سوال:کیا غیر مسلم کی طرف سے کوئی چیز زمین وغیرہ مسجد کے لیۓ لینا جائز ہے کہ نہیں؟
الجواب بعون رب العباد:
*****************************
تحرير/حافظ أبوزهير محمد يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب۔
دراسات اسلامیہ۔
تخصص/فقہ واصولہ۔
****************************
غیر مسلم کے ھدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی غیر مسلم کے ھدیے قبول کرنا مسلمان کے لیۓ جائز ہے۔
اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم مسجد کے لیۓ زمین کا کچھ حصہ راستہ وغیرہ کے لئے دینا چاھے تو اسے قبول کرنا جائز ہے۔
البتہ غیر مسلم کو اخرت میں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا اسے اسکا بدلہ دنیا ہی میں دیا جائے گا۔
علماء سلف وخلف نے مسجد کے لیۓ کافر کی دی ہوئی زمین کو لینے کو جائز قرار دیا ہے۔
ایک تو وہ ادلہ کہ نبی علیہ السلام نے غیر مسلموں کے ھدیے انکی دعوتیں قبول کی ہیں۔
اسے علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم مسجد کے لیۓ کوئی چیز دے اسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نبی علیہ السلام نے مصر کے نصرانی بادشاہ کا ھدیہ قبول کیا۔[الآحاد والمثاني 3124 ، الأوسط للطبراني7305].
اسی طرح نبی علیہ السلام نے روم کے غیر مسلم بادشاہ کا ھدیہ قبول کیا۔[سنن ابو داود 4047]۔
اسے علماء نے استدلال کیا ہے کہ کافر کا ھدیہ قبول کرنا جائز ہے تو اسے کسی بھی چیز کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے مثلا مدرسہ مسجد وغیرہ۔[حوالہ دیکھئے:صحیح بخاری 2585 ]۔
البتہ کافر مسجد کا مسوول نہیں بن سکتا۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر غیر مسلم مسلمانوں کے لئے مسجد بنانے کی وصیت کرے تو اس کے مال سے مسجد بنانا جائز ہے یا اسی طرح کوئی چیز مسجد کے لئے وقف کرے لیکن اسے اسکا آجرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
کفایة الاخيار میں ہے کہ مسلمان اور زمی کافر کے لئے مسجد کے بنانے کی وصیت کرنا جائز ہے مثلا مسجد اقصی تعمیر کرنا یا اسکے علاوہ کوئی اور مسجد.[كفاية الاخيار 30/2].
جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ غیر مسلم کے مال سے مسجد بنانا جائز ہے یا اسکی دی ہوئی زمین پر مسجد تعمیر کرنا جائز اور مباح ہے اور مانع کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
ہر کسی کافر کے مال سے مسجد بنانا جائز ہے۔[الفروع لابن مفلح الحنبلي478/11].
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جائز کہ مسجد نیک فاجر مسلمان اور کافر بنائے۔[مجموع فتاوی دقائق التفسير ج5 ص نمبر:6].
لجنہ دائمہ کا فتوی ملاحظہ فرمائے کہ غیر مسلم کے مال میں سے مسجد بنانا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یعنی غیر مسلم کے مال میں سے مدارس ، مساجد وغیرہ میں خرچ کر سکتے ہیں اگر اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی نقصان نہ ہو۔[فتاوی لجنہ دائمہ255/5 ، نمبر:20112]۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر غیر مسلم کے تبرعات قبول کرنے میں کوئی شرعی مخالفت پائی جاتی ہو اس صورت میں کافر کا تبرع قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ عام تبرع قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی علیہ السلام نے مشرکین کے بہت سے ھدایا قبول کئے ہیں۔[مجموع فتاوی لابن باز ، حكم تبرع النصارى في بناء المسجد].
اسے ثابت ہوا کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے جیساکہ بہت سی احادیث طیبہ سے ثابت ہوتا ہے۔
جب کافر کا ھدیہ قبول کرنا جائز ہے تو چاھئے وہ ھدیہ مساجد کے لئے ہو یا مدارس کے لئے ہر صورت میں جائز ہے۔
اور اسے یہ بھی ثابت ہوا کہ کافر کی مسجد کے لئے دی ہوئی زمین لینا بھی جائز ہے چاھئے اس قطعہ پر مسجد تعمیر کی جائے یا اسے مسجد کے راستے کے لئے استعمال کیا جائے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
Home »
Deeni Mashail
» Kya Gair Muslim ki Taraf Se Koi Cheej Zameen wagairah Masjid ke liye Lena Jayez Hai Ke Nahi?
No comments:
Post a Comment