السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
سوال:محترم فضيلة الشيخ حافظ ابوزهير محمد یوسف بٹ ریاضی صاحب
میرا ایک سوال کہ کیا شوال کے روزوں میں ترتیب ضروری ہے یا بغیر ترتیب کے بھی شوال کے چھ روزے رکھنے جائز ہے از راہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں عین نوازش ہوگی۔
سائل: فاطمہ بنت عبد اللہ پاکستانی انگلینڈ۔
الجواب بعون رب العباد:
******************
تحریر:حافظ ابوزھیر محمد یوسف بٹ ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
*********************
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
رمضان کے بعد شوال کے چھ دن کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے
اور شوال کے چھ روزے رکھنا سنت نبوی ہے جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور اسکے بعد شوال کے چھ دن کے روزے رکھے گویا کہ اسنے پورے سال یا عمر بھر کے روزے رکھے۔
جیساکہ حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔[رواه مسلم في (الصيام) باب استحباب صوم ستة أيام من شوال حدیث نمبر:1164]۔
اور شوال کے چھ دن کے روزے رکھنا سنت ہے واجب نہیں اور سنت میں ترتیب واجب نہیں ہوتا اسلئے نفل روزہ ، مستحب روزہ رکھنے میں ترتیب شرط نہیں ہے لھذا شوال کے چھ روزے رکھنا بغیر ترتیب رکھنا بھی جائز ہے۔
اورحدیث میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے پہر شوال کے چھ روزے رکھے گویاکہ اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔
لیکن اس میں نبی آخر الزماں علیہ السلام نے ترتیب کا ذکر نہیں فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ شوال کے روزے میں ترتیب شرط نہیں ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شوال کے چھ روزے رکھنا حدیث نبوی سے ہے اسلئے شوال کے چھ دن کے روزے رکھنا سنت ہے لیکن اس میں ترتیب کا ذکر نہیں ہے اسلئے چاھئے شوال کے روزے ترتیب سے رکھے یا بغیر ترتیب کے رکھے دونوں ہی طرح رکھنا جائز ہے اور شوال کے چھ روزوں میں ترتیب شرط نہیں ہے۔[فتاوى إسلامية جمع وترتيب لفضيلة الشيخ محمد المسند ج2 ص 165، مجلة الفرقان العدد 106 لشهر شوال عام 1419هـ، مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 391/15]۔
اسے ثابت ہوا کہ شوال کے چھ روزوں میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
بعض علماء شوال کے چھ روزے رکھنے کو ترتیب کے قائل ہیں:
امام شافعی اور عبد اللہ بن مبارک رحمهما الله اس چیز کے قائل ہیں کہ شوال کے چھ روزے رکھنے شوال کے شروع میں ترتیب سے رکھنے مستحب ہیں۔
انکی دلیل حدیث ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ہے:
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عید الفطر کے بعد ترتیب سے شوال کے چھ دن کے روزے رکھے گویا کہ اسنے پورے سال کے روزے رکھے۔[الأوسط للإمام الطبراني رحمه الله7607 ،
علامہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے: اللطائف ص نمبر:390 ، امام ھیثمی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ
لم اعرفه ، المجمع425/3].
اسے ثابت ہوا کہ مذکورہ حدیث ضعیف ہے اور ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہے۔
اس رائے کو بعض علماء حنابل نے اختیار کیا ہے ، اور علامہ ابن مفلح رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں کہ شوال کے چھ دن کے روزے ترتیب سے رکھے جائیں۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شوال کے چھ دن کے روزے شوال کے شروع میں ترتیب سے رکھنا مستحب یے اور جو شخص شوال میں بغیر ترتیب کے رکھے وہ بھی جائز ہے۔[المجموع للنووي227/6].
امام معمر ، عبد الرزاق، امام عطا ، بہت سے اہل علم اس چیز کے قائل ہیں کہ شوال کے دوسرے دن سے کسی بھی وقت رکھنا مستحب ہے۔
امام احمد بن حنبل اور امام وکیع کی رائے ہے کہ شوال میں ان چھ دن کے روزوں کو رکھنا کسی بھی وقت سنت ہے چاھئے ترتیب سے رکھے یا الگ الگ ، انہوں نے اسی رائے کو اصح قرار دیا ہے۔[الفروع85/5].
خلاصه كلام:شوال کے مہینے میں شوال کے چھ دن کے روزے رکھنا سنت ہے اس میں ترتیب وغیرہ واجب یا ضروری نہیں ہے ، اور اسی رائے کو اہل علم نے راجح قرار دیا ہے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.