find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Biddat. Show all posts
Showing posts with label Biddat. Show all posts

Naye Hijri Saal ya Eid ke mauke par "Kullo Amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Eid ki mubarak Bad dene par "Kullo amantum Bakhair" Padhna Kaisa hai?

Naye saal ki ya Eid ki Mubarak Bad ke liye kaun se jumle Istemal kiye jane chahiye?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

کل عام وانتم بخیر جملے کا حکم اور نئے سال کی مبارکباد کے شرعئی احکامات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عیدین اور نئے ہجری سال کے موقعہ پر لوگوں کا ایکدوسرے کو نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ ایک جملہ کل عام وانتم بخیر (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) زبان زد عام ہے ، یہ جملہ سلف صالحین سے ثابتہ نہیں ہے، یہ اغیار کا خود ساختہ کلمہ ہے جو مسلمانوں میں اس حد تک رائج ہوچکا ہے کہ دین کی ہی تعلیم محصوص ہوتی ہے ۔ آئیے جید علماء کے فتاویٰ کی روشنی میں اس جملہ کے حکم کے بارے میں جانتے ہیں :

کل عام وانتم بخیر جملے کا کیا حکم ھے؟

امام البانی کہتے ہیں کہ اسکی کوئی اصل نہیں ھے۔ تقبل اللہ طاعتك کہنا کافی ھے۔ باقی رہا *کل عام وانتم بخیر کہنا یہ ھم مسلمانوں میں غفلت کیوجہ سے رائج کر چکا ھے۔  نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی.
[ علاّمہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ / {سلسلۃالھدیٰ النور : ٣٢٣} ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کا فتویٰ

سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے۔
[ فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ/(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘  ص 230) ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ حرمین کے مفتی اور دورِحاضر کے معروف امام سماحۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ :
آپ رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "الضياء اللامع" ص:702 میں فرماتے ہیں:

سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب : نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ/(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ  للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم استاذ العلماء:سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ :

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب1: بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:

نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر"یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک"کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
[ نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ ]

۔✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦✦

✦مذکورہ فتاویٰ کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر مندرجہ ذیل نتیجہ نکلتا ہے:

1۔نئے سال کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا شرعی طور پر کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مسلمانوں کی محترم و نیک شخصیات یعنی سلف صالحین رحمہم اللہ سے بھی ثابت نہیں ، جن میں سرِفہرست صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ، تبع تابعین و اتباعہم شامل ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کوزندگی کے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور سلف صالحین رحمہم اللہ کےمعروف طریقہ کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے ، اسی میں خیر ہے۔

2۔اگر کوئی مسلمان نئے سال کی مبارکباد دینے یا وصول کرنے کو مسنون سمجھتا ہے تو یہ انتہائی بڑی غلطی ہے،ایسی صورت میں مبارکباد دینا بدعت اور اسکا جواب دینا بھی جائز نہیں ہے۔

3۔اگر کوئی مسلمان اسے امور عادیہ (عام عادت کے معاملات، جنہیں شرعی طور پر ادا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے) میں شامل سمجھتے ہوئے مبارکباد دیتا ہے تو اسے امور عادیہ ہی سمجھتے ہوئے جواب دینے کی حد تک مبارکباد دینا جائز ہے، البتہ:

4۔اس معاملہ میں علم آجانے کے بعد پہل کرنا ہرگز جائز نہیں ، یعنی خود سے کسی کو مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ شرعا اسکا ثبوت نہیں ہے البتہ دعائیہ کلمات کا جواب دینا، گرچہ وہ مبارکباد ہی کے کیوں نہ ہوں بشرطیکہ امور عادیہ میں سے ہو ں شریعت کے عمومی نصوص کی و جہ سے جائز قرار پاتا ہے۔

5۔نئے سال کی آمد کو خوشی کا تہوار سمجھنا ہی شرعا ثابت نہیں ہے،کیونکہ اجتماعی طور پر مسلم اُمہ کے خوشی کے تہوار دو ہیں : عید الفطر اور عید الاضحیٰ اسکے علاوہ عمومی و اجتماعی طور پر کوئی بھی مسلسل آنے والا ،موسمی خوشی کےتہوار کا شریعت ِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

6۔لہٰذا جواب کی حد تک مبارکباد دینے کے علاوہ :

نئے سال منانے کی مروّجہ تمام صورتیں خلافِ شرع ہیں ان سے ا جتناب کرنا چاہیے ۔ جیسے نئے سال کی مبارکباد باد پر مشتمل کارڈز کا تبادلہ کرنا، خوشی کے تہوار کے طور پر مجالس، تقریبات ، پارٹیز ، پروگرامز منعقد کرنا، چہ جائکہ اُن میں خلافِ شریعت امور کا انفرادی یا اجتماعی طور پر ارتکاب و مظاہرہ کیا جائےجس سے اس عمل کی قباحت میں مزیداضافہ ہوجائے۔

7۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود کے اندر ایسی فکر اور سوچ بیدار کرنی چاہیے کہ:

ہماری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنے اچھے یا برے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ، کیا اس انجام کو قبول کرنے کے لیے اور اسکا سامنے کرنے کے لیے ہم تیار ہیں؟ کیا کل اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت میں جوابدہی کے لیے ہم تیار ہیں؟

گذرےسال میں ہم نے کہاں کہاں اور کون کون سی غلطیاں کی ہیں، کون سے گناہ کیے ہیں ، کتنے حق اللہ تعالی کے اور کتنے حق اللہ کے بندوں کے پامال کیے ہیں ؟ انفرادی و اجتماعی اعتبار سے ہماری طرف سے ہماری ذات کو اور معاشرے و امت کو کتنا نقصان پہنچا ہے اور اُس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟

ہمیں سوچنا چاہیےکہ ہماری انفرادی و اجتماعی حالت آج کیسی ہے اور آج ہم پچھلے سال کی نسبت کہاں کھڑے ہیں اور کیا آنے والے سال کو گذرے سال سے ہر لحاظ سے بہتر بنانے کے لیے ہم نے کوئی تیاری اور پلاننگ کی ہے؟

کیا جو غلطیاں ہم سے گذرے سال میں ہوئیں ،دوبارہ اُن غلطیوں کو دہرانے سے ہم اپنے آپ کو روک پائیں گے؟
کیا ہم آنے والے سال میں اپنی ذات سے خود کو ، معاشرے کو ،اس امت کو اور سب سے بڑھکر اللہ کے اس دین کو جسکی دعوت لیکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمین شریفین سے اُٹھے تھے ،کوئی فائدہ پہنچاسکیں گے؟ کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں اور انہیں نبھانے کے لیے تیار ہیں ؟؟؟

نئے سال کی آمد ان تمام باتوں کے عملی جواب کا ہم سے مطالبہ کرتی ہے ........

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین (رحمہما اللہ) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ) اور دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب کے مذکورہ فتاویٰ :(کتاب " الإجابات المهمة " ص : 230) پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

مقرر، مرتب اور توضیح: حافظ حماد امین چاؤلہ حفظہ اللہ
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share:

Kya Jume ki Eid Hukumat par Bhari hoti hai, Jume ke din ki Eid kisi hadse ki nishani hai?

Kya Juma Ke din Ki Eid Nahusat bhari hoti hai?
Jume ke Din ki Eid Hukumat ke liye Khatra hoti hai?

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

یہ کہنا کہ جمعہ کی عید حکومت پر بھاری ہوتی ہے ، تو یہ سراسر بے بنیاد مفروضہ ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اگر ایسا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کی خبر ضرور کرتے، کیونکہ جمعہ کے دن عید تو آپ کے عہد میں بھی آئی تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں عید الفطر اور جمعہ جمع ہو گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کی نماز پڑھائی اور پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

(قد اجتمع في يومكم هذا عيدان، فمن شاء أجزأه من الجمعة، وإنا مجمعون)

’’تمہارے اس دن میں دو عیدین جمع ہو گئیں ہیں، تو جو چاہے یہ (نمازِ عید) جمعہ کے بدلے کافی ہے اور بلاشبہ ہم جمعہ پڑھیں گے
(ابوداؤد، الصلاة، اذا وافق یوم الجمعة یوم عید، ح: 1073، ابن ماجه، ح: 1311، حاکم (288/1) نے مسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے، البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)

نیز عید خیر و برکت کا حامل عمل ہے، اسی طرح جمعہ کی بھی بہت زیادہ فضیلت ہے لہذا اِن کا ایک ہی دن میں آ جانا بھاری اور باعث مشکلات کی بجائے مزید باعثِ رحمت و برکت اور نور علیٰ نور ہے ۔
فقط واللہ اعلم بالصواب

Share:

Kya Rat ko Jhhadoo dene se Barkat nahi hota, nind se Uth kar Pani pine se La ilaaj bimariyaan hoti hai?

Kya Rat me nind se jag kar Pani pine se Ghar me barkat nahi hota?
Kya nind se sokar uthne par Pani pine se La ilaaj bimari hoti hai?

السلام علیکم ۔۔اللہ پاک کی ذات سے امید ہے ہے کہ آپ بخیر وعافیت ہوں گی ❤️۔۔۔میرا آج کا سوال عجیب و غریب ہے پر رہنمائی لینا ہی مناسب سمجھا ۔۔۔ایک جگہ سنا کہ رات نیند سے اٹھ پانی نہیں پینا چاہئے اس سے لاعلاج مرض ہو ہوجاتا ہے ۔۔پر عقل یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ انسان کو جب پیاس لگے گی پانی پئے گا۔۔تو یہ بات سائنس اور اسلام کی رو سے کہاں تک درست ہے رہنمائی فرمائیں شکریہ ۔۔۔جزاک اللہ خیرا کثیرا ❤️

وعلیکم السلام ورحمةاللہ ۔۔۔

یہ اپنے اپنے بنائے ہوئے طور طریقے یا ٹوٹکے ہیں سسٹر ، اس کا سائینس سے بھی کوئی واسطہ نہیں اور دین میں بھی یہ بے دلیل بات ہے ، بالکل اسی طرح جیسے رات کو جھاڑو دینا بے برکتی کا سبب ہے وغیرہ وغیرہ ، ابھی نیٹ کے توسط سے دین میں بڑے بڑے مفکرین داخل ہوچکے ہیں جو دن رات اپنی دماغوں کی فیکٹریوں میں ایسے ٹوٹکے مینوفیکچر کرتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، باشعور اور دین کی بنیادی معلومات رکھنے والے مسلمان کے لیے معتبر وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے طریقہ کے مطابق ہو ۔ ۔۔۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

India, Pakistan ke Musalmano ka Apna Christmas Day hai, Islami Christmas ke bare me Jane.

Musalmano Ka Apna Christmas Day bhi hai.

India, Pakistan kee Musalman Apna ek Christmas day bhi manate hai aur wah hai 12 Rabiawwal.
Eid Miladunnabi ya Musalmano ka Apna Christmas.
Jaise Islami Jam Huriyat, Islami Bank hota hai waise Hi Ek Islami Christmas bhi hai.

عربی کے ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا:

اذا کان الغراب دلیل قوم
سیھدیھم الی دار الخراب

"جب کوّا قوم کا رہنما ہو گا تو وہ ان لوگوں کو ویرانوں اور ہلاکت کی جگہوں پر پہنچادے گا۔"

یہ شرک کی طرف جاتے راستے ہیں. ❌
جیسے بے نظیر کی قبر پر جا کر لوگ سجدہ ریز ہوتے ہیں. صرف چند ٹکوں کے عوض!!!

ارباب البصائر ان خرافات سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار کریں.

#اسلامی_کرسمس!!

کرسمس تو کرسمس ہے ،اسکی ایک صفت ہے کہ یہ اللہ کے تہواروں کے مقابلے میں گھڑی جاتی ہے اور پھر اس پر تقدیس کا پردہ اوڑھا دیا جاتا ہے
یہ گھر کے کسی بچے کی سالگرہ کی مانند نہیں ہوتی جو کے کبھی بھی ثواب یا عبادت کی نیت سے نہیں منائی جاتی ،
یہ مقدس ہستیوں کا ذکر خیر بھی بلند کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ انکی سنت خراب کرنے کے لیے ہوتی ہے ،
یہ ان سے محبت کے دعوی کے ثبوت کے طور پر بھی نہیں ہوتی بلکہ دین میں بدعت داخل کرنے کے لیے ہوتی ہے
یہ اس دن ان ہستیوں پر مخصوص کرکے دوردوسلام بھیجنے کے لیے بھی نہیں ہوتی بلکہ ان کے نام پر شرک پھیلانے کے لیے ہوتی ہے.

اسکا دن مخصوص ہوتا ہے ، اس کا طریق کار مخصوص ہوتا ہے ،اس کا وقت مخصوص ہوتا ہے اس کی گمراہی کی سب بے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ جن کے نام پر یہ منائی جاتی ہے وہ اسے کبھی بھی نہیں مانتے اور نہ اس کے سچے ماننے والے !

یہ محبت نہیں ذلت ہوتی ہے ، یہ عبادت نہیں بدعت ہوتی ہے ، یہ رحمت نہیں زحمت ہوتی ہے ، یہ دین نہیں بے دینی ہوتی ہے،خاص اسی دن دوردسلام بھی عبادت نہیں بدعت میں داخل ہوجاتا ہے

جس طرح اسلامی جمہوریت ، اسلامی بینک ہوتا ہے ویسے ہی “عیدمیلادالنبی” اسلامی کرسمس ہے ۔ یہ اسی طرح کی نفرت و سلوک کی مستحق ہے جو کے ہم کرسمس کے ساتھ کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ یہاں شرک و گمراہی رسول اللہ کے نام پر پھیلائی جاتی ہے.

“جیسے بائبل میں کرسمس نہیں سانتاکلاز نہیں
ویسے ہی قرآن و سنت میں عیدمیلادالنبی نہیں “

--------------------------------------
  بصیرت افروز

جو علم کی راہ پہ چل پڑے، اسے تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی، اور جو کتابوں سے حوصلہ پکڑنا سیکھ جائے، وہ سب دلاسوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے، اور جسے تلاوتِ قرآن سے انس ہو جائے، اسے دوستوں کے بچھڑنے سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔!!

Share:

Naye Saal (New Year) Ke aamad ki Mubarak Bad kaisa hai, Islami Saal wish karna kaisa hai?

Naye Saal ki aamdhi par Padhi jane wali dua?

Sawal: kya Naye Saal (New Year) ki aamad par Padhi jane wali Dua Kisi Sahee Ahadees se Sabit hai? Naye Islami Saal ki Mubarak bad dena kaisa hai? Daleel se Wazahat kare.
Kya Allah ke Nabi ke Pas ilm-E-Gaib tha?

Jab Yahudi Aalim ne Allah ke Nabi ke Aane ki Khushkhabri di.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-80"


سوال- کیا نئے سال کی آمد پر پڑھی جانے والی دعا کسی صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ اور نئے اسلامی سال کی مبارک دینا کیسا ہے؟ دلائل سے وضاحت کریں!

Published Date:11-9-2018

جواب۔۔
الحمدللہ۔۔۔۔!!

*نئےسال کےداخل ہونے پر پڑھی جانے والی دعا کی روایت کے بارے علماء کا بہت سا اختلاف ہے، بعض علماء اس بارے مروی روایات کو صحیح کہتے ہیں تو بعض ضعیف کہتے ہیں،ہمارے علم کے مطابق یہ روایت موقوفا صحیح سند سے ثابت ہے*

*آئیے دیکھتے ہیں اس روایت کی سند کیسی ہے*

«كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلَتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ : 
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ »
ترجمہ : عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے سال یا مہینے کی آمد پہ
"اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان"
اس (سال) کو ہمارے اوپر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کے بچاؤاور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما
(رواه الطبراني في الأوسط :6241)
(ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، الإصابة ٢/٣٧٨  •  موقوف على شرط الصحيح)
(الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ١٠/١٤٢  •
إسناده حسن‏‏)

*اس دعاکےبارےمیں روایات کی طرف رجوع کرنے سےمعلوم ھوتا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں صرف دو صحابہ کی روایت سے اس دعا میں یہ الفاظ ( اذا دخلت السنة ) یعنی جب سال داخل ہو، اور دعا میں اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَاکے الفاظ منقول ہیں*

*وہ دو صحابی یہ ہیں*

1۔ حضرت عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ سے ۔

2۔  حضرت عبد اللہ بن السائب  رضی اللہ عنہ سے  ۔

*حضرت عبداللہ بن ھشام والی روایت دو طرح کی اسانید سے مروی ہے ، ایک مضبوط اور دوسری ضعیف،*

*اور عبد اللہ بن السائب کی روایت صرف ایک ضعیف سندسےمروی ہے*

________&_______

ان کی تفصیل اس طرح سے ہے :

پہلے صحابی (عبداللہ بن ہشام ) کی حدیث کی دو اسانید:

پہلی مضبوط سندسے امام بغوی نے اپنی کتاب ’’ معجم الصحابہ ‘‘ میں روایت کیا ہے ، فرمایا :

1539 – حدثني إبراهيم بن هَانىء ،حدثنا أصبَغُ قال : أخبرني ابنُ وَهب ، عن حَيْوَة ، عن أبي عَقيل ، عن جدِّه عبدِ الله بن هشام قال : كان أصحابُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يتعلَّمون هذا الدعاءَ كما يتعلَّمون القرآنَ إذا دخل الشهرُ أو السنةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ .
(معجم الصحابہ للبغوی: 1539)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اسکو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا موقوف على شرط الصحيح 
حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو " الصحیح " کی شرط پر کہنا صحیح ہے 
یہاں الصحیح سے مراد میرا خیال ہے صحیح بخاری ہے
لیکن ملحوظ رہے کہ یہ حدیث امام بغویؒ نے معجم الصحابہ میں جس سند سے نقل فرمائی ہے اس اسناد سے حافظ صاحب کا حکم صحیح ہے ،

جبکہ دوسری امام ابوالقاسم الطبرانی ؒ نے جس سند سے اسے روایت کیا وہ انتہائی ضعیف ہے ، وہ سند اور متن درج ذیل ہے
" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ قَالَ: نا مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: نا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلْتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ»
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ "

قال الشيخ الألباني :" قلت : فيه رشدين بن سعد ، وهو ضعيف " [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ]

____________$______

دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن السائب کی روایت امام خطیب بغدادی کی کتاب ’’ المتفق والمفترق ‘‘میں ، اور امام قوام السنہ اصبہانی کی ’’ الترغیب  ‘‘ میں وارد ہے :

۱۔  خطیب بغدادی کی سند :

776- (5) وعبد الله بن السائب أُرَاه الغفاري :

(862) أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم الحافظ بنيسابور،أخبرنا أبو عمرو محمد بن جعفر بن محمد بن مطر المعدل،حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى،أخبرنا عبد الله بن لهيعة،عن زهرة بن معبد،عن عبد الله بن السائب- وكان أدرك النبي صلى الله عليه وسلم - قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم ادخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجوار من الشيطان ورضوان من الرحمن.

۲۔  قوام السنہ کی سند اور عنوان باب:

فصل : في الدعاء إذا دخل الشهر والسنة :

1291- أخبرنا أحمد بن علي بن خلف ، أنبأ أبو يعلى المهلبي ، ثنا محمد بن (عبيد) الله بن إبراهيم السليطي ، ثنا إبراهيم بن علي الذهلي ، ثنا يحيى بن يحيى ، أنبأ عبد الله بن لهيعة ، عن زهرة بن معبد ، عن عبد الله بن السائب - رضي الله عنه - وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم أدخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجِوارٍ من الشيطان ورضوان من الرحمن ) ۔ 

دونوں روایتوں کےمدار ابراھیم بن علی ذھلی ہیں ، اور اس میں ابن لہیعہ کی  متابعت ہے زھرہ بن معبد سے روایت کرنے میں ، اور ابن لہیعہ کی روایات میں طویل کلام ہے ،یہاں پر ابن لہیعہ نے دونوں ( حيوه اور رشدین ) کی مخالفت کرتے ہوئے صحابی کانام عبد اللہ بن ہشام کے بجائے (عبداللہ بن السائب ) ذکر کیاہے ، اب پتہ نہیں کہ یہ حدیث زھرہ بن معبد نے دونوں صحابیوں سےنقل کی ہے ، یا ابن لہیعہ سے صحابی کے نام میں غلطی ہورہی ہے، اس کی تفتیش ضروری ہے،

_______&____________&_____

*اس حوالے سے علماء کا اختلاف ہے ،بہت سارے علماء  نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ۔گو جنہوں نے اس کو ضعیف کہا ہے، ان کے پیش نظر صرف طبرانی والی سند ہوگی ، جس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے ، لیکن معجم الصحابہ للبغوی میں یہ علت موجود نہیں ۔ اس لیے موقوفا یہ روایت صحیح ہے۔*

*البتہ بعض اہل علم معجم الصحابہ للبغوی والی سند پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ابن وہب مدلس راوی ہے ، لیکن صحیح بات یہی لگتی ہے کہ ابن وہب کی تدلیس یہاں علت نہیں بن سکتی ، کیونکہ ابن وہب طبقہ اولی کا مدلس ہے ، جن کی روایات کو ائمہ نے قبول کیا ہے ۔ اسی طرح بعض علما نے یہ بھی کہا کہ ابن وہب کی تدلیس سے مراد عام تدلیس نہیں بلکہ تدلیس فی الاحازۃ ہے ، جو کہ مضر نہیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم)

(ماخذ محدث فارم )
_____________________

دوسرا سوال کہ نئے اسلامی سال کی مبارک دینا۔؟

اس حوالے سے!

*دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم اور استاذ العلماء سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ*

سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر" یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک" کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔

اسی طرح جب یہی سوال، 
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ :
اگرکوئي شخص آپ کومبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو ، مثلا اگر کوئي شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ :

ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں ، توآپ اسے جواب میں یہ کہیں : اللہ تعالی آپ کو خیروبھلائي دے اوراسے خيروبرکت کا سال بنائے ، لیکن آپ لوگوں کونئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں ، اس لیے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں ۔

بلکہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ سلف رحمہ اللہ تعالی نے تومحرم کے مہینہ کو نئے سال کی ابتداء نہیں بنایا،
بلکہ محرم کے مہینے کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ مقرر کرنا بھی  عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں ہوا ۔ انتھی ۔
(مصدر : یہ جواب موسوعہ اللقاء الشھری والباب المفتوح سوال نمبر ( 853 ) اصدار اول ناشر مکتب الدعوۃ الارشاد عنیزہ القصیم سے لیا گیا ہے،)

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا ، لیکن اگر مجھے کوئي مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا ، اس لیے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں نہ جس کا حکم دیا گيا ہو اورنہ ہی اس سے روکا ہی گيا ہے ۔
(شیخ صالح المنجد، islamqa..info)

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

If someone from disbelievers will wish me "merry christmas", how should ireply? Or should i ignore it and dont say anything?

Can A Muslim Celebrate Christmas Day (X Mas)?

QUESTIOON:
If someone from disbelievers will wish me "merry christmas", how should ireply? Or should i ignore it and dont say anything?

ANSWER:

You can simply smile and say
thank you.

Sheikh Assim Al-Hakeem

Share:

Is it true that the dead visits us every Friday and ask for Sadaqa to be paid so that they may earn reward?

Is it true that the dead visits us every Friday and ask for Sadaqa to be paid so that they may earn reward?

QUESTION:
Is it true that the dead visits
us every Friday and ask for sadaqa to be paid so that they may earn reward?

ANSWER:

This is absolutely baseless and
fabricated! Once people die, they do not come back!

Sheikh Assim Al-Hakeem

Share:

Kya Toote hue bartan me khana pina Makrooh hai, toota bartan me khana nahi chahiye.

Kya toote hue bartan me khana khana makrooh hai?
Kya bartan Toot jane ke bad usme Khana nahi kha sakte hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-253"
سوال_کیا ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں؟

Published Date: 18-6-2019

جواب۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔!!

*لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے یا نا پسندیدہ ہے، لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے سے ٹوٹے ہوئے برتن کا استعمال کرنا ثابت ہے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

📚انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ ، قَالَ عَاصِمٌ : رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جٖڑوا لیا ۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے ۔ اور اس میں، میں نے پانی بھی پیا ہے
(صحیح بخاری: حدیث نمبر،3109)

📚عاصم احول نے بیان کیاکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس دیکھا ہے وہ پھٹ گیا تھا،
تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے چاندی سے جوڑ دیا ۔ پھر حضرت عاصم نے بیان کیا کہ وہ عمدہ چوڑا پیالہ ہے،چمکدار لکڑی کا بنا ہوا،
بیان کیا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے اس پیالہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا پلایا ہے ۔ راوی نے بیان کیا کہ ابن سیرین نے کہا کہ اس پیالہ میں لوہے کا ایک حلقہ تھا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس کی جگہ چاندی یا سونے کا حلقہ جڑوا دیں لیکن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا ہے اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ کرو ۔ چنانچہ انہوں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا ۔
(صحیح بخاری: حدیث نمبر، 5638)

*دراصل عوام الناس میں جو بات مشہور ہےکہ ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا مکرو ہے ،یا ناجائز ہے اسکی بنیاد یہ حدیث ہے*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر، 3722)

" ثلمة " سے مراد برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر پینے کا برتن کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو تو اس جگہ سے منہ لگا کر پانی نہ پیو، کیونکہ اس جگہ ہونٹوں کی گرفت اچھی نہیں ہو گی،

📚 جیسا کہ (عون المعبود) شرح سنن أبي داود میں ہے کہ
قال الخطابي: إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصبب الماء وسال قطره على وجهه وثوبه، لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح. وقد قيل:
إنه مقعد الشيطان، فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء، فيكون شربه على غير نظافة، وذلك من فعل الشيطان وتسويله، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما یهو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه والله أعلم

*شرح کا مفہوم*

امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے سے اس لیے منع فرمایا کہ وہاں سے مشروب نکل کر چہرے اور کپڑوں پر گرے گا،جو اسکے لیے تکلیف اور اذیت کا سبب بنے گا،کیونکہ وہ ٹوٹی جگہ کہ وجہ سے پیالے کو ہونٹوں پر صحیح سے نہیں رکھتا،
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ شیطن کے بیٹھنے کی جگہ ہے،اور اسکا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے  برتن کی دھلائی اچھی طرح سے نہیں ہو پاتی اور اسکا پانی وغیرہ صاف نہیں رہتا،اور  وہاں مٹی وغیرہ لگی رہ جاتی ہے اس صورت میں پاکیزگی وصفائی کا تقاضا بھی یہی ہے اس جگہ منہ نہ لگایا جائے،
_____&______

اور ہم کہتے ہیں کہ اسکی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے مشروب پیتے وقت اسکو چوٹ بھی لگ سکتی ہے لہذا انہی چند وجوہات کی بنا پر شریعت نے ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگانے سے منع فرمایا ہے،

*حدیث کے مفہوم اور مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ " ثلمة " سے ٹوٹا ہوا برتن مراد نہیں ہے بلکہ اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ مراد ہے یعنی اس ممانعت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن میں پانی نہ پیا جائے بلکہ یہ مراد ہے کہ برتن کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی نہ پیا جائے*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Shaaban ke mahine me Naflee (Nafil) roze rakhna kaisa hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-50"
سوال_شعبان کے مہینے میں نفلی روزے رکھنا کیسا ہے؟

Published Date:19-4-2018
جواب.!!
الحمدللہ.!!

*شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ روزے رکھنا مستحب اور مسنون عمل ہے،اس مہینے کے نفلی روزوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے،*

بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے  تھے۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: اس سلسلہ میں حضرت ابوسلمہ کی حدیث
حدیث نمبر: 2177
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں:  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو کبھی لگاتار دو مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے  ١ ؎۔  
تخریج دارالدعوہ:
وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦)، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦)، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤ (١٦٤٨)، (تحفة الأشراف: ١٨٢٣٢)، مسند احمد ٦/٢٩٣، ٣٠٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠)، ویأتی عند المؤلف برقم: ٢٣٥٤ (صحیح  )  
وضاحت:  ١ ؎:
یعنی آپ شعبان میں برابر روزے رکھتے کہ وہ رمضان کے روزوں سے مل جاتا تھا، چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں، تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے فرض روزوں کے لیے برقرار رہے۔  
قال الشيخ الألباني:  صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2175

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺشعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔

📚صحیح مسلم
کتاب: روزوں کا بیان
باب: رمضان کے علاوہ دوسر مہینوں میں نبی ﷺ کے روزوں اور ان کے استحباب کے بیان میں
انٹرنیشنل حدیث نمبر-1156
اسلام360 حدیث نمبر: 2721

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا يَصُومُ وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَکْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ
ترجمہ:
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی نضر، مولیٰ عمر بن عبیداللہ، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ افطار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ افطار کرتے تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2356
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ لِشَعْبَانَ كَانَ يَصُومُهُ أَوْ عَامَّتَهُ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔  
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٧٧٥٠) (صحیح  )  
قال الشيخ الألباني:  حسن صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2354

تطبیق
*بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینہ میں مکمل مہینہ کے روزے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے سیدہ ام سلمہ والی حدیث کو اکثر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اگر کوئی مہینہ کے اکثر ایام میں روزے رکھے تو لغت میں بطور مبالغہ یہ کہنا جائز ہے کہ وہ مکمل مہینہ کے روزے رکھتا ہے،جبکہ دیگر محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں تھا، کچھ سالوں میں تو آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے اور بعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے۔پہلی رائے بہتر محسوس ہوتی ہے، کیونکہ،*

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ.
میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو،اور صبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں،اور رمضان کے علاوہ کسی اور  مہینہ کے مکمل روزے رکھے ہوں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_746)

اسی طرح صحیحین میں،
📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی مروی ہے:
مَا صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ،
نبی ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1971)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر__1157)

*شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت*

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2359
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
ترجمہ:
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا:  رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں ۔  
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٢٠)،
مسند احمد ٥/٢٠١ (حسن  )  
قال الشيخ الألباني:  حسن  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2357

*اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں!*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚نصف شعبان کے بعد نفلی روزہ رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا 15 شعبان کے بعد روزہ رکھنا منع ہے؟
()تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-331))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS