan Ke Rozon Me Jama Ke Ahkaam
بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Ramzan Ke Mahine Me Jama karne Ka Gunah, Roze  Ki Halat Me Sex Karne Ka Gunah, Ramzan Ke Rozon Me Jama Ke Ahkaam
Ramzan Ke Rozon Me Jama Ke Ahkaam

◆ روزوں میں جماع کے احکام
رمضان میں دن کے وقت مرد وعورت پر جماع کرنا حرام ہے اور ان پر یہ واجب ہے کہ وہ روزہ رکھیں اور اگر انہوں نے یہ کام کر لیا تو ان کے ذمہ کفارہ ہے جو کہ ایک غلام آزاد کرنا ہے جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے جو اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئےتھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہلاک ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کیا ہوا ؟ تو وہ کہنے لگا میں نے اپنی بیوی سے روزے کی حالت میں جماع کر لیا ہے ( رمضان میں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تیرے پاس غلام ہے جسے تو آزاد کرے ؟ تو وہ کہنے لگا : نہیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو دو مہینے مسلسل روزے رکھ سکتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو ؟ وہ کہنے لگا نہیں ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گۓ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئےتھے کہ ایک بڑا سا ٹوکرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں ادھر ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لے جاؤ اور انہیں صدقہ کر دو تو وہ شخص کہنے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے بھی زیادہ فقیر پر ؟ اللہ کی قسم ان دونوں خالی جگہوں یعنی ان دونوں حروں (مدینہ کی دونوں اطراف ) کے درمیان میرے گھر والوں سے زیادہ فقیر کوئی نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرآئے حتی کہ آپ کے دانت نظر آنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر (1834 اور 1835) صحیح مسلم حدیث نمبر (1111)
دوم :
اور رہا یہ مسئلہ رمضان کی راتوں میں جماع کا تو یہ جائز ہے منع نہیں اور یہ جواز طلوع فجر تک رہتا ہے اگر فجر طلوع ہو گئي تو جماع حرام ہو جائے گا ۔
اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
( روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لۓ حلال کیا گيا ہے وہ تمہارا لباس اور تم ان کا لباس ہو تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالی کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما دیا اب تہمیں ان سے مباشرت اور اللہ تعالی کی طرف سے لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو ) البقرہ / 187
تو یہ آیت اس جواز کے لۓ نص ہے کہ رمضان میں رات کو فجر تک کھایا پیا اور جماع کیا جا سکتا ہے جماع کے بعد غسل کرنا اور پھر نماز فجر پڑھنا فرض وواجب ہے ۔
🖊فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
◆ روزے کی حالت میں جماع سے کفارہ :
رمضان شریف میں روزہ کی حالت میں جماع کرنے سے کفارہ آتا ہے۔ ((لحدیث ابی ھریرۃ قال بینھما نحن جلوس عند النبی ﷺ اذا جائہ رجل فقال یا رسول اللّٰہ ھلکت قال مالک قال وقعت علی امراء تی وانا صائم فقال رسول اللّٰہ ﷺ ھل تجد رقبۃ تعتقہا قال لا قال فھل تستطیع ان تصوم شھرین متتابعین قال لا قال ھل تجد اطعام ستین مسکینا الحدیث متفق علیہ))
جو شخص یہ کہتا ہے کہ روزہ کا کچھ کفارہ نہیں۔ اس کا قول حدیث کے مخالف ہے۔
دیکھیے : فتاویٰ علمائے حدیث/جلد 06 /صفحہ 119
اس موضوع میں دو مسئلے ہیں :
☜  پہلا    : روزے دار کا جماع کرنا ۔
☜ دوسرا  : جماع کے بعد غسل نہ کرنے کے احکام ۔
✪ اول : روزے دار کا اپنی بیوی سے رمضان میں دن کو جماع کرنا اس کی دو حالتیں ہیں :
☜ پہلی حالت : یہ اعتقاد رکھنا کہ رمضان میں روزہ کی حالت میں بغیر انزال کے جماع حرام   نہیں تو اس حکم سے جاہل ہوتے ہوئےجماع کر لینا۔
☜ دوسری حالت : اسے یہ علم ہو کہ جماع تو حرام ہے لیکن اس کی سزا کا علم نہیں ۔
پہلی حالت کے متعلق شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ:
راجح قول یہ ہے کہ جس نے ایسا فعل کیا جو کہ روزہ توڑنے والا ہو یا حرام کے منع کردہ کاموں میں کوئی کام کیا یا پھر نماز میں کوئی ایسا کام کیا جس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور وہ اس سے جاہل ہو تو اس پر کوئی چیز نہیں ۔
کیونکہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
(اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر لیں تو ہمارا مواخذہ نہ کرنا )
تو اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : میں نے کر دیا ۔
لھذا یہ شخص جو اپنی بیوی سے رمضان میں دن کو روزہ کی حالت میں جماع کر لیے اگر یہ اس حکم سے جاہل تھا بلکہ اس کا گمان یہ تھا کہ وہ جماع جس میں انزال ہو بس وہ حرام ہے تو اس پر کوئی چیز نہیں ۔
اور دوسری حالت میں :
اگر اسے یہ علم تھا کہ جماع حرام ہے لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کفارہ ہے تو اس کے ذمہ کفارہ لازم ہے ۔
کیونکہ حکم سے جاہل ہونا اور سزا اور عقاب سے جاہل ہونے میں فرق ہے تو سزا سے جہالت میں کوئی کام نہیں دیتی اور نہ ہی یہ عذر بن سکتا ہے اور حکم سے جہالت انسان کا عذر بن سکتا ہے ۔
اور اسی لۓ علماء کا کہنا ہے کہ : اگر انسان نے اس خیال سے کوئی نشہ آور چیز کھا لی کہ اس سے نشہ نہیں ہوتا اور یہ گمان کیا کہ یہ حرام نہیں تو اس پر کوئی چیز نہیں اور اگر اسے یہ علم ہو کہ یہ نشہ کرے گی جو کہ حرام ہے لیکن اسے یہ علم نہیں کہ اس پر اسے سزا سے دو چار ہونا پڑے گا تو اسے سزا ضرور ملے گی یہ ساقط نہیں ہوگی ۔
تو اس بناء پر ہم سائل کو یہ کہتے ہیں کہ جب کہ آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ بغیر انزال کے جماع حرام ہے تو آپ کے ذمہ کچھ نہیں اور اسی طرح آپ کو بیوی پر بھی اگر اسے بھی آپ کی طرح علم نہیں تھا ۔
✪ دوم : اس فعل کا روزے اور نماز پر اثر :
روزے پر تو جنابت کا کوئی اثر نہیں جب کہ جنبی آدمی کا روزہ صحیح ہے لیکن غسل جنابت ترک کرنے سے نماز کے لۓ مشکل در پیش ہے ۔
جنابت کے ہوتے نماز درست نہیں اور اکثر علماء اس شخص کو یہ کہتے ہیں کہ اس پر واجب ہے کہ وہ سب نمازوں کی قضاء ادا کر ے جن میں اس نے غسل نہیں کیا مگر یہ تو نہیں کہ یہ شخص غسل ہی نہ کرے کیونکہ وہ کچھ مدت کے بعد جماع کرے گا انزال کے بعد غسل بھی کرے گا ۔
یہ ہے کہ جو مقدار اس پر مخفی رہے جس میں خلل واقع ہوا ہے جس میں اس نے غسل کیا ہے تو اس لۓ ہم اسے یہ کہتے ہیں کہ احتیاطا قضاء دے دو اور اگر آپ کو اس کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور نہ ہی آپ کے دل میں یہ آیا کہ بغیر انزال کے جماع غسل واجب کرتا ہے تو ہمیں امید ہے کہ آپ کے ذمہ کچھ بھی نہیں یعنی قضاء وغیرہ نہیں لیکن آپ اس زیادتی سے توبہ واستغفار کریں جو آپ نے کسی عالم سے سوال نہ کرنے میں کی ہے ۔
رمضان میں روزے کی حالت سے بیوی کے ساتھ جماع کرنے پر کفارہ مغلظہ ہوگا جو کہ ایک غلام آزاد کرنا اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا، اوراس کے ساتھ روزے کی قضاء بھی ہوگی ۔
اوراگر عورت رضامندی سے یہ کام کرے تواس پر بھی یہی کفارہ ہوگا اورقضاء بھی کرنے پڑے گی ، لیکن اگر وہ دونوں مسافرہوں تو ان پرکوئي گناہ نہیں اور نہ ہی کفارہ ہے اوراس دن کھانے پینے سے رکنا بھی نہیں ہوگا بلکہ صرف اس دن کی قضاء ہوگی کیونکہ ان پر روزہ رکھنا لازم نہيں تھا ۔
اور اگر میاں بیوی سفر کی حالت میں تھے تو ایسی صورت میں گناہ ، کفارہ، اور نہ ہی بقیہ دن میں روزہ مکمل کرنا ضروری ہے، صرف ان دونوں کو اس دن کی قضا دینا ہوگی، کیونکہ ان پر روزہ لازم ہی نہیں تھا۔( آگے اس کی تفصیل موجود ہے )
اوراسی طرح جوکوئي کسی ضرورت کی بنا پر روزہ افطار کرلے مثلا کسی معصوم بچے کو ہلاک ہونے سے بچائے ، تواگر اس دن جس میں اس نے کسی ضرورت کی بنا پر روزہ افطار کیا تھا میں جماع کرلیا تواس پر کچھ بھی نہيں کیونکہ اس نے واجبی روزے کی حرمت پامال نہيں کی ۔
جس شخص پرروزہ لازم ہو اوروہ اپنے ملک میں مقیم ہو توجماع کرلینے کی بنا پر اس پر پانچ اشیاء مرتب ہوتی ہیں :
☜ 1 - گناہ ومعصیت ۔
☜ 2 - روزہ فاسد ہوجاتا ہے ۔
☜ 3 - دن کا بقیہ حصہ کچھ نہ کھانا پینا ۔
☜ 4 - قضاء میں روزہ رکھنا واجب ہے ۔
☜ 5 - کفارہ واجب ہوجاتا ہے ۔
کفارہ واجب ہونے کی دلیل ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں پائي جاتی ہے جس میں اس شخص کا بیان ہے جس نے اپنی بیوی سے رمضان میں دن کے وقت بیوی سے روزے کی حالت میں جماع کرلیا تھا ، تو یہ شخص کفارہ ادا کرنے میں روزے رکھنے اورکھانا کھلانے کی طاقت نہيں رکھتا تھا جس کی بنا پراس سے کفارہ ساقط ہوا ۔
کیونکہ اللہ تعالی کسی کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہيں کرتا ، اورعاجز ہونے کی صورت میں وہ واجب نہيں ہوتی ، جماع میں انزال ہونے یا نہ ہونے میں کوئي فرق نہيں جب جماع ہوگیا توحرمت پامال کردی گئي ، لیکن اگر جماع کے بغیر ہی انزال ہوجائے تو اس میں کفارہ نہيں ہے بلکہ اس میں گناہ اورقضاء اوراس دن کھانے پینے سے گريز کرنا واجب ہے ۔ .
◆ روزے میں جماع کا کفارہ کس پر ؟
جس خاتون کیساتھ خاوند نے رمضان میں دن کے وقت جماع کیا ہے، وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے:
☜ پہلی حالت: 
عورت بھول جائے، یا جبراً جماع کیا جائے، یا پھر اسے رمضان میں دن کے وقت جماع کے حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس بنا پر اسے معذور سمجھا جائے گا، اور ایسی حالت میں اسکا روزہ درست ہوگا، اسے قضا یا کفارہ نہیں دینا پڑے گا، یہ موقف ایک روایت کے مطابق امام احمد سے منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسے ہی اپنایا ہے، موجودہ علمائے کرام میں سے ابن باز اور ابن عثیمین رحمہم اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
انہوں نے جن دلائل کو بنیاد بنایا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
 1- فرمان باری تعالی : (اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں ، یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مؤاخذہ مت کرنا) البقرۃ/ 286
 2- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے روزے کی حالت میں بھول کر کھا لیا تو وہ اپنا روزہ مکمل کرے، اسے اللہ تعالی نے ہی کھلایا پلایا ہے)متفق علیہ، ان علمائے کرام نے یہ کہا ہے کہ: جماع اور دیگر تمام روزہ افطار ی کا باعث بننی والی اشیاء کھانے پینے پر قیاس کی جائیں گی۔
 3- ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے میری امت سے غلطی، بھول چوک، اور جبراًکروائے گئے [کام] معاف کردئیے ہیں) ابن ماجہ: (2045) البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن باز رحمہ اللہ سے ایسے خاوند کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کیساتھ زبردستی جماع کیا، تو انہوں نے جواب دیا:
"۔۔۔ اگر عورت کیساتھ زبردستی کی گئی توعورت پر کچھ نہیں ہوگا، اور اسکا روزہ بھی صحیح ہوگا"انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (15/310)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (6/404)میں رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے کے بارے میں کہتے ہیں:
"اگر عورت لاعلمی، بھول چوک، یا جبر کی وجہ سے معذور ہو تو اس پر قضا نہیں ہوگی، اور نہ ہی کفارہ ہوگا"انتہی
☜ دوسری حالت:
عورت کا کوئی قابل قبول عذر نہ ہو، بلکہ جماع کیلئے راضی ہو، تو ایسی حالت میں کفارہ لازم ہونے کے بارے میں علمائے کرام کے ہاں دو اقوال پائے جاتے ہیں:
✔ پہلا قول:
اگر تو جماع پر راضی تھی تو اس پر قضا اور کفارہ دونوں عائد ہونگے، یہی جمہور علمائے کرام کا موقف ہے، انہوں نے درج ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
 1- صحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنے والے شخص کو کفارے کا حکم دیا، اور اصول یہ ہے کہ مرد و خواتین احکامات میں ایک دوسرے کے مساوی ہوتے ہیں، الّا کہ شریعت کسی کو واضح لفظوں میں مستثنی قرار دے دے۔
 2- اس خاتون نے بھی جماع کے ذریعے رمضان کی حرمت کو پامال کیا ہے، تو اس پر بھی مردوں کی طرح کفارہ لازم ہوگا۔
 3- چونکہ کفارہ جماع سے متعلقہ سزا ہے، تو اس میں بھی زنا کی طرح مرد وخواتین کا ایک ہی حکم ہوگا۔
بہوتی رحمہ اللہ "شرح منتهى الإرادات" (1/486) میں کہتے ہیں:
"ایسی عورت جسے جماع کے حکم کا علم ہو، اسے بھول نہ لگی ہو، اور اسکے لئے راضی بھی ہو ، تو اس پر بھی مرد کی طرح قضا ، اور کفارہ لازم ہوگا، کیونکہ اس نے بھی رضا مندی کیساتھ رمضان کی حرمت کو جماع کے ذریعے پامال کیا ہے، اس لئے اسکا حکم بھی مرد جیسا ہی ہوگا"انتہی
✔  دوسرا قول:
یہ ہے کہ کفارہ صرف خاوند کو ہی پڑے گا، وہ صرف اپنا کفارہ ادا کریگا، جبکہ عورت پر کچھ نہیں ہوگا، چاہے جماع کیلئے اس سے زبردستی کی گئی ہو، یا جماع کیلئے رضا مند ہو، یہی شافعی حضرات کا موقف ہے، اور امام احمد سے ایک روایت اسی کےمطابق بھی ملتی ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو کفارے کا حکم دیا ، جبکہ عورت کے بارے میں کفارے کا ذکر بھی نہیں کیا، حالانکہ ضرورت کے وقت وضاحت میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
اس دلیل کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ: عورت کیلئے کفارے کا ذکر اس لئے نہیں ہوا کہ مرد نے اپنے بارے میں فتوی پوچھا تھا، عورت نے نہیں پوچھا تھا، [اور یہ بھی ممکن ہے کہ] عورت اس قصہ میں لاعلمی یا جبر کی وجہ سے معذور ہو۔
چنانچہ راجح یہی ہے کہ عورت پر کفارہ واجب ہے، جیسے کہ مرد پر واجب ہے، اس قول کو شیخ عبد العزیز بن باز اور ابن عثیمین رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
دیکھیں: "مجموع فتاوى ابن باز" (15/307) ، "الشرح الممتع" (6/402)
◆ رمضان المبارک میں دن کے وقت جماع کے چھ اہم مسائل :
☜ اول :
جب کوئي رمضان میں دن کو روزے کی حالت میں ایک ہی دن میں ایک یا کئي ایک باراپنی بیوی سے جماع کرے تواس پر ایک ہی کفارہ ہوگا ، اورجب رمضان کے مختلف ایام میں بیوی سے جماع کرے تواس پر ایام کے حساب سے کفارہ ہوگا ۔
☜ دوم :
جماع کی وجہ سے کفارہ لازم ہے چاہے وہ اس کےحکم سے جاہل ہی کیوں نہ ہو کہ جماع سےکفارہ لازم آتا ہے ۔
☜ سوم :
اگر بیوی جماع پر راضي ہوتواس پر بھی جماع کا کفارہ ہوگا ، لیکن اگر وہ مکرہہ یعنی اسے مجبور کیا گيا ہو تو پھر کفارہ نہيں ہوگا ۔
☜ چہارم :
کھانے کے بدلے میں پیسوں کی ادائیگي کفائت نہيں کرے گی ۔
☜ پنچم :
اپنی اوربیوی کی جانب سے ایک ہی مسکین کو نصف اپنا اورنصف بیوی کی جانب سے پورا ایک صاع کھانا دینا جائز ہے ، جوکہ ایک مسکین شمار ہوگا ۔
☜ ششم :
ساٹھ مسکینوں کا کھانا ایک ہی یا پھر کسی تنظیم کودینا جائز نہيں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ساٹھ مسکینوں میں تقسیم نہ کرے ، لھذا مؤمن پر واجب ہے کہ کفارہ اوردوسرے واجبات ادا کرنے سے بری الذمہ ہو ۔
اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
🖊فضیلةالشیخ محمدصالح المنجدحفظہ اللہ
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
 وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS