Muhabbat aur Hawas Me kya fark hai?
Aaj kal takriban 90% Ladkiyo se Muhabbat ke wade aur Qasmein Khaye jate hai magar bad me unhe iske badle Dhoka milta hai.
Kya Parda karna Koi Fashion hai ya Choice?
Waisi Ladkiyaa Jo Halal rishto ko chhod kar Haram rishte me padi hui hai?
Aaj Muslim Khawateen ke Sar se Dupatta Kisne Hataya?
آج کی نواجوان نسل محبت اور حوس میں فرق کرنا نہیں جانتی ۔
سنو ! تم تو جانتی ہو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اور یہ محبت میں تم سے مرتے دم تک کروں گا، مگر ہماری سچی محبت کے سفر میں شاید منزل ممکن نہیں۔ میرے لاکھ منانے کے باوجود میرے گھر والے ہماری شادی کے لئے نہیں مان رہے، اس لئے مجبور ہوں میں تم سے شادی نہیں کر سکتا، مگر ہم اپنے اس تعلق کو دوستی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ہم اچھے دوست بھی تو بن سکتے ہیں ناں۔
یہ وہ وعدے، قسمیں اور وہ تسلیاں ہیں جو تقریبا 90 فیصد لڑکیوں کو کئی عرصے تک ایک بے نام رشتے میں منسلک ہونے کے بعد لڑکوں سے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
کبھی ذات کو بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی فیملی اسٹیٹس کو، کبھی ملازمت نہ ہونے کا بہانہ چلتا ہے تو کبھی تعلیم مکمل ہونے تک کا انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے اور کھبی بہتر مستقبل کے لئے بیرون ممالک جانا مجبوری بن جاتا ہے۔
لڑکی ایک طویل عرصہ تک ماں باپ کو دھوکہ دے کر چھپ چھپ کر اپنے محبوب سے ملنے کی كوشش کرتی ہے۔ کبھی کسی پارک میں تو کبھی کسی ریسٹورنٹ میں پیار کے دو پنچھی محبت کے گیت گنگناتے نظر آتے ہیں۔
محبت کے اقرار اور وفاؤں کے وعدے کیے جاتے ہیں۔
قربتیں بڑھتی ہیں اور محبت ایک خواہش کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ محبت کا یقین کرنے اور کرانے کے لیے تصویروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب عاشق محبت اور محبوب کے ان امتحانات میں کامیاب ہوتے ہیں تو بات ہوٹل کے کمروں تک پہنچ جاتی ہے اور دونوں اس بے نامی رشتہ اور جھوٹی محبت میں ساری حدیں عبور کرتے جاتے ہیں۔
صیح کہتے ہیں محبت میں مبتلا افراد ہوش و حواس سے عاری ہوتے ہیں۔
میری تحریر پر آپ کے اعتراضات ممکن ہیں مگر کیا کریں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
آج کل کے دور میں ہر چیز ایڈوانس اور تیز رفتار ہوگئی ہے اور موبائل فونز نے تو ویسے ہی نام نہاد عاشقوں کے کام آسان کر دیئے ہیں۔
کبھی سوچا ہے کہ آج سے پندرہ بیس سال قبل محبت کیسی ہوا کرتی ہوگی؟؟
بچارے عاشق نا جانے کن کن مشکلات سے گزر کر اپنے محبوب تک پہنچتے تھے، رابطوں کے لئے خطوط کا سہارا لیا جاتا تھا اور اس پر ہر وقت خطوط کے پکڑے جانے کا خوف طاری رہتا ہوگا۔ کتنا مشکل تھا نا اس وقت محبت کا حصول اور جیسے کوئی خط پکڑا جاتا تو ایک قیامت صغریٰ برپا ہوجاتی اور نتیجتا دو ٹوٹے دلوں کی سسکیوں کے بیچ شادی کے نغمے شروع ہوجاتے۔
آج کل موبائل فون اور پرائیویسی نام کی ایک چیز نے ماں باپ سے اولاد سے کوئی سوال کرنے کا حق بھی چھین لیا ہے۔
آج کل کی نسل کو تو محبت میں بھی بہت آسائشیں میسر ہیں۔ ابھی پہلی محبت جاری ہے اور سوشل میڈیا پر ایک سے بڑھ کرایک آپشن بھی بیک اپ میں موجود ہے۔ زرا سی تکرار پر رشتہ ختم اور اگلی محبت تیار۔ اس دور میں محبت کے بھی اپنے اپنے تقاضے ہیں۔ پیسہ، خوبصورتی، عہدہ، طاقت مختصر یہ کہ اگر ان میں سے کوئی ایک خوبی بھی کسی شخص میں نہیں تو اسے کسی اور میں تلاش کر لیا جاتا ہے۔
محبت اور ہوس کی تمیز نہیں
اور شہر بھرا ہے ہیر رانجھوں سے
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہی نہیں رہا کہ محبت میں شرم و حیا اور لحاظ کا عنصر ہمارے مہذب معاشرے کی بقا کے لئے کتنا ضروری ہے۔
اسلام کی نظر میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل ہیں اور اللہ نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیئے پیدا کیا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون کا سبب ہیں۔ انہیں گمراہ ہونے اور گناہوں سے بچانے کے لیے رشتہ ازدواج یعنی نکاح کا طریقہ کار بنایا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کا رابطہ انہی حدود میں ممکن بنایا ہے۔
آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ہماری نوجوان نسل محبت کے مطلب سے بالکل ناواقف ہیں۔
محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ کا نام ہے۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ محبت کے نام پر آزمائش میں محبوب کی زندگی برباد نہیں کرتا۔ مرد جب کسی عورت کو سچے دل سے چاہتا ہے تو وہ اپنے گھر والوں سے ہی نہیں بلکہ معاشرے سے بھی لڑجاتا ہے۔ محبت ایک ایسا رشتہ ہے جو حسن اور جسم سے نہیں روح اور دل کا ہوتا ہے۔
لوگ اپنی جسمانی خواہشات کی تکمیل کو محبت کا نام دیتے ہیں۔ محبت ایمان کی طرح ہے اور محبت روح کی غذا کی طرح ہوتی ہے جبکہ حوس نفس کی غذا ہے۔ حوس انسان کی زندگی برباد کر دیتی ہے۔
محبت وہ جذبہ ہے جو دل کی زمین پر ایک لرزہ طاری کر دے۔ وہ مرض جو ایک بار لگ جائے تو لاعلاج ہو جائے۔ جب محبت حوس کی شکل اختیار کرتی ہے تو انسان غلط طریقے اپناتا ہے اور پھر معاشرے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے اور حیا کی آنکھیں ندامت سے جھک جاتی ہیں۔
کاش! ہم نادان لوگ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے، صبر اور استقامت کا راستہ اپنا لیں تو معاشرے سے اس حوس نام کے لفظ کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لفظ کو رشتوں سے ہٹا دیا جائے تو زندگی میں سکون اور اطمینان ممکن ہے۔
کالی رنگ کی لڑکی سے محبت کرنے والا شوہر
No comments:
Post a Comment