Iran Iraq aur Syria Pe Musalmanon ki Hukumat Kaise hui?
Musalmanon ne kaise Rom ke Badshah ko Shikashat Diya?
Shama (Light) Jab Bujhane ko aati hai to Kuchh Der tak Tim timati hai aur Aakhiri Bar Uski Raushani Barhati hai aur fir Hamesha Hamesha ke Liye Bujh Jati hai.
اورنیل بہتارہا*
*قسط نمبر/13
ہرقل کا قافلہ کوئی چند ایک افراد کا قافلہ نہیں تھا ،جو قسطنطنیہ جا رہا تھا ،مصر اور شام کی بے انداز حسین ترین لڑکیوں کا حرم بھی ساتھ تھا محافظ دستہ بھی تھا اور رہاء میں جو تھوڑی سی فوج موجود تھی وہ بھی ساتھ جا رہی تھی۔
یہ قافلہ پہاڑیوں کے اندر اندر عام راستے سے ہٹ کر جا رہا تھا ۔یہ ایک احتیاط تھی جو اس لئے کی گئی تھی کہ راستے میں مسلمانوں کا کوئی دستہ دیکھ نہ سکے۔
ہرقل لڑائی سے کترا رہا تھا اس نے ایک حفاظتی تدبیر اور بھی اختیار کی تھی وہ یہ کہ عام قسم کے مسافروں اور غریب سے لوگوں کے بھیس میں چند آدمی بہت آگے بھیج دیے تھے ان کے ذمّے کام یہ تھا کہ جہاں کہیں دور یا قریب مسلمانوں کا کوئی دستہ نظر آئے تو فوراً پیچھے آکر اطلاع دیں تاکہ راستہ بدل لیا جائے۔
راستے میں ایسا ایک خطرہ آہی گیا مسلمانوں کے تین چار سوار دستے مرعش سے ایک اور مقام دلوک کی طرف جاتے نظر آئے، اس وقت ہرقل ایک مشہور مقام شمشاط کے قریب پہنچ چکا تھا ۔
اور اس کا ارادہ وہیں رات گزارنے کا تھا۔
اس کے جاسوس جو بہت آگے جا رہے تھے ان میں سے ایک سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا اور ہرقل کو اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سوار دستے شمشاط کی طرف آرہے ہیں ۔
ہرقل نے فورا کوچ کا حکم دے دیا اور اپنے قافلے کو قریبی پہاڑیوں کے اندر لے گیا اور سفر نہ صرف جاری رکھا بلکہ رفتار تیز تر کردی۔
وہ خوش قسمت تھا کہ اس وقت وہاں سے کھسک گیا اور پہاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔
وہ جو سوار دستے دیکھے گئے تھے ان کے سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے وہ ان دستوں کے ساتھ دلوک جا رہے تھے کیونکہ اس مقام سے اطلاع ملی تھی کہ رومی فوج کے کچھ نفری اور وہاں کے لوگ باغی ہوتے جا رہے ہیں۔
تاریخ کے مطابق خالد بن ولید نے فوراً وہاں پہنچ کر بغاوت کو اٹھنے سے پہلے کچل ڈالا۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم سپہ سالار کو معلوم نہ ہوسکا کہ ایک بڑا ھی موٹا شکار ان کی نظروں سے ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
مشہور مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے کئی ایک مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہرقل جب اس پہاڑی خطے سے آگے نکلا تو ایک بلند مقام پر پہنچ کر اس نے پیچھے دیکھا اسے چھوٹی بڑی بستیاں نظر آئیں اور افق تک پھیلا ہوا ملک شام بھی نظر آیا۔
اس نے آہ لی اور کہا ۔۔۔آخری سلام اے سرزمین شام،،،،، اب کوئی رومی بے دھڑک تیری زمین پر قدم رکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔۔۔۔ الوداع سرزمین شام !،،،،
ہرقل کے لیے قسطنطنیہ کا راستہ محفوظ نہیں رہا تھا اس نے شام کی سرحد سے کچھ دور غیر معروف سے ایک مقام بزنطیہ کا رخ کرلیا۔
المقریزی نے ہرقل کی اس وقت کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ ہرقل بزنطیہ میں اس طرح داخل ہوا جیسے اپنے جنازے کے ساتھ اپنی آخری رسوم ادا کرنے آیا ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷=*
شمع بجھنے کو آتی ہے تو کچھ دیر ٹمٹماتی ہے اور پھر آخری بار اس کی لو بڑھتی اور بجھ جاتی ہے۔
ہرقل کی شمع شماد ٹمٹما رہی تھی اور کوئی دم کو بجھنے کو تھی ،اس شمع میں اس کا خون جل رہا تھا ،اس کی رعونت جل رہی تھی، اور اس کا وہ غرور اور تکبر جل رہا تھا جو اسے اپنی جنگی اور ذاتی طاقت پر ہوا تھا ، ملک شام اس کی شہنشاہیت سے نکل گیا تھا لیکن کچھ سرحدی علاقوں پر ابھی مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ ہرقل کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔
کیا ہرقل نے عبرت حاصل کی تھی؟ ۔۔۔تاریخ میں سوال کا جواب نہیں ملتا انسان کی فطرت کا خاصہ ہے کہ ایک بار طاقت کا زعم، رعونت، غرور، اور تکبر دماغ پر قبضہ کرلیں تو پھر انسان ذرا مشکل سے ہی عبرت حاصل کرتا ہے۔
تاریخ ہمیں وہ وقت یاد دلاتی ہے جب مسلمانوں نے ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ، شرجیل بن حسنہ رضی اللہ تعالی عنہ، اور عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ، کی قیادت میں ملک شام پر لشکر کشی کی تھی مجاہدین اسلام نے دمشق فتح کر لیا تھا ۔
ہرقل اسوقت انطاکیہ میں تھا۔ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس نے اور اس کے جرنیلوں وغیرہ نے مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی قزاق کہا تھا ، ہرقل نے دمشق کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے فوج بھیجی تھی لیکن اس فوجی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمانوں نے دمشق فتح کر لیا تھا۔
اب جب کہ ہرقل شکست خوردگی کے عالم میں بزنطیہ جا پہنچا تھا اور اس کی امیدوں کے چراغ ٹمٹما رہے تھے اس سے کچھ عرصہ پہلے کا یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے شام میں پہلی فتح حاصل کی تھی کہ دمشق پر قبضہ کر لیا تھا، ہرقل نے خود انطاکیہ سے نکلنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی اسے یقین تھا کہ عرب کے بدو اس کی اتنی بڑی جنگی قوت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
ہرقل کی بھیجی ہوئی کمک پہنچ گئی تو رومی لشکر کی تعداد کم و بیش پچاس ہزار ہو گئی جس میں گھوڑ سوار دستے زیادہ تھے، یہ فوج دمشق سے کچھ دور بیسان کے مقام پر جمع ہوگئی جہاں وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا چاہتی تھی۔
ہم یہاں ان لڑائیوں کی تفصیل پیش نہیں کریں گے رومیوں کے غرور اور تکبر کا ایک واقعہ سناتے ہیں۔
دمشق جیسا بڑا شہر دے کر بھی رومی جرنیل مسلمانوں کو صحرائی قزاق اور لوٹیرے سمجھ رہے تھے، اس رومی فوج کا کمانڈر سکار نام کا ایک تجربہ کار جرنیل تھا جس کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔
وہ علاقہ بڑا ہی زرخیز تھا اور پانی کی اتنی افراط کے کئی ایک چھوٹی بڑی ندیاں بہتی تھیں جرنیل سکار کے حکم سے ندیوں کے کنارے توڑ دیے گئے جس سے تمام علاقوں میں پانی پھیل گیا اس نے یہ اقدام مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی رکاوٹ اور دشواری پیدا کرنے کے لیے کیا تھا۔
مجاہدین اسلام نے ہر طرف پھیلتا ہوا پانی دیکھا تو انہوں نے بڑی بلند آواز سے قہقہے لگائے، اور رومیوں کو کچھ طنزیہ کلمے بھی کہیں مجاہدین نے ذرا سی بھی گھبراہٹ یا پریشانی کا اظہار نہ کیا ۔
اور لڑائی کی تیاریاں کرتے رہے، مسلمانوں کے حوصلے اور عزم کی پختگی اور ان کی یہ بے نیازی دیکھ کر رومی فوج متاثر بھی ہوئی اور مرعوب بھی۔
رومی جرنیل سکار نے اس کے باوجود مسلمانوں کو کمزور اور کم تر سمجھا اور ایک ایلچی بھیجا کہ وہ اپنا کوئی نمائندہ بھیجیں جس کے ذریعے صلح اور امن کی بات کی جا سکے ۔
سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی کو اپنا ایلچی بنا کر رومیوں کے پاس بھیجا۔
علامہ شبلی نعمانی طبری اور بلاذری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ بن جبل گھوڑے پر سوار ہو کر رومیوں کے کیمپ میں گئے تو انہیں سکار کے خیمے تک لے جایا گیا وہ گھوڑے سے اترے اور سکار کے ایک محافظ نے ان کا گھوڑا پکڑ لیا اور کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ معاذ بزرگ صحابی تھے ان کی عمر اور رتبے کو دیکھتے ہوئے رومی سپاہی ان کا احترام کر رہے تھے۔
معاذ خیمے میں داخل ہونے لگے تو وہیں رک گئے، یہ تھا تو خیمہ لیکن اندر سے یوں لگتا تھا جیسے کسی بادشاہ کا خاص کمرہ ہو، ایسی ایسی قیمتی سجاوٹ کے یہ میدان جنگ کا خیمہ لگتا ہی نہیں تھا، جس چیز نے معاذ کو حیران اور پریشان کیا وہ خیمے کے اندر بیچھا ہوا قالین تھا اس قدر قیمتی اور ایسا عمدہ اور نفیس کہ معاذ اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے تھے۔
رومی جرنیل سکار نے انہیں آگے آکر بیٹھنے کو کہا ،وہاں سبھی لوگ اور سکار بھی فرش پر یعنی فرش پر بچھے ہوئے قالینوں پر بیٹھے تھے۔
معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس قالین پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ، ان کے درمیان جو باتیں ہو رہی تھیں وہ ایک ترجمان کے ذریعے ہوری تھیں سکار چونکہ اس خطے کی زبان نہیں بولتا تھا نہ سمجھتا تھا۔
آپ اس قالین پر بیٹھ سکتے ہیں سکار نے کہا۔۔۔ اس پر صرف غلاموں کو پاؤں رکھنے کی اجازت نہیں۔
میں مسلمان ہوکر اس قالین پر نہیں بیٹھونگا معاذ نے کہا۔۔۔ اس قالین سے مجھے غریب رعایا کے خون کی بو آ رہی ہے یہ قالین غریب مزدوروں اور کسانوں کا حق چھین کر تیار کیا گیا ہے ۔
قالین خیمے جتنا لمبا چوڑا نہیں تھا، زمین ننگی بھی تھی ، معاذ رضی اللہ عنہ زمین پر یعنی خیمے کی فرش پر بیٹھ گئے۔
ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے تھے سکار نے کہا۔۔۔ اگر آپ کو اپنی عزت کا خود ہی خیال نہیں تو یہ ایک مجبوری ہے۔
علامہ شبلی نعمانی مؤرخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ آگیا اور وہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے، یعنی پوری طرح نہ اٹھے، اپنے اس جرنیل کے دماغ میں میری یہ بات ڈال دو معاذ نے ترجمان سے کہا ۔۔۔اسے کہو کہ تم قالین پر بیٹھنے کو عزت سمجھتے ہو تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ہمارے یہاں عزت کا تصور کچھ اور ہے اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو میں ہوں ہی غلام لیکن اپنے اللہ کا۔
معاذ رضی اللہ تعالی عنہ پھر بیٹھ گئے لیکن رومی جرنیل اور اس کے ان افسروں کو جو وہاں موجود تھے حیرت زدہ کر دیا، آپ کے اس لشکر میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی ہے جرنیل سکار نے پوچھا؟ ۔۔۔۔معاذ!،،، اللہ ہی کافی ہے کہ میں کسی سے بدتر نہیں ہوں۔
سب حاضرین محفل خاموش ہو گیئے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے، معاذ نے یہ بات ایسے دانشمندانہ اور پراعتماد انداز سے کہی تھی کہ سب متاثر ہوئے لیکن وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے کوئی اثر قبول کیا ہے ۔
ان کی نگاہیں ان سب پر گھوم گئے اور کسی نے کوئی اور بات نہ کی، ان سے کہو کوئی بات کریں۔۔۔ معاذ نے ترجمان سے کہا۔۔۔ اگر انہیں کچھ نہیں کہنا تو میں واپس چلا جاتا ہوں۔ ترجمان نے جب رومی زبان میں اپنے جرنیل کو بتایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے تو وہ بولا۔
ہم آپ سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں جرنیل سکار نے کہا۔۔۔ ملک حبشہ آپ کے قریب ہے دوسرے ملک بھی ہیں پھر آپ نے ادھر کا رخ کیوں کیا ہے؟ ۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا بادشاہ ہے، ہماری فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہے کیا آپ یہ سوچ کر ادھر آئے ہیں کہ ہمیں شکست دے دیں گے؟.... ناممکن! "
ہم یہ درخواست لے کر آئے ہیں جو دراصل اللہ کا پیغام ہے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ۔۔۔اسلام قبول کرلیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرکے ہم جیسی عبادت کریں، شراب اور خنزیر کا گوشت چھوڑ دیں، کہ یہ دونوں چیزیں حرام ہیں اور ہر طرح کے حرام کاری اور شاہانہ عیش و عشرت چھوڑ دیں۔
اگر ہم آپ کی یہ درخواست قبول نہ کرے تو۔۔۔ سکار نے رعونت بھرے لہجے میں پوچھا۔
تو پھر جزیہ دیں،، ۔۔۔معاذ نے جواب دیا۔۔۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر فیصلہ تلوار کرے گی اگر آپ کی تعداد ستاروں کے برابر ہے تو ہمیں اللہ کے اس فرمان پر بھروسہ ہے کہ ایسا اکثر ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے ایک بڑی اور طاقتور جماعت پر فتح یاب ہوئی ہے آپ کو اپنے پر بڑا ناز اور فخر ہے ،لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے کہ وہ بادشاہ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور آپ سب کی جان مال اور آبرو اس کے اختیار میں ہے، لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ اپنے آپ کو ہم سب سے برتر سمجھتے ہیں وہ بھی کوئی جرم کرے گا تو ایک عام آدمی جیسی سزا پائے گا۔
یہ رومی جرنیل دراصل یہ چاہتا تھا کہ مسلمان کسی بھی قسم کی کوئی خیرات وصول کرلیں اور یہاں سے واپس چلے جائیں اس نے ملک شام کا ایک ضلع اور کچھ اتنا ہی حصہ اردن کا پیش کیا اور کہا۔۔۔ کہ مسلمان یہ زمین لے لیں اور واپس چلے جائیں ۔
معاذ اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید بات چیت سے انکار کردیا اور واپس چلے آئے۔
یہ رومی جرنیل ابھی تک یہ توقع رکھتا تھا کہ یہ غریب سے مسلمان جن کا اتنے بڑے رتبہ والا آدمی قالین پر بیٹھنے سے جھجھکتا ہے، کچھ لے کر واپس جانے پر رضامند ہو جائیں گے ،اس نے اپنا ایک الچی مجاہدین اسلام کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی ان کی طرف بھیجا جسے یہ پیغام دیا کہ سپہ سالار
رومی الچی کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیں۔
ابو عبیدہ نے اجازت دے دی اور اسی روز سکار کا بھیجا ہوا ایک ایلچی ابوعبیدہ کے پاس آ گیا۔
طبری اور بلاذری کے حوالوں سے واقعات تاریخ کے دامن میں یوں محفوظ ہے کہ رومی ایلچی کو غالبا یہ توقع تھی کہ اسلامی لشکر کا سپہ سالار تو جاہ وجلال والا آدمی ہوگا اور اس کی کچھ تو شان وشوکت دوسروں سے الگ ہوگئی، الچی ابو عبیدہ کے پاس آیا تو اس وقت سپہ سالار زمین پر بیٹھے ایک تیر کو ہاتھ میں لئے دیکھ رہے تھے ،رومی ایلچی نے کسی سے پوچھا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ ان آدمیوں نے ابوعبیدہ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ تو وہ حیران ہو کر ان کی طرف دیکھتا ہی رہا پھر ان کے قریب آیا۔
کیا تمہی اس لشکر کے سپہ سالار اور سردار ہو ؟۔۔۔الچی نے کچھ رعونت کا سا مظاہرہ کیا۔
ہاں میں ہی ہوں۔۔۔ ابو عبیدہ نے بڑے آرام سے جواب دیا ۔۔۔پھر میری ایک بات سن لو رومی ایلچی نے افسرانہ جلال سے کہا۔۔۔ ہم تمہاری تمام فوج کو سونے کی دو دو اشرفیاں فی آدمی دیں گے اور تم یہاں سے واپس چلے جاؤ۔
معلوم نہیں اس وقت اشرفیہ تھی یا نہیں اس رومی کا مطلب دراصل یہ تھا کہ سونے کے دو دو ٹکڑے ہر مجاہد کو دیے جائیں گے اور وہ واپس چلے جائیں۔
کوئی اور بات کرنی ہے تم نے؟
ابو عبیدہ نے پوچھا۔۔۔ نہیں۔
پھر تم چلے جاؤ ابو عبیدہ نے کہا۔
الچی بڑا ہی برہم ہو کر چلا گیا۔
ابو عبیدہ نے اسی وقت ایک پیغام امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی ان کو بھیجا جس میں یہ سارا واقعہ لکھا ،فاصلہ بہت زیادہ تھا تیز رفتار قاصدوں کا انتظام کیا گیا تھا ،چار پانچ دنوں بعد قاصد امیر المومنین کا پیغام لے کر آگیا ۔
امیرالمومنین نے لکھا تھا کہ اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہو اور اللہ تمہارا یار و مددگار ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
وہ ہرقل جسے رعایا اور اس کے جرنیل بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ سمجھتے تھے، اور وہ ہرقل جس کی فوج کی تعداد آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر تھی ،اس ہال میں پہنچی کہ آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر فوج سپاہی سپاہی ہو کر بکھر گئی تھی، اور آدھی سے زیادہ فوج ہلاک ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہو چکی تھی، اور ملک شام پر مجاہدین کا قبضہ ہوگیا تھا، آسمان کے ستارے ٹوٹ پھوٹ کر زمین کے ذروں میں مل کر خاک ہو گئے تھے۔
ادھر جنگ قادسیہ کے بعد کسریٰ ایران بڑی بری طرح شکست کھا کر بھاگا اور اپنے دارالحکومت مدائن میں بےبہا خزانوں سمیت مسلمانوں کے لئے چھوڑ کر کہیں روپوش ہوگیا تھا، ایران اور عراق مجاہدین اسلام کی جھولی میں آ پڑے اور ادھر شام مسلمانوں کے قدموں میں آ گیا، یہ صورتحال ایسی تھی جو ہرقل کا دل توڑ رہی تھی ،لیکن آدمی بہر حال حوصلے والا تھا اس نے اطمینان سے اس صورتحال کا اور اپنی جنگی طاقت کا جائزہ لیا تو اس کا حوصلہ پھر سے قائم ہونے لگا، اس کے مشیروں نے بھی اس سے کہا کہ اپنی آدھی فوج مارے جانے سے اور شام ہاتھ نکل جانے سے روم کی شہنشاہی کے لیے اتنا نقصان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے، ابھی مصر ان کے پاس تھا اور مصر میں بے شمار فوج تھی، مشیروں نے اس سے کہا کہ وہ مصر سے فوج منگوائے اور تیاری کر کے مسلمانوں پر جوابی حملہ کیا جائے۔
ہرقل کی اس وقت کی ذہنی کیفیت کے متعلق مؤرخوں نے لکھا ہے ، بزنطیہ میں پہنچ کر جب اسے یہ محفوظ پناہ گاہ مل گئی اور کچھ آرام اور سکون بھی مل گیا تو اسے مشیروں کے مشورے بڑے ہی اچھے لگے اس نے اسی وقت قاصد مصر اس پیغام کے ساتھ بھیج دیے کہ کم و بیش چالیس ہزار نفری کی فوج فوراً روانہ کر دی جائے ۔
ادھر اس کے پاس ایک مدد اور آگئی جو اس کے لیے بالکل خلاف توقع تھی اس کا حوصلہ پہلے کی طرح مضبوط کر دیا۔
یہ مدد اس طرح آئی کہ ایک روز اسے اطلاع دی گئی کہ عراق اور شام کے مختلف قبائل کے بیس پچیس سردار ان سے ملنے آئے ہیں۔ یہ سب جنگجو قبائل تھے ان سرداروں کے ساتھ بیس پچیس نہایت حسین و جمیل معصوم صورت نو جوان لڑکیاں تھیں، جو ان سرداروں کے اپنے ہی خاندانوں میں سے تھیں۔
ہرقل نے ان سب کو اندر بلا لیا۔
ان سرداروں کے ساتھ ایک معمر سفید ریش بزرگ تھا جو شکل و صورت اور لباس سے دانشمند اور مذہبی پیشوا لگتا تھا۔
ان قبائل کے متعلق تھوڑی سی معلومات بے محل نہیں ہوگی۔
عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں اور کچھ دوسرے علاقوں میں بھی جو جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان میں بڑے قبائل بنی عمر، بنو غسان، بنی تغلب ،بنی آیاد، اور بنی مزام ،اور بنی عدوان تھے ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قبائل تھے یوں کہہ لیں کہ ان علاقوں کی آبادی قبائل کی صورت میں بٹی ہوئی تھی۔
یہ جو قبائلی سردار ہرقل کے پاس گئے تھے یہ سب غیر مسلم تھے کچھ فارس کہ یعنی عراق اور ایران کے آتش پرست تھے اور باقی سب عیسائی تھے۔
کیا تم یہ لڑکیاں میرے لیے طوفہ لائے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔کیا تم مجھے فاتح سمجھ کر آئے ہو۔۔۔ اس وقت میری ضرورت کچھ اور ہے۔۔۔ مجھے یہ حسین و جمیل لڑکیاں نہیں چاہیے، اس وقت مجھے ایسے جوانمردوں کی ضرورت ہے جو میرے بازو مضبوط کریں اور میں عرب کے ان بدوؤں کو یہاں سے دھکیل کر وہیں پہنچا دو جہاں سے یہ آئے ہیں۔
ہم آپ کے بازو ہی مضبوط کرنے آئے ہیں۔۔۔ بوڑھے سردار نے کہا ۔۔۔یہ لڑکیاں ہم تحفے کے طور نہیں لائے ہماری اپنی بیٹیاں ہیں انہیں ہم آپ کے پاس صرف یہ دکھانے کے لئے لائے ہیں کہ یہ ہے ہماری عزت اور آبرو جو جنگوں میں محفوظ نہیں رہی، ہم ان معصوم بچیوں اور ان جیسی ہزارہ بچیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے کے لئے آپ کے ساتھ بات کرنے آئے ہیں۔
آپ ہماری مدد کریں اور ہم آپ کی مدد کریں گے، آپ کو جن جوان مردوں کی ضرورت ہے وہ ہم آپ کو ہزارہا کی تعداد میں دے دیں گے۔
میری مدد کا تمہیں اب خیال کیوں آیا ہے؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب فارس کی فوج مسلمانوں کے آگے بھاگی جا رہی تھی اور ادھر میری فوج بکھر کر پیچھے ہٹ رہی تھی۔
یہ واقعہ بیان کرنے سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ بیان کیا جا سکے کہ ہرقل کے اقتدار کی شمع آخری بار کس طرح بھڑکی اور جب بج گئی تو وہ شام سے مصر تک کیوں اور کس طرح پہنچا ۔
ہم ان طویل تفصیلات کو یوں مختصر کرتے ہیں کہ اس معمر قبائلی سردار نے ہرقل کو بتایا کہ مسلمانوں نے ایرانیوں کے خلاف لشکر کشی کی اور ادھر شام پر بھی انہوں نے حملہ کیا تو ان دونوں جنگوں میں ان قبائلیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ان کی کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جو فوجوں کے گھوڑے اونٹ اور بیل وغیرہ کھا گئے۔
اس بوڑھے سردار نے یہ بھی بتایا کہ خود اپنے فوجیوں نے ان کی لڑکیاں اٹھا لی یا انہیں خراب کر کے چلے گئے۔
کیا مسلمانوں نے تمہاری لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک نہیں کیا تھا ؟۔۔۔ہرقل نے پوچھا۔
نہیں؟!۔۔۔قبائلی سردار نے جواب دیا ۔۔۔مسلمان جب کسی بستی یا کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ گھروں کو نہیں لوٹتے نہ وہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں وہ بعض لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر لے جاتے ہیں، لیکن ہم ان عربوں کو جانتے ہیں وہ بغیر شادی کے کسی عورت کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کرتے۔
لیکن شہنشاہ روم! ۔۔۔اگر ایک بھی مسلمان ہماری ایک بھی لڑکی کو ساتھ لے جائے اور اسے اپنی بیوی بنا لے تو بھی ہم اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں ۔
اسی لیے ہم یہ لڑکیاں آپ کے سامنے لائے ہیں کہ یہ پھول مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ جائیں اور اپنا بھی کوئی فوجی انہیں اپنا مال نہ سمجھے۔
اس بزرگ سردار نے ہرقل کو بتایا کہ وہ آتش پرست ہے اور ان عیسائی قبائلی سرداروں کے ساتھ آیا ہے ۔
مذہب کوئی بھی ہو عزت ہر کسی کی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ بات دراصل یہ تھی جو اس سردار نے ہرقل کو بتائیں کہ مجاہدین اسلام نے ان کی کچھ بڑی بڑی بستیاں اور قصبے تباہ وبرباد کر دیے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے مجاہدین کے خلاف اپنی فوجوں کو بھرپور مدد دی اور مجاہدین کو دھوکے دیے تھے۔
یہ سب قبائلی سردار ہرقل کو یہ کہنے آئے تھے کہ اب مسلمانوں نے ملک شام بھی فتح کرلیا ہے ،اور وہ کچھ اور بستیاں اجاڑ دیں گے اس لیے وہ ھرقل کو قبائلیوں کی پوری فوج دینا چاہتے ہیں۔
اے روم کے شہنشاہ !۔۔۔اس معمر سردار نے کہا ۔۔۔میری عمر دیکھیں، زمانے کے کتنے ہی نشیب و فراز دیکھے ہیں، میں آپ کے چہرے پر مایوسی اور تذبذب دیکھ رہا ہوں اپنے آپ کو شکست خوردہ نہ سمجھیں، آج شکست ہوئی ہے تو کل فتح بھی ہو سکتی ہے، مصر سے مزید فوج منگوائیں اور ہم آپ کو اپنی فوج دینگے ۔
ایک بات شاید آپ کو معلوم نہ ہوں وہ یہ کہ یہ عربی مسلمان سمندر کی طرف سے آنے والی ہر چیز سے بہت ڈرتے ہیں ہم ان میں یہ مشہور کر دیں گے کہ سمندر سے فوج آرہی ہے۔
یہ بوڑھا قبائلی سردار ٹھیک کہہ رہا تھا دو تین اور مستند مورخوں نے بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان سمندر میں نہیں اترے تھے ان کا کوئی بحری بیڑا نہیں تھا، نہ انھیں بحری جنگ کی سوجھ بوجھ تھی، وہ صحرائی لوگ تھے اور نہ جانے کیوں سمندر سے کچھ ڈرتے تھے، اس کے بعد تو مسلمانوں نے سمندری جنگوں میں ایسا نام پیدا کر لیا تھا کہ مسلمانوں کی بحری طاقت ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔
ہرقل نے جب ان قبائلیوں کی یہ پیشکش سنی تو اس نے انہیں پہلی بات یہ بتائی کہ مصر سے اس کی فوج آرہی ہے، اور قبائلی فوراً اس کے پاس مسلح ہو کر پہنچ جائیں۔
یہ سردار جب جانے لگے تو ہرقل نے یا اس کے شاہی خاندان کے کسی اور فرد نے یا کسی مشیر نے یہ مشورہ دیا کہ اتنی خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو سفر پر واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ہرقل کے محل میں ہی رہنے دیا جائے جہاں یہ بالکل محفوظ رہیں گی۔
*جاری ہے*
بقیہ قسط۔14۔میں پڑھیں
Mohammad Yahiya Sindhu
No comments:
Post a Comment