kya Kisi Saman Ke Badle Dusra Saman Dena Jayez Hai?
Islam Tabadla Ke bare me Kya Kahta Hai?
Ager Mere Pas Phone hai Jiski Qeemat 10,000 (Ten Thousands) hai to mai Dukan wale Se kahoo ke Aap ke Mutabik mere Mobile Ki Qeemat 10,000 hai aur Jo mai Aap se Lena chahta hoo wah 12,000 ka hai to Aap mera Phone Rakh lijiye (Jiska Qeemat 10,000 hai) aur 2,000 le lijiye aur Mujhe Naya Phone (Jiski Qeemat 12,000 hai) wah De dijiye to Kya Aeise Kar Sakte Hai?
تبادلہ کسی طرح جائز ہے اور کس طرح ناجائز جیسا کہ اگر میرے پاس موبائل ہے جس کی مالیت دس ہزار ہے تو میں دوکان والے کو کہوں کہ چونکہ آپ کے مطابق میرے موبائل کی قیمت 10 ہزار ہے اور جو میں آپ سے لینا چاہتا ہوں وہ 12 ہزار کا ہے تو آپ یہ موبائل رکھ لیں اور 2 ہزار لے لیں اور مجھے نیا موبائل دے دیں تو کیا ایسا کر سکتے ہیں اور اسی طرح زمینوں کے تبادلہ کے انتقالات ہوتے ہیں کہ میری ایک شخص کے گاوں میں 5 مرلے اراضی ہے اور اس شخص کی میرے گاوں میں 7 مرلے ہے تو ہم دونوں تبادلہ کرنے پر رضامند ہوتے ہیں کہ میں اپنے 5 مرلے آپ کو دے دیتا ہوں اور آپ کے میرے گاوں میں جو 7 مرلے ہیں وہ میں لے لیتا ہوں اور اگر کوئی کمی بیشی مالیت میں ہے تو وہ آپکو نقد دے دیتا ہوں مطلب جگہ کے بدلے جگہ کے ساتھ پیسے بھی؟
جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت مطہرہ میں معاملات کے مسائل کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کیونکہ لوگوں کو ان کی اشد ضرورت پیش آتی ہے، مثلاً: لوگوں کو غذا کی ضرورت ہے جو ان کے جسموں کو قوت دے۔ اسی طرح انھیں لباس، مکان، سواری وغیرہ کی حاجت ہوتی ہے کیونکہ یہ اشیاء زندگی کی بنیادی اور تکمیل ضروریات میں شامل ہیں۔
(الف)۔ کتاب اللہ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،اجماع اُمت اور قیاس سے بیع کا مشروع ہونا ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ""اور اللہ نے بیع(تجارت) کو حلال کیا ہے۔"[1]
نیز فرمایا:
﴿ لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم...﴿١٩٨﴾... سورة البقرة
"تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔"[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا قَالَ هَمَّامٌ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي يَخْتَارُ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا فَعَسَى أَنْ يَرْبَحَا رِبْحًا وَيُمْحَقَا بَرَكَةَ بَيْعِهِمَا "
"خرید و فروخت کرنے والے دونوں آدمیوں کو تب تک اختیار ہے جب تک (مجلس سے اٹھ کر) الگ الگ نہیں ہو جاتے۔ اگر دونوں سچ بولیں اور (سودے کی حقیقت) واضح کر دیں تو دونوں کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر دونوں جھوٹ بولیں گے اور (حقیقت کو) چھپائیں گے تو ان کی بیع سے برکت اٹھ جائے گی۔"[3]
خرید و فروخت کی مشروعیت پر علمائے امت کا اجماع ہے۔ باقی رہا قیاس تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ لوگوں کی حاجت و ضرورت بیع کے جواز کی متقاضی ہے کیونکہ انسان کی ضرورت قیمت یا ایسی قیمتی چیز کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے جو کسی دوسرے انسان کی ملکیت ودسترس میں ہے۔اور وہ اسے کسی چیز کے عوض ہی میں دے گا،لہذا حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ بیع جائز ہوتا کہ مقصود شے دستیاب ہو سکے۔
(ب)۔ بیع قول یا فعل سے منعقد ہوتی ہے۔قول میں ایجاب و قبول ہوتا ہے جو اس وقت ثابت ہوتا ہے جب بیچنے والا کہے:میں نے یہ چیز فروخت کر دی ۔ اور خریدنے والا کہے: میں نے یہ چیز خریدلی ۔ کسی کے فعل کے ساتھ لین دین یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص بات کیے بغیر سامان یا چیز دے دوسرا اسے اس کی معروف قیمت ادا کردے۔ اور کبھی بیع قول اور فعل دونوں سے ہوتی ہے۔
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فعل کے ساتھ بیع (بیع المعاطاۃ) کرنے کی متعدد صورتیں ہیں:
1۔بائع (فروخت کرنے والے) کی طرف سے صرف ایجاب لفظی ہو اور مشتری (خریدار) اس چیز کو بولے بغیر لے لے ، مثلاً :بائع کہتا ہے: یہ کپڑا ایک دینار کے عوض لے لو اور مشتری اسے لے لیتا ہے۔ اسی طرح اگر قیمت شے (نقدی کے سوا) ہو تو بائع کہتا ہے: یہ کپڑا اپنے کپڑے کے عوض میں لے لو اور مشتری اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے۔
2۔ صرف مشتری لفظ بولتا ہے بائع اس چیز کو ادا کردیتا ہےقطع نظر اس سے کہ قیمت معین ہو یا بعد میں ادا کیے جانے کی یقین دہانی ہو۔
3۔ بائع اور مشتری میں سے کوئی بھی الفاظ کا استعمال نہ کرے بلکہ وہاں کا عام طریقہ یہ ہو کہ مشتری قیمت رکھ دے اور مطلوب چیز پکڑ لے۔
(ج)۔ صحت بیع کے لیے چند ایک شرائط ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق بائع اور مشتری کے ساتھ ہے اور کچھ کا تعلق فروخت ہونے والی سے ہے۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی کم ہو تو بیع درست نہ ہوگی۔ بائع اور مشتری سے متعلق شرائط یہ ہیں:
1۔بائع اور مشتری دونوں کی رضا مندی سے بیع ہو۔اگر دونوں میں سے کسی پر ناحق زبردستی اور جبر ہوتو بیع درست نہ ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِلّا أَن تَكونَ تِجـٰرَةً عَن تَراضٍ مِنكُم ...﴿٢٩﴾... سورة النساء
"مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضا مندی سے خریدوفروخت ہو۔"[4]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ"
"بیع رضا مندی ہی سے ہوتی ہے۔"[5]
البتہ جب کبھی جبرواکراہ درست ہوتو بیع درست قرارپائے گی،مثلاً:کسی حاکم یا قاضی نے کسی شخص کو اس کی چیز بیچنے پر،اس لیے مجبور کیا کہ اس کے ذمے قرض ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے تو یہ جبرواکراہ حق اور درست ہے۔
2۔صحت بیع کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ لین دین کرنے والے دونوں ہی بیع کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں،یعنی ہر ایک آزاد،عاقل اور بالغ ہو،لہذا بچے،بے وقوف،مجنون اورغلام ،جسے اپنے آقا کی اجازت حاصل نہ ہو،کی بیع صحیح اور معتبرنہ ہوگی۔
3۔صحت بیع کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شے کوفروخت کرنے والا اس شے کا مالک ہویا مالک کے قائم مقام ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا:
"لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ"
"جو شے تیری ملکیت میں نہیں اسے فروخت نہ کر"[6]
علامہ وزیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کا اتفاق ہے کہ کسی ایسی شے کی فروخت جائز نہیں جو اس کے پاس نہیں یا اس کی ملکیت میں نہیں کیونکہ پھر وہ اس غیر مملوکہ چیز کو خریدنے جائےگا(اورممکن ہے اس نہ ملے)،اس لیے اس قسم کی بیع باطل ہے۔"
(د)۔جس چیز کی خریدوفروخت مقصود ہو اس میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
1۔وہ ایسی چیز ہوجس سے نفع وفائدہ حاصل کرنا شرعاً جائز ہو،جس چیز سے فائدہ حاصل کرنا حرام ہواس کی خریدوفروخت درست اور جائز نہیں۔
مثلاً:شراب،خنزیر،لہوولعب کے آلات یا مردار وغیرہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الخَمْرِ وَالمَيْتَةِ وَالخِنْزِيرِ والأَصْنَامِ"
"اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب،مردار،سُور اور بتوں کی خریدوفروخت حرام قراردی ہے ۔"[7]
ایک روایت میں ہے:
"اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت،مردار اور اس کی قیمت ،خنزیر اور اس کی قیمت ان سب کو حرام قراردیاہے۔"[8]
"إن الله تعالى حرم الخمر وثمنها وحرم الميتة وثمنها وحرم الخنزير وثمنه"
اسی طرح نجس تیل اور بدبودار اشیاء کی بیع ناجائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"إنَّ الله إِذَا حَرَّمَ شَيْئاً حَرَّمَ ثَمَنَهُ"
"اللہ تعالیٰ نے جب کسی چیز کو حرام کیا تو اس کی قیمت کو بھی حرام قراردیا۔[9]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مردار کی چربی کے بارے میں کیا حکم ہے جسےسے کشتیوں کو چکنا کیا جاتا ہے ،چمڑوں کو نرم کیا جاتا ہے اوراس (چربی) کے ساتھ گھروں میں چراغ جلائے جاتے ہیں؟تو آپ نے جواب دیا:
"لَا، هُوَ حَرَامٌ"
"اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں یہ حرام ہے ۔"[10]
2۔فروخت ہونے والی چیز ایسی صورت میں ہو کہ بائع اسے مشتری کے حوالے کرسکے ورنہ وہ معدوم شے کے حکم میں ہوگی جس کی بیع جائز نہیں،مثلاً بھاگے ہوئے غلام یا بے قابو اونٹ وغیرہ کی بیع کرنا۔فضا میں اڑتے ہوئے پرندے کی بیع کرنا،اسی طرح غصب شدہ شے غصب کرنے والے کے سوا کسی اور کے ہاتھ فروخت کرنا بھی جائز نہیں (کیونکہ اس صورت میں خریدار اس چیز کو حاصل نہیں کرسکتا)،البتہ جو شخص اس سے واپس لینے کی طاقت رکھتا ہو اس کے ہاتھ بیچنا جائز ہے۔
3۔صحت بیع کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ فروخت ہونے والی شے اور اس کی قیمت لین دین کرنے والوں کے ہاں واضح اور طے شدہ ہوکیونکہ اس کے بارے میں لا علمی دھوکا ہے جو ممنوع ہے۔جس چیز کو دیکھا ہی نہیں یادیکھ تو لیا ہے لیکن اس کے اچھے یا بُرے ہونے کا علم نہیں تو اسے خریدنا جائز نہیں،مثلاً :مادہ کے پیٹ میں حمل کی بیع یا جانوروں کے تھنوں میں دودھ کی بیع جائز نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیع ملامسہ یعنی جس کپڑے کو تمہارا ہاتھ لگ گیا تجھے اس کی اس قدر قیمت دیناہوگی اور بیع منابذۃ یعنی تو نے جو کپڑا میری طرف پھینک دیا وہ اتنی قیمت کا ہوگا ،جائز نہیں۔سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"نهى الرسول صلى الله عليه وسلم عن الملامسة والمنابذة "
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع ملامسہ اور بیع منابذہ سے منع فرمایا ہے۔"[11]
اسی طرح کنکری پھینکنے سے منعقد ہونے والی بیع جائز نہیں،مثلاً:کسی کو کہا جائے"تم کنکری پھینکو تو جس کپڑے پر پڑی وہ اس قدر قیمت کے عوض تمہارا ہے۔"
بیع کی ناجائز صورتوں کا بیان
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے خریدوفروخت کو جائز قراردیاہے بشرط یہ کہ اس سے کسی مفید تر اور اہم شرعی حکم کا ترک لازم نہ آئے،مثلاً:جو بیع فرض عبادت کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث بنے یا اس سے دوسرے مسلمان کا نقصان ہوتا ہوتو وہ منع اور ناجائز ہے۔
الف۔درج بالا قاعدے کی روشنی میں جس پر جمعہ ادا کرنا فرض ہو اس شخص کا اذان کے بعدخریدوفروخت کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلوٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ذٰلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٩﴾... سورة الجمعة
"اے وه لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو" [12]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نماز جمعہ کی اذان ہوتے ہی خریدوفروخت سے منع کردیا ہے تاکہ تجارت میں مشغولیت کو جمعہ سے غیر حاضری کا بہانہ وذریعہ نہ بنالیا جائے۔اگرچہ اس وقت دیگردنیوی امور میں مشغولیت بھی منع ہے لیکن تجارت کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اسباب معیشت میں تجارت ایسی اہم چیز ہے جس میں انسان زیادہ تر مشغول رہتا ہے۔
الغرض آیت میں واردنہی اذان جمعہ کے بعد کی بیع کو حرام اورناجائز قراردیتی ہے۔
اسی طرح دیگر فرض نمازوں کی اذان کے وقت تجارت میں مصروف رہنا اور مسجد میں حاضر نہ ہونا ناجائز ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فى بُيوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرفَعَ وَيُذكَرَ فيهَا اسمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴿٣٦﴾رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلوٰةِ وَإيتاءِ الزَّكوٰةِ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصـٰرُ ﴿٣٧﴾ لِيَجزِيَهُمُ اللَّهُ أَحسَنَ ما عَمِلوا وَيَزيدَهُم مِن فَضلِهِ وَاللَّهُ يَرزُقُ مَن يَشاءُ بِغَيرِ حِسابٍ ﴿٣٨﴾... سورة النور
"ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی (37) اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلے دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بےشمار روزیاں دیتا ہے" [13]
ب۔ کسی چیز کو ایسے شخص کے ہاں بیچنا جو اسے اللہ تعالیٰ کی معصیت میں اور حرام کام میں استعمال کرتا ہو،ناجائز ہے،مثلاً:کسی پھل کا جوس ایسے شخص کے ہاں فروخت کرنا جو اس کی شراب بناتا ہو،ناجائز ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ...﴿٢﴾... سورة المائدة
"ایک دوسرے کی گناہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو۔"[14]
بلاشبہ درج ذیل صورت میں تعاون گناہ اور زیادتی میں تعاون ہے۔
مسلمانوں کے درمیان لڑائی اور فتنہ کے وقت اسلحہ بیچنا ناجائز ہے تاکہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ ایسے حالات میں دیگر سامان جنگ فروخت کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا۔اور اللہ تعالیٰ نے بھی منع فرمایا ہے:
﴿وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ...﴿٢﴾... سورة المائدة
"ایک دوسرے کی گناہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو۔"[15]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"دلائل شرعیہ اس امر کے حق میں واضح کریں کہ تجارت میں مقصد کااعتبار اور لحاظ ضرورہوتاہے اور وہ بیع کے جائز یا ناجائز اور حلال وحرام ہونے میں مؤثر ہوتے ہیں، مثلاً: اگر کسی شخص کے بارے میں علم ہو کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے ا،اسے اسلحہ فروخت کرنا حرام ہے کیونکہ اس میں ظلم وزیادتی میں تعاون ہے۔اور اگر اس نے ایسے شخص کے ہاں ا سلحہ فروخت کیا جس کے بارے میں اسے علم ہو کہ وہ اس سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد وقتال کرے گا تو یہ باعث اجرواطاعت ہے۔اسی طرح ان لوگوں کو اسلحہ بیچنا جو مسلمانوں سے لڑے ہیں یا ڈاکہ ڈالتے ہیں ،حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس سے معصیت ونافرمانی میں تعاون کرنا لازم آتا ہے۔"[16]
ج۔ کسی مسلمان غلام کو کافر شخص کے ہاتھ فروخت کرنا جائز نہیں (سوائے اس کے کہ وہ اس کی ملکیت میں آکر قانوناً آزاد ہو رہا ہو) [17] کیونکہ اس صورت میں مسلمان کو کافر کے آگے جھکانا اور ذلیل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ﴿١٤١﴾... سورة النساء
"اور اللہ کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا۔"[18]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"الإسلام يعلو ولا يعلى عليه"
"اسلام غالب ہوتا ہے مغلوب نہیں۔"[19]
د۔ مسلمان بھائی کی بیع پر بیع کرنا حرام ہے، مثلاً: ایک شخص نے کسی سے دس روپے کی ایک شے خریدی ،دوسرا شخص اسے کہے:تو یہ شے بائع کو واپس کردے میں تجھے ایسی ہی شے نو رو پے میں دیتا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ"
"تم میں کوئی ایک دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے۔"[20]
دوسری حدیث کے الفاظ ہیں:
"لا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ"
"کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پربیع نہ کرے۔"[21]
اسی طرح کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی خریداری پر خریداری نہ کرےمثلاً:کسی نے نوروپے کی کوئی شے بیچ دی،دوسرا شخص اسے کہے:میں تجھ سے یہ چیز دس روپے میں خریدنے کو تیار ہوں۔
افسوس! کہ آج کل مسلمانوں کے بازاروں میں تجارت اور لین دین کی کتنی ہی حرام صورتیں جاری وساری ہیں۔ہرمسلمان کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور جو کوئی ایسا کرنے پر مجبور کرے اسے صاف انکار کردینا چاہیے۔
ر۔تجارت کی حرام صورتوں میں سے ایک صورت شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ"
"کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے۔"[22]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کاسامان فروخت کرتے وقت"دلال" نہ بنے۔"[23]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ "
"تم لوگوں کو تجارت کے لیے آزاد چھوڑدو۔اللہ تعالیٰ بعض کو بعض سے رزق دیتا ہے۔"[24]
جس طرح یہ جائز نہیں کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے سامان کی فروخت میں"دلال" بنے اسی طرح سامان کی خریداری میں بھی شہری کو دیہاتی کا دلال نہیں بننا چاہیے،البتہ کوئی دیہاتی کسی شہری کے مال میں دلال بنے تو اس کی ممانعت نہیں۔
ناجائز تجارت کی صورتوں میں ایک صورت بیع عیینہ بھی ہے۔اس کی صورت یہ ہےکہ ایک چیز کسی شخص کو ادھار بیچ دے،پھر مشتری سے ادائیگی کے ساتھ کم قیمت پر خرید لے،مثلاً:ایک گاڑی بیس ہزار درہم میں ادھار بیچ کراس سے پندرہ ہزاردرہم نقد میں خرید لے اور بیس ہزاردرہم طے شدہ مدت پوری ہونے پر واجب الادا ہوں۔یہ سوداحرام ہے کیونکہ یہ حصول سود کے لیے ایک حیلہ ہے،گویا کہ اس نے ادھار درہم نقد دراہم کے بدلے تفاضل (زیادتی) کے ساتھ بیچے۔سود لینے میں گاڑی کو ایک حیلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ"
"جب تم بیع عینہ کرنے لگ جاؤگے،بیلوں کی دُمیں پکڑ لوگے(زراعت میں مشغول ہوجاؤ گے)،کھیتی باڑی پر ر اضی ہوجاؤگے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ورسوائی مسلط کردے گا اور اسے تم سے دور نہیں کرےگا حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ۔"[25]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَسْتَحِلُّونَ الرِّبَا بِالْبَيْعِ "
"لوگوں پر ایک ایساوقت آئے گا ج وہ سود کو بیع کا نام دے کر حلال قراردیں گے۔"[26]
بیع میں شرائط کا بیان
بیع میں شرائط کا وقوع اکثر ہوتا ہے۔بائع اور مشتری دونوں کو یا کسی ایک کو بعض دفعہ بیع میں کوئی شرط عائد کرنی پڑتی ہے،لہذا اس ضرورت کے پیش نظر ہم یہاں چند شرائط کاتذکرہ کریں گے۔اور یہ بھی بیان کریں گے کہ کون سی شرط صحیح اورجائز ہے اور کون سی فاسد اور باطل ہے۔
فقہاء رحمۃ اللہ علیہ بیع میں شرط کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ بائع یا مشتری میں سے کوئی ایک دوسرے پر دوران بیع ایسی بات لازم کردے جس میں اس کا ذاتی فائد ہو۔بنا بریں فقہاء کے نزدیک وہ شرط معتبر ہوگی جو لین دین کے وقت ہو۔اور جو شرط وقت بیع سے قبل یا بعد میں ہواس کا اعتبار نہ ہوگا۔
بیع میں دو قسم کی شرائط عائد ہوتی ہیں:
1۔شرائط صحیحہ:یہ وہ شرائط ہیں جو صحت بیع کے منافی نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا لازم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"المُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ"
"مسلمان باہمی شرائط کے پابند رہیں۔"[27]
قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر شرط جائز ہے سوائے اس کے جسے شارع نے باطل اور ناجائز قراردیا ہے۔شرائط صحیحہ کی دو قسمیں ہیں:
1۔جو شرط"عقدبیع" کی مصلحت اور اس کی مضبوطی کا سبب ہو۔اس شرط کا فائدہ شرط لگانے والے کو ہوتا ہے،مثلاً:گروی شے کے ذریعے سے توثیق کی شرط عائد کرنا یا کسی کو ضامن مقرر کرنے کی شرط لگانا۔اس شرط کا فائدہ یہ ہے کہ بائع مطمئن ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایک مقرر مدت تک سودے کی پوری رقم یا اس کے کچھ حصے کی ادئیگی میں ادھار کی شرط لگانا وغیرہ۔
اس کا فائدہ مشتری کو ہوتا ہے۔جب یہ شرط پوری کردی جائے گی تو بیع نافذ ہوگی۔اسی طرح اگر مشتری نے بیع کے وقت شے میں کوئی شرط لگادی،مثلاً:فلاں میعار کی ہو یا فلان کمپنی کی بنی ہو یا فلاں ماڈل ہو تو اس شرط میں کوئی حرج نہیں کیونکہ لوگوں کی پسند اورطلب مختلف ہوتی ہے جو ان کا حق ہے۔اگر وہ شے طے کردہ شرط کے مطابق نہ ہوگی تو مشتری کو اختیار ہے کہ اس بیع کو فسخ قراردے یا مطلوبہ چیز کی قیمت اور موجود چیز کی قیمت میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھ کر قیمت ادا کرے۔
2۔بیع میں جائز شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بائع یا مشتری میں سے کوئی ایک فروخت شدہ شے میں ایسی شرط لگادے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہو، مثلاً: مکان بیچنے والا ایک مقرر مدت تک بیچے ہوئے گھر میں رہائش رکھنے کی شرط عائد کردے یا جانور یا گاڑی بیچنے والا ایک مقرر جگہ تک اس پر بیٹھ کر جانے کی شرط مقرر کردے،جیسے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ"انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اونٹ بیچا اور مدینہ منورہ تک اس پر بیٹھنے کی شرط لگادی۔"[28]
یہ حدیث شریف وضاحت کرتی ہے کہ کسی جانور کو فروخت کرتے وقت اس پر مقررہ جگہ تک سواری کرنے کی شرط لگانا جائز ہے۔آپ اس پر ایسے ہی دیگر مسائل بھی قیاس کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر مشتری کی طرف سے کوئی شرط عائد ہوجاتی ہے تو بائع اس کی پاسداری کرے،مثلاً:کوئی لکڑی کا سودا کرتا ہے اورساتھ ہی اسے کسی جگہ تک پہنچانے کی شرط لگادیتا ہے یا کوئی کپڑا خریدتے وقت اس کی سلائی کی شرط مقرر کردیتا ہے تو جائز ہے۔
2۔شرائط فاسدہ: اس کی متعدد انواع ہیں۔ان میں چند ایک یہ ہیں:
1۔بیع میں ایسی فاسد شرط لگانا جو سرےسے بیع کو باطل قرار دے دے،مثلاً: کوئی شخص بیع کرتے وقت ایک اور بیع یا عقد کی شرط لگا دے جیسے کوئی کہے:" میں تجھے فلاں چیز اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تم مجھے اپنا گھر کرائے پر دو۔"یا کہے:"میں تجھے یہ چیز اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تم مجھے اپنے فلاں کام یا اپنے گھر میں شریک کرو۔" یا کرو۔" یا کہے:"میں تجھے یہ سامان اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم مجھے اتنی رقم بطور قرض دو۔" یہ تمام شرائط فاسدہ ہیں جو بیع کو سرے ہی سے باطل کر دیتی ہیں کیونکہ حدیث میں ہے:
"نَهَى رَسُولُ اَللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ"
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا:[29]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ،مذکورہ حدیث کی وہی تشریح کی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے۔
2۔وہ شرط جو بنفسہ فاسد ہے لیکن بیع کو فاسد قرار نہیں دیتی، مثلاً :مشتری بائع سے سامان خریدتے وقت یہ شرط عائد کردے کہ اگر اسے اس مال میں خسارہ ہوا تو اسے واپس کردے گایا بائع مشتری پر یہ شرط لگا دے کہ وہ اسے کسی دوسرے شخص کے ہاں فروخت نہیں کرسکتا ۔ یہ شرط فاسد ہے کیونکہ یہ مقتضائے عقدکے منافی ہے۔ بیع کا مقتضییہ ہے کہ مشتری اپنے خریدے ہوئے مال میں تصرف کا مطلعقاً اختیار رکھتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل وإن كان مائة شرط"
"جس نے ایسی شرط لگائی جو اللہ کی کتاب میں نہیں تو وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہی لگالے۔"[30]
اس شرط کے بطلان کے باوجود بیع باطل و فاسد نہیں ہوتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مالک شرط" کہ اگر وہ آزاد ہو گئی تو اس کی ولاء اسے ملے گی۔" باطل قراردی، البتہ عقد و بیع کو باطل قرارنہیں دیا۔ اور فرمایا:
"إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"
"ولاء اسے ملے گی جو آزاد کرے گا۔"[31]
مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے مسائل کا علم حاصل کرے اور صحیح اور فاسد شرائط سے واقف ہو حتی کہ بیع کے معاملے میں مکمل بصیرت رکھے تاکہ مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا اور تنازعہ پیدا نہ ہو۔ بیع کے معاملے میں عالم طور پر جو جھگڑے پیدا ہوتے ہیںان کا سبب بائع اور مشتری دونوں کا یا کسی ایک کا بیع کے مسائل سے ناواقف ہونا اور دوسرے کو فاسد شرائط کا پابند کرنا ہے۔
بیع میں خیار کے احکام
دین اسلام خیرخواہی کا دین ہے جو لوگوں کی مصلحتوں اور فوائد کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی تکالیف اور مشقتوں کا ا زالہ کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لین دین کرنے والے کو بیع میں ایک حد تک اختیار دیا ہے تاکہ وہ ا پنے فیصلے پر نظر ثانی کرسکے اور خریدی ہوئی شے کی مصلحت پر مزید غوروفکر کرلے۔اگر اسے فائدہ حاصل ہورہا ہوتو بیع کو قائم رکھے اور اگر نقصان کا اندیشہ ہوتو اسے فسخ کردے۔
بیع میں اختیار کا مطلب یہ ہے کہ دو صورتوں میں سے بہتر صورت کا انتخاب کرنا،یعنی بیع کو فسخ قراردینا یا اسے قائم رکھنا۔بیع میں اختیار کی آٹھ اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔مجلس میں اختیار: جس مقام پر بیع ہوئی ہے،بائع اور مشتری جب تک اس جگہ میں موجود ہیں ان میں سے ہر ایک کو اختیار حاصل ہے کہ بیع کو قائم رکھے یا اسے ختم کردے۔اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلاَنِ فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَكَانَا جَمِيعًا"
"جب دو شخص بیع کریں تو ہرایک کو اس وقت تک بیع میں اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں،یعنی وہ اکھٹے ہوں۔"[32]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"شارع نے بیع کے معاملے میں مجلس میں جو اختیاردیاہے اس میں بائع اور مشتری دونوں کے حق میں حکمت اور مصلحت پنہاں ہے۔اور وہ یہ کہ بیع میں بائع اور مشتری دونوں کی مکمل رضا مندی ہوجائے جو اللہ تعالیٰ نے ا پنے فرمان:
"عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ "
"تمہاری آپس کی رضا مندی سے(خریدوفروخت ہو۔)[33]
میں بیع کے لیے ایک شرط کے طور پر بیان کی ہے۔عام طور پر بیع غوروفکر کے بغیر ہی جلد بازی میں ہوجاتی ہے،لہذا شریعت کاملہ کے محاسن کا تقاضا یہ ہے کہ بیع میں بائع اور مشتری کے لیے ایک حد مقرر کردی جائے جس میں دونوں اپنے فیصلے پر خوب غوروفکر کرلیں،اگر کوئی کمی ہوتو اسے پورا کرلیں۔اس حدیث کے مطابق دونوں کو اس وقت تک اختیار حاصل ہوگیا،جب تک وہ بیع کرنے کی جگہ میں موجود رہتے ہیں اور جدا نہیں ہوتے۔
اگر دونوں نے یا کسی ایک نے بیع کرتے وقت اختیار کی شرط ختم کردی تو دونوں کا یا دونوں میں سے اس کا جس نے شرط خیار ختم کردی تھی،اس کا اختیار ختم ہوجائے گا اور بیع لازم ہوجائے گی۔اختیار کی شرط لگانا عقد کرنے والے کا حق تھا تو اس کے خود ساقط کرنے سے ساقط ہوجائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَكَانَا جَمِيعًا ، أَوْ يُخَيِّرُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ"
"جب تک جدا نہ ہوں،یعنی وہ اکھٹے ہوں یا ایک دو سرے کو اختیار نہ دے دیں۔"[34]
دونوں میں سے ہر شخص پر حرام ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مجلس سے اس لیے الگ ہو کہ اسے بیع کے فسخ کرنے کا اختیار نہ رہے جیسا کہ عمروبن شعیب رحمۃ اللہ علیہ کی مرفوع روایت میں ہے:
"وَلاَ يَحِلّ لَهُ أنْ يُفَارِقَهُ خَشْيةَ أنْ يَسْتَقِيلَهُ"
"کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے ساتھی سے بیع کے بعد اس ڈر سے الگ ہو کہ وہ اسے سودا واپس نہ کردے۔"[35]
شرط اختیار:بائع اور مشتری دونوں اختیار کی مجلس میں بیع کے دوران یا بیع کے بعد ایک مقررہ مدت تک اختیار کی شرط لگائیں تو دونوں کو اس مدت مقررہ کے اندر بیع کے قائم رکھنے یا سے فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"المُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ"
"مسلمان باہمی شرائط کے پابند رہیں۔"[36]
نیز اللہ تعالیٰ کا حکم عام ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَوفوا بِالعُقودِ ...﴿١﴾... سورة المائدة
"اے ایمان والو! عہد وپیمان پورے کرو۔"[37]
اگر اختیار کی شرط ایک فریق کے لیے ہوا اور دوسرے کے لیے نہ ہوتو بھی بیع جائز اور درست ہے کیونکہ اختیار کا حق دونوں کے لیے تھا،چنانچہ وہ جیسے بھی راضی ہوجائیں جائز ہے۔
اختیار نقصان:۔
جب کسی شخص کو کسی سودے میں معمول کے خلاف زیادہ نقصان دیا گیا ہوتو اسے بھی اس بیع کو قائم رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
"لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ"
"نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ۔"[38]
نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه"
"خبردار کسی مسلمان آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے مگر جو اس کی خوش دلی کے ساتھ ہو۔"[39]
یہ بات ظاہر ہے کہ نقصان پر نقصان زدہ کا دل خوش نہیں ہوتا،البتہ اگر نقصان معمولی ہو،یعنی عام عادت کے موافق ہوتو اسے اختیار نہ ہوگا۔
نقصان میں اختیار حاصل ہونے کی تین صورتیں ہیں:
1۔قافلوں سے ملاقات کرنا،یعنی جو قافلے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے شہر(منڈی) میں آتے ہیں ان کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی کسی نے ملاقات کرکے ان سے سامان خرید لیا،پھر بعد میں واضح ہوا کہ انھیں اندھیرے میں رکھ کر بہت زیادہ خسارہ پہنچایا گیا ہے تو انھیں سودا فسخ کرکے اپنا سامان واپس لینے کا اختیار ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لاَ تَلَقَّوْا الْجَلَبَ، فَمَنْ تَلَقَّاهُ فَاشْتَرَى مِنْهُ، فَإِذَا أَتَى سَيِّدُهُ السُّوقَ، فَهُوَ بِالْخِيَارِ"
"تم قافلوں کو (منڈی میں آنے سے پہلے ہی) نہ ملو جس نے انھیں مل کر کوئی سامان خریدلیا،پھر اس کا مالک منڈی میں آگیا تو اسے(زیادہ نقصان کی صورت میں) اختیارحاصل ہے(چاہے بیع قائم رکھے اور چاہے تو اسے فسخ قراردے۔"[40]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو لوگ قافلوں کو منڈی میں آنے سے پہلے ہی ملتے ہیں اور ان سے بیع کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اختیاردیا ہے کیونکہ اس میں ایک قسم کا دھوکا اور فراڈ ہے۔"[41]
ایسی ہی وضاحت علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی ہے۔
2۔وہ خسارہ جو اس شخص کی بدولت ہوا جو سامان خریدنا نہیں چاہتا تھا بلکہ محض سامان کی قیمت بڑھانے کے لیے "بولی" دینے والوں میں شریک ہوا۔یہ کام حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"وَلا تَنَاجَشُوا"محض قیمت بڑھانے کے لیے"بولی" نہ دو۔"[42]
نیز اس میں مشتری کو دھوکا دینا ہوتا ہے جو منع ہے۔
کسی چیز کی قیمت زیادہ وصول کرنے کے لیے بائع کاجھوٹ موٹ یہ کہنا کہ اسے فلاں چیز کی اتنی قیمت ملتی ہے یا میں نے اتنی قیمت کےساتھ یہ سامان خریدا ہے یا ایک چیز کی قیمت پانچ روپے ہے تو گاہک کو کہے کہ میں اسے دس روپے کی بیچ رہا ہوں تاکہ وہ دس روپے کے قریب قریب خرید لے۔یہ سب کام حرام ہیں۔(اور ایسی صورت میں بھی سودا واپس کرنے کا اختیار ہے)
3۔کسی پر اعتبار کرتے ہوئے معاملہ کرے اور وہ اسے دھوکا دے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حدیث شریف میں ہے:
"غَبْنُ الْمُسْتَرْسِلِ رِبًا "
"ناواقف سے دغا کے ذریعے سے جو مال کمایا وہ سود کی طرح حرام ہے۔"[43]
جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو قیمت کا علم نہیں اور نہ قیمت کم کرانے کے لیے بائع سے اچھی طرح بات چیت کرسکتا ہے بلکہ وہ مخلص اور سادہ لوح ہونے کی وجہ سے بائع کی بات کو سچ سمجھ لیتا ہے۔اس صورت میں اگر مشتری کوزیادہ نقصان ہوتو بیع کو قائم رکھنے یاردکرنے کا اسے اختیار ہے۔"
مسلمانوں کے بازاروں اور منڈیوں میں بعض لوگ یہ چال چلتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنا مال فروخت کرنے کے لیے بازار میں لاتا ہے تو بازار والے اتفاق کرلیتے ہیں کہ اس کے مال کی کوئی قیمت نہ لگائے ،نیز وہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھاؤ کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگادیتے ہیں۔جب وہ شخص تھک ہارکر محسوس کرتا ہے کہ کوئی بھی اسے اس(تعاقب کرنے والے) شخص سے زیادہ مال کی قیمت نہیں دے رہا یا کوئی اس کا مال خرید نہیں رہا تو وہ مجبور ہوکر سستے داموں اپنا سامان فروخت کرجاتا ہے۔اس کے جانے کے بعد تعاقب کرنے والے خریدار کے نفع میں باقی دوکاندار بھی شریک ہوجاتے ہیں۔یہ سراسر دھوکا،فراڈ،ظلم اور حرام کام ہے۔اگر بائع کو اس کا علم ہوجائے تو اسے ایسی بیع میں اختیار ہے،یعنی وہ ا پنا فروخت شدہ مال واپس لے سکتا ہے ۔
جو لوگ اس قسم کا دھوکا کرتے ہیں انھیں چاہیے کہ ایسی حرکت کرنا چھوڑدیں اور توبہ کریں۔جس شخص کو اس کا علم ہو اس پر لازم ہے کہ ایسا کام کرنے والے پر ناراضی کا اظہار کرے اور ذمے دار لوگوں تک اس کی شکایت کرے تاکہ وہ انھیں اس سے باز کریں۔
اختیار تدلیس:تدلیس کے معنی"کسی کو اندھیرے میں رکھنا" ہیں۔بیع میں تدلیس کامطلب ہے کہ"بائع کسی عیب دار شے کو عیب کو نہ دکھائے۔اس کی حقیقت حال واضح نہ کرے اور مشینری کو اندھیرے میں رکھے بلکہ اسے صحیح وسلامت بتاکر فروخت کردے۔"اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔کسی شے کے عیب نقص کرچھپا کربیچنا۔
2۔کسی چیز کو ایسے انداز میں بنا سنوار کرفروخت کرنا کہ اس کی قیمت زیادہ ملے۔
تدلیس حرام ہے۔شریعت اسلامیہ نے مشتری کو تدلیس کی صورت میں خریدا ہوا مال واپس کرنے کا اختیار دیا ہے کیونکہ مشتری نے شے کو بائع کے بیان کے مطابق صحیح سمجھ کر پوری قیمت کے ساتھ خریدا تھا۔اگر اسے حقیقت حال کابروقت علم ہوجاتا تو وہ اس قدر قیمت ادا نہ کرنا۔
تدلیس کی ایک صورت یہ ہے کہ بکر ،گائے یا اونٹنی کا دودھ تھنوں میں جمع کرکے فروخت کرنا تاکہ مشتری یہ سمجھے کہ یہ جانور ہمیشہ زیادہ دودھ دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ فَمَنْ ابْتَاعَهَا بَعْدُ فَإِنَّهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ وَإِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَصَاعَ تَمْرٍ”.
"اونٹ اور بکری کا دودھ بند نہ کرو اگر کوئی اسے خرید لیتا ہے تو اسے دوہنے کے بعد اختیار ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھے اور چاہے تو واپس کردے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے۔"[44]
تدلیس کی ایک صورت یہ ہے کہ عیب دار گھر کی بناوٹ وسجاوٹ کرکے مشتری یا کرائے دار کو دھوکا دینا۔اس طرح مشتری کو دھوکا دینے کے لیے پرانی گاڑیوں کو رنگ روغن کرکے فروخت کے لیے رکھنا کہ غیر مستعمل معلوم ہوں۔ان کے علاوہ تدلیس کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں۔
مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سچائی سے کام لے اور حقیقت کو واضح کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا قَالَ هَمَّامٌ وَجَدْتُ فِي كِتَابِي يَخْتَارُ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا فَعَسَى أَنْ يَرْبَحَا رِبْحًا وَيُمْحَقَا بَرَكَةَ بَيْعِهِمَا "
"خریدوفروخت کرنے والے دونوں آدمیوں کو تب تک اختیار ہے جب تک(مجلس سے اٹھ کر) الگ الگ نہیں ہوجاتے۔اگر دونوں سچ بولیں اور(سودے کی حقیقت) واضح کردیں تو دونوں کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر دونوں جھوٹ بولیں گے اور(حقیقت کو) چھپائیں گے تو ان کی بیع سے برکت اٹھ جائے گی۔"[45]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو خبردار کیاہے کہ خریدوفروخت میں سچ بولنا برکت کے اسباب میں سے ہے اور جھوٹ بول کر خریدوفروخت کرنا برکت کوختم کردیتا ہے۔سچ بول کرلیے ہوئے تھوڑے منافع میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتا ہے اور جھوٹ کے ساتھ حاصل کیا ہوا زیادہ منافع بھی بے برکت ہوجاتا ہے ۔
عیب کی وجہ سے اختیار:۔
مشتری کو بیع واپس کرنےکا تب اختیار ہے جب خریدی ہوئی چیز میں عیب ہوا اور بائع اس کی خبر نہ دے یا خود بائع کو اس کا علم نہ ہو لیکن واضح ہوجائے کہ یہ چیز بیع کرنے سے پہلے ہی عیب دار تھی۔وہ عیب جس کی بنا پر مشتری کو اختیار حاصل ہوتا ہے وہ ہے کہ اس کی وجہ سے مبیع کی قیمت کم ہوجاتی ہو یا اس کی ذات میں کمی آتی ہو۔اور اس کافیصلہ معتبر تجار ہی کریں گے ،وہ جس کو عیب قراردیں اس میں اختیار ثابت ہوگا اور جسے وہ عیب شمار نہ کریں اس میں اختیار نہیں ہوگا۔اگر مشتری کوعقد کے بعد عیب کاعلم ہواتو اسے اختیار ہے کہ بیع کو قائم رکھے یا اس کی جائز قیمت اور ادا شدہ قیمت کا فرق وصول کرے۔اور اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ بیع فسخ کرکے چیز لوٹادے اور اداشدہ قیمت واپس لے لے۔
قیمت بتانے میں جھوٹ بولنا:۔
بائع شے فروخت کرتے وقت دعویٰ کرے کہ وہ مشتری سے محض قیمت خرید وصول کررہا ہے،پھر بعدمیں اس کی بات خلاف حقیقت ثابت ہو یا بائع نے کہا کہ میں تجھے اس سامان میں راس المال کے ذریعے سے شریک کررہا ہوں یاکہا کہ میں نے یہ مال راس المال پر اتنے فی صد نفع پر فروخت کردیا یا کہا کہ میں نے یہ چیز قیمت خرید سے اتنی رقم کم کرکے دی ہے۔اگر ان مذکورہ صورتوں میں واضح ہوا کہ اس نے راس المال بتاتے وقت جھوٹ سے کام لیا ہے تو(ایک قول کے مطابق) مشتری کو اختیار ہے کہ بیع قائم رکھے یااسے لوٹا دے۔اہل علم کااس میں دوسرا قول یہ ہے کہ ان صورتوں میں مشتری کو اختیار حاصل نہ ہوگا۔مشتری اصل قیمت ادا کرے گا اور زائد قیمت ساقط ہوجائے گی۔واللہ اعلم۔
اختیار بصورت اختلاف:۔
بیع کے بعد اگر بائع اور مشتری کا بعض امور میں اختلاف پیدا ہوگیا تو بیع فسخ ہوجائے گی،مثلاً:مقدار قیمت میں اختلاف واقع ہو یا چیز کی نوعیت میں اختلاف ہوجائے اور کسی کے پاس فیصلہ کن دلیل بھی نہ ہوتو دونوں اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے حلف اٹھائیں گے۔حلف کے بعد دونوں میں سے ہر ایک کو فسخ کا حق حاصل ہوگا جبکہ کوئی بھی دوسرے کی بات ماننے کو تیار نہ ہو۔
تبدیلی حالت میں اختیار:۔
مشتری نے ایک ایسی شے کی بیع کی جسے اس نے وقت بیع سے بہت پہلے دیکھا تھا۔جب اس نے بیع کے بعد اسے وصول کیا تو دیکھا اس کی حالت تبدیل ہوچکی ہے تومشتری کو اختیار ہے کہ بیع فسخ قراردے یا اسے قائم رکھے۔واللہ اعلم۔
[1] ۔البقرۃ 2/275۔
[2] ۔البقرۃ:2:198۔
[3] ۔صحیح البخاری ،البیوع،باب اذا بین البیعان۔۔۔حدیث:2079،وصحیح مسلم،البیوع ،باب الصدق فی البیع والبیان ،حدیث:1532۔
[4] ۔النساء:4۔29۔
[5] ۔سنن ابن ماجہ التجارات باب بیع الخیار،حدیث:2185 وصحیح ابن حبان(ابن بلبان)البیوع باب ذکر العلۃ التی من اجلھا زجر عن ھذا البیع،حدیث:4967۔
[6]۔جامع الترمذی البیوع باب ما جاء فی کراھیۃ بیع مالیس عندہ حدیث:1232وسنن ابن ماجہ التجارات باب النھی عن بیع ما لیس عندک۔۔۔حدیث 2187۔
[7]۔صحیح البخاری البیوع ،باب بیع الميتة والاصنام حدیث:2236 وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم بیع الخمر والميتة والخنزیر والاصنام حدیث:1581۔
[8] ۔سنن ابی داود البیوع باب فی ثمن الخمر والميتة حدیث 3485۔
[9] ۔مسند احمد 1/322۔وسنن دارقطنی 3/7 حدیث :2791 واللفظ لہ۔
[10] ۔صحیح البخاری البیوع باب بیع الميتة والاصنام حدیث 2236 وصحیح مسلم المساقاۃ باب تحریم بیع الخمر والميتة والخنزیر والاصنام حدیث 1581۔
[11] ۔صحیح البخاری البیوع باب بیع المنابذۃ حدیث 2146،2147۔وصحیح مسلم البیوع باب ابطال بیع الملامسۃ والمنابذۃ حدیث 1511،1512۔
[12] ۔الجمعۃ:62/9۔
[13] ۔النور۔24/34۔36۔
[14] ۔المائدۃ۔2:5۔
[15] ۔المائدۃ۔2:5۔
[16] ۔ اعلام الموقعین:3/99۔100 بتغیر۔
[17]۔ اسلامی قانون یہ ہے کہ جب کوئی غلام اپنے محرم رشتے دار کی ملکیت بن جائے،مثلاً:اس کا باپ بھائی وغیرہ خرید لے تو وہ اس کی ملکیت میں آتے ہی آزاد شمار ہوگا۔(صارم)
[18]۔ النساء:141۔4۔
[19]۔ السنن الکبریٰ للبیہقی :6/205۔وصحیح البخاری الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات۔۔۔بعد حدیث:1353 معلقاً۔
[20]۔ صحیح البخاری البیوع باب النھی عن تلقی الرکبان۔۔۔حدیث۔2165،وصحیح مسلم البیوع باب تحریم یبیع الرجل علی بیع اخیہ۔۔۔حدیث (7)۔1412۔
[21]۔ صحیح البخاری،البیوع باب لا یبیع علی یبع اخیہ۔۔۔حدیث:2140،وصحیح مسلم،البیوع باب تحریم یبیع الرجل علی یبیع اخیہ۔۔۔حدیث:(8) 1412۔
[22]۔ صحیح البخاری البیوع باب ھل یبیع حاضر لبادبغیر اجر؟۔۔۔حدیث 2158وصحیح مسلم البیوع باب تحریم بیع الحاضر للبادی حدیث 1525۔
[23]۔صحیح مسلم البیوع باب تحریم بیع الحاضر للبادی حدیث 1521۔
[24]۔ صحیح مسلم البیوع باب تحریم بیع الحاضر للبادی،حدیث 1522۔
[25]۔(ضعیف) سنن ابی داود،البیوع،باب فی النھی عن العینۃ ،حدیث:3462۔
[26] ۔(ضعیف) غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام حدیث 13 واغائۃ اللھفان من مصائد الشیطان:1/486۔
[27]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث :1352۔
[28] ۔صحیح البخاری الوکالۃ باب اذا وکل رجل رجلا۔۔۔حدیث 2309 وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب تحیۃ المسجد۔۔۔حدیث 715۔وجامع الترمذی المناقب باب مناقب جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما حدیث 3852 واللفظ لہ۔
[29]۔جامع الترمذی ، البیوع ، باب ماکاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ ،حدیث 1231،ومسند احمد 2/432و475۔
[30]۔صحیح البخاری ،البیوع ، باب الشراء والبیع مع النساء حدیث:2155،وصحیح مسلم،العتق ،باب بیان ان الولاء لمن اعتق ،حدیث :1504۔
[31]۔صحیح البخاری ،البیوع ، باب الشراء والبیع مع النساء حدیث:2155،وصحیح مسلم،العتق ،باب بیان ان الولاء لمن اعتق ،حدیث :1504۔
[32] ۔صحیح البخاری البیوع باب اذا خیر احدھما صاحبہ بعد البیع فقد وجب البیع حدیث 2112۔
[33] ۔النساء:29/4۔
[34]۔صحیح البخاری البیوع باب اذا خیر احدھما صاحبہ بعدالبیع فقد وجب البیع،حدیث 2112۔
[35]۔سنن ابی داود البیوع باب فی خیار المتبایعین حدیث 3456 وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء البیعان بالخیار مالم یتفرقا حدیث 1247۔
[36]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث :1352۔
[37] ۔المائدۃ:1:5۔
[38]۔سنن ا بن ماجہ الاحکام باب من بنی فی حقہ مایضر بحارہ حدیث:2341،ومسند احمد:1/313۔
[39]۔سنن دارقطنی :3/25،حدیث:2861۔
[40]۔صحیح مسلم البیوع باب تحریم تلقی الجلب حدیث 1519۔
[41]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 28/102 بتصرف۔
[42]۔صحیح البخاری البیوع باب لا یبیع علی یبیع اخیہ۔۔۔حدیث 2140۔
[43]۔(ضعیف) السنن الکبری للبیہقی 5/349۔
[44]۔صحیح البخاری البیوع باب النھی للبائع ان لا یحفل الابل والبقر والغنم وکل محفلۃ حدیث 2148۔
[45] ۔صحیح البخاری ،البیوع،باب اذا بین البیعان۔۔۔حدیث:2079،وصحیح مسلم،البیوع ،باب الصدق فی البیع والبیان ،حدیث:1532۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment