’’ شب برأت ‘‘ کی حقیقت
قرآن و حدیث کی روشنی میں
پوسٹ نمبر :2
شب براءت کو یہ فرقہ پرست قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بقول یہ لیلتہ القدر ہے، اس رات روحیں اور فرشتے زمین کی طرف نازل ہوتے ہیں اور اس رات مخلوق کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس بارے میں سورہ القدر کا مطالعہ کرتے ہیں :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ⭕ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ⭕لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ⭕ڼ تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ ⭕ سَلٰمٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ ⭕
’’ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا
ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح القدس اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے، ہر امر کے لیے۔ سراسر سلامتی ہے یہ (رات طلوع) فجر تک ۔‘‘
’’ ہم نے اسے کو شب قدر میں نازل کیا‘‘یہاں اللہ تعالیٰ قرآن کے نزول کا ذکر فرما رہا ہے۔ سورہ بقرہ میں بتایا گیا :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ
(البقرہ :185 )
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘‘
واضح ہوا کہ یہ ماہ رمضان کا معاملہ ہے جبکہ خود ساختہ شب برأت ماہ شعبان میں منائی جاتی ہے۔ اسی طرح سورہ دخان کی آیت بھی پیش کی جاتی ہے :
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ ⭕فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيْمٍ⭕
’’کہ ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل فرمایا بیشک ہم تو ڈرانے والے ہیں ۔ اسی رات میں تمام حکمت کے کاموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔‘‘
یہاں بھی معاملہ قرآن مجید کے نزول کا ہے ، یعنی یہ وہی رات ہے جو ماہ رمضان میں آتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان طاق راتوں میں اللہ کی کثرت سے عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ کس طرح اسے ایک خود ساختہ رات سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی۔
قرآن میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس رات حکمت کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لیکن فرقہ پرست علما نے لیلتہ القدر کے بارے میں بیان شدہ اس بات کو اپنی من گھڑت شب برأت کی طرف پھیر دیا۔ یعنی جانتے سب کچھ ہیں لیکن فرقے کے عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ گھڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اسی طرح اسی رات میں آسمان سے دنیا کی طرف فرشتے اور جبریل کے بھیجے جانے کا بھی ذکر ہے لیکن اسے بھی اس من گھڑت رات سے وابستہ کردیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس رات مرنے والوں کی روحیں اس دنیا اور اپنے گھروں کی طرف آتی ہیں۔ یہ قرآن و حدیث کا کھلا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ ⭕ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ
(المومنون 99/100 )
’’ یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں،
( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہرگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘
فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ
(الزمر: 42)
”اور روک لیتا ہے اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہو جائے ‘‘۔
انھم الیھم لا یرجعون.....
(یس:31)
’’وہ (مرنے والے)ان (دنیا والوں)کی طرف (کبھی) نہیں لوٹ سکتے"
ثم انکم یوم القیمة تبعثون..... (المومنون:12)
’’ پھر تم قیامت کے دن ہی اٹھائے جاؤ گے "
۔ ۔ ۔ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَيْرٌ يَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَهُ اللَّهُ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ
( موطا امام مالک ، کتاب الجنائز، باب: جامع الجنائز)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک اڑنے والے جسم میں جنت کے درخت سےوابستہ رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف اٹھائے جانے والے دن‘‘ ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ مرنے والے کی روح قیامت سے پہلے اس دنیا میں نہیں آئے گی، یعنی ان کا بیان کردہ عقیدہ جھوٹا اور خلاف قرآن ہے۔ اس کے لئے یہ لوگ سور القدر کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں :
تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا
کہ اس رات میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں۔
یہاں جو ’’ روح ‘‘ کہا گیا ہے یہ جبریل امین کے لئے ہے، جیسا کہ قرآن کی
سور ہ النحل میں ہے کہ
قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ
( نحل:102 )
’’کہہ دیجیے کہ اس قرآن کو روح القدس ( جبریل )نے تمہارے رب کی جانب سے حق کے ساتھ اتارا ہے‘‘۔
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ( الشعراء:193 )
’’اس ( قرآن )کو امانت دار فرشتہ
(جبریل )لے کر اترا ہے‘‘۔
يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ صَفًّا
(النباء : 38 )
’’جس دن روح ( جبریل )اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے‘‘۔
واضح ہوا کہ یہاں فرشتوں اور خاص فرشتے جبریل کے نازل ہونے کا ذکر ہے ، فوت شدہ افراد کی روحیں نازل ہونے کا نہیں۔
( جاری ہے )