Aaj ke Muashare me Har ladki pe Yah Dabao bana hua hai ke wah Ek Ladke ko apna dost banaye.
HAR LADKI KE LIYE JARURI HAI KE WAH EK BOY FRIENFD BANAYE.
Modern culture Ka natija hamari bcchiyo par.
औरत यमन से मदीना का सफर करे, खूबसूरत और जवान हो, सोने चंदियो के गहने से सजी हो मगर उस खातून की तरफ या उसके गहने की तरफ किसी गैर मर्द को आँख उठाकर देखने तक की जसारत् न हो... तो वह हैरत ज़दा होकर पूछे के यह कौन लोग है और यहाँ किस तरह का नेजाम् है तो पता चले के
खलीफा उमर फारूक राजिअल्लाहु अनहु है और यह नेजाम् " निजाम ए इस्लाम " है।
फेसबुक के जरिये उम्मत की बेटियों की बर्बाद होती जिंदगियां।
आज इस्लाम की शाहज़दियो के सर का आँचल किसने उठाया है? बे पर्दा किसने किया है
एक हसीन ओ जमील लड़की का वाक्या , जिसने एक गरीब लड़के के गरीबी का मज़ाक बनाया फिर उसका अंजाम का हुआ?
आज मुहब्बत मे इतने वादे और कसमे खाये जाते है, फिर भी लड़कियो को धोका क्यों मिल रहा है?
سرمایہ_دارانہ_نظام اور جنسیانے کا عمل:
بچیوں کے لباس پر سپرنگر جرنل نامی ایک مغربی ادارے کی ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔
اس تحقیق کے مطابق مارکیٹ میں بچیوں کے لباس کچھ زیادہ ہی جنسیانہ ہیں جس کی وجہ سے کم عمر بچیاں جو کہ ابھی ذہنی طور پر جنسیت کی مائل ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتی ان پر بھی جنسیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس اسٹڈی کے مطابق نوعمر بچیوں کے لئے جو لباس آن لائن دستیاب ہیں ان میں ٣٠ فیصد تک لباس جنسیت زدہ (sexualizing) ہیں۔
ایک نظریہ ہے جسے انگریزی میں Objectification theory کہتے ہیں۔ جس کے مطابق مغرب میں عورتوں کو بکثرت مردوں کی نگاہوں کی ہوس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جس کے نتیجے میں عورتیں بھی اپنے آپ کو اسی طور پر سمجھنا اور پیش کرنا شروع کر دیتی ہیں، نتیجتاً عورتوں کے اندر دھیرے دھیرے یہ شعور پختہ ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ان کا جسم مردوں کی پسند کے اعتبار سے ڈھالنے اور فیصلے کرنے کی کوئی شئے ہے۔
ویسے ایک عجیب بات ہے۔ جو باتیں ایک اوسط درجے کے عام مسلمان کے لئے قابل مشاہدہ ہوتی ہیں ان نتائج تک پہونچنے کے لئے مغرب میں باقاعدہ کچھ کرنا پڑتا ہے اور اس کو وہاں پر “ریسیرچ “کہتے ہیں۔ ہے نا عجیب بات؟
بعض اعتبارات سے، ایمانی فراست ایک اوسط درجے کے مسلمان کو بھی شاید سماجی علوم کے ماہرین سے بہت آگے لے جاتی ہے۔
بچیوں کی جنسی نفسیات کی بات آہی گئی ہے تو” بھارت” سے بھی ایک تحقیق آئی ہے جو کہ خیر سے ابھی تک مشرقی ملک ہی ہے ۔
بھارت کو مغربیانے کا عمل کسی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اسی سے اندازہ کر لیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک تحقیق کے مطابق بچیوں کے لئے اب لڑکوں سے تعلقات رکھنا جسے جدید زبان میں relationship کہا جاتا ہے ایک ناگزیر چیز بن گئی ہے۔
یہ ایک ساکھ اور شان کا مسئلہ بن گیا ہے۔
کوئی لڑکی اگر ایسی ہو جس کا کوئی بوائے فرینڈ نہ ہو تو وہ اپنی سہیلیوں کے طرف سے ایک دباؤ محسوس کرتی ہے اپنے آپ کو اس طرح کے تعلقات قائم کرنے پر مجبور پاتی ہے۔
ایسی میں جو لڑکی ذہنی طور کوئی بوائے فرینڈ رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتی وہ بھی ماحول کے جبر کی وجہ سے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بھی “کچھ “ہے اپنے آپ کو اس طرح کے تعلقات پر مجبور پاتی ہے۔
ماحول کے اس جبر کی بنا پرکبھی کبھی ان تعلقات کو بحال رکھنے کے لئے انہیں اپنے بوائے فرینڈ کے” مطالبوں” کے آگے جھکنا بھی پڑتا ہے۔
اپنی مرضی نہیں شیطان کی مرضی اور یورپ کی غلامی
ساری دنیا کے پیچھے چلنا ہے لیکن اپنے دین پر نہیں چلنا امت مسلمہ کو نجانے کیا ہوگیا ۔۔
۔اپنا دین مشکل لگتا ہے یورپ وغیرہ کے پیچھے چلنا ہے انہیں کیا خاص ہے یورپ میں جو ھمارے اپنے دین میں نہیں ۔۔۔
گناہ شیطان کی اطاعت وہ ہے جو ھمارے دین اسلام میں نہیں اور وہ یورپ وغیرہ کے پیچھے چلنے میں ہے نہ اس لیۓ امت مسلمہ کیلۓ یہ راستہ بڑا پسندیدہ ہے بھانا ابلیس لیکر گیا تہا شیطان نہیں لیکر جاتا بلکہ شیطان کے پیچھے جاتے ہیں ۔۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر دین اسلام اپنا دین اور اس کے احکامات کو چھوڑ دیا کہ آج کل کا زمانہ ایسا نہیں
آج کل فیشن کا دور ہے پھر یورپ وغیرہ کی اپناۂے ہوئی چیزیں مزیدار ہے ۔۔کیونکہ ان میں بے حیاۂی ہے اسلام کے احکام کے خلاف ورزی ہے گناہ ہے اپنی مرضی جو کرو بے حیاۂی کیلۓ تو اپناتے ہیں ۔۔
اس لیۓ تو اپنا دین مشکل لگتا ہے کیونکہ وہاں ان کی نہیں رب العالمین کی مرضی کے مطابق چلنا ہوتا ہے درسل امت مسلمہ آسان اور شیطان کا طریقہ سمجھتی ہے کہ اس میں شیطان نے انہیں اپنی مرضی دی ہے لیکن ہر کوئی روز محشر حساب خود دینگے۔
Truely right
ReplyDeleteBut no any want to know
Please always right carefully
ReplyDeleteSo Great thinking
ReplyDelete16 aane sahi hai bhai, lekin mai un Ladkiyo me se nahi hoo jo europe ki gulaam ko Aazadi ke nam pae halla machaye.
ReplyDelete