Arab ke logo me tawahhum Parasti aur Bad shaguni kis kadar Rayez thi?
इस्लाम के आखिरी पैगंबर (रसूल) के आने से पहले दुनिया कैसी थी, उस वक्त कौन सा धर्म और सभ्यता व संस्कृति थी, कैसा शासन व्यवस्था था, वहाँ के लोगो के जिंदगी जीने का क्या तरीका था?
किसी भी कौम का राबता अगर उसके माजी ( भूतपूर्व ) से टूट जाए तो उस कौम का नाम व निशाँ तक बाकी नही रहता, उम्मत ए मुस्लेमा की तारीख क़यामत तक आने वाले मुसलमानो के लिए एक अज़ीम सरमाया है।
کتاب: تاریخِ اسلام
ملک عرب
عنوان: توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی
جنوں ‘ دیووں اور پریوں کے بھی بہت قائل تھے ان کا اعتقاد تھا کہ پریاں انسانی مردوں پر عاشق ہو جاتی ہیں اور جن انسانی عورتوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں جنوں کو وہ غیر مرئی مخلوق سمجھتے‘ مگر ساتھ ہی یقین رکھتے تھے کہ مجردات اور مادیات سے مل کر اولاد پیدا ہو سکتی ہے چنانچہ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ جرہم انسان اور فرشتے کے تناسل سے پیدا ہوا تھا‘ یہی عقیدہ ان کا شہر سبا کی ملکہ بلقیس کی نسبت تھا عمر بن یربوع کی نسبت اس کا خیال تھا کہ آدمی اور غول بیابانی کے تناسل سے پیدا ہوا تھا۔۱
جس اونٹنی کے پانچ بچے ہو چکے ہوں اور پانچواں نر ہو اس کو بحیرہ کہتے اور اس کا کان چھید کر چھوڑ دیتے تھے‘ وہ جہاں چاہے کھاتی چرتی پھرے کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا‘ اگر بھیڑ کے نر بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں پر چڑھا دیتے‘ مادہ ہوتا تو اپنے لیے رکھتے‘ اگر دو بچے نر و مادہ پیدا ہوتے تو اس کی قربانی نہیں کرتے اس کا نام وصیلہ ہوتا تھا جس نر اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے اس کی بڑی عزت کرتے‘ نہ اس پر بوجھ لادتے نہ خود سوار ہوتے اور سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیتے تھے اور اس کا نام حام ہوتا ہے۔
بتوں کے سامنے یا بت خانوں کی ڈیوڑھی پر تین تیر رکھے رہتے تھے‘ ایک پر ’’لا‘‘ دوسرے پر ’’نعم‘‘ لکھا ہوتا‘ اور تیسرا خالی ہوتا‘یہ تیر ایک ترکش میں ہوتے‘ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہوتا تو جاتے اور ترکش میں سے ایک تیر نکالتے اگر ’’لا‘‘ والا تیر نکل آتا تو اس کام سے باز رہتے۔ ’’نعم‘‘ والا نکلتا تو اجازت سمجھتے‘ خالی تیر نکلتا تو پھر وہ دوبارہ تیر نکالتے یہاں تک کہ ’’لا‘‘ و ’’نعم‘‘ میں سے کوئی ایک نکل آتا۔
رتم ایک قسم کا درخت ہے جب کہیں سفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک شاخ میں گرہ لگا جاتے‘ سفر سے واپس آ کر دیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی‘ اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے تو سمجھتے کہ ہماری بیوی پاک دامن رہی ہے‘اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کر لیتے کہ عورت نے ہماری غیر موجودگی میں ضرور دکاری کی ہے۔
جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کی اونٹنی کو اس کی قبر کے پاس باندھ کر اس کی آنکھیں بند کر دیتے یہاں تک کہ وہ مر جاتی‘ یا اس اونٹنی کے سر کو اس کی پشت کی جانب کھینچ کر سینے کے قریب لا کر باندھ دیتے اور اسی حالت میں چھوڑ دیتے یہاں تک کہ وہ مر جاتی‘ یہ کام ان کے عقیدہ کے موافق اس لیے کیا جاتا تھا کے مرنے کے بعد جب یہ شخص قبر سے اٹھے گا تو اس اونٹنی پر سوار ہو کر اٹھے گا۔
ان کا عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی بستی میں جائے اور وہاں کی وبا کا اس کو خوف ہو تو چاہیئے کہ اس بستی کے دروازے پر کھڑا ہو کر خوب زور سے گدھے کی سی آوازیں نکالے تاکہ وباء سے محفوظ رہے۔
جب کسی کے پاس ایک ہزار سے زیادہ اونٹ ہو جاتے تو ان میں جو سانڈ ہوتا اس کی دونوں آنکھیں نکال لیتے تاکہ تمام اونٹ نظر بد سے محفوظ رہیں ‘ جب کسی اونٹ کو داء العر یعنی خارش کا مرض ہوتا تو مریض کو نہیں بلکہ تندرست اونٹ کو داغ دیتے اور یقین رکھتے کہ اس کے اثر سے بیمار اونٹ اچھا ہو جائے گا‘ نابغہ کا شعر ہے۔
حملت علی ذنبہ و ترکتہ
کذی العر یکوی غیرہ وھو راتع
’’تو نے غیر کو تو چھوڑ دیا اور اس کا گناہ میرے اوپر اس طرح لاد دیا جیسے کہ عر کی بیماری کے مریض اونٹ کو چھوڑ کر اس کے عوض تندرست اونٹ کو جو مزے سے چر رہا ہو داغ دیا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح جب کوئی گائے پانی نہ پیتی تو بیلوں کو مارتے‘ ان کا عقیدہ تھا کہ جن بیلوں پر سوار ہو جاتا ہے اور گا یوں کو پانی پینے سے روکتا ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ اگر مقتول کا بدلہ قاتل سے نہ لیا تو مقتول کی کھوپڑی میں سے ایک پرندہ جس کا نام ہامہ ہے نکلتا ہے اور جب تک انتقام نہ لے لیا جائے برابر چیختا پھرتا ہے کہ مجھے پانی پلائو ‘ پانی پلائو۔ان کا عقیدہ تھا کہ بعض انسانوں کے پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے‘ جب وہ سانپ بھوکا ہوتا ہے تو پسلی کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچ نوچ کر کھاتا ہے۔
ان کا عقیدہ تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے مر جایا کرتے ہوں اور عورت کسی شریف متمول آدمی کی لاش کو اپنے پائوں سے خوب کچلے تو پھر اس کے بچے جینے لگتے ہیں ۔۱
ان کا عقیدہ تھا کہ جن خرگوش سے بہت ڈرتا ہے اس لیے جنوں سے محفوظ رہنے کے لیے خرگوش کی ہڈی بطور تعویذ کے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے۔۲
کیا کوئی مومن لڑکی اپنے گھر والوں کے خلاف اپنی مرضی سے شادى کر سکتی ہے ؟؟
No comments:
Post a Comment