Ibrahim Alaihe Salam Aur unke Bete Ismail Alaihe Salam ka waqya.
Hazrat Ibrahim Alaihe Salam Ne Kitni Shadiya ki aur Kitni saal ki umar me Unhe Aulad naseeb hui?
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پہلی شادی اپنی چچازاد، حضرت سارہؑ سے ہوئی، لیکن وہ ایک عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ایک دن حضرت سارہؑ نے اُن سے فرمایا’’ آپؑ، ہاجرہؑ سے نکاح کر لیں، شاید اللہ تعالیٰ اُن کے بطن سے اولاد عطا فرما دے۔‘‘ دراصل، یہ سب کچھ مِن جانب اللہ ہی تھا۔
چناں چہ، آپؑ نے حضرت ہاجرہؑ کو اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر شادی کے ایک سال بعد ہی اُنھوں نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو جنم دیا۔ اُس وقت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی عُمرِ مبارکہ 86سال تھی۔
جب حضرت ہاجرہؑ اُمید سے تھیں، تو فرشتے نے آپؑ کو لڑکا ہونے کی نوید سُنائی اور’’ اسماعیل‘‘ نام رکھنے کو کہا۔ حضرت اسماعیلؑ اٹھارہ سو قبلِ مسیح میں پیدا ہوئے۔
حضرت ابراہیمؑ دعائوں، آرزوئوں اور تمنّائوں کے بعد پیرانہ سالی میں پہلے فرزند کی پیدائش پر خوشیوں کا بھرپور اظہار بھی نہ کر پائے تھے کہ اُنھیں ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔
وہ بہ حکمِ الہٰی نومولود لختِ جگر اور فرماں بردار بیوی کو ہزاروں میل دُور ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے کہ جہاں میلوں تک پانی تھا، نہ چرند پرند۔اور آدم تھا، نہ آدم زاد-
وادیٔ فاران کے سنگلاخ کالے پہاڑوں کے درمیان، تپتے صحرا کے ایک بوڑھے درخت کے نیچے، اللہ کی ایک نیک اور برگزیدہ بندی اپنے نومولود معصوم بیٹے کے ساتھ چند روز سے قیام پزیر ہیں۔
جو زادِ راہ ساتھ تھا، ختم ہو چُکا۔ ماں، بیٹا بھوک، پیاس سے بے حال ہیں۔ ماں کو اپنی تو فکر نہیں، لیکن بھوکے، پیاسے بچّے کی بے چینی پر ممتا کی تڑپ فطری اَمر ہے، لیکن اس لق و دق صحرا میں پانی کہاں…؟
جوں جوں لختِ جگر کی شدّتِ پیاس میں اضافہ ہو رہا تھا، ممتا کی ماری ماں کی بے قراری بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی حالتِ اضطراب میں قریب واقع پہاڑی،’’صفا‘‘پر چڑھیں کہ شاید کسی انسان یا پانی کا کوئی نشان مل جائے، لیکن بے سود۔ تڑپتے دِل کے ساتھ بھاگتے ہوئے ذرا دُور، دوسری پہاڑی’’مروہ‘‘پر چڑھیں، لیکن بے فائدہ۔
اس طرح، دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سات چکر مکمل کر لیے۔
ادھر اللہ جل شانہ نے حضرت جبرائیل امینؑ کے ذریعے شیر خوار اسماعیلؑ کے قدموں تلے دنیا کے سب سے متبرّک اور پاکیزہ پانی کا چشمہ جاری کر کے رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ اللہ پر توکّل کرنے والے صابر و شاکر بندوں کو ایسے ہی بیش قیمت انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ’’ اللہ پاک، حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی والدہ پر رحمت فرمائے، اگر وہ پانی سے چُلّو نہ بھرتیں اور اُسے رُکنے کا نہ کہتیں، تو وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔‘‘ آبِ زَم زَم غذا بھی ہے اور شفا بھی۔ دوا ہے اور دُعا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ماں، بیٹے کے لیے بہترین غذا کا بندوبست کیا، بلکہ تا قیامت مسلمانوں کے فیض یاب ہونے کا وسیلہ بنا دیا۔
حضرت ہاجرہؑ اپنے صاحب زادے کے ساتھ وہیں رہ رہی تھیں کہ ایک روز عرب کے قبیلے، بنو جرہم کے کچھ لوگ پانی کی تلاش میں وہاں پہنچے اور حضرت ہاجرہؑ کی اجازت سے وہاں رہائش اختیار کر لی۔
پھر دوسرے قبائل بھی وہاں آ آ کر آباد ہوئے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ سُنسان صحرا دنیا کے سب سے مقدّس و متبرّک اور عظیم شہر، مکّہ مکرّمہ میں تبدیل ہو گیا۔
حضرت ہاجرہؑ نے بیٹے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی-
تیرہ سال کا طویل عرصہ جیسے پَلک جھپکتے گزر گیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السّلام مکّے کی مقدّس فضائوں میں آبِ زَم زَم پی کر اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتے ہوئے بہترین صلاحیتوں کے مالک، خُوب صورت نوجوان کا رُوپ دھار چُکے تھے کہ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السّلام تشریف لائے اور فرمایا ’’اے بیٹا!مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تمھیں ذبح کر رہا ہوں، تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ (فرماں بردار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خم کرتے ہوئے فرمایا)، ابّا جان! آپؑ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔اللہ نے چاہا، تو آپؑ مجھے صابرین میں پائیں گے۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت102:37)
حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندی کی ایک شان دار مثال ہے۔
اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت ہاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا ’’ اے ہاجرہؑ! آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کر دیجیے۔‘‘
ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی۔ آنکھوں میں سُرمہ، سَر میں تیل لگایا اور خُوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کر دیا۔
اسی اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کر چُکے تھے۔
پھر بیٹے کو ساتھ لے کر مکّے سے باہر مِنیٰ کی جانب چل دیئے۔
شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ جب اُس نے صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو مضطرب ہو گیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔
چناں چہ’’ جمرہ عقبیٰ‘‘ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا ’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔
ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زمین نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ’’ جمرہ وسطیٰ‘‘ کے مقام پر پھر وَرغلانے کے لیے آ موجود ہوا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دوبارہ کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ’’ جمرہ اولیٰ‘‘ کے مقام پر پھر موجود تھا۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکریاں ماریں، تو وہ زمین میں دھنس گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اسے رہتی دنیا تک کے لیے حج کے واجبات میں شامل فرما دیا۔
ںشیطان اپنی ناکامی پر بڑا پریشان تھا۔ تینوں مرتبہ کی کنکریوں نے اس کے جسم کو زخموں سے چُور کر دیا تھا، اچانک اسے ایک نئی چال سوجھی اور وہ عورت کا بھیس بدل کر بھاگم بھاگ حضرت ہاجرہؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا’’ اے اسماعیلؑ کی ماں!
تمہیں علم ہے کہ ابراہیمؑ تمہارے لختِ جگر کو کہاں لے گئے ہیں؟
‘‘ حضرت ہاجرہؑ نے فرمایا’’ ہاں، وہ باہر گئے ہیں، شاید کسی دوست سے ملنے گئے ہوں۔
‘‘ شیطان نے اپنے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ’’وہ تیرے بیٹے کو ذبح کرنے وادیٔ منیٰ میں لے گئے ہیں۔‘‘
حضرت ہاجرہؑ نے حیرت اور تعجّب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شفیق اور مہربان باپ اپنے چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دے؟‘‘
اس موقعے پر بے ساختہ شیطان کے منہ سے نکلا ’’وہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم پر کر رہے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر صبر و شُکر اور اطاعت و فرماں برداری کی پیکر، اللہ کی برگزیدہ بندی نے فرمایا ’’ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، تو ایک اسماعیلؑ کیا، اس کے حکم پر 100 اسماعیلؑ قربان ہیں۔‘‘
شیطان یہاں سے نامُراد ہو کر واپس مِنیٰ کی جانب پلٹا، لیکن وہاں کا ایمان افروز منظر دیکھ کر اپنے سَر پر خاک ڈالنے اور چہرہ پیٹنے پر مجبور ہو گیا۔
وادیٔ مِنیٰ کے سیاہ پہاڑ، نیلے شفّاف آسمان پر روشن آگ برساتا سورج، فلک پر موجود تسبیح و تہلیل میں مصروف ملائکہ، اللہ کی راہ میں اپنی متاعِ عزیز کی قربانی کا محیّر العقول منظر دیکھنے میں محو تھے۔
مکّے سے آنے والی گرم ہوائیں بھی مِنیٰ کی فضائوں میں موجود عبادت و اطاعت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کی ایک عظیم داستان رقم ہوتے دیکھ رہی تھیں۔
روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو لیٹنے کی ہدایت دی، تو حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے فرمایا ’’ ابّا جان! مَیں پیشانی کے بَل لیٹتا ہوں تاکہ آپؑ کا چہرہ مجھے نظر نہ آئے اور آپؑ بھی اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ لیں تاکہ جب آپؑ مجھے ذبح کر رہے ہوں، تو شفقتِ پدری کے امرِ الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔‘‘
صبر و استقامت کے کوہِ گراں والد نے گوشۂ جگر کے مشورے پر عمل کیا اور جب اسماعیل علیہ السّلام لیٹ گئے، تو تکمیلِ احکامِ خداوندی میں تیز دھار چُھری کو پوری قوّت کے ساتھ لختِ جگر کی گردن پر پھیر دیا۔
باپ، بیٹے کی اس عظیم قربانی پر قدرتِ خداوندی جوش میں آئی اور اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السّلام جنّت کے باغات میں پلے سفید رنگ کے خُوب صورت مینڈھے کو لے کر حاضر ہوئے۔
ابراہیم خلیل اللہ ؑ نے ذبح سے فارغ ہو کر آنکھوں سے پٹّی ہٹائی، تو حیرت زدہ رہ گئے۔
بیٹے کی جگہ ایک حَسین مینڈھا ذبح ہوا پڑا تھا، جب کہ اسماعیل علیہ السّلام قریب کھڑے مُسکرا رہے تھے۔
اسی اثنا میں غیب سے آواز آئی’’اے ابراہیمؑ! تم نے اپنا خواب سچّا کر دِکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
(سورۃ الصٰفٰت 105:37)
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے اس بے مثال جذبۂ ایثار، اطاعت و فرماں برداری، جرأت و استقامت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ’’اور ہم نے (اسماعیلؑ) کی عظیم قربانی پر اُن کا فدیہ دے دیا۔ ‘‘اللہ ربّ العزّت کو اپنے دونوں برگزیدہ اور جلیل القدر بندوں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اسے اطاعت، عبادت اور قربتِ الہٰی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے لیے جاری فرما دیا۔
No comments:
Post a Comment