Islam ke Aane Se pahle Arab me kaise kaise Shayer they?
Arab ke logo me Shayri ka junoon kaisa tha?
इस्लाम के आखिरी पैगंबर (रसूल) के आने से पहले दुनिया कैसी थी, उस वक्त कौन सा धर्म और सभ्यता व संस्कृति थी, कैसा शासन व्यवस्था था, वहाँ के लोगो के जिंदगी जीने का क्या तरीका था?
किसी भी कौम का राबता अगर उसके माजी ( भूतपूर्व ) से टूट जाए तो उस कौम का नाम व निशाँ तक बाकी नही रहता, उम्मत ए मुस्लेमा की तारीख क़यामत तक आने वाले मुसलमानो के लिए एक अज़ीम सरमाया है।
کتاب: تاریخِ اسلام
ملک عرب
عنوان: شاعری
عرب جاہلیت میں ایسا کوئی شخص نہ تھا جس کو شاعری کا سلیقہ نہ ہو‘ مرد عورت بچے‘ بوڑھے‘ جوان سب کے سب تھوڑے بہت شاعر ضرور ہوتے تھے‘ گویا وہ ماں کے پیٹ سے شاعری اور فصاحت لے کر پیدا ہوتے تھے ان کی شاعری عموماً فی البدیہہ ہوتی تھی‘ سوچنے‘ غور کرنے اور مضمون تلاش کرنے کی ان کو ضرورت نہ تھی‘ ان کو اپنی فصاحت اور قادر الکلامی پر اس قدر غرور تھا کہ وہ ساری دنیا کو اپنے سامنے گونگا جانتے تھے‘ مگر قرآن کریم نے نازل ہو کر اہل عرب کے غرور فصاحت و بلاغت کی ایسی کمر توڑی اور ان تمام فصیح و قادر الکلام اہل عرب کو قرآن کریم کے مقابلہ پر ایسا نیچا دیکھنا پڑا کہ رفتہ رفتہ اہل عرب کا غرور فصاحت جاتا رہا اور سب کو کلام الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
سالانہ میلوں ‘ تقربیوں اور حج کے موقعوں پر جس شخص کا قصیدہ مشاعرہ میں سب سے زیادہ بہتر قرار دیا جاتا تھا وہ فوراً سب سے زیادہ عزت و عظمت کا وارث بن جاتا تھا‘شاعروں کی عزت ان کے نزدیک بہادر سپہ سالاروں اور بادشاہیوں کے مساوی بلکہ ان سے بھی زیادہ ہوتی تھی‘ اور حقیقت یہ ہے کہ قبیلوں کو لڑا دینا‘ قبیلوں کو غیر معمولی بہادر بنا دینا‘ لڑائی کو جاری رکھنا یا اس کو ختم کرا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا‘ بہترین قصائد خانہ کعبہ پر لکھ کر لٹکا دئیے جاتے تھے‘ چنانچہ ایسے سات قصیدے جوسبع معلقات کے نام سے مشہور ہیں امرئا القیس بن حجر کندی‘ زہیر ابن ابی سلمیٰ مزنی‘ لبید بن ربیعہ‘ عمر بن کلثوم‘ عنترہ عبسی وغیرہ کے مصنفہ تھے۔
No comments:
Post a Comment