Dusri Shadi ke Masail aur Muashera.
Kya Dusri shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi agar Biwi razi na ho to Shauhar Dusri Shadi kar sakta hai?Nikah se jude masayel janne ke liye click kare.
Aaj jyada Umar hone ke bawjood bhi Padhi likhi ladkiyo ki Shadi kyo nahi ho rahi hai?
Kya Hame Dusri Shadi ko Aam nahi kar dena chahiye?
Mard ke Liye 4 Shadiya kyu jaruri hai?
Dusri Shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi Biwi Shadi karne nahi deti.
بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه
➖ دوسری شادی کے مسائل ➖
شادی انبیائے کرام کی سنت ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ(الرعد: 38)
ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ،ہر مقررہ وعدہ کی ایک لکھت ہے ۔
جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انِّكاحُ من سنَّتي ، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي ، وتزوَّجوا ، فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأممَ ، ومن كانَ ذا طَولٍ فلينكَح ، ومن لم يجِد فعلَيهِ بالصِّيامِ ، فإنَّ الصَّومَ لَهُ وجاءٌ(صحيح ابن ماجه:1508)
ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔
جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا ،جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے ،اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ گئے اور گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ ہے مگر بعض دنیاوی مقاصد کی برآوری کے لئے شادی میں ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنے والے یا اختلاط کی جگہوں پہ رہنے سہنے والے اس قسم کے بہت سے لوگ ناجائز طریقے سے شہوت رانیاں کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پہ اپنے ماتحت کی شادی کرا دے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہوسکے جوکہ نکاح کے ایک اہم مقاصد میں سے ہے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
يا معشرَ الشبابِ ! من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ . فإنه أغضُّ للبصرِ ، وأحصنُ للفرجِ . ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ(صحيح مسلم:1400)
ترجمہ : اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ،یہ خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔
اگر مرد نے ایک خاتون سے شادی کرلی تو اس نے سنت پر عمل کرلیا ، رہا مسئلہ دوسری شادی کا تو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے ۔ قرآن میں اللہ نے پہلے دو شادی کا ہی ذکر کیا ہے پھر تین، پھر چار، ان میں انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کو اختیار کرنے کا حکم ملا۔
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3)
ترجمہ: اور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین ، چار چار سے ،لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔
تعدد ازدواج کی حکمت :
۔ • ─┅━━━━━━━┅┄ •
پہلے دھیان میں یہ رہے کہ شادی کی حکمت مسلمانوں کی تعداد بڑھانا جس پر نبی ﷺ بروز قیامت فخر کریں گے ، اسی طرح شرمگاہ کی حفاظت بھی شادی کے مقصد میں سے ہے ۔
٭ایک سے زائد شادی حکم الہی ہے اور اللہ کا کوئی حکم کسی مصلحت کے بغیر نہیں خواہ ہماری محدود عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے۔
٭ قدرتی طور پر دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر مردوں کے کام کاج ،مسائل ،جھگڑا لڑائی ،قتل و فساد کے سبب مرد ہی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اگر ہر آدمی ایک شادی پر اکتفا کرے تو بقیہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ آج جہیز کی لعنت کا ایک سبب لڑکیوں کی کثرت ہے ، اگر لڑکیاں کم ہوتیں تو لڑکے پیسہ دے دے کر شادی کرتے۔ لڑکیوں کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ لوگ متعدد شادیاں کرے ، آج لوگوں نے شادی چھوڑ کر زنا کا راستہ تلاش کیا تو اللہ نے ان میں ایڈز کی بیماری پھیلا دی۔
٭ خواتین پہ بعض مخصوص مراحل آتے ہیں اس وقت مرد اپنی بیوی سے دور رہتا ہے اس صورت میں کثرت جماع والا شخص یا تو دوسری شادی کرے گا یا زنا کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر بیوی ہی سے ناجائز طریقے سے فائد ہ اٹھائے گا ، ان تمام صورتوں میں دوسری شادی جائزو اولی ہے ۔
٭ بعض مردوں میں قدرتی طور پر شہوت زیادہ ہوتی ہے ایسے حضرات کے لئے بھی جائز راستہ دوسری شادی ہی ہے ورنہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔
٭بعض لوگوں کو ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی رہتی ہے ، مایوسی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے مگر دوسری شادی سے بہت سارے لوگ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔
٭ بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ عورت (کسی بیماری کے سبب یا عیب کے سبب یا رشتہ طے کرتے کرتے کافی وقت گزرگیا اور آج ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے خصوصا جو لڑکی کالی یا معذور یا غریب ہو)سے شادی کرنا لوگ معیوب سمجھتے ہیں ، اگر ان سے کوئی شادی کرلے تو ایسے مرد کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں سے شادی کرنا جہاں ان کے ساتھ احسان وسلوک ہوتا ہے وہیں شادی کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
٭ تعدد ازدواج سے پر فتن دور میں شرمگاہوں کی حفاظت پر قوی مدد ملتی ہے ۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لازم ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅
ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو اپنی پہلی بیوی کو راضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اور ایک اخلاقی فریضہ اور اس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اور اس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔
اور اسے اچھی اور بہتر ملاقات اور ملنے میں مسکراتے چہرے اور اچھی بات کہہ کر اور اگر کچھ مال میسر ہو اور اس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ
( 3 / 204 ) ۔
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).
مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ۔ جبکہ پہلی بیوی دیندار ، فاضلہ اور
حقوق نبھانے والی وفا شعار ہے ، لیکن دوسری شادی کی بات پر طلاق مانگتی ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━
عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟
شيخ كا جواب تھا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).
چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بے وقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.
اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).
ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.
ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.
خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.
بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.
بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.
کیا خاوند کے لیے چھپ کر شادی کرنا جائز ہوگا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
خاوند پر واجب نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كو بتائے كہ وہ اور شادى كريگا، ليكن اگر شادى كر لے تو پھر اسے بتانا واجب ہے؛ كيونكہ بيويوں كو شادى كے بارہ ميں نہ بتانے سے وہ سوء ظن اختيار كر كے سمجھيں گى كہ اس كے كسى سے غلط تعلقات ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بيويوں كو تقسيم ميں عدل كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انہيں علم ہو كہ ان كے علاوہ اور بھى بيوى ہے، اور نئى بيوى كو بھى پہلى بيويوں جيسا ہى حق حاصل ہے.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ نكاح كے مقاصد اور حكمت اور احكام كو بھول جائے، اور اپنى شہوت كے پيچھے پڑ كر يہاں اور وہاں شہوت پورى كرتا پھرے، اور پھر مصيبت تو يہ ہے كہ وہ اپنے اس عمل كو اسلام كى طرف منسوب كرتا پھرے!!
پہلى بيوى کا واپس آنے كیليے دوسرى بيوى كوطلاق دينےكى شرط
─┅━━━━━━━━━━━━━━┅┄
پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).
اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).
اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.
اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا،
ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى ہیں جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!
عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجر وثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.
دوسری شادی کب واجب یا حرام ہو جاتی ہے ؟
• ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄
بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا،
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو
كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے ۔ النساء ( 3 )
لیکن اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.
کیا ایک دن میں مرد دو نکاح کر سکتا ہے ؟
❖ •─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
انسان ایک دن میں دو خواتین سے نکاح کر سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ )تم دو، دو، تین، تین ، یا چار ، چار جتنی تمہیں اچھی لگیں خواتین سے شادی کرو۔ النساء : 3
دو خواتین سے یکبار نکاح کرنا یا مختلف اوقات میں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اہل علم دونوں خواتین کی رخصتی ایک ہی دن ؛ اچھی نہیں سمجھتے؛ کیونکہ ان میں سے ایک کا حق مارا جائے گا۔
امام یحی بن ابو الخیر عمرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی رات میں دو بیویوں کو خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، کیونکہ دونوں کا حق اکٹھا ادا کرنا ممکن ہی نہیں، اس لئے اگر ایک کے ساتھ رات گزارے گا تو دوسری اجنبیت محسوس کریگی۔
اور اگر دونوں اسکے پاس آجائیں تو جس کیساتھ نکاح پہلے ہوا تو پہلے اسی کا حق ہوگا، پھر بعد میں دوسری کا، کیونکہ پہلے والی سبقت لے چکی ہے، اور اگر دونوں کیساتھ برابر عقد ہوا تو قرعہ اندازی کریگا، کیونکہ دونوں میں سے کسی کو کسی لحاظ سے بھی فوقیت حاصل نہیں ہے"انتہی
ماخوذ از کتاب:" البيان" از: عمرانی (9/520)
شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے دو خواتین سے شادی کی تو دونوں کو ایک ہی رات میں خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، چاہے دونوں کنواری ہوں یا بیوہ، یا ایک کنواری اور یک بیوہ؛ کیونکہ خاوند دونوں کا حق پورا نہیں کرسکتا، اور جسکی باری بعد میں آئے گی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اجنبیت محسوس کرے گی، [لیکن پھر بھی]جو بیوی سب سے پہلے داخل ہوئی اسکا حق پہلے بنتا ہے، اسکا حق ادا کرنے کے بعد دوسری کے پاس جائے گا اور اسکا حق ادا کریگا؛ کیونکہ دوسری کا حق بھی اس پر واجب ہے، خاوند نے اس کے حق کی ادائیگی اس لئے نہیں کی کہ درمیان میں [پہلی بیوی کی وجہ سے]رکاوٹ تھی ، جسکی وجہ سے تاخیر ہوئی چنانچہ جب رکاوٹ زائل ہوگئی تو واجب ادا کرنا ضروری ہوگیا، اس کے بعد دنوں کی تقسیم شروع ہوجائے گی، اور جسکی باری ہوگی اسی کے حقوق ادا کریگا، اگر دونوں ہی بیویاں برابر داخل ہوئیں تو دونوں میں سے ایک کو قرعہ کے ذریعے ترجیح دیگا، اس لئے کہ دونوں ہی سبب استحقاق میں برابر ہوگئیں ہیں، اور قرعہ ایسی حالت میں باعث ترجیح ہوتا ہے"
ماخوذ از: " كشاف القناع " (5/208) ، اور دیکھیں: " المغنی- از ابن قدامہ " (7/242)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ
طلاق کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
طلاق کی نیت سے شادی متعین وقت کے لئے شادی ہے، اور مؤقتا شادی کرنا غلط و باطل ہے، کیونکہ یہ متعہ ہے، اور متعہ بالاجماع حرام ہے، اور صحیح شادی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیشگی اور رشتے کو برقرار رکھنے کی نیت سے شادی کی جائے، اب اگر بیوی صالح اور مناسب نہ ہو تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے، الله تعالى نے فرمايا: "فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ" [پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھـ چھوڑ دینا ہے]۔
لوگ ویزا لینے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں کہ انسان امریکی عورت کے ساتھـ شادی کرلے، چنانچہ اکثر لوگ کسی عورت کے ساتھـ شکلی طور پر کسی عورت کو نکاح کرنے پر راضی کرلیتے ہیں، اور اس نکاح نامہ کے عوض اس عورت کو مال دیتے ہیں، اور ہمبستری کے بغیر شہریت کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، یہ شادی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے، نیز غیر اسلامی ملک کی شہریت لینا جائز نہیں ہے، اور غیر اسلامی ممالک کی شہریت کے بارے میں ہم نے ایک فتوی جاری کیا ہے، اور اس کی عبارت یہ ہے: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کی شہریت لے جس کی حکومت کافر ہو؛ کیونکہ یہ ان کے ساتھـ دوستی اور جس باطل پر وہ قائم ہیں اس پر رضامندی کے اظہار کا ذریعہ ہے"۔
لہٰذا وقتی شادی متعہ ہے، اور یہ نکاح قرآن و حدیث اور اہل سنت و جماعت کے اجماع کی رُو سے باطل ہے،
➖چنانچہ صحيحين میں علی بن ابی طالب رضي الله عنه سے روایت ہے:
" بے شک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خیبر کے زمانے
میں نکاحِ متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا ہے "
صحيح بخاری،الحيل (6961) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،الصيد والذبائح (4334) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/79) ، موطأ مالك،النكاح (1151) ، سنن دارمی،النكاح (2197). بے
➖اور ايک روايت ميں ہے:
" خیبر کے دن آپ نے عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا "
صحيح بخاری،المغازي (4216) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،النكاح (3366) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/142) ، موطأ مالك،الصيد (1080) ، سنن دارمی،الأضاحي (1990).
➖ اور صحیح مسلم میں نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرسکتے ہو، اور اب یقیناً اللہ تعالی نے متعہ کو قیامت كے دن تک حرام کردیا ہے، تو کسی کے پاس اس قسم کی کوئی چيز(عورت) ہے، تو وہ اس کو چھوڑدے، اور جو کچھـ اس کو دے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے۔
صحيح مسلم،النكاح (1406) ، سنن نسائی،النكاح (3368) ، سنن أبو داود،النكاح (2072) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1962) ، مسند أحمد بن حنبل (3/405) ، سنن دارمی،النكاح (2195).
یاد رکھیے وقتی شادی میں ازدواجی تعلقات زنا شمار ہوتے ہیں، اور جو اس کے باطل ہونے کے علم کے باوجود اس پر عمل کرے، تو اس پر زنا کے احکام لاگو ہوں گے، اور شرعی نکاح یہ ہے کہ انسان کسی عورت کے ساتھـ ہمیشہ کے لئے بیوی بنانے کی نیت سے شادی کرے، اور اگر وہ صالح بیوی نہ رہی، تو اسے طلاق دے سکتا ہے، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:
فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩﴾البقرة
ﭘﮭﺮ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﻨﺎ ﯾﺎ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( فتاوٰی/21140/12087/
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه