find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label nikah. Show all posts
Showing posts with label nikah. Show all posts

Modern Muashera aur Musalmano Ki Gairat : Aurat Kya Hai Aur Kya Nahi hai?

Aaj ka Modern Muashera aur Musalmano ki Gairat.


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

عورت کیا ہے ، کیا نہیں ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️: مسز انصاری

اگر ایک حکمران کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و عورت کے اختلاط سے اس کی سلطنت میں کتنی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں ، اس اختلاط سے اس کی سلطنت کی تعمیر میں حصہ لینے والے جوان مٹی کا ڈھیر بن سکتے ہیں، گھروں کے قوام ذہنی انتشار کا شکار ہوکر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے سے معذور ہوسکتے ہیں تو واللہ حکمران ملکی قوانین کو مرتب کرتے ہوئے سب سے پہلے مردو زن کے بیچ میں لمبی لمبی فصیلیں کھڑی کردے گا ۔۔۔۔

اور اگر ایک مرد کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و زن کے اختلاط سے اس کے گھر میں کتنی خرابی پیدا ہوسکتی ہے جو نسلوں تک کو تباہ و برباد کرنے کی طاقت رکھتی ہے ، اس کے بچے صدقہ جاریہ کے بجائے گناہ جاریہ بن کر ہر لمحہ اس کی قبر کو آگ سے بھرتے رہیں گے اور یہ گناہ جاریہ نسلوں میں سفر کرے گا، تو واللہ وہ اپنی گھر کی عورتوں کو جاہل رکھنے میں مکمل عافیت محسوس کرے گا لیکن انہیں دورِ جدید کی ترقیوں سے شیطان کا آلہ کار نہیں بننے دے گا ۔

ہر عورت اپنے نفس پر گرفت رکھنے کے لیے اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ جائے ۔ شیطان اسی جگہ نقب لگاتا ہے جو کسی ملک یا کسی گھر کی خوشحالی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہو، عورت گھر آباد بھی کرسکتی ہے اور برباد بھی، فطری طور پر بھی عورت کمزور ہوتی ہے اور ایمان کے لحاظ سے بھی کمزور ہوتی ہے، ہم نے قرآن حافظ عورتوں کو اپنے حجاب نظرِ آتش کرتے دیکھا ہے، ہم نے وہ عورتیں بھی دیکھی ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کی حلاوت چکھنے کے باوجود شیطان کی پیروی اختیار کی، وہ عورتیں بھی ہیں جو دعوتِ دین کی آڑ میں شیطان کی کامیابیوں کا سبب بنیں، ایسی بھی عورتیں ہیں جنہوں نے جہنم کی گرمی کو محسوس کرنے کے باوجود بھی دنیا کے عارضی دھوکہ میں آکر اپنے ایمانوں کی قیمتی متاع شہوتوں کی راہوں میں گُم کردیں، وہ عورتیں بھی ہیں جو رات کو اپنے شوہروں کی شفیق اور امان والی آغوشوں میں سوتی ہیں اور دن کی روشنی میں جب ان کے مرد اپنی عزتوں کو بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ تنہا چھوڑ کر کسبِ معاش کے نکلتے ہیں تو یہی عورتیں غیر کی آغوشوں میں چلی جاتی ہیں، والدین کی سرپرستی میں پنپنے والی وہ عورتیں بھی ہم نے دیکھی ہیں جن کے لیے جسم کی راحت تقویٰ و پرہیزگاری پر غالب آجاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ساری عورتیں ہر دور میں دیکھی گئی ہیں مگر جتنی کثرت آج کے دور میں ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں رہی، اور اس کا سبب سوشل میڈیا ہے ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا تلبیس ابلیس کا گھات ہے جہاں سے وہ مسلمان عورتوں کو جہنم کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے ۔ پس اپنی عورتوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں سے باخبر رہیے، انہیں گھر کی چاردیواری میں محفوظ نہیں سمجھیے کیونکہ شیطان موبائل کی صورت میں آپ کی عورتوں کا لُٹیرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Ahle hadees Ladki ya Ladka ka Nikah Barailwi, Deobandi aur Shiya se ho sakta hai?

Kya kisi Ahle hadees Ladki ki Shadi Barailwi ya Deobandi Ladke se ho sakti hai?


بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

برادر Rizwan Khan

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اگر عورت بریلوی اور مرد اہل الحدیث ہو تو کیا ان دونوں کا نکاح ہو سکتا ہے؟؟؟➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :

  اہلحدیث مسلک کی بچی کا بریلوی ، دیوبندی یا کسی بھی بدعتی ومشرک بچے سے نکاح :

1  بچہ اگر مؤمن و مسلم ہے کافر یا مشرک نہیں تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست ہے، خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیو بندی، خواہ بریلوی۔ اور اگر بچہ مؤمن و مسلم نہیں، کافر یا مشرک ہے تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست نہیں۔ خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیوبندی ، خواہ بریلوی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط}
[البقرۃ:۲۲۱]

[’’ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘ ] الآیۃ۔
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَـلَا تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَاھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ ط}
[الممتحنۃ:۱۰] [’’

اگر وہ عورتیں تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘  ] الآیۃ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 /صفحہ 452

2   مشرک و کافر لڑکے یا لڑکی (خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث یا دیوبندی یا بریلوی یا کچھ اور کہلائے) کا مومن لڑکی یا لڑکے کے ساتھ نکاح شرعاً درست نہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 ﴿وَلَا تَنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤۡمِنَّۚ﴾--
بقرة221

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں‘‘ اور بیان ہے :

 ﴿وَلَا تُمۡسِكُواْ بِعِصَمِ ٱلۡكَوَافِرِ﴾--الممتحنة10
اور مت پکڑ رکھو نکاح عورتوں کافروں کا‘‘ ہاں مومن مرد کتابیہ محصنہ عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 ﴿وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ﴾--
المائدة5

اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں میں سے جو دئیے گئے کتاب پہلے تم سے‘‘

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1/ صفحہ 311

3  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

﴿وَلَا تُنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤۡمِنُواْۚ﴾--بقرة221

’’اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مسلمان عورتوں سے ان کا نکاح نہ کرو‘‘ الآیۃ ۔ قضاۃ،  ولاۃ اور نکاح خواں سبھی   اس آیت کریمہ میں مخاطب ہیں

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

﴿لَا هُنَّ حِلّٞ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّونَ لَهُنَّۖ﴾--
ممتحنة10

نہیں وہ عورتیں حلال واسطے ان کافروں کے اور نہ وہ کافر حلال واسطے ان عورتوں کے

اور معلوم ہے کہ ہر مشرک بشرک اکبر کافر ہے البتہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ ان میں مشرک وکافر بھی ہوتے ہیں اور موحد ومؤمن بھی۔

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1ص 303

  شیعہ رافضی سے نکاح :

1  شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے کا نکاح :

شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے یا شیعہ لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے ۔کیونکہ وہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں اور ہ کسی مسلمان لڑکی یا لڑکے کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔ تفصیل کے لئے فتوی نمبر (7134) پر کلک کریں۔
فتوی کمیٹی/محدث فتوی

2  شیعہ لڑکے یا لڑکی سے کسی سنی ( دیوبندی، اہل حدیث ،بریلوی) کا نکاح :

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی لڑکا شیعہ ہو کر دیو بندی عقائد کا حامل ہو، ممکن ہے کہ وہ شادی کی غرض سے تقیہ کر رہا ہو ،لہذا کسی بھی سنی لڑکے یا لڑکی کا شیعہ لڑکی یا لڑکے سے نکاح جائز نہیں ہے، اور نکاح سرے سے منعقدہی نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو شخص کفریہ عقیدہ رکھتا ہو، مثلاً: قرآنِ کریم میں کمی بیشی کا قائل ہو، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صفاتِ اُلوہیت سے متصف مانتا ہو، یا یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت جبریل علیہ السلام غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے آئے تھے، یا کسی اور ضرورتِ دِین کا منکر ہو، ایسا شخص تو مسلمان ہی نہیں، اور اس سے کسی سنی عورت کا نکاح دُرست نہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں، تین چار افراد کے سوا باقی پوری جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو (نعوذ باللہ) کافر و منافق اور مرتد سمجھتے ہیں، اور اپنے اَئمہ کو انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل و برتر سمجھتے ہیں، اس لئے وہ مسلمان نہیں اور ان سے مسلمانوں کا رشتہ ناتا جائز نہیں۔ کیونکہ کسی مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا رافضہ سے شادى كرنا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" الرافضة المحضة هم أهل أهواء وبدع وضلال ، ولا ينبغي للمسلم أن يزوِّج موليته من رافضي .وإن تزوج هو رافضية : صح النكاح ، إن كان يرجو أن تتوب ، وإلا فترك نكاحها أفضل ؛ لئلا تفسد عليه ولده "مجموع الفتاوى ( 32 / 61 ).

" رافضى لوگ خالصتا بدعتى اور گمراہ لوگ ہيں، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى ولايت ميں موجود کسی عورت كا نكاح رافضى سے نہيں كرنا چاہيے. اور اگر وہ خود رافضى عورت سے شادى كرے تو اس صورت ميں اس كا نكاح صحيح ہو گا جب اس عورت سے توبہ كى اميد ہو، وگرنہ اس سے نكاح نہ كرنا ہى افضل ہے؛ تا كہ وہ اس كى اولاد كو خراب نہ كرے"

وباللہ التوفیق
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
وٙالسَّــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Muashare (Society) me Mard aur Aurat ke huqooq Islam me.

Magribi Taji aur Islam me Auraton ke huqooq.
Waise Huqooq jo mard aur aurat ke liye barabar hai?

"اور تمنا نہ کرو اس چیز کی جس کے ذریعے سے اللّٰه نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے۔ مَردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گی اور اللّٰه سے اس کا فضل طلب کرو۔ یقیناً اللّٰه ہر شے کا علم رکھتا ہے۔" [سورۃ النساء : 32]

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰه عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ اللّٰه کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

[تفسیر ابنِ کثیرؒ]

اللّٰه تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا، کسی کو عورت۔ جہاں تک نیکیوں کا معاملہ ہے، مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔ چناچہ آدمی کا طرزِ عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللّٰه نے مجھے بنا دیا اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔

(یہ جو آیت میں ارشاد ہے کہ) 'مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا' تواس آیت میں کسب کا اطلاق دنیوی کمائی پر نہیں۔ یہاں مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللّٰه تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو، مفاہمت پر رضامند نہ ہو اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔

[تفسیر 'بیان القرآن' ڈاکٹر اسرار احمدؒ]

Share:

Kya Auraten Apne Sath Char mardo ko Baap, Bhai, Shauhar aur Beta ko Jahannum me lekar jayegi?

Kya khawateen apne sath Char mardo ko jahannum me le jayegi?

Kya Auraten apne Baap, Bhai, Shauhar aur bete me Jahanum me lekar jayegi?
Kya Khawateen ke Gunah ki Sza Uske Shauhar aur Bete ko milegi?

کیا عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی؟؟

سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا سوال یہ ہے کہ ایک حدیث بہت سننے میں آتی ہے کہ ”ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی۔“
یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟؟؟

جواب: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها
”جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی:

اپنے باپ کو، اپنے بھائی کو، اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو۔“

کچھ لوگ اس روایت کو حجاب کے ساتھ ذکر کرکے بیان کرتے ہیں:

أربعة يُسألون عن حجاب المرأة : أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها

”چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا:

اس کے باپ سے، اس کے بھائی سے، اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے۔“

*اس معنی کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف روایت مجھے نہیں مل سکی۔*

اور متعدد باحثین اور محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔

*مزید یہ کہ یہ روایت شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو۔*

چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:

*وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى*

”اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔“
(سورۃ الانعام: 164)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:

*أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ ، لَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ*

”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ۔“
(سنن ابن ماجہ: 2669، سنن ترمذی: 2159۔ قال الشيخ الألباني: صحيح)

اور سوال میں مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا؟؟؟

خلاصہ کلام یہ کہ سوال میں مذکور روایت بے اصل ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھیں کہ اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے۔ فرمان الہی ہے:
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا*
”اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“
(سورۃ التحریم: 6)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:

*مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ*

”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“

(سنن ابی داؤد: 495۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)

لہذا اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا تو بروز قیامت ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بنا پر اس کی باز پرس اور پکڑ ہوگی۔ فرمان نبوی ہے:

*أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ*

”سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا۔“
(صحیح مسلم: 1829)

واللہ اعلم بالصواب!
─━•<
☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─

Share:

Nikah ke bad walima karna chahiye ya pahle, kya walime ke liye Biwi se milna Jaruri hai?

Kya walima ke liye Biwi se Inter course Jaruri hai?

Walima Nikah se pahle jayez hai ya Nikah ke bad?
Walima ka sahi waqt kya hai? Walime ki dawat kab deni chahiye?

بِسْــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيــْــــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

۔ ─━══★◐★══━─

برادر Abdul Khaleel Mohammed

As-salamu alaikum wa Rahmathullahi wa Barakathuhu..

Q: Nikah ke ba'd 'walima' Dusre din karna ya Nikah ke din 'same day' hi kar sakte hain ? 'Valima' ke liye 'zaujain' ka Milap zaariri hai ? Jawab ka Intezar hai...

            ❖ • ─┅━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖

وٙعَلَيــْـــــــكُم السَّــــــــلاَم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

افضل تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے وليمہ رخصتى اور دخول كے بعد كيا جائے، ليكن اگر ايسا كرنا ميسر نہ ہو تو پھر دخول سے قبل يا پھر عقد نكاح كے وقت يا عقد نكاح كے بعد بھى وليمہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
وليمہ كا وقت وسيع ہے جو عقد نكاح سے شروع ہو كر رخصتى كے ايام ختم ہونے تك رہتا ہے.كيونكہ اس سلسلہ ميں صحيح احاديث وارد ہيں، ليكن پورى خوشى اور سرور تو دخول كے بعد ہى ہے.

حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وليمہ كے ليے كوئى معين وقت مخصوص نہيں فرمايا كہ وہ وقت واجب يا مستحب ہو، اسے اطلاق سے اخذ كيا گيا ہے.

اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فقھاء كرام نے شادى كے وليمہ كے وقت ميں بحث نہيں كى، صحيح يہى ہے كہ يہ رخصتى اور دخول كے بعد ہے، شيخ سبكى كہتے ہيں: دخول كے بعد اور دخول سے قبل جائز ہے بغوى رحمہ اللہ كے بيان كے مطابق وليمہ كا وقت وسيع ہے "
ديكھيں: النجم الوھاج ( 7 / 393 ).
الشیخ صالح المنجدحفظہ اللہ

حضرت زینب بنت جحش اور حضرت صفیہ دونوں کےساتھ نکاح کے بعد جب رسول اللہ نے خلوت فرمائی تو احادیث میں صراحت ہے کہ اس کے بعد دوسرے دن آپ نے ولیمہ کی دعوت کی۔ اس سے اسی بات کا اثبات ہوتا ہے کہ ولیمہ نکاح سے پہلے نہیں ہے، بلکہ نکاح کے بعد ہونا چاہیے۔ البتہ شب باشی کے بعد دوسرے روز ہی ضروری نہیں بلکہ دو تین دن کے وقفے کے بعد بھی جائز ہے، جیسا کہ علما ئے کرام نے اس کی وضاحت کی ہے، امام بخارى رحمہ اللہ رقم طراز ہيں:

" باب ہے ولیمہ اور دعوت قبول كرنے كا حق، اور جو سات ايام وغيرہ ميں ولیمہ كرے، نبى كريم  نے ايک يا دو دن مقرر نہيں كيے۔ " (صحیح البخاری:النکاح،باب حق اجابۃ الدعوۃ و الولیمۃ ومن اولم سبعۃ ایام و بعدہ و یوقت النبی یوما ولا یومین)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" یعنی نبى كريم نے ولیمہ كے ليے كوئى معين وقت مخصوص نہيں فرمايا كہ وہ وقت واجب يا مستحب ہو، اسے اطلاق سے اخذ كيا گيا ہے اور صحابہ کرام نے سات دن تک ولیمہ کھایا ہے۔" (فتح الباری:۹/۲۴۲)

اور دميرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فقہائے كرام نے شادى كے ولیمہ كے وقت ميں بحث نہيں كى، صحيح يہى ہے كہ يہ رخصتى اور دخول كے بعد ہے، شيخ سبكى كہتے ہيں: دخول كے بعد اور دخول سے قبل جائز ہے، بغوى رحمہ اللہ كے بيان كے مطابق ولیمہ كا وقت وسيع ہے۔ " (النجم الوھاج : 7 / 393 )

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" شادى كے ولیمہ كا وقت وسيع ہے، جو عقد نكاح سے شروع ہو كر شادى كے ايام ختم ہونے تک رہتا ہے " ( الملخص الفقھى : 2 / 364 )

علاوہ ازیں ولیمے سے قبل خلوت صحیحہ بھی ضروری ہے یا نہیں یا اس کے بغیر ولیمہ جائز ہے؟

کتاب وسنت میں کہیں بھی ولیمہ کے لیے زوجین کے کسی بھی قسم کے تعلق کو شرط نہیں قرار دیا گیا
اور رسول اللہ صلى اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس نے بھی کوئی ایسی شرط مقرر کی جو کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط باطل ہے ۔ خواہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں ۔

صححیح بخاری ۔

بعض لوگ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ہم بستری سے پہلے ولیمہ جائز نہیں ہے، لیکن ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ بعض دفعہ پہلی رات کو جب خلوت میں میاں بیوی کی ملاقات ہوتی ہے تو عورت کے حیض کے ایام ہوتے ہیں، اس لیے ایسی حالت میں بوس و کنار سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا نیز کسی اور وجہ سے بھی بعض دفعہ ہم بستری نہیں ہو پاتی۔

اس لیے ولیمے کی صحت کے لیے ہم بستری کو لازم خیال کرنا صحیح نہیں ہے ،مخصوص قسم کے حالات میں اس کے بغیر بھی ولیمہ صحیح ہوگا۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــلاَم عَلَيـْــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــاتُه

Share:

Iddat Ke Masail: Aurat Iddat kab tak aur Kahan Gujaregi, Kisi Jaruri kam ke liye Ghar se bahar ja Sakti hai ya Nahi?

Aurat iddat kahan Gujaregi? Apne Waldain ke ghar ya Shauhar ke Ghar?
Kya Iddat ke Dauran Aurat Ghar se bahar Ja sakti hai?
Sawal: Agar Kisi Aurat ka Shauhar Faut ho jaye to wah iddat kahan Gujaregi? Waldain Ke Ghar iddat gujar sakti hai? Iddat ke Dauran jaruri kamo ke liye ghar se bahar nikalne ka kya hukm hai? Kya Jaruri Kamkaz ya Dars sunne Ke liye ja sakti ?
Kya Ladki Dusri Ladki se Shadi kar Sakti hai? Homosexuality and Islam.

Kya Ladki Apni marzi se Shadi kar sakti hai?

Kya Auraten Qabristaan, Eidgaah aur Masjid me Ja Sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -383"
سوال- اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت کہاں گزارے۔۔؟والدین کے گھر عدت گزار سکتی.؟ نیز شوہر کی عدت وفات میں گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم؟ کیا وہ کسی ضروری کام کاج، اور علاج یا درس وغیرہ سننے کیلئے گھر سے باہر جا سکتی ہے.؟

Published Date: 28-12-2022

جواب!
الحمدللہ..!

*جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اسے عدت اپنے اسی گھر میں گزارنی چاہیے جس میں وہ شوہر کی رفاقت کے وقت قیام پذیر تھی ، یعنی اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے گی، ہاں اگر اسکی جان یا مال کو بہت زیادہ خطرہ ہو کہ وہاں رہنا مشکل ہو جائے تو وہ کسی اور محفوظ جگہ پر عدت گزار سکتی ہے، اور بغیر کسی وجہ کے دوران عدت عورت کیلئے گھر سے نکلنا جائز نہیں، ہاں البتہ وہ بہت ضرورت کے تحت گھر سے نکل سکتی ہے، کسی کام وغیرہ کیلئے جیسے کوئی اور نہیں باہر جانے والا تو سودا سلف لینے، یا ڈاکٹر پاس جانا، کسی کا پیپر/امتحان ہو، یا انٹرویو جاب کا یا ایسی کوئی اور اہم بات جس سے مالی یا جانی نقصان کا خدشہ ہو، یا آس پاس درس و تدریس کیلۓ، یا دل بہلانے کیلئے آس پاس کسی پڑوسن گھر جا سکتی مگر شرط یہ ہے کہ رات اپنے گھر میں گزارے، یہ جائز ہے*

*دلائل درج ذیل ہیں...!*

📚جامع ترمذی
کتاب: طلاق اور لعان کا بیان
باب: شوہر فوت ہوجائے تو عورت عدت کہاں گزارے
حدیث نمبر: 1204
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَتْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، ‏‏‏‏‏‏لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ. قَالَتْ:‏‏‏‏ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَفَقَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  كَيْفَ قُلْتِ ؟  قَالَتْ:‏‏‏‏ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  امْكُثِي فِي بَيْتِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ . قَالَتْ:‏‏‏‏ فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّبَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَضَى بِهِ.
ترجمہ:

زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ  فریعہ بنت مالک بن سنان ؓ جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں  (ہوا یہ تھا کہ)  ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  ہاں ، چناچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ  ﷺ  نے مجھے آواز دی۔  (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے)  پھر آپ نے پوچھا:  تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا:  تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے ، چناچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چناچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
(ترمذی، کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء این تعتد المتوفی عنہا زوجھا_1204)

(موطا مالک، احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی، دارمی وغیرھا)
(الألباني (ت ١٤٢٠)، صحيح الترمذي ١٢٠٤)
(ابن عبد البر (ت ٤٦٣)، التمهيد ٢١‏/٢٧  •  مشهور معروف ثابت)

📙امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرھم کا عمل ہے انہوں نے عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے عدت پوری ہونے سے پہلے منتقل ہو۔

امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راھویہ کا یہی موقف ہے اور بعض اہل علم صحابہ وغیرھم نے کہا کہ عورت جہاں چاہے عدت گزار لے اگر وہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارنا چاہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ترین ہے یعنی عورت اسی گھر میں عدت گزارے جہاں وہ اپنے شوہر کی رفاقت میں قیام پذیر تھی۔
(ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 4/441،442)

📚سئل شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله - :
عن امرأة عزمت على الحج هي وزوجها فمات زوجها في شعبان : فهل يجوز لها أن تحج ؟
فأجاب :
ليس لها أن تسافر في العدة عن الوفاة إلى الحج في مذهب الأئمة الأربعة .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 29 ) 
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك عورت اور اس كے خاوند نے حج كا عزم كيا تو شعبان كے مہينہ ميں اس كے خاوند كى وفات ہوگئى تو كيا اس كے ليے حج كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
آئمہ اربعہ كے ہاں بيوہ عورت دوران عدت حج كے ليے سفر نہيں كر سكتى "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 29 )

📙ایک اور جگہ پر شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

المعتدة عدة الوفاة تتربص أربعة أشهر وعشراً ، وتجتنب الزينة والطِّيب في بدنها وثيابها ، ولا تتزين ولا تتطيب ولا تلبس ثياب الزينة ، وتلزم منزلها فلا تخرج بالنهار إلا لحاجة ولا بالليل إلا لضرورة ... .
ويجوز لها سائر ما يباح لها في غير العدة : مثل كلام من تحتاج إلى كلامه من الرجال إذا كانت مستترة وغير ذلك .
وهذا الذي ذكرتُه هو سنَّة رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كان يفعله نساء الصحابة إذا مات أزواجهن ونساؤه صلى الله عليه وسلم .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 27 ، 28 )
" بيوہ عورت چار ماہ دس دن عدت گزارےگى، اور وہ عدت كے عرصہ ميں زينت و زيبائش اور بدن و لباس ميں خوشبو لگانے سے اجتناب كريگى، نہ تو وہ زينت اختيار كرے گى اور نہ ہى خوشبو لگائيگى، اور نہ ہى خوبصورت لباس زيب تن كريگى، اور اپنے گھر ميں ہى رہےگى، بغير حاجت كے دن كے وقت باہر نہيں نكلےگى، اور رات كو بھى ضرورت كے بغير باہر نہيں جائيگى....
اس كے ليے ہر وہ چيز جائز ہے جو عدت كے علاوہ عرصہ ميں جائز ہے؛ مثلا اگر باپرد ہو كر اسے كسى مرد سے بات چيت كرنا پڑے تو كر سكتى ہے.
ميں نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے اگر كوئى صحابى فوت ہو جاتا تو صحابہ كرام كى بيوياں يہى كيا كرتى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں نے بھى ايسا ہى كيا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 27 - 28 ).

*لہذا عورت عدت اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے اور بغیر عذر کے گھر سے باہر نا نکلے، لیکن مجبوری کے تحت کام کاج کے لئے دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور رات اسی گھر میں آ کر بسر کرے گی اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے*

📚صحیح مسلم
کتاب: طلاق کا بیان

كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابُ جَوَازِ خُرُوجِ الْمُعْتَدَّةِ الْبَائِنِ، وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فِي النَّهَارِ لِحَاجَتِهَا
باب: باب: طلاق بائن کی عدت گزرنے والی اور جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو ‘اس کے لیے اپنی کسی ضرورت کے تحت دن کے وقت گھر سے نکلنا جائز ہے،
انٹرنیشنل حدیث نمبر -1483
اسلام 360حدیث نمبر: 3721
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُا طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلَی فَجُدِّي نَخْلَکِ فَإِنَّکِ عَسَی أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے (دورانِ عدت) اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک آدمی نے انہیں (گھر سے) باہر نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، اپنی کھجوروں کا پھل توڑو، ممکن ہے کہ تم (اس سے) صدقہ کرو یا کوئی اور اچھا کام کرو۔‘‘
(صحیح مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ وغیرھا)

*آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں مطلقہ عورت کو عدت کے دوران بوقت ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے لہذا وفات کی عدت والی عورت کو اسی پر قیاس کیا جائے گا۔*

📚اس کی تائید مجاہد تابعی کے اس اثر سے بھی ہوتی ہے کہ
12077 - ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻣﺠﺎﻫﺪ: اﺳﺘﺸﻬﺪ ﺭﺟﺎﻝ ﻳﻮﻡ ﺃﺣﺪ ﻋﻦ ﻧﺴﺎﺋﻬﻢ، ﻭﻛﻦ ﻣﺘﺠﺎﻭﺭاﺕ ﻓﻲ ﺩاﺭﻩ، ﻓﺠﺌﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ، ﻓﻨﺒﻴﺖ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻧﺎ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺻﺒﺤﻨﺎ ﺗﺒﺪﺩﻧﺎ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﻮﺗﻨﺎ؟ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺗﺤﺪﺛﻦ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻛﻦ ﻣﺎ ﺑﺪا ﻟﻜﻦ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺭﺩﺗﻦ اﻟﻨﻮﻡ ﻓﻠﺘﺄﺕ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
اُحد کے دن بہت سے لوگ شہید ہو گئے۔ ان کی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم رات کے وقت وحشت محسوس کرتی ہیں اس لئے چاہتی ہیں کہ کسی دوسری عورت کے ہاں رات بسر کر لیں یہاں تک کہ جب ہم صبح کریں تو اپنے گھروں کو جلدی سے آ جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تم جس کسی کے ہاں چاہو بات چیت کرو اور جب سونا چاہو تو ہر عورت اپنے اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق _ ج7، ص35 /ح12077)
(بیہقی 5ج/ ص436)

*معلوم ہوا کہ عورت بوقت مجبوری کام کاج کی غرض سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور رات اپنے گھر میں ہی بسر کرے گی۔حضرت عمر، زید بن ثابت، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے۔*

📚 اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ
12064 - ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻭﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻧﺖ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺗﻌﺘﺪ ﻣﻦ ﻭﻓﺎﺓ ﺯﻭﺟﻬﺎ، ﻓﻜﺎﻧﺖ ﺗﺄﺗﻴﻬﻢ ﺑﺎﻟﻨﺎﺭ ﻓﺘﺤﺪﺙ ﻋﻨﺪﻫﻢ، ﻓﺈﺫا ﻛﺎﻥ اﻟﻠﻴﻞ ﺃﻣﺮﻫﺎ ﺃﻥ ﺗﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا تو وہ دن کی روشنی میں اپنے  والد سے ملنے کے لیے آ جایا کرتی تھیں، اور جب رات ہو جاتی تو وہ انہیں حکم دیتے کہ اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق:31ص/ج7،حدیث:12064)

📚مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے کہ
12068 - ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻝ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻧﺴﺎء ﻣﻦ ﻫﻤﺪاﻥ ﻧﻌﻲ ﺇﻟﻴﻬﻦ ﺃﺯﻭاﺟﻬﻦ، ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ. ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: «ﺗﺠﺘﻤﻌﻦ ﺑﺎﻟﻨﻬﺎﺭ، ﺛﻢ ﺗﺮﺟﻊ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﻣﻨﻜﻦ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ»
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو جن کے شوہر وفات پا گئے ہوتے اور وہ اکیلے بیٹھنے سے پریشان ہوتیں، اجازت دیتے تھے کہ وہ کسی ایک کے گھر میں اکٹھی ہو جایا کریں، حتی کہ جب رات ہو جاتی تو ہر ایک سونے کے لیے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔
(مصنف عبدالرزاق:32ص/ج7،حدیث:12068)

*لہذا ضرورت و حاجت كى خاطر عورت کیلئے دوران عدت دن كے وقت اپنے گھر سے باہر جانا جائز ہے، مثلا ضرورى اشياء كى خريدارى كے ليے بازار جانا، يا پھر كام کاج كے ليے*

__________&_____________

*سعودی فتاویٰ ویبسائٹ Islamqa.info پر اس طرح ایک سوال کیا گیا کہ،*

📙سوال:
ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور وہ كرايہ كے گھر ميں رہتى ہے، اس كے ميكے والے بھى اسى علاقے ميں رہتے ہيں ليكن گھر ان سے دور ہے، اور اس كا بھائى بھى كام كاج كى بنا پر اس كے گھر آ كر نہيں رہ سكتا، اور عورت مكان كا كرايہ بھى ادا نہيں كر سكتى، كيا يہ عورت عدت گزارنے كے ليے ميكے منتقل ہو سكتى ہے ؟

📚جواب.. !
الحمد للہ..!

بيوہ عورت كے ليے اپنے اسى گھر ميں عدت گزارنى واجب ہے جس گھر ميں رہائش ركھے ہوئے اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" تم اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى، حتى كہ عدت ختم ہو جائے.
فريعۃ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
چنانچہ ميں نے اسى گھر ميں چار ماہ دس دن عدت بسر كى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 200 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اكثر اہل علم كا بھى يہى مسلك ہے، ليكن انہوں نے يہ اجازت دى ہے كہ اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو يا پھر اس كے پاس اپنى ضروريات پورى كرنے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہ كر سكتى ہو تو كہيں اور عدت گزار سكتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بيوہ كے ليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حجاز شام اور عراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے "
اس كے بعد لكھتے ہيں:
" چنانچہ اگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو... تو اس كے ليے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے...
اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 8 / 127 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر واقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضروريات پورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اس كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" اگر آپ كى بيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پر منتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).

اس بنا پر اگر يہ عورت اكيلا رہنے سے ڈرتى ہے، يا پھر گھر كا كرايہ نہيں ادا كر سكتى تو اپنے ميكے جا كر عدت گزارنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
واللہ اعلم .

(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

_________&___________

*پاکستانی فتاویٰ ویبسائٹ "محدث اردو فتویٰ" پر ایسا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📙 (192) عدت گزارنے والی عورت کام پر جاسکتی ہے؟
سوال:
لندن سے مسز شمیم لودھی لکھتی ہیں

’’ خاوند کے فوت ہونے پر بیوی کو عدت کے دن پورے کرنے ہوتے ہیں اور کافی شرائط بھی ہیں کہ وہ یہ نہیں کرسکتی ‘ وہ نہیں کر سکتی‘ باہر نہیں جا سکتی۔ اگر عورت کے اوپر سب گھربار کا بوجھ پڑھ جائے اور مجبوراً اسے باہر نکلنا بھی پڑتا ہے جیسے اس ملک میں ایک دو ہفتے کے بعد عورت کام پر جانے لگتی ہے۔ اگر نہ جائے تو سارے گھر کا نظام رک جاتا ہے۔ توایسی حالت میں عورت کے لئے کیا حکم ہے؟
ذرا روشنی ڈالئے‘بہت سی بہنوں کا سوال ہے۔

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو ایسی عورت کے لئے چار مہینے دس دن ہے ۔ اس مدت کےمتعین کرنے کے مختلف اسباب یا حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ بہرحال غرض یہی  ہے کہ عورت کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ خاوند کی موت کا صدمہ بھی برداشت کرلے اور استبرائے رحم بھی ہوجائے۔ شریعت اسلامی میں عورت کے لئے بہتر اور مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس دوران گھر کے اندر ہی رہے اور ہر قسم کی زیب و زینت سے مکمل پرہیز کرے۔ قرآن حکیم کی سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۶ میں عدت کا ذکر ہوا ہے۔

خاوند کی وفات کے علاوہ طلاق کی شکل میں عدت کے دوران بھی عورت کے لئے باہر نکلنا ممنوع قرار دی گیا ہے۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر ۱ میں مردوں کو اس بات سے روکا گیا کہ وہ عورتوں کو طلاق کے بعد عدت کے دوران ہی گھر سے نکال دیں اور عورتوں کو بھی اس بات سےمنع کیاگیا کہ وہ خود گھروں نکل جائیں۔اسلام سے پہلے جاہلیت کےزمانے میں مطلقہ عورتوں خصوصاً جن کے خاوند فوت ہوجاتے تھے انہیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا تھا انہیں تمام معاشرے سے الگ تھلگ کرکے ایک غلیظ و تاریک کمرے میں رہنے پر مجبور کیا جاتاتھا ا ور گندے کپڑے پہننے کی پابندیا ں لگائی جاتی تھی اور پھر اس کے بعد جاہلیت کی بعض فضول قسم کی رسمیں ادا کرنے کے بعد اس گھر یا کمرے سے باہر آتی تھیں۔ اسلام نے جہاں ان تمام پابندیوں کو ختم کیا اور اسے عزت و وقار کے ساتھ اسی گھر میں رہنے کا حق دیا ۔ وہاں خوشبو اور زیب و زینت  کی دوسری اشیاء استعمال کرنے سےمنع کیا۔

جہاں تک کام یا دوسری کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا تعلق ہے تو قرآن کی تعلیمات اور احادیث میں جو تفصیل آئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو اس کی اجازت نہیں اور خیر و برکت اسی میں ہے کہ اسلامی احکام پر عمل کرکے عورت چار ماہ دس دن گھر میں گزارے لیکن شدید ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے پاس ایک عورت آئی جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور وہ عدت گزار رہی تھی۔ اس نے پوچھا کہ میرا والد بیمار ہے کیا میں اس کے یہاں جاسکتی ہوں ؟ ام سلمہ نے دن کے وسطہ میں جانے کی اجازت دے دی۔

ایک اور روایت میں ہے: ’’شہدائے احد کی بیویوں نے رسول اللہﷺ سے یہ شکایت کی کہ گھر میں وہ تنہائی محسوس کرتی ہیں تو کیا ہم کبھی ایک دوسری کے پاس رات گزار سکتی ہیں؟ تو آپﷺ نے انہیں ایک دوسری کے گھر میں جانے کی اجازت دی اورفرمایا کہ سونے کےوقت اپنے گھروں میں آجایا کرو۔‘‘ (نیل الاوطار)

اس طرح کی متعدد روایا ت اور صحابہ کرام ؓ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورتیں ضرورت کے مطابق اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں۔

اس لئے آپ نے کام کرنے کے بارےمیں جو دریافت کیا ہے یہ بھی ایک ضرورت  اور مجبوری ہے جس کی  وجہ سے عدت گزارنے والی عورت کو کچھ دیر کےلئے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا جس عورت کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں کوئی کمانے والا بھی نہیں چھٹی بھی نہیں مل سکتی اور کوئی متبادل بھی نہیں تو ایسی صورت میں وہ کام پر جاسکتی ہےلیکن عام سادہ اور باوقار لباس میں جانا چاہئے اور زیب و زینت اور آرائش سےمکمل پرہیز کرنا ہوگا۔

حضرت جابرؓ سےایک حدیث مروی ہے ’’ میری خالہ کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں (وہ حالت عدت میں تھی) تو وہ کھجور کاٹنے کےلئے باہر گئی۔ اسے ایک آدمی نے منع کیا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور یہ بات ذکر کی توآپ ﷺ نے فرمایا تو باہر جاکر کھجوریں کاٹ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے تو اس طرح اللہ کی راہ میں صدقہ کرے یا کوئی خیرو بھلائی کرے۔‘‘ (مسلم شریف)

اب اس حدیث سے بھی ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ ضرورت اور کام کےلئے عورت باہر جاسکتی ہےکیونکہ عام حالت میں تو مطلقہ عورت کو بھی عدت کےدوران باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
( ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب)
فتاویٰ صراط مستقیم
ص409محدث فتویٰ

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS