Naye Saal ki aamdhi par Padhi jane wali dua?
Sawal: kya Naye Saal (New Year) ki aamad par Padhi jane wali Dua Kisi Sahee Ahadees se Sabit hai? Naye Islami Saal ki Mubarak bad dena kaisa hai? Daleel se Wazahat kare.Kya Allah ke Nabi ke Pas ilm-E-Gaib tha?
Jab Yahudi Aalim ne Allah ke Nabi ke Aane ki Khushkhabri di.
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-80"
سوال- کیا نئے سال کی آمد پر پڑھی جانے والی دعا کسی صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ اور نئے اسلامی سال کی مبارک دینا کیسا ہے؟ دلائل سے وضاحت کریں!
Published Date:11-9-2018
جواب۔۔
الحمدللہ۔۔۔۔!!
*نئےسال کےداخل ہونے پر پڑھی جانے والی دعا کی روایت کے بارے علماء کا بہت سا اختلاف ہے، بعض علماء اس بارے مروی روایات کو صحیح کہتے ہیں تو بعض ضعیف کہتے ہیں،ہمارے علم کے مطابق یہ روایت موقوفا صحیح سند سے ثابت ہے*
*آئیے دیکھتے ہیں اس روایت کی سند کیسی ہے*
«كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلَتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ :
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ »
ترجمہ : عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صحابہ کرام ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے تھے سال یا مہینے کی آمد پہ
"اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان"
اس (سال) کو ہمارے اوپر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور شیطان کے بچاؤاور رحمن کی رضامندی کے ساتھ داخل فرما
(رواه الطبراني في الأوسط :6241)
(ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)، الإصابة ٢/٣٧٨ • موقوف على شرط الصحيح)
(الهيثمي (٨٠٧ هـ)، مجمع الزوائد ١٠/١٤٢ •
إسناده حسن)
*اس دعاکےبارےمیں روایات کی طرف رجوع کرنے سےمعلوم ھوتا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں صرف دو صحابہ کی روایت سے اس دعا میں یہ الفاظ ( اذا دخلت السنة ) یعنی جب سال داخل ہو، اور دعا میں اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَاکے الفاظ منقول ہیں*
*وہ دو صحابی یہ ہیں*
1۔ حضرت عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ سے ۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن السائب رضی اللہ عنہ سے ۔
*حضرت عبداللہ بن ھشام والی روایت دو طرح کی اسانید سے مروی ہے ، ایک مضبوط اور دوسری ضعیف،*
*اور عبد اللہ بن السائب کی روایت صرف ایک ضعیف سندسےمروی ہے*
________&_______
ان کی تفصیل اس طرح سے ہے :
پہلے صحابی (عبداللہ بن ہشام ) کی حدیث کی دو اسانید:
پہلی مضبوط سندسے امام بغوی نے اپنی کتاب ’’ معجم الصحابہ ‘‘ میں روایت کیا ہے ، فرمایا :
1539 – حدثني إبراهيم بن هَانىء ،حدثنا أصبَغُ قال : أخبرني ابنُ وَهب ، عن حَيْوَة ، عن أبي عَقيل ، عن جدِّه عبدِ الله بن هشام قال : كان أصحابُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يتعلَّمون هذا الدعاءَ كما يتعلَّمون القرآنَ إذا دخل الشهرُ أو السنةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ .
(معجم الصحابہ للبغوی: 1539)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اسکو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا موقوف على شرط الصحيح
حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو " الصحیح " کی شرط پر کہنا صحیح ہے
یہاں الصحیح سے مراد میرا خیال ہے صحیح بخاری ہے
لیکن ملحوظ رہے کہ یہ حدیث امام بغویؒ نے معجم الصحابہ میں جس سند سے نقل فرمائی ہے اس اسناد سے حافظ صاحب کا حکم صحیح ہے ،
جبکہ دوسری امام ابوالقاسم الطبرانی ؒ نے جس سند سے اسے روایت کیا وہ انتہائی ضعیف ہے ، وہ سند اور متن درج ذیل ہے
" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ قَالَ: نا مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: نا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلْتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ»
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ "
قال الشيخ الألباني :" قلت : فيه رشدين بن سعد ، وهو ضعيف " [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ]
____________$______
دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن السائب کی روایت امام خطیب بغدادی کی کتاب ’’ المتفق والمفترق ‘‘میں ، اور امام قوام السنہ اصبہانی کی ’’ الترغیب ‘‘ میں وارد ہے :
۱۔ خطیب بغدادی کی سند :
776- (5) وعبد الله بن السائب أُرَاه الغفاري :
(862) أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم الحافظ بنيسابور،أخبرنا أبو عمرو محمد بن جعفر بن محمد بن مطر المعدل،حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى،أخبرنا عبد الله بن لهيعة،عن زهرة بن معبد،عن عبد الله بن السائب- وكان أدرك النبي صلى الله عليه وسلم - قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم ادخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجوار من الشيطان ورضوان من الرحمن.
۲۔ قوام السنہ کی سند اور عنوان باب:
فصل : في الدعاء إذا دخل الشهر والسنة :
1291- أخبرنا أحمد بن علي بن خلف ، أنبأ أبو يعلى المهلبي ، ثنا محمد بن (عبيد) الله بن إبراهيم السليطي ، ثنا إبراهيم بن علي الذهلي ، ثنا يحيى بن يحيى ، أنبأ عبد الله بن لهيعة ، عن زهرة بن معبد ، عن عبد الله بن السائب - رضي الله عنه - وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم أدخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجِوارٍ من الشيطان ورضوان من الرحمن ) ۔
دونوں روایتوں کےمدار ابراھیم بن علی ذھلی ہیں ، اور اس میں ابن لہیعہ کی متابعت ہے زھرہ بن معبد سے روایت کرنے میں ، اور ابن لہیعہ کی روایات میں طویل کلام ہے ،یہاں پر ابن لہیعہ نے دونوں ( حيوه اور رشدین ) کی مخالفت کرتے ہوئے صحابی کانام عبد اللہ بن ہشام کے بجائے (عبداللہ بن السائب ) ذکر کیاہے ، اب پتہ نہیں کہ یہ حدیث زھرہ بن معبد نے دونوں صحابیوں سےنقل کی ہے ، یا ابن لہیعہ سے صحابی کے نام میں غلطی ہورہی ہے، اس کی تفتیش ضروری ہے،
_______&____________&_____
*اس حوالے سے علماء کا اختلاف ہے ،بہت سارے علماء نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ۔گو جنہوں نے اس کو ضعیف کہا ہے، ان کے پیش نظر صرف طبرانی والی سند ہوگی ، جس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے ، لیکن معجم الصحابہ للبغوی میں یہ علت موجود نہیں ۔ اس لیے موقوفا یہ روایت صحیح ہے۔*
*البتہ بعض اہل علم معجم الصحابہ للبغوی والی سند پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ابن وہب مدلس راوی ہے ، لیکن صحیح بات یہی لگتی ہے کہ ابن وہب کی تدلیس یہاں علت نہیں بن سکتی ، کیونکہ ابن وہب طبقہ اولی کا مدلس ہے ، جن کی روایات کو ائمہ نے قبول کیا ہے ۔ اسی طرح بعض علما نے یہ بھی کہا کہ ابن وہب کی تدلیس سے مراد عام تدلیس نہیں بلکہ تدلیس فی الاحازۃ ہے ، جو کہ مضر نہیں*
(واللہ تعالیٰ اعلم)
(ماخذ محدث فارم )
_____________________
دوسرا سوال کہ نئے اسلامی سال کی مبارک دینا۔؟
اس حوالے سے!
*دیارِ حرمین کے سابق مفتی اعظم اور استاذ العلماء سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ کا فتویٰ*
سوال: فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ"كل عام وأنتم بخير"(آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)،اس (طرح یا اس سے ملتے جلتے مبارکباد کے طریقوں) کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین (یعنی امتِ مسلمہ کے نیک و بزرگ لوگ) سے کوئی اصل (دلیل و ثبوت) نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا کتاب عزیز (قرآن کریم) اس کی مشروعیت (جائز ہونے پر) پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ "کل عام وانت بخیر" یا "فی کل عام وانت بخیر" (یعنی مکمل سال آپ خیر و بھلائی سے رہیں) کہے تو کوئی مانع نہیں کہ تم بھی اسے "وانت کذلک" کہو (یعنی تم بھی ہرسال بخیر رہو) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور تمہارے لئے دعاگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی جملہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
اسی طرح جب یہی سوال،
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟
توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ :
اگرکوئي شخص آپ کومبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو ، مثلا اگر کوئي شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ :
ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں ، توآپ اسے جواب میں یہ کہیں : اللہ تعالی آپ کو خیروبھلائي دے اوراسے خيروبرکت کا سال بنائے ، لیکن آپ لوگوں کونئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں ، اس لیے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں ۔
بلکہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ سلف رحمہ اللہ تعالی نے تومحرم کے مہینہ کو نئے سال کی ابتداء نہیں بنایا،
بلکہ محرم کے مہینے کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ مقرر کرنا بھی عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں ہوا ۔ انتھی ۔
(مصدر : یہ جواب موسوعہ اللقاء الشھری والباب المفتوح سوال نمبر ( 853 ) اصدار اول ناشر مکتب الدعوۃ الارشاد عنیزہ القصیم سے لیا گیا ہے،)
امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :
میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا ، لیکن اگر مجھے کوئي مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا ، اس لیے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں نہ جس کا حکم دیا گيا ہو اورنہ ہی اس سے روکا ہی گيا ہے ۔
(شیخ صالح المنجد، islamqa..info)
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
No comments:
Post a Comment