find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Qurbani. Show all posts
Showing posts with label Qurbani. Show all posts

Qurbani ka Janwar kaisa hona chahiye, Qurbani Ke liye kaisi Shartein hai?

Qurbani ke Liye wah 6 Sharayet jo lajimi hai.


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

قربانی کی شرائط


قربانی کے لیے چھ شرائط کا ہونا ضروری ہے :

❶ پہلی شرط :

وہ قربانی "بھیمۃ الانعام" [یعنی گھریلو پالتو جانوروں]میں سے ہو جو کہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں ؛فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ )
ترجمہ:  اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے تا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ [بھیمۃ الانعام یعنی]پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔[الحج:34]
اور "بھیمۃ الانعام" سے مراد اونٹ گائے بھیڑ اور بکری ہیں عرب کے ہاں یہی معروف ہے نیز حسن  اور قتادہ سمیت دیگر اہل علم کا بھی یہی موقف ہے ۔

❷ دوسری شرط :

قربانی کا جانور شرعی طور پر معین عمر کا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ [چھ ماہ کا بچہ ] قربانی کیلیے ذبح ہو سکتا ہے جبکہ دیگر جانوروں میں سے ان کے اگلے دو دانت گرنے کے بعد قربانی ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مسنہ [یعنی جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہیں اس ] کے علاوہ کوئی جانور ذبح نہ کرو، تاہم اگر تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ[یعنی چھ ماہ کا بچہ ] ذبح کر لو ) صحیح مسلم ۔
حدیث میں مذکور : "مسنہ"  کا لفظ  ایسے جانور پر بولا جاتا ہے جس کے اگلے دو دانت گر چکے ہوں یا اس سے بھی بڑے جانور کو "مسنہ" کہتے ہیں جبکہ "جذعہ" اس سے کم عمر کا  ہوتا ہے۔
لہذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تو  اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
گائے کی عمر دو برس ہو تو اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
جبکہ بکری ایک برس کی ہو تو وہ تو اس کے اگلے دانت گرتے ہیں۔
اور جذعہ چھ ماہ کے جانور کو کہتے ہیں ، لہذا اونٹ گائے اور بکری میں سے آگے والے دو دانت گرنے سے کم عمر کے جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور اسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمر [یعنی چھ ماہ سے کم ] کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

❸ تیسری شرط :

قربانی کا جانور چار ایسے عیوب سے پاک ہونا چاہیے  جو قربانی ہونے میں رکاوٹ ہیں:
⓵-  آنکھ میں واضح طور پر عیب : مثلاً: جس کی آنکھ بہہ کر دھنس چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح ابھری ہوئی ہو ، یا پھر آنکھ مکمل سفید ہو کر کانے پن کی واضح دلیل ہو۔
⓶-  واضح طور بیمار جانور : اس سے بیمار جانور مراد ہیں مثلاً: جانور کو بخار ہو جس کی بنا پر جانور گھاس نہ کھائے اور اسے بھوک نہ لگے، اسی طرح جانور کی بہت زیادہ خارش جس سے گوشت متاثر ہو جائے، یا خارش جانور کی صحت پر اثر انداز ہو ، ایسے ہی گہرا زخم اور اسی طرح کی دیگر بیماریاں ہیں جو جانور کی صحت پر اثر انداز ہوں۔
⓷-  واضح طور پر پایا جانے والا لنگڑا پن : ایسا لنگڑا پن جو صحیح سالم جانوروں کے ہمراہ چلنے میں رکاوٹ بنے۔
⓸- اتنا لاغر  کہ ہڈیوں میں گودا باقی نہ رہے: کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے پاک ہونا چاہیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا چار عیوب سے : ( وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اور آنکھ کے عیب والا جانور جس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اور بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اور وہ کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)  ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اور سنن میں برا‏ء بن عازب رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ( چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ) اور پھر آگے یہی حدیث ذکر کی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1148)میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لہذا یہ چار عیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پر قربانی نہیں ہوگی ، اور ان چار عیوب کے ساتھ دیگر عیوب بھی شامل ہیں جو ان جیسے یا ان سے بھی شدید ہوں تو ان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہیں ہوگی ، جیسے کہ درج ذیل عیوب ہیں:
⓵-  نابینا  جانور جس کو آنکھوں سے نظر ہی نہ آتا ہو ۔
⓶-  وہ جانور جس نے اپنی طاقت سے زیادہ چر لیا ہو؛ اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ صحیح نہ  ہو جائے  اور اس سے خطرہ ٹل نہ جائے۔
⓷-  وہ جانور جسے بچہ جننے میں کوئی مشکل در پیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہو جائے ۔
⓸-  زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہو ،  گلا گھٹ کر یا بلندی سے نیچے گر کریا اسی طرح کسی اور وجہ سے ؛ اس وقت تک ایسے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے یہ خطرہ زائل نہیں ہو جاتا ۔
⓹- دائمی بیمار، یعنی ایسا جانور جو کسی بیماری کی وجہ سے چل پھر نہ سکتا ہو۔
⓺-  اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔
جب ان چھ عیوب کو حدیث میں بیان چار عیوب کے ساتھ ملایا جائے تو ان کی تعداد دس ہو جائے گی  ؛ چنانچہ ان کی قربانی نہیں کی جائے گی۔

❹ چوتھی شرط :

وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا پھر اسے شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو۔
لہذا جو جانور ملکیت میں  نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ، مثلاً غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اور غلط دعوے سے ہتھیایا  گیا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا ۔
اور یتیم کا سر پرست یتیم کی جانب سے ایسی صورت میں قربانی کر سکتا ہے جب یتیم  اپنے مال سے قربانی نہ ہونے پر مایوس ہو جائے اور عرف عام میں یتیم کی طرف سے قربانی کرنے کا رواج بھی ہو۔
اسی طرح موکل کی جانب سے اجازت کے بعد وکیل کا قربانی کرنا بھی صحیح ہے ۔
❺ پانچویں شرط :

کہ جانور کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق نہ ہو ، لہذا رہن رکھے گئے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔

❻ چھٹی شرط :

قربانی کو شرعاً محدود وقت کے اندر اندر ذبح کیا جائے ، اور یہ وقت دس ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سے شروع ہو کر ایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام تشریق کا آخری دن ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تو اس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں  یعنی: عید کے دن نماز عید کے بعد ، اور اس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے ایام  قربانی کے دن ہیں۔
لہذا جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کر لی یا پھر تیرہ ذوالحجہ کو غروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔
جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے نماز [عید ]سے قبل ذبح کر لیا وہ صرف گوشت ہے جو وہ اپنے اہل عیال کو پیش کر رہا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ) ۔
اور جندب بن سفیان بَجَلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ حاضر تھا تو آپ نے فرمایا : ( جس نے نماز عید سے قبل ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔
اسی طرح نبیشہ ھذیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الہی کے ایام ہیں ) اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔
لیکن اگر ایام تشریق سے قربانی کو مؤخر کرنے کا کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً قربانی کا جانور بھاگ جائے، اور اس کے بھاگنے میں مالک کی کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ جانور ایام تشریق کے بعد ہی واپس ملے ، یا اس نے کسی کو قربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تو وکیل ذبح کرنا ہی بھول گیا اور وقت گزر گیا ، تو اس عذر کی بنا پر وقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور [اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح]نماز کے وقت میں سویا ہوا یا بھول جانے والا شخص جب سو کر اٹھے یا اسے یاد آئے تو نماز ادا کرے گا [بالکل اسی طرح یہ بھی قربانی ذبح کرے گا]۔
اور مقررہ وقت کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اور بہتر ہے ، اور عید والے دن نماز عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا زیادہ افضل اور اولی ہے ، اور ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے کم تر ہو گا، کیونکہ جلد از جلد قربانی کرنے میں خیر و بھلائی کیلیے سبقت ہے " 

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
[ ماخذ: ماخوذ از : "احکام الاضحیۃ والذکاۃ " از شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ ]
[الاسلام سوال و جواب]

Share:

Kya Aurat Qurbani Ka Janwar Zibah Kar Sakti hai? Khawateen ke liye Janwar Zibah karna kaisa hai?

Kya Aurat Qurbani Ka Janwar Zibah kar sakti hai?

Kya Auraten Gaye, Bhainse, Bakra aur Oont (Camel) Zibah kar sakti hai?

عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے۔

نافع نے (عبد الرحمٰن یا عبد اللہ ) بن کعب بن مالک سے سنا وہ عبد اللہ بن عمرؓ سے کہہ رہے تھے کہ ان کے والد نے ان کو خبر دی ان کی ایک لونڈی سلع پہاڑ پر (جو مدینہ میں ہے) بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن اس نے ایک بکری کو دیکھا وہ مر رہی ہے اس نے کیا کیا ایک پتھر توڑ کر اس سے وہ بکری ذبح کر ڈالی کعب نے اپنے لوگوں سے کہا اس کا گوشت ابھی نہ کھاؤ میں نبیﷺ کے پاس جاتا ہوں آپ سے پوچھ لوں یا میں ایک شخص کو نبی ﷺ کے پاس بھج کر پچھوا لوں (یہ راوی کی شک ہے) غرض کعب خود نبی ﷺ کے پاس آئے یا کسی کو بھیج کر پچھوا بھیجا آپ نے فرمایا اس بکری کو کھاؤ۔
(بخاری/کتاب الذبائح:۲۲)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ اپنی بیٹیوں کو قربانی کا حکم دیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری ،الاضاحی تعلیقاً،باب:۱۰)

       
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لابأس بذبيحةالصبي والمرأة من المسلمين وأهل الكتاب"
(السنن الكبرى للبيهقي 9/475)
"مسلمان اوراہل کتاب میں سےبچہ اورعورت کےذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے "

امام نووی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
"کعب بن مالک کی حدیث کی بنیادپر بلا اختلاف عورت کا ذبیحہ جائزہے"۔

(المجموع شرح المھذب 9/87)
نیز فرماتےہیں :

" ابن المنذرنے عورت اورصاحب تمییز بچہ کےذبیحہ کی حلّت پراجماع نقل کیاہے۔"

المجموع شرح المھذب 9/89)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :
" عورت اورمردکاذبیحہ جائز ہے،  عورت حالت حیض میں بھی ذبح کرسکتی ہے۔"

علامہ ابن بازرحمہ اللہ ایک سوال کےجواب میں فرماتےہیں :

" مرد کی طرح عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ عورت اگر مسلمان یاکتابیہ ہےاور اس نے شرعی طریقہ پر جانور ذبح کیا ہےتو اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ مرد کی موجودگی میں بھی عورت ذبح کر سکتی ہے، اس کے لئے مرد کاہونا شرط نہیں ہے"

علامہ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :

" اگر عورت عاقلہ ،مکلفہ ہو اور اس نےبسم اللہ پڑھ کر ناخن ،دانت اور ہڈی کے علاوہ کسی تیز دھاردار آلہ سے ذبح کیا ہےتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔"

Share:

Apne Qurbani ke Janwaro ko Khula na chhore taki dusro ko taklif pahuche.

Qurbani ke Janwaro ka khyal rakhe, kahi isse dusro ko taklif nahi pahuche.

Qurbani ka Gosht kitne dino tak rakh sakte hai?
Qurbani (Eid-UL-Azaha) ke Ahkaam o Masail. ....
Jo log Qurbani karne ki taqat nahi rakhte wah kya kare?
Qurbani ke liye kaisa janwar jayez hai?

Qurbani se Jude Ahem Sawalo ke jawab janane ke liye yaha click kare.

Qurbani se jude Masail aur Unka Hal.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

️: مسز انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قربانی کریں مگر ..............

- اپنے قربانی کے جانور کو لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث نا بنائیں ۔
- اپنے جانوروں کی گندگی سے آنے جانے والوں کو تکلیف نا دیں ۔
- جانور باندھنے کی وہ جگہ منتخب نا کیجیے جہاں ہرروز کسی کی گاڑی پارک ہوتی ہے ۔
- جس جگہ جانور باندھیں اسے صاف کرتے رہیں تاکہ ناگوار بدبو لوگوں کو تکلیف نا پہنچائے۔
- اپنے جانوروں کو اس طرح کھلا نا چھوڑیے کہ وہ کسی کی محنت سے مرتب کیا گیا گارڈن خراب کر ڈالیں ۔

کامل ایمان رکھنے والے مؤمن اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی آرام و راحت پسند کرتے ہیں جو وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کا کوئی عمل یا رویہ کسی مسلمان کے لیے تنگی قلب کا باعث نا بنے ۔

لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى يُحِبَّ لأخِيهِ ما يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔ 

الراوي : أنس بن مالك | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم : 13 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Hazrat Ibrahim Alaihe Salam apne Bete Ismail ko Kyu Zabah karne gaye they?

Ibrahim Alaihe Salam Aur unke Bete Ismail Alaihe Salam ka waqya.
Hazrat Ibrahim Alaihe Salam Ne Kitni Shadiya ki aur Kitni saal ki umar me Unhe Aulad naseeb hui?

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پہلی شادی اپنی چچازاد، حضرت سارہؑ سے ہوئی، لیکن وہ ایک عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ایک دن حضرت سارہؑ نے اُن سے فرمایا’’ آپؑ، ہاجرہؑ سے نکاح کر لیں، شاید اللہ تعالیٰ اُن کے بطن سے اولاد عطا فرما دے۔‘‘ دراصل، یہ سب کچھ مِن جانب اللہ ہی تھا۔

چناں چہ، آپؑ نے حضرت ہاجرہؑ کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر شادی کے ایک سال بعد ہی اُنھوں نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو جنم دیا۔ اُس وقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عُمرِ مبارکہ 86سال تھی۔

جب حضرت ہاجرہؑ اُمید سے تھیں، تو فرشتے نے آپؑ کو لڑکا ہونے کی نوید سُنائی اور’’ اسماعیل‘‘ نام رکھنے کو کہا۔ حضرت اسماعیلؑ اٹھارہ سو قبلِ مسیح میں پیدا ہوئے۔

حضرت ابراہیمؑ دعائوں، آرزوئوں اور تمنّائوں کے بعد پیرانہ سالی میں پہلے فرزند کی پیدائش پر خوشیوں کا بھرپور اظہار بھی نہ کر پائے تھے کہ اُنھیں ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔

وہ بہ حکمِ الہٰی نومولود لختِ جگر اور فرماں بردار بیوی کو ہزاروں میل دُور ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے کہ جہاں میلوں تک پانی تھا، نہ چرند پرند۔اور آدم تھا، نہ آدم زاد-

وادیٔ فاران کے سنگلاخ کالے پہاڑوں کے درمیان، تپتے صحرا کے ایک بوڑھے درخت کے نیچے، اللہ کی ایک نیک اور برگزیدہ بندی اپنے نومولود معصوم بیٹے کے ساتھ چند روز سے قیام پزیر ہیں۔

جو زادِ راہ ساتھ تھا، ختم ہو چُکا۔ ماں، بیٹا بھوک، پیاس سے بے حال ہیں۔ ماں کو اپنی تو فکر نہیں، لیکن بھوکے، پیاسے بچّے کی بے چینی پر ممتا کی تڑپ فطری اَمر ہے، لیکن اس لق و دق صحرا میں پانی کہاں…؟

جوں جوں لختِ جگر کی شدّتِ پیاس میں اضافہ ہو رہا تھا، ممتا کی ماری ماں کی بے قراری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی حالتِ اضطراب میں قریب واقع پہاڑی،’’صفا‘‘پر چڑھیں کہ شاید کسی انسان یا پانی کا کوئی نشان مل جائے، لیکن بے سود۔ تڑپتے دِل کے ساتھ بھاگتے ہوئے ذرا دُور، دوسری پہاڑی’’مروہ‘‘پر چڑھیں، لیکن بے فائدہ۔

اس طرح، دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سات چکر مکمل کر لیے۔

ادھر اللہ جل شانہ نے حضرت جبرائیل امینؑ کے ذریعے شیر خوار اسماعیلؑ کے قدموں تلے دنیا کے سب سے متبرّک اور پاکیزہ پانی کا چشمہ جاری کر کے رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ اللہ پر توکّل کرنے والے صابر و شاکر بندوں کو ایسے ہی بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ اللہ پاک، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی والدہ پر رحمت فرمائے، اگر وہ پانی سے چُلّو نہ بھرتیں اور اُسے رُکنے کا نہ کہتیں، تو وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔‘‘ آبِ زَم زَم غذا بھی ہے اور شفا بھی۔ دوا ہے اور دُعا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ماں، بیٹے کے لیے بہترین غذا کا بندوبست کیا، بلکہ تا قیامت مسلمانوں کے فیض یاب ہونے کا وسیلہ بنا دیا۔

حضرت ہاجرہؑ اپنے صاحب زادے کے ساتھ وہیں رہ رہی تھیں کہ ایک روز عرب کے قبیلے، بنو جرہم کے کچھ لوگ پانی کی تلاش میں وہاں پہنچے اور حضرت ہاجرہؑ کی اجازت سے وہاں رہائش اختیار کر لی۔
پھر دوسرے قبائل بھی وہاں آ آ کر آباد ہوئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ سُنسان صحرا دنیا کے سب سے مقدّس و متبرّک اور عظیم شہر، مکّہ مکرّمہ میں تبدیل ہو گیا۔

حضرت ہاجرہؑ نے بیٹے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی-

تیرہ سال کا طویل عرصہ جیسے پَلک جھپکتے گزر گیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السّلام مکّے کی مقدّس فضائوں میں آبِ زَم زَم پی کر اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتے ہوئے بہترین صلاحیتوں کے مالک، خُوب صورت نوجوان کا رُوپ دھار چُکے تھے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السّلام تشریف لائے اور فرمایا ’’اے بیٹا!مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ (فرماں بردار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے فرمایا)، ابّا جان! آپؑ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔اللہ نے چاہا، تو آپؑ مجھے صابرین میں پائیں گے۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت102:37)

حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندی کی ایک شان دار مثال ہے۔

اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت ہاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا ’’ اے ہاجرہؑ! آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کر دیجیے۔‘‘
ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی۔ آنکھوں میں سُرمہ، سَر میں تیل لگایا اور خُوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کر دیا۔
اسی اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کر چُکے تھے۔

پھر بیٹے کو ساتھ لے کر مکّے سے باہر مِنیٰ کی جانب چل دیئے۔

شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ جب اُس نے صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو مضطرب ہو گیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔

چناں چہ’’ جمرہ عقبیٰ‘‘ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا ’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔

ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زمین نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ’’ جمرہ وسطیٰ‘‘ کے مقام پر پھر وَرغلانے کے لیے آ موجود ہوا۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دوبارہ کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ’’ جمرہ اولیٰ‘‘ کے مقام پر پھر موجود تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکریاں ماریں، تو وہ زمین میں دھنس گیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لیے حج کے واجبات میں شامل فرما دیا۔

ںشیطان اپنی ناکامی پر بڑا پریشان تھا۔ تینوں مرتبہ کی کنکریوں نے اس کے جسم کو زخموں سے چُور کر دیا تھا، اچانک اسے ایک نئی چال سوجھی اور وہ عورت کا بھیس بدل کر بھاگم بھاگ حضرت ہاجرہؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا’’ اے اسماعیلؑ کی ماں!

تمہیں علم ہے کہ ابراہیمؑ تمہارے لختِ جگر کو کہاں لے گئے ہیں؟
‘‘ حضرت ہاجرہؑ نے فرمایا’’ ہاں، وہ باہر گئے ہیں، شاید کسی دوست سے ملنے گئے ہوں۔
‘‘ شیطان نے اپنے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا  ’’وہ تیرے بیٹے کو ذبح کرنے وادیٔ منیٰ میں لے گئے ہیں۔‘‘

حضرت ہاجرہؑ نے حیرت اور تعجّب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شفیق اور مہربان باپ اپنے چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دے؟‘‘

اس موقعے پر بے ساختہ شیطان کے منہ سے نکلا ’’وہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم پر کر رہے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر صبر و شُکر اور اطاعت و فرماں برداری کی پیکر، اللہ کی برگزیدہ بندی نے فرمایا  ’’ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، تو ایک اسماعیلؑ کیا، اس کے حکم پر 100 اسماعیلؑ قربان ہیں۔‘‘

شیطان یہاں سے نامُراد ہو کر واپس مِنیٰ کی جانب پلٹا، لیکن وہاں کا ایمان افروز منظر دیکھ کر اپنے سَر پر خاک ڈالنے اور چہرہ پیٹنے پر مجبور ہو گیا۔
وادیٔ مِنیٰ کے سیاہ پہاڑ، نیلے شفّاف آسمان پر روشن آگ برساتا سورج، فلک پر موجود تسبیح و تہلیل میں مصروف ملائکہ، اللہ کی راہ میں اپنی متاعِ عزیز کی قربانی کا محیّر العقول منظر دیکھنے میں محو تھے۔

مکّے سے آنے والی گرم ہوائیں بھی مِنیٰ کی فضائوں میں موجود عبادت و اطاعت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کی ایک عظیم داستان رقم ہوتے دیکھ رہی تھیں۔
روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو لیٹنے کی ہدایت دی، تو حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے فرمایا ’’ ابّا جان! مَیں پیشانی کے بَل لیٹتا ہوں تاکہ آپؑ کا چہرہ مجھے نظر نہ آئے اور آپؑ بھی اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ لیں تاکہ جب آپؑ مجھے ذبح کر رہے ہوں، تو شفقتِ پدری کے امرِ الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔‘‘
صبر و استقامت کے کوہِ گراں والد نے گوشۂ جگر کے مشورے پر عمل کیا اور جب اسماعیل علیہ السّلام لیٹ گئے، تو تکمیلِ احکامِ خداوندی میں تیز دھار چُھری کو پوری قوّت کے ساتھ لختِ جگر کی گردن پر پھیر دیا۔

باپ، بیٹے کی اس عظیم قربانی پر قدرتِ خداوندی جوش میں آئی اور اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السّلام جنّت کے باغات میں پلے سفید رنگ کے خُوب صورت مینڈھے کو لے کر حاضر ہوئے۔

ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے ذبح سے فارغ ہو کر آنکھوں سے پٹّی ہٹائی، تو حیرت زدہ رہ گئے۔

بیٹے کی جگہ ایک حَسین مینڈھا ذبح ہوا پڑا تھا، جب کہ اسماعیل علیہ السّلام قریب کھڑے مُسکرا رہے تھے۔

اسی اثنا میں غیب سے آواز آئی’’اے ابراہیمؑ!  تم نے اپنا خواب سچّا کر دِکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
(سورۃ الصٰفٰت 105:37)

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے اس بے مثال جذبۂ ایثار، اطاعت و فرماں برداری، جرأت و استقامت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا  ’’اور ہم نے (اسماعیلؑ) کی عظیم قربانی پر اُن کا فدیہ دے دیا۔ ‘‘اللہ ربّ العزّت کو اپنے دونوں برگزیدہ اور جلیل القدر بندوں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اسے اطاعت، عبادت اور قربتِ الہٰی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے لیے جاری فرما دیا۔

Share:

Eid Ki Namaj Sunnat, Farz hai ya Wazib hai? Quran o Sunnat ki Raushani me bataye.

Eid ki Namaj kya hai Sunnat ya farz?

Eid Ul Azaha ya Eid Ul Fitr ki Namaj Sunnat hai ya Wazib ya farz?

Sawal: Eid ki Namaj Sunnat hai ya farz? Dalail se wazahat kare....? Kya Eid ki Namaj Chhorne (Qaza) karne wala Gunahgaar hoga?

कुर्बानी का गोश्त कितने दिनों तक रख कर खा सकते है, क्या ज्यादा दिनों तक इस्तेमाल करने से कुर्बानी जाएज़ नही होता?

अगर किसी की ईद की नमाज क़ज़ा हो जाए तो वह उसे कैसे अदा करेगा?

ईद की नमाज पढ़ने का सही तरीका?

ऐब्दार जानवरो की कुर्बानी जाएज़ है या नही?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा"

गाय और ऊंट मे कितने बच्चो का अकिका हो सकता है?
गाय और ऊँट की कुर्बानी मे कितने लोग शामिल हो सकते है?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-249"
سوال_عیدین کی نماز سنت ہے یا فرض ؟ دلائل سے وضاحت کریں...؟ کیا عید کی نماز چھوڑنے والا گناہگار ہو گا؟

Published Date: 4-6-2019

جواب..!
الحمدللہ..!

*اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے مگر راجح بات یہی ہے کہ عید کی نماز تمام مسلمانوں پر فرض ہے کسی مجبوری کے بنا عید کی نماز چھوڑنا گناہ ہو گا*

نماز عيدين كے حكم ميں علماء كرام كے تين قول ہيں:

پہلا قول:
يہ سنت مؤكدہ ہے، امام مالك اور امام شافعى كا مسلک يہى ہے.

دوسرا قول:
يہ فرض كفايہ ہے، یعنی کچھ لوگ ادا کر لیں تو باقیوں سے حکم ساقط ہو جاتا ہے، امام احمد رحمہ اللہ كا مسلک يہى ہے.

تيسرا قول:
يہ ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے ترک كرنے پر گنہگار ہو گا، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مسلک يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور شوكانى رحمہما اللہ نے اسى قول كو اختيار كيا ہے.اور امام ابن قیم ،امام الصنعانی رحمھما اللہ،
شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ وغیرہ کا بھی یہی مؤقف ہے کہ عید کی نماز واجب ہے،
(ديكھيں: المجموع ( 5 / 5 )
( المغنى ( 3 / 253 )
(الانصاف ( 5 / 316 )
( الاختيارات ( 82 )

*ہمارے علم کے مطابق بھی تيسرے قول والوں یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرھم  کا مؤقف درست ہے کہ عید کی نماز واجب ہے اور وہ اس پر کئی ایک دلائل پیش کرتے ہیں جن میں سے چند ایک دلائل درج ذیل ہیں*

*پہلی دلیل*

📚 ارشاد بارى تعالى ہے:
اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو
(سورہ الكوثر - 2 )

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
اس كى تفسير ميں مشہور يہ ہے كہ: اس سے مراد نماز عيد ہے.

اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: اس آيت سے مراد عمومى نماز مراد ہے، نہ كہ يہ نماز عيد كے ساتھ خاص ہے،
ديكھيں: تفسير ابن جرير ( 12 / 724 )
اور تفسير ابن كثير ( 8 / 502 )

لیکن ہمارے علم کے مطابق اس آيت ميں نماز عيد كے وجوب پر كوئى خاص دليل نہيں پائى جاتى اور نا ہی یہ آئیت عید کی نماز ساتھ خاص ہے،

*دوسری دلیل*

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ عورتوں كو بھى وہاں جانے كا حكم ديا.

📚ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،
کہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-971)

📚امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے
(یعنی اپنی پڑوسن وغیرہ سے ادھار مانگ لے)
حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔۔؟
(صحيح بخارى حديث نمبر_ 324 )
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 890 )

العواتق: عاتق كى جمع ہے، اور اس كا معنى وہ لڑكى ہے جو قريب البلوغ ہو يا بالغ ہو چكى ہو، يا پھر شادى كے قابل ہو.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكيوں كو كہتے ہيں.

*اس حديث سے نماز عيد كے وجوب كا استدلال قوى ہے کہ جب عورتوں کو نکلنے کا حکم دیا ہے بلکہ جس کے پاس دوپٹہ نہیں وہ اپنی پڑوسن سے مانگ لے مگر عید کے لیے ضرور جائے تو مردوں کے لیے تو بالاولی حکم ہے وہ ہر صورت عید کی نماز کے لیے نکلیں*

*تیسری دلیل*

عید کی نماز پڑھنے والے کو جمعہ کی رخصت اسی وجہ سے دی گئی کہ اس نے عید کی نماز پڑھی ہے، اگر عید سنت نماز ہوتی تو کیا فرضی نماز کا حکم ساقط ہو جاتا؟

📚ایاس بن ابی رملہ شامہ کہتے ہیں،
میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: ہاں،
معاویہ نے پوچھا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح کیا؟
انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1070) صحیح
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1310) صحیح

*علماء کے فتاویٰ جات*

📚شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " مجموع الفتاوى" ميں كہتے ہيں:
" ميرے خيال ميں نماز عيد فرض عين ہے، اور مردوں كے ليے اسے ترك كرنا جائز نہيں، بلكہ انہيں نماز عيد كے ليے حاضر ہونا ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريب البلوغ اور كنوارى لڑكيوں اور باقى عورتوں كو بھى حاضر ہونے كا حكم ديا ہے، بلكہ حيض والى عورتوں كو بھى نماز عيد كے ليے نكلنے كا حكم ديا، ليكن وہ عيد گاہ سے دور رہيں گى، اور يہ اس كى تاكيد پر دلالت كرتا ہے" اھـ
(مجموع الفتاوى لابن عثيمين ( 16 / 214)

📚اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
" دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 )

📚اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے فرض عين ہونے كے متعلق كہتے ہيں:
دلائل ميں يہ قول ظاہر ہے، اور اقرب الى الصواب يہى ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 13 / 7 )

📚امام ابن تیمیہ نے بھی صلوٰۃ عیدین کو فرض عین ہی قرار دیا ہے۔
(مجموع الفتاویٰ ص ۱۶۱ ج ۲۳)

*ان تمام احادیث اور علمائے کرام کے فتاویٰ جات سے جو بات سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز فرض ہے*

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور دس سال پابندی کے ساتھ عیدین کی نماز پڑھتے رہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی عیدین کی نماز کو بڑی پابندی اور اہتمام سے ادا کیا، ایک دفعہ بھی نماز عیدین کا ترک ثابت نہیں۔

2۔ نماز عیدین سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار مقصود ہے، اس بناء پر صلوٰۃ جمعہ کی طرح یہ بھی واجب ہے، جو لوگ بالکل اسے ادا نہ کریں وہ گناہگار ہونگے،

3۔ نماز عید کی ادائیگی اور اس دن اجتماع عظیم میں حاضری عورتوں کیلئے بھی ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن عورتوں کو باہر کھلے میدان میں نکلنے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ جس کے پاس پردے کیلئے اپنی ذاتی چادر نہیں اسے بھی حاضری کا حکم دیا گیا ہے۔

4۔ اگر جمعہ اور عیدین ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کے متعلق رخصت ہے جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی گئی، کہ جو عید کی نماز پڑھ لے وہ چاہے تو جمعہ نا پڑھے حالانکہ جمعہ واجب ہے، اگر صلوٰۃ عید فرض نہ ہوتی تو دوسرے فرض کو کیسے ساقط کر سکتی ہے؟
یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ عیدین دیگر نماز پنجگانہ کی طرح فرض عین ہے، اور اسکو بلا عذر چھوڑنے والا گناہگار ہے،

*خلاصہ یہ ہے کہ عیدین کی نماز فرائض میں سے ہے اسکو بلا عذر چھوڑنا گناہ ہے*

________&_________

( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

📚عید کی نماز کا مسنون طریقہ اور وقت اور کیا عورتیں بھی عیدگاہ میں نماز پڑھیں گی یا گھر۔۔۔؟
دیکھیں سسلسلہ نمبر-124

📚 عیدین کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی شخص عید کی نماز سے لیٹ ہو جائے کہ امام نماز پڑھا چکا ہو یا ایک رکعت پڑھ چکا ہو تو وہ نماز کیسے مکمل کرے گا؟
دیکھیں سلسلہ نمبر-250

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                 +923036501765

آفیشل فیس بک پیج
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS