find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label nikah. Show all posts
Showing posts with label nikah. Show all posts

Dusri Shadi ke Masail. Dusri, Tisri aur Chauthi Shadi karne ki Haisiyat rakhte hue bhi Shadi nahi karna.

Dusri Shadi ke Masail aur Muashera.

Kya Dusri shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi agar Biwi razi na ho to Shauhar Dusri Shadi kar sakta hai?

Nikah se jude masayel janne ke liye click kare. 

Aaj jyada Umar hone ke bawjood bhi Padhi likhi ladkiyo ki Shadi kyo nahi ho rahi hai? 

Kya Hame Dusri Shadi ko Aam nahi kar dena chahiye? 

Mard ke Liye 4 Shadiya kyu jaruri hai? 

Dusri Shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi Biwi Shadi karne nahi deti. 

 


بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه

➖ دوسری شادی کے مسائل ➖

شادی انبیائے کرام کی سنت ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ(الرعد: 38)

ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ،ہر مقررہ وعدہ کی ایک لکھت ہے ۔
جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انِّكاحُ من سنَّتي ، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي ، وتزوَّجوا ، فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأممَ ، ومن كانَ ذا طَولٍ فلينكَح ، ومن لم يجِد فعلَيهِ بالصِّيامِ ، فإنَّ الصَّومَ لَهُ وجاءٌ(صحيح ابن ماجه:1508)

ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔

جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا ،جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے ،اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ گئے اور گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ ہے مگر بعض دنیاوی مقاصد کی برآوری کے لئے شادی میں ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنے والے یا اختلاط کی جگہوں پہ رہنے سہنے والے اس قسم کے بہت سے لوگ ناجائز طریقے سے شہوت رانیاں کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پہ اپنے ماتحت کی شادی کرا دے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہوسکے جوکہ نکاح کے ایک اہم مقاصد میں سے ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
يا معشرَ الشبابِ ! من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ . فإنه أغضُّ للبصرِ ، وأحصنُ للفرجِ . ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ(صحيح مسلم:1400)

ترجمہ : اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ،یہ خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔

اگر مرد نے ایک خاتون سے شادی کرلی تو اس نے سنت پر عمل کرلیا ، رہا مسئلہ دوسری شادی کا تو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے ۔ قرآن میں اللہ نے پہلے دو شادی کا ہی ذکر کیا ہے پھر تین، پھر چار، ان میں انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کو اختیار کرنے کا حکم ملا۔

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3)

ترجمہ: اور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین ، چار چار سے ،لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔

تعدد ازدواج کی حکمت :
۔ • ─┅━━━━━━━┅┄ •
پہلے دھیان میں یہ رہے کہ شادی کی حکمت مسلمانوں کی تعداد بڑھانا جس پر نبی ﷺ بروز قیامت فخر کریں گے ، اسی طرح شرمگاہ کی حفاظت بھی شادی کے مقصد میں سے ہے ۔
٭ایک سے زائد شادی حکم الہی ہے اور اللہ کا کوئی حکم کسی مصلحت کے بغیر نہیں خواہ ہماری محدود عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے۔

٭ قدرتی طور پر دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر مردوں کے کام کاج ،مسائل ،جھگڑا لڑائی ،قتل و فساد کے سبب مرد ہی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اگر ہر آدمی ایک شادی پر اکتفا کرے تو بقیہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ آج جہیز کی لعنت کا ایک سبب لڑکیوں کی کثرت ہے ، اگر لڑکیاں کم ہوتیں تو لڑکے پیسہ دے دے کر شادی کرتے۔ لڑکیوں کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ لوگ متعدد شادیاں کرے ، آج لوگوں نے شادی چھوڑ کر زنا کا راستہ تلاش کیا تو اللہ نے ان میں ایڈز کی بیماری پھیلا دی۔
٭ خواتین پہ بعض مخصوص مراحل آتے ہیں اس وقت مرد اپنی بیوی سے دور رہتا ہے اس صورت میں کثرت جماع والا شخص یا تو دوسری شادی کرے گا یا زنا کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر بیوی ہی سے ناجائز طریقے سے فائد ہ اٹھائے گا ، ان تمام صورتوں میں دوسری شادی جائزو اولی ہے ۔

٭ بعض مردوں میں قدرتی طور پر شہوت زیادہ ہوتی ہے ایسے حضرات کے لئے بھی جائز راستہ دوسری شادی ہی ہے ورنہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔

٭بعض لوگوں کو ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی رہتی ہے ، مایوسی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے مگر دوسری شادی سے بہت سارے لوگ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔
٭ بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ عورت (کسی بیماری کے سبب یا عیب کے سبب یا رشتہ طے کرتے کرتے کافی وقت گزرگیا اور آج ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے خصوصا جو لڑکی کالی یا معذور یا غریب ہو)سے شادی کرنا لوگ معیوب سمجھتے ہیں ، اگر ان سے کوئی شادی کرلے تو ایسے مرد کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں سے شادی کرنا جہاں ان کے ساتھ احسان وسلوک ہوتا ہے وہیں شادی کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
٭ تعدد ازدواج سے پر فتن دور میں شرمگاہوں کی حفاظت پر قوی مدد ملتی ہے ۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لازم ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅
ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو اپنی پہلی بیوی کو راضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اور ایک اخلاقی فریضہ اور اس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اور اس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔
اور اسے اچھی اور بہتر ملاقات اور ملنے میں مسکراتے چہرے اور اچھی بات کہہ کر اور اگر کچھ مال میسر ہو اور اس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ
( 3 / 204 ) ۔
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).

مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ۔ جبکہ پہلی بیوی دیندار ، فاضلہ اور
حقوق نبھانے والی وفا شعار ہے ، لیکن دوسری شادی کی بات پر طلاق مانگتی ہے
  ─┅━━━━━━━━━━━━━━

عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).
چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بے وقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.
اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).

ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.
ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.
خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.

بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.

بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.

کیا خاوند کے لیے چھپ کر شادی کرنا جائز ہوگا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
خاوند پر واجب نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كو بتائے كہ وہ اور شادى كريگا، ليكن اگر شادى كر لے تو پھر اسے بتانا واجب ہے؛ كيونكہ بيويوں كو شادى كے بارہ ميں نہ بتانے سے وہ سوء ظن اختيار كر كے سمجھيں گى كہ اس كے كسى سے غلط تعلقات ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بيويوں كو تقسيم ميں عدل كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انہيں علم ہو كہ ان كے علاوہ اور بھى بيوى ہے، اور نئى بيوى كو بھى پہلى بيويوں جيسا ہى حق حاصل ہے.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ نكاح كے مقاصد اور حكمت اور احكام كو بھول جائے، اور اپنى شہوت كے پيچھے پڑ كر يہاں اور وہاں شہوت پورى كرتا پھرے، اور پھر مصيبت تو يہ ہے كہ وہ اپنے اس عمل كو اسلام كى طرف منسوب كرتا پھرے!!

پہلى بيوى کا واپس آنے كیليے دوسرى بيوى كوطلاق دينےكى شرط
─┅━━━━━━━━━━━━━━┅┄
پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).

اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.

اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا،

ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى ہیں جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!

عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجر وثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.

دوسری شادی کب واجب یا حرام ہو جاتی ہے ؟
• ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄

بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا،
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
 اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو 
كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے ۔ النساء ( 3 )
لیکن اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.

کیا ایک دن میں مرد دو نکاح کر سکتا ہے ؟
❖ •─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
انسان ایک دن میں دو خواتین سے نکاح کر سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ )تم دو، دو، تین، تین ، یا چار ، چار جتنی تمہیں اچھی لگیں خواتین سے شادی کرو۔ النساء : 3
دو خواتین سے یکبار نکاح کرنا یا مختلف اوقات میں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اہل علم دونوں خواتین کی رخصتی ایک ہی دن ؛ اچھی نہیں سمجھتے؛ کیونکہ ان میں سے ایک کا حق مارا جائے گا۔
امام یحی بن ابو الخیر عمرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی رات میں دو بیویوں کو خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، کیونکہ دونوں کا حق اکٹھا ادا کرنا ممکن ہی نہیں، اس لئے اگر ایک کے ساتھ رات گزارے گا تو دوسری اجنبیت محسوس کریگی۔
اور اگر دونوں اسکے پاس آجائیں تو جس کیساتھ نکاح پہلے ہوا تو پہلے اسی کا حق ہوگا، پھر بعد میں دوسری کا، کیونکہ پہلے والی سبقت لے چکی ہے، اور اگر دونوں کیساتھ برابر عقد ہوا تو قرعہ اندازی کریگا، کیونکہ دونوں میں سے کسی کو کسی لحاظ سے بھی فوقیت حاصل نہیں ہے"انتہی
ماخوذ از کتاب:" البيان" از: عمرانی (9/520)

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے دو خواتین سے شادی کی تو دونوں کو ایک ہی رات میں خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، چاہے دونوں کنواری ہوں یا بیوہ، یا ایک کنواری اور یک بیوہ؛ کیونکہ خاوند دونوں کا حق پورا نہیں کرسکتا، اور جسکی باری بعد میں آئے گی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اجنبیت محسوس کرے گی، [لیکن پھر بھی]جو بیوی سب سے پہلے داخل ہوئی اسکا حق پہلے بنتا ہے، اسکا حق ادا کرنے کے بعد دوسری کے پاس جائے گا اور اسکا حق ادا کریگا؛ کیونکہ دوسری کا حق بھی اس پر واجب ہے، خاوند نے اس کے حق کی ادائیگی اس لئے نہیں کی کہ درمیان میں [پہلی بیوی کی وجہ سے]رکاوٹ تھی ، جسکی وجہ سے تاخیر ہوئی چنانچہ جب رکاوٹ زائل ہوگئی تو واجب ادا کرنا ضروری ہوگیا، اس کے بعد دنوں کی تقسیم شروع ہوجائے گی، اور جسکی باری ہوگی اسی کے حقوق ادا کریگا، اگر دونوں ہی بیویاں برابر داخل ہوئیں تو دونوں میں سے ایک کو قرعہ کے ذریعے ترجیح دیگا، اس لئے کہ دونوں ہی سبب استحقاق میں برابر ہوگئیں ہیں، اور قرعہ ایسی حالت میں باعث ترجیح ہوتا ہے"
ماخوذ از: " كشاف القناع " (5/208) ، اور دیکھیں: " المغنی- از ابن قدامہ " (7/242)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ

طلاق کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
طلاق کی نیت سے شادی متعین وقت کے لئے شادی ہے، اور مؤقتا شادی کرنا غلط و باطل ہے، کیونکہ یہ متعہ ہے، اور متعہ بالاجماع حرام ہے، اور صحیح شادی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیشگی اور رشتے کو برقرار رکھنے کی نیت سے شادی کی جائے، اب اگر بیوی صالح اور مناسب نہ ہو تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے، الله تعالى نے فرمايا: "فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ" [پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھـ چھوڑ دینا ہے]۔

لوگ ویزا لینے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں کہ انسان امریکی عورت کے ساتھـ شادی کرلے، چنانچہ اکثر لوگ کسی عورت کے ساتھـ شکلی طور پر کسی عورت کو نکاح کرنے پر راضی کرلیتے ہیں، اور اس نکاح نامہ کے عوض اس عورت کو مال دیتے ہیں، اور ہمبستری کے بغیر شہریت کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، یہ شادی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے، نیز غیر اسلامی ملک کی شہریت لینا جائز نہیں ہے، اور غیر اسلامی ممالک کی شہریت کے بارے میں ہم نے ایک فتوی جاری کیا ہے، اور اس کی عبارت یہ ہے: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کی شہریت لے جس کی حکومت کافر ہو؛ کیونکہ یہ ان کے ساتھـ دوستی اور جس باطل پر وہ قائم ہیں اس پر رضامندی کے اظہار کا ذریعہ ہے"۔

لہٰذا وقتی شادی متعہ ہے، اور یہ نکاح قرآن و حدیث اور اہل سنت و جماعت کے اجماع کی رُو سے باطل ہے،
➖چنانچہ صحيحين میں علی بن ابی طالب رضي الله عنه سے روایت ہے:
" بے شک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خیبر کے زمانے
میں نکاحِ متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا ہے "
صحيح بخاری،الحيل (6961) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،الصيد والذبائح (4334) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/79) ، موطأ مالك،النكاح (1151) ، سنن دارمی،النكاح (2197). بے

➖اور ايک روايت ميں ہے:
" خیبر کے دن آپ نے عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا "
صحيح بخاری،المغازي (4216) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،النكاح (3366) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/142) ، موطأ مالك،الصيد (1080) ، سنن دارمی،الأضاحي (1990).

➖ اور صحیح مسلم میں نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرسکتے ہو، اور اب یقیناً اللہ تعالی نے متعہ کو قیامت كے دن تک حرام کردیا ہے، تو کسی کے پاس اس قسم کی کوئی چيز(عورت) ہے، تو وہ اس کو چھوڑدے، اور جو کچھـ اس کو دے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے۔
صحيح مسلم،النكاح (1406) ، سنن نسائی،النكاح (3368) ، سنن أبو داود،النكاح (2072) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1962) ، مسند أحمد بن حنبل (3/405) ، سنن دارمی،النكاح (2195).

یاد رکھیے وقتی شادی میں ازدواجی تعلقات زنا شمار ہوتے ہیں، اور جو اس کے باطل ہونے کے علم کے باوجود اس پر عمل کرے، تو اس پر زنا کے احکام لاگو ہوں گے، اور شرعی نکاح یہ ہے کہ انسان کسی عورت کے ساتھـ ہمیشہ کے لئے بیوی بنانے کی نیت سے شادی کرے، اور اگر وہ صالح بیوی نہ رہی، تو اسے طلاق دے سکتا ہے، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩﴾البقرة
ﭘﮭﺮ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﻨﺎ ﯾﺎ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( فتاوٰی/21140/12087/

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Shadi se Pahle Ladke aur Ladki Jina (Sex) kar lene par Agar Ladki Pregnant ho jaye to Kya Ladka Ladki Nikah Kar sakta hai?

Koi ladka Shadi hone wali Mangetar ke Sath Sex kar le aur Hamal (Pregnant) se ho to uska kya Solution hai?

Kya Shadi se Pahle Ladki Ladka sex krne ke bad Hamila hone par Dono Nikah kar sakte hai?
Nikah ke Bad Is bacche ke bare me kya hukm hai?
Kya wah Baccha jo Nikah se Pahle ka hai wah Najayez hoga?


السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
    ۔─━══★◐★══━─
کوئی لڑکا اپنی منگیتر کے ساتھ سیکس کر لے اور حمل ٹھہر جائے تو کیا حل ہے اس کا؟؟؟
نکاح کر لے؟؟؟
نکاح کے بعد یہ بچہ کیا ہوگا؟؟؟
اس بات کا تفصیلی جواب دیں.

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
سب سے پہلے ہم اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بھائی کو ایمان چھن جانے کے درد سے آشنا فرمائے ۔ اس متاع کے چھن جانے سے مغموم فرمائے جسے اس نے زنا کرتے وقت کھو دیا تھا اور اس سے درگزر فرمائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چور بھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اور لوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جسے لوٹنے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 )

کیا اس بھائی نے اللہ تعالیٰ کے جزاء و سزا کو بھلا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مکمل قدرتِ کاملہ کے ساتھ کائینات کی ہر ذی روح کے عمل سے باخبر ہے۔ بندہ رزق اسی سے پاتا ہے ، بیمار ہو جائے تو کوئی ذات نہیں اسکے سوا جو شِفاء عطا کرے ، اسکے بجز کوئی بھوک نہیں مٹا سکتا ، کوئی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔ سب سے بڑھ کر اس رب نے اسلام کی نعمت سے نوازا جو بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ پھر ان عظیم نعمتوں کے بدلے میں ہم اس عزت والے رب کی نافرمانی کے کام کریں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم اس رب کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہاں اہنی جانوں پر ہمارا یہ ظلم ہمیں خسارے میں ڈال دے گا ۔

حدیث معراج کےنام سے حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مذکور ہے کہ

( پھر ہم آگے چلے تو ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور و غوغا اور آوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تو اندر مرد و عورتیں سب ننگے تھے ، اور ان کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اور جب وہ شعلے آتے وہ لوگ شور و غوغا اور آہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟
انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تو یہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :
ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو سب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اور وہ مرد اور عورتیں جو تنور میں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد و عورتیں تھیں )
صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 )

اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کے اندر اپنا خوف پیدا فرمائے کہ زنا جیسے قبیح گناہوں سے وہ دور رہے اور اپنی محبت پیدا فرمائے کہ اعمالِ صالح پر اسے اپنے رب کی طرف سے انعامات پر مکمل بھروسہ ہو ۔

            زانی کا زانیہ سے نکاح
۔•┈┈┈┈┈••••┈┈┈┈┈•

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامن مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہوخواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو۔توان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہو سکتی ہے ۔
اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اور اگر مسلمان بھی ہ وپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اور نہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مرد کو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتا ، اور زانیہ عورت بھی زانی یا پھر مشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اور اس گناہ کو ترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اور اس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کو دوبارہ نہيں کريں۔

 زانی کی اس زانیہ سے شادی کا حکم جس سے اس نے زنا کیا ہو' ان کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگی؟ کیا شادی کر لینے سے حد معاف ہو جائے گی؟
۔•┈┈••┈┈┈•••┈┈┈•

زانی کے زانیہ سے شادی کفارہ شمار نہیں ہوگی کیونکہ زنا کا کفارہ دو ہی باتیں ہیں تو اس پر حد قائم کی جائے' جبکہ بات حاکم وقت کے پاس پہنچ گئی ہو یا وہ اس جرم (زنا) سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اپنے عمل کی اصلاح کرے اور فتنہ و فحاشی کے مقامات سے دور رہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ ۚ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور

''بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے''۔

ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں' جو کچھ ہوا' اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں' جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

«الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)

''بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے''۔
''عاہر'' کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ / جلد 3/ صفحہ404

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔

احکام و مسائل​ / نکاح کے مسائل
جلد1/صفحہ 304​

اس ثیبہ عورت سے نکاح کرنے کے متعلق حکم جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو اور حمل آٹھ ماہ کا ہو، کیا اس صورت میں نکاح باطل یا فاسد یا صحیح ہو گا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی آدمی زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح باطل ہے اور اس حالت میں اس کے لئے اس عورت سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة
’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے  نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق
’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا يحل لأمرىء بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)

’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن ایمان پر رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘

نیز حسب ذیل ارشاد نبویﷺ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا تبؤطا حامل حتى تضع )) ( سنن أبي داؤد)
’’حاملہ عورت سے وضع حمل تک مباشرت نہ کی جائے۔‘‘

اس حدیث کو ابو دائودؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہ قول ہے کہ اس حالت میں عقد صحیح ہے ہاں البتہ مذکورہ احادیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ نے وضع حمل تک مباشرت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ نے مباشرت کو بھی جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
((وللعاهر الحجر ))
( صحيح البخاري )
’’زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘

اس بچے کو اس عورت سے شادی کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عورت تو حمل کے بعد اس کا بچھونا بنی ہے۔ اس تفصیل سے مذکورہ علماء میں اختلاف کا سبب واضح ہو گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ بات کہی ہے جو اس کے اس امام نے کہی جس کی اس نے تقلید کی ہے لیکن ان میں سے صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح باطل ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور ممانعت پر ولالت کرنے والی احادیث کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
فتاویٰ اسلامیہ/جلد 3/صفحہ171

صورت مسئولہ جس میں منگیتر نے زنا کیا جس سے اسکی منگیتر یعنی زانی عورت حاملہ ہے ۔ تواس کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ زانیہ عورت سے شادی نہيں ہوسکتی لیکن اگر وہ توبہ کرلے تو پھر شادی کرنی جائز ہے ، اور اگر مرد اس کی توبہ کے بعد اس سے شادی کرنا بھی چاہے تو پھر ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کرنا واجب ہے یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنے سے قبل یہ یقین کرلیا جائے کہ اسے حمل تو نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہو تو پھر اس سے وضع حمل سے قبل شادی جائز نہیں ۔ انتھی ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا فتوی ۔ دیکھیں کتاب : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ) ۔

اور شیخ صالح المنجد کے بقول اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کر سکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہوسکتی ہے ۔

اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مردکو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے :

{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
تو اس بنا پر اس عورت سے نکاح کرنا باطل ہے جو زنا سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اور اگر کسی نے اس سے شادی کی بھی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ فوری طور پر اس سے علیحدہ ہوجائے وگرنہ وہ بھی زانی شمار ہوگااوراس پر حد زنا قائم ہوگی ۔
پھر جب وہ اسے علیحدگی کرلے اوروہ عورت اپنا حمل بھی وضع کرلے اوررحم بری ہوجائے اورپھر وہ عورت سچی توبہ بھی کرلے توپھر وہ خود بھی توبہ کرلے تواس کا اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا ۔

رہا مسئلہ کہ ولدالزنا کس سے منسوب کیا جائے تو اس ضمن میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی شدہ ہوتو زانی کے بچے کووالد سے ملحق کرنے کے بارہ میں علماء کرام اس کے بارہ میں دو قول رکھتے ہیں کہ آیا بچے کی نسبت والد کی طرف ہوگی یا نہیں ؟

اس کا بیان کچھ اس طرح ہے :

اگرعورت شادی شدہ ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوجاۓ تواس بچے کی نسبت خاوند کی طرف ہی ہوگی اوراس سے بچے کی نفی نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کرے ۔

اوراگر کوئ شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اس عورت سے زنا کیا ہے اوریہ بچہ اس زنا سے ہے تواجماع کے اعتبارسے اس کی بات تسلیم نہیں ہوگی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔

اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟

جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔

حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔

اورشيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے

( علی بن عاصم نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت کیا ہے کہ ان کا قول ہے : میرے خیال میں اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زنی کرے اوراس سے وہ حاملہ ہو اوروہ اس حمل میں ہی اس سے شادی کرلے اوراس پر پردہ ڈالے رکھے اوروہ بچہ اسی کا ہوگا ) ۔ المغنی ( 9 / 122 ) ۔

اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ہمارے شیخ اوراستاد ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے یہ اختیار کیا ہے کہ اگر کسی مرد نے اپنے زنا کی بچے کی نسبت اپنی کرنے کا مطالبہ کیا اوروہ عورت اس کی بیوی نہ ہوتواس بچے کے الحاق اس کی طرف کر دیا جاۓ گا ۔ ا ھـ دیکھیں : الفروع ( 6 / 625 ) ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

( جمہور کے قول کے مطابق اگرعورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کے بچے کا الحاق زانی سے نہیں ہوگا ، اورحسن ، ابن سیرین رحمہم اللہ تعالی کا قول ہے جب وطی کرنے والے کوحد لگا دی جاۓ توبچہ اس سے ملحق ہوگا اوروارث بھی ہوگا ۔

اورابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جب اسے حد لگا دی جاۓ اوریا پھر وہ زنی کی جانے والی عورت کا مالک بن جاۓ توبچے کی نسبت اس کی طرف کردی جاۓ گی ، اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : اس کا الحاق کر دیا جاۓ گا ۔

اوراسی طرح عروہ ، اورسلیمان بن یسار رحمہم اللہ تعالی سے بھی یہی قول منقول ہے ) ۔

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اوراسی طرح اگر عورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کےبچے کی زانی کی طرف نسبت کرنے میں اہل علم کے دو قول ہيں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ خاوند کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ صاحب فراش یعنی جس کی بیوی ہے اس کا قرار دیا ہے نہ کہ زانی کا ، اوراگر عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو حدیث اسے بیان نہیں کرتی ۔

اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جاھلیت میں پیدا ہونے والے بچوں کوان کے باپوں کی طرف ہی منسبوب کیا تھا ، اوراس مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 3 / 178 ) ۔

جمہور علماء کرام نے زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے میں مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :

عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادا سےبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :

( بلاشبہ جو کسی ایسی لونڈی سے ہوجواس کی ملکیت نہیں اوریا پھر کسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کيا تواس کا الحاق اس سے نہیں کیا جاۓ گا اورنہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا ، اوراگر وہ جس کا دعوی کررہا ہے وہ صرف اس کا دعوی ہی ہے اوروہ ولد زنا ہی ہے چاہے وہ آزاد عورت سے ہو یا پھر لونڈی سے )۔

مسنداحمد حدیث نمبر ( 7002 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2746 )، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اور شیخ ارنا‎ؤوط رحمہ اللہ نے تحقیق المسند میں اسے حسن قرار دیا ہے ، اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی نے اس سے جمہور کے مذھب کی دلیل لی ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ولد زنا زانی سے ملحق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس کا وارث بنے گا چاہے زانی اس کا دعوی بھی کرتا رہے ۔

اوراس میں شک نہیں کہ بچے کوکسی بھی شخص کی طرف منسوب کرنا بہت ہی عظيم اوربڑا معاملہ ہے جس کے بارہ میں بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا وراثت ، عزیزو اقارب ، اور اس کے لیے محرم وغیرہ ۔

بہرحال اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے کا فتوی جمہور علماء کرام کے موافق ہے ۔

اوررہا مسئلہ شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی کے بارہ میں توہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کلام کی بنیاد دوسرے قول پر رکھی ہو جوکہ اوپربیان کیا جا چکا ہے ۔

لھذا جمہور علماء کرام کے قول کے مطابق زنی سے پیدا شدہ بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی زانی کی طرف منسوب نہيں کیا جاۓ گا اورنہ ہی یہ کہا جاۓ گا وہ بچہ زانی کا ہے بلکہ اس کی نسبت ماں کی طرف کی جاۓ گی اور وہ بچہ ماں کا محرم ہوگا اورباقی بچوں کی طرح وارث بھی ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

( وہ بچہ جو زنا سے پیدا ہوا ہووہ اپنی ماں کا بچہ ہوگا اورباپ کا نہيں ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی فرمان ہے :

( بچہ بیوی صاحب فراش ( بیوی والے کا ہے ) اور زانی کے لیے پتھر ہيں )

اورعاھر زانی ہے جس کا بچا نہیں ، حدیث کا معنی تو یہی ہے ، اوراگر وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کرلے کیونکہ بچہ توپہلے پانی سے پیدا ہوا ہے اس لیے وہ اس کا بیٹا نہیں ہوگا اورنہ وہ بچہ زانی کا وارث ہوگا اوراگروہ اس کا دعوی بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے پھر نہیں اس لیے کہ اس کا وہ شرعی طور پربچہ ہی نہیں ) انتھی ۔ یہ قول فتاوی اسلامیہ ( 3 / 370 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔

اورشیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی میں ہے کہ زانی کے پانی سے پیدا شدہ بچہ زانی کا شمار نہیں ہوگا ۔
دیکھیں فتاوی شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ ( 11 / 146 ) ۔

          زنا کے گناہ کی تلافی
۔*•┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈•*

لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے }
الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

اور توبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پر ضروری اور واجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اور اگر حمل ظاہر ہوجاۓ تو پھر آپ حدیث پر عمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ تو آپ نکاح کر سکتے ہیں ۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Halat-E-Haiz me Biwi ke Sath Sex karna kaisa hai? Kya Periods ke Dauran Biwi se mil sakte hai?

Periods Ke Dauran Biwi se Mubashirat karna kaisa hai?

Kya Haiz ke Dauran Biwi se Jima karna jayez hai?


حالت حیض و نفاس میں جماع کی ممانعت

خالق کائنات نے مرد اور عورت کے اندر ایک دوسرے کی صحبت سے سکون
حاصل کرنے اور لطف اندوز ہونے کی جو خواہش رکھی ہے اس کو پورا کرنے کیلئے
شرع اسلامی نے نکاح کا طریقہ بتایا ہے اور اسی لئے نکاح حضور نبی کریم کی نہایت اہم سنت ہے.
اس کے ذریعہ انسان زنا جیسے مذموم گناہ سے بچتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کو نصف الایمان بھی کہا گیا ہے۔
نکاح کے ذریعہ
جہاں انسان حرام کاری سے بچتا ہے وہاں اس کو بدن کی صحت ، ذہنی سکون محبت
اور ایک دوسرے کی سچی ہمدردی اور راز داری وغیرہ مختلف قسم کے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

نکاح رخصتی کے بعد جب مرد وعورت تنہائی میں یکجا ہوتے ہیں تو مرد کے
اندر بالعموم مباشرت کا جذ بہ بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے اور اس وقت بعض
مرد بڑی بے صبری کے ساتھ عورت پر ٹوٹ پڑتے ہیں بسا اوقات بیوی بحالت
حیض ہوتی ہے تو اس درندگی سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ منع بھی کرتی ہے مگر
احکام الہی کی ناواقفیت اور اس کے نقصانات کا علم نہ ہونے کے باعث عورت کے انکار کا لحاظ نہ کرتے ہوئے صحبت کر لیتے ہیں۔
جبکہ قرآن عظیم نے صاف
الفاظ میں حالت حیض میں صحبت کرنے سے روکا ہے۔ اور حرام قرار دیا ہے:

وَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ. (سورة بقره)
ترجمہ: حالت حیض میں عورت سے الگ تھلگ رہو۔

قرآن حکیم کے اس حکم کے بارے میں جدید علم طب نے اس بات کا
انکشاف کیا ہے کہ حیض سے خارج شدہ خون میں ایک قسم کا زہریلا مادہ ہوتا ہے
جو اگر جسم کے اندر رہ جائے تو صحت کیلئے مضر ہوتا ہے۔ اس طرح حالت حیض
میں جماع سے اجتناب کرنے کے راز سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ دوران حیض عورت
کے خاص اعضا خون حیض کے مجتمع ہونے سے سکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور
اعصاب داخلی غدود کے سیلان کے باعث اضطراب میں ہوتے ہیں۔ اس لئے
حالت حیض میں جنسی اختلاط مضرت اور کبھی حیض کی رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے اور بعد میں مزید خرابیاں سوزش
رحم وغیرہ پیدا ہو جاتی ہیں اور موجودہ زمانے میں AIDS ایڈز نام کی انتہائی خطر ناک بیماری جو معرض وجود میں آئی ہے وہ بھی اس قسم کی
بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔

قربان جائیے شریعت محمدی - نے ہم کو احکام الہی کے ذریعہ
ایسی مذموم حرکات سے روکا جن سے
فریقین کو طرح طرح کی بیماریاں اور امراض
خبیثہ سوزاک و آتشک وغیرہ لاحق ہو جاتے ہیں جن کا خمیازہ تمام عمر بھگتنا پڑتا
ہے۔ بلکہ اولا د پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ اولا د مجزوم یعنی کوڑھی ہو جاتی ہے .

Share:

Nawjawano (young) ka waqt par Shadi nahi hone se Muashare me failti Buraiya iske zimmedar kaun?

Aaj ke Nawjawano me Jinsi hajit itni kyu badh gayi hai?
🍁 جنسی حاجت اور نوجوان !

انسان کے بالغ ہونے سے بھی بہت پہلے جنسی جبلت اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

کچھ خوراک اور ماحول بھی قبل از وقت بلوغت میں کرادر ادا کرتے ہیں۔

جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ وہ اتنا طویل اور مشکلات بھرا کر دیا گیا ہے کہ محض ایک جذبہ کی تسکین کے لئے اتنا لمبا انتظار دل پر بوجھ بن جاتا ہے۔ مالی خود مختاری،  بہت سی رسومات، دکھاوا، شور شرابا اور لڑکی یا لڑکے والوں کی طرف سے نخروں نے نوجوان کے نکاح کو ایک ڈراونا خواب بنائے ہوئے ہیں۔

اب دین کا علم عمومی طور پر عوام میں نہایت سطحی ہے اور عمل اس سے بھی کم ہے۔

تصویر، گندی فلم اور پھر تصورات تک رسائی۔۔ ۔۔۔

بڑوں کی نگرانی یا راھنمائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین کو پتہ ہے نہ پروا کہ اولاد کیا کر رہی ہے۔

اس سب میں ناپختہ ذھن بعض جگہ پر بے حوصلہ ہو جاتے ہیں کئی جگہ بے رحم اور پھر کردار بھی خراب کر لیتے ہیں۔ بس موقع اور ماحول یہ طے کرتے ہیں کہ کون کتنا خراب ہو گا۔
اس دور کی نوجوان نسل میں پانی کم ہے لیکن آگ بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ ہماری خوراک اور فلم انڈسٹری ہے۔
تو لازمی بات ہے فساد اور بگاڑ یقینی امر ہے اور ناگزیر بھی.. بگاڑ ایک نیم شعوری تسلسل  سے پیدا ہوتا ہے جبکہ سدھار ہمیشہ ایک شعوری کوشش کا نتیجہ۔

ملکی اور معاشرتی انحطاط اور انتشار نے نوجوانوں کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ 

ہمارے ملک میں نوجوان خود رو جھاڑیوں کی طرح ہیں جنکی کوئی کانٹ چھانٹ دیکھ بھال نہیں کرتا۔ یہ پیدا بھی بغیر منصوبہ بندی اور مقصدیت کے ہوتے ہیں ۔

ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم لوگ وضاحت کیساتھ آرزو کریں۔
الله تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ نے جو جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ دیا ہے جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ ہمیں اسے آسان کرنا ہوگا فضول کی رسومات ختم کرنی ہونگیں ماں ماب اپنے پرائم ٹائم کو یاد کریں اور اپنے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

رب تعالیٰ لکھنے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
منقول

Share:

Modern Muashera aur Musalmano Ki Gairat : Aurat Kya Hai Aur Kya Nahi hai?

Aaj ka Modern Muashera aur Musalmano ki Gairat.


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

عورت کیا ہے ، کیا نہیں ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️: مسز انصاری

اگر ایک حکمران کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و عورت کے اختلاط سے اس کی سلطنت میں کتنی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں ، اس اختلاط سے اس کی سلطنت کی تعمیر میں حصہ لینے والے جوان مٹی کا ڈھیر بن سکتے ہیں، گھروں کے قوام ذہنی انتشار کا شکار ہوکر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کرنے سے معذور ہوسکتے ہیں تو واللہ حکمران ملکی قوانین کو مرتب کرتے ہوئے سب سے پہلے مردو زن کے بیچ میں لمبی لمبی فصیلیں کھڑی کردے گا ۔۔۔۔

اور اگر ایک مرد کو اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ مرد و زن کے اختلاط سے اس کے گھر میں کتنی خرابی پیدا ہوسکتی ہے جو نسلوں تک کو تباہ و برباد کرنے کی طاقت رکھتی ہے ، اس کے بچے صدقہ جاریہ کے بجائے گناہ جاریہ بن کر ہر لمحہ اس کی قبر کو آگ سے بھرتے رہیں گے اور یہ گناہ جاریہ نسلوں میں سفر کرے گا، تو واللہ وہ اپنی گھر کی عورتوں کو جاہل رکھنے میں مکمل عافیت محسوس کرے گا لیکن انہیں دورِ جدید کی ترقیوں سے شیطان کا آلہ کار نہیں بننے دے گا ۔

ہر عورت اپنے نفس پر گرفت رکھنے کے لیے اتنی طاقت نہیں رکھتی کہ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ جائے ۔ شیطان اسی جگہ نقب لگاتا ہے جو کسی ملک یا کسی گھر کی خوشحالی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہو، عورت گھر آباد بھی کرسکتی ہے اور برباد بھی، فطری طور پر بھی عورت کمزور ہوتی ہے اور ایمان کے لحاظ سے بھی کمزور ہوتی ہے، ہم نے قرآن حافظ عورتوں کو اپنے حجاب نظرِ آتش کرتے دیکھا ہے، ہم نے وہ عورتیں بھی دیکھی ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کی حلاوت چکھنے کے باوجود شیطان کی پیروی اختیار کی، وہ عورتیں بھی ہیں جو دعوتِ دین کی آڑ میں شیطان کی کامیابیوں کا سبب بنیں، ایسی بھی عورتیں ہیں جنہوں نے جہنم کی گرمی کو محسوس کرنے کے باوجود بھی دنیا کے عارضی دھوکہ میں آکر اپنے ایمانوں کی قیمتی متاع شہوتوں کی راہوں میں گُم کردیں، وہ عورتیں بھی ہیں جو رات کو اپنے شوہروں کی شفیق اور امان والی آغوشوں میں سوتی ہیں اور دن کی روشنی میں جب ان کے مرد اپنی عزتوں کو بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ تنہا چھوڑ کر کسبِ معاش کے نکلتے ہیں تو یہی عورتیں غیر کی آغوشوں میں چلی جاتی ہیں، والدین کی سرپرستی میں پنپنے والی وہ عورتیں بھی ہم نے دیکھی ہیں جن کے لیے جسم کی راحت تقویٰ و پرہیزگاری پر غالب آجاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ساری عورتیں ہر دور میں دیکھی گئی ہیں مگر جتنی کثرت آج کے دور میں ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں رہی، اور اس کا سبب سوشل میڈیا ہے ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا تلبیس ابلیس کا گھات ہے جہاں سے وہ مسلمان عورتوں کو جہنم کے سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے ۔ پس اپنی عورتوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں سے باخبر رہیے، انہیں گھر کی چاردیواری میں محفوظ نہیں سمجھیے کیونکہ شیطان موبائل کی صورت میں آپ کی عورتوں کا لُٹیرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Ahle hadees Ladki ya Ladka ka Nikah Barailwi, Deobandi aur Shiya se ho sakta hai?

Kya kisi Ahle hadees Ladki ki Shadi Barailwi ya Deobandi Ladke se ho sakti hai?


بِسْــــــــــمِ اِللَّهِ الرَّ حْمَـــنِ الرَّ حِيِــــمِ
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

برادر Rizwan Khan

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اگر عورت بریلوی اور مرد اہل الحدیث ہو تو کیا ان دونوں کا نکاح ہو سکتا ہے؟؟؟➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

وٙعَلَيــْــكُم السَّـــــــلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :

  اہلحدیث مسلک کی بچی کا بریلوی ، دیوبندی یا کسی بھی بدعتی ومشرک بچے سے نکاح :

1  بچہ اگر مؤمن و مسلم ہے کافر یا مشرک نہیں تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست ہے، خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیو بندی، خواہ بریلوی۔ اور اگر بچہ مؤمن و مسلم نہیں، کافر یا مشرک ہے تو مؤمن و مسلم بچی کا نکاح اس کے ساتھ درست نہیں۔ خواہ وہ بچہ اہلحدیث ہو ، خواہ دیوبندی ، خواہ بریلوی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط}
[البقرۃ:۲۲۱]

[’’ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘ ] الآیۃ۔
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَـلَا تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ لَاھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ ط}
[الممتحنۃ:۱۰] [’’

اگر وہ عورتیں تمہیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘  ] الآیۃ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 /صفحہ 452

2   مشرک و کافر لڑکے یا لڑکی (خواہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث یا دیوبندی یا بریلوی یا کچھ اور کہلائے) کا مومن لڑکی یا لڑکے کے ساتھ نکاح شرعاً درست نہیں
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 ﴿وَلَا تَنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤۡمِنَّۚ﴾--
بقرة221

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں‘‘ اور بیان ہے :

 ﴿وَلَا تُمۡسِكُواْ بِعِصَمِ ٱلۡكَوَافِرِ﴾--الممتحنة10
اور مت پکڑ رکھو نکاح عورتوں کافروں کا‘‘ ہاں مومن مرد کتابیہ محصنہ عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

 ﴿وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ﴾--
المائدة5

اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں میں سے جو دئیے گئے کتاب پہلے تم سے‘‘

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1/ صفحہ 311

3  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

﴿وَلَا تُنكِحُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤۡمِنُواْۚ﴾--بقرة221

’’اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مسلمان عورتوں سے ان کا نکاح نہ کرو‘‘ الآیۃ ۔ قضاۃ،  ولاۃ اور نکاح خواں سبھی   اس آیت کریمہ میں مخاطب ہیں

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

﴿لَا هُنَّ حِلّٞ لَّهُمۡ وَلَا هُمۡ يَحِلُّونَ لَهُنَّۖ﴾--
ممتحنة10

نہیں وہ عورتیں حلال واسطے ان کافروں کے اور نہ وہ کافر حلال واسطے ان عورتوں کے

اور معلوم ہے کہ ہر مشرک بشرک اکبر کافر ہے البتہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ ان میں مشرک وکافر بھی ہوتے ہیں اور موحد ومؤمن بھی۔

احکام و مسائل/نکاح کے مسائل
جلد 1ص 303

  شیعہ رافضی سے نکاح :

1  شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے کا نکاح :

شیعہ لڑکی سے سنی لڑکے یا شیعہ لڑکے سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے ۔کیونکہ وہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں اور ہ کسی مسلمان لڑکی یا لڑکے کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔ تفصیل کے لئے فتوی نمبر (7134) پر کلک کریں۔
فتوی کمیٹی/محدث فتوی

2  شیعہ لڑکے یا لڑکی سے کسی سنی ( دیوبندی، اہل حدیث ،بریلوی) کا نکاح :

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی لڑکا شیعہ ہو کر دیو بندی عقائد کا حامل ہو، ممکن ہے کہ وہ شادی کی غرض سے تقیہ کر رہا ہو ،لہذا کسی بھی سنی لڑکے یا لڑکی کا شیعہ لڑکی یا لڑکے سے نکاح جائز نہیں ہے، اور نکاح سرے سے منعقدہی نہیں ہوگا۔ کیونکہ جو شخص کفریہ عقیدہ رکھتا ہو، مثلاً: قرآنِ کریم میں کمی بیشی کا قائل ہو، یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صفاتِ اُلوہیت سے متصف مانتا ہو، یا یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ حضرت جبریل علیہ السلام غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے آئے تھے، یا کسی اور ضرورتِ دِین کا منکر ہو، ایسا شخص تو مسلمان ہی نہیں، اور اس سے کسی سنی عورت کا نکاح دُرست نہیں۔

شیعہ اثنا عشریہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں، تین چار افراد کے سوا باقی پوری جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو (نعوذ باللہ) کافر و منافق اور مرتد سمجھتے ہیں، اور اپنے اَئمہ کو انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل و برتر سمجھتے ہیں، اس لئے وہ مسلمان نہیں اور ان سے مسلمانوں کا رشتہ ناتا جائز نہیں۔ کیونکہ کسی مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مسلم سے نہیں ہو سکتا۔

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا رافضہ سے شادى كرنا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" الرافضة المحضة هم أهل أهواء وبدع وضلال ، ولا ينبغي للمسلم أن يزوِّج موليته من رافضي .وإن تزوج هو رافضية : صح النكاح ، إن كان يرجو أن تتوب ، وإلا فترك نكاحها أفضل ؛ لئلا تفسد عليه ولده "مجموع الفتاوى ( 32 / 61 ).

" رافضى لوگ خالصتا بدعتى اور گمراہ لوگ ہيں، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى ولايت ميں موجود کسی عورت كا نكاح رافضى سے نہيں كرنا چاہيے. اور اگر وہ خود رافضى عورت سے شادى كرے تو اس صورت ميں اس كا نكاح صحيح ہو گا جب اس عورت سے توبہ كى اميد ہو، وگرنہ اس سے نكاح نہ كرنا ہى افضل ہے؛ تا كہ وہ اس كى اولاد كو خراب نہ كرے"

وباللہ التوفیق
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
وٙالسَّــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Muashare (Society) me Mard aur Aurat ke huqooq Islam me.

Magribi Taji aur Islam me Auraton ke huqooq.
Waise Huqooq jo mard aur aurat ke liye barabar hai?

"اور تمنا نہ کرو اس چیز کی جس کے ذریعے سے اللّٰه نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے۔ مَردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گے اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو وہ (نیکی) کمائیں گی اور اللّٰه سے اس کا فضل طلب کرو۔ یقیناً اللّٰه ہر شے کا علم رکھتا ہے۔" [سورۃ النساء : 32]

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰه عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ اللّٰه کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

[تفسیر ابنِ کثیرؒ]

اللّٰه تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے اعتبار سے دوسروں پر فضیلت دی ہے۔ فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے کسی کو مرد بنایا، کسی کو عورت۔ جہاں تک نیکیوں کا معاملہ ہے، مرد و زن میں بالکل مساوات ہے۔ مرد نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے اور عورت نے جو نیکی کمائی وہ اس کے لیے ہے۔ مسابقت کا یہ میدان دونوں کے لیے کھلا ہے۔ عورت نیکی میں مرد سے آگے نکل سکتی ہے۔ چناچہ آدمی کا طرزِ عمل تسلیم و رضا کا ہونا چاہیے کہ جو بھی اللّٰه نے مجھے بنا دیا اور جو کچھ مجھے عطا فرمایا اس حوالے سے مجھے بہتر سے بہتر کرنا ہے۔

(یہ جو آیت میں ارشاد ہے کہ) 'مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا' تواس آیت میں کسب کا اطلاق دنیوی کمائی پر نہیں۔ یہاں مراد اچھے یا برے اعمال کمانا ہے۔ یعنی اخلاقی سطح پر اور انسانی عزت و تکریم کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ لیکن معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے اللّٰه تعالیٰ نے جو تقسیم کار رکھی ہے اس کے اعتبار سے فرق ہے۔ اب اگر عورت اس فرق کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو، مفاہمت پر رضامند نہ ہو اور وہ اس پر کڑھتی رہے اور مرد کے بالکل برابر ہونے کی کوشش کرے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔

[تفسیر 'بیان القرآن' ڈاکٹر اسرار احمدؒ]

Share:

Kya Auraten Apne Sath Char mardo ko Baap, Bhai, Shauhar aur Beta ko Jahannum me lekar jayegi?

Kya khawateen apne sath Char mardo ko jahannum me le jayegi?

Kya Auraten apne Baap, Bhai, Shauhar aur bete me Jahanum me lekar jayegi?
Kya Khawateen ke Gunah ki Sza Uske Shauhar aur Bete ko milegi?

کیا عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی؟؟

سوال: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا سوال یہ ہے کہ ایک حدیث بہت سننے میں آتی ہے کہ ”ایک عورت چار مردوں کو جہنم میں لے جائے گی۔“
یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟؟؟

جواب: یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:
إذا دخلت امرأة إلى النار أدخلت معها أربعة، أباها وأخاها وزوجها وولدها
”جب عورت جہنم میں داخل ہوگی تو اپنے ساتھ چار لوگوں کو جہنم میں لے کر جائے گی:

اپنے باپ کو، اپنے بھائی کو، اپنے شوہر کو اور اپنے بیٹے کو۔“

کچھ لوگ اس روایت کو حجاب کے ساتھ ذکر کرکے بیان کرتے ہیں:

أربعة يُسألون عن حجاب المرأة : أبوها، وأخوها، وزوجها، وابنها

”چار لوگوں سے عورت کے حجاب کے متعلق سوال کیا جائے گا:

اس کے باپ سے، اس کے بھائی سے، اس کے شوہر سے اور اس کے بیٹے سے۔“

*اس معنی کی کوئی بھی صحیح یا ضعیف روایت مجھے نہیں مل سکی۔*

اور متعدد باحثین اور محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔

*مزید یہ کہ یہ روایت شریعت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے گناہوں کے عوض جہنم میں داخل ہو۔*

چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:

*وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى*

”اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔“
(سورۃ الانعام: 164)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:

*أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَى نَفْسِهِ ، لَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ*

”خبردار! مجرم اپنے جرم پر خود پکڑا جائے گا، (یعنی جو قصور کرے گا وہ اپنی ذات ہی پر کرے گا اور اس کا مواخذہ اسی سے ہو گا) باپ کے جرم میں بیٹا نہ پکڑا جائے گا، اور نہ بیٹے کے جرم میں باپ۔“
(سنن ابن ماجہ: 2669، سنن ترمذی: 2159۔ قال الشيخ الألباني: صحيح)

اور سوال میں مذکور روایت کی تردید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کی بیویاں کافرہ تھی تو کیا ان کی وجہ سے نوح اور لوط علیہما السلام کو گناہ ملے گا؟؟؟

خلاصہ کلام یہ کہ سوال میں مذکور روایت بے اصل ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھیں کہ اپنے اہل وعیال کو جہنم سے بچانا ہر انسان پر واجب ہے۔ فرمان الہی ہے:
*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا*
”اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔“
(سورۃ التحریم: 6)

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:

*مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ*

”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔“

(سنن ابی داؤد: 495۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)

لہذا اگر وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا تو بروز قیامت ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بنا پر اس کی باز پرس اور پکڑ ہوگی۔ فرمان نبوی ہے:

*أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ*

”سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا۔“
(صحیح مسلم: 1829)

واللہ اعلم بالصواب!
─━•<
☆⊰✿❣✿⊱☆>•━─

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS