find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Biddat. Show all posts
Showing posts with label Biddat. Show all posts

Mai Eid miladunnabi nahi manata lekin Ghar wale manate hai aur wah mujhe Bhi manane ko kahte hai mai kya karu?

Nabi se sabse jyada Mohabbat karne wala kaun hai Eid Miladunnabi manane wale ya nahi Manane wale?

Aashiq-E-Rasool ke liye jaruri kya hai Dj bajana raksh karna ya Nabi ke hukm ki tamil karna?
Sawal: Mai Eid Miladunnabi  ka Jashn nahi manata, lekin ghar ke dusre log manate hai, unka mere bare me kahna hai ke "Mera Islam anokha Islam hai aur mai nabi Sallahu Alaihe wasallam se mohabbat nahi karta" Kya Is bare me mujhe koi Nasihat kar sakte hai?

 اے بارہ ربیع الاول کیسا دیا تو نے فراق کہ سرکار دو جہاں دنیا سے جا رہے ہیں ۔
غمگین ہیں کون و مکاں فلک بھی ہے اشک بار 

مگر ابلیس کے حواری خوشیاں منا رہے ہیں ۔

اپنے گھر میں عید میلاد منانے والے افراد کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ اُن کی طرف سے عید میلاد النبی کے جشن میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

  ألســـؤال
میں عید میلاد النبی کا جشن نہیں مناتا، لیکن گھر کے بقیہ تمام افراد جشن مناتے ہیں، اور انکا میرے بارےمیں کہنا ہے کہ: "میرا اسلام انوکھا اسلام ہے، اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا" کیا اس بارے میں مجھے کوئی نصیحت کرسکتے ہیں؟

الجـــــــواب
اول: محترم بھائی آپ نے لوگوں میں اس عام رائج شدہ  بدعت کو مسترد کر کے بہت اچھا  کام کیا ہے ۔

آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اور اسلامی تعلیمات  پر ڈٹ جانے کی وجہ سے   طعن زنی پر کان بھی نہ دھریں؛ کیونکہ جتنے بھی رسول  اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیے گئے  سب کا انکی اقوام نے مذاق اڑایا ، انہیں نا سمجھ اور بے و قوف(معاذاللہ) بھی کہا اور دین کے بارے میں طعنے بھی دیئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ) ترجمہ: اسی طرح ان سے پہلے جتنے بھی رسول آئے، سب کے بارے میں انہوں نے کہا: "یہ تو جادو گر یا پاگل ہیں"[الذاريات: 52] اس لئے آپ کو بھی اگر اس قسم کی باتیں سننی پڑتی ہیں تو  انبیائے کرام آپ کے لئے بہترین نمونہ ہیں، آپ ان  تکالیف پر صبر کریں، اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھیں۔

⬅️دوم:  آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ: جب تک آپ کو ان میں سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا اور حق کی چاہت رکھنے والا نظر نہ آئے  آپ ان سے بحث اور مناظرہ   سے باز رہیں،  اس کی بجائے آپ ان میں سے اس قسم کے چند لوگوں کو چُن کر عید میلاد  النبی کی حقیقت، اس کا حکم اور اس کی ممانعت پر موجود دلائل انہیں بتلائیں، انہیں یہ بھی واضح کریں کہ  اتباعِ نبوی کی فضیلت کیا ہے، اور بدعات ایجاد کرنے کا نقصان کیا ہے،اس طرح  اگر آپکو کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا ملتا ہے تو آپ اسے درج ذیل  انداز سے بات چیت کر سکتے ہیں ، امید ہے آپکے لئے مفید ہوگی:

⬅️1- سب سے پہلے ہم  وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی بات ختم کی تھی کہ انہوں نے کہا : "تمہارا اسلام انوکھا اسلام ہے!" تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ:  سب سے پہلے دین اور اسلام کس نے قبول کیا؟ عید میلاد النبی منانے والوں نے یا جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی؟

اسکا جواب ہر عقل مند یہی دے گا کہ جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی وہی  پہلے دیندار اور مسلمان تھے، چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ، تابعین، تبع تابعین، اور انکے بعد سے لیکر مصر میں عہد عبیدی  تک  کسی نے عید میلاد کا جشن نہیں منایا، بلکہ انکے بعد ہی یہ جشن منایا گیا، تو کس کا اسلام انوکھا ہوا؟!

⬅️2- ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ زیادہ محبت کرنے والے کون ہیں؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا انکے بعد کے آنے والے لوگ؟
یہاں پر بھی عقلمند اور منصف شخص کا جواب یہی ہوگا کہ صحابہ کرام زیادہ محبت کرتے تھے، تو کیا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی میلاد کا جشن منایا ؟!(نہیں منایا ) تو  کیا میلاد منانےوالے   نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے  صحابہ کی نسبت زیادہ محبت  کر تے ہیں؟

⬅️3- ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کا مطلب کیا ہے؟
تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کی جائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

⬅️قاضی عیاض رحمہ اللہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ترجمہ: کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [آل عمران : 31] اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمہ: جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔[الحشر : 9] اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔ " الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

⬅️4- اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کا دن ثابت ہے۔
⬅️اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول
2- آٹھ ربیع الاول
3- 10 ربیع الاول
4- 12 ربیع الاول
5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

⬅️  اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی۔

⬅️اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ   سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔ ہماری ویب سائٹ پر  اس بدعت  کی تردید میں متعدد جوابات موجود ہیں چنانچہ آپ : (10070)، (13810)، اور (70317) کا مطالعہ کریں۔ ساتھ میں اس بدعت کے رد میں شیخ صالح الفوزان کی کتاب   " حكم الاحتفال بالمولد النبوي " درج ذیل لنک سے حاصل کریں۔

⬅️سوم: محترم سائل بھائی! آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کیلئے ڈٹ جائیں، مخالفین کی تعداد  زیادہ دیکھ کر آپ گھبرانا مت، ہم آپ کو مزید علم حاصل کرنے ، اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی نصیحت کرتے ہیں، اور اس قسم کے اعمال کو بنیاد بنا کر آپ  اپنے اہل خانہ سے قطع تعلقی مت کریں، کیونکہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو انہیں اس کام کو جائز بتلاتے ہیں، بلکہ اسے مستحب [!]قرار  دیتے ہیں، چنانچہ آپ انہیں اس کام  سےروکتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کریں، کوشش کریں کہ میٹھے بول، عمدہ کردار، حسن اخلاق  سےپیش آئیں، روز مرہ کے امور ہوں یا عبادت سے متعلق انہیں اپنے اندر اتباع نبوی کے اثرات باور کروائیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ واللہ اعلم

ماخذ : السلام سوال جواب

اللهـم إنّ نسـألك الإخـلاص في نشرنا وفي  عملنا وفي سعينا  مـحتسباً للاجـر والثــواب خالصاً لوجهك الكريم. 
          *يــارب

Share:

Eid miladunnabi (12 Rabiawwal) Kin wajaho se Biddat hai? Jashn-E-Eid Miladunnabi manana Sunnat ha Biddat?

Eid miladun-nabi manane ke Biddat hone ki Daleelein.

12 Rabi awwal kin Wajaho se Biddat hai?

جشنِ عید میلاد النبی ﷺ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ممنوع اور مردود ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ رسول ﷺ کی سنت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے خلفاء کی اور جو چیز ایسی ہے وہ ممنوع بدعات میں سے ہے کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "

"تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4607﴾

★جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کا ایجاد شیعہ فاطمہ (فاطمیوں)نےقرونِ مفضلہ کے بعد دین اسلام کو بگاڑنے کے لیے کیا ہے(عجیب بات یہ ہے کہ شیعۂ فاطمہ کی ایجاد کی ہوئی چیز کو سنیوں نے اپنا لیا ہے) ۔ اور جس نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا کام کیا جسے اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ نبی ﷺ کے بعد خلفاء راشدین نے کیا ، تو اس نے نبی ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے ان کے دین کو کھل کر نہیں بیان کیا، نیز اس نے اللہ تعالی کے اس قول کو جھٹلایا:

  "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ"
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا"
﴿سورۃ المائدۃ:3﴾

کیونکہ دین میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین میں سے ہے اور رسول ﷺ نے اسے بیان نہیں کیا.

2۔ نبیﷺ کی پیدائش کے دن محفلیں لگانے میں نصاریٰ کی مشابہت ہے کیونکہ وہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے یوم پیدائش کی یاد میں محفلیں لگاتے ہیں اور نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا سخت حرام ہے، حدیث میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار تو وہ انہیں میں سے ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4031﴾

اور فرمایا:
     "خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ"
"مشرکین کی مخالفت کرو"

﴿صحیح بخاری:5892﴾

اور خاص طور سے ان چیزوں میں جو ان کے دین کے شعائر میں سے ہیں۔

3۔ جشنِ میلاد النبی ﷺ بدعت اور تشبہ بالنصاری  تو ہے ہی اور دونوں ہی حرام ہیں (بدعت، نصاریٰ کی مشابہت)، مزید یہ کہ یہ نبی ﷺ کی تعریف و تعظیم میں غلو اور مبالغہ کا ایک وسیلہ ہے یہاں تک کہ یہ اللہ کو چھوڑ کر نبی ﷺ سے  دعا مانگنے اور مدد طلب کرنے کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ آج ان میں سے اکثر لوگ جو نبی کریم ﷺ کی پیدائش کا دن مناتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر رسول ﷺ سے دعا کرتے ہیں اور ان کی تعریف میں شرکیہ قصیدے  و نعت گاتے ہیں جیسے قصیدۂ بردہ۔
اور نبی ﷺ نے اپنی تعریف میں غلو (حد سے بڑھانا) سے روکا ہے۔

چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:

" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ "

”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“

﴿صحیح بخاری:3445﴾

یعنی تم لوگ میری تعریف و تعظیم میں غلو نہ کرو جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کی تعظیم میں غلو کیا یہاں تک کہ اللہ کو چھوڑ کران کی عبادت کرنے لگے۔

اور نبی ﷺ نے ہمیں غلو سے اس ڈر سے روکا ہے کہ ہمیں بھی وہ لاحق نہ ہو جائے ہم سے پہلے غلو کرنے والوں کو لاحق ہوئی۔
چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ؛ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ "

”لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا“

﴿سنن ابن ماجہ:3029﴾

4۔ بدعتِ میلاد النبی ﷺ کو زندہ کرنا دوسری بدعات کا دروازہ کھولتا ہے اور سنتوں سے غافل کرتا ہے، اسی لئے آپ بدعتیوں کو پائیں گے کہ وہ بدعات کو زندہ کرنے چست رہتے ہیں اور سنت کو زندہ کرنے میں سست پڑ جاتے ہیں اور سنت، اہل سنت سے نفرت و دشمنی رکھتے ہیں یہاں تک کہ ان کا پورا دین یہی ہو گیا ہے کہ وہ بدعات کو انجام دیتے ہیں اور ایامِ پیدائش منانے میں لگے رہتے ہیں، اور یہ لوگ کئی فرقوں میں منقسم ہو گئے ہر فرقہ اپنے اپنے ائمہ کے ایامِ پیدائش مناتا ہے۔ جیسے بدوی، ابن عربی، دسوقی، شاذلی وغیرہ کے ایامِ پیدائش۔ اس طرح سے وہ ایک کے یومِ پیدائش سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کے یومِ پیدائش میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مُردوں کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کر ان سے دعا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھنے لگتے ہیں کہ یہ نفع و نقصان پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ دین اسلام سے الگ ہوگئےاور دین جاہلیت کی طرف لوٹ گئے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ"

"اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں"

﴿سورۃیونس:18﴾

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى"
"ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگراس لیے کہ یہ ہمیںاللہ سے قریب کر دیں"

﴿سورۃ الزمر:3﴾

﴿ الخطب المنبرية في المناسبات العصرية للشيخ صالح الفوزان حفظه الله، الجزء الثالث، ص١٢٨-٢٩-٣٠﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو سنت کو مضبوطی سے تھامنے  اور بدعات و خرافات سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین

:مقصود الخيري

Share:

Biddat kya hai, Iski Qismein. Teri Biddat Teri Barbadi.

Biddat aur Uski Qismein.

"Teri Biddat Teri Barbadi" Kaise?
Eid Miladunnabi manana Sunnat ya Biddat?
https://findmrf.blogspot.com/2018/11/eid-miladunnabi-mnane-ki-barailwi-ki.html

Eid Miladunnabi manane ke Dalail ki Haqeeqat. 


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

تیری بدعت، تیری بربادی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے جس دینِ اسلام کو کامل فرمایا وہ دین اس کی سعادت اور ہدایت کا منبع و مرکز ہے، اذہان و قلوب کی مثال آنکھ کی ہے جو روشنی میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق دیکھتی ہے، تاریکی میں کوئی بھی آنکھ چیزوں کو دیکھنے اور ان کی حقیقت و نوعیت کو جاننے سے معذور ہوجاتی ہے ۔ انسانی عقل کے لیے بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی ہے جو اشیاء کی حقیقت اور پہچان کے لیے ضروری ہے ، مگر جب انسان اس روشنی سے دور ہوجاتا ہے تو شرک و بدعت کی پہچان سے بھی محروم ہوجاتا ہے ۔ یہ شرک و بدعات ہی شیطان کے وہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں جن کے وار سے وہ لوگوں کو سبیل اللہ سے ہٹا کر سبیل الشیطان کی راہ پر ڈال دیتا ہے، اور شرک و بدعت ، سبیل الشیطان ہے ، بدعت ان عقائد و عبادات کا نام ہے جو کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہﷺ اور اجماع امت کے خلاف ہو ،

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’دین اسلام میں بدعت ہر اس امر کو کہتے ہیں جسے نہ اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہو، نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ، یعنی جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو، نہ  واجب نہ مستحب‘‘
[ دیکھیے : فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ ، ۴/۱۰۷-۱۰۸۔]

ائمہ کرام کے نزدیک اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں :
-عادات اور ،
-عبادات۔
عبادات میں اصل اللہ کی مشروع کردہ عبادات میں اضافہ نہ کرنا ہے، جبکہ عادات میں اصل اللہ تعالیٰ کے منع کردہ احکامات کے علاوہ کسی بات سے منع نہ کرنا ہے  ، عادات چونکہ عام امور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان میں بدعت نہیں ہوتی، البتہ جب انھیں عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے ، یا عبادت کے قائم مقام سمجھا جائے تب ان میں بدعت داخل ہوجاتی ہے۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں :
۱- بدعت مکفرہ: یہ وہ بدعت ہے جس کا مر تکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
۲- بدعت مفسقہ : یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔
[دیکھئے: الاعتصام ،از امام شاطبی، ۲/۵۱۶ ]

بدعات عام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور بدعتی پر زجر و توبیخ فرمائی :

شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم
﴿سورةالشورىٰ : ٢١﴾
انہوں (مشرکوں) نے دین میں لوگوں کے لیے ایسے کام مشروع قرار دیے جن کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا تھا۔ اگر (اللہ رب العزت کا) یہ طے شدہ امر نہ ہوتا (کہ روزِ قیامت انہیں اس کی سزا دی جائے گی) تو (دنیا ہی میں) ان کا فیصلہ کر دیا جاتا (یعنی ان پر عذابِ الہٰی نازل ہو جاتا)"

اور اس سنگینی کی وجہ یہ بھی ہے کہ شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ابنِ آدم کو مختلف گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اترنے کی دعوت دیتا رہے ، اس کی سب سے پہلی گھاٹی شرک باللہ ہے، اگر بندئہ مومن اس گھاٹی سے نجات پا لیتا ہے، تو وہ اسے بدعت کی گھاٹی پر طلب کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے ، اگر تو مسلمان دینی احکام سے لا علمی ہوجائے، خواہشات کی پیروی کرے، حق کی دعوت دینے والوں سے تعصب برتے اور کفار سے مشابہت اختیار کرنے لگے تو وہ بہت جلد بدعت کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ گر پڑتا ہے ، اور پھر دین کو ناقص سمجھ کر اس میں کمی بیشی کرنا شروع کردیتا ہے، جبکہ اللہ رب العزت نے انسان سے اپنے کامل دین میں کمی زیادتی کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس فرمایا:

﴿اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿سورة المائدة : ٣﴾
میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے"

اپنی رحلت سے قبل نبی کریمﷺ نے امت کو بھلائی کے تمام امور کی وضاحت فرما دی، اور یہ باور فرمایا کہ جو کام میرے عہدِ مسعود میں دین نہیں تھے ، وہ میرے بعد بھی دین نہیں ہو سکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبۂ جمعہ میں اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعدارشاد فرمایا کرتے تھے:

’’من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، إن أصدق الحدیث کتاب اللّٰه ، وأحسن الھدي ھدي محمد ، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ في النار‘‘

جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، بیشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین امور نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں ، اور ہر نئی چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں ہے، اِن الفاظ کے ساتھ سنن نسائی میں ہے ، دیکھئے:کتاب صلاۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ، ۳/۱۸۸، حدیث نمبر(۱۵۷۸)۔]

علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکرکیا ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لوگو! میں متبع سنت ہوں ،بدعتی نہیں ہوں ، لہٰذا اگر درست کروں تو میری مددکرو، اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو‘‘
[ دیکھیے : الطبقات الکبری ،از ابن سعد، ۳/۱۳۶۔ ]

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ اصحاب الرائے (بدعتیوں ) سے بچو، کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں ، ان سے حدیثیں نہ یاد ہوسکیں تو انہوں نے اپنی من مانی کہنا شروع کردیا،خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا‘‘
[ دیکھیے : شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۱۳۹، نمبر(۲۰۱)،وسنن الدارمی، ۱/۴۷، اثرنمبر(۱۲۱)،وجامع بیان العلم وفضلہ، از ابن عبد البر، ۲/۱۰۴۱، نمبر(۲۰۰۱،۲۰۰۳و ۲۰۰۵)۔ ]

(۳) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’(سنت کی) اتباع کرو، بدعت نہ ایجاد کرو، سنت ہی تمہارے لئے کافی ہے،ہربدعت گمراہی ہے‘‘
[ في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۳، نمبر(۱۴،۱۲)، والمعجم الکبیر ، از،امام طبرانی، ۹/۱۵۴، حدیث نمبر(۸۷۷۰)، امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ (۱/۱۸۱)میں فرماتے ہیں :’’اس حدیث کے راویان صحیح بخاری کے ہیں ‘‘،نیز، شرح أصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۹۶،حدیث نمبر(۱۰۲)، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دیگر آثار کے لئے دیکھئے: في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۵، ومجمع الزوائد، از امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ، ۱/۱۸۱۔ ]

تابعین وتبع تابعین میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک شخص کے پاس ایک خط میں لکھا:
’’امابعد : میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کررکھا ہے اسے ترک کرنے کی وصیت کرتاہوں ‘‘
[سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ۴/۲۰۳، حدیث نمبر(۴۶۱۲)، نیز دیکھئے:صحیح سنن ابوداؤد، از علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ ، ۳/۸۷۳ ]

بدعت کا سب سے بھیانک اور تباہ کن نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی سنت اور اہل سنت سے بغض رکھتا ہے ،

امام اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اہل بدعت کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ، ان کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ وہ حاملین سنت رسول ﷺسے شدید دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں، اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں''
[ دیکھیے : عقیدۃ اھل السنۃ واصحاب الحدیث" صفحہ:299۔ ]

شرک وبدعت کے گناہ ہر روز اپنی نسل بڑھاتے ہیں، ہر روز ان کے گندے انڈوں سے بدتر سے بدتر نسل باہر آتی ہے، ان ہی شیطانی نسلوں نے مسلمان گھروں میں عابد و معبود کا فرق مٹادیا، تبلیغِ دین کو قوالیوں کا رنگ دے کر دین کا مقصد تفریح بنادیا،  مسجدوں میں بندروں کی طرح ناچنے، گانے، داڑھیوں کی سنت منڈانے مٹانے اور حشیش (بھنگ) پینے کو عبادت کا درجہ دے دیا ، گھروں کی چار دیواری میں محفوظ بنتِ حوا کو بازاروں اور مزاروں پر محوِ رقص کر دیا ، اللہ کے دین نے عورت کے جسم پر حلال رشتوں کو حلال کیا، مگر شرک و بدعت نے اسے مجاوروں کےہاتھوں کاکھلونا بنادیا، جہاں عورت کے محارم مجاوروں کی گندی ہوس کو دین سمجھ کر اپنی عورتوں کو ان کے شیطانی نفوس کے حوالے کردیتے ہیں ، یہ اور اس طرح کی دیگر وہ ساری خو دساختہ عبادتیں ان بدعات میں سے ہیں جنھیں کتاب و سنت کے مخالفین عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں ۔ سنت پر قلیل عمل سے ماجور ہونے کے بجائے بدعت کی کثیر مشقت کو عبادت کا اعلیٰ درجہ سمجھنا بدعتی کا فضول زعم ہی دراصل شیطان کی فتح ہے ۔

وھٰذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

اے بدعتی، اے بدنصیب !!

زمین کے سینے پر تو جب تلک چل رہا ہے
اور تیرے سینے میں تیرا دل دھڑک رہا ہے

ہر روز دنیا کے کھیل تماشوں میں
پیسوں کے زور پہ یاروں کے شور میں

بازؤوں کی طاقت پر
جوانی کی اٹھان پر

جب تلک تو پنپ رہا ہے
اور دنیا کے مزے لوٹ رہا ہے

مگر جب جائے گا تو اس جگہ
نہیں کسی زور آور کا زور اس جگہ

حکمرانی نہیں کسی کے تخت و تاج کی
وقعت نہی جہاں کسی سرکش مہاراج کی

لگتا نہیں دربار کسی شاہ کا جہاں
سجتا نہیں مزار کسی مجاور کا جہاں

جہاں بادشاہوں کے قہر نہیں ٹوٹتے
کمزور پر پہاڑ عہدوں کے نہیں ٹوٹتے

اس شاہانِ شاہ کے دربار میں
خالق و مالک کے دربار میں

جائے گا جب تو ساتھ بدعتوں کی نجاست کے
جرم یہ بڑا ہے بہت مقابلے میں سارے گناہ کے

سوختہ جاں آگ بنے گی ٹھکانہ تیرا
درد جہنم کا بنے گا مقدر تیرا

اس سے پہلے کہ موت تجھے آن دبوچے
ملائک تجھ سے قبر میں کچھ پوچھے

قبر تیری انگاروں کا مسکن بنے
شعلوں میں ہرروز تو راکھ بنے

غور کر شریعت میں صاحبِ شریعتﷺ کی
کر تحقیق رب کے قرآن اور نبیﷺ کےفرمان کی

منہ موڑ گیا گر تو ہدایت سے خالی
نہیں گر رب نے تیرے دل میں ہدایت ڈالی

پہنچے گا تو انجام اُس بڑے بھیانک کو
تصور نا کیا ہو کسی قلب نے جس کو

نسبت تجھ سے اس پاک کلمہ کی ہے میری
اس رشتہ سے ایک التجا ہے تجھ سے میری

گرا نہیں سکتا تو قصرِ اسلام کو مگر
اٹھائے گا خسارہ نا کی تو نے توبہ اگر

بدعت کے انگاروں سے خود کو بچالے
وقت ہے ابھی، عذاب سے خود کو چھڑالے

کل رب کی عدالت میں بہت پچھتائے گا
تیری آہ وزاری چیخ پکار کچھ کام نا آئے گا.

Share:

Naye Hijri Saal ya Eid ke mauke par "Kullo Amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Eid ki mubarak Bad dene par "Kullo amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Naye saal ki ya Eid ki Mubarak Bad ke liye kaun se jumle Istemal kiye jane chahiye?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کل عام وانتم بخیر جملے کا حکم اور نئے سال کی مبارکباد کے شرعئی احکامات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدین اور نئے ہجری سال کے موقعہ پر لوگوں کا ایکدوسرے کو نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ ایک جملہ کل عام وانتم بخیر (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) زبان زد عام ہے ، یہ جملہ سلف صالحین سے ثابتہ نہیں ہے، یہ اغیار کا خود ساختہ کلمہ ہے جو مسلمانوں میں اس حد تک رائج ہوچکا ہے کہ دین کی ہی تعلیم محصوص ہوتی ہے ۔ آئیے جید علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں اس جملہ کے حکم کے بارے میں جانتے ہیں :

کل عام وانتم بخیر جملے کا کیا حکم ھے؟

امام البانی کہتے ہیں کہ اسکی کوئی اصل نہیں ھے۔ تقبل اللہ طاعتك کہنا کافی ھے۔ باقی رہا *کل عام وانتم بخیر کہنا یہ ھم مسلمانوں میں غفلت کیوجہ سے رائج کر چکا ھے۔  نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی.
[ علاّمہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ / {سلسلۃالھدیٰ النور : ٣٢٣} ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کا فتویٰ

سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے۔
[ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ/(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘  ص 230) ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ حرمین کے مفتی اور دورِحاضر کے معروف امام سماحۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ :
آپ رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "الضياء اللامع" ص:702 میں فرماتے ہیں:

سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب : نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ/(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ  للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم استاذ العلماء:سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ :

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب1: بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:

نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر"یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک"کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
[ نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ]

۔✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦

✦مذکورہ فتاویٰ کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے:

1۔نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مسلمانوں کی محترم و نیک شخصیات یعنی سلف صالحین رحمہم اللہ سے بھی ثابت نہیں ، جن میں سرِفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین و اتباعہم شامل ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کوزندگی کے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور سلف صالحین رحمہم اللہ کےمعروف طریقہ کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے ، اسی میں خیر ہے۔

2۔اگر کوئی مسلمان نئے سال کی مبارکباد دینے یا وصول کرنے کو مسنون سمجھتا ہے تو یہ انتہائی بڑی غلطی ہے،ایسی صورت میں مبارکباد دینا بدعت اور اسکا جواب دینا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔اگر کوئی مسلمان اسے امور عادیہ (عام عادت کے معاملات، جنہیں شرعی طور پر ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے) میں شامل سمجھتے ہوئے مبارکباد دیتا ہے تو اسے امور عادیہ ہی سمجھتے ہوئے جواب دینے کی حد تک مبارکباد دینا جائز ہے، البتہ:

4۔اس معاملہ میں علم آجانے کے بعد پہل کرنا ہرگز جائز نہیں ، یعنی خود سے کسی کو مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ شرعا اسکا ثبوت نہیں ہے البتہ دعائیہ کلمات کا جواب دینا، گرچہ وہ مبارکباد ہی کے کیوں نہ ہوں بشرطیکہ امور عادیہ میں سے ہو ں شریعت کے عمومی نصوص کی و جہ سے جائز قرار پاتا ہے۔

5۔نئے سال کی آمد کو خوشی کا تہوار سمجھنا ہی شرعا ثابت نہیں ہے،کیونکہ اجتماعی طور پر مسلم اُمہ کے خوشی کے تہوار دو ہیں : عید الفطر اور عید الاضحیٰ اسکے علاوہ عمومی و اجتماعی طور پر کوئی بھی مسلسل آنے والا ،موسمی خوشی کےتہوار کا شریعت ِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

6۔لہٰذا جواب کی حد تک مبارکباد دینے کے علاوہ :

نئے سال منانے کی مروّجہ تمام صورتیں خلافِ شرع ہیں ان سے ا جتناب کرنا چاہیے ۔ جیسے نئے سال کی مبارکباد باد پر مشتمل کارڈز کا تبادلہ کرنا، خوشی کے تہوار کے طور پر مجالس، تقریبات ، پارٹیز ، پروگرامز منعقد کرنا، چہ جائکہ اُن میں خلافِ شریعت امور کا انفرادی یا اجتماعی طور پر ارتکاب و مظاہرہ کیا جائےجس سے اس عمل کی قباحت میں مزیداضافہ ہوجائے۔

7۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود کے اندر ایسی فکر اور سوچ بیدار کرنی چاہیے کہ:

ہماری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنے اچھے یا برے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کیا اس انجام کو قبول کرنے کے لیے اور اسکا سامنے کرنے کے لیے ہم تیار ہیں؟ کیا کل اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت میں جوابدہی کے لیے ہم تیار ہیں؟

گذرےسال میں ہم نے کہاں کہاں اور کون کون سی غلطیاں کی ہیں، کون سے گناہ کیے ہیں ، کتنے حق اللہ تعالی کے اور کتنے حق اللہ کے بندوں کے پامال کیے ہیں ؟ انفرادی و اجتماعی اعتبار سے ہماری طرف سے ہماری ذات کو اور معاشرے و امت کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور اُس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟

ہمیں سوچنا چاہیےکہ ہماری انفرادی و اجتماعی حالت آج کیسی ہے اور آج ہم پچھلے سال کی نسبت کہاں کھڑے ہیں اور کیا آنے والے سال کو گذرے سال سے ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے ہم نے کوئی تیاری اور پلاننگ کی ہے؟

کیا جو غلطیاں ہم سے گذرے سال میں ہوئیں ،دوبارہ اُن غلطیوں کو دہرانے سے ہم اپنے آپ کو روک پائیں گے؟
کیا ہم آنے والے سال میں اپنی ذات سے خود کو ، معاشرے کو ،اس امت کو اور سب سے بڑھکر اللہ کے اس دین کو جسکی دعوت لیکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمین شریفین سے اُٹھے تھے ،کوئی فائدہ پہنچاسکیں گے؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور انہیں نبھانے کے لیے تیار ہیں ؟؟؟

نئے سال کی آمد ان تمام باتوں کے عملی جواب کا ہم سے مطالبہ کرتی ہے ........

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہما اللہ) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) اور دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب کے مذکورہ فتاویٰ :(کتاب " الإجابات المهمة " ص : 230) پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

مقرر، مرتب اور توضیح: حافظ حماد امین چاؤلہ حفظہ اللہ
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Jume ki Eid Hukumat par Bhari hoti hai, Jume ke din ki Eid kisi hadse ki nishani hai?

Kya Juma Ke din Ki Eid Nahusat bhari hoti hai?
Jume ke Din ki Eid Hukumat ke liye Khatra hoti hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

یہ کہنا کہ جمعہ کی عید حکومت پر بھاری ہوتی ہے ، تو یہ سراسر بے بنیاد مفروضہ ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کی خبر ضرور کرتے، کیونکہ جمعہ کے دن عید تو آپ کے عہد میں بھی آئی تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں عید الفطر اور جمعہ جمع ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون)

’’تمہارے اس دن میں دو عیدین جمع ہو گئیں ہیں، تو جو چاہے یہ (نمازِ عید) جمعہ کے بدلے کافی ہے اور بلاشبہ ہم جمعہ پڑھیں گے
(ابوداؤد، الصلاة، اذا وافق یوم الجمعة یوم عید، ح: 1073، ابن ماجه، ح: 1311، حاکم (288/1) نے مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے، البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)

نیز عید خیر و برکت کا حامل عمل ہے، اسی طرح جمعہ کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے لہذا اِن کا ایک ہی دن میں آ جانا بھاری اور باعث مشکلات کی بجائے مزید باعثِ رحمت و برکت اور نور علیٰ نور ہے ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب

Share:

Kya Rat ko Jhhadoo dene se Barkat nahi hota, nind se Uth kar Pani pine se La ilaaj bimariyaan hoti hai?

Kya Rat me nind se jag kar Pani pine se Ghar me barkat nahi hota?
Kya nind se sokar uthne par Pani pine se La ilaaj bimari hoti hai?

السلام علیکم ۔۔اللہ پاک کی ذات سے امید ہے ہے کہ آپ بخیر وعافیت ہوں گی ❤️۔۔۔میرا آج کا سوال عجیب و غریب ہے پر رہنمائی لینا ہی مناسب سمجھا ۔۔۔ایک جگہ سنا کہ رات نیند سے اٹھ پانی نہیں پینا چاہئے اس سے لاعلاج مرض ہو ہوجاتا ہے ۔۔پر عقل یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ انسان کو جب پیاس لگے گی پانی پئے گا۔۔تو یہ بات سائنس اور اسلام کی رو سے کہاں تک درست ہے رہنمائی فرمائیں شکریہ ۔۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا ❤️

وعلیکم السلام ورحمةاللہ ۔۔۔

یہ اپنے اپنے بنائے ہوئے طور طریقے یا ٹوٹکے ہیں سسٹر ، اس کا سائینس سے بھی کوئی واسطہ نہیں اور دین میں بھی یہ بے دلیل بات ہے ، بالکل اسی طرح جیسے رات کو جھاڑو دینا بے برکتی کا سبب ہے وغیرہ وغیرہ ، ابھی نیٹ کے توسط سے دین میں بڑے بڑے مفکرین داخل ہوچکے ہیں جو دن رات اپنی دماغوں کی فیکٹریوں میں ایسے ٹوٹکے مینوفیکچر کرتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، باشعور اور دین کی بنیادی معلومات رکھنے والے مسلمان کے لیے معتبر وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریقہ کے مطابق ہو ۔ ۔۔۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

India, Pakistan ke Musalmano ka Apna Christmas Day hai, Islami Christmas ke bare me Jane.

Musalmano Ka Apna Christmas Day bhi hai.

India, Pakistan kee Musalman Apna ek Christmas day bhi manate hai aur wah hai 12 Rabiawwal.
Eid Miladunnabi ya Musalmano ka Apna Christmas.
Jaise Islami Jam Huriyat, Islami Bank hota hai waise Hi Ek Islami Christmas bhi hai.

عربی کے ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا:

اذا کان الغراب دلیل قوم
سیھدیھم الی دار الخراب

"جب کوّا قوم کا رہنما ہو گا تو وہ ان لوگوں کو ویرانوں اور ہلاکت کی جگہوں پر پہنچادے گا۔"

یہ شرک کی طرف جاتے راستے ہیں. ❌
جیسے بے نظیر کی قبر پر جا کر لوگ سجدہ ریز ہوتے ہیں. صرف چند ٹکوں کے عوض!!!

ارباب البصائر ان خرافات سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار کریں.

#اسلامی_کرسمس!!

کرسمس تو کرسمس ہے ،اسکی ایک صفت ہے کہ یہ اللہ کے تہواروں کے مقابلے میں گھڑی جاتی ہے اور پھر اس پر تقدیس کا پردہ اوڑھا دیا جاتا ہے
یہ گھر کے کسی بچے کی سالگرہ کی مانند نہیں ہوتی جو کے کبھی بھی ثواب یا عبادت کی نیت سے نہیں منائی جاتی ،
یہ مقدس ہستیوں کا ذکر خیر بھی بلند کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ انکی سنت خراب کرنے کے لیے ہوتی ہے ،
یہ ان سے محبت کے دعوی کے ثبوت کے طور پر بھی نہیں ہوتی بلکہ دین میں بدعت داخل کرنے کے لیے ہوتی ہے
یہ اس دن ان ہستیوں پر مخصوص کرکے دوردوسلام بھیجنے کے لیے بھی نہیں ہوتی بلکہ ان کے نام پر شرک پھیلانے کے لیے ہوتی ہے.

اسکا دن مخصوص ہوتا ہے ، اس کا طریق کار مخصوص ہوتا ہے ،اس کا وقت مخصوص ہوتا ہے اس کی گمراہی کی سب بے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ جن کے نام پر یہ منائی جاتی ہے وہ اسے کبھی بھی نہیں مانتے اور نہ اس کے سچے ماننے والے !

یہ محبت نہیں ذلت ہوتی ہے ، یہ عبادت نہیں بدعت ہوتی ہے ، یہ رحمت نہیں زحمت ہوتی ہے ، یہ دین نہیں بے دینی ہوتی ہے،خاص اسی دن دوردسلام بھی عبادت نہیں بدعت میں داخل ہوجاتا ہے

جس طرح اسلامی جمہوریت ، اسلامی بینک ہوتا ہے ویسے ہی “عیدمیلادالنبی” اسلامی کرسمس ہے ۔ یہ اسی طرح کی نفرت و سلوک کی مستحق ہے جو کے ہم کرسمس کے ساتھ کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ یہاں شرک و گمراہی رسول اللہ کے نام پر پھیلائی جاتی ہے.

“جیسے بائبل میں کرسمس نہیں سانتاکلاز نہیں
ویسے ہی قرآن و سنت میں عیدمیلادالنبی نہیں “

--------------------------------------
  بصیرت افروز

جو علم کی راہ پہ چل پڑے، اسے تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی، اور جو کتابوں سے حوصلہ پکڑنا سیکھ جائے، وہ سب دلاسوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اور جسے تلاوتِ قرآن سے انس ہو جائے، اسے دوستوں کے بچھڑنے سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔!!

Share:

Naye Saal (New Year) Ke aamad ki Mubarak Bad kaisa hai, Islami Saal wish karna kaisa hai?

Naye Saal ki aamdhi par Padhi jane wali dua?

Sawal: kya Naye Saal (New Year) ki aamad par Padhi jane wali Dua Kisi Sahee Ahadees se Sabit hai? Naye Islami Saal ki Mubarak bad dena kaisa hai? Daleel se Wazahat kare.
Kya Allah ke Nabi ke Pas ilm-E-Gaib tha?

Jab Yahudi Aalim ne Allah ke Nabi ke Aane ki Khushkhabri di.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-80"


سوال- کیا نئے سال کی آمد پر پڑھی جانے والی دعا کسی صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ اور نئے اسلامی سال کی مبارک دینا کیسا ہے؟ دلائل سے وضاحت کریں!

Published Date:11-9-2018

جواب۔۔
الحمدللہ۔۔۔۔!!

*نئےسال کےداخل ہونے پر پڑھی جانے والی دعا کی روایت کے بارے علماء کا بہت سا اختلاف ہے، بعض علماء اس بارے مروی روایات کو صحیح کہتے ہیں تو بعض ضعیف کہتے ہیں،ہمارے علم کے مطابق یہ روایت موقوفا صحیح سند سے ثابت ہے*

*آئیے دیکھتے ہیں اس روایت کی سند کیسی ہے*

«كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلَتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ : 
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ »
ترجمہ : عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے سال یا مہینے کی آمد پہ
"اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان"
اس (سال) کو ہمارے اوپر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کے بچاؤاور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما
(رواه الطبراني في الأوسط :6241)
(ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، الإصابة ٢/٣٧٨  •  موقوف على شرط الصحيح)
(الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ١٠/١٤٢  •
إسناده حسن‏‏)

*اس دعاکےبارےمیں روایات کی طرف رجوع کرنے سےمعلوم ھوتا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں صرف دو صحابہ کی روایت سے اس دعا میں یہ الفاظ ( اذا دخلت السنة ) یعنی جب سال داخل ہو، اور دعا میں اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَاکے الفاظ منقول ہیں*

*وہ دو صحابی یہ ہیں*

1۔ حضرت عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ سے ۔

2۔  حضرت عبد اللہ بن السائب  رضی اللہ عنہ سے  ۔

*حضرت عبداللہ بن ھشام والی روایت دو طرح کی اسانید سے مروی ہے ، ایک مضبوط اور دوسری ضعیف،*

*اور عبد اللہ بن السائب کی روایت صرف ایک ضعیف سندسےمروی ہے*

________&_______

ان کی تفصیل اس طرح سے ہے :

پہلے صحابی (عبداللہ بن ہشام ) کی حدیث کی دو اسانید:

پہلی مضبوط سندسے امام بغوی نے اپنی کتاب ’’ معجم الصحابہ ‘‘ میں روایت کیا ہے ، فرمایا :

1539 – حدثني إبراهيم بن هَانىء ،حدثنا أصبَغُ قال : أخبرني ابنُ وَهب ، عن حَيْوَة ، عن أبي عَقيل ، عن جدِّه عبدِ الله بن هشام قال : كان أصحابُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يتعلَّمون هذا الدعاءَ كما يتعلَّمون القرآنَ إذا دخل الشهرُ أو السنةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ .
(معجم الصحابہ للبغوی: 1539)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اسکو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا موقوف على شرط الصحيح 
حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو " الصحیح " کی شرط پر کہنا صحیح ہے 
یہاں الصحیح سے مراد میرا خیال ہے صحیح بخاری ہے
لیکن ملحوظ رہے کہ یہ حدیث امام بغویؒ نے معجم الصحابہ میں جس سند سے نقل فرمائی ہے اس اسناد سے حافظ صاحب کا حکم صحیح ہے ،

جبکہ دوسری امام ابوالقاسم الطبرانی ؒ نے جس سند سے اسے روایت کیا وہ انتہائی ضعیف ہے ، وہ سند اور متن درج ذیل ہے
" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ قَالَ: نا مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: نا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلْتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ»
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ "

قال الشيخ الألباني :" قلت : فيه رشدين بن سعد ، وهو ضعيف " [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ]

____________$______

دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن السائب کی روایت امام خطیب بغدادی کی کتاب ’’ المتفق والمفترق ‘‘میں ، اور امام قوام السنہ اصبہانی کی ’’ الترغیب  ‘‘ میں وارد ہے :

۱۔  خطیب بغدادی کی سند :

776- (5) وعبد الله بن السائب أُرَاه الغفاري :

(862) أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم الحافظ بنيسابور،أخبرنا أبو عمرو محمد بن جعفر بن محمد بن مطر المعدل،حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى،أخبرنا عبد الله بن لهيعة،عن زهرة بن معبد،عن عبد الله بن السائب- وكان أدرك النبي صلى الله عليه وسلم - قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم ادخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجوار من الشيطان ورضوان من الرحمن.

۲۔  قوام السنہ کی سند اور عنوان باب:

فصل : في الدعاء إذا دخل الشهر والسنة :

1291- أخبرنا أحمد بن علي بن خلف ، أنبأ أبو يعلى المهلبي ، ثنا محمد بن (عبيد) الله بن إبراهيم السليطي ، ثنا إبراهيم بن علي الذهلي ، ثنا يحيى بن يحيى ، أنبأ عبد الله بن لهيعة ، عن زهرة بن معبد ، عن عبد الله بن السائب - رضي الله عنه - وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم أدخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجِوارٍ من الشيطان ورضوان من الرحمن ) ۔ 

دونوں روایتوں کےمدار ابراھیم بن علی ذھلی ہیں ، اور اس میں ابن لہیعہ کی  متابعت ہے زھرہ بن معبد سے روایت کرنے میں ، اور ابن لہیعہ کی روایات میں طویل کلام ہے ،یہاں پر ابن لہیعہ نے دونوں ( حيوه اور رشدین ) کی مخالفت کرتے ہوئے صحابی کانام عبد اللہ بن ہشام کے بجائے (عبداللہ بن السائب ) ذکر کیاہے ، اب پتہ نہیں کہ یہ حدیث زھرہ بن معبد نے دونوں صحابیوں سےنقل کی ہے ، یا ابن لہیعہ سے صحابی کے نام میں غلطی ہورہی ہے، اس کی تفتیش ضروری ہے،

_______&____________&_____

*اس حوالے سے علماء کا اختلاف ہے ،بہت سارے علماء  نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ۔گو جنہوں نے اس کو ضعیف کہا ہے، ان کے پیش نظر صرف طبرانی والی سند ہوگی ، جس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے ، لیکن معجم الصحابہ للبغوی میں یہ علت موجود نہیں ۔ اس لیے موقوفا یہ روایت صحیح ہے۔*

*البتہ بعض اہل علم معجم الصحابہ للبغوی والی سند پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ابن وہب مدلس راوی ہے ، لیکن صحیح بات یہی لگتی ہے کہ ابن وہب کی تدلیس یہاں علت نہیں بن سکتی ، کیونکہ ابن وہب طبقہ اولی کا مدلس ہے ، جن کی روایات کو ائمہ نے قبول کیا ہے ۔ اسی طرح بعض علما نے یہ بھی کہا کہ ابن وہب کی تدلیس سے مراد عام تدلیس نہیں بلکہ تدلیس فی الاحازۃ ہے ، جو کہ مضر نہیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم)

(ماخذ محدث فارم )
_____________________

دوسرا سوال کہ نئے اسلامی سال کی مبارک دینا۔؟

اس حوالے سے!

*دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم اور استاذ العلماء سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ*

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر" یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک" کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔

اسی طرح جب یہی سوال، 
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ :
اگرکوئي شخص آپ کومبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو ، مثلا اگر کوئي شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ :

ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں ، توآپ اسے جواب میں یہ کہیں : اللہ تعالی آپ کو خیروبھلائي دے اوراسے خيروبرکت کا سال بنائے ، لیکن آپ لوگوں کونئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں ، اس لیے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں ۔

بلکہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ سلف رحمہ اللہ تعالی نے تومحرم کے مہینہ کو نئے سال کی ابتداء نہیں بنایا،
بلکہ محرم کے مہینے کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ مقرر کرنا بھی  عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں ہوا ۔ انتھی ۔
(مصدر : یہ جواب موسوعہ اللقاء الشھری والباب المفتوح سوال نمبر ( 853 ) اصدار اول ناشر مکتب الدعوۃ الارشاد عنیزہ القصیم سے لیا گیا ہے،)

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا ، لیکن اگر مجھے کوئي مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا ، اس لیے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں نہ جس کا حکم دیا گيا ہو اورنہ ہی اس سے روکا ہی گيا ہے ۔
(شیخ صالح المنجد، islamqa..info)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

If someone from disbelievers will wish me "merry christmas", how should ireply? Or should i ignore it and dont say anything?

Can A Muslim Celebrate Christmas Day (X Mas)?

QUESTIOON:
If someone from disbelievers will wish me "merry christmas", how should ireply? Or should i ignore it and dont say anything?

ANSWER:

You can simply smile and say
thank you.

Sheikh Assim Al-Hakeem

Share:

Is it true that the dead visits us every Friday and ask for Sadaqa to be paid so that they may earn reward?

Is it true that the dead visits us every Friday and ask for Sadaqa to be paid so that they may earn reward?

QUESTION:
Is it true that the dead visits
us every Friday and ask for sadaqa to be paid so that they may earn reward?

ANSWER:

This is absolutely baseless and
fabricated! Once people die, they do not come back!

Sheikh Assim Al-Hakeem

Share:

Kya Toote hue bartan me khana pina Makrooh hai, toota bartan me khana nahi chahiye.

Kya toote hue bartan me khana khana makrooh hai?
Kya bartan Toot jane ke bad usme Khana nahi kha sakte hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-253"
سوال_کیا ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں؟

Published Date: 18-6-2019

جواب۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔!!

*لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے یا نا پسندیدہ ہے، لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے سے ٹوٹے ہوئے برتن کا استعمال کرنا ثابت ہے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ ، قَالَ عَاصِمٌ : رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جٖڑوا لیا ۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے ۔ اور اس میں، میں نے پانی بھی پیا ہے
(صحیح بخاری: حدیث نمبر،3109)

📚عاصم احول نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس دیکھا ہے وہ پھٹ گیا تھا،
تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا ۔ پھر حضرت عاصم نے بیان کیا کہ وہ عمدہ چوڑا پیالہ ہے،چمکدار لکڑی کا بنا ہوا،
بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اس پیالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا پلایا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابن سیرین نے کہا کہ اس پیالہ میں لوہے کا ایک حلقہ تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ چاندی یا سونے کا حلقہ جڑوا دیں لیکن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر، 5638)

*دراصل عوام الناس میں جو بات مشہور ہےکہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکرو ہے ،یا ناجائز ہے اسکی بنیاد یہ حدیث ہے*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر، 3722)

" ثلمة " سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو، کیونکہ اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہو گی،

📚 جیسا کہ (عون المعبود) شرح سنن أبي داود میں ہے کہ
قال الخطابي: إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصبب الماء وسال قطره على وجهه وثوبه، لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح. وقد قيل:
إنه مقعد الشيطان، فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء، فيكون شربه على غير نظافة، وذلك من فعل الشيطان وتسويله، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما یهو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه والله أعلم

*شرح کا مفہوم*

امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے اس لیے منع فرمایا کہ وہاں سے مشروب نکل کر چہرے اور کپڑوں پر گرے گا،جو اسکے لیے تکلیف اور اذیت کا سبب بنے گا،کیونکہ وہ ٹوٹی جگہ کہ وجہ سے پیالے کو ہونٹوں پر صحیح سے نہیں رکھتا،
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ شیطن کے بیٹھنے کی جگہ ہے،اور اسکا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے  برتن کی دھلائی اچھی طرح سے نہیں ہو پاتی اور اسکا پانی وغیرہ صاف نہیں رہتا،اور  وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی وصفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے،
_____&______

اور ہم کہتے ہیں کہ اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے مشروب پیتے وقت اسکو چوٹ بھی لگ سکتی ہے لہذا انہی چند وجوہات کی بنا پر شریعت نے ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگانے سے منع فرمایا ہے،

*حدیث کے مفہوم اور مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ " ثلمة " سے ٹوٹا ہوا برتن مراد نہیں ہے بلکہ اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ مراد ہے یعنی اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی نہ پیا جائے بلکہ یہ مراد ہے کہ برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی نہ پیا جائے*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS